جبلِ ثورکی حقیقت تعریف:: کوہِ ثور مکہ مکرمہ کے جنوبی محلے کدی میں واقع ہے جہاں حالیا ہجرت ٹاؤن ہے ـ یہ مسجد الحرام سے چار کلومیٹر دور ہے ـ سطح زمین سے اس کی بلندی 458 میٹر ہے اور اس کا رقبہ 10 مربع کلومیٹر ہے(1)اس کو یہ نام عبدِ مناة کے ثور(بیل)کی نسبت کی وجہ سے دیا گیا ہے کیونکہ یہ اسکا مسکن تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکی شکل بیل کی طرح ہے جو اس پر ہل چلاتا تھا(2)اسی پہاڑ کی چوٹی پروہ غار ہے جس میں ہجرت مدینہ کے وقت نبی کریم ﷺ اورابوبکرؓ نے (کفار کی نظروں سے اوجھل ہونے کے لئے تین دن تک قیام فرمایا تھا،اس غار کے دو دروازے ہیں ایک اس کے شروع میں اور ایک اس کے آخر میں ہے ـ غار کا رقبہ دو مربع میٹرہے(3) جبلِ ثورکی حقیقت:: جبل ثور وہ پہاڑ ہے جس میں ہجرت مدینہ کے وقت نبی کرمﷺ اور ابوبکر صدیق نے تین دن قیام فرمایا تھا ـ اس غار کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٤٠﴾"اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے، اللہ غالب ہے حکمت واﻻ ہے "(ترجمہ:: جوناگڑھی) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺکو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ "غار میں نبی کریم ﷺ کی معیت میں تھا ، میں نے مشرکین کے آثار دیکھے تو میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ اگر ان میں سے کسی نے آگے قدم اٹھایا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ائے ابوبکران دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالی ہے (4) اس کے علاوہ اس کی فضیلت میں احادیث اورآثار میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے ، اور بعض مصنفین اس بارے میں جو بھی احادیث بیان کرتے ہیں وہ ضعیف یا موضوع ہیں (5)اس لئے اس کی زیارت کرنا ، اس پر چڑھنا جائز نہیں ہے ـ نماز یا کسی بھی قسم کی عبادت اور دعا کی غرض سے اس کی طرف جانا صحیح نہیں اور نہ ہی حج اور عمرہ کے احکام سے اس کا کوئی تعلق ہے (6) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:: "نبی کریم ﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد چارعمرے ادا فرمائے اور مسلمانوں کے جمِ غفیر کے ہمراہ ایک حج ادا فرمایا ، اور چند لوگوں کے علاوہ تمام مسلمانوں نے اس حج کی ادائیگی میں شرکت کی تھی ، اور اس دوران نہ تو آپ ﷺ خود اور نہ ہی صحابہ کرامؓ میں سے کوئی غار حرا یا غارِ ثور کی زیارت کی اور نہ ہی وہ مکہ مکرمہ کے ارد گرد(دوسرے) مقامات کی طرف گئے ـ مسجد الحرام ، صفا مروہ کے مابین ،منی ، مزدلفہ اور عرفات کے علاوہ کہیں عبادت نہیں ہے ـ پھر آپ ﷺ کے بعد خلفاء راشدین کے علاوہ اوائل صحابہ کرامؓ وغیرہ میں سے کسی نے بھی غارِ حرا یا غارِثورکا رخ کیا اور نہ ہی نماز اور دعا کے لئے گئے ـ قرآن کریم میں اس غار کا یوں ذکر آیا ہے : إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا "اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے(ترجمہ :: جوناگڑھی)" یہ غار مکہ مکرمہ کے دائیں جانب جبل ثور میں واقع ہے آپ ﷺ نے اس کی طرف سفرکرنے ـ اس کی زیارت کرنے اور اس میں نماز اور دعا کو مشروع نہیں کیا ـ معلوم ہونا چاہیے کہ اگریہ مشروع اور مستحب ہوتا تو اس پر اللہ تعالی ثواب عطا فرماتا اور نبی کریمﷺ اس بارے میں لوگوں سے بہتر جاننے والے تھے تو وہ صحابہ کرامؓ کو سکھاتے اور صحابہ کرامؓ بھی بہتر جاننے والے تھے اور وہ اپنے بعدوالوں کو ترغیب دیتے، پس جب وہ اس طرف متوجہ نہیں ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ بدعت ہے اور نئی چیز ہے ـ جسے وہ عبادت ، قرب الہی کا ذریعہ اور اسکی اطاعت شمار نہیں کرتے تھے ـ پس جس نے اسے عبادت، اطاعت اور قرب الہی کا ذریعہ بنایا تو اس نے ان کی سنت کے علاوہ کسی اور کی اتباع کی اور دین میں وہ چیز شروع کی جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی تھی " (7) اس لئے علامہ صدیق حسن خان ، مکہ مکرمہ کے بعض پہاڑوں کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں : کہ ان پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کی بھی زیارت کرنا سنت نہیں (8)" بدعتیں اور مخالفتیں:: جبلِ ثور کے پاس بعض حاجیوں سے کچھ خلافِ شرع اعمال سرزد ہوتےہیں ـ جن کا سبب اس پہاڑ کی خصوصیت اور تقدیس کا عقیدہ ہے اور اس سے قبل ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ وہ باطل ہے ـ ہم بعض امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ حجاج کرام ان کا خیال رکھیں ـاور خلاف شرع اعمال کے مرتکب نہ ہوں ـ 1-عبادت کی غرض سے اس پہاڑ کی زیارت کرنا ، اس پر چڑھنا ، اس کی خصوصیت اور تقدیس کا عقیدہ رکھنا اور یہ کہ یہ ارکانِ حج یا اس کے واجبات یا اس کو مکمل کرنے والے امور میں سے ہے ـ 2- اس کے پاس یا اسکی طرف منہ کر کے دعا کرنا ـ 3- اس پرنماز پڑھنا 4-اس پرلکھنا 5-اس کا طواف کرنا 6-اس کے درختوں اور پتوں سے تبرک حاصل کرنا اور اس پرکپڑے کے ٹکڑے باندھنا 7- ترشیدہ بالوں یا بالوں کی کسی چیز یا پیسوں یا تصویروں اور کپڑوں کے ٹکڑوں میں یا پتھر کے سوراخوں میں مختلف اعتقادات کی وجہ سے پیغامات یا خط رکھنا وغیرہ جیسے یہ کہ وہ اس کی طرف دوبارہ لوٹے یا فلاں حج کرے یا کسی مریض کی شفا کے لئے یا بے اولاد کے لئے کوئی چیز رکھنایہ سب خرافات ، بدعتیں اور خلافِ شرع امور ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے ـ حوالہ جات :: 1-یاقوت کی معجم البلدان 2/86 -بکری کی معجم ما استعجم 1/348-خمیس کی معجم جبال الجزیرہ 2/79-بلادی کی معجم معالم الحجاز 95/2 2-جوہری کی الصحاح2/606 3-قاسمی کی شفاءالغرام1/381،ڈاکٹرفوزی کی ساعاتی کی غارِثور14 4-بخاری نے حدیث نمبر 4663 ، مسلم نے حدیث نمبر 2381 سے روایت کیا ہے 5-ڈاکٹر محمد لغبان کی فضائل مکہ الواردہ فی السنن 2/936 6-ڈاکٹر ناصر الجدیع کی التبرک انواعہ واحکامہ 432 7- اقتضاء الصراط المستقیم 1/425 8- رحلہ الصدیق الی البیت العتیق 15 بشکریہ ۔هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر ترتیب و عنوان ::عكاشة
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر عبادت کی غرض سے اس پہاڑکی زیارت نہ کی جائے تو تاریخی مقامات اور ان پہاڑ پرجانے میں مسئلہ نہیں ۔ یہ ان کی رائے ہے ، لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وضاحت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ درست نہیں ۔ اگر ایسا کرنا جائز بھی ہوتا تو صحابہ کرامؓ ضرور ان تاریخی مقامات کی زیارت کرتے جبکہ ان سے کسی قسم کی بدعت کی امید بھی نہیں تھی ۔ لیکن کسی صحابی رسول ﷺ سے ان پہاڑ کا قصد کرنا نہیں ملتا ۔ واللہ اعلم ۔ ویسے بھی ایک لاکھ نماز کا ثواب ۔ طواف یہ دونوں چیزیں دنیا میں کہیں نہیں ملتیں ۔ جن کے نصیب میں بدقسمتی لکھی ہوتی ہے وہ اپنا قیمتی وقت انہی زیارات میں برباد کرتے ہیں۔ اللہ عزوجل ہدایت دے ۔
میں یہی سوال کرنے یہاں آئ تهی کہ میں نے کسی سے بات کی تو انہوں نے مجهے بلکل یہی جواب دیا کہ نیت اگر ثواب کی نہیں تو پهر بدعت کیسے هو گیا تو سوچا اس کا جواب آپ سے پوچهتی هوں پوسٹ کهولی تو جواب مل گیا جزاک اللہ خیرا
وایاکم ۔ اللہ عزوجل ہمیں ہرقسم کی بدعات اور خرفات سے محفوظ رکھے ۔ یاد رہے کہ میں نے یہ غار نہیں دیکھا اس لیے اس کی تصدیق نہیں کرسکتا کہ غارثور ایسا ہی ہےجیساکہ تصویر میں دکھایا گیا ہے ۔
السلام علیکم ورحتمہ اللہ و برکاتہ ایک دو سوالات ذہن میں آ رہے ہیں براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔۔۔ آپ نے فرمایا ۔۔''اس لئے اس کی زیارت کرنا ، اس پر چڑھنا جائز نہیں ہے ـ نماز یا کسی بھی قسم کی عبادت اور دعا کی غرض سے اس کی طرف جانا صحیح نہیں''۔۔کیا ایسا حکم غار حرا کے لئے بھی ہے؟۔۔۔ غار ثور والے واقعہ میں یہ مشہور ہے کہ غار کے منہ پر فاختہ نے انڈے دیئے تھے اور مکڑی نے جالہ بننا تھا یہ بات کہاں تک درست ہے؟۔۔ جزاک اللہ خیرا۔۔۔
محترم بھائ سلمان ثمین خان آپ کی بات کا جواب اسی مضمون میں موجود ہے ۔ یہ صحیحین کی روایت ہے۔ اگر کبوتر کے انڈے دینے اور مکڑی کے جالا بننے والی بات درست ہوتی ہو صحیح احادیث میں اس کا تذکرہ ضرور ملتا۔
اور دین کو بھی وو آج کے عالم سے بہتر سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کی تربیت براء راست نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی
بھائی ۔ یہ واقعہ صحیح ثابت نہیں ۔ مزید تفصیل ۔۔۔۔ غارثور میں مکڑی اورکبوتر کا قصہ - URDU MAJLIS FORUM
بعض ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ غارثور پر موجود ایک پتھر جس کی لوگوں نے عبادت شروع کردی تھی ۔ حکومت سعودیہ کی طرف سے اس پتھر کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے اٹھا کرنامعلوم مقام کی طرف منتقل کردیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ افسوس ہوا ۔ زائرین حج و عمرہ سے گزارش ہے کہ غارثور کی زیارت کے بعد تازہ صورتحال سے اہل مجلس کو ضرور آگاہ کریں ۔