بچوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کریں

سعیدہ شیخ نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏دسمبر 16, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
    ہر انسان کے ماضی کی کچھ نہ کچھ یادیں ہوتی ہے۔ جو اس کے لئے بہت قیمتی اثاثہ ہوت ی ہیں۔ جہاں گزرے ہوئے حسین اور خوشگوار لمحات ہوتے ہیں، وہی کچھ تلخ یادیں بھی ہوتی ہیں۔
    ہر انسان کا بچپن بہت ہی یادگار ہوتا ہے اور وہ یادیں اس کے ذہن میں اس طرح نقش ہوجاتی ہیں کہ وہ اسے زندگی بھر بھول نہیں پاتا۔ دراصل یہی وہ دور ہوتا ہے جب والدین اور اولاد میں بہت زیادہ قربت اور اپنائیت رہتی ہے، خاص کر ماں کی محبت، شفقت اور لاڈ پیار بچپن میں کچھ زیادہ ہی رہتا ہے۔ جو بچے کی کل دنیا ہوتی ہے۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے وہ اپنی ہر بات والدین سے شئیرکرتا ہے اور کبھی کبھار نہ چاہنے کے باوجود بھی مجبورًا والدین کو اس کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔
    لیکن بچے سے اگر کویٔ غلطی ہوجاۓ یا کچھ غلط حرکت ہوجاۓ تو والدین اس کے اس عمل کو قبول ہی نہیں کر پاتے اور ناراض ہو جاتے ہیں۔ مثلًا اگر بچہ والدین سے آ کر کہے کہ میں ایک سبجکٹ میں فیل ہوگیا ہوں یا مجھ سے کچھ غلطی ہو گئی ہے۔ تووالدین کا جو ردعمل ہوتا ہے وہ بچے کی توقع کے خلاف ہوتا ہے۔مثلًا یہ کہ " تم اتنے نالائق ہو کہ کسی کام کے نہیں، دوسرے بچوں کو دیکھو کتنے اچھے ہیں۔ اپنے والدین کا نام روشن کر رہے ہیں" وغیرہ وغیرہ۔ والدین کا یہ رویہ اور جملے بچوں کی دل آزاری کرتیں ہیں۔ اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر مجھ سے کویٔ غلطی ہو جاۓ تو اسے ظاہر نہ کیا جاۓ۔

    والدین کے اس رویے کو دیکھتے ہوۓ بچہ اب بہت سی باتیں والدین سے شیٔر نہیں کرتا اور والدین یہ گمان کرتے ہیں کہ بچہ اب غلط کام نہیں کررہا یا کوئی غلطی نہیں کر ہا ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بچے سے اب بھی غلطی ہوتی ہے۔ "مگر اس نے اب بتانا بند کردیاہے"۔ اس طرح والدین اور اولاد میں خلیج بڑھتی جاتی ہے۔

    آپ يہ جان ليں كہ نہ تو بچوں كى تربيت شدت اور سختى سے كى جا سكتى ہے اور نہ ہى اس ميں سستى و كوتاہى ہو سكتى ہے.

    علماء كرام سے جب سوال كيا گيا کہ بچوں کی تربیت کس طرح کی جائے۔

    تو علماء كا جواب تھا:

    " اولاد كى تربيت ميں كاميات ترين طريقہ يہ ہے كہ: اس ميں ميانہ روى اختيار كى جائے جس ميں نہ تو افراط ہو اور نہ ہى تفريط چنانچہ اس ميں نہ تو شدت ہونى چاہيے اور نہ ہى سستى و اہمال اور بےپرواہى"۔

    بلاشبہ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے۔ ہر بچے کے کچھ نہ کچھ خواب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر چیز اپنے ماحول سے متاثر ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح بچہ بھی اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ اور جو لہر (viberation / vibes) چاروں طرف دوڑ رہی ہے۔ اس کا رحجان پیدا ہونا غلط نہیں ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اس لئے کہ بچوں کو اکثر نئے نئے تجربات کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ انہیں سمجھائیں کہ تم صحیح ہو۔ تم اچھے ہو۔ مگر جو تم کرنا چاہ رہے ہوں وہ تمہارے لئے غلط ہے۔

    ؎ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ لب پہ آ سکتا نہیں
    محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

    یہ اسی وقت ممکن ہے جب اولاد اور والدین کے ردمیان دوستانہ رشتہ ہو اور بچہ والدین کو اپنی ہر بات بلا جھجک بتاتا ہو۔ اکثر وبیشتر والدین کا رویہ بہت ہی سخت ہوتا ہے اور بچہ خوف سے نہیں بتاتا کہ اگر بتایا تو والدین کو غصہ آجائے گاا اور اس کی بات کو مسترد (rejection) کر دیا جائے گا۔ لیکن اگر یہی والدین تصویر کے دوسرے رخ کو بھی دیکھیں تو انھیں احساس ہوگا کہ اگر بچے نے ہمیں نہیں بتایا تو وہ کہیں اور سے رہنمائی حاصل کرے گا جو اس کے لۓ بری اور نقصان دہ ثابت ہو۔

    دراصل والدین کے رویے سے بچے دور ہو جاتے ہیں۔ اور پھر یہی والدین بچوں کو لے کر پریشان رہتے ہیں کہ بچہ ہماری بات نہیں مانتا۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ اولاد ان کی سب بات مانے تو والدین کو چاہیئے کہ ان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا رویہ اپنائیں۔ انھیں اپنی بات پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ والدین اپنے دور کو یاد کریں کہ وہ عمر کے اس دور میں کیسے تھے۔ بچوں کو اپنی عینک سے نہ دیکھیں بلکہ ان کی عینک سے دیکھیں۔

    ایک بات یاد دکھیں کہ غلطی ہر بچے سے ہو سکتی ہے اور بڑوں سے بھی۔ غلطی کو سدھارا بھی جا سکتا ہے۔ مگر اکثر والدین اس کو نا قابل معافی جرم سمجھتے ہیں۔ بھلے سے والدین کیسے ہی کیوں نہ ہوں وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد نیک صالح اور پرفیکٹ ہو۔ لہٰذا والدین کو چاہیئے کہ وہ بچوں کی غلطی کو سدھارنے کی کوشش کریں نہ کہ ان کے ساتھ حقارت یا نفرت کا برتاؤ کریں ،اور ان سے تعلقات کو مضبوط کریں۔

    بالفرض اگر کوئی دلدل میں گر جاتا ہے تو کیا ہم اسے وہی چھوڑ دیتے ہیں؟ نہیں نا ! اسے وہاں سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نفرت گناہ سے کریں نہ کہ انسان سے۔ اس لئے کہ ہر انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے۔ ہر انسان سے غلطی اور خطا ہوسکتی ہے اور اکثر ہوتی رہتی ہیں۔

    بالکل اسی طرح اگر بچے سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔ مگر اکثر والدین بات چیت کرنا بند کر دیتے ہیں اس طرح وہ دوری بڑھتی جاتی ہے۔ اس پریشانی سے باہر آنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ کسی کاؤنسلر یا سایٔیکولوجسٹ کے پاس بچے کو لیجایا جاۓ۔دراصل کاونسلر اور والدین میں جو نمایاں فرق ہے۔ وہ یہ کے کاونسلر بچہ کی بات کو قبول کرتا ہے اور نرم رویہ کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اسی لئے بچہ ایک اجنبی کے ساتھ اپنی بہت سی باتیں شیئر کرتا ہے۔ مگر اپنے مسائل والدین کو نہیں بتاتا۔ آخر کیوں؟

    اس لئے کہ کاونسلر بچے کے متعلق کوئی تنقیدی رائے قائم نہیں کرتا ہے نہ ہی بچہ کی کوئی تذلیل کرتاہے۔
    (Non-judgmental or non-critical view)
    بلکہ اس کی ہر بات کو خوش دلی سے سنتا ہے۔اور پھر بچے کو محبت سے سمجھاتا ہے۔ اسی لئے آج اسکول ہو، کالج ہو، تعلیمی ادارہ ہو یا دفتر ہو، ہر جگہ آپ کو کاونسلر، سائیکٹرسٹ، سائکولوجسٹ موجود نظر آتے ہیں۔اس لئے کہ اب یہ لازم ہو چکا ہے۔ماضی میں اس طرح کا چلن کبھی نہیں تھا۔ اگر ہم اپنا دور یاد کریں تو اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں ہوتا تھا۔ آج یہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے کیونکہ زمانہ جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رشتوں میں وہ نزدیکیاں باقی نہیں رہیں بقول شاعر

    ؎ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی
    حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

    آج کے دور میں انٹرنیٹ، موبائل، گوگل یہ ساری چیزیں بچوں کو آسانی سے دستیاب ہیں۔ معلومات کا خزانہ ہے۔ مگر اس میں کیا چیزیں صحیح ہیں کیا غلط ہیں؟ بچے چونکہ ناسمجھ ہوتے ہیں اس لئے سمجھ نہیں پاتے۔ اسی لئے والدین کا فرض ہے کہ ان کی رہنمائی کریں اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب اولاد اپنے والدین کو اپنا دوست اور مینٹر سمجھے۔ آج کے دور میں اگر آپ اپنے بچے کو غلط اثرات سے بچانا (protect) چاہتے ہیں تو آپ اس کے سب سے بہترین دوست بنۓ۔ آپ جو بھی مشورہ اور نصیحت کریں گے وہ ان پر اثر کرے گی۔

    والدین اور اولاد کے درمیان تعلقات کا انحصار ایک دوسرے کے ساتھ پیش آنے والے رویوں پر ہوتا ہے۔ جو رشتے کی نوعیت کے ضامن ہوتے ہیں۔ اور دونوں کے درمیان موجود تعلقات کے معیار کو متعین کرتے ہیں۔ اور اگر خوشگوار اور صحت مند تعلقات ہوتے ہیں تو ہر چیز صاف شفاف (transparent ) ہوگی۔ اور پھر ان کے گمراہ ہونے اور غلط راستوں پر جانے کے امکانات کم ہوتےہیں۔ اس لئے کہ والدین سے بڑھ کر بچے کا کوئی خیر خواہ نہیں ہو سکتا ہے۔ ماں باپ ہی ہیں جو اس کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ بچے کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کے لئے قربانی دیتے ہیں۔ اور اس کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں۔ اکثر والدین غصے میں کبھی کبھار بد دعا لڑ دیتے ہیں۔ یاد رکھے ! بچوں کے حق میں والدین کی دعا ہو یا بددعا، دونوں ہی اللہ رب العزّت کے ہاں بہت جلد شرفِ قبولیت حاصل کرلیتی ہیں، لہذا اپنے آپ کو ان کی بد دعا سے ہرممکن بچانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہر اولاد کو اچھے اخلاق وکردار کا حامل بنا اور ان کے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔ آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 5
    • متفق متفق x 1
    • معلوماتی معلوماتی x 1
    • مفید مفید x 1
  2. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا سسٹر۔
    جی سسٹر متفق!۔ بچوں کو ایسا ماحول دینا بہت ضروری ہے جہاں وہ آپ سے ڈریں نہیں بلکہ وہ آپ کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھیں۔ اس طرح ایک تو وہ آپ سے کچھ چھپائیں گے نہیں اور دوسرے آپ ان کی اچھی طرح رہنمائ کر سکتے ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • متفق متفق x 1
  3. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    بہت عمدہ۔
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  4. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    جزاک اللہ خیرا، بچوں کی تربیت میں اہم کردار والد کا ہوتا ہے. بیس سال کی عمر تک اگر والد کابچوں کے ساتھ مشفق دوست، بھائی جیسا تعلق رہے تو اس کے بعد کی عمر والدین کو دعائیں دیتے ہوئے گزرے گی. لیکن یہ جہد مسلسل ہے. آسان نہیں..اللہ عزوجل والدین کو توفیق دے.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  5. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
  6. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا، بہت عمدہ!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا۔ بہت اہم موضوع ہے۔
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں