کیا ہمیں تقلید نہیں کرنی چاہیے ؟

ناصر نعمان نے 'نقطۂ نظر' میں ‏دسمبر 1, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
    ناصر نعمان بھائی! آپ کی تفصیل میں "شرعی حکم" کا تذکرہ بھی نہیں۔ آپ شرعی حکم بتلا دیں کہ تقلید فرض ہے؟ واجب ہے؟ یا کیا؟
    تاکہ آپ کی تحریر کا مدلل جواب پیش کیا جائے!!


    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
     
  2. ناصر نعمان

    ناصر نعمان -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 24, 2009
    پیغامات:
    38
    محترمہ ام نو العین صاحبہ !
    مذکورہ عبارت میں اور مقلدین کے موقف میں کو ئی تضاد نہیں ہے ۔۔۔۔فرق صرف بات سمجھنے کا ہے ۔۔۔اگرآپ اپنے نظریات کے مخصوص زاویہ سے ہی مخالفین کی عبارتوں پر نظر ڈالیں گی تو یقینا آپ کو کوئی عبارت مضحکہ خیز اور کوئی عبارت متعارض محسوس ہوگی کیو ں کہ عبارتوں میں مختلف معنوں کا احتمال نکل آنا عمومی بات ہے ۔۔۔۔اورکوئی بھی شخص اُن معنوں میں اپنی مرضی کے معنی باآسانی نکال سکتا ہے ۔۔۔اور جب اُس کواُسی مسئلہ پر دیگر عبارتیں پیش کرکے اُس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اُن کو ”متعارض“ کہہ کرکے اپنی مرضی سے نکالے گئے معنوں پر عبارتوں کا تعین کرسکتا ہے ۔۔۔کیوں کہ عبارتوں کی زبان نہیں ہوتی جو وہ جواب دیںکہ ہمارا مفہوم فلاں ہے اور لیکن اگر آپ مقصد خلوص دل سے سمجھنا سمجھانا بنالیں گی ۔۔۔اور لفظوں میں الجھنے الجھانے کے بجائے مخالفین کے مقصد اور موقف کو پیش نظر رکھیں گی تو یقینا بات الجھنے کے بجائے سلجھنے کی طرف چلے گی ۔۔۔باقی آپ کی مرضی آپ جو چاہے مفہوم متعین فرمالیں۔۔۔یہ اپنا اپنا حسن نظر ہے ۔۔۔۔ بہرحال یہ عبارت ہم نے مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب سے نقل کی ہے ۔۔۔امید ہے کہ آپ اس پر مزید بحث کرنے کے بجائے مقصد اور اصل اختلاف پر نظر رکھیں گی۔
    اور آپ کی اس بات پر کہ ” اہل حدیث اور متبعین محدثین بھی ماہرین ہی سے رجوع کرتے ہیں ،ان ہی سے سوال کرتے ہیں تو پھر آپ ان کو غیر مقلدین کیوں کہتے ہیں؟“۔۔۔تو جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ اسی چیز کی تحقیق نے ہمیں اس بات چیت پر مجبور کیا ۔۔۔کہ آخر مقلدین اور غیر مقلدین میں فرق کیا ہے ؟؟؟جو کام مقلدین کرتے ہیں وہی کام غیر مقلدین کرتے ہیں ۔۔۔بس زبانی باتیں اور عبارتوں کے الفاظ الگ الگ ہیں ۔۔۔لیکن عملی طور پر معاملہ تقریبا ایک جیسا ہی ہے ۔(ان شاءاللہ تعالیٰ آگے کی بات چیت میں ہم مثال کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کریں گے)
    اور آپ کے باقی سوالات کہ” کن اہل لغت نے؟ “۔۔۔کن صحابہ کرام نے ؟۔۔۔کن مفسرین کرام نے ؟۔۔۔۔اور ”النحل“ کی آیت سے جو مطلب (تقلید)ہم نے بیان کیا ہے۔۔۔ اسے ”تفسیر بالماثور “ سے ثابت کیجیے وغیرہ وغیرہ
    تو جناب کے لئے عرض ہے کہ مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 1320 ھ) فرماتے ہیں کہ” جس آیت کے حکم سے تقلید ثابت ہے وہ اسی صورت میں ہے جب کہ لاعلمی ہو ۔قال اللہ تعالیٰ ”فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “یعنی پس سوال کرو اہل ذکر سے اگر تم نہ جانتے ہو تم“ اور یہی آیت دلیل ہے وجوب تقلید پر (معیار الحق ص 67)
    محترمہ آپ مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے متبعین سے یہی سوالات دہرا لیں ۔۔۔جو جواب وہ حضرات دیں وہی جواب ہماری طرف سے سمجھ لیجیے گا ۔
    باقی آپ کی طرف سے ”ائمہ کرام کے اقوال“پیش کرنے پر گذارش ہے کہ فرق صرف بات سمجھنے کا ہے ۔۔۔(ان شاءاللہ تعالیٰ اس پر بات اپنے مقام پر کریں گے)
    آپ سے گذارش ہے کہ ہمیں جواب الجواب نہیں دیجے گا ۔۔۔بات کسی اور رخ چلی جائے گی ۔۔۔۔آگے بھی اگر آپ کو ہماری کسی بات پر اعتراض ہو یا کوئی سوال ذہن میں آتا ہو تو آپ ابن داﺅد بھائی کو پی ایم کرکے شئیر کرسکتیں ہیں ۔۔ابن داﺅد بھائی چاہیں تو اپنی پوسٹ میں آپ کا سوال پیش کرسکتے ہیں ۔۔۔بصورت دیگر ہماری بات چیت ختم ہونے کا انتظار فرمائیں ۔۔۔زیادہ لوگوں سے ایک وقت میں بات کرنے سے بات الجھنے کے سوا کچھ نہ ہوگی ۔جزاک اللہ

     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 14, 2010
  3. ناصر نعمان

    ناصر نعمان -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 24, 2009
    پیغامات:
    38
    محترم ابن داﺅد بھائی!
    اگر تو آپ کا مقصد مذکورہ مسئلہ پر شرعی حکم کی بحث کرنا ہے ۔۔۔تو آپ سے عرض یہ ہے کہ ہم ایک عامی ہیں۔۔۔ عالم نہیں ۔۔۔ اس لئے یہ ہماری استعداد سے باہر ہے کہ ہم ”شرعی حکم“ پر بحث کرسکیں ۔۔۔ہمارا اس بات چیت کا مقصد تو محض اتنا سمجھنا ہے کہ کیا واقعی ”تقلید“ شرک و بدعت ہے؟؟ اس حوالے سے جو جو اشکالات اور سوالات سامنے آتے ہیں اس حوالے سے ہم مسئلہ سمجھنا چاہتے ہیں ۔۔۔اگر تو آپ اس لحاظ سے اس مسئلہ پر بات چیت کرسکیں تو بات چیت آگے لے کر چلیں ۔۔۔ سردست آپ کا مطالبہ پورا کرنے کے لئے یہ حوالاجات پیش خدمت ہیں ۔۔۔جس میں مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کا حوالہ خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔۔۔۔جس میں یہ تو واضح ہے کہ فریقین کا یہاں تک اتفاق ہے کہ ”لاعلمی کے وقت کسی مجتہد اہلسنت کی تقلید واجب ہے “۔۔۔فرق اتنا ہے کہ مولانا صاحب ”تقلید مطلق “ کے قائل ہیں ۔۔۔اور مقلدین ”تقلید ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی“ کے قائل ہیں ۔۔۔اس چیز کا تعین ہوجانے کے بعد ہمارے خیال میں بحث یہ نہیں رہتی کہ تقلید کا شرعی حکم کس دلیل سے اور کیسے ثابت ہے ۔۔۔بلکہ مسئلہ ”تقلیدمطلق اور تقلید شخصی “کے درمیان فرق کا سمجھنا باقی رہ جاتا ہے۔
    مولانا سرفراز خان صفدررحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
    مسلمان صحیح مسلمان حاکم وقت اور قاضی ،مفتی اور مجتہد کی اطاعت کا شرعا مکلف اور پابند ہے اس لئے کہ نص قطعی ”فاسئلو“ اور ”اطیعو“ کے امر کے صیغوں سے اسے حکم ہے اور صیغہ امر بے صارف محمول بر وجوب است (افادة الشیوخ بمقد لرالناسخ والمنسوخ ص 106 نواب صدیق حسن خان)علماءاحناف اگر چہ فرض اور واجب کرتے ہیں لیکن دیگر علماءاور فقہاءکے نزدیک فرض و واجب کا ایک ہی مفہوم ہے “
    حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 1320 ھ) اپنی مایہ ناز کتاب ”معیار الحق“ میں تقلید کی قسمیں اور ان کے احکام بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :
    ”باقی رہی تقلید کے وقت لاعلمی ۔۔۔سو یہ چار قسم ہے :
    (اول) قسم اول واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے کسی مجتہد اہلسنت کی لاعلیٰ التعیین جس کو شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے عقد الجید میں کہا ہے کہ یہ تقلید واجب ہے اور صحیح ہے بااتفاق امت اور اس کی علامت لکھی ہے کہ عمل مقلد کا ساتھ قول مجتہد کے اسی طور پر ہو جیسے شرط کی (حیثیت ) ہوتی ہے کہ اگر قول موافق سنت کے ہو تو عمل کئے جاﺅں گا تو جب معلوم ہو کہ مخالف ہے سنت کے تو اس کو پھینک دوں گا (پھر آگے ”عقد الجید کی عبارت اور اس کا ترجمہ نقل کیا ہے )
    (قسم ثانی ) مباح اور وہ تقلید مذہب معین کی ہے بشرطیکہ مقلد اس تعیین کو امر شرعی نہ سمجھے بلکہ اس نظر سے تعیین کرلے کہ جب امر اللہ تعالیٰ کا واسطے اتباع اہل کے علم عموما صادر ہوا ہے تو جس ایک مجتہد کا اتباع کریں گے اسی کی اتباع سے عہدہ تکلیف سے فارغ ہوجائیں گے اور اس میں سہولت بھی پائی جاتی ہے اور علامت اس تقلید کی یہ ہے کہ اگر دوسرے مذہب کے کسی مسئلہ پر عمل کرسکے تو انکار نہ کرے اور کسی شخص عمل کرنے والے کو برا نہ جانے اور ملامت اور تکبر نہ کرے مثلا حنفی مذہب کو مسئلہ رفع یدین اگر معلوم ہو تو اس کے استعمال سے نفرت اور انکار نہ کرے بلکہ کبھی کر بھی لے اور حنفی ہو کر کسی کرنے والے پر طعن نہ کرے ۔ (معیار الحق ص 75،76)

     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    گويا اب تقليد كے لفظى اور اصطلاحى معنى كو ایک طرف ركھ كر پہلے يہ طے كرنا ہو گا كہ تفسير بالمأثور کیا ہے؟
    تمام سوالوں کے جواب ميں گھما پھرا كر ايك سيد نذير حسين دہلوى رحمہ اللہ كا قول دے دیا گیا؟ (ان كے قول كا مكمل حوالہ فراہم كرنا آپ كى ذمہ دارى ہے) اہل لغت،صحابہ كرام، مفسرين سب اس ميں آ گئے؟
     
  5. ناصر نعمان

    ناصر نعمان -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 24, 2009
    پیغامات:
    38
    حوالہ پیش خدمت ہے ۔۔۔باقی ہم نے کچھ نہیں کہنا ۔۔۔۔۔ اور آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے براہ مہربانی ہماری ابن داود بھائی سے بات چیت ختم ہونے تک انتظار فرمائیں۔جزاک اللہ

    [​IMG][/IMG]
     
  6. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
    ناصر نعمان صاحب! آپ سے استفسار کیا گیا تھا کہ:
    آپ شرعی حکم بتلا دیں کہ تقلید فرض ہے؟ واجب ہے؟ یا کیا؟
    اس کے جواب میں آپ ایک طرف تو آپ خود کو عامی کہہ کر اس کے شرعی حکم پر بحث سے معذرت کر رہے ہیں اور دوسری جانب، آپ نے تقلید پر حکم کی بحث کے حوالے سے چار حوالات بھی درج کر دیئے ہیں، مگر ہمارا سوال دھرا کے دھرا رہ گیا۔ ہم آپ کو تقلید کے شرعی حکم سے متعلقہ علماء دیوبند کا متفقہ فیصلہ ذکر کر دیتے ہیں!!

    "چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جاوے بلکہ واجب ہےکہ کیونکہ ہم نے تجربہ کیا ہے کہ ائمہ کی تقلید چھوڑنے اور اپنے نفس و ہوا کے اتباع کرنے کا انجام الحادوزندقہ کے گڑھے میں گر جانا ہے۔" ( المہند علی المہند یعنی عقائد علائے دیوبند از خلیل احمد سہارنپوری صفحہ 43 ۔ ادارہ اسلامیات، انارکلی لاہور)


    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]


    اور ایک بات کی طرف اشارہ کر دوں کہ تقلید کے وجوب کی قرآن و حدیث سے کوئی دلیل خلیل احمد سہارنپوری اور اس کی تصدیق کرنے والے ۲۴ علماء دیوبند کو تو نہ ملی اور وہ اس کے وجوب پر اپنے تجربہ کوبطور دلیل پیش کر رہے ہیں، مگر ایک عامی ناصرنعمان صاحب تقلید پر قرآن و حدیث سے دلیل کشید کرنے کی لا حاصل سعی کر رہے ہیں!!
    جواب جاری ہے، اگلی پوسٹ کاچند منٹ انتظار کیجئے، کچھ تحریر کرنے سے قبل جزاک اللہ!!


    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
     
  7. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
    اب آتے ہیں آپ کے دلائل کی جانب:
    ناصر نعمان صاحب! جیسا کہ آپ نے تسلیم ہے کہ مقلدین احناف کے ہاں فرض اور واجب میں فرق ہے۔ جو دلیل قطعی سے ثابت ہو وہ فرض اور جو دلیل ظنی سے ثابت ہو وہ واجب۔ اپ آپ قرآن کی آیات بطور دلیل پیش کر رہے ہیں۔ اس کا معنی یہ ہوا آپ اپنے مؤقف کے لیئے ان دلائل کو پیش ہی نہیں کر سکتے جو دلیل قطعی ہوں۔ یعنی قرآن کی آیات گو کہ قطعی الثبوت ہیں، لیکن ان سے آپ کو استدلال ظنی و الدلالت ہے۔ استدلال ان آیات سے صحیح ہے بھی کہ نہیں، اسی لیئے یہ ظنی الثبوت ہے۔ اگر آپ کا استدلال قطعی الثبوت کہیں تو آپ ان آیات سے تو آپ ان آیات سے تقلید کے وجوب پر دلیل دینے کے مجاز نہیں۔ پھر آپ کو تقلید فرض قرار دینا ہوگی!!
    دوسری صورت میں آپ تقلید کے وجوب پر قرآن کی آیا ت سے استدلال لینے کے مجاز نہیں۔ یہ ساری تفصیل اصول فقہ حنفیہ کی رو سے آپ کو بیان کر دی ہے۔
    خلاصہ اس بحث کا یہ ہے کہ آپ اپنے دلائل میں خود شش و پنج کا شکار ہیں!!

    ناصر نعمان صاحب! سورة النساء کی آیت 59 سے آپ کا تقلید کے اثبات پر دلیل قائم کرنا باطل ہے۔ اس کے ابطال کے کچھ نکات ہم ذکر کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ!!
    ناصر نعمان صاحب! آپ نے"أُولِي الْأَمْرِ" کی تفسیر علماء و فقہاء قرار دیتے ہوئے ان کی اطاعت کو "تقلید" قرار دیا ہے۔ اور یہ ہی آپ کی دلیل کی بنیاد ہے۔
    ناصر نعمان بھائی ! آپ کا بیان درج ذیل ہے:
    آپ کے مذکورہ بیان کے مطابق۔ محمد بن حسن الشیبانی، قاضی ابویوسف، ملا علی القاری الحنفی، بدرالدین العینی الحنفی، ابوبکر الجصاص الحنفی ،رشید احمد گنگوہی، قاسم نانوتوی، اشرف علی تھانوی، تقی عثمانی، غر ض کہ تمام کہ تمام مقلدین احناف عامی قرار پاتے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی عالم نہیں۔ لہذا آپ اس آیت کو تقلید کی دلیل بنانے کے مجاز اسی صورت ہیں کہ تمام مقلدین کو غیر عالم قرار دیں!!
    پھر آپ ہی اس کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ :
    تو ناصر نعمان صاحب! آپ کا اس آیت کا تقلید پر دلیل لینا باطل ہے ، کیونکہ عامی کا علماء و فقہاء سے سوال کرنا تقلید میں شامل نہیں!!
    آپ کی یاد دہانی کے لئیے آپ کی پیش کردہ و تسلیم شدہ تعریف درج ذیل ہے:
    [/FONT[FONT="_PDMS_Saleem_QuranFont"]] "
    [FONT="_PDMS_Saleem_QuranFont"]التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین" الخ[/FONT]
    [/FONT]
    "تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں"۔ الخ
    (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)

    اسی آیت کے اگلے حصے کے متعلق آپ نے کا کہنا ہے کہ دوسرے جملہ میں خطاب مجتہدین کو ہے۔ یہ ابھی ہمارا موضوع بحث نہیں ہے کہ یہ خطاب خاص ہے کہ نہیں !!
    اب ہم آپ کو اس کی صحیح تفسیر پیش کرتے ہیں:
    عبد الرحمن بن ناصر بن السعدي اپنی تفسیر "تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان" بالمعروف تفسیر السعدی میں فرماتے ہیں:
    [FONT="_PDMS_Saleem_QuranFont"]
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (سورة النساء 59)
    ثم أمر بطاعته وطاعة رسوله وذلك بامتثال أمرهما، الواجب والمستحب، واجتناب نهيهما. وأمر بطاعة أولي الأمر وهم: الولاة على الناس، من الأمراء والحكام والمفتين، فإنه لا يستقيم للناس أمر دينهم ودنياهم إلا بطاعتهم والانقياد لهم، طاعة لله ورغبة فيما عنده، ولكن بشرط ألا يأمروا بمعصية الله، فإن أمروا بذلك فلا طاعة لمخلوق في معصية الخالق. ولعل هذا هو السر في حذف الفعل عند الأمر بطاعتهم وذكره مع طاعة الرسول، فإن الرسول لا يأمر إلا بطاعة الله، ومن يطعه فقد أطاع الله، وأما أولو الأمر فشرط الأمر بطاعتهم أن لا يكون معصية.
    ثم أمر برد كل ما تنازع الناس فيه من أصول الدين وفروعه إلى الله وإلى رسوله أي: إلى كتاب الله وسنة رسوله؛ فإن فيهما الفصل في جميع المسائل الخلافية، إما بصريحهما أو عمومهما؛ أو إيماء، أو تنبيه، أو مفهوم، أو عموم معنى يقاس عليه ما أشبهه، لأن كتاب الله وسنة رسوله عليهما بناء الدين، ولا يستقيم الإيمان إلا بهما.
    فالرد إليهما شرط في الإيمان فلهذا قال: { إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ } فدل ذلك على أن من لم يرد إليهما مسائل النزاع فليس بمؤمن حقيقة، بل مؤمن بالطاغوت، كما ذكر في الآية بعدها { ذَلِكَ } أي: الرد إلى الله ورسوله { خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلا } فإن حكم الله ورسوله أحسن الأحكام وأعدلها وأصلحها للناس في أمر دينهم ودنياهم وعاقبتهم.
    [/FONT]
    پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیاہے اور یہ اطاعت اللہ اور اس کے رسول کے مشروع کردہ واجبات و مستحبات پر عمل اور ان کی منہیات سے اجتناب ہی کے ذریعے سے ہوسکتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اولوالامر کی اطاعت کا حکم دیاہے۔ اولوالامر سے مراد لوگوں پر مقرر کردہ حکام، امراء اور صاحب فتویٰ ہیں کیونکہ لوگوں کے دینی و دنیاوی معاملات اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اولوالامر کی اطاعت نہیں کرتے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اولوالامر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو خالق کی نا فرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری ہر گز جائز نہیں۔ اور شاید یہی سرنہاں ہے کہ اولوالامر کی اطاعت کے حکم کے وقت فعل کو ھذف کردیا گیا ہے اور اولوالامر کی اطاعت کو رسول کی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں لہذا جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ رہے اولوالامر تو ان کی اطاعت کے لئے شرط یہ شرط عائد کی کہ ان کا حکم معصیت نہ ہو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ لوگ اپنے تمام تنازعات کو، خواہ یہ اصول دین سے ہوں یا فروع دین مین اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائیں، یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف کیونکہ تمام اختلافی مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے یا تو ان اختلافات کا حل صراحت کے ساتھ قرآن اور سنت میں موجود ہوتا ہے یا ان کے عموم، ایماء، تنبیہ، مفہوم مخالف اور عموم معنی میں ان اختلافات کا حل موجود ہوتا ہے اور عموم معنی میں اس کے مشابہہ مسائل میں قیاس کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر دین کی بنیاد قائم ہے ان دونو ں کو حجت تسلیم کئے بغیر ایمان درست نہیں/ اپنے تنازعات کو قرآن و سنت کی طرف لوٹانا شرط ایمان ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    [FONT="_PDMS_Saleem_QuranFont"]﴿ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ﴾[/FONT] "اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔" یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کو کوئی نزاعہ مسائل کو قرآن و سنت پر پیش نہیں کرتا وہ حقیقی مومن نہیں بلکہ وہ طاغوت پر ایمان رکھتا ہے، جیسا کہ بعد والی آیت میں ذکر فرمایا ہے۔ [FONT="_PDMS_Saleem_QuranFont"]﴿ ذَلِكَ ﴾[/FONT] "یہ" یعنی تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا [FONT="_PDMS_Saleem_QuranFont"]﴿ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾[/FONT] "یہ بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے" کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سب سے بہتر، سب سے زیادہ عدل و انصاف کا حامل اور لوگوں کے دین و دنیا اور ان کی عاقبت کی بھلائی کے لئے سب سے اچھا فیصلہ ہے۔

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]


    عبد الرحمن بن ناصر بن السعدي کی تفسیر سے مندرجہ ذیل بات ثابت ہوتی ہے کہ مقلدین احناف اختلافی معمالات مثلا" رفع العدین عندالرکوع" کو کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹانے کے بجائے اس میں اپنے امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہوئے ان کے قول کو ہی لیتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے منافی ہے۔ اور اس طرح ان کا ایمان ناقص قرار پاتا ہے۔ لہذا یہ آیت تقلید کو ثبوت میں تو نہیں ، بلکہ اس آیت سے تقلید کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اور یہاں تک کہ مقلدین کا ایمان ناقص ثابت ہوتا ہے!! فتدبر!!
    مقلدین احناف کی اس تقلیدی روش کے ثبوت کا انبار لگایا جاسکتا ہے، لیکن ہم اس وقت مسائل پر گفتگو نہیں کر رہے لہذا اسی پر اکتفا کرتے ہیں!!
    جواب جاری ہے، اگلی پوسٹ کاچند منٹ انتظار کیجئے، کچھ تحریر کرنے سے قبل جزاک اللہ!!


    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
     
  8. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیم و رحمۃاللہ و برکاتہ!
    ناصر نعمان صاحب! اس کا نام تقلید نہیں، اسی لئے پہلے تقلید کی تعریف درج کروائی گئی تھی، کہ "خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد " والا معاملہ نہ ہو!! اور اس کا تقلید نہ ہونا پچھلی تحریر میں واضح کر دیا گیا ہے!!
    نہیں جناب اس کا نام تقلید نہیں ہے، صاحب استنباط صاحب فتوی ہوتے ہیں اور تقلید کی تعریف کی رو سے عامی کا علماء و فقہاء سے سوال کرنا تقلید میں شامل نہیں!!
    آپ کی یاد دہانی کے لئیے آپ کی پیش کردہ و تسلیم شدہ تعریف درج ذیل ہے:
    [font="_pdms_saleem_quranfont"]"التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین" الخ[/font]
    "تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں"۔ الخ
    (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400

    نہیں میرے بھائی یہ تقلید نہیں کہلاتی، میں ایک بار پھر لکھ دیتا ہوں:
    تقلید کی تعریف کی رو سے عامی کا علماء و فقہاء سے سوال کرنا تقلید میں شامل نہیں!!
    آپ کی یاد دہانی کے لئیے آپ کی پیش کردہ و تسلیم شدہ تعریف درج ذیل ہے:
    [font="_pdms_saleem_quranfont"]"التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین" الخ[/font]
    "تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں"۔ الخ
    (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400

    (ایک ضمنی بات : یعنی تمام کہ تمام مقلدین حنفیہ، قاضی ابو یوسف سے ناصر نعمان صاحب تک کوئی بھی قرآن و حدیث میں ماہر نہیں!! تو جناب آپ کو چاہیے کہ علماء الحدیث سے پوچھ پوچھ کر عمل کیا کریں۔ )

    ہم نے تو ابھی تک کوئی بات ہی نہیں کی تھی ، آپ ہماری بات کا مفہوم کس طرح سمجھ پاتے!! ہاں آپ کی باتوں کا مفہوم میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں اور اس کا مدلل رد بھی کر دیا ہے۔ الحمدللہ!!
    جواب جاری ہے، اگلی پوسٹ کاچند منٹ انتظار کیجئے، کچھ تحریر کرنے سے قبل جزاک اللہ!!



    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
    [/font]
     
  9. ناصر نعمان

    ناصر نعمان -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 24, 2009
    پیغامات:
    38
    ابن داود بھائی شاید آپ ایک دم جذباتی ہوگئے ہیں
    اور وہی کام شروع کردیا ہے جس کی ہم نے بار بار یاد دہانی کروائی ہے ۔۔۔۔۔۔میرے بھائی صبر و تحمل سے کام لیں جذباتی نہ ہوں ۔۔۔۔۔ آپ کو کوئی جلدی ہے یا کہیں دیگر مصروفیات میں مشغول ہونا ہے تو پہلے آپ فراغت پالیں پھر اس کے بعد اطمینان سے گفتگو کرلیں ۔۔۔۔۔ آپ سے پہلے بھی گذارش کر چکے ہیں کہ ایک وقت میں بہت سارے سوالات اور اعتراضات نہ پیش فرمائیں ۔۔۔۔۔۔ایک ایک کرکے نکات پر بات کرلیں تو زیادہ پہتر ہوگا ۔۔۔۔۔۔ اس طرح بات الجھ جائے گی ۔۔۔۔۔ براہ مہربانی ایک ایک کرکے اپنے اشکالات اور سوالات پیش فرمائیں ،۔۔۔۔جزاک اللہ
     
  10. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
    ہمارا مقصد تقلید کے ہر ہر پہلو پر بحث کرنا ہے، اور یکے بعد دیگر، اور یہی بات ہم پہلے ہی صراحت سے بیان کر چکے ہیں !!
    بالکل جناب! ہم آپ کی اس بات سے متفق ہیں ! اور یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ مقلد عالم ہو ہی نہیں سکتا!! اسے علم ہوتا تو بھلا تقلید کیوں کرتا!!
    مگر میرے بھائی آپ نے اس کے باوجود بحث کی ہے اور ممکن ہے کہ مزید کرو۔ دیکھتے ہیں کہ آپ تقلید کے شرعی حکم سے متعلقہ علماء دیوبند کا متفقہ فیصلہ کو قبول کرتے ہو یا بحث کرتے ہو!!
    یہ ایک ضمنی بحث ہے، مقصد تو تھریڈ کا عنوان ہے کہ "کیا ہمیں تقلید نہیں کرنی چاہیے ؟"
    جی اسی لیئے پہلے تعریف ، پھر حکم اور اس پر دلائل پھر بعد کی باتیں، اسی یکے بعد دیگرے گفتگو کرنے سے ہی اشکالات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے، ورنہ "کدھر کی اینٹ کدھر کا روڑا" کے تحت کبھی بات سمجھ نہیں آئے گی!!
    نعمان صاحب! ہم انتہائی بہترین طرز سے بات چیت کر رہے ہیں، ان شاء اللہ! ہماری بات بہت آگے تک جائے گی!!
    ویسے آپ کو ہم نے تقلید کے شرعی حکم سے متعلقہ علماء دیوبند کا متفقہ فیصلہ بتلا دیا ہے، دیکھتیں ہیں آپ کیا کہتے ہیں!
    یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ فریقین، یعنی اہل الحدیث اور مقلدین احناف کا "لا علمی کے وقت کسی مجتہد اہلسنت کی تقلید ( جس کی تعریف کا تعین ہم پہلے ہی کر چکے ہیں )کے واجب ہونے پر اتفاق ہے۔ ان شاء اللہ اس کی دلیل بھی آگے اس کی دلیل بھی بیان ہو جائے گی۔
    نہیں اتنا فرق نہیں ، یہ آپ کی غلط فہمی ہے!تقلید ( جس کی تعریف ہم متعین کر چکے ہیں) مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اس کے قائل ہی نہیں! ابھی اس کے وضاحت بھی ہو جائے گی ان شاء اللہ!
    جی جناب مقلدین احناف صرف امام ابو حنیفہ کی تقلید کے قائل ہیں!
    ناصر نعمان صاحب! یہ بات آپ نے نجانے کہاں سے اخذ کر لی ہے کہ تقلید کو "واجب" قرار دیا جائے اور پھر کہا جائے کہ یہ کس دلیل سے ثابت ہے اس کی بحث نہیں رہتی!! ہاں مقلدین احناف چونکہ بغیر دلیل کسی کی بات ماننے کے قائل ہیں ، تو یہ ان کو معاملہ ہے۔ مگر جب اہل الحدیث سے گفتگو ہو گی تو دلائل تو پیش کرنا ہونگے!!
    آپ پہلے تقلید پر دلیل قائم کر لیں پھر تقلید مطلق اور تقلید شخصی کا فرق سمجھایئے گا۔ ان شاء اللہ!
    یہ آپ نے عجیب حوالہ پیش کیا ہے۔ کہ کتاب نواب صدیق حسن خان کی افادة الشیوخ بمقد لرالناسخ والمنسوخ اور فرماتے مولانا سرفراز خان صفدررحمتہ اللہ علیہ میرے بھائی آپ جو غلط فہمی کا چکار ہوتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ اصل کتاب و عبارت کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ اور مولانا تقی عثمانی صاحب ، تقلید کی شرعی حیثیت میں مولانا سرفراز خان صفدر صاحب، الکلام المفید فی اثبات التقلید میں جس مفہوم میں ادھا ادھورا اقتباس نقل کر دیتے ہیں، آپ اس معنی و مفہوم کوصحیح سمجھ لیتے ہو!!
    خیر اس با ت سے قطع نظر کہ آپ نے یہ عبارت کہاں سے لی ہے اور اصل کتاب میں کیا عبارت ہے۔
    "مسلمان صحیح مسلمان حاکم وقت اور قاضی ،مفتی اور مجتہد کی اطاعت کا شرعا مکلف اور پابند ہے اس لئے کہ نص قطعی ”فاسئلو“ اور ”اطیعو“ کے امر کے صیغوں سے اسے حکم ہے اور صیغہ امر بے صارف محمول بر وجوب است"
    یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اگر کوئی قرینہ اس کے خلاف پر دلالت نہ کرتا ہو تو صیغہ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اور ہم اولوالامر کی اطاعت کو واجب ہی جانتے ہیں۔ یہ وضاحت آپ نے بھی بیان کر دی ہے کہ صرف مقلدین احناف ہی فرض اور واجب میں فرق کرتے ہین، وگرنہ تمام فقہاء و علماء کے نزدیک فرض و واجب ایک ہی ہے۔

    بالکل صحیح فرمایا آپ نے، کبھی اس پر بھی گفتگو کریں گے۔ ان شاءاللہ!

    یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے کہ آپ مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ تقلید (جس کی تعریف کا تعین ہم پہلے ہی کر چکے ہیں) کے وجوب کا ذکر کر رہے ہیں۔ میں آپ کو ان کی کتاب "معیار الحق فی تنقید تنویر الحق"ان کی عبارت مع صفحات پیش کرتا ہوں جو آپ کے اس گمان کو باظل ثابت کر دیں گے۔
    "تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جسکا قول حجتوں شرعیہ میں سے نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع کی طرف تقلید نہ ٹھری اور اسی طرح رجوع کرنا انجان کا مفتی کے قول کی طرف اور رجوع کرنا قاضی کا ثقہ کے قول کی طرف تقلید نہیں ٹھرے گی کیونکہ رجوع بحکم شرع واجب ہے۔ بلکہ رجوع کرنا مجتہد یا انجان کا اپنے جیسے آدمی کی طرف تقلید نہیں لیکن مشہور یوں ہو گیاہے کہ انجان مجتہد کا مقلد ہے۔ امام الحرمین نے کہا ہے کہ اسی قول پر بڑے بڑے اصولی ہیں اور آمدی اور ابن رجب نے کہا ہے کہ رجوع کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع اور مفتی اور گواہوں کی طرف اگر تقلید قرار دیا جائے تو کچھ ہرج نہیں۔ "
    پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری کو اور مجتہدین کی اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے۔ (معیار الحق فی تنقید تنویر الحق صفحہ 73)

    [​IMG]

    [​IMG]

    یہ عبارت انتہائی صراحت سے بیان کر رہی ہے کہ تقلید کا لفظ اپنے اگر اپنے اصطلاحی معنی کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری ، مجتہدین کی طرف رجوع ، قاضی کا گواہوں کیطرف رجوع پر استعمال کیا جائے تو جائز ہے۔
    جہاں کہیں بھی مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ یا کسی اور ثقہ عالم نے تقلید کے جواز کا ذکر کیا ہے تو وہ اسی معنی میں کیا ہے!! فتدبر!!
    اب ہم آپ کے حوالاجات کا جواب تحریر کرتے ہیں:
    مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں لفظ تقلید اصطلاحی معنی کے علاوہ استعمال کیا ہے، جیسا کہ وہ پہلے بیان کر چکے ہیں ۔ اور مجتہد کے قول کی طرف رجوع کرنا تقلید کی اصطلاحی تعریف سے خارج ہے ۔ جسے مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس سے قبل بیان کر دیا ہے اور آپ نے بھی اسی تعریف کو پیش کیا ہےاور تسلیم کیا ہے۔ آپ کی یاد دہانی کے لیئے میں وہ تعریف پھر پیش کیئے دیتا ہوں:
    [FONT="_PDMS_Saleem_QuranFont"]"التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین" الخ

    "تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں"۔ الخ
    (مسلم الثبوت ص:289طبع 1316ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص400)
    ناصر نعمان بھائی ! یہاں بھی وہی بات ہے جو اوپر بیان کی ہے۔ کہ اتباع اہل الذکر ( اہل العلم، میرے پا س جو اشاعت ہے اس میں اہل الذکر کے الفاظ ہیں اور اور یہ دونو ہم معنی ہیں) تقلید کی تعریف سے خارج ہے!!
    ام نورلعین کے مراسلہ کے جواب میں بھی آپ نے کچھ باتیں لکھیں ہیں اسے بھی شامل کر لیتا ہوں۔
    پھر وہی بات ہے کہ مولانا سید نذیر حسین دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں لفظ تقلید اصطلاحی معنی کے علاوہ استعمال کیا ہے، جیسا کہ وہ پہلے بیان کر چکے ہیں ۔ اور اہل الذکریعنی علماء فقہا و مجتہدین کے قول کی طرف رجوع کرنا تقلید کی اصطلاحی تعریف سے خارج ہے۔

    جواب مکمل ہوا!!

    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
    [/FONT]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  11. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
    جی ناصر نعمان بھائی! یہ جذباتی کاروائی آپ کی جانب سے تھی۔ یہ ہی بہتر ہوتا کہ ہم ایک ایک دلیل کا جائزہ لیتے، مگر آپ نے اپنی پہلی دلیل تو تنہا پیش کی، مگر قبل اس کے کہ آپ شرعی حکم کا بتلاتے، آپ نے اپنے زعم میں مزید دلائل پیش کر دیئے۔ جب آپ نے پیش کیے ہیں تو ان کا جواب لازم تھا۔ سو وہ میں نے دے دیا۔ آپ دیکھ لیں میں نے ابھی تک کوئی دلیل اپنی طرف سے تقلید کے بطلان پر پیش نہیں کی ہے ، صرف آپ کے پیش کردہ دلائل کا بطلان ثابت کیا ہے!!
    ناصر نعمان بھائی ! آپ کے زعم میں جو تقلید کے وجوب پر دلائل آپ نے پیش کیئے تھے ان کا مدلل رد کیا جا چکا ہے۔ اگر آپ کو کوئی اشکال ہو تو یکے بعد دیگرے پیش کریں۔ یا اگر آپ کے پاس تقلید کے وجوب پر کوئی اور دلیل ہو تو پیش کریں۔ یکے بعد دیگر تاکہ بات نہ الجھے!!

    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
     
  12. ناصر نعمان

    ناصر نعمان -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 24, 2009
    پیغامات:
    38
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    محترم ابن داﺅد بھائی جب آپ سارے معالا ت پہلے ہی سے طے کرکے بیٹھے ہیں کہ آپ نے کس بات پر کون سی ”دلیل“ استعمال کرنا ہے ؟پھر آپ نے اتنی لمبی چوڑی پوسٹ لکھنے کی زحمت کیوں فرمائی ؟
    جب آپ فیصلہ فرماچکے ہیں کہ ”جب آپ کو ”عملی طور پر مقلدین جیسے عمل کی نظیر“پیش کی جائے گی۔
    تو جواب آپ کا ”یہ اتباع ہے جبکہ مقلدین تقلید کرتے ہیں اور اتباع اور تقلید الگ الگ چیز ہے“ہوگا ۔
    جب آپ کو” آپ کی نظر میں “کسی ثقہ عالم کا واضح ”تقلید کے لفظ کے ساتھ “ اثبات کا قول پیش کیا جائے۔
    تو آپ کا جواب ”مقلدین کی تقلید الگ چیز ہے اور ثقہ عالم کی تقلید الگ چیز ہے “ فرمادینا ہوگا۔
    اور جب آپ کو” مقلدین علماءکی طرف سے تقلید کی وضاحت“ پیش کی جائے
    تو آپ کا فرمان ”متاخرین کی شرح کی کوئی وقعت نہیں ہے
    جب آپ کو کوئی دلیل ایسی ناصرنعمان پیش کرے جوقابل غور ہو
    تو آپ کا جواب کہ ”علماءدیو بند کے پاس اس چیز کاجواب نہیں تو تمہاری کیا اوقات ہے “کہہ کرمنہ بند کردیا جاسکتا ہے ۔
    میرے عزیز دوست !
    واقعی آپ کے ان ”ٹھوس اور اٹوٹ دلائل “ کے ساتھ مذکورہ مسئلہ پر مزید بات کرنا یا مسئلہ سمجھنا ہم جیسے عامی کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ تقریبا ناممکن ہے ۔ ۔۔۔بہرحال کچھ چیزوں کی وضاحت ضروری تھی اس لئے ہم مختصر کچھ عرض کرنا چاہیں گے ۔
    تقلید کے وجوب پر ہماری وضاحت”لاعلمی کے وقت کسی مجتہد اہلسنت کی تقلید واجب ہے “پر تھی ۔۔۔”تقلید شخصی" کے وجوب پر نہیں تھی۔۔
    جو آپ نے علماءدیو بند کی کتاب کا حوالہ پیش فرمایا وہ”تقلید شخصی کے وجوب “پر تھا۔۔۔اگر آپ اس نقطہ پرغیر جانبدارانہ ذہن سے غور فرمائیں گے تو شاید آپ کو بات سمجھ میں آجائے کہ ”لاعلمی کے وقت کسی مجتہد کی تقلید (یعنی تقلید مطلق “ ۔۔۔۔اور ”کسی معین مذہب کی تقلید(یعنی تقلید شخصی “دو علیحدہ علیحدہ معاملات ہیں ۔۔۔جس پر آپ نے جذبات میں دونوں چیزوں کو ایک ہی رنگ میں رنگ کے ”متعارض“ بنا کرپیش فرمادیا۔
    ملاحظہ فرمائیں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ایک اعتراض (کہ ایک چیز صحابہ و تابعین کے عہد میں نہ ہو بعد میں ضروری قرار دے دی جائے )کا تسلی بخش جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
    ”قلت: الواجب الاصلی ھو ان یکون فی الامة من یعرف الاحکام الفرعیة من ادلتھا التفصیلة ،اجمع علیٰ ذلک اھل الحق ،ومقدمة الواجب واجبة ،فاذا کان للواجب طرق متعددة وجب تحصیل طریق من تلک الطرق من غیر تعیین ،واذاتعین لہ طریق واحد وجب ذلک الطریق بخصوصہ ۔۔۔۔وکان السلف لا یکتبون الحدیث ثم صاریومناھذاکتابة الحدیث واجبة ،لان روایة الحدیث لاسبیل لھا الیوم الامعرفة ھذہ الکتٰب وکان السلف لایشتغلون بالنحوواللغة وکان لسانھم عربیا لا یحتا جون الیٰ ھذا الفنون ،ثم صاریومنا ھذا معرفة اللغة العربیة واجبة لبعد العھدعن العرب الاول ،وشواھد مانحن فیہ کثیرة جدا،وعلیٰ ھذاینبغی ان یقاس وجوب التقلید لامام بعینہ فانہ قدیکون واجبا وقد لایکون واجبا“
    یعنی اس اعتراض کے جواب میں میری گذارش یہ ہے کہ اصل میں تو واجب یہ ہے کہ امت میں ایسے افراد موجود ہوں جو شریعت کے فروعی احکام کو تفصیلی دلائل کے ساتھ جانتے ہوں ،(تاکہ لوگ اُن سے مسائل معلوم کرکے عمل کرسکیں) اس بات پر اہل حق کا اجماع ہے ،لیکن واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے ،لہذا اگر کسی واجب کی ادائیگی کے متعدد طریقے ہوں ،تو ان طریقوں میں سے کسی بھی طریقہ کو اختیار کرلینے سے واجب کا تقاضا پوارا ہوجاتا ہے ،لیکن اگر واجب پر عمل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہوتو خاص اسی طریقے کا حاصل کرنا بھی واجب ہوجاتا ہے ۔۔۔مثلا ہمارے اسلاف حدیثوں کو لکھتے نہیں تھے ،لیکن ہمارے زمانے میں احادیث کا لکھنا واجب ہوگیا ،اس لئے اب روایت حدیث کی اس کے سوا کوئی سبیل نہیں کہ انہی کتابوں کی مراجعت کی جائے ،اسی طرح ہمارے اسلاف صرف نحو اور لغت کے علوم میں مشغول نہیں ہوتے تھے اس لئے کہ اُن کی مادری زبان عربی تھی ،وہ ان فنون کے محتاج نہیں تھے ،لیکن ہمارے زمانے میں عربی زبان کا علم حاصل کرنا واجب ہوگیا ،اس لئے ہم ابتدائی اہل عرب سے بہت دور ہیں ،اور اس کے شواہد اور بھی بہت سے رہے ہیں (کہ زمانے کے تغیر سے ایک چیز پہلے واجب نہ ہو اور بعدمیں واجب ہوجائے) اس پر کسی معین امام کی تقلید شخصی کو قیاس کرنا چاہیے ،کہ وہ کبھی واجب ہوتی ہے کبھی واجب نہیں ہوتی“
    تو میرے بھائی اس عبارت میں بھی واضح ہے کہ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے ’’تقلید شخصی‘‘ کا وجوب قیاس سے ثابت فرمایا ۔۔۔۔۔ اس لئے اُس موقعہ پر ہماری وضاحت ”تقلید شخصی“ کے وجوب پر نہ تھی بلکہ”مطلق تقلید “کے وجوب پر تھی۔
    پھر آپ کا یہ فرمانا کہ”مولانا سید نذیر حسین رحمہ اللہ کا یہاں لفظ ”تقلید “ کا استعمال کسی اور معنی میں ہے؟؟
    لیکن آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ مولانا سید نذیر حسین تقلید کی چار قسمیں بیان کرتے ہوئے” کیفیت“ بیان کرتے ہوئے فرق فرماتے ہیں ۔۔۔ناکہ لفظ ”تقلید“کے اصطلاحی اور معنوی مفہوم کے فرق کو واضح کرتے ہوئے؟؟؟ ہوسکتا ہے کہ آپ یہ فرمائیں کہ ”اسی کیفیت سے ہی اصطلاحی اور معنوی تقلید کافرق واضح ہوتا ہے “
    تو جناب کے لئے عرض ہے کہ پھر ہم اُنہی بزرگ کا ایک حوالہ پیش کررہے ہیں جن کی عبارت کولے کر مولانا سید نذیر رحمہ اللہ نے”تقلید مطلق کے وجوب “کی تائید میں پیش فرمایا۔
    حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
    ”فاذا کان انسان جاھل فی بلاد الھند وما وراءالنھر والیس ھنا لک عالم شافعی ولا مالکی ولا حنبلی ولا کتاب من کتب ھذا المذھب وجب علیہ ،ان یقلد لمذھب ابی حنیفہ ویحرم علیہ ان یخرج من مذھبہ لانہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقہ الشریعة ویہقی سدی مھملا،بخلاف مااذاکان فی الحرمین“(الانصاف ص 69،71)
    یعنی پس اگر جاہل شخص ہندوستان یا ماوراءالنہر کے علاقے میں ہو اور وہاں کوئی شافعی ،مالکی ،یاحنبلی عالم موجود نہ ہو ،اور نہ اُن مذاہب کی کوئی کتاب دستیاب ہو،تو اس پر صرف امام ابو حنیفہ ہی کی تقلید واجب ہوگی ،اور اُن کے مذہب کو چھوڑنا اس کے لئے حرام ہوگا ،کیوں کہ اس صورت میں وہ شخص شریعت کی پابندیاں اپنے گلے سے اتار کر بالکل آزاد اور مہمل ہوجائے گا ،برخلاف اس صورت کے جبکہ وہ حرمین میں ہو (کہ وہاں وہ چاروں مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کی پابندی کرسکتا ہے)
    ہوسکتا ہے کہ آپ اس عبارت میں بھی کوئی تاویل کرکے اپنے موقف کا دفاع فرمائیں ۔۔۔اس لئے شاہ صاحب کا ایک اور حوالہ پیش خدمت ہے جس میں بعد کے فقہاءکے ”تقلید شخصی “کے ذریعہ جس عظیم فتنہ کا انسداد کیا ،اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں :
    ”وبا لجملة فا لتمذھب للمجتھدین سرا الھمہ اللہ تعالیٰ العلماءوجمعھم علیہ من حیث یشعرون اولا یشعرون “(الانصاف ص 63)
    یعنی خلاصہ یہ کہ مجتہدین کے مذہب کی پابندی ایک راز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علماءکے دل میں ڈالا ،اور شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ان کو اس پر متفق کیا“
    آپ کا اس عبارت کے بارے میں کیا خیال ہے ؟۔۔۔ارے ہاں یاد آیا ۔۔۔۔۔۔۔”مقلدین کا قلعہ فتح “کرنے کے لئے آپ کا ایک اور”اہم ترین دلیل“ تو ہم بھول ہی گئے تھے ۔۔۔۔ ”کسی امتی کا قول آپ پر حجت نہیں (یعنی اگر توکسی معتبر بزرگ کا قول اپنے موقف کی مطابقت میں مل جائے تو ٹھیک ہے بصورت دیگر حجت نہیں)“
    تو بھائی بات یہ ہے کہ ایسے”ٹھوس اوراٹوٹ دلائل“ کی موجودگی میں آپ سے بات کرنا یا مذکورہ مسئلہ سمجھنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ہاں البتہ جب آپ کی نیت خلوص دل سے مخالفین کو ہرانا نہیں بلکہ اُن کی غلط فہمی دور کرنا ہوگی ۔۔تو آپ کا طرز عمل یقینا بہت مختلف ہوگا۔

    اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
     
  13. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
    جی جناب ! دلائل کتب میں موجود ہیں ۔ وہی دلائل بیان کیے ہیں ۔ اور آپ کو بتلانے اور سمجھانے کے لئے تحریر تو کیا جائے گا۔
    جناب جب تقلید کی اصطلاحی تعریف میں اتباع شامل نہیں تو آپ کو بتایا تو جائے گا۔
    جب تقلید کی اصطلاحی تعریف میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ ثقہ عالم سے سوال کرنا اور اس کے فتوی پر عمل کرنا ، تقلید کی اصطلاحی تعریف میں شامل نہیں تو آپ کو یہ بات بھی بتلائی جائے گی۔
    جب وضاحت و تشریح کا متقدمین کی تعریف سے تضاد ہو تو وہ اس کی واقعی کوئی وقعت نہیں۔ یہ بات بھی آپ کو بتلا دی گئی ہے اور جب بھی ایسی بات ہو گی آپ کو بتایا جائے گا۔
    نہیں ، ایسا ہم نے ہر گز نہیں کیا۔ آپ ضرور بالضرور دلائل بیان کریں۔
    بول کہ لب آزاد ہیں تیرے!! ​
    اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے دالائل ٹھوس اور اٹوٹ ہیں۔ جب آپ کو اس بات کا اعتراف ہے کہ اہل الحدیث کے دلائل ٹھوس اور اٹوٹ ہیں تو آپ ان دلائل کو قبول کریں اور اہل الحدیث کے مؤقف کو اختیار کر لیں۔ اگر آپ کی نظر میں یہ دلائل ناقص ہیں تو ان کا نقص بیان کریں!!
    جی اور ہم اس بات کو ثابت کر آئیں ہیں کہ لاعلمی کے وقت مجتہد اہلسنت کی تقلید اپنے اصطلاحی معنی کے علاوہ ہے۔
    جی جناب! ہم جانتے ہیں، کہالمہند اور علی المفند میں تقلید شخصی کے وجوب کی بات کی گئی ہے۔
    نہیں جناب، ہم نے تو کوئی تعارض پیش ہی نہیں کیا۔ آپ نے بھی اپنی تقلید کو واجب کہنے کے پرہی ایک اقتباس پیش کیا تھا۔ ہم تو یہ کہیں کہا ہی نہیں کہ المہند علی المفند اور ناصر نعمان کے پیش کردہ حکم میں کوئی تضاد ہے۔ یہ بات آپ نے نہ جانے کہاں سے اخذ کی ہے۔ میں آپ کے دو اقتباس نقل کرتا ہوں، جہاں آپ نے تقلید مطلق کو کے واجب ہونے کا ذکر کیا ہے۔
    اس کا حوالہ درکار ہے، تاکہ اس شبہ ک ابھی ازالہ کیا جا سکے۔ ان شاء اللہ!!
    آپ پہلے اس کا حوالہ دے دیں، اس قیاس کی حیثیت بھی سامنے آ جائے گی ۔ انشاءاللہ!
    جی جناب ہمیں معلوم ہے، اور ہم نے ابھی تک اپنی جانب سے تقلید کے بطلان پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ بلکہ آپ کی پیش کردہ دلائل کا تقلید ، یا تقلید مطلق پر استدلال باطل ہے۔ اور عبد الرحمن بن ناصر بن السعدي کی تفسیر "تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان" کی تفسیر بیان کر دی تھی ۔ جس میں عبد الرحمن بن ناصر بن السعدي نے تقلید شخصی کا بتلان ثابت کیا ہے۔ اور یہ بات تو اس لیئے درج کر دی تھی کہ اس آپ نے اس آیت کی تفسیر سے تقلید پر استدلال کیا تھا۔ لہذا میں نے اس پر اس آیت کی تفسیر پیش کر دی۔
    جناب اس پر دلیل قائم کر دی گئی ہے!! کہ وہ اصطلاحی معنی میں نہیں!!
    آپ تو ماشاء اللہ! بہت سمجھدار ہیں، جانتے ہیں کہ اس کیفیت سے ہی فرق واضح ہو جاتا ہے!!
    ناصر نعمان صاحب! یہ ہو سکتا ہے آپ ایسا کریں یا شاید ویسا کریں!! ان تخیلات کو بحث میں شامل نہ کریں۔ ہم نے جو کرنا ہے وہ آپ کے سامنے آجائے گا۔ ہم نے کیاکرنا ہے کیا نہیں کرنا یہ آپ ہم پر ہی چھوڑ دیں! اس کا بھی آپ کو مدلل جواب دیا جائے گا مگر یکے بعد دیگر!!
    ناصر نعمان صاحب! جیسا کہ میں نے آپ کو عرض کیا ہے کہ تمام دلائل کا جائزہ لیا جائے گا انشاء اللہ ، اور ہم تقلید کے ہر ہر پہلو پر گفتگو کریں گے۔ لیکن یکے بعد دیگر کے اصول کے مطابق۔
    مندرجہ بالا دو عبارات سے آپ نے تقلد شخصی کے وجوب کی دلیل قیاس سے پیش کی ہے۔ ان کا ان شاءاللہ مدلل جواب دیا جائے گا۔ مگر یکے بعد دیگر!!
    پہلے قرآن و سنت سے تقلید پر آپ کے دلائل کا جائزہ ہو جائے۔ قیاس کی باری تو اجماع کے بھی بعد ہے!!
    ناصر نعمان صاحب! اس طرز سخن سے گریز کیجئے !! ہم آپ کو پیشگی ہی بتلا دیتے ہیں کہ پھر آپ ہمارے سخن کی تاب نہ لا سکو گے!!میں آپ کو فقہ حنفیہ کے دلائل کی تعداد گنوا دیتا ہوں، وہ ہیں چار، جنہیں دلائل اربعہ یا ادلۃ اربعہ کہا جاتا ہے:
    ۱۔ قرآن ۲۔ سنت ۳۔ اجماع۔ ۴ قیاس
    امتی کا قول فقہ حنفیہ میں بھی حجت نہیں ۔ آپ اگر تقلید کی تعریف بغور پڑھیں تو آپ کو یہ بات تقیلد کی تعریف سے بھی معلام ہو جائے گی۔ میں آپ کو تقلید کی تعریف پھر پیش کیئے دیتا ہوں۔
    "التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجة منھا فلیس الرجوع النبی علیہ الصلاة والسلام واالاجماع منہ"
    تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔ (تحریر ابنِ ہمام فی علم الاصول جلد 3 ص453)
    اب یہ شخص جو امتی ہے، اس کا قول تو آپ کے ہاں بھی حجت نہیں۔ دراصل آپ اپنی ہی اصول فقہ کو بھول گئے ہو، اور ہمیں یاد دلانا پڑتا ہے!!

    ہمارا تو مؤقف ہی قرآن و حدیث ہے، جو قرآن و حدیث کے مطابق ہو وہ سر آنکھوں پر، ورنہ وہ مقبول نہیں۔
    اب میں آپ کو اس پر بہت خوبصورت جواب دے سکتا ہوں، لیکن شاید آپ اس کی تاب نہ لا سکیں۔ لہذا علمی گفتگو کریں اور دلائل پیش کریں!!
    بالکل اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اہل الحدیث کے مؤقف کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے دلائل ٹھوس اور اٹوٹ ہوتے ہیں!! اہل الحدیث کے دلائل کو رد کرنا :
    ایں خیال است و محال است و جنوں!!​
    جناب من! آپ سے کون سی کشتی کا مقابلہ ہے ہمارا جو ہمیں ہرانے کی فکر ہو!! ہم نے تو اب تک بھی آپ کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیئے ہی تقلید کے وجوب پر آپ کے دلائل کا بطلان ثابت کیا ہے! اب مختلف طرز عمل کیا ہونا چاہیے کہ ہم آپ کو غلط فہمی کو دور نہ کریں اور آپ کے دلائل کا بطلان ثابت نہ کریں!!
    آمین! اللہ تعالیٰ ہمیں دلائل کو جو ٹھوس اور اٹوٹ ہیں قبول کرنے کی تو فیق دے!
    آپ کے پاس تقلید کے وجوب پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل ہو تو پیش کریں۔
    اگر قرآن و حدیث سے کوئی اور دلیل نہیں ہے تو بتلا دیں !!

    تا کہ "الانصاف "سے پیش کردہ آپ کی قیاسی دلیل کا جواب دیا جائے!! اور اس سے قبل اگر اجماع کی کوئی دلیل ہو تو بہتر رہے گا!!

    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔
    [/font]
     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 15, 2010
  14. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    مذہب حنفی کے مقلدین نے تقلید کو اپنے اوپر واجب کرلیا ہے ۔ لہذا جتنے بھی دلائل دے دیے جائیں ۔ ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے کہ الطحاوی دوراں کی مولانا رفیق طاھر حفظ اللہ کے ساتھ اسی موضوع پر طویل بحث ہوئی ۔ لیکن نتیجہ وہی '' میں نہ مانوں ہار ''

    عجیب بات یہ ہے کہ مقلدین کی طرف سے تقلید کی جتنی تعریفین اور دلائل تقلید کو واجب کرنے کے لیے دیے جائے رہے ہیں‌ قرآن وحدیث سے ان کا کوئی ثبوت نہیں‌۔ وہ سب تو جانوروں سے منسوب ہیں‌ جو کہ عقل اور شعور سے عاری ہیں ۔ معلوم نہیں‌کہ حنفی علماء نے اس کا اطلاق انسانوں پر کیسے کر لیا گویا کہ انسانوں اور جانوروں‌ کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ۔
     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 16, 2010
  15. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    ابن رواحہ نے یہاں بھی میراذکر خیرجب کردیاہے تولازمی ہے کہ کچھ جواب دوں
    بنیادی چیز یہ ہے کہ غیرمقلدین کس تعریف کو مانیں گے کس کو نہیں مانیں ان کے پاس کوئی اصول نہیں ہے لہذا بے اصول شخص کے ساتھ بحث ہی بے کار ہوتی ہے۔
    رفیق طاہرکے ساتھ بحث اس لئے ختم کردی گئی کیونکہ چھ صفحات سیاہ کرنے کے باوجود وہ اپنے اعتراضات واضح نہیں کرسکے ۔اس بحث کو دوبارہ شروع کیاجاسکتاہے لیکن ڈھاک کے تین پات کے علاوہ اورکچھ برآمد ہونے کی توقع نہیں‌ہے۔
    تقلید کی نسبت کے لحاظ سے عربی لغات میں ایک نظردوڑایئے انسان کو انسانوں والامعنی پسند آئے گا اورجانور کو جانوروں والا معنی۔اب خود ہی فیصلہ کرلیجئے گاکہ کس میں شامل ہوناچاہتے ہیں۔
     
  16. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    سبحان اللہ ۔ اصل میں تقلید کا تعلق جانوروں سے ہے ۔ اب اس میں اصول کہاں سے گھس آئے ۔ اب اگر کوئی جانوروں پر اصول بنا لے تو کیا کوئی کوئی متبع قرآن وحدیث بحث کرے گا ۔ یہ تو ہمارے بھائی ابن داؤد اور دوسرے چاہتے ہیں کہ ہمارے جو انسان جاہل ہونے کی وجہ سے تقلید کے پٹے کو اپنا مقدر سمجھ کر جانوروں میں شامل ہوچکے ۔ انہیں احساس دلایا جائے کہ ان کا تعلق انسانوں سے ہے ۔اور عجیب بات یہ ہے کہ جو بھی انہیں یہ احساس دلائے کہ بھائی یہ تقلید صحیح نہیں ۔ یہ تقلید کا پٹہ اتار دیں تو وہ انہیں غیر مقلد کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔یعنی کے یہ لوگ ہم مقلدین جانوروں کی طرح تقلید کا پٹہ اپنےگلے میں کیوں نہیں‌ ڈالتے ۔ لہذا یہ غیر مقلد ہیں ۔ اللہ نےقرآن میں ایسے لوگوں‌کی مثال دی ہے کہ إن هم إلا كالأنعام -- یہ لوگ جانوروں کی طرح ہے ۔ جس طرح جانوروں میں‌ شعور اور عقل نہیں ۔ یہ بھی ان سے محروم ہیں‌ ۔۔ جو کہ انسان ہونے کے باوجود جانوروں سے نسبت ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں‌۔

    میں اس پر اپنی رائے دینا نہیں چاہتا ۔ صرف اس تھریڈ کا لنک حاضر ہے ۔
    تقلید کا ایک منصفانہ جائزہ - URDU MAJLIS FORUM
    '' میں نہ مانو ہار '' حیرت کی بات یہ ہے کہ مقلدین صحیح معنوں میں مقلد بھی نہیں‌۔
    ناکام کوشش ۔ عربی لغات ۔ رہنے دیں قبلہ ۔ اہل اردو کے لیے عربی لغات کا نام نہ لیں ورنہ بہت کچھ سامنے آ جائے گا ۔
     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 17, 2010
  17. ناصر نعمان

    ناصر نعمان -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 24, 2009
    پیغامات:
    38
    ہم آپ کی ہر بات کا جواب آپ کے ہی انداز میں سے سکتے تھے لیکن ہم غیر ضروری بحث اور اُن غیر ضروری باتوں کے جوابات سے اجتناب کرتے ہیں جس میں محض’’تعصب ‘‘ بھرا ہو۔

    ہم یہ تھریڈ شروع کیا ۔۔۔۔ جس کا عنوان ہے کہ ’’کیا ہمیں تقلید نہیں کرنی چاہیے ؟‘‘۔۔۔۔۔ اور ساتھ میں پہلی پوسٹ میں اپنی پوزیشن واضح کردی۔۔۔۔ ہم نے لکھا تھا کہ:
    یہاں ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ نہ تو ہم کوئی عالم ہیں نہ کوئی مناظر ہیں ۔۔۔۔بلکہ ہم بالکل ایک عام مسلمان کی طرح ہیں ۔۔۔۔جس کے ذہن میں ابو طلحہ بھائی کے ”تقلید“ پرتھریڈ دیکھتے ہوئے کچھ سوالات اور اشکالات کھڑے ہوتے ہیں ہیں ۔۔۔۔جس کی تسلی و تشفی کے لئے ہم یہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔اس لئے ابو طلحہ بھائی سے گذارش ہے کہ وہ اپنے بات چیت ایک عامی مسلمان کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمائیں ناکہ کسی عالم و مناظر سمجھ کر۔
    لیکن اس کے باوجود آپ تمام پوسٹ ملاحظہ فرمائیں اور نشاندہی فرمائیں کہ کہاں اور کس موقعہ کر کس نے ’’خلوص سے ایک عامی کی غلط فہمی دور کرنے کوشش کی‘‘ سوائے اس کے کہ یہ ’’معرکہ‘‘ کیسے سر کیا جائے ۔۔۔۔ اور اس "معرکہ" کو سر کرنے کے لئے ہمارے کون سے ہتھیار کار آمد ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔ اُن کا استعمال کیسے کیا جائے ؟
    اب ابن داود بھائی کو دیکھ لیں جنہوں نے بجائے ایک عامی کو تقلید کی گمراہی سمجھانے کے ۔۔۔۔ مقلدین علماء کرام کی گمراہی سمجھانا شروع کردی ؟؟؟
    ( ملاحظہ فرمائیں پوسٹ نمبر 86 ،87 وغیرہ ۔۔۔۔
    اگر تو آپ ’’مقلدین کو فتح‘‘ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے ایک عامی کو مسئلہ سمجھا سکیں تو ہم حاضر ہیں۔
     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 17, 2010
  18. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    الحمد للہ ۔ میں آپ کی پوسٹ کا اچھے طریقے سے جواب دے سکتا ہوں ۔ ۔ لیکن میں ابن داؤد بھائی اور آپ کی گفتگو کے درمیان نہیں آنا چاہتا۔ آپ اپنی گفتگو جاری رکھیں ۔
    میں‌ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں‌۔ میں نے جو کچھ لکھا اس کو ''تعصب '' نہیں کہ سکتے ۔ میں‌نے تو صرف انسان اور جانور کا فرق واضح کیا ہے ۔ آپ نے معرکہ کی بات کی ۔ یہ کوئی معرکہ نہیں ۔ ہمارے تحفظات یہ ہیں کہ آپ نے ابھی تک تقلید پر کوئی مستند دلیل پیش نہیں‌ کی ۔ اگر آپ گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس دو ہی ہتھیار ہیں‌۔ وہ دو ہیں قرآن و حدیث ۔ اسی پر ہی فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ تک تھریڈ کے کئی صفحات ہو چکے ۔ ابھی تک عامیوں کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ تقلید کرنی چاہے یا نہیں‌۔ ۔ ‌
     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 17, 2010
  19. ناصر نعمان

    ناصر نعمان -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 24, 2009
    پیغامات:
    38
    تو آپ کے مطابق ایک عامی کو کسی مسئلہ کے جواب کے لئے شریعت اس چیز کا مکلف ٹہراتی ہے کہ وہ پہلے تقلید کی مستند تعریف سمجھے ؟؟؟
    لیکن جب کوئی عامی جو تھوڑا بہت جانتا ہے وہ تقلید کی تعریف اپنے علماء کرام سے واضح کرتا بھی ہے ۔۔۔ تو وہ مخالفین کو اس لئے قبول نہیں کہ یہ متاخرین کی تشریح ہے ؟
    یعنی مخالفین نے مسئلہ نہیں سمجھانا بلکہ مقلدین کو نیچا دکھانا ہے ۔۔۔۔ کیوں‌کہ بالفرض تھوڑی دیر کے لئے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ تقلید کی تعریف میں‌ کوئی کمی تھی بھی اور جب اس کو وضاحت کے ساتھ پورا کردیا گیا ۔۔۔۔ تو پھر مخالفین کا ’’مقدمین کی تعریف‘‘ پر اصرار کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟
    انصاف کا تقاضا تو یہ کہتا ہے کہ
    ’’مخالفین کو تقلید کی تعریف پر اعتراض تھا ‘‘ ۔۔۔
    اور مخالفین کی نیت مقلدین کی اصلاح تھی ۔۔۔۔
    تو جب مقلدین نے تقلید کی تعریف کا اعتراض دور کردیا
    تو کیا مخالفین کا فرض نہیں بنتا کہ وہ اس کو قبول کرکے اگلے اعتراض پر بات کرتے ؟؟؟
    تاکہ مخالفین کی جو اصلاح کی نیت تھی اس میں پیش رفت ہوتی ؟؟؟ اور اس کے بعد کا معاملہ زیر غور لایا جاتا ؟؟؟
    لیکن صورتحال آپ کے سامنے ہے کہ بجائے ’’تقلید‘‘ کی تعریف کو قبول کرتے ہوئے اگلی بات کی جائے مگر اصرار یہی ہوتا ہے کہ ’’ہمیں متاخرین کی جانب سے تقلید کی یہ تعریف قبول نہیں‌‘‘
    اس کا تو صاف مطلب یہی نظر آتا ہے کہ مخالفین کی نیت مقلدین کی اصلاح کرنا نہیں بلکہ ’’قلعہ فتح‘‘ کر کے کوئی میڈل حاصل کرنا ہے ؟؟؟
    اس لحاظ سے آپ کے نزدیک ہر عامی مقلد اس چیز کا مکلف ہے کہ وہ پہلے مخالفین سے ’’تقلید‘‘ کی مستند تعریف پر ایسی بحث کرے جس کا نہ کوئی مقصد نہیں ۔۔۔۔ اور چاہے اُس کو کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے ؟؟؟
    لیکن آپ کے نزدیک اس کے بعد ہی ایک عامی اپنے مسائل پر مفتی سے فتوی حاصل کرنا چاہیے ؟؟ ورنہ ہر عامی مقلد مشرک یا بدعتی ہوسکتا ہے ؟؟؟
    نہ جانے کیوں مخالفین کو اتنی آسان سی بات کیوں نہیں سمجھ آتی کہ کامیابی ’’بے مقصد کے اصرار‘‘ میں نہیں بلکہ ’’خلوص نیت سے اصلاح‘‘ کوشش میں‌ ہے ؟؟؟


    یہی تو سمجھنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔لیکن کوئی عامی کو سمجھانے والا تو ہو ۔۔۔۔یہاں تو ایسے بات کی جارہی ہے جیسا کسی عالم یا مناظر سے بات کی جاتی ہے باقی اب تک کی بات چیت میں‌ سوائے
    پچھاڑنے کی کوشش کے ہمیں اور کچھ نظر نہ آیا
    اگر آپ کو ایسا کچھ نظر آرہا ہے کہ جس سے عامی کی غلط فہمی دور ہوتی ہو تو واضح فرمادیجے ِ
     
  20. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    بہت پیاری بات کہی نعمان صاحب آپ نے کے غیر ضروری باتوں کے جوابات سے اجتناب ہی عقلمندی اور دانشمندی کی علامت ہے لیکن کیا غیر ضروری باتیں جنہیں آپ غیر ضروری سمجھتے ہیں کو تعصب قرار دینا یہ نری جہالت تصور نہیں کیا جائے گا کیونکہ جب بات کسی دینی مسئلے پر چل رہی ہو تو وہاں پر مخالف کی بات یا موقف ہمیشہ سے ایسے ہی الزامات لگا کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسا کے آپ نے انجام دے دیا۔۔۔ اس کے محرکات صرف یہ ہی ہوتے ہیں کے ہم پڑھنے والے ہمیشہ سے یہ ہی سوچ رہے ہوتے ہیں کے لکھنے والے کا علم شاید ہماری قابلیت سے کم ہے۔۔۔ اور فہم میں الامان والحفیط والی بات۔۔۔ المہمم۔۔۔

    ابن رواحہ نے بالکل درست بات کی۔۔۔ یہاں پر تھوڑا سا فہم کا فقدان ہے ورنہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں جتنا تعصب کو بنیاد بنا کے اُسے غیر ضروری طور پر ایک عامی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔۔۔ ابن رواحہ صاحب کی بات سے جو مقصد نکلتا ہے وہ یہ کے انسان اور جانور دونوں اللہ ہی کی مخلوق ہیں لیکن انسان کو اللہ نے سمجھ بوجھ اور عقل عظاء فرمائی ہے۔۔۔ قرآن پڑھ لیا کیجئے جب آدم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم سے چیزوں کے نام بتائے۔۔۔ لیکن کیا کسی جانور کی کوئی مثال سمجھ اور عقل کو لیکر قرآن میں اللہ تعالٰی نے بیان فرمائی؟؟؟۔۔۔ ماسوائے ایک کُتے کے وہ میں اس لئے نہیں پیش کروں گا کے کہیں اُسے بھی آپ تعصب کے خانے میں نہ ڈال دیں۔۔۔

    انسان اشرف المخلوقات ہے ہمیں اس پر اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے والا بننا چاہئے نہ کے پٹے ڈال کر ہم اپنے رب کو ناراض کریں۔۔۔ آئیں ایک مثال دیتا ہوں ایک عامی اور عقلمند کی عامی سمجھتا ہے کے نوبیاہتہ لڑکی نے شادی کے بعد اپنے پہلے بچے کو جنم دیا؟؟؟۔۔۔ لیکن اس عمل کے دوسرے پہلو کو ایک عامی بالکل نظر انداز کررہا ہے وجہ کچھ ہو لیکن ایک عقلمند اس کے برعکس یہ سوچ رہا ہوتا ہے کے کیا اس بچے نے بھی ایک ماں اور ایک باپ کو جنم نہیں دیا؟؟؟۔۔۔

    اور اپنی پچھلی تحریر میں شاید میں نے آپ سے ایک سوال کیا تھا؟؟؟۔۔۔ آیت کے تعلق سے شاید وہ سوال بھی آپکی عقلمندی اور دانشمندی کی علامت بن کر غیرضروری بات بن کر منظر سے غائب ہوگیا اگر ہوسکے تو اس کا جواب بھی ضرور دیجئے گا۔۔۔

    والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں