رفی پیڈیا!

رفی نے 'ادبی مجلس' میں ‏جولائی 11, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    پال26 اكتوبر كو مر گیا!
    Paul the Octopus - Wikipedia, the free encyclopedia
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    اس کا مزار کہاں بنے گا؟
     
  3. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    رفی بھائی آپ کی شیئرنگ نہایت مُفید اور انٹرسٹنگ ہیں‌۔رفی بھائی حقیقت میں‌ہم گمراہی میں‌مبتلا ہیں‌اور دیکھیں‌کیسا پردہ ہماری آنکھوں میں پڑ چکا ہے کہ ہمیں‌سچ اور جھوٹ ی پہچان ہی نہیں‌رہی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں‌سب پتہ پے کہ کیا سچ ہے اور جھوٹ مگر جان بوجھ کر اندھے بنے ہوئے ہیں ہم تو کیسے نا اللہ ہم سے ناراض ہو؟ کیوں‌نا وہ ہم پر عذاب لائے ہم اسی لائق ہیں‌رفی بھائی۔

    ہمارے یہاں کوئی بھی نیک بزرگ دُنیا کو چھوڑ کر جاتا ہے تو ہم پڑھے لکھے جاہل لوگ اُن کے مزار بنانا شروع کر دیتے ہیں‌اور باقاعدگی کے ساتھ اُن کے مزاروں پر حاضری دیتے ہیں۔راستے سے گزرتے ہوئے اُنہیں‌سلام کرنا نہیں‌بھولتے۔میں پوچھتا ہوں‌ایسے لوگوں سے کہ جس نے یہ ساری دُنیا بنائی جس نے ہر جاندار چیز کو پیدا کیا جو سب کو رزق دیتا ہے جو زندگی اور موت کا مالک ہے ہم اُس کے آگے کیوں نہیں‌جھکتے ؟ہم اللہ تعالی سے زیادہ اُس کی بنائی ہوئی مخلوق کو سجدہ کرنے لگ گئےہیں‌۔ایک شخص نماز نہیں‌پڑھتا مگر اپنی حاضری درباروں میں‌لگانا نہیں‌بھولتا باقاعدگی سے جایا جاتا ہے ان مزاروں میں ۔میں‌پوچھتا ہوں‌کہ ہم میں‌اور کافروں میں کیا فرق رہ گیا ہے اب ؟ہے کوئی اس کا جواب ؟
    یااللہ ہمیں‌معاف کر دینا ہم بہت گہنگار ہیں‌ ہمیں‌سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ہمیں‌معاف کر دے اے ہمارے پروردگار۔
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    آمین۔ليكن ساجد بھائى اس قوم کو عقل آتے ابھی زمانہ دركار ہے۔
    رہا مزار كا سوال تو جب پیر گھوڑے شاہ کا مزار ہو سکتا ہے تو پیر اوکٹوپس شاہ کا مزار بھی بن سكتا ہے۔ لوگ مادھو لال نامى ہندو پیر رکھتے ہوئے نہیں شرماتے پال كا تو صرف نام مسيحيوں جيسا ہے۔ بہت اعتراض ہوا تو عقيدت كا يہ جواز تراش ليں گے كہ ليڈی ڈائنا كی طرح مسلمان ہونے ہی والا تھا۔
     
  5. محمد ارسلان

    محمد ارسلان -: Banned :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 2, 2010
    پیغامات:
    10,398
    بھائی جان رفی بہت اچھے انفارمیشن کے لئے شکریہ۔
     
  6. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    ڈرامہ، سبق اور عزم!

    ڈرامہ، سبق اور عزم!

    پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے ہمارے گاؤں میں چند ایک دکانیں تھیں، دکاندار حضرات رسمی تعلیم سے تو محروم تھے مگر حساب کتاب کے پکے اور زندگی کے اسرار و رموز کے ماہر تھے۔ انھی میں سے ایک دکاندار کے تین بچے ہمارے گھر قرآن شریف پڑھنے آتے تھے، اس لئے ان سے دوستی بھی ہو گئی، ایک دن ہم نے ٹی وی دیکھنے کا پروگرام بنایا، گاؤں میں اس وقت چند گھروں میں ٹی وی ہوا کرتا تھا، رات کو وہ مجھے بہانے سے بلانے آئے اور ہم محلے میں ایک گھر جا کر ڈرامہ دیکھنے بیٹھ گئے، ڈرامے کی کیا سمجھ آتی البتہ اشتہار اچھے لگے، لیکن گھر میں پتہ چل گیا کہ ہم لوگ ٹی وی دیکھنے کے لئے جھوٹ بول کر گئے تھے۔ جھوٹ بولنے اور رات دیر تک گھر سے باہر رہنے پر گھر سے تو ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی مرمت بھی سہہ لی لیکن اب دوستوں کے گھر جانے میں جھجھک محسوس ہو رہی تھی کہ کہیں ان کے گھر والے بھی پھر سے ڈانٹنا نہ شروع کر دیں۔

    خیر چھپتے چھپاتے ان کے ہاں گیا تو ان کے والد نے بلا لیا، پوچھا کونسا ڈرامہ دیکھا تھا رات کو، بولے ڈائریکٹ حوالدار والا، انہوں نے پوچھا کیا سبق حاصل کیا تو میں حیرانگی سے ان کا منہ دیکھنے لگا، کہ ہم کوئی سکول گئے تھے کہ سبق حاصل کرتے، وہ کہنے لگے کہ ہر ڈرامے کا کوئی نہ کوئی سبق ہوتا ہے، صرف ڈرامے کا ہی نہیں، ہماری روزِ مرہ زندگی میں پیش آنے والے ہر واقعے کا حتٰی کہ ہماری غلطیاں بھی ہمارے لئے سبق ہوتی ہیں ان کو سمجھا کرو اور عزم کیا کرو کہ آئندہ انہیں نہیں دہراؤ گے ۔ ۔ ۔

    کیا خاک سمجھ آتی اس وقت، بس اتنا ہی سبق حاصل ہوا کہ آئندہ ٹی وی دیکھنے جانا ہو تو کسی ایسے لڑکے کو ساتھ نہ ملایا جائے جو سب کے نام گھر والوں کو بتا دے۔

    مگر دیکھتا ہوں کہ ہماری قوم کو تیس سال تو کیا ساٹھ سال سے اوپر ہو چکے ہیں مگر اتنی سی بات سمجھ نہیں آئی کہ ڈرامہ کیا ہے، ڈرامے کا سبق کیا ہے اور ہمارا عزم کیا ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔

    جڑواں کھمبوں کی کہانی، مہلک ہتھیار، بمبئی کے غنڈے، محافظوں پر یلغار، ریمنڈ ڈیوس ان ایکشن، ایبٹ آباد کی رات اور شارک کا شکار؛ غرض کس کس ڈرامے کا نام گنواؤں، مگر ہم نے ان میں سے کسی ایک سے سبق حاصل نہیں کیا، ہاں بیچ میں ایک آدھ ایڈورٹائزمنٹ پر ہم ضرور خوش ہو جاتے ہیں اور اسی انجانے میں ویورز شپ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ پروڈیوسرز ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بڑے بجٹ پر مشتمل لائیو پرفارمنسز کے میگا شوز تیار کرنے میں مگن ہیں۔

    سبق تو ہم نے کبھی اپنی غلطیوں سے بھی نہیں لیا، ہاں یہ ضرور ہے کہ غلطیوں کو دہرا دہرا کر انہیں صحیح ثابت کرنے کا مشغلہ ضرور اپنائے رکھا اور اسی بھول پنے میں انہیں بھی اپنا خیر خواہ سمجھتے رہے جو ہماری ایک ایک خامی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

    رہا عزم تو اسے کیا بلند کرتے بس خود کو فریب دینے کے لئے اتنا بیان کافی سمجھ لیا کہ ہم نے دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے، نہ کبھی اپنے عزائم کا تعین کیا اور نہ کبھی ان کے عزائم کو سمجھا!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    نہیں نہیں میں آپ کی طرح لکھ تو نہیں سکتا اس لیے شکریہ و جزاک اللہ کل خیر ہی کہ دوں گا
     
  8. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    بھائی یہ جدید دور کا جدید بابا ہے تو اس کے ساتھ جدید دور کے جدید اعمال ہونے چاہیں ناں
    مثال کے طور پر اس کا ایک مزار جرمنی مین دوسرا امریکا میں تیسرا انگلینڈ میں

    ۔
    ۔
    ۔۔
    ۔
    ۔۔
    ۔
    ۔۔
    ۔
    ۔
    ہاں ہاں بلکل بلکل ایک پاکستان میں بھی ہونا ہی چاہیے ویسے تو ہم بیرونی بابوں کو پسند نہیں کرتے مگر کیا کریں اتنی پہنچی حستی کو چھوڑ دیا تو کہیں قیامت ہی نہ آجائے
    انا اللہ و انا الیہ راحعون
     
  9. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    رفی بھائی سبق تو کیا حاصل کریں، ہم تو ایسے واقعات اور غلطیوں کو کچھ عرصے بعد بالکل ہی بھلا دیتے ہیں۔۔۔۔
    ماشاءاللہ بہت خوب لکھ رہے ہیں۔ جاری رکھیں۔۔۔ :)
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  10. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    ماشاء اللہ ولا قوة الا باللہ ، لاجواب !
    زبردست تجزيہ ہے ۔
    شايد ہم اجتماعى طور پر شارٹ ٹرم ميمرى ڈس آرڈرshort term memory disorder كا شكار ہیں كہ ماضى قريب كے اسباق بھی حافظے سے محو ہو جاتے ہیں۔
    سفير بن كر آنے والى امريكى بڑھیاؤں سے متاثرہونے كا لازمى نتيجہ = احساس كہترى ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  11. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    ویری ویری شکریہ!
    ہوئے مر کے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں‌ نہ غرقِ دریا
    نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

    (جدید و قدیم سب بابوں کے لئے)

    نہیں بھلاتے نہیں ہیں، بلکہ میسنے بن جاتے ہیں۔

    شکریہ سسٹر!

    آپ امریکی بڑھیاؤں کی بات کر رہی ہیں، ان کے تو کتے اور کتیائیں بھی ہمارے بڑے بڑوں کی سٹی گم کرنے کے لئے کافی ہیں۔
     
  12. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  13. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    شیخ گوگل، مفتیانِ فیس بُک اور جھوٹ

    شیخ گوگل، مفتیانِ فیس بُک اور جھوٹ

    انٹرنیٹ کی دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو مختلف سوشل ویب سائیٹس اور فورمز پر صرف خود نمائی کی خاطر ہر مسئلے میں اپنی رائے کو حتمی رائے قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل میں ڈھیروں لنکس فراہم کرتے ہیں مگر ان کا ذاتی علم صرف اور صرف گوگل کے ہی مرہونِ منت ہوا کرتا ہے۔

    گوگل سے معلومات اکٹھا کرنے میں برائی نہیں لیکن اس کی ثقاہت پر اعتبار کر لینا نادانی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کیونکہ سرچ کرنے والے کو معلوم نہیں ہوتا کہ کسی مسئلے کا حل پوسٹ کرنے والے کا منہج کیا ہے اور اس کا صحیح اسلامی تعلیمات سے کتنا تعلق ہے۔ اس بناء پر گوگلنگ کرنے والے کا خود کو عالم سمجھ لینا اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔

    بعض اوقات تو احادیث اور روایات کوبعض کتب کے حوالے کے ساتھ بیان کر دیا جاتا ہے جبکہ اصل کتب میں ان کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔ صرف اتنا ہی نہیں غلط قرآنی آیات، غلط حوالے اور غلط تراجم کا استعمال بھی کاپی پیسٹرز کے ہاں عام ہے۔

    ایسے ہی افراد کے لئے شیخ گوگل یا مفتیانِ فیس بک کی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے جن کا اپنا شیخ گوگل ہو اور اسی کے مرہون منت وہ بزعمِ بذاتِ خود عالم بنے ہوئے ہوں۔


    صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو آگے پھیلائے، اس لئے ضروری ہے کہ گوگل، فیس بک یا انٹرنیٹ پر کسی بھی جگہ سے لی گئی معلومات کو پرکھا جائے اور ان کے اوپر پوری تحقیق کے بعد اپنی رائے قائم کی جائے اور پھر اس کو بیان کیا جائے۔
     
  14. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اللہ کرے بھائی کہ کوئی آپ کی سن لے ، ہمارا انداز بیان شاید زیادہ تلخ تھا۔
    لوگوں کو دعوت دین کا شوق تو بہت ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھنا چاہتے کہ بات کرنے کے لیے پہلے درست بات کا علم ہونا ضروری ہے ۔
    حقیقت یہ ہے کہ ہر علم و فن کے ماہرین یہی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ بغیر علم کے غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں ۔ اور اگر کوئی اس جاہلانہ طرز عمل کی نشان دہی کرے تو اس کو غرور علم کا طعنہ ملتا ہے ۔
    پس نوشت : اگر میرے مراسلے میں خشکی زیادہ ہو گئی ہو تو رفیق بھائی کی منتخب کردہ اس تحریر سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے ۔
    الشيخ الآلي ! - URDU MAJLIS FORUM
     
  15. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    سسٹر معلومات کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرف سے امڈتا چلا آ رہا ہے اور ہر ایک اس میں سے اپنے موقف کے مطابق سنسنی خیز مواد چن کر شیئر کرتا چلا جا رہا ہے۔ خبردار کرنا ہمارا فرض ہے، رہا تلخ لہجہ تو ظاہر ہے کہ جس کی برسوں کی محنت پر بغیر دلائل کے ایک کلک کو ترجیح دی جائے گی اسی کا لہجہ زیادہ تلخ ہوگا۔ بہر حال دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے، کسی کی زبان پکڑنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔
     
  16. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    میرے خیال کے مطابق علم بڑھتا جا رہا ہے اور تقویٰ و عمل گھٹتا جا رہا ہے۔
    اس میں بنیادی وجہ شاید یہ سنی سنائی باتیں ، چور راستے اور بلا تحقیق بات فارورڈ کرنا ہے
     
  17. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    پینڈنگ کافی، زکوۃ اور ہم مسلمان!

    ہماری کمپنی میں‌ آئے کچھ اٹالین وزیٹرز کے ساتھ کمپنی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے کہ ان سے پوچھا کہ کیا پینا ہے تو ان میں سے ایک جو کافی کھلنڈری طبیعت کا مالک تھا پوچھنے لگا از دیئر اینی پینڈنگ کافی؟

    جس پر باقی سب ہنسنے لگے، میری حیرانی کو بھانپتے ہوئے ان میں سے ایک بولا حیران مت ہو، میں بتاتا ہوں‌ کہ پینڈنگ کافی کیا ہے، یہ ہماری ایک صدیوں پرانی قابلِ فخر روایت ہے، یہ خیرات کرنے کا ایک طریقہ ہے، جس میں‌ ایک آدمی دو کافی آرڈر کرتا ہے ایک خود پینے کے لئے اور ایک پینڈنگ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ پیسے دو کافی کپ کے دیتا ہے لیکن پیتا ایک ہی ہے، اور جو افراد کافی خرید نہیں سکتے وہ آکر پوچھتے ہیں کہ کوئی پینڈنگ کافی ہے تو کافی شاپ والے اسے وہ کافی دے دیتے ہیں، جس کی قیمت پہلے ادا کی جا چکی ہوتی ہے۔ سو سال پہلے تو ہر کافی شاپ پر طریقہ رائج تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں‌ کمی آتی چلی گئی اور اب تو صرف کرسمس، ایسٹر یا فٹ بال کا کوئی میچ جیتنے کے مواقع پر ہی اکثر لوگ پینڈنگ کافی آرڈر کرتے ہیں۔

    بات کافی سے نکل کر معاشرے میں پھیلی غربت اور صدقہ خیرات تک گئی تو وہ کہنے لگے کہ کافی کے علاوہ باقی چیزوں کی بھی پینڈنگ پے منٹ کرنی چاہئے تاکہ جو اسے افورڈ نہیں کر سکتے وہ بھی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔

    میں نے کہا بات تو آپ کی صحیح ہے لیکن ہمارے مذہب اسلام میں تو یہ کمپلسری ہے، حیرانی سے پوچھنے لگا کہ وہ کیسے، ہمارے مذہب کا ایک ستون ہے زکوٰۃ، جہاں تک مجھے معلوم ہے ایک مخصوص مقدار سے زائد سونا چاندی، مال مویشی ، فصل جائداد وغیرہ مسلسل ایک سال تک رکھنے والے پر مستحق افراد کو اس کا اڑھائی فیصد اور بعض صورتوں میں مختلف مقدار دینا فرض ہے۔ اس طرح مال میں پاکیزگی آتی ہے، معاشرے میں غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور انسان کی اصل ملکیت وہی مال و جائیداد ہے جو صدقہ خیرات اور زکوۃ میں دیا جاتا ہے باقی سب تو ان وارثوں کا ہے جو باقی رہ جاتے ہیں۔

    یہ جان کر وہ تو اسلام سے متاثر لگ رہا تھا مگر میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے مذہب کی تعلیمات کتنی سادہ، پرکشش، پریکٹیکل اور با مقصد ہیں لیکن پھر بھی ہم انہیں بھلائے بیٹھے ہیں جب کہ غیر مسلم تو اپنے تہواروں پر نہ صرف پینڈنگ کافی اور دیگر چیریٹیز کی بھرمار کر دیتے ہیں بلکہ اپنی دکانوں پر بھی ضروریاتِ زندگی کو ارزاں قیمتوں پر لے آتے ہیں تاکہ متوسط طبقے کو بھی خوشیاں لوٹنے کا موقع مل سکے ایک ہم ہیں کہ ابھی حج کا مہینہ بھی شروع نہیں ہوا کہ کہ ٹیکسی والے جس فاصلے کے عموماً دس سے پندرہ ریال لیتے ہیں اس کا باہر سے آئے ہوئے حجاج سے پچاس سے سو ریال مانگتے ہیں۔ اور مقامی افراد کے لئے تو رکتے ہی نہیں، اگر رک جائیں تو کافی مک مکا کے بعد پچیس سے تیس ریال میں اتفاق ہوتا ہے۔ یہی حال رہائشوں، اشیائے خورد و نوش اور دیگر چیزوں کا ہوتا ہے۔ رمضان ہو، عید الفطر ہو یا حج اور عید الضحیٰ، ہمیں اپنی کمائی کی پاکیزگی کا احساس ہی نہیں رہتا؟؟؟
     
  18. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    ارے چھوڑیں بھائ یہی تو ایک سیزن ہے کمائ کا۔ فی الحال کمائ کرنے دیں پاکیزگي بعد میں دیکھ لیں گے۔ یہ ہماری عام سوچ ہے۔
    طارق عزیز نے ایک بار ایک واقعہ سنایا تھا کہ امریکہ میں کرسمس سے پہلے وہ ایک سٹور میں گیا اور وہاں اسے ایک شرٹ پسند آئ جس کی قیمت 35 ڈالرتھی۔ اس نے سوچا کہ کرسمس کے بعد لوں گا تو شائد اس کی قیمت کم ہو جاۓ گي۔ لیکن جب وہ کرسمس کے بعد اس اسٹور میں گيا تو اس شرٹ کی قیمت 50 ڈالر لکھی ہوئ تھی۔ اس نے سیلزمین سے دریافت کیا کہ کرسمس سے پہلے تو اس کی قیمت تو 35 ڈالر تھی تو اس نے جواب دیا کہ ہم کرسمس سے پہلے قیمتیں کم کر دیتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا تہوار ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہر آدمی اس تہوار سے لطف اندوزہو۔ اور اب جبکہ کرسمس ختم ہو چکی ہے تو ہم نے تمام اشیاء پر ڈسکاؤنٹ ختم کردیا ہے۔

    ایک وہ ہیں اور ایک ہم کہ کبھی بھی کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرماۓ۔ آمین!
     
  19. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    نماز عشق ترتیبی ندارد

    السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
    کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کسی گائوں میں ایک لڑکا رہتا تھا۔ جس کے دل میں عشق نبی کا ٹھاٹیں مارتا سمندر تو موجود تھا مگر اس کے آئیڈیل انڈین فلموں کے اداکار تھے۔ وضع قطع، اٹھنا بیٹھنا اور بول چال غرض روزہ مرہ کا ہر معمول انہی اداکاروں کی نقالی پر مشتمل تھا۔ روز صبح کالج جانے کے لئے فجر سے پہلے اٹھنا، سردی گرمی میں غسل کرنا اس وقت مسجدوں میں اذان سے پہلے اور بعد صلات و سلام اور نعتیں اس کو بہت سرور دیتیں خصوصا جب ایک مسجد کے موذن اذان کے بعد یہ اشعار پڑھا کرتے:
    میں سو جائوں یا مصطفی کہتے کہتے
    کھلے آنکھ صلے علی کہتے کہتے
    اس دروان وہ اپنی تیاری مکمل کرتے ہوئے ناشتہ کرکے بس سٹاپ کی جانب نکل پڑتا جب دوسرے لوگ مسجدوں کی جانب رخ کئے ہوتے۔ اس دوران اس کے دوسرے کالج میٹس بھی وہاں پہنچ جاتے۔ پھر وہی باتیں ہوتیں جو اس عمر کے آزاد خیال لڑکے آپس میں کیا کرتے ہیں۔ کسی فلم پر تبصرہ، کسی افیئر کا تذکرہ! بس پندرہ بیس منٹ کے فرق سے اس سٹاپ پر پہنچتی تو اس میں سوار ہو جاتے۔ ڈرائیور کنڈکٹر کا ان طالب علموں سے بوجہ مجبوری رویہ دوستانہ ہوتا تاکہ ان کی روزی روٹی چلتی رہے۔ یہ طالب علم گھروں سے اپنی جیبوں میں انڈین گانوں والے تازہ آڈیو کیسیٹس لانا نہ بھولتے۔ بس میں سوار ہوتے ہی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ایک طالب علم کی جب میں سےایک کیسٹ نکلتی اور ہاتھوں ہاتھ ہوتی ہوئی ڈرائیور تک پہنچتی یا پھر کبھی کبھار درمیان میں سے ہی واپس ہو جاتی کہ کسی اور کے پاس لیٹسٹ گانے ہوتے۔ خیر کیسٹ آن ہوتی اور سب اس کی دھن میں مست ہوتے۔ شہر کے کالج پہنچ کر کچھ اپنی کلاسوں میں چلے جاتے اور کچھ بازار میں سکول آنے جانے والوں کے پیچھے چلتے۔ یا پھر کسی جوس کارنر میں بیٹھ کر وی سی آر پر چلنے والی گانے یا فلمیں دیکھتے۔
    کالج کی کینٹین، گرائونڈز میں کلاسوں کی نسبت زیادہ وقت گزار کر دوپہر کو ظہر کی اذان کے وقت واپسی کی راہ لیتے۔ پھر اسی طرح واپسی ہوتی جیسے روانگی ہوئی تھی۔ چھٹی ٹائم پر رش زیادہ ہوتا تو مختلف گروپس میں بات بے بات مار دھاڑ بھی ہو جاتی اور اس کا نشانہ کبھی کبھی ڈرائیور کنڈکٹر اور گاڑی بھی بن جاتی اور نوبت ہڑتالوں تک جا پہنچتی جس میں بعض اوقات معاملہ ضلعی انتظامیہ کی مداخلت کے بعد رفع دفع ہوتا۔ گھر پہنچتے پہنچتے عصر کا وقت ہو جاتا۔ بیٹ بال اٹھا کر کرکٹ کھیلنے نکل پڑتا۔ راست میں مسجدوں کو جاتے نمازی پھر ملتے۔ جن سے دعا سلام ہوتی دونوں اپنی راہ راہ لیتے۔ کرکٹ میں بھی دوستیاں اور چلتی رہتیں مغرب کے بعد بال دکھائی دینا ختم ہو جاتی تو سب اپنے گھروں کی راہ لیتے۔ پھر کچھ گپیں ہانکتے اٹھکیلیاں کرتے اور گھروں کو واپس ہوتے۔ عشاء کی نماز کا وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھے یا رات کا کھانا کھاتے ہوئے گذارتے اور پھر ایک آدھ چکر باہر دوستوں کے پاس لگانا معمول ہوتا۔ اور دس بجے واپس آ کر بیڈ میں رسالہ لے کر دبک جاتے جسے پڑھتے پڑھتے نیند آجاتی۔ ویک اینڈ پر دوستوں کے ساتھ کرائے کے وی سی آر پر ایک رات میں تین تین فلمیں دیکھتے گزارتے اور جمعہ سوتے ہوئے گزر جاتا۔

    یہ اس کا روز کا معمول تھا لیکن اس ساری روداد کا مطلب یہ نہیں بنتا کہ اسے مذہب سے لگائو نہیں تھا۔ بلکہ اس کی دینداری بڑے بڑوں سے دل کے اندر ہی اندر بہت زیادہ تھی۔ امتحانوں کے دنوں میں وہ نہ صرف فجر کی نماز پڑھ کر جاتا بلکہ نتیجے کا دن جوں جوں قریب آتا وہ دن کی تین نمازوں کی پابندی کرنے لگ جاتا۔ یہی نہیں رمضان کے روزے، عیدین کی نماز کے علاوہ پیروں فقیروں کے درباروں پر جانا، پنجتن کے نام پر خیرات کرنا، مشکل اوقات میں بعض بزرگان دین سے مدد مانگنا اس کے ایمان کا خاصہ تھے۔
    لیکن جونہی ربیع الاول کا پرنور مہینہ آتا اس کا جذبہ ایمانی بھی عروج پر پہنچ جاتا۔ اپنے روز مرہ کے اعمال کے ساتھ ساتھ یکم ربیع الاول سے بارہ ربیع الاول کی رات تک عید میلاد النبی کے جلوس کی تیاری کے ہر مرحلے میں نہ صرف پیش پیش ہوتا بلکہ کئی اہم امور کا نگران بھی ہوتا جیسے لنگر کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے سے لے کر اس کی تیاری تک کے تمام مراحل کو بحسن و خوبی سرانجام دینا، نیاز کی خریداری اور جلوس کے مختلف مراحل میں اس کی تقسیم، جلوس کے راستوں کی سجاوٹ، رات کو لائٹنگ، سائونڈ سسٹم کا انتظام جلوس میں شرکت کے لئے نعت خوانوں کا انتظام، اور جلوس کے اختتام پر تقریر کے لئے علماء کرام کا چنائو اور ان کی مہمانداری سب اسی کے ذمہ ہوتا۔ بلکہ جلوس میں پڑھی جانے والی نعتوں کا چنائو اور نعرے خوانی میں بھی اس کے مشورے کارفرما ہوتے۔ عید میلاد النبی کے دن اس کا جوش خروش دیدنی ہوتا، صبح سویرے اٹھ کر انتظامات کو حتمی شکل دینا اور سال کے اس باسعادت دن کی ہر گھڑی سے فیضیاب ہونا اس کا اس مطمع نظر ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے حلقے میں قابل رشک انسان سمجھا جاتا جس پر بڑے بڑے دیندار افراد بھی اس کے عشق کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے اور پھر سال بھر اس کا عشق اسے عظمت کے اس مقام پر پہنچا دیتا کہ وہ سیاہ کرے یا سفید وہ سب کی آنکھوں کا تارا رہتا۔

    یہ تو کہانی تھی بہت پرانی، جب میلاد النبی کے جلوس میں نعت خوانی ہوا کرتی تھی آج تو اس میں ڈھول ڈھمکا، گانا بجانا، خواجہ سرا اور رقاصائیں، کیا کچھ نہیں جو اس میں شامل ہونے سے رہ گیا ہو۔ اور یہ سب بھی جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر کیا جاتا ہے، باقی آپ خود سمجھدار ہیں کہ سال کے باقی دنوں میں کیا کچھ ہوتا ہوگا۔ یعنی جو کام سارا سال گھروں میں ہوتا ہے اس دن وہ سڑکوں پر کیا جاتا ہے۔
     
    Last edited: ‏دسمبر 25, 2015
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  20. touseef752

    touseef752 رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 23, 2014
    پیغامات:
    36
    ماشاءاللہ

    Sent from my GT-I9100 using Tapatalk
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں