مولانا طارق جمیل اور جھوٹی احادیث - copy

عاصم ملک نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏دسمبر 31, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عاصم ملک

    عاصم ملک -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 12, 2008
    پیغامات:
    50
    مولانا کوئی محدث نہیں ہیں وہ واعظ ہیں،اور واعظین سے اکثر غلطیاں ہوجاتی ہیں،ہمیں سلف میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں،جیسکہ ابن جوزی رحمہ اللہ جو کہ حدیث قبول کرنے کے معاملے میں بھت متشدد ہیں حتی کے صحیحین(بخاری ومسلم)کی احادیث پر اعتراضات کئے اور کچھ حدیثوں کو ضعیف اور کچھ کو موضوع تک کہہ دیا۔
    مگر خود اپنی کتابوں میں بکثرت منکر اور موضوع احادیث لائیں ہیں اس لئے کہ وہ ایک واعظ تھے تو علماء نے ان کی غلطیوں کو بیان کیا ہے مگر کسی نے ان کو گمراہ اور مشرک نہیں کہا،
    تو ٹھیک ہے کہ آپ بھی مولانا سے اختلاف کریں مگر انہیں یاکسی بھی عالم کو جو دین کا کام کررہے ہیں ان کو گالیاں نہ دیں،
    اور اس قاعدہ کو چھوڑ دیں کہ سوائے اہل حدیث کے ساری امت مشرک اور کافر ہے بس یہی شرذمۃ القلیل ہی مؤمن ہے۔
    اللہ کرئے کہ آپ مجتھدین عظام کہ اونچی عقل میں یہ چھوٹی سی بات آجائے،
     
  2. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    کچھ حدیثوں کو ضعیف اور کچھ کو موضوع تک کہہ دیا
    کیا آپ کوئی مستند حوالہ دینا پسند فرمائیں گے؟
    کیونکہ جو دکھ آپ کو مولانا طارق جمیل کی علمی گرفت پر ہو رہا ہے ممکن ہے ابن جوزی رحمۃ اللہ کے کسی شیدائی کو بھی ایسا ہی دکھ ہو ، خاص طور پر اس صورت میں جبکہ ابن جوزی رحمۃ اللہ کے ذمہ ایسی بات لگا دی جائے جو انہوں نے کہی ہی نہ ہو؟
    کم سے کم میرے ناقص علم سے تو ایسا کوئی قول نظر سے نہیں گزرا جس میں ابن جوزی نے صحیحین کی کچھ حدیثوں کو ضعیف اور کچھ کو موضوع تک کہہ دیا ہو !!
    صحیحین کی احادیث کی صحت پر یقیناً امت کا اجماع ہے۔ آپ ذیل کا تھریڈ پڑھیں :
    صحیح‌ بخاری کی احادیث کی صحت ۔۔۔؟!
    اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ صحیحین کی احادیث کے متن پر کسی ایک بھی عالم/امام/محدث/ دینی شخصیت کا اعتراض نہیں ہے ، بلکہ جس چیز پر کسی نے کچھ اعتراض کیا ہے تو وہ کچھ احادیث کی سند پر ہے !
    سند اور متن پر اعتراض کی حقیقت جو صاحبان نہیں جانتے ، وہ مختصراً اتنا سمجھ لیں کہ :
    سند ، راویوں کے ناموں کو کہا جاتا ہے۔ صحیحین کی کچھ احادیث کی سند میں موجود راویوں کی عدالت پر اگرچہ کچھ محدثین نے اعتراض کیا ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔ ان راویوں کے ذریعے امام بخاری اور امام مسلم نے جو دو چار احادیث روایت کی ہیں ، انہی احادیث کے متن کو کچھ دیگر صحیح راویوں کے ذریعے بھی صحیحین میں بیان کیا ہے ، یا پھر یہی احادیث کچھ اور صحیح راویوں سے بھی "صحیح حدیث" کے طور پر دیگر کتبِ حدیث میں ذکر کی گئی ہیں۔
    لہذا "متن" کے لحاظ سے جتنی بھی احادیث صحیحین میں بیان ہوئی ہیں ، ان کی صحت پر امت مسلمہ کے معتبر علماء و محدثین کا اجماع ہے !

    دوسری بات یہ کہ جب آپ خود اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ:
    علماء نے ان (ابن جوزی علیہ الرحمۃ) کی غلطیوں کو بیان کیا ہے
    تو پھر اس بات کو بھی قبول کیجئے کہ مولانا طارق جمیل کی علمی غلطیوں کو بیان کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے!

    براہ مہربانی یاد رکھیں کہ یہاں بات صرف علمی غلطی یا تحقیق کی غلطی کی ہو رہی ہے ، ذاتی یا شخصی خطاؤں کی نہیں !
    ویسے بھی یہاں اردو مجلس کے اصولوں کے تحت صاف صاف یوں واضح کیا گیا ہے :
    شخصیات کی عملی کوتاہیوں سے صرفِ نظر تو کرنا چاہئے لیکن کسی کی علمی و نظریاتی لغزشوں کو قطعاً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ۔۔۔ کسی کے فضائل و مناقب اور علمی وجاہت سے متاثر ہونے والا شخص ، اس کی علمی و فکری لغزشوں کو بھی عین حق سمجھ کر اپنا لیتا ہے۔ اس لیے ایسی چیزوں کی نشاندہی ، ایک علمی امانت کو آگے منتقل کرنے کے مترادف ہے !
     
  3. زاہد محمود

    زاہد محمود -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 5, 2007
    پیغامات:
    179
    اسلامُ علیکم! ہمیں فقہی مسائل میں نہیں پڑھنا چاہیے کیونکہ اس میں وقت برباد کرنے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں عقائد پر محنت کرنی چاہیے کہ عقیدے میں شرک نہ رہے اور نہ کفر ۔
     
  4. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    :00039: ؟
    فقہی مسائل کو نہیں پڑھنا چاہئیے ؟ یا کہ ان میں نہیں پڑنا چاہئیے ؟
     
  5. اھل حدیث

    اھل حدیث -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 6, 2008
    پیغامات:
    370
    بھائی اگر فقہی مسائل میں پڑنے سے وقت برباد ہوتا ہے تو حنفیوں کے مدارس میں 7 سال فقہ اور 1 سال حدیث کا دورہ کیوں پڑھایا جاتا ہے؟؟ اس کا مطلب 7 سال برباد ہی کرتے ہیں۔۔۔ اور کریں بھی کیوں نا اس وقت کو برباد کیئے بغیر یہ مقلد کہاں سے رہیں گے۔۔۔۔!!!اسی لیے مولانا طارق جمیل صاحب کو مقلد رہ کر وقت برباد کرنا نیہں چاہیے۔۔۔ بس قرآن اور سنت (جو صحیح حدیث سے ثابت ہو) کی تبلیغ کرنی چاہیے ہے۔۔۔۔!!!
     
  6. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    السلام علیکم بھائی عاصم ملک،

    آپ باذوق بھائی کے سوالات کے جوابات دیں۔

    آپکے جوابات کا ہم سب کو انتظار رہیگا؟
     
  7. عاصم ملک

    عاصم ملک -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 12, 2008
    پیغامات:
    50
    وعلیکم السلام ابوعبداللہ صاحب۔
    انشاءاللہ میرے پاس جواب موجود ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ جواب مکمل طور پر مدلل ہوں اور فی الحال میرے پاس کتب خانے تک رسائی نہیں ہے اورمصروفیات بھی زیادہ ہیں اس لئے تاخیر ہورہی ہے انشاءاللہ میں جلد جوابات آپ کی خدمت میں پیش کروں گا،
     
  8. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    جی ہاں جوابات مدلل ہی ہونے چاہئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اورساتھ ساتھ صحیح بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
    کیونکہ دلیل تو غلط بھی ہوسکتی ہے اور صحیح بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مثلاً
    میں نے ایک دفعہ 1990 میں اپنے والد صاحب کے چچا زاد بھائی جو کہ ایک عالم ہے ،سے پوچھا تھا کہ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت ہیں ؟
    اس نے جواب دیا کہ حدیث میں ہیں، لیکن ہمارے امام (ابوحنیفہ رح) نے نہیں پڑھی ہیں ، لہٰذا ہم بھی نہیں پڑھتے ہیں ۔
    اس کے جواب کا پہلا حصہ ( کہ حدیث میں ہے ) صحیح جبکہ دوسراحصہ (کہ ہمارے امام صاحب کی وجہ سے ہم بھی نہیں پڑھتے) غلط ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

     
  9. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بھائی عاصم آپ آرام سے مطمئن ہو کر کسی بھی وقت جوابات دیکھیں۔
    یہاں پر ہم کوئی مقابلہ نہیں کررہے ہیں نہ ہی ہم لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تلے ہیں۔
     
  10. عاصم ملک

    عاصم ملک -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 12, 2008
    پیغامات:
    50
    آفریدی صاحب میں اس بات کاتو ذمہ نہیں اٹھاتا کہ وہ جوابات آپکے نزدیک بھی صحیح ہی ہونگے ھاں حقیقت میں انشاءاللہ درست ہی ہونگے۔

    جناب اگر آپکے چچازاد بھائی عالم ہیں توایساجواب نہیں دیں سکتے اور اگر ایسا جواب دیا ہے تو ان کا عالم ہونامشکوک ہے،
    ہم امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی کی تحقیقات میں ان کی تقلید کرتے ہیں نہ کہ انکے افعال اور اعمال میں،
     
  11. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    محترم اور قابل عزت بھائی۔۔
    کیا آپ ذرا اس بات کی وضاحت کرسکتےہیں۔
    بھائی ظاہرہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جو علم سیکھا تھا اس پر عمل بھی کیا ہوگا کیوں کہ امام صاحب جیسی ہستی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنے علم پر عمل نہیں کرتے تھے۔
    بھائی تو پھر افعال اور اعمال میں ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاسکتی حالانکہ تحقیق غلط بھی ہوسکتی ہے جبکہ انہوں نے جو اعمال (مثال کے طور پر عبادت اور دیگر معاملات) کیے ہوں گے ان کے شاگردوں نے وہ بھی تو نقل کیے ہوں گے۔
     
  12. عاصم ملک

    عاصم ملک -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 12, 2008
    پیغامات:
    50
    شاہ صاحب آپ یقینًامیری بات کو اچھی سمجھ گئے ہیں پھر بھی مزید وضاحت کر دیتا ہوں،
    تقلید کی تعریف اصولیین نے یہ کی ہے کہ’’العمل بقول امام مجتھد من غیر مطالبۃ دلیل‘‘ اس تعریف کے پیش نظر بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بلادلیل کسی کی بات مان لینا،اور اس کے قول کو حجت سمجھنا تو شرک ہے،
    لیکن تقلید کی جو تعریف اوپر کی گئی ہے اسکی رو سے یہ اعتراض خودبخود ختم ہوجاتا ہے،کیونکہ مجتھد کا قول اسکو مُطاع یا شارع سمجھ کر اختیار نہیں کیا جارھا،بلکہ شارح سمجھ کر اس کی تشریح پر اعتماد کیا جارھاہے۔
    اس کی واضح دلیل یہ ھیکہ قرآن وسنت کے جو احکام قطعی الثبوت والدلالۃ ہیں ان میں ہم کسی امام مجتھھد کی طرف رجوع نہیں کرتے،بلکہ مجتھد کی طرف صرف ان معاملات میں کیا جاتاہے جہاں اجمال،ابہام،یاتعارض کی بناء پر قرآن وسنت کی تشریح میں دشواری پیش آجاتی ہے،
    اور تقلید کی تعریف میں’’من غیر مطالبۃ دلیل‘‘کے الفاظ سے یہ مغالطہ نہ ہو کہ مجتھد کی بالذات اطاعت کی جارہی ہے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مجتھد کی طرف رجوع کیا ہی اس لئے جاتاہے کہ ہمیں اس پر اعتماد ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنے قول کی کوئی مضبوط قرآنی یا حدیثی دلیل موجود ہے،البتہ ہم ان سے دلیل کے بیان کامطالبہ اس لئے نہیں کرتے کہ دلائل میں محاکمہ کرنے کے لئے جو قوت اجتھادیہ درکار ہے وہ ہم میں موجود نہیں،اس لئے ہم مجتھد کے قول کو اختیار کرنے کے لئے اس کی دلیل اچھی طرح سمجھ لینے کو شرط قرار نہیں دیتے چنانچہ بھت سے معاملات میں مجتھد کی دلیل ہماری سمجھ میں آجاتی ہے اور بھت سے معاملات میں نہیں آتی،یہیں سے غیر مقلدین کا یہ اعتراض بھی دور ہوجاتاہے کہ جب تقلید بےدلیل عمل کا نام ہے تو پھر مقلدین اپنی تصنیفات اور اپنی تقریروں میں دلائل سے بحث کیوں کرتے ہیں؟اور جواب کا حاصل یہ ہوا کہ مجتھد کے دلائل کاعلم تقلید کے منافی نہیں،البتہ مطالبہ دلیل پر امام کی پیروی کو موقوف رکھنا تقلید کے منافی ہے،لھذا دلائل کا علم حاصل کرنے میں جتنی کوشش کی جائے اس سے تقلید کی مخالفت لازم نہیں آتی،
     
  13. Abu Abdullah

    Abu Abdullah -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 7, 2007
    پیغامات:
    934
    السلام علیکم بھائی عاصم،

    کچھ وضاحتیں درکار ہے امید ہے آپ تشریح کرئینگے۔

    قطعی الثبوت والدلالۃ کی تعریف: -

    مجتھد کی تعریف اور شروط اجتھاد: -

    کیا اجتھاد صرف آئمہ اربعہ کا ہی لیا جائیگا اور پھر اجتھاد کے درواذے بندہیں یا اج بھی اجتھاد کےدرواذے کھلے ہیں؟

    مجتھد کا قول اسکو مُطاع یا شارع سمجھ کر اختیار نہیں کیا جارھا،بلکہ شارح سمجھ کر اس کی تشریح پر اعتماد کیا جارھاہے۔

    آپکے اوپر والے سینٹنس کافرق واضح کریں : -

    جزاک اللہ خیرا
     
  14. عاصم ملک

    عاصم ملک -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 12, 2008
    پیغامات:
    50
    قطعی الثبوت والدلالۃ کی تعریف:قطعی الثبوت کہتے ہیں ایسے حکم کو کہ جس کا ثبوت یعنی اثبات قرآن یا حدیث متواترہ سے ہو،کہ اسکا انکار کرنے والا کافر ہوجاتاہے،
    قطعی الدلالۃ کا مطلب ہیکہ اس حکم میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو یعنی وہ کلام غیر کے احتمال سے خالی ہو،

    مجتھد کا قول اسکو مُطاع یا شارع سمجھ کر اختیار نہیں کیا جارھا،بلکہ شارح سمجھ کر اس کی تشریح پر اعتماد کیا جارھاہے،
    مطاع،جس کی اطاعت کی جائے۔شارع،صاحب شریعت یعنی نبی یارسول،شارح،تشریح کرنیوالا،
    یعنی مجتھد کے قول کو اس لئے ہم تسلیم نہیں کررہے کہ وہ مجھتد کوئی نبی ہے یا اس کا اتباع لازم ہے بحثیت صاحب شریعت کے،
    بلکے ہم اس کی بات کو مان رہے ہیں اس طور کہ وہ مجتھد نبی کے اقوال کی تشریح کرنے والا ہے۔

    کیا اجتھاد صرف آئمہ اربعہ کا ہی لیا جائیگا اور پھر اجتھاد کے درواذے بندہیں یا اج بھی اجتھاد کےدرواذے کھلے ہیں؟
    نہیں جناب مجتھدین صرف چار نہیں ہیں بھت سارے گذرے ہیں مثلا،امام لیث،امام سفیان ثوری،رحمھمااللہ تعالٰی وغیرہ،ان کی بھی تقلید کی جاسکتی ہے مگر مسئلہ یہ کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کے مسالک کی تفصیل اور جزئیات موجود نہیں ہیں،ائمہ اربعہ کے علاوہ جتنے بھی مجتھدین کرام تھے ان کی آراء مکمل طور پر موجود نہیں،تو جو مسالک مکمل طور پر مدون ہیں وہ صرف ائمہ اربعہ کے ہی ہیں،
    اور اگر شرائط موجود ہوں تو آج کے زمانے میں بھی اجتھاد ہو سکتا ہے،

    باقی رھا کہ مجتھد کسے کہتے ہیں اور شرائط اجتھاد تو وہ حاضر ہیں مگر عربی میں ہیں،میرے پاس فی الحال اردو میں موجود نہیں ہیں،
     
  15. عاصم ملک

    عاصم ملک -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 12, 2008
    پیغامات:
    50
    قال الشهرستانى في الملل والنحل شرائط الاجتهاد خمسة
    ’’ معرفة صدر صالح من اللغة بحيث يمكنه فهم لغات العرب والتمييز بين الألفاظ الوضعية والمستعارة والنص والظاهر والعام والخاص والمطلق والمقيد والمجمل والمفصل وفحوى الخطاب ومفهوم الكلام وما يدل على مفهومه بالمطابقة وما يدل بالتضمن وما يدل بالاستتباع فإن هذه المعرفة كالآلة التي بها يحصل الشيء ومن لم يحكم الآلة والأداة لم يصل إلى تمام الصيغة ثم معرفة تفسير القرآن خصوصا ما يتعلق بالأحكام وما ورد من الأخبار في معاني الآيات وكما رأى من الصحابة المعتبرين كيف سلكوا مناهجها وأي معنى فهموا من مدارجها ولو جهل تفسير سائر الآيات التي تتعلق بالمواعظ والقصص لم يضره ذلك في الاجتهاد فإن من الصحابة من كان لا يدري تلك المواعظ ولم يتعلم بعد جميع القرآن وكان من أهل الاجتهاد،
    ثم معرفة الأخبار بمتونها وأسانيدها والإحاطة بأحوال النقلة والرواة عدو لها وثقاتها ومطعونها ومردودها والإحاطة بالوقائع الخاصة فيها وما هو عام ورد في حادثة خاصة وما هو خاص عمم في الكل حكمه،
    ثم الفرق بين الواجب والندب والإباحة والحظر والكراهة حتى لا يشذ عنه وجه من هذه الوجوه ولا يختلط عليه باب بباب ،
    ثم معرفة مواقع إجماع الصحابة والتابعين من السلف الصالحين حتى لا يقع اجتهاد في مخالفة الإجماع،
    ثم التهدي إلى مواضع الأقيسة وكيفية النظر والتردد فيها من طلب أصل أولا ثم طلب معنى مخيل يستنبط منه فيعلق الحكم عليه أو شبه يغلب على الظن فيلحق الحكم به فهذه خمس شرائط لا بد من اعتبارها حتى يكون المجتهد مجتهدا واجب الإتباع والتقليد في حق العامي فإذا حصل المجتهد هذه المعارف ساغ له الاجتهاد ويكون الحكم الذي أدى إليه اجتهاده سائغا في الفرع ووجب على العامي تقليده والأخذ بفتواه انتهى عند الرافعي والنووي،
    وقال الرافعي وتبعه النووي في الروضة إنما تحصل أهلية الاجتهاد لمن علم أمورا
    أحدها كتاب الله تعالى ولا يشترط العلم بجميعه بل مما يتعلق بالأحكام ولا يشترط حفظه عن ظهر قلب،
    الثاني سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم لا جميعها بل بما يتعلق منها بالأحكام ويشترط أن يعرف منها الخاص والعام والمطلق والمقيد والمجمل والمبين والناسخ والمنسوخ ومن السنة المتواتر والآحاد والمرسل والمتصل وحال الرواة جرحا وتعديلا،
    الثالث أقاويل علماء الصحابة ومن بعدهم إجماعا واختلافا
    الرابع القياس فيعرف جلية وخفيه وتميز الصحيح من الفاسد
    الخامس لسان العربية لغة وإعرابا لأن الشرع ورد بالعربية وبهذه الجهة يعرف عموم اللفظ وخصوصه وإطلاقه وتقييده وإجماله وبيانه،
     
  16. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    السلام علیکم !
    بھائی ! برا نہ مانیں تو بتا دیں کہ کیا کسی بھی عالم/مجتہد/محدث کی تحقیق سو فیصد 'صحیح' ہو سکتی ہے کہ ان کی تقلید کی جائے؟
    ظاہر ہے کہ آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ یعنی کہ "تحقیق" میں ہر امام سے غلطی ہوئی ہے۔ جیسا کہ خود امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نامور شاگردان امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے دو تہائی مسائل میں اپنے استاد امام محترم علیہ الرحمۃ کی تحقیق سے اختلاف کیا ہے۔
    دوسری بات یہ کہ ۔۔۔۔
    جب آپ "تحقیق میں تقلید" کی بات کرتے ہیں تو پھر آپ یہ بتائیے کہ "اجماع" کا کیا درجہ ہے آپ کے نزدیک؟
    ظاہر ہے قرآن و حدیث کے بعد آپ کے نزدیک (ہم سب کی طرح) "اجماع" یقیناً حجت ہوگا۔
    تو جب امام ابوحنیفہ کے ہمعصر اور متاخرین علماء/ائمہ/محدثین "اجماع" کے ذریعے امام محترم کی کسی تحقیق کو غلط ثابت کر دیں (جیسا کہ خود ان کے شاگردان نے دو تہائی مسائل کو غلط ثابت کیا ہے) تو آپ "اجماع" کی بات مانیں گے یا حقیقت جان کر بھی امام صاحب کی نادرست تحقیق کی تقلید کریں گے؟؟

    دیکھیں برادرِ محترم ! یہاں دو باتیں ہیں:
    اول تو یہ کہ آپ نے تقلید کی تعریف بغیر کسی حوالے کے ، کی ہے۔ کم سے کم میری نظر سے تو ایسی کوئی تعریف نہیں گزری۔ بےشک ایسی تعریف کتب اصول فقہ میں موجود ہو سکتی ہے۔ لہذا بہتر ہوگا کہ آپ متعلقہ کتاب کا حوالہ عنایت فرمائیں۔ شکریہ۔

    دوسری بات ۔۔۔ یہ جو آپ نے لکھا :
    اس تعریف کے پیش نظر بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ بلادلیل کسی کی بات مان لینا،اور اس کے قول کو حجت سمجھنا تو شرک ہے
    مجھے تو نہیں معلوم کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ایسا کہنا شروع کر دیا۔ آپ ہی بتا دیں تو بہتر رہے گا۔
    جبکہ "تقلید" کی تعریف ، احناف کی معتبر کتب مسلم الثبوت اور فواتح الرحموت فی شرح مسلم الثبوت میں یوں درج ہے:
    فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر کے خود چیک کر لیں۔

    تیسری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔
    مجھے علم نہیں کہ دلیل کا "مطالبہ" نہ کرنے والی بات "تقلید" کی کس اصولی تعریف میں درج ہے؟
    امید ہے کہ آپ بہتر اور درست حوالہ فراہم کریں گے۔

    سرِ دست میں وہ قول پیش کر رہا ہوں جس کے ترجمہ میں زبردستی لفظ "مطالبہ" ٹھونسا گیا ہے۔
    جسٹس تقی عثمانی کی کتاب "تقلید کی شرعی حیثیت" یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔ صفحہ:14 دیکھئے۔

    محترم تقی عثمانی لکھتے ہیں :
    اب آپ اصل کتاب "تیسیر التحریر" یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر کے ، جلد:6 ، صفحہ نمبر:169 دیکھئے ۔۔۔ جہاں لکھا ہے:
    [QH]( التقليد العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها ) وإنما عرفه ابن الحاجب بالعمل بقول | الغير من غير حجة . وخرج بقوله من غير حجة العمل بقول الرسول والعمل بالإجماع ورجوع العامي | إلى المفتي والقاضي إلى العدول في شهادتهم لوجود الحجة في الكل ، ففي الرسول المعجزة الدالة على | صدقه في الأخبار عن الله تعالى وفي الإجماع ما مر في حجيته ، وفي قول الشاهد والمفتي الإجماع على | وجوب اتباعهما ، وإنما عدل المصنف عنه وقيد الغير بمن ليس قوله إحدى الحجج من الكتاب |[/QH]

    آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ لفظ "مطالبہ" اس سارے قول میں کہیں بھی نہیں ہے۔ حالانکہ اس اردو لفظ کو عربی میں بھی "مطالبہ" ہی کہا جاتا ہے۔
    [QH]بلا حجة[/QH] (بغیر دلیل کے) کا ترجمہ "دلیل کا مطالبہ کئے بغیر" کر دیا گیا ہے جبکہ اصل عبارت میں مطالبے کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے !!
    اب اس قسم کے ترجموں کو آپ کیا نام دیتے ہیں ، وہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

    دوسری اہم بات یہ کہ ۔۔۔۔۔۔
    آپ نے اصل کتاب (تیسیر التحریر) سے "تقلید" کی مکمل تعریف اوپر دیکھ لی ہے۔ آپ خود سوچئے کہ مفتی تقی عثمانی محترم نے کیوں ادھوری تعریف درج فرمائی؟
    جبکہ مابقی عبارت میں یہ واضح صراحت ہے کہ
     
  17. عاصم ملک

    عاصم ملک -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 12, 2008
    پیغامات:
    50
    باذوق صاحب اور باتوں کا جواب تو میں بعد میں دوں گا پہلے آپ یہ بتا دیں کہ کیا آپ کو اجماع کی تعریف معلوم ہے معاف کیجئے گا میرے الفاظ آپکو یقینًا ناگوار معلوم ہونگے مگر مجھے آپ مندرجہ بالا پیراگراف پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ شائد آپ کو اجماع کے بارے میں مکمل اور صحیح معلومات نہیں ہیں،
    جناب آپ کو کس نے کہہ دیا کہ جس مسئلے پر امام اعظم اور ان کے دوشاگرد اکٹھے ہوں جائیں تو وہ مسئلہ ہمارے نزدیک اجماعی مسئلہ ہوجائیگا،
    اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئیے کہ جب مجتھدین کا اختلاف ہوجائے تو یہ نہیں کہا جاتاہے کہ ایک نے دوسرے کی تحقیق کو غلط ثابت کیا ہے بلکے اس کو اختلاف آراء کا نام دے کر دونوں کو حق پر ماناجاتاہے،اور انسان کو اختیار ہوتا ہے کہ (اگر صاحب علم ہو)وہ جس کے دلائل کو قوی مانے اس پر عمل کرئے،
    تو اگر صاحبین(امام ابویوسف،امام محمد رحمھمااللہ)نے دو تہائی مسائل میں(بقول آپکے)اپنے استاد امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ سے اختلاف کیا ہے تو اس کو اس بات پر محمول نہیں کریں گئے کہ انھوں نے اپنے استاد کی تغلیط کی ہے،بلکے اس کو اختلاف دلائل پر محمول کیا جائے گا،
     
  18. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    بہت خوب ۔۔۔۔۔:00032:
    یعنی کہ اگر کوئی شخص ایک حدیث تحقیق میں حدیث پیش کریں کہ
    1: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مادہ جانور کو ذبح کرنے سے اس کے پیٹ میں موجود بچہ بھی ذبح ہوجاتا ہے(۔تخریج: ابوداؤد ج2، کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذکواۃالجنین، صفحہ: 34-35۔)
    اور دوسرا اس کے برعکس کسی کا قول پیش کریں ۔ تو دونوں صحیح ہیں ، کو مانا جاسکتا ہے ۔ ۔۔
    جس نے اونٹنی نحر کی یا گئے ذبح کی، اور اس کے پاٹ میں مرا ہوا بچہ پایا تو وہ بچہ کھانے میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔۔( ھدایھ آخرین ج4، کتاب الذبائح، صفحہ: 440 )

    اور دوسری مثال ۔۔۔۔2: سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی ۖ نے فرمایا: ایک چسکی یا دو چسکیوں سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔(تخریج: مسلم ج 1، کتاب الرضاع، باب فی المصۃ والمصتان، صفحہ: 469، رقم الحدیث: 3593)
    ۔ دودھ تھوڑا ہو یا زیادہ، جب رضاعت کی مدت میں ہو تو اس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے(ھدایۃ اولین ج 2، کتاب الرضاع، صفحہ: 350)

    تیسری مثال ۔ 3: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ۖ نے وضو کرتے وقت اپنی پیشانی، پگڑی، موزوں پر مسح کیا"
    ( صحیح مسلم ج 1، کتاب الطھارۃ، باب مسح علی الخفین، ص: 134)۔
    " پگڑی پر مسح کرنا جائز نہیں ہے"
    ( ھدایۃ اولین، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الحفین، ص:61)

    تو کیا دونوں مخالف باتوں کا مانا جاسکتا ہے ؟ عجیب بات ہے۔
     
  19. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    السلام علیکم!
    میرا یہاں لکھنے کا مقصد بحث میں ایک فریق کا اضافہ ہرگز نہیں ہے بلکہ میں صرف یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ مولانا طارق جمیل پر بحث کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ وہ توحید کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔
    وہ واحد دیوبندی عالم ہیں جن کو کثیر تعداد میں بریلویوں کا غیر متشدد طبقہ سنتا ہے اب یہ جاننا آپ لوگوں کا کام ہے کہ وہ غیرمتشددطبقہ کتنے افراد پر مشتمل ہے۔ ۔ ۔

    میں یہ بات ایک بار پر دہرانا چاہتا ہوں کہ اگر توحید پر سمجھوتہ کر لیا جائے تو آپ کو واہ واہ کرنے والے بہت مل جائیں گے اور آپ لوگوں کی کڑوی کسیلی باتوں سے بھی بہت حد تک بچ جائیں گے۔ لیکن توحید کے بنا اسلام کی دعوت کی کوئی حیثیت نہیں۔
    جب آپ دربار پر جا کر ان کے متولویوں کے مشرکانہ عقائد کو موضوع روایات کے ذریعے جلا بخشتے ہیں اور شرک کو دیکھ کر آپ کے ماتھے پر بل نہیں پڑتے تو سمجھ لیجئے کہ آپ نے محض لوگوں کو ہی خوش کیا ہے۔
     
  20. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    بھائی محترم ! کیا آپ واقعی "تحقیق" اور "اجتہاد" میں فرق نہیں کرتے؟ آپ کے لکھنے سے تو ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ دونوں الفاظ آپ کے نزدیک ہم معنی اور مترادف ہیں۔
    حالانکہ اجتہاد تو تب کی جاتا ہے کہ جب کسی معاملہ کو اختیار کرنا ہو اور اس کی حلت و حرمت کے متعلق قرآن و سنت خاموش نظر آئیں۔
    جبکہ "تحقیق" کی تعریف میں دکتور صھیب حسن نے یہاں یوں لکھا ہے:
    آپ نے پہلے کہا تھا کہ :
    ہم امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی کی تحقیقات میں ان کی تقلید کرتے ہیں
    جبکہ میرے ناقص علم کے مطابق آپ کو "تحقیقات" کے بجائے "اجتہادات" کا لفظ استعمال کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ امام محترم علیہ الرحمة سے احادیث کی تصنیف کردہ کوئی کتاب ثابت نہیں ہے۔

    آپ نے لکھا ہے :
    جب مجتھدین کا اختلاف ہوجائے تو یہ نہیں کہا جاتاہے کہ ایک نے دوسرے کی تحقیق کو غلط ثابت کیا ہے بلکے اس کو اختلاف آراء کا نام دے کر دونوں کو حق پر ماناجاتاہے
    بھائی پلیز ! ہواؤں میں باتیں نہ کیا کریں۔ ثبوت اور حوالے کے ساتھ بات کریں۔
    مجھے تو جہاں تک علم ہے ، کسی بھی فقہ میں ایسا لکھا نہیں ہے کہ :
    کوئی بھی امام جو جو بھی اجتہاد کرے گا ، اس میں وہ حق پر ہوگا ، غلطی کا اس سے امکان ہو ہی نہیں سکتا۔

    بڑی عجیب بات ہے بھائی۔ آخر ہمیں ائمہ کی (تعلیماتِ/تفہیماتِ دین کے معاملے میں) غلطی کو "غلطی" کہنے میں کیوں تکلف (یا تکلیف؟؟) ہوتا ہے؟
    آئیے ، میں آپ کو بخاری کی ایک حدیث سناتا ہوں :
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    [QH]إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران، وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر[/QH]
    جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب (اجتہاد کا) ملتا ہے۔
    صحيح بخاري , كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة , باب : اجر الحاكم اذا اجتهد فاصاب او اخطا , حدیث : 7438

    آپ حدیث کے الفاظ بلکہ بطور خاص فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر غور فرمائیں ، نبی کریم نے خود "[QH]أخطأ[/QH]" کا لفظ استعمال کیا ہے ، یعنی کہ آپ امت کو باور کرا رہے ہیں کہ اجتہاد کرنے والے سے خطا کا امکان ہے !
    جبکہ آپ صحیح فیصلہ اور غلط فیصلہ کرنے والے دونوں مجتہدین کو حق پر ثابت کرنے مصر ہیں۔
    حق تو ایک ہی ہوتا ہے نا بھائی ، دو یا چار تھوڑی ہوتا ہے۔
    حق کے واضح نہ ہونے پر ہی تو اجتہاد کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہم ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جبکہ بیشتر مسائل میں کئے گئے تقریباً تمام متقدمین ائمہ کے "اجتہادات" ہمارے سامنے ہیں۔ اور وہ تمام "تحقیق" بھی سامنے ہے کہ کون سی حدیث صحیح ہے اور کون سی ضعیف/موضوع؟
    اس کے باوجود آپ کی یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ :
    انسان کو اختیار ہوتا ہے کہ (اگر صاحب علم ہو)وہ جس کے دلائل کو قوی مانے اس پر عمل کرئے

    - کیا دلائل کو قوی ماننے کے لئے کسی کا صاحبِ علم ہونا ضروری شرط ہے؟
    - اور ان دلائل کو قوی ماننے کے لئے وہ صاحبِ علم کس پر انحصار کرے گا؟ اپنی عقل پر؟ یا اپنے نفس کی خواہشات پر؟
    - اور جو صاحبِ علم نہ ہو وہ کیا کرے گا؟

    آپ خود سوچئے کہ یہ ایسے سوالات ہیں جو آپ کے درج بالا مبہم قول کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔
    ان کے کیا جوابات دئے جائیں گے؟

    بھائی ! یہ میرا قول نہیں ہے کہ صاحبین نے اپنے استاد سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے۔ بلکہ یہ قول امام غزالی کی کتاب "المنخول من تعلیقات الاصول" میں درج ہے جس کا حوالہ حافظ محمد عبداللہ بہاولپوری(مرحوم) نے اس مضمون میں بھی دیا ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں