سنن ابو داود ـ امام ابو داود سليمان بن الاشعث السجستانی

نعیم یونس نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏مارچ 25, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    10- بَاب هَلْ يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ
    ۱۰-باب: کیا مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے؟


    2909- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، وَلا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ >۔
    * تخريج: خ/المغازي ۴۸ (۴۲۸۳)، الفرائض ۲۶ (۶۷۶۴)، م/الفرائض (۱۶۱۴)، ت/الفرائض ۱۵ (۲۱۰۷)، ق/الفرائض ۶ (۲۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۰۰، ۲۰۱، ۲۰۸، ۲۰۹) (صحیح)

    ۲۹۰۹- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا ‘‘۔

    2910- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ ابْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا؟ فِي حِجَّتِهِ، قَالَ: < وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلا؟ > ثُمَّ قَالَ: < نَحْنُ نَازِلُونَ بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ حَيْثُ تَقَاسَمَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْكُفْرِ >، يَعْنِي: الْمُحَصَّبِ، وَذَاكَ أَنَّ بَنِي كِنَانَةَ حَالَفَتْ قُرَيْشًا عَلَى بَنِي هَاشِمٍ: أَنْ لايُنَاكِحُوهُمْ، وَلا يُبَايِعُوهُمْ، وَلا يُؤْوُوهُمْ.
    قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَالْخَيْفُ الْوَادِي۔
    * تخريج: انظر حدیث رقم: (۲۰۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴) (صحیح)

    ۲۹۱۰- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! کل آپ(مکہ میں) کہاں اتریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیاعقیل نے ہمارے لئے کوئی جائے قیام چھوڑی ہے؟‘‘، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم بنی کنانہ کے خیف یعنی وادی محصّب میں اتریں گے، جہاں قریش نے کفر پر جمے رہنے کی قسم کھائی تھی ‘‘۔
    بنوکنانہ نے قریش سے عہد لیا تھا کہ وہ بنو ہاشم سے نہ نکاح کریں گے، نہ خرید وفروخت، اور نہ انہیں اپنے یہاں جگہ ( یعنی پناہ) دیں گے۔
    زہری کہتے ہیں : خیف ایک وادی کا نام ہے ۱؎ ۔
    وضاحت ۱؎ : اس حدیث کی باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کی وفات کے وقت عقیل اسلام نہیں لائے تھے، اس لئے وہ ابوطالب کی میراث کے وارث ہوئے، جب کہ علی اور جعفر رضی اللہ عنہما اسلام لانے کے سبب ابوطالب کی میراث کے حقدار نہ بن سکے۔

    2911- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ حَبِيبٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْروٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا يَتَوَارَثُ أَهْلُ مِلَّتَيْنِ شَتَّى >۔
    * تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۶۹)، وقد أخرجہ: ت/الفرائض ۱۶ (۲۱۰۹)، ق/الفرائض ۶ (۲۷۳۲)، حم (۲/۱۷۸، ۱۹۵) (حسن صحیح)

    ۲۹۱۱- عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو دین والے(یعنی مسلمان اورکافر) کبھی ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے ‘‘۔

    2912- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ عَمْرِو [بْنِ أَبِي حَكِيمٍ] الْوَاسِطِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ أَنَّ أَخَوَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ: يَهُودِيٌّ وَمُسْلِمٌ، فَوَرَّثَ الْمُسْلِمَ مِنْهُمَا، وَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الأَسْوَدِ أَنَّ رَجُلا حَدَّثَهُ أَنَّ مُعَاذًا [حَدَّثَهُ] قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ: < الإِسْلامُ يَزِيدُ وَلا يَنْقُصُ > فَوَرَّثَ الْمُسْلِمَ۔
    * تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۱۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۳۰، ۲۳۶) (ضعیف)
    (اس کی سند میں ایک راوی ’’رجلا‘‘ مبہم ہیں)

    ۲۹۱۲- عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں کہ دو بھائی اپنا جھگڑا یحییٰ بن یعمر کے پاس لے گئے ان میں سے ایک یہودی تھا، اور ایک مسلمان، انہوں نے مسلمان کو میراث دلائی، اور کہا کہ ابوالاسود نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ ان سے ایک شخص نے بیان کیا کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے اس سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ’’اسلام بڑھتا ہے گھٹتا نہیں ہے‘‘، پھر انہوں نے مسلمان کو ترکہ دلایا۔

    2913- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، أَنَّ مُعَاذًا أُتِيَ بِمِيرَاثِ يَهُودِيٍّ وَارِثُهُ مُسْلِمٌ، بِمَعْنَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم۔
    * تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۱۸) (ضعیف)

    ۲۹۱۳- ابو الا سود دیلی سے روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی کا ترکہ لایا گیا جس کا وارث ایک مسلمان تھا، اور اسی مفہوم کی حدیث انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔
     
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    11- بَاب فِيمَنْ أَسْلَمَ عَلَى مِيرَاثٍ
    ۱۱-باب: میراث کی تقسیم سے پہلے اگر وارث مسلمان ہو جائے تواس کے حکم کا بیان


    2914- حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَائِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: <كُلُّ قَسْمٍ قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ عَلَى مَا قُسِمَ [لَهُ]، وَكُلُّ قَسْمٍ أَدْرَكَهُ الإِسْلامُ فَهُوَ عَلَى قَسْمِ الإِسْلامِ >۔
    * تخريج: ق/الرھن ۲۱ (۲۴۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۸۳) (صحیح)

    ۲۹۱۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:’’ زمانہ جاہلیت میں جو ترکہ تقسیم ہو گیا ہو وہ زمانہ اسلام میں بھی اسی حال پر باقی رہے گا، اور جو ترکہ اسلام کے زمانہ تک تقسیم نہیں ہوا تو اب اسلام کے آجانے کے بعد اسلام کے قاعدہ وقانون کے مطابق تقسیم کیا جائے گا‘‘۔
     
  3. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    12- بَاب فِي الْوَلاءِ
    ۱۲-باب: ولا ء (آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث) کا بیان


    2915- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: قُرِئَ عَلَى مَالِكٍ وَأَنَا حَاضِرٌ، قَالَ مَالِكٌ: عَرَضَ عَلَيَّ نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ جَارِيَةً تَعْتِقُهَا، فَقَالَ أَهْلُهَا: نَبِيعُكِهَا عَلَى أَنَّ وَلائَهَا لَنَا فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ [ذَاكَ] لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: < لا يَمْنَعُكِ ذَلِكَ فَإِنَّ الْوَلاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ >۔
    * تخريج: خ/البیوع ۷۳ (۲۱۶۹)، والمکاتب ۲ (۲۵۶۲)، والفرائض ۱۹ (۶۷۵۲)، م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، ن/البیوع ۷۶ (۴۶۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۳۴)، وقد أخرجہ: ط/العتق ۱۰ (۱۸)، حم (۲/۲۸، ۱۱۳، ۱۵۳، ۱۵۶) (صحیح)

    ۲۹۱۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکوں نے کہا کہ ہم اسے اس شرط پر آپ کے ہاتھ بیچیں گے کہ اس کا حق ولاء ۱ ؎ ہمیں حاصل ہو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: یہ ’’خرید نے میں تمہارے لئے رکاوٹ نہیں کیونکہ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے‘‘۔
    وضاحت ۱؎ : ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جوآزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔

    2916- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < الْوَلائُ لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ وَوَلِيَ النِّعْمَةَ >۔
    * تخريج: خ/الفرائض ۲۰ (۶۷۶۰)، ن/الطلاق ۳۰ (۳۴۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۳۲، ۱۵۹۹۱)، وقد أخرجہ: م/العتق ۲۰ (۱۵۰۴)، ت/البیوع ۳۳ (۲۱۲۶)، حم (۶/۱۷۰، ۱۸۶، ۱۸۹) (صحیح)

    ۲۹۱۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ولاء اس شخص کا حق ہے جو قیمت دے کر خرید لے اور احسان کرے ( یعنی خرید کر غلام کوا ٓزاد کر دے)‘‘۔

    2917- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ، أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رِئَابَ بْنَ حُذَيْفَةَ تَزَوَّجَ امْرَأَةً فَوَلَدَتْ لَهُ ثَلاثَةَ غِلْمَةٍ، فَمَاتَتْ أُمُّهُمْ، فَوَرَّثُوهَا رِبَاعَهَا وَوَلائَ مَوَالِيهَا، وَكَانَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عَصَبَةَ بَنِيهَا، فَأَخْرَجَهُمْ إِلَى الشَّامِ فَمَاتُوا، فَقَدَّمَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَمَاتَ مَوْلًى لَهَا، وَتَرَكَ مَالا [لَهُ] فَخَاصَمَهُ إِخْوَتُهَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ عُمَرُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ، أَوِ الْوَالِدُ، فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ >، قَالَ: فَكَتَبَ لَهُ كِتَابًا فِيهِ شَهَادَةُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَرَجُلٍ آخَرَ، فَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عَبْدُالْمَلِكِ اخْتَصَمُوا إِلَى هِشَامِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، أَوْ [إِلَى] إِسْمَاعِيلَ بْنِ هِشَامٍ، فَرَفَعَهُمْ إِلَى عَبْدِالْمَلِكِ فَقَالَ: هَذَا مِنَ الْقَضَائِ الَّذِي مَا كُنْتُ أَرَاهُ، قَالَ: فَقَضَى لَنَا بِكِتَابِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَنَحْنُ فِيهِ إِلَى السَّاعَةِ۔
    * تخريج: ق/الفرائض ۷ (۲۷۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۱، ۱۸۵۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷) (حسن)

    ۲۹۱۷- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رئاب بن حذیفہ نے ایک عورت سے شادی کی، اس کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے، پھر لڑکوں کی ماں مر گئی، اور وہ لڑکے اپنی ماں کے گھر کے اور اپنی ماں کے آزاد کئے ہوئے غلاموں کی ولاء کے مالک ہوئے، اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان لڑکوں کے عصبہ( یعنی وارث ) ہوئے اس کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیںشام کی طرف نکال دیا، اور وہ وہاں مر گئے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ آئے اور اس عورت کا ایک آزاد کیا ہوا غلام مرگیا اور مال چھوڑ گیا تو اس عورت کے بھائی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پا س اس عورت کے ولاء کا مقد مہ لے گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو ولاء اولاد یا باپ حاصل کرے تو وہ اس کے عصبوں کو ملے گی خواہ کوئی بھی ہو (اولاد کے یا باپ کے مر جانے کے بعد ماں کے وارثوں کو نہ ملے گی)‘‘، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس باب میں ایک فیصلہ نامہ لکھ دیا اور اس پر عبدالرحمن بن عوف اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک اور شخص کی گواہی ثابت کر دی، جب عبدالملک بن مروان خلیفہ ہوئے تو پھران لوگوں نے جھگڑا کیا یہ لوگ اپنا مقدمہ ہشام بن اسماعیل یا اسماعیل بن ہشام کے پاس لے گئے انہوں نے عبدالملک کے پاس مقدمہ کو بھیج دیا، عبدالملک نے کہا: یہ فیصلہ تو ایسا لگتا ہے جیسے میں اس کو دیکھ چکا ہوں۔
    راوی کہتے ہیں پھر عبدالملک نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا اور وہ ولاء اب تک ہمارے پاس ہے۔
     
  4. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    13- بَاب فِي الرَّجُلِ يُسْلِمُ عَلَى يَدَيِ الرَّجُلِ
    ۱۳-باب: جو کسی شخص کے ہاتھ پر مسلمان ہو تو وہ اس کا وارث ہو گا


    2918- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ أَبودَاود: وَهُوَ ابْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مَوْهَبٍ يُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، قَالَ هِشَامٌ: عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَقَالَ يَزِيدُ: إِنَّ تَمِيمًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا السُّنَّةُ فِي الرَّجُلِ يُسْلِمُ عَلَى يَدَ[يِ] الرَّجُلِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ؟ قَالَ: < هُوَ أَوْلَى النَّاسِ بِمَحْيَاهُ وَمَمَاتِهِ >۔
    * تخريج: ت/الفرائض ۲۰ (۲۱۱۲)، ق/الفرائض ۱۸ (۲۷۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۰۲، ۱۰۳)، دي/الفرائض ۳۴ (۳۰۷۶) (حسن صحیح)

    ۲۹۱۸- تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ! اس شخص کے بارے میں شر ع کا کیاحکم ہے جو کسی مسلمان شخص کے ہا تھ پر ایمان لا یا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص دوسروں کی بہ نسبت اس کی موت و حیات کے زیادہ قریب ہے ( اگر اس کا کوئی اور وارث نہ ہو تو وہی وارث ہو گا)‘‘۔
     
  5. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    14- بَاب فِي بَيْعِ الْوَلاءِ
    ۱۴-باب: ولاء(میراث) بیچنے کابیان


    2919- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْهمَا قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ بَيْعِ الْوَلائِ، وَعَنْ هِبَتِهِ۔
    * تخريج: خ/ العتق ۱۰ (۲۵۳۵)، الفرائض ۲۱ (۶۷۵۶)، م/ العتق ۳ (۱۵۰۶)، ت/البیوع ۲۰ (۱۲۳۶)، الولاء ۱ (۲۱۲۶)، ن/البیوع ۸۵ (۴۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۸۹)، وقد أخرجہ: ط/العتق والولاء ۱۰ (۲۰)، ق/الفرائض ۱۵ (۲۷۴۷) حم (۲/۹، ۷۹، ۱۰۷)، دي/البیوع ۳۶ (۲۶۱۴) (صحیح)

    ۲۹۱۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کو بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
    وضاحت ۱؎ : یعنی حق ولاء کی بیع وہبہ جائز نہیں کیونکہ وہ بالفعل معدوم ہے۔
     
  6. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    15- بَاب فِي الْمَوْلُودِ يَسْتَهِلُّ ثُمَّ يَمُوتُ
    ۱۵-باب: بچہ روتے ہوئے یعنی زندہ پیدا ہو پھر مر جائے تو اس کے حکم کا بیان


    2920- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ- عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < إِذَا اسْتَهَلَّ الْمَوْلُودُ وُرِّثَ >۔
    * تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۴۰) (صحیح)

    ۲۹۲۰- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب بچہ آواز کرے تو وراثت کا حقدار ہو جائے گا‘‘ ۱؎ ۔
    وضاحت ۱؎ : یعنی پیدا ہونے کے بعد بچے میں زندگی کے آثار معلوم ہوں تو ازروئے شرع اس کی میراث ثابت ہوگئی۔
     
  7. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    16- بَاب نَسْخِ مِيرَاثِ الْعَقْدِ بِمِيرَاثِ الرَّحِمِ
    ۱۶-باب: رشتے کی میراث سے حلف و اقرار سے حاصل ہونے والی میراث کی منسوخی کا بیان


    2921- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا قَالَ: {وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ} كَانَ الرَّجُلُ يُحَالِفُ الرَّجُلَ، لَيْسَ بَيْنَهُمَا نَسَبٌ، فَيَرِثُ أَحَدُهُمَا الآخَرَ، فَنَسَخَ ذَلِكَ الأَنْفَالُ، فَقَالَ تَعَالَى: {وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ}۔
    * تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۶۱) (حسن صحیح)

    ۲۹۲۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ تعالی کے فرمان: {وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ} ۱؎ کے مطابق پہلے ایک شخص دوسرے شخص سے جس سے قرابت نہ ہوتی باہمی اخوت اور ایک دوسرے کے وارث ہونے کاعہد و پیمان کرتا پھر ایک دوسرے کا وارث ہوتا، پھریہ حکم سورہ انفال کی آیت: {وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ} ۲؎ سے منسوخ ہوگیا۔
    وضاحت ۱؎ : ’’ جن لوگوں سے تم نے قسمیں کھائی ہیں ان کو ان کا حصہ دے دو‘‘ (سورۃ النساء : ۳۳)
    وضاحت ۲؎ : ’’اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں‘‘ (سورۃ الانفال : ۷۵)


    2922- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي إِدْرِيسُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ ابْنُ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ} قَالَ: كَانَ الْمُهَاجِرُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ تُوَرَّثُ الأَنْصَارَ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ} قَالَ: نَسَخَتْهَا: {وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ} مِنَ النَّصْرِ وَالنَّصِيحَةِ وَالرِّفَادَةِ، وَيُوصِي لَهُ، وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ۔
    * تخريج: خ/الکفالۃ ۲ (۲۲۹۲)، تفسیر سورۃ النساء ۷ (۲۲۹۲)، الفرائض ۱۶ (۶۷۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۲۳) (صحیح)

    ۲۹۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے قول: { وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ} کا قصہ یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تو اس مواخات (بھائی چارہ) کی بنا پر جو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان کرا دی تھی وہ انصار کے وارث ہوتے (اور انصار ان کے وارث ہوتے) اور عزیز و اقارب وارث نہ ہو تے، لیکن جب یہ آیت{وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ} ۱؎ نازل ہوئی تو{وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ} والی آیت کومنسوخ کردیا، اوراس کا مطلب یہ رہ گیا کہ ان کی اعانت، خیر خواہی اور سہارے کے طور پر جو چاہے کردے نیز ان کے لئے وہ( ایک تہائی مال) کی وصیت کر سکتا ہے، میراث ختم ہوگئی۔
    وضاحت ۱ ؎ : ’’ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ کر مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے مقرر کردیے ہیں‘‘ (سورۃ النساء : ۳۳)

    2923- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَعَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى -الْمَعْنَى- قَالَ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ قَالَ: كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَى أُمِّ سَعْدٍ بِنْتِ الرَّبِيعِ -وَكَانَتْ يَتِيمَةً فِي حِجْرِ أَبِي بَكْرٍ- فَقَرَأْتُ: {وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ} فَقَالَتْ: لا تَقْرَأْ: {وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ} إِنَّمَا نَزَلَتْ فِي أَبِي بَكْرٍ وَابْنِهِ عَبْدِالرَّحْمَنِ حِينَ أَبَى الإِسْلامَ، فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَلا يُوَرِّثَهُ، فَلَمَّا أَسْلَمَ أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ عَلَيْهِ السَّلام أَنْ يُؤْتِيَهُ نَصِيبَهُ، زَادَ عَبْدُالْعَزِيزِ: فَمَا أَسْلَمَ حَتَّى حُمِلَ عَلَى الإِسْلامِ بِالسَّيْفِ.
    [قَالَ أَبو دَاود: مَنْ قَالَ: (عَقَدَتْ) جَعَلَهُ حِلْفًا، وَمَنْ قَالَ: (عَاقَدَتْ) جَعَلَهُ حَالِفًا، قَالَ: وَالصَّوَابُ حَدِيثُ طَلْحَةَ (عَاقَدَتْ)]۔
    * تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۲۰) (ضعیف)
    (اس کے راوی’’ابن اسحاق‘‘ مدلس ہیں اورعنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)

    ۲۹۲۳- داود بن حصین کہتے ہیں کہ میں ام سعد بنت ربیع سے( کلام پاک) پڑھتا تھا وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیر پرورش ایک یتیم بچّی تھیں، میں نے اس آیت{وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ} کو پڑھا تو کہنے لگیں:اس آیت کو نہ پڑھو، یہ ابوبکر اور ان کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہما کے متعلق اتری ہے، جب عبدالرحمن نے مسلمان ہونے سے انکار کیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ میں ان کو وارث نہیں بنائوں گا پھر جب وہ مسلمان ہو گئے تو اللہ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا کہ وہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں)کہ وہ ان کا حصہ دیں ۔
    عبدالعزیز کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ عبدالرحمن تلو ار کے دبائو میں آکر مسلمان ہوئے ( یعنی جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوا)۔
    ابوداود کہتے ہیں: جس نے ’’عَقَدَتْ‘‘ کہا اس نے اس سے ’’حِلْف‘‘ اور جس نے ’’عَاْقَدَتْ‘‘ کہا اس نے اس سے ’’حَاْلَفْ‘‘ مراد لیا اور صحیح طلحہ کی حدیث ہے جس میں’’عَاْقَدَتْ‘‘ہے۔
    وضاحت ۱ ؎ : کیونکہ یہ منسوخ ہو گئی ہے یا کسی ایک شخص کے لئے مخصوص تھی، نہ پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ اس پر عمل نہ کرو۔

    2924- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا} {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا} فَكَانَ الأَعْرَابِيُّ لا يَرِثُ الْمُهَاجِرَ، وَلا يَرِثُهُ الْمُهَاجِرُ فَنَسَخَتْهَا، فَقَالَ: {وَأُولُوا الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ}۔
    * تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۶۲) (حسن صحیح)

    ۲۹۲۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالی نے یوں فرمایا تھا: {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا} {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا} ۱؎ تو اعرابی ۲؎ مہاجر کا وارث نہ ہوتا اور نہ مہاجر اس کا وارث ہوتا اس کے بعد {وَأُولُوا الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ}۳؎ والی آیت سے یہ حکم منسوخ ہوگیا ۔
    وضاحت ۱ ؎ : ’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت نہیں کی تو وہ ان کے وارث نہیں ہوں گے‘‘ (سورۃ الانفال : ۷۲)
    وضاحت ۲؎ : یعنی وہ مسلمان جو کافروں کے ملک میں ہوں۔
    وضاحت ۳؎ : ’’اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں‘‘ (سورۃ الانفال : ۷۵)
     
  8. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    17- بَاب فِي الْحِلْفِ
    ۱۷-باب: قو ل و قرار پر قسمیں کھانے اور حلف اٹھانے کا بیان


    2925- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا حِلْفَ فِي الإِسْلامِ، وَأَيُّمَا حِلْفٍ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَمْ يَزِدْهُ الإِسْلامُ إِلا شِدَّةً >۔
    * تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۵۰ (۲۵۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۳) (صحیح)

    ۲۹۲۵- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (زمانہ کفر کی) کوئی بھی قسم اور عہد وپیمان کا اسلام میں کچھ اعتبار نہیں، اور جو عہد و پیمان زمانۂ جاہلیت میں( بھلے کام کے لئے ) تھا تو اسلام نے اسے مزید مضبوطی بخشی ہے ۱؎ ۔
    وضاحت ۱؎ ؎ : کفار عرب کا دستور تھا کہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کا ہم حلیف ہوتا، اور ہر ایک دوسرے کا حق ونا حق میں مدد کرتا تھا، سو فرمایا کہ اسلام میں کفر کی قسم اور عہد وپیمان کا کوئی اعتبار نہیں۔

    2926- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: حَالَفَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ فِي دَارِنَا، فَقِيلَ لَهُ: أَلَيْسَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < لا حِلْفَ فِي الإِسْلامِ؟ > فَقَالَ: حَالَفَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ فِي دَارِنَا، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا۔
    * تخريج: خ/الکفالۃ ۲ (۲۲۹۴)، والأدب ۶۷ (۶۰۸۳)، والاعتصام ۱۶ (۷۳۴۰)، م/فضائل الصحابۃ ۵۰ (۲۵۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۳ /۱۱۱، ۱۴۵، ۲۸۱) (صحیح)

    ۲۹۲۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں انصار ومہاجرین کے درمیان بھائی چارہ کرایا، تو ان (یعنی انس )سے کہا گہا:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا ہے کہ اسلام میں حلف (عہد و پیمان) نہیں ہے؟ تو انہوں نے دو یا تین بار زور دے کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر میں انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ کرایا ہے کہ وہ بھائیوں کی طرح مل کر رہیں گے ۔
     
  9. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    18- بَاب فِي الْمَرْأَةِ تَرِثُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا
    ۱۸-باب: عورت اپنے شوہر کی دیت سے حصہ پائے گی


    2927- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَقُولُ: الدِّيَةُ لِلْعَاقِلَةِ، وَلا تَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا شَيْئًا، حَتَّى قَالَ لَهُ الضَّحَّاكُ ابْنُ سُفْيَانَ: كَتَبَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ أُوَرِّثَ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا فَرَجَعَ عُمَرُ.
    قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، وَقَالَ فِيهِ : وَكَانَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَعْرَابِ۔
    * تخريج: ت/الدیات ۱۹ (۱۴۱۵)، ق/الدیات ۱۲ (۲۶۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۵۲) (صحیح)

    ۲۹۲۷- سعید کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پہلے کہتے تھے کہ دیت کنبہ والوں پر ہے، اور عورت اپنے شوہر کی دیت سے کچھ حصہ نہ پائے گی، یہاں تک کہ ضحاک بن سفیان نے انہیں بتا یا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھ بھیجا تھا کہ اشیم ضبابی کی بیوی کو میں اس کے شوہر کی دیت میں سے حصہ دلائوں، تو عمرنے اپنے قول سے رجو ع کر لیا ۱؎ ۔
    احمد بن صالح کہتے ہیں کہ ہم سے عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر کے واسطہ سے بیان کی ہے وہ اسے زہری سے اور وہ سعید سے روایت کرتے ہیں، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (یعنی ضحاک کو) دیہات والوں پر عامل بنا یا تھا۔
    وضاحت ۱؎ : کیونکہ آپ کو صحیح حدیث مل گئی، حدیث یا آیت کے مل جانے پر رائے اور قیاس پر اعتماد صحیح نہیں ہے، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کہ جن کی اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ضروری ہے ان کا یہ حال ہو کہ اپنی رائے و قیاس کو حدیث پہنچتے ہی چھوڑ دیں تو فقہاء و مجتہدین کی رائے کس شمار میں ہے۔


    * * * * *
     
  10. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    خراج، فیٔ اور سلطنت کے احکام و مسائل

    { 14- كِتَاب الْخَرَاجِ وَالإِمَارَةِ وَالْفَيْئِ }
    ۱۴-کتاب: خراج، فیٔ اور سلطنت کے احکام و مسائل

    1- بَاب مَا يَلْزَمُ الإِمَامَ مِنْ حَقِّ الرَّعِيَّةِ؟
    ۱-باب: امام(حکمراں ) پر رعایا کے کون سے حقوق لازم ہیں؟


    2928- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: < أَلا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ: فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ عَلَيْهِمْ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ >۔
    * تخريج: خ/الجمعۃ ۱۱ (۸۹۳)، والاستقراض ۲۰ (۲۴۰۹)، والعتق ۱۷ (۲۵۵۴)، والوصایا ۹ (۲۷۵۱)، والنکاح ۸۱ (۵۲۰۰)، والأحکام ۱ (۷۱۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۳۱)، وقد أخرجہ: م/الإمارۃ ۵ (۱۸۲۹)، ت/الجھاد ۲۷ (۱۵۰۷)، حم (۲/۵، ۵۴، ۱۱۱، ۱۲۱) (صحیح)

    ۲۹۲۸- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’خبردار سن لو !تم میں سے ہرشخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور ( قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق باز پرس ہو گی ۱؎ ؎ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق باز پرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۲؎ ؎ اورعورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو ( سمجھ لو) تم میں سے ہرایک راعی ( نگہبان ) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی ‘‘۔
    وضاحت ۱ ؎ : کہ تو نے کس طرح اپنی رعایا کی نگہبانی کی شریعت کے مطابق یا خلاف شرع۔
    وضاحت ۲؎ ؎ : کہ شوہر کے مال اور عزت و آبر و کی حفاظت کی اور اس کے بچّوں کی اچھی تعلیم وتر بیت کی یا نہیں۔
     
  11. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    2- بَاب مَا جَاءَ فِي طَلَبِ الإِمَارَةِ
    ۲-باب: حکومت و اقتدار کو طلب کرنا کیسا ہے؟


    2929- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ وَمَنْصُورٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم: < يَا عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ! لاتَسْأَلِ الإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِذَا أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ فِيهَا إِلَى نَفْسِكَ، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا >۔
    * تخريج: خ/الأیمان والنذور ۱ (۶۶۲۲)، وکفارات الأیمان ۱۰ (۶۷۲۲)، والأحکام ۵ (۷۱۴۶)، م/الأیمان ۳ (۱۶۵۲)، ت/النذور ۵ (۱۵۲۹)، ن/آداب القضاۃ ۵ (۵۳۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۶۱، ۶۲، ۶۳)، دي/النذور والأیمان ۹ (۲۳۹۱)، ویأتی ہذا الحدیث برقم (۳۲۷۷، ۳۲۷۸) (صحیح)

    ۲۹۲۹- عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ’’اے عبدالرحمن بن سمرہ ! امارت واقتدار کی طلب مت کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اس معاملے میں اپنے نفس کے سپرد کر دیے جاؤگے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی توفیق و مدد تمہارے شامل حال ہوگی‘‘ ۲؎ ۔
    وضاحت ۱ ؎ ؎ : یعنی اللہ تعالی معاملا ت کو سلجھانے و نمٹانے میں تمہاری مدد نہیں کرے گا۔
    وضاحت ۲ ؎ : یعنی تم معاملا ت کو بہتر طو ر پر انجام دے سکو گے۔

    2930- حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ بِشْرِ ابْنِ قُرَّةَ الْكَلْبِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ رَجُلَيْنِ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَشَهَّدَ أَحَدُهُمَا، ثُمَّ قَالَ: جِئْنَا لِتَسْتَعِينَ بِنَا عَلَى عَمَلِكَ، وَقَالَ الآخَرُ مِثْلَ قَوْلِ صَاحِبِهِ، فَقَالَ: < إِنَّ أَخْوَنَكُمْ عِنْدَنَا مَنْ طَلَبَهُ > فَاعْتَذَرَ أَبُو مُوسَى إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَقَالَ: لَمْ أَعْلَمْ لِمَا جَائَا لَهُ، فَلَمْ يَسْتَعِنْ بِهِمَا عَلَى شَيْئٍ حَتَّى مَاتَ۔
    * تخريج: ن/آداب القضاۃ ۴ (۵۳۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۹۳، ۴۱۱) (منکر)

    ۲۹۳۰- ابو مو سیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دو آدمیوں کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، ان میں سے ایک نے (اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی) گواہی دی پھر کہا کہ ہم آپ کے پاس اس غرض سے آئے ہیں کہ آپ ہم سے اپنی حکومت کے کام میں مدد لیجئے ۱؎ دوسرے نے بھی اپنے ساتھی ہی جیسی بات کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمارے نزدیک تم میں وہ شخص سب سے بڑا خائن ہے جو حکومت طلب کرے ‘‘۔
    ابو مو سیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت پیش کی، اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں آدمی اس غرض سے آئے ہیں پھرانہوں نے ان سے زندگی بھر کسی کام میں مدد نہیں لی۔
    وضاحت ۱ ؎ : یعنی ہمیں عامل بنا دیجئے یا حکومت کی کوئی ذمہ داری ہمارے سپرد کر دیجئے۔
     
  12. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    3- باب فِي الضَّرِيْرِ يُوَلَّى
    ۳-باب: اندھے کو حاکم بنانا درست ہے


    2931- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْمُخَرَّمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ عَلَى الْمَدِينَةِ مَرَّتَيْنِ۔
    * تخريج: انظر حدیث رقم : (۵۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۱) (صحیح)

    ۲۹۳۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں دو مرتبہ (جب جہاد کو جانے لگے ) اپنا قائم مقام ( خلیفہ ) بنا یا ۱؎ ۔
    وضاحت ۱ ؎ : حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ نسب اور سیر کے علماء کی ایک جماعت نے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غزوات میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو تیرہ مرتبہ اپنا جانشین مقرر کیا ہے، اور قتادہ کے اس قول کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ ان تک وہ روایتیں نہیں پہنچ سکی ہیں جو دوسروں تک پہنچی ہیں۔
     
  13. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    4- بَاب فِي اتِّخَاذِ الْوَزِيرِ
    ۴-باب: وزیر مقرر کرنے کا بیان


    2932- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: < إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِالأَمِيرِ خَيْرًا جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ: إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ، وَإِذَا أَرَادَ [اللَّهُ] بِهِ غَيْرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوئٍ: إِنْ نَسِيَ لَمْ يُذَكِّرْهُ، وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ >۔
    * تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۷۸)، وقد أخرجہ: ن/البیعۃ ۳۳ (۴۲۰۹)، حم (۶/۷۰) (صحیح)

    ۲۹۳۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ جب کسی حاکم کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے سچا وزیر عنایت فرما تا ہے، اگر وہ بھول جاتا ہے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے، اور اگر اسے یاد رہتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے، اور جب اللہ کسی حاکم کی بھلائی نہیں چاہتا ہے تو اس کو برا وزیر دے دیتا ہے، اگر وہ بھو ل جاتا ہے تو وہ یاد نہیں دلاتا، اور اگر یاد رکھتا ہے تو وہ اس کی مدد نہیں کر تا‘‘۔
    وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ایک اصل عظیم ہے، اکثر بادشاہوں کی حکومتیں اسی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں کہ ان کے وزیر اور مشیر نالائق اور نکمے تھے۔
     
  14. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    5- بَاب فِي الْعِرَافَةِ
    ۵-باب: عرافت کا بیان ۱؎


    2933- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ [يَحْيَى بْنِ] الْمِقْدَامِ، عَنْ جَدِّهِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ضَرَبَ عَلَى مَنْكِبِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ: < أَفْلَحْتَ يَا قُدَيْمُ، إِنْ مُتَّ وَلَمْ تَكُنْ أَمِيرًا، وَلا كَاتِبًا، وَلا عَرِيفًا >۔
    * تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۳) (ضعیف)
    (اس کے راوی ’’صالح بن یحییٰ بن مقدام‘‘ ضعیف ہیں)

    ۲۹۳۳- مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کندھے پر مارا پھر ان سے فرمایا : ’’قدیم! (مقدام کی تصغیر ہے) اگر تم امیر، منشی اور عریف ہوئے بغیر مرگئے تو تم نے نجات پالی‘‘ ۲؎ ۔
    وضاحت ۱ ؎ : عریف: اپنے ساتھیوں کا تعارف کرانے والا، قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا، نقیب، یہ حاکم سے کم مرتبے کا ہوتا ہے، اور اپنی قوم کے ہر ایک شخص کا رویہ اور چال چلن حاکم سے بیان کرتا ہے اور اسے برے بھلے کی خبر دیتا ہے ۔
    وضاحت ۲؎ : اس لئے کہ ہر سرکاری کام میں مواخذہ اور تقصیر خدمت کا ڈر لگا رہتا ہے اسی وجہ سے سلف نے زراعت اور تجارت کو نوکری سے بہتر جانا ہے۔

    2934- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا غَالِبٌ [ الْقَطَّانُ ]، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُمْ كَانُوا عَلَى مَنْهَلٍ مِنَ الْمَنَاهِلِ، فَلَمَّا بَلَغَهُمُ الإِسْلامُ جَعَلَ صَاحِبُ الْمَاءِ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا، وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ، وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، فَأَرْسَلَ ابْنَهُ إِلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ لَهُ: ائْتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلامَ، وَإِنَّهُ جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا، فَأَسْلَمُوا، وَقَسَمَ الإِبِلَ بَيْنَهُمْ، وَبَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ؟ فَإِنْ قَالَ لَكَ: نَعَمْ [أَوْ لا]، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ، وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ، وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِيَ الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلامَ، فَقَالَ: < وَعَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلامُ >، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي جَعَلَ لِقَوْمِهِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ عَلَى أَنْ يُسْلِمُوا فَأَسْلَمُوا، وَحَسُنَ إِسْلامُهُمْ، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا مِنْهُمْ، أَفَهُوَ أَحَقُّ بِهَا أَمْ هُمْ؟ فَقَالَ: < إِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُسْلِمَهَا لَهُمْ فَلْيُسْلِمْهَا، وَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَرْتَجِعَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا مِنْهُمْ، فَإِنْ [هُمْ] أَسْلَمُوا فَلَهُمْ إِسْلامُهُمْ، وَإِنْ لَمْ يُسْلِمُوا قُوتِلُوا عَلَى الإِسْلامِ >، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ، وَهُوَ عَرِيفُ الْمَاءِ، وَإِنَّهُ يَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ لِيَ الْعِرَافَةَ بَعْدَهُ، فَقَالَ: < إِنَّ الْعِرَافَةَ حَقٌّ، وَلا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنَ الْعُرَفَاءِ، وَلَكِنَّ الْعُرَفَائَ فِي النَّارِ >۔
    * تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۶) (ضعیف)
    (اس کی سند میں کئی مجہول ومبہم راوی ہیں)

    ۲۹۳۴- غالب قطان ایک شخص سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عرب کے ایک چشمے پر رہتے تھے جب ان کے پاس اسلام پہنچا تو چشمے والے نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سو اونٹ دے گا،چنانچہ وہ سب مسلمان ہو گئے تو اس نے اونٹوں کو ان میں تقسیم کر دیا، اس کے بعد اس نے اپنے اونٹوں کو ان سے واپس لے لینا چاہا تو اپنے بیٹے کو بلا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور اس سے کہا: تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ میرے والد نے آپ کو سلام پیش کیا ہے، اور میرے والد نے اپنی قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ انہیں سواونٹ دے گا چنانچہ وہ اسلام لے آئے اور والدنے ان میں اونٹ تقسیم بھی کر دیئے، اب وہ چاہتے ہیں کہ ان سے اپنے اونٹ واپس لے لیں تو کیا وہ واپس لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ اب اگر آپ ہاںفرمائیں یانہیں فرمائیں تو فرما دیجئے میرے والد بہت بو ڑھے ہیں، اس چشمے کے وہ عریف ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ مجھے وہاں کا عریف بنا دیں، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آکر عرض کیا کہ میرے والد آپ کو سلام کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم پر اور تمہارے والد پر سلام ہو‘‘۔
    پھرانہوں نے کہا :میرے والد نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام لے آئیں، تو وہ انہیں سو اونٹ دیں گے چنانچہ وہ سب اسلام لے آئے اور اچھے مسلمان ہو گئے، اب میرے والد چاہتے ہیں کہ ان اونٹوں کو ان سے واپس لے لیں تو کیا میرے والد ان اونٹوں کا حق رکھتے ہیں یا وہی لو گ حقدار ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اگر تمہارے والد چاہیں کہ ان اونٹوں کو ان لوگوں کو دے دیں تو دے دیں اور اگر چاہیں کہ واپس لے لیں تو وہ ان کے ان سے زیادہ حقدارہیں اور جو مسلمان ہوئے تو اپنے اسلام کا فائدہ آپ اٹھائیں گے اور اگر مسلمان نہ ہوں گے تومسلمان نہ ہونے کے سبب قتل کئے جائیں گے ( یعنی اسلام سے پھر جانے کے باعث )‘‘۔
    پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، اور اس چشمے کے عریف ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بعد عرافت کا عہدہ مجھے دے دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عرافت تو ضروری ( حق ) ہے، اور لوگوں کو عرفاء کے بغیر چارہ نہیں لیکن ( یہ جان لو ) کہ عرفاء جہنم میں جائیں گے (کیونکہ ڈر ہے کہ اسے انصاف سے انجام نہیں دیں گے اور لوگوں کی حق تلفی کریں گے)ـــ‘‘۔
     
  15. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    6- بَاب فِي اتِّخَاذِ الْكَاتِبِ
    ۶-باب: سکریٹری اور منشی رکھنے کابیان


    2935- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: السِّجِلُّ كَاتِبٌ كَانَ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم۔
    * تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۶۵) (ضعیف) (اس کے راوی ’’یزید بن کعب‘‘ مجہول ہیں)

    ۲۹۳۵- عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سجل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب( منشی یا محرر) تھے ۱؎ ۔
    وضاحت ۱ ؎ : ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے اپنے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ حدیث موضوع ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین وحی میں سے کسی بھی کاتب کا نام سجل نہیں تھا بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ صحابہ میں سے کسی بھی صحابی کا نام سجل نہیں تھا۔
     
  16. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]7-
    بَاب فِي السِّعَايَةِ عَلَى الصَّدَقَةِ
    ۷-باب: زکاۃ وصول کرنے کا بیان

    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]2936- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الأَسْبَاطِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺيَقُولُ: < الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ >۔
    [/font]* تخريج: ت/الزکاۃ ۱۸ (۶۴۵)، ق/الزکاۃ ۱۴ (۱۸۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۵، ۴/۱۴۳) (صحیح)
    ۲۹۳۶- را فع بن خد یج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ہے کہ: ''ایمانداری سے زکاۃ کی وصولی وغیرہ کا کام کرنے والا شخص جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کی طرح ہے، یہاں تک کہ لوٹ کر اپنے گھر آئے''۔
    [/font]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں