معاشرے میں‌پھیلی ہوئی ہندووانہ بدشگونیاں اور ماہ صفر۔۔۔

اہل الحدیث نے 'ماہِ صفر' میں ‏جنوری 15, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    معاشرے میں پھیلی ہوئی ہندووانہ بدشگونیاں اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنا​


    اعداد: ابو عقاب، ابو کشف

    مشہور ہے کہ ایک بادشاہ صبح سویرے شکار پر جارہا تھاکہ اس نے راستے میں ایک سیاہ فام صورت حبشی کو گزرتے ہوئے دیکھا اور جب وہ شکار سے واپس خالی ہاتھ آیا تو اس نے حکم جاری کردیا کہ اس حبشی کو جو صبح راستے میں ملا تھا‘ فوراً گرفتار کرکے میرے دربار میں پیش کیا جائے۔ حبشی کو گرفتار کرکے بادشاہ کے روبرو کردیا گیا تو اس نے بادشاہ سے اپنی گرفتاری کی وجہ پوچھی۔ بادشاہ نے کہا’’ تو آج میرے ہاتھوں قتل ہوگا‘ اس لئے کہ تم ایک منحوس اوربدصورت شخص ہو۔ صبح تم پہلے شخص تھے جو مجھے راستے میںملے اور تمہاری اسی نحوست کے زیر اثر میں شکار کی مہم میں خالی ہاتھ لوٹا ہوں لہٰذا کیوں نہ تیرا سر قلم کردیاجائے۔ حبشی نے عرض کی’’بادشاہ سلامت! گستاخی معاف۔ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ میں آج علی الصبح جب گھر سے نکلا تو مجھے جو شخص سب سے پہلے نظر آیا وہ آپ ہی کی ذات شریف تھی اور اس وجہ سے آج میرا سر قلم ہورہا ہے۔فیصلہ آپ پر ہے کہ منحوس میں ہوں یا کہ آپ ؟ بادشاہ لاجواب ہوگیا اور اسے فوراً رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
    یہ سبق آموز قصہ اس لئے دیا گیاہے تاکہ معاشرہ میںپھیلی ہوئی جہالت کی تردید کی جا سکے کہ ذرا سی ناگوار صورت حال پر بدشگونی کا فوری اظہار کردیاجاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے فلاں منحوس سے ٹاکرا ہوگیا تھا‘ عورتیں‘ عورتوں کے متعلق اس طرح کے الفاظ کہتی پائی جاتی ہیں فلاں کلمونہی‘ بڑی منحوس ہے۔ یہ پریشانی‘ مصیبت اس سے ملاقات کی وجہ سے پیش آئی ہے۔کچھ لوگ کالی بلی کو راستے میں دیکھ کر کام نہ ہو سکنے کی بدفالی لے کر واپس ہوجاتے ہیں کہ اب کام نہیں ہوسکے گا۔
    بدشگونی کو فال بد یا بری فال لینا بھی کہتے ہیں۔ شریعت میں بدفالی کرنے کی ممانعت جبکہ نیک فال لینا سنت ہے۔ (بخاری‘ 5755) مثلاً صلح حدیبیہ کے وقت جب کافروں کے نمائندے سہیل بن عمرو (جو بعد میںمسلمان ہوگئے تھے اور اس وقت شدید مخالف اسلام تھے) مذاکرات کے لئے آئے تو آپ  نے ان کے نام سے سہل یعنی آسانی پیدا کرنے والے کا نیک شگون لیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ قربانی والے جانوروں کو ان کے سامنے کرو تاکہ انہیںمعلوم ہوسکے کہ ہم لڑائی کے لئے نہیںبلکہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے آئے ہیں اور پھر واقعی معاہدۂ صلح طے پاگیا۔ بظاہر مشکل اور کڑی شرائط کا سامنا کرنا پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مبین قرار دیا اور اس کے بعد اسلام کی نشرو اشاعت انتہائی وسیع پیمانے پر ہوئی اور وہی ناگوار وکڑی شرائط ہی بالآخر کفار مکہ کے گلے میں ہڈی ثابت ہوئیں اور ان شرائط کو واپس لے لیا گیا اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ مسلمان مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور مشرکین و کفار کا خانۂ کعبہ میں داخلہ منع قرار دے دیا گیا۔ اسلام دیکھتے ہی دیکھتے جزیرۃ العرب پر چھا گیا اور پھر بین البر اعظمی جہادی اور دعوتی دستے افریقہ‘ ایشیا اور یورپ کی دہلیز تک پہنچ گئے۔
    نظر بد سے بچائو کے لئے’’ نظربٹو ‘‘الٹی ہنڈیا اور دیگر خرافات
    جن کی نظر روحانی ترقی کی بلندیوں پر ہونی چاہئے‘ آج وہ نظر بٹو کے ذریعے سلامتی کے چور راستے تلاش کر رہے ہیں۔ عجیب جہالت و خرافات و خرابات ہے کہ نئی کار‘ نیا رکشا‘ نئی بس یا ٹرک کے آگے یا پیچھے رسی کے ساتھ چھتر (جوتا) باندھنا نہیںبھولتے اور’’جوتا جو چل نکلا‘‘ کے مصداق‘ یہ چلتا ہی جا رہا ہے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کیا ہے تو جواب ملتا ہے’’تمہیں پتہ ہے کہ یہ نظر بٹو ہے اور اس طریقہ سے نظر نہیںلگتی۔
    ایسے’’ نظر بٹو‘‘ کا اسلام میںقطعاً تصور نہیں ہے۔ یہ سب ہندؤوانہ اثرات ہیں۔ عجیب لطیفہ ہے کہ کوٹھیوں پر کروڑوں خرچ کرکے اس کے اوپر الٹی ہانڈیاں رکھی ہوتی ہیں جو نظر بٹو کاکام کر رہی ہیں۔ نظر بد یقینا حق ہے مگر اس کا علاج بھی تو رسول اللہ نے بتا ہی دیا ہے۔ صبح و شام کے اذکار کے علاوہ نظر بد کا دم علیحدہ سے موجود ہے اور وہ یہ ہے ۔[font="al_mushaf"]
    أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ (بخاری)

    کئی اذیت پسند جاہلوں کو حسد میں اتنی زیادہ رسائی او رپہنچ ہوتی ہے کہ وہ اپنی نظر لگانے کی حس کو بڑھانے کے لئے شیطانی راہ پر لگ جاتے ہیں اور وہ علاقے میں نظر بد لگانے میںمعروف ہوجاتے ہیں۔ حسد کو پالنا‘ بڑھانا شیطان کی معیت کاباعث ہوتا ہے جس سے شیطان ایسے شخص کو جادو کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے(شیطان پہلا حسد کرنے والا تھا‘ اس نے آدم کی خلافت ارضی کی حیثیت پرحسدکی وجہ سے انہیں اپنے آپ سے حقیر قرار دیاتھا) معاشرہ میں ان نظر لگانے والوں کی دہشت و ہیبت پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ ان سے بہت خائف رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی جاہلانہ سوچ کے زیر اثر کوٹھیوں پر ہانڈیاں الٹی رکھ چھوڑتے ہیں اور گاڑیوں کے ساتھ چھتر باندھتے پھرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے جو نعمت دی ہے‘ اس پر ماشاء اللہ لاقوۃالا باللہ پڑھنا اور لکھنا چاہئے۔
    بچوں کو نظر بد سے بچائو کے لئے تعویذ گنڈے کا سہارا لیا جاتا ہے حالانکہ مسنون دم کافی ہے‘ تعویذ گلے میں ڈالنا تو ویسے ہی گمراہی اور ممنوعہ امور میں سے ہے۔ فرمان رسول اللہ ہے[font="al_mushaf"]
    مَنْ عَلَّقَ تَمِیمَۃً فَقَدْ أَشْرَکَ۔(مسند احمد) [/font]
    جس نے گلے میں تمیمہ لٹکایا‘ اس نے شرک کیا۔
    تمیمہ کے کئی معانی کئے گئے ہیں۔ کوڑیاں‘ منکے (موٹے موتی‘ گھونگے اور تعویذ لکھے ہوئے چاہے کچھ بھی لکھا ہوا ہو) تعویذ لکھنالکھوانا سنت سے ثابت ہی نہیں ہے۔
    بچہ مسکرائے یا بڑا مسکرائے تو پڑھنا چاہئے اضحک اللہ سنک۔ اللہ تجھے مسکراتا رکھے۔ اگر ویسے کوئی اچھا لگے تو دعا دینی چاہئے ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ۔
    دم میں سورۃ فاتحہ‘ آیۃ الکرسی‘ سورہ بقرہ کی آخری دو آیات‘ آخری تینوں قل یہ بہترین دم ہیں۔نظر بد کے بارے میں کچھ لوگوں نے یعقوب علیہ السلام کے اس قول کو دلیل بنایا ہے جو انہوںنے اپنے بیٹوں سے ان کی مصر روانگی کے وقت کہی تھی۔ ’’اے میرے بیٹو! تم ایک ہی دروازے سے نہ داخل ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا اور میں اللہ کا حکم تم سے ذرا بھی نہیں ٹال سکتا۔ حکم تو اللہ ہی کا ہے اور اسی پر میں بھروسہ کرتا ہوں۔اس کی تفسیر مولانا داؤد راز نے یوں کی ہے کہ برادران یوسف پہلی مرتبہ مصر میں مسافروں کی حیثیت سے گئے تھے اور بلا امتیاز مصرمیں داخل ہوگئے تھے لیکن اب کے صورتحال تبدیل تھی کہ یوسف علیہ السلام کی خاص توجہات و التفات کو دیکھ کر یقینا وہاں کے لوگوں کی نظریں ان کے سامنے اٹھنے لگی ہوں گی۔ اب دوبارہ جاناخاص شان و اہتمام سے تھا بلکہ کہنا چاہئے ایک طرح سے امیر مصر یوسف علیہ السلام کی خصوصی دعوت پر تھا۔ یعقوب علیہ السلام ‘یوسف علیہ السلام کے بعد ان کے بھائی بنیا مین سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ وہ بھی ان بھائیوں کے ساتھ تھے۔ یعقوب علیہ السلام کو خیال گزرا کہ ایک باپ کے گیارہ وجیہہ وخوش رو بیٹوں کا اس خاص شان سے بصورت اجتماعی شہر میں داخل ہونا ایسی چیز ہے جس کی طرف عام نگاہیں ضرور اٹھیں گی۔
    نظر بد لگ جانا‘ ایک حقیقت ہے۔ یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کو نظر بد اور حسد وغیرہ مکروہات سے بچانے کے لئے یہ ظاہری تدبیر تلقین فرمائی۔ (موضح القرآن) مولانا مودودی نے اس دور کے مصر کے ملکی حالات کو اس تدبیر کا سبب بیان کیا ہے اور یعقوب علیہ السلام نے جو گھیر لئے جانے کااندیشہ ظاہر کیا تھا‘ اس لئے کہ کہیں انہیں خطرناک جتھہ سمجھ کر غلط فہمی میں آکر کوئی گزند پہنچانے کی کوشش نہ کر بیٹھے۔ قابل توجہ بات تو اس قصہ میںیہ ہے کہ اس تدبیر کے باوجود پیغمبر  نے اللہ کے حکم و مشیت اور اپنی بے بسی کا اقرار اور اللہ پر توکل کا اظہار کیا لیکن اس قصہ میں نظر بٹو کا کہیںبھی ذکر نہیں ہے۔
    اب توکل کی تعریف اس شعر سے سمجھئے۔
    توکل اس کو کہتے ہیں کہ خنجر تیز رکھ اپنا
    انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر​
    نظر بٹو رکھنے والے لوگوں کو اللہ پر توکل و بھروسہ رکھنا چاہئے۔ ان بناوٹی سہاروں سے بچائو نہیں ہوسکے گا۔ صبح و شام کے اذکار مسنونہ ‘ استعاذہ کی دعائیں یاد کرکے صبح و شام پڑھ لیا کریں۔ اللہ کی حفاظت کے جلو میں زندگی کا لطف اٹھائیں۔ تو ہم پرستی ‘ وہم و گمان اور بے جا خوف کی بجائے ایمان و ایقان کی راہ پہ آئیں۔ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائیں۔ اللہ سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں۔
    (برج) ستارہ پرستی‘ آپ کا یہ ہفتہ کیسے رہے گا؟
    کئی گمراہ اور ایمان کے لٹیرے عامل بڑے بڑے اشتہارات میںلوگوں کو لالچ دیتے ہیں کہ فلاں ستارہ جب فلاں برج میں ہوگا تو فلاں عامل صاحب اس ’’شبھ گھڑی‘‘ ( ساعت سعد ) میں خصوصی جاپ‘ منتر یا عبادت و وظائف کرکے انگوٹھی دم کردیں گے تو سارے معاملات کی درستگی ہوجائے گی۔ مقدمہ میں جیت‘ پسند کی شادی‘ محبت میں کامیابی اور فلاں فلاں کاموں کے لئے یہ مجرب و کامیاب عمل ہے۔ پھر اس انگوٹھی کی بھاری قیمت وصول کرتے ہیں۔ نجومیوں اورکاہنوں کا شیطان سے رابطہ ہوتا ہے یہ مشرک لوگ شعبدہ بازی کو کرامت مشہور کرکے عوام کو لوٹتے ہیں۔ یہ سب خرافات ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت اپنے بندوں کی سنتا ہے‘ جب بھی اسے پکاریں‘ وہ پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہے۔ یہ عامل لوگ خود گمراہ ہوتے ہیں ا ور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے پھرتے ہیں جبکہ لوگ ہیںکہ ان پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ بعض نادان بڑے فخر سے ایک دوسرے کو اپنا ستارہ بتاتے ہیں بلکہ اب تو عام مشاہدہ ہے کہ طلباء و طالبات ایسے برجوں والے امتحانی گتے خریدتے ہیں تو یہ سب شوق فضول کی دھول ہیں۔
    کچھ اخبارات و رسائل ہیںکہ انہوںنے مستقل کالم اسی شرک کی تبلیغ کے لئے وقف کیا ہوتا ہے جس میں بارہ برجوں کے حساب سے ’’آپ کا یہ ہفتہ کیسا رہے گا؟کے عنوان سے کچھ نجومی یا عامل‘ لوگوں کو گول مول اور کاہنوں کے سے انداز میں توقعات و خدشات اور جھوٹی خواہشات کی تکمیل کی خوشخبریاںدیتے ہیں۔ ٹی وی چینلز بھی اس شرک کی آگ کو دن رات پھیلا رہے ہیں۔ کسی مشہور شخصیت یا کھلاڑی یا ایکٹر وغیرہ کا انٹرویو کریں گے تویہ سوال بھی لازمی ہوتا ہے کہ آپ کا سٹار کیا ہے‘ آپ کو پتھر یا نگینہ کون سا پسند ہے وغیرہ ‘تو یہ سب ستارہ پرستی یا بت پرستی وشرک ہی کی اقسام میںسے ہیں۔
    رسول ا للہ نے حدیبیہ کے مقام پر فجر کی نماز پڑھائی تو فارغ ہوکر صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف رخ انور پھیرا اور فرمایا تمہیںکچھ علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایاہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم عرض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپ  نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آج صبح میرے بہت سے بندے مومن ہوگئے اور بہت سے کافر ‘ لہٰذا جس نے کہا کہ یہ بارش (گزشتہ رات والی) اللہ کے فضل و کرم سے ہوئی‘ وہ مجھ پر ایمان لایا اور اس نے ستاروں سے کفر کیا اور جس نے یہ کہاکہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی‘ اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستارے پر ایمان لایا( صحیح بخاری:846) رسول اللہ نے عقیدہ کی اصلاح فرمائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی اصلاح کرلی… مگر ہم کب توبہ اور اپنی اصلاح کرنے والے بنیں گے؟ مسلمان تو توحیدکی دعوت دینے والا اور شرک کا خاتمہ کرنے والا ہوتا ہے جبکہ آج معاملہ برعکس ہوا جا رہا ہے۔
    صفر کے مہینے کے متعلق بدشگونیاں

    بعض لوگ ماہ صفر یعنی اسلامی سال کے دوسرے مہینہ کو منحوس خیال کرتے ہیں۔ انہیں یہ بدگمانی ہے کہ اس مہینے میں برکت نازل نہیںہوتی اور یہ کہ اس میں آفات و مصائب اور بلیات نازل ہوتی ہیں۔ ان لوگوں میں سے بعض کے نزدیک اس کے پہلے تیرہ دن بڑے تیز یعنی سختی لئے ہوتے ہیں ۔ اس بارے میں ان میںایک اصطلاح تیرہ تیزی کی ہے۔ ان کا عقیدہ ہوتا ہے کہ ان دنوں میں شادی نہ کی جائے اور نہ ہی کسی نئے کاروبار کو اختیار کیاجائے۔ ان فاسد عقائد و خیالات کا اسلام میںتصور تک نہیںہے۔ نبی  نے فرمایا۔
    لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ وَلَا ہَامَۃَ وَلَا صَفَرَ (بخاری 5707)
    ترجمہ: کوئی بیماری متعدی نہیں ہے (یعنی ایک سے دوسرے کو نہیں لگ سکتی۔) نہ بدشگونی ہے‘ نہ بدفالی اور صفر کا مہینہ منحوس نہیںہے اور نہ ہی مقتول کے سر میں سے کوئی الو نکلتا ہے۔
    جاہلیت کے دور میں عربوں کے ہاں یہ تصور تھا کہ جب تک مقتول کا انتقام نہ لیا جائے‘ اس وقت تک مقتول کی روح بھٹکتی پھرتی ہے اور یہ کہ مقتول کی کھوپڑی سے الو نکلتا ہے جو کہ نحوست کا باعث ہوتا ہے تو اسلام نے ان بدشگونیوں کی تردید کی ہے۔ صفر کے مہینہ میںنحوست کی تردید میں سات احادیث وارد ہیں۔ (مسندامام احمدبن حنبل حدیث نمبر2299 حدیث نمبر15161 حدیث نمبر8916 ابن ماجہ حدیث نمبر3529 ابودائود حدیث نمبر3412 مسلم شریف حدیث نمبر4116 بخاری شریف حدیث نمبر5278)
    ماہ صفر کا آخری چہار شنبہ
    کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ) کو نبی  صحت یاب ہوگئے تھے اور آپ  نہائے دھوئے اور باہر تشریف لائے تھے۔ اس نسبت سے اس دن خوشی کا اہتمام کیا جاتا ہے حالانکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخری چہار شنبہ کو آپ  کے مرض کا آغاز ہوا اور اسی مرض میں آپ 12 ربیع الاول سوموار کے دن وفات پاگئے۔ لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگ آپ  کی بیماری اور وفات کے ان دو دنوں میں صحت یابی اور پیدائش کے جشن مناتے ہیں۔
    نحوست و بدشگونی کی شرعی حیثیت
    بدفالی کے لئے عربی میں طِیَرَۃُ کا لفظ آتا ہے تو حدیث میںہے ’’الطِّیَرَۃُ شِرْکٌ‘‘ کسی چیز کومنحوس قرار دینا شرک ہے‘ (شرح السنۃ 169/12) پہلے دورمیں ایک بدبخت قوم گزری جس نے اپنے پیغمبروں کو نعوذ باللہ نحوست کاسبب قرار دیا تو پیغمبر علیہم الصلوۃ والسلام انہیںجواب دیتے ’’قَالُوا طَائِرُکُمْ مَعَکُمْ ‘‘ (یس: 19)تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہی ہے۔ یعنی تمہارے منفی رویے ‘ نافرمانی‘ بغاوت‘ شرکیہ اعمال اور عقائد باطلہ کے باعث اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ ایک حدیث ہے۔
    [font="al_mushaf"] وَإِیَّاکَ وَالْمَعْصِیَۃَ فَإِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ(مسنداحمد)[/font]
    لوگو !اپنے آپ کو ہر گناہ اور نافرمانی سے بچائو کیونکہ معصیت کی بناء پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور اس کی ناراضی اترتی ہے۔ چنانچہ انسان کیلئے نحوست اس کے اپنے گناہوں کے سبب ہوتی ہے کوئی وقت اورکوئی مہینہ منحوس نہیںہوتا۔

    نحوست کے سد باب کے باطل طریقے


    بارش نہ ہونے پر بوڑھوں پر پانی پھینکنا

    (الف) مزعومہ نحوست دور کرنے کے لئے جاہل لوگ عجیب و غریب رسوم میں مبتلا ہیں‘ ان رسوم سے ان کا یہ عقیدہ وابستہ ہوتا ہے کہ اس طریقہ سے یہ نحوست دور ہوجائے گی مثلاً بارش نہ ہوتی ہو تو عام رواج چل نکلا ہے کہ بوڑھوں کے اوپر پانی پھینکا جاتا ہے۔ اچانک پانی پھینکنے سے بعض اوقات لوگ گھبراہٹ میں ہذیان بکنے لگتے ہیں۔ جہلاء سمجھتے ہیں کہ اس طریقہ سے بارش ہوجائے گی اور امساک باراں کی مصیبت دور ہوجائے گی حالانکہ یہ رسم بدھ ازم کی عکاس ہے۔ ہندو ہولی میں رنگ پھینکتے ہیں‘ بدھسٹ پانی پھینکتے ہیں ا ور مسلمان ان کی نقالی کر رہے ہیں حالانکہ یہ نقالی انتہائی سنگین غلطی ہے۔ فرمان رسول ہے
    [font="al_mushaf"]مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ[/font]
    جو کوئی کسی قوم کی مشابہت اپنائے‘ وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔( ابودائود ‘ ترمذی‘ مسند احمد)

    جاری ہے۔۔۔[/font]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا.
     
  3. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا.
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا ۔ ہو سکے تو اس کو مکمل کر دیں ۔
     
  5. ام محمد

    ام محمد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 1, 2012
    پیغامات:
    3,120
    جزاکم اللہ خیرا
     
  6. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    جزاک اللہ خیرا
     
  7. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  8. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا۔
     
  9. بنت امجد

    بنت امجد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 6, 2013
    پیغامات:
    1,568
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں