توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے پر سخت سزا کی تجویز

کنعان نے 'اسلامی ذرائع ابلاغ' میں ‏فروری 17, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے پر سخت سزا کی تجویز


    وفاقی وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ایک مسودہ قانون تیار کیا ہے جس کے تحت ملک کے توہین مذہب کے قوانین کے تحت کسی پر جھوٹا الزام عائد کرنے والے اور مقدمہ درج کروانے والے کو بھی اسی سزا کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے جو سزائیں توہین مذہب کی شقات کے تحت تجویز کی گئی ہیں۔ ان شقات کے تحت جو سابق فوجی آمر جنرل (ر) ضیا الحق کے دور حکومت میں قانون کا حصہ بنائی گئی تھیں توہین مذہب یا رسول پاک ﷺ کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرنے والے کو عمر قید یا موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔

    لیکن اس کے برعکس جھوٹا الزام لگانے والے کسی بھی قسم کی سزا سے محفوظ رہتے ہیں۔ بلکہ جھوٹ بولنے اور بے گناہ لوگوں کو سنگین جرم کا مرتکب قرار دینے پر اکثر صورتوں میں ایسے لوگوں کو مختلف مذہبی گروہوں کی جانب سے ہیرو کا درجہ حاصل ہو جاتا تھا۔

    پاکستان میں توہین مذہب کے حوالے سے یہ افسوسناک صورت حال پیدا کی گئی ہے کہ ایک بار کسی پر الزام عائد ہونے کے بعد نہ صرف اس شخص کا جینا حرام ہو جاتا ہے بلکہ اس کا پورا خاندان مطعون کیا جاتا ہے۔ عدالتوں میں یہ الزامات غلط ثابت ہونے کے باوجود مذہبی گروہ یا افراد متعلقہ شخص کو معاف کرنے یا اسے سکون سے زندہ رہنے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس صورت حال پر غور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے گزشتہ برس ایک تفصیلی فیصلہ میں اس بات پر زوردیا تھا کہ حکومت ایسا قانون تیار کرے جس کے تحت توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی روک تھام ہو سکے۔ یہ تدارک کرنے کے لئے جسٹس صدیقی نے تجویز دی تھی کہ جھوٹا الزام عائد کرنے والے کو بھی اسی سزا کا مستحق سمجھا جائے جو توہین مذہب کی شقات کے تحت ایسا مذموم فعل کرنے والے کو دی جا سکتی ہے۔

    جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان عوامل کا جائزہ لیا تھا جن کی وجہ سے ملک کے توہین مذہب کے قوانین کے بارے میں تنازعہ پیدا ہوتا ہے اور قومی اور عالمی سطح پر انہیں ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اس فیصلہ میں بتایا گیا تھا کہ لوگ کس طرح ذاتی تنازعات اور جھگڑے نمٹانے کے لئے توہین مذہب کے الزامات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ توہین مذہب کے قوانین کو ختم کرنے کی بجائے اگر ان کے غلط استعمال کو روکا جا سکے تو توہین مذہب قوانین کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جسٹس صدیقی کے خیال میں ملک میں توہین مذہب کی موجودہ شقات کو برقرار رکھنا تو ضروری ہے لیکن ان کے حوالے سے لوگوں پر جھوٹے الزام عائد کرنے کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے پارلیمنٹ الزام تراشی پر سخت سزا دینے کا قانون منظور کرے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین مذہب کی نوعیت اور سوشل میڈیا میں اس کے رجحان کی حوصلہ شکنی کا حکم دیتے ہوئے اس معاملہ کو ختم نہیں کیا بلکہ اس کی سماعت جاری رکھی اور حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس بارے میں مناسب مسودہ قانون تیار کرے۔ وزارت داخلہ کی ابتدائی تجاویز کو عدالت نے نامکمل اور غیر مناسب قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ ابتدائی مسودہ میں وزارت داخلہ جھوٹا الزام لگانے والے کے لئے سزا تجویز کرنے میں ناکام رہی تھی۔ تاہم نئے مسودہ قانون میں جسے قانون برائے انسداد الیکٹرانک جرائم کا نام دیا گیا ہے اب جھوٹا الزام لگانے پر وہی سزا دی جا سکے گی جو توہین مذہب کا ارتکاب کرنے پر دی جاسکتی ہے۔

    پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین میں تجویز کردہ سخت سزاؤں کی وجہ سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سینکڑوں لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان قوانین کے حوالے سے مذہبی گروہوں نے ملک میں نہایت جذباتی صورت حال پیدا کر دی ہے اور اس قانون میں تبدیلی کے سوال کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اس لئے ایسے سانحات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کو کسی غلطی کے بغیر تشدد اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ سال اپریل میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں 23 سالہ طالب علم مشال خان کو قتل کرنے کا دردناک واقعہ سب سے گھناؤنی مثال کے طور پیش کیا جا سکتا ہے۔ مشال خان اپنی یونیورسٹی میں ہونے والی مالی اور انتظامی بے قاعدگیوں کے خلاف آواز اٹھاتا تھا۔ اس لئے اس آواز کو خاموش کروانے کے لئے اس کے خلاف توہین مذہب کا خطرناک الزام لگایا گیا۔ اس طرح مشتعل طالب علموں کا ایک گروہ مشال کو اس کے کمرے سے گھسیٹ کر باہر لایا اور انسانیت سوز تشدد کرکے اسے ہلاک کر دیا۔ اس دوران مشال خان یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ مذہب دشمن نہیں ہے اور نہ ہی اس نے توہین کی ہے لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ اس سانحہ کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آنے پر ملک بھر میں شدید احتجاج سامنے آیا اور حکومت کے علاوہ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لیا۔ اس طرح اس قتل کے الزام میں 57 لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 31 کو گزشتہ دنوں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے سزائیں سنائی ہیں۔ اگرچہ تمام تحقیقاتی رپورٹوں میں مشال کو بے گناہ قرار دیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ اس پر جھوٹے الزامات عائد کئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود اس مقدمہ کا فیصلہ آنے پر مردان میں متعدد مذہبی اور سیاسی گروہوں نے مجرموں کو سزا ملنے پر احتجاج کیا اور مشال خان پر الزامات کو دہرایا گیا۔

    اسی قسم کا دوسرا ہائی پروفائل واقعہ 2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا قتل ہے۔ وہ ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے قانون کے تحت ملنے والی موت کی سزا کے خلاف احتجاج کرتے تھے لیکن ان کے ایک سرکاری گارڈ ممتاز قادری نے انہیں توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر قتل کر دیا۔ ممتاز قادری کو بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر موت کی سزا دی گئی۔ اس فیصلہ میں واضح کیا گیا کہ سلمان تاثیر نے مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں کی تھی بلکہ وہ بلاسفیمی لاز کے خلاف بات کرتے تھے۔ اس کے باوجود ممتاز قادری کو زندگی میں ہیرو اور غازی اور مرنے پر شہید کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ممتاز قادری کی حمایت میں بننے والی لبیک تحریک متعدد ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے بعد تیسری پوزیشن حاصل کرتی رہی ہے۔

    ملک کے ان سیاسی اور مذہبی حالات کی وجہ سے کوئی حکومت بھی توہین مذہب کے قوانین میں تبدیلی کرنے یا جھوٹا الزام لگانے والوں کو سخت سزا دینے کا قانون بنانے میں ناکام رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں مذہبی جماعتوں کے نمائیندے ایسی کسی بھی تجویز پر قیامت برپا کر دیتے ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ برس ترمیمی انتخابی قانون کی منظور کے حوالے سے بھی دیکھا جا چکا ہے۔ ابتدائی مسودہ میں ختم نبوت کے حوالے سے حلفنامہ میں حلف کی بجائے اقرار کرتا ہوں کے الفاظ شامل کئے گئے تھے جنہیں فوری طور پر درست کر لیا گیا۔ لیکن اس معمولی غلطی پر شروع ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں تین ہفتے تک فیض آباد دھرنے کی صورت میں دارالحکومت میں زندگی معطل رہی۔ فوج کی مداخلت اور وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کے بعد ہی یہ دھرنا اور احتجاج ختم ہو سکا تھا۔ اس معاملہ کو حساس بنانے میں ملک کی سیاسی پارٹیوں کی وقتی مفاد پرستی کو بھی عمل دخل رہا ہے۔ اسی لئے کسی بھی سیاسی پارٹی نے توہین مذہب کے قوانین کی سخت سزا کو کم کرنے یا جھوٹے الزام کی صورت میں سخت سزا تجویز کرنے کا حوصلہ نہیں کیا۔ دو برس قبل ملک کی اسلامی نظریاتی کونسل میں اس حوالے سے تجویز پیش کی گئی تھی لیکن کونسل نے بھی یہ کہہ کر معاملہ ٹال دیا کہ جھوٹے الزام لگانے والے کو ملک کے قانون کے مطابق سزا مل سکتی ہے۔ اس وقت جھوٹا الزام لگانے والے کو پاکستان پینل کوڈ کی شق 182 کے تحت ایک ہزار روپے جرمانہ یا چھ ماہ قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اور جس پر الزام لگایا جاتا ہے ، اسے اکثر صورتوں میں الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اب نئے قانون میں اس سقم کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    تاہم موجودہ سیاسی صورت حال میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کیا جانے والا مسودہ اسی حالت میں پارلیمنٹ سے منظور بھی کروالیا جائے گا۔ اگرچہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آج وزارت داخلہ کے مسودہ کو منظور کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ کام بھی بالآخر عدالتوں کو ہی کرنا پڑا۔ اس کا جواب بھی حکومت اور ملک کی سیاسی پارٹیوں کو دینے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وہ ملک میں ناانصافی ختم کرنے کے لئے قوانین میں مانسب تبدیلی کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک قانونی سقم دور کروانے کے لئے ایک اچھا اقدام کیا ہے لیکن یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ کیا اس طرح ہائی کورٹ کے ایک جج نے ارکان قومی اسمبلی کا استحقاق مجروح نہیں کیا۔ خاص طور سے جسٹس شوکت صدیقی نے اس مسودہ کو اپنی مرضی کے مطابق تیار کروایا ہے حالانکہ یہ کام حکومت کے کرنے کا تھا اور قومی اسمبلی کے ارکان کو اس پر رائے دینے اور ترمیم و تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ ملک کے سیانوں کو سوچنا چاہئے کہ عدالتیں جب قانون کے مسودے تیار کرواکے پارلیمنٹ کو بھیجنے لگیں تو اس صورت حال کو جمہوریت کہیں گے، قانون کی حکمرانی کا نام دیں گے یا ججوں کی غیر معمولی فعالیت سمجھا جائے گا۔

    سید مجاہد علی
    17/02/2018
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    اچھی تجویز ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ توہین مذھب کی آڑ لے کر ذاتی رنجشیں اور فرقہ وارانہ مخاصمتوں کا بدلہ چکایا جاتا ہے۔
     
    • مفید مفید x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں