نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کا حکم

مقبول احمد سلفی نے 'ماہِ شعبان المعظم' میں ‏اپریل 9, 2019 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کا حکم

    مقبول احمد سلفی
    اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف -مسرہ

    بعض حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ پندرہ شعبان کے بعد روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور بعض احادیث نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے پہ دلالت کرتی ہیں جن کی بدولت عام آدمی کو یہ الجھن ہے کہ صحیح موقف کیا ہے یعنی پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں رکھ سکتے ہیں ؟

    پہلے ممانعت والی حدیث دیکھیں :
    مختلف کتب احادیث میں الفاظ کے اختلاف کے ساتھ نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت وارد ہے ۔ وہ احادیث باختلاف الفاظ اس طرح ہیں ۔

    (1)إذا كان النصف من شعبان فأمسكوا عن الصوم حتى يكون رمضان(أحمد وابن أبي شيبة)
    ترجمہ : جب نصف شعبان ہوجائے تو رمضان تک روزہ رکھنے رکھنے سے رک جاؤ۔

    (2)إذا انتصف شعبان فلا تصوموا (أبو داود والبيهقي )
    ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو روزہ مت رکھو۔

    (3)لا صومَ بعدَ النِّصفِ مِن شعبانَ حتَّى يجيءَ شهرُ رمضانَ(ابن حبان)
    ترجمہ: نصف شعبان کے بعد کوئی روزہ نہیں یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ آجائے۔

    (4)إذا كان النصف من شعبان فأفطروا(ابنِ عديٍّ)
    ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو (روزہ چھوڑدو) افطار کرو۔

    (5)إذا انتصف شعبان فكفوا عن الصوم( النسائي)
    ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو روزہ سے رک جاؤ۔

    (6)إذَا مضَى النِّصفُ مِن شعبانَ فأمسِكُوا عنِ الصِّيامِ حتَّى يدخلَ رمضانُ(بیہقی)
    ترجمہ: جب نصف شعبان گذرجائے تو روزہ رکھنے سے رک جاؤ یہاں تک کہ رمضان داخل ہوجائے ۔

    (7)إذا بقي نصف شعبان فلا تصوموا(الترمذي)
    ترجمہ: جب نصف شعبان باقی بچ جائے تو روزہ مت رکھو۔

    الفاظ کے اختلاف کے ساتھ یہ روایات تھیں ۔ اس باب کی روایات کو صحیح بھی قرار دینے والے محدثین ہیں اور ضعیف بھی قرار دینے والے ہیں ۔

    صحیح قرار دینے والوں میں حافظ ابن حجر، امام ترمذی ، امام ابن حبان،امام طحاوی ، ابوعوانہ،امام ابن عبدالبر،امام ابن حزم،علامہ احمد شاکر، علامہ البانی ، علامہ ابن باز ، شعیب ارناؤط اور صاحب تحفۃ الاحوذی وغیرہ ہیں اور ضعیف کہنے والوں میں ابن الجوزی،دارقطنی،ابن عدی، ضیاء مقدسی،سخاوی ، نسائی اور ابن عثیمین وغیرہ ہیں ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان روایات کو غیرمحفوظ کہا ہے اور متعدد جگہوں پر منکر قرار دیا ہے ، ابوداد بحی منکر قرار دیتے ہیں اور ابن رجب نے شاذ اور صحیح حدیث کے خلاف کہا ہے ۔ ان روایات میں نکارت اور علتین پاتی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انہیں منکر کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔

    اب ان روایات کو دیکھیں جن سے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کا جواز نکلتا ہے ۔

    پہلی دلیل :
    حديث أبي هريرة - رضي الله عنه - عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: لا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم، أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه فليصم ذلك اليوم.(صحيح البخاري:1914)
    ترجمہ: رمضان المبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو ، لیکن وہ شخص جوپہلے روزہ رکھتا رہا ہے اسے روزہ رکھ لینا چاہیے ۔
    فائدہ : یہ روایت رمضان سے ایک دو دن پہلے یعنی نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے پہ دلالت کرتی ہے۔

    دوسری دلیل :
    أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
    ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

    فائدہ : اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی ﷺ پورے شعبان کا نہیں بلکہ شعبان کا تقریبا اکثر روزہ رکھا کرتے تھے ۔ اور اکثر روزہ میں نصف شعبان کا روزہ بھی داخل ہے ۔

    تیسری دلیل :
    عن عِمرانَ بنِ الحُصَيْنِ أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قال لرجلٍ " هل صُمتَ من سَرَرِ هذا الشهرِ شيئًا ؟ " قال : لا . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ : " فإذا أفطرتَ من رمضانَ ، فصُمْ يومَينِ مكانَه " .(صحيح مسلم:1161)
    ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوفرمایا : کیا تو نے اس مہینہ کے آخرمیں کوئي روزہ رکھا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا : نہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تو افطار کرے رمضان سے پس تو اس کی جگہ دو روزے رکھ لے ؟

    فائدہ : یہ اصل میں ایک صحابی کو نبی ﷺ نے حکم دیا جن کی عادت ہمیشہ روزہ رکھنے کی تھی یا نذر کا روزہ تھا ۔ شعبان کے آخر میں نہ رکھ سکنے کی وجہ سے بعد رمضان کےبعد اس کو پورا کرنے کا حکم دیا۔

    ایک طرف ممانعت والی روایات میں علتیں ہیں تو دوسری طرف جواز والی روایات صحیحین کے ہیں ، اس ناحیہ سے جواز کو ترجیح ملتا ہے اور اگر نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت والی روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس بنا پر یہ کہا جائے گا کہ اس ممانعت سے چند لوگ مستثنی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
    (1) جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا۔
    (2) جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردئے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا۔
    (3)اس سے رمضان کی قضاء اور نذر میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔
    (4) نبی ﷺ کی اتباع میں شعبان کا اکثر روزہ رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے اس حال میں کہ رمضان کے روزے کے لئے کمزور نہ ہوجائے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا شیخ!
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    جزاک اللہ خیرا و بارک فیک
     
  4. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    585
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں