امیرالمومنين سيدنا علي رضی الله عنہ كا خوارج کے ساتھ معاملہ۔۔۔۔

عمر سعد نے 'فتنہ خوارج وتكفير' میں ‏فروری 3, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عمر سعد

    عمر سعد رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جنوری 28, 2017
    پیغامات:
    5
    امیرالمومنين سيدنا علي رضی الله عنہ كا خوارج کے ساتھ معاملہ۔۔۔۔۔
    الحمد اللہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد!
    امير المومنين سيدنا علي رضی اللہ عنہ نے خوارج سے جنگ نہروان کرنے سے پہلے اور جنگ کے بعد بھی مسلمانوں جیسا ہی معاملہ کیا تھا۔ یعنی بغاوت کا جھنڈا لہرانے والے مسلمانوں جیسا معاملہ، ابھی یہ جنگ اپنے اختتام کو بھی نہیں پہنچی تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر میں حکم صادر فرما دیا تھا :
    “وہ بھاگ جانے والے خارجی کا پیچھا نہ کریں ۔ نہ ہی زخمی کو فوراً قتل کرنے کے لیے اس پر سوار ہوجائیں اور نہ ہی مقتولین کا مُثلہ کا کریں ۔”
    تا بعین فقہاء میں سے ایک بڑے عالم ِدین جناب شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ جو کہ ابو وائل کی کنیت سے معروف تھے اور وہ جنگ نہر دان میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک تھے ، بیان کرتے ہیں کہ :
    ” امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نہ ہی جنگِ جمل میں کسی شخص کو قیدی بنایا اور نہ ہی جنگ نہروان میں۔”
    [السنن الکبری للبیھقی : 8/182 صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ]
    اس جنگ نہروان کے اختتام پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خوارج کی باقی ماندہ ردی قسم کی چیزیں اٹھوا کر کوفہ لے گئے اور اعلان فرما دیا کہ :
    جو بھی شخص اپنی کسی چیز کو پہچانتا ہو اسے وہ لے لے ۔ چنا نچہ لوگ آکر اپنی چیزیں لینے لگے حتیٰ کہ آخر میں ایک ہنڈیا بچی جسے ایک شخص نے آکر لے لیا ۔
    اس روایت کی چندایک مختلف اسناد ہیں ۔
    [دیکھیے : التلخیص الحبیر : 4/47 ]
    امير المومنين سيدنا رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کے درمیان صرف وہی چیزیں(بطور مال غنیمت)تقسیم فرمائی تھیں جنھیں خارجی اس جنگ میں صرف اسلحہ ، گھوڑوں اور ہتھیاروں کے مجموعہ کے طور پر لائے تھے۔ حالانکہ امير المومنين سيدنا علي رضی اللہ عنہ نے خوارج کی تکفیر بھی نہیں کی تھی اور جنگ سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ نے انھیں جماعۃ المسلمین میں واپس پلٹ آنے کے لیے کوشش بھی فرمائی تھی ۔ جس کے نتیجے میں ان خوارج میں سے بہت سارے لوگ آپ کی طرف واپس پلٹ بھی آئے تھے ۔ پھر آپ نے ان کو وعظ ونصیحت بھی فرمائی اورجنگ وقتال سے ڈرایا بھی تھا ۔
    ابن قدامہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : “وإنما كان كذلك لأن المقصود كفهم ودفع شرهم لا قتلهم فإن أمكن لمجرد القول كان أولى من القتال لما فيه من الضرر بالفريقين وهذا يدل على أن الخوارج فرقة من المسلمين كما قال بذلك كثير من العلماء”.
    یہ معاملہ بالکل ایساہی تھا (جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے ) اس لیے کہ اس سے مقصود ان کے شر کو روکنا اور دور کرنا تھا نہ ان کو قتل کرنا ۔ چنا نچہ اگر ان کو شر وفساد سے باز رکھنا صرف گفتگو سے ممکن ہوتا تو یہ جنگ وقتال سے بہتر تھا ۔ اس لیے کہ جنگ کے ذریعے فریقین کو ضرر پہنچے کا اندیشہ تھا۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ خوارج مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہے جیسا کہ بہت سارے علماء عظام نے اسی طرح بیان کیا ہے۔
    [فتح الباری : 12/300،301 ، نیل الاوطار : 8/182 ]
    سيدنا سعد بن ابي وقاص رضی اللہ عنہ خوارج كو “فاسقين” كا نام دیتے تھے چنا نچہ آپ کے بیٹے جناب مصعب بن سعد ابی وقاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :میں نے اپنے والد محترم حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پو چھا: یہ جو قرآن میں آیا ہے :
    ﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالاً (103) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً (104) ﴾
    ” کہہ وے کیا ہم تمہیں وہ لوگ بتائیں جواعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں ۔ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ ایک اچھا کام کرر ہے ہیں ۔”
    اس سے کیا حروری یعنی خارجی لوگ مراد ہیں؟ تو جناب سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا :نہیں ! بلکہ اس سے یہودی اور نصاری مراد ہیں ۔ جہاں تک یہودیوں کاتعلق ہے تو انہوں نے نبی کریم محمد رسول اللہ ﷺکو جھٹلایا ۔ (اس لیے ان کے اعمال برباد ہو گئے)جبکہ نصاری نے جنت کا بھی انکار کردیا اور کہنے لگے :وہاں کھانے پینے کا سامان نہیں ہوگا (بلکہ جنت میں صرف روحانی لذتیں ہوں گی ۔ اکثر فلسفیوں ، باطنیوں ، نیچریوں اور جاہل صوفیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے)جبکہ حروری یعنی خارجی لوگ تو اللہ کے ساتھ پختہ عہد کر کے اسے توڑ دیتے ہیں اور سیدناسعد رضی اللہ عنہ ان کو “فاسقین “ کہا کرتے تھے ۔
    [صحیح بخاری، کتاب التفسیر رقم الحدیث : 4728 ، فتح الباری : 5/842 ]
    ایک اور روایت میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے جب خوارج کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : “یہ وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے ٹیٹر ھا راستہ اختیار کر لیا اور پھر اللہ عز وجل نے بھی ان کو ٹیٹر ھی راہ چلا دیا ۔ ”
    [مصنف ابن ابی شیبہ : 15/324،325 ، الاعتصام للشاطبی : 1/62 ]
    اس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پو چھا گیا: کیا خوارج کفار ہیں؟
    فرمایا :نہیں ! بلکہ وہ تو کفرسے فرار ہوئے تھے ۔
    پو چھا گیا :کیا وہ منافقین ہیں؟
    فرمایا : مناقين تو الله كا ذكر بہت تھوڑا کر تے ہیں جبکہ خارجی تو اللہ کا ذکر اور عبادات بہت زیادہ کرتے ہیں۔
    پو چھا گیا : پھر وہ کون ہیں ؟
    فرمایا :“وہ ایک ایسی قوم ہیں کہ جنھوں نے ہم پر سر کشی کا ارتکاب کیا اور بھر ہم نے ان سے جنگ کی۔”
    دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا :”خارجی ایک ایسی قوم ہیں جنھوں نے ہم پر سر کشی کی اور ہم ان پر کا میاب ہو گئے ۔”
    ایک تیسری روایت میں ہے کہ فرمایا : “خارجی ایک ایسی قوم ہیں کہ جنہیں فتنہ نے آ گھیرا اور وہ اس فتنہ میں اندھے اور بہر ے ہو گئے ہیں۔یعنی حق سنتے ہیں اور نہ ہی حق دیکھتے ہیں۔”
    [مصنف عبد الرزاق: 10/150 مصنف ابن ابی شیبہ: 15/332 صحیح سند کے ساتھ مروی ہے]
    اس طرح امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو بالخصوص اور امتِ اسلامیہ کو بالعلوم اس کے بعد نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے :”اگر وہ کسی عدل وانصاف کرنے والے امیر المومنین کی مخالفت کریں تو ان سے جنگ کرو اور اگر وہ کسی ظلم کرنے والے مسلمانوں کے حاکم کی مخالفت کریں تو پھر ان سے قتال نہ کرو ۔ بلکہ اس وقت ان کی بات سنی جائے ۔
    [مصف ابن ابی شیبہ: 15/320 ، فتح الباری :12/301 صحیح سند کے ساتھ مروی ہے]
    غور طلب اہم بات :
    امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خوارج سے جنگ کرنے اور جنگ جمل وصفین میں مسلمانوں سے لڑنے کے متعلق قابل غور بات یہ ہے کہ :جنگ جمل وصفین میں تو آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں سے جنگ کر کے بہت غمگین اور پشیمان ہوئے تھے جبکہ خارجیوں سے جنگ کرتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ پر خوشی اور مسرت کی کیفیت طاری تھی ۔
    شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ الله “مجموع الفتاوی “میں فرماتے ہیں: فإن النص والإجماع فرق بين هذا وهذا وسيرة على رضى الله عنه تفريق بين هذا وهذا فإنه قاتل الخوارج بنص رسول الله وفرح بذلك ولم ينازعه فيه أحد من الصحابة وأما القتال يوم صفين فقد ظهر منه من كراهته والذم عليه ما ظهر
    بلاشبہ نص صریح اور اجماعِ اُمت نے ان دونوں جنگوں کے درمیان واضح فرق کردیا ہے۔ اور آپ کی سیرت سے بھی یہی واضح ہے کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے خوارج سے قتال رسول الله ﷺسے وارد نصِ صریح کی بنیاد پر کیا تھا اس لیے آپ کو خوارج سے خوشی حاصل ہوئی تھی۔ پھر یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعين میں سے کسی نے بھی اس ضمن میں آپ رضی اللہ عنہ سے مخالفت نہیں کی تھی ۔ جہاں تک صفین وجمل والے دن کا تعلق ہے تو اس دن جنگ کرتے ہوئے آپ کے چہرہ مبارک پر ندامت اور نا پسندگی کے آثار ظاہر تھے ۔
    [مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : 28/516 ]
    لنک:
    http://alfitan.com/
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں