میں پریشان تھا کہ اُسے کس نام سے پکاروں۔ ایک رات میں نے لالٹین سے پوچھا: کیوں بی! تم کو رات بھر جلنے سے کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی؟ بولی:آپ کا خطاب کس سے ہے؟ بتی سے ، تیل سے ، ٹین کی ڈبیہ سے ، کانچ کی چمنی سے یا پیتل کے اس تار سے جس کو ہاتھ میں لے کر لالٹین کو لٹکائے پھرتے ہیں۔ میں تو بہت سے اجزاء کا مجموعہ ہوں۔ لالٹین کے اس جواب سے دل پر ایک چوٹ لگی۔ یہ میری بھول تھی۔ اگر میں اپنے وجود کی لالٹین پر غور کرلیتا تو ٹین اور کانچ کے پنجرے سے یہ سوال نہ کرتا۔ میں حیران ہوگیا کہ اگر لالٹین کے کسی جزو کو لالٹین کہوں تو یہ درست نہ ہوگا اور اگر تمام اجزاء کو ملا کر لالٹین کہوں تب بھی موزوں نہ ٹھہرے گا، کیونکہ لالٹین کا دم روشنی سے ہے۔ روشنی نہ ہو تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مگر دن کے وقت جب لالٹین روشن نہیں ہوتی ، اس وقت بھی اس کا نام لالٹین ہی رہتا ہے۔ تو پھر کس کو لالٹین کہوں۔ جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا ، تو مجبوراًلالٹین ہی سے پوچھا: میں خاکی انسان نہیں جانتا کہ تیرے کس جزو کو مخاطب کروں اور کس کو لالٹین سمجھوں۔ یہ سن کر لالٹین کی روشنی لرزی ، ہلی، کپکپائی۔ گویا وہ میری ناآشنائی و نادانی پر بےاختیار کھلکھلا کر ہنسی اور کہا: ’’اے نورِ خدا کے چراغ ، آدم زاد ! سن، لالٹین اس روشنی کا نام ہے، جو بتی کے سر پر رات بھر آرا چلایا کرتی ہے۔ لالٹین اس شعلے کو کہتے ہیں جس کی خوراک تیل ہے اور جو اپنے دشمن تاریکی سے تمام شب لڑتا بھڑتا رہتا ہے۔ دن کے وقت اگرچہ یہ روشنی موجود نہیں ہوتی لیکن کانچ اور ٹین کا پنجرہ رات بھر ، اس کی ہم نشینی کے سبب لالٹین کہلانے لگتا ہے۔ ’’تیرے اندر بھی ایک روشنی ہے۔ اگر تو اس کی قدر جانے اور اس کو پہچانے تو سب لوگ تجھ کو روشنی کہنے لگیں گے ، خاک کا پتلا کوئی نہیں کہے گا۔‘‘ دیکھو ،خدا کے ولیوں کو جو اپنے پروردگارکی نزدیکی و قربت کی خواہش میں تمام رات کھڑے کھڑے گزار دیتے تھے، تو دن کے وقت ان کو نورِ خدا سے علیحدہ نہیں سمجھا جاتا رہا ، یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی ان کی وہی شان رہتی ہے۔ تو پہلے چمنی صاف کر۔ یعنی لباسِ ظاہری کو گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہونے دے۔ اس کے بعد ڈبیا میں صاف تیل بھر۔ یعنی حلال کی روزی کھا، اور پھر دوسرے کے گھر کے اندھیرے کے لئے اپنی ہستی کو جلا جلا کر مٹا دے۔ اس وقت تو بھی قندیلِ حقیقت اور فانوسِ ربانی بن جائے گا۔ (خواجہ حسن نظامی کے مضمون سے اقتباس)
خواجہ حسن نظامی سلسلہ چشتیہ کے صوفی، خواجہ نظام الدین کے عقیدت مند اور خود بھی درگاہ سے وابستگی کے سبب پیری مریدی کا سلسلہ رکھتے تھے۔ اردو زبان میں ان کی تحاریر جہاں صوفیت کا پرچار کرتی نظر آتی ہیں وہیں غلط عقائد کو پھیلانے کا باعث بھی ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس تحریر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ انتہائی خطرناک بات کو عقیدہ بنا کر کس طرح عام مسلمان کے ذہن میں ڈالتے ہیں کہ وہ عبادت گذار اولیا کو اللہ کے نور سے الگ نہیں سمجھتے حالانکہ اللہ وہ ہے جس کا نہ ذات میں کوئی شریک ہے اور نہ صفات میں۔ اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ مرنے کے بعد بھی خدائی میں ان کا تصرف برقرار رہتا ہے۔ رہی بات ساری ساری رات کھڑے ہو کر عبادت کرنا تو عبادت وہی مقبول ہے جس پر شریعت محمدی کی مہر ہو۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ بڑا کون عبادت گذار ہو سکتا ہے جو رات کو سوتے بھی تھے، عبادت بھی کرتے، اور ازدواجی تقاضے بھی پورے کرتے۔
بلاشبہ یہ تزکیہ کا ایسا طریقہ ہے جو کہ نا تو انبیاء نے اختیار کیا اور نا ہی آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے!.جس رب کی عبادت ہم کرتے ہیں وہ اپنی تمام مخلوقات سے الگ ساتویں آسمان کے اوپر عرش پر اس طرح بلند ہوا ہے. جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے.الحمد للہ رب العالمین اللہ سبحانہ و تعالی نے بندےکو صرف اپنی عبادت، اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے. انبیاء و رسل بھیج کر تزکیہ کا طریقہ بھی بتایا ہے.انسان کی منزلت، مرتبہ، مقام اسی میں ہے کہ وہ اللہ کا بندہ بن کر رہے. فنافی اللہ نا ہو. نا ہی فانوس ربانی بننے کی کوشش کرے.مومن کے ایمان ودین کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم و صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کرے کیونکہ ان کے طریقہ پر نجات ہے.
آج کل لوگ صفی اِزم کا بہت پرچار کرتے ہیں مجھے اس بارے علم نہیں نہ ہی صوفیت کے معاملات سے واقف ہوں ۔دینی علم میرا وسیع نہیں ہے اِ سے جب پڑھا تھا تو جہاں نشاندہی کی گئی ہے طرح طرح کے سوالات آ رہے تھے ذہن میں مجھے کشمکش سی تھی جن کی وضاحت آپ سب نے کر دی ہے اسی مقصد سے اسے شئیر کیا گیا تھا ۔ رہنمائی اور اصلاح کے لیے بہت بہت شکریہ اللہ پاک جزائے خیرعطا کرے آمین
اللہ ہمیں ہدایت دے. سسٹر.ان موضوعات کا مطالعہ مفید رہیے گا، تصوف کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کی حقیقت جانے بغیر اس سے بچنا نا ممکن ہے. http://www.urdumajlis.net/threads/2398/#post-54759 http://www.urdumajlis.net/threads/39737/#post-503060 http://www.urdumajlis.net/threads/29311/ http://www.urdumajlis.net/threads/3845/ http://www.urdumajlis.net/threads/20388/ http://www.urdumajlis.net/threads/35321/#post-475333 http://www.urdumajlis.net/threads/5866/#post-144617 http://www.urdumajlis.net/threads/2005/ http://www.urdumajlis.net/threads/500/#post-13580
اس کیلئے مندرجہ ذیل موضوع کا مطالعہ بھی مفید رہے گا إن شاءالله اولیاء اللہ کی پہچان و مقام ، اسلام اور صوفیت و بدعت
جس طرح دین کی بات سیکھنا بڑے ثواب کا کام ہے اسی طرح کسی کو دین کی بات سکھانا اس سے بھی زیادہ فضیلت کا عمل ہے۔ بشرطیکہ اس کا مقصد اپنا علم جتانا اور بڑائی ظاہر کرنا نہ ہو بلکہ دوسرے کو فائدہ پہنچانا مقصود ہو۔ بہت شکریہ جزاک اللہ خیرا
کیا یہ خاموش پیٖغام ہے ؟ کیا ایسا محسوس ہوا کہ کوئی علم جتا رہا ہے ۔ یا بڑائی ظاہر کررہا ہے ؟ یا تنبیہ ہے ؟
اچھا. کوئی بات نہیں. جزاک اللہ خیرا. ایسی بات کا یہ موقع محل نہیں تھا. اس لیے پوچھ لیا. دینی موضوعات میں تعریف سے زیادہ دعا اہمیت رکھتی ہے ۔