پاکستان میں 37 اقسام کے ڈرون تیار کیے جا رہے ہیں

توریالی نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏مئی 24, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    [​IMG]
    پاکستان میں 37 اقسام کے ڈرون تیار کیے جا رہے ہیں

    نجی اداروں کو فروخت کی اجازت نہیں۔ٹی وی چینلز نے دبئی سے خریدے گئے ڈرونز سے جلسے کی کوریج کی۔مار گرانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔رپورٹ۔جدید ڈرونز کا بلا اجازت اتنی بلندی پر اڑانا سیکیوریٹی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ایئر کموڈور طارق محمود​

    وجیہہ احمد صدیقی

    پاکستان میں اس وقت 37اقسام کے ڈرون تیار کیے جا رہیں ۔بغیر پائلٹ کے یہ جاسوس طیرے پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں تیار کیے جا تے ہیں۔ تاہم ان ڈرونز کی کسی نجی ادارے کو فروخت ممنوع ہے۔ 11مئی کو عمران خان کے جلسے کی کوریج کے لیے دو نجی ٹی وی چینلز نے اس نوعیت کے ڈرون استعمال کیے۔ چوں کہ یہ استعمال غیر قانونی تھا لہٰذا اسلام آباد پولیس نے ان ڈرون طیاروں کو گرانے کا فیصلہ کر لیا تھا، تاہم طیاروں کا ملبہ مجمعے پر گرنے کے خدشے کے پیشِ نظر اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

    اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے پاکستان ایئر فورس کے ترجمان ایئر کموڈور طارق محمود نے بتایا کہ ایک مخصوص بلندی تک اڑنے والے ریموٹ کنٹرول طیاروں کی اجازت ہوتی ہے، لیکن وائی فائی ٹیکنالوجی کے ساتھ اتنی بلندی پر ان طیاروں کا بلا اجازت اڑنا سیکیوریٹی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں اسلام آباد انتظامیہ کو غور کرنا چاہیے کہ انہیں اجازت دی گئی تھی یا نہیں۔ طارق محمود کے بقول یہ ڈرون دبئی میں با آسانی مل کاتے ہیں اور ان کی قیمت 3سے4لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ قیمت کا تعلق ڈرون میں نصب ٹیکنالوجی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایسے ڈرونز دوسرے ممالک میں بھی ٹیلی ویژن چینلز استعمال کرتے ہیں لیکن حکومتی اجازت کے ساتھ۔ اس لیے کہ یہ طیارے اپنی کھینچی گئی تصویر براہِ راست نشر کر رہے ہوتے ہیں اور کوئی دشمن ملک ان کے ذریعے حساس تنصیبات کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ طارق محمود کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن کسی ضابطے،قانون اور اخلاق کی پابندی نہیں کرتے۔ بیرونی ممالک میں یہ تمام کام کسی ضابطے اور قاعدے کے تحت ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں،دین اسلام ،قومی سلامتی اور اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال کر تمام حدیں پار کر گئے ہیں، جس کے نتیجے میں آج جو بحران سامنے آیا ہے اسے سب ہی بھگت رہے ہیں۔

    ایئر کموڈور طارق محمود نے بتایا کہ یہ ڈرون یہاں دستیاب نہیں ہیں۔بلکہ یہ آلات دبئی کی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جہاں سے ان چینلز نے کوڈا کاپٹر نامی ڈرون (اخبار نے کوڈا کاپٹر غلط لکھا ہے۔ اصل اصطلاح کواڈ کاپٹر ہے۔ لاطینی زبان کے لفظ کواڈ Quadru سے مشتق ہے جس کا مطلب چار ہوتا ہے اور اس کا مختصر Quad ہے۔کواڈ کاپٹرQuadcopter اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کو پرواز دینے کے لیے چار پنکھے Rotors اس پر نصب ہوتے ہیں )حاصل کیا تھا۔یہ چار پنکھوں والا ڈرون ہے جسے ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹی وی سٹیشن کے کنٹرول روم سے چلایا جاتا ہے اور یہ اپنے ساتھ چار سمتوں میں گھونے والے کیمرے لے کر اُڑ سکتا ہے۔ اب تک پاکستان میں وائر لیس ڈی ایس این جی(Digital Satellite News Gathering-DSNG) کے ذریعے براہِ راست نشریات کی جاتی تھیں لیکن اس فضائی کوریج کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ بیرون ملک دوڑ کے مقابلوں اور کاروں کی ریس میں عموماً غیر ملکی ٹی وی چینلز ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں۔ کیوں کہ ڈرون ٹیکنالوجی پولیس یا سیکیوریٹی اداروں کے زیرِ استعمال ہوتی ہے۔

    دوسری جانب اسلام آباد کے پولیس ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ حکومت کو انہوں نے جوتجویز بھیجی ہے کہ پولیس کو شہر کی نگرانی کے لیے ڈرون طیارے مہیا کیے جائیں ، جو کم قیمت بھی ہیں اور ان کو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جاسکتا ہے، ہیلی کاپٹر کے کرائے اور ایندھن کا خرچ بھی بہت زیادہ ہے۔ تاہم ابھی اس تجویز کا مثبت جواب نہیں آیا ہے۔ حساس معاملہ ہونے کی وجہ سے اسی لیے پاکستان ٹیلی ویژن نے بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا۔

    پاکستان کا تیار کردہ ’’فالکو‘‘ 6ہزار 5 سو میٹر کی بلندی پر اُڑ سکتا ہے اور فضاء میں 70کلو گرام وزن لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ ڈرون دشمن کی جاسوسی کرتا ہے اور یہ معلوم کرتا ہے کہ اس کے پاس کون سا ہتھیار ہے، ایٹمی ہے، بایولوجیکل یا کیمیائی۔ان ہتھیاروں کو وہ الیکٹرونک آپٹک سینسرز کے ذریعے شناخت کرتا ہے ۔ اس ڈرون تھرمل(حراری) امیجر رنگین ٹی وی کیمرا اور لیزر شناخت کا آلہ نصب بھی نصب ہے۔ یہ ڈرون 60 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے 8سے 14گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے، بوقتِ ضروررت اس کے وزن اٹھانے کی صلاحیت کو120کلو گرام اور پرواز کے وقت کو 18 گھنٹے تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کا اپنے کنٹرول روم سے براہِ راست رابططہ رہتا ہے۔ پاکستان میں سیکیوریٹی کے لیے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے چین کی مدد سے بھی کئے ڈرون طیارے بنائے ہیں۔ جن میں ٹارگٹ ڈرون، ابابیل تھری، ٹارگٹ ڈرون باز(VAV)،بدر ایگل نگراں ڈرون،براق(جنگجوڈرون) شامل ہیں۔ اس کے عالوہ ایکسپلورر، شہری مقاصد کے لیے۔جمبو باز، جاسوسی کے لیے اور مخبر،نشان،عقاب وغیرہ کی مختلف اقسام ہیں۔

    عمران خان کے جلسے کی کوریج کے لیے استعمال کیے گئے کوڈا کاپٹر(Quadcopter) نامی ڈرون کے چار پنکھے ہوتے ہیں ،یہ امریکی ساختہ ہے اور امریکا کی فضائی حدود میں اسے اُڑانے کے لیے سرکاری اجازت لینی ضروری ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ امریکی فوج کے زیرِ استعمال سب سے قابلِ بھروسہ کیمرا ڈرون ہے جو زمین پر موجود لوگوں تک کو شناخت کر سکتا ہے۔ ڈرون تیار کرنے کرنے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وسطی امریکا میں منشیات کے سمگلروں کو جنگلوں میں اسی کی مدد سے پکڑا جاتا ہے۔اس ڈرون کے تجارتی استعمال کو امریکا کی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن(ایف اے اے) نے گزشتہ سال غیر قانونی قرار دیا ہے کیوں کہ بلندی پر اُڑنے والے یہ ڈرون ہوائی جہازوں کے رابطوں میں خلل ڈال سکتے ہیں اور امریکی محکمہ ہوابازی 2015 ء تک ان ڈرونز کے کمرشل استعمال کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

    امریکا میں اس ڈرون کو فضائی نگرانی،تصاویر اور نقشے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومتی ادروں کو نجی ٹیلی ویژن کی انتظامیہ سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے ٹی وی کوریج کے لیے امریکی ساختہ ڈرون کیوں استعمال کیا، جس کے استعمال پر امریکا میں بھی پابندی ہے۔

    روزنامہ امت،پاکستان
     
  2. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    یہ بہت خوشی کی خبراور اچھی بات ہے کہ پاکستان بغیر ہوا باز کے زمین سے چلائے جانے والے طیارے ڈرون تیار کرنے کے قابل ہے۔ اور بصری ذرائع ابللاغ کے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے طیاروں کے ذریعے فلمبندی کی خبر بھی ایک مثبت رجحان ہے جو اس بات کی نشان دہی کر رہا ہے کہ پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کی طرح عصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی کو شہری/عوامی استعمال میں لانے کا نہ صرف خواہاں ہے بلکہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ تاہم یہ امر تشویشناک ہے کہ عمران خان کے اسلام آبادجلسے کی فضائی عکس بندی کے لیے ہوابازی اور حکومتی ضوابط کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔ یہ امر بھی پریشان کُن ہے کہ فضائیہ کے ترجمان اور اسلام آباد پولیس اہلکارروں کی توجہ میں ٹیلی ویژن چینلز کی جانب سے بغیر ہوا باز چہار پنکھ طیارہ Quadcopterاس وقت آیا جب یہ اسلام آباد کی فضائی حدود میں پرواز کرتے دیکھا گیا۔ اس واقعے سے ایک جانب تو کسٹمز حکام کی غفلت سامنے آئی ہے بلکہ قومی جاسوسی کے اداروں کی بے خبری بھیاس ضمن میں ایک نہایت مہلک غفلت قرار دی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ اگر اس قسم کی ٹیکنالوجی کا پاکستان میں وجود آج سامنے آیا ہے، تو نہ جانے اور کیا کچھ پاکستان میں حکام کی معلومات کے بغیر لایا جا چکا ہو گا یا مستقبل میں اس کے لائے جانے کا امکان ہو سکتا ہے۔ اس لیے حکومتی اداروں کو چوکنا رہ کر اپنے فرائض دیانت داری اور لگن کے ساتھ ادا کرنا ہوں گے۔

    پاک فضائیہ کے ترجمان کی تشویش اس حد تک بجا ہے کہ مذکورہ طیارہ حکومتی اداروں کو پیشگی اطلاع، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پولیس کی اجازت کے بغیر اڑائے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قسم کے طیاروں کو عوامی اجتماع کے عین اوپر اڑانا بھی ہوا بازی کے مروجہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کے خلاف ہے کیوں کہ کسی بھی اتفاقی حادثہ کی صورت میں محدود، مگرجانی نقصان کا احتمال ہو سکتا ہے۔

    مذکورہ رپورٹ میں یہ تشویش بے جا معلوم ہوتی ہے کہ دشمن ممالک پاکستان کی حساس تنصیبات کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تمام طول و عرض کے چپے چپے کی فضائی تصاویر، نہ صرف گوگل ارتھ، گوگل میپ پر موجود ہیں ، بلکہ چند دیگر نجی ذرائع کے پاس بھی اس طرح کی تفصیلی معلومات موجود ہیں۔ اور یہ صرف پاکستان کے لیے مخصوص نہیں بلکہ دنیا کے قریباً تمام قابلِ ذکر ممالک کی فضائی عکس بندی پر مبنی تصاویر اور نقشے با آسانی اور مفت انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں اور آپ بیشتر ممالک کے شہروں کی فضائی سیر بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکہ، روس، برطانیا، فرانس اور اٹلی قریباً ہر ملک کے بارے میں تفصیلی معلومات رکھتے ہیں اور یہ معلومات وہ اپنے تزویری شریکِ کار ممالک مثلاً پاکستان ،بھارت کی صورت میں، بھارت کو فراہم کرتے ہیں۔

    امریکا کا عکسی نگرانی کا محکمہ ، نیشنل ریکانسنس آفسNational Reconnaissance Office-NROپوری دنیا کے، اور بعض صورتوں میں خصوصی طور پر نشان زدہ ممالک، مثلاً پاکستان، چین،افغانستان، ایران، عراق، بلاد الشام ، روس وغیرہ کی فضائی تصاویرہر روز، چوبیس گھنٹے ، اپنے جاسوسی کے فوجی مواصلاتی سیاروں کی مدد سے لیتا ہے۔ یہ جاسوس مواصلاتی سیارے خاص طور پر نشان زد ہ ممالک کو مسلسل اپنی نگاہ میں لیے ہوتے ہیں۔ ان جاسوس مواصلاتی سیاروں کا مدار ،جامد متوازی مدار Geosynchronous Orbit کہلاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سیارہ زمین کی رفتار سے گردش کرتے ہوئے اپنا رخ دن کے چوبیس گھنٹے ،ہمہ وقت کرۂ ارض پر واقع ایک مخصوص مقام یا ملک پر مرتکز رکھتا ہے اور اپنی نظر سے مطلوبہ مقام یا ملک مثلاً پاکستان کو کبھی اوجھل نہیں ہونے دیتا اور اس طرح مسلسل معلومات حاصل کرتا رہتا ہے۔ اس طرح حاصل شدہ معلومات، جو عکسی ہوتی ہیں امریکا کے NRO(یہ پاکستان والا NRO نہیں جس کے تحت پاکستان پر بد عنوان سیاست دانوں کو مسلط کیا جاتا ہے، ہر چند کہ یہ NRO بھی امریکا اور اس کے حواریوں کامرتب(نافذ) کردہ تھا) کے ماہرین غور سے دیکھتے ہیں اور جامع معلومات کا اندراج کرتے ہیں۔ لہٰذا فضائیہ کے ترجمان کی یہ تشویش بالکل بے جا اور سراپا لغو ہے۔نیچے دی گئی تصاویر فضائی ترجمان کے بیان کی نفی کرتی ہیں:
    [​IMG]
    اسلام آباد ایئر پورٹ
    [​IMG]
    جی ایچ کیو راولپنڈی
    [​IMG]
    راج بھون اسلام آباد​

    ان کی ایک اور تشویش یہ ہے کہ بغیر ہواباز کے طیارے مسافر بردار جہازوں کی مواصلات یا ان کے آلات میں خلل پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ مسافر بردار طیاروں کا مواصلاتی نظام ایک مخصوص فریکوینسی کے علاوہ مخفی نظام پیغام رسانی Encryption System کے تابع ہوتا ہے۔ اگر مسافر بردار طیاروں کے مواصلاتی نظام میں دخل اندازی ممکن ہوتی تو آئے روز طیارے متاثر ہوتے۔

    اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں ریموٹ کنٹرول طیارے عوام کی دسترس میں ہیں اور ان سے مختلف کام لیے جاتے ہیں، جس میں فضائی جائزوں کے ذریعے، تعمیرات، زراعت، نقشہ سازی ، کھیلوں کی لمحہ بہ لمحہ خبر اور فضائی مناظر، سیاحت کی فروغ کی فلموں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں خبروں کی نشر و اشاعت شامل ہیں۔ اس وقت چہار پنکھQuadcopter کے ساتھ ساتھ ، شش پنکھHexacopterاور ہشت پنکھ Octocopter طیاروں کا استعمال زیادہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ اور گزشتہ سال سے برطانوی ٹیلی ویژن بی بی سی نے بھی اس کا استعمال شروع کر دیا ہے۔

    فضائیہ کے ترجمان کی معلومات امریکا کے لحاظ سے پرانی لگتی ہیں۔ امریکا میں بھی ایک عدالتی حکم کے تحت بغیر ہوا باز جہازوں کے استعمال کا حق عوامی سطح پر قانونی بنا دیا گیا ہے۔

    اس وقت ریموٹ کنٹرول سے اڑائے جانے والے طیارے بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہیں۔ ان کے کل پرزے قانونی طور پر عام منڈی میں دستیاب ہیں اور ترکیبی کتابچوں کی ہدایات سے یہ گھر پر خود بنا کر اڑائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے طیاروں کی تفریح کے طور پر اڑان کے لیے خاص علاقے مختص ہیں اور برطانیا اور دیگر یورپی ممالک میں ان کے استعمال کے لیے قواعد و ضوابط ترتیب دیے گیے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں بچوں ، طلباء اور ٹیکنالوجی میں دلچسپی لینے والے بڑی عمر کے افراد میں، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجادات کے فروغ کے لیے پاکستان میں ایسی صنعت کے استعمال کو بڑھاوا دینا چاہیے نہ کہ بے بجا قدغن اور پابندی عائد کی جائے ۔


    بغیر ہوا باز طیارچوں کے بارے میں مزید معلوماتی روابط:
     
  3. حرف خواں

    حرف خواں -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2014
    پیغامات:
    162
    ایکسپریس نیوز نے غالبا'' ان چار پنکھوں والے ڈرون طیارے کے ذریعے عمران خان کے جلسے کی کوریج کی تھی ۔۔ڈرون بذات خود تو بری چیز نہیں مگر امریکیوں‌ نے اس کا برا استعمال کر اس کو دہشت کی علامت بنا دیا اللہ پاک ان ظالم امریکیوں‌ کو غریق جہنم فرمائے جو ان معصوم شکل ڈرونز طیاروں سے بےگناہ و معصوم لوگوں کی جان لیتے ہیں۔۔۔ماشاءاللہ وطن عزیز کے لئے کافی اچھی خبر ہے گو کسی قبائلی کے لئے اس خبر کی ہیڈنگ کسی دھماکے سے کم نہ ہوگی۔۔۔۔
     
  4. توریالی

    توریالی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2014
    پیغامات:
    434
    حرف خواں بھائی!

    ایکسپریس نیوز نے جو ڈروں استعمال کیے ہیں وہ ان ڈرونز سے قطعی مختلف ہے جو امریکی، قبائل پاکستان، یمن اور صومالیہ میں معصومین کے قتل عام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ امریکی ڈرون نہایت خطرناک اسلحہ سے لیس ہوتے ہیں۔ ان پر جو میزائل نصب ہوتا ہے، امریکی اسے ’’جہنم کی آگ‘‘ Hell Fire کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

    [​IMG]
    مہلک اسلحہ سے لدا ایک ڈرون اسے MQ9 Reaper کہتے ہیں۔ یہ بڑا ہی Grim Reaper ہوتا ہے

    [​IMG]
    یہ ڈرون بیک وقت دو میزائل فائر کر رہا ہے جنہیں دو مختلف اہداف کو نشانہ بناے کی اہلیت رکھتا ہے۔ امریکیوں کی ایک مرغوب اصطلاح Double Tap ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہدف پر ایک میزائل داغیں، اور جب لوگ امدادی کاروائی یا ہدف بننے والوں کے چیتھڑے سمیٹنے آئیں، تو ان پر بھی ایک اور میزائل داغیں۔ یمن، وزیرستان اور افغانستان میں امریکا نے کئی بار Double Tap کیا ہے۔ یہ جنگی جرائم کے زمرہ میں آتا ہے۔

    [​IMG]
    یہ ڈرون اسرائیل کو امریکا کا عطا کردہ ہے، جو گاہے بگاہے اہل غزہ کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔ ​

    پاکستان جو 37 اقسام کے ڈرون بناتا ہے یا جس کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ایک لطیفے سے کم نہیں۔ لیکن یہ لطیفہ شاید کبھی از خود ہی سامنے آ جائے گا، لہٰذا No Multiple Tap from me
     
  5. حرف خواں

    حرف خواں -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2014
    پیغامات:
    162
    جی برادر آپ نے پہلی پوسٹ کے بالکل شروع میں جو چار پنکھوں والے ڈرون طیارے کی تصویر شیئر کی ہے میں اس کی بابت بتا رہا تھا۔۔۔۔۔
    پاکستانی ڈرونز لطیفے سے کم نہیں مطلب یہ کاغذی ڈرونز ہونگے؟۔۔ان کا اصل سے کوئی تعلق نہیں؟ِ۔۔۔ویسے یہ ڈرونز طیارے سنا ہے بلکہ دیکھا بھی ہے ویڈیو گیمز میں کافی نیچی پرواز اڑتے ہیں یہ تو جس جگہ بمباری کرتے ہیں‌ وہاں‌ کے لوگوں کو تو نظر بھی آتے ہونگے کس قدر خوفناک منظر ہوتا ہوگا ان لوگوں کے لئے اللہ سب مسلمانوں کو ان سے بچائے آمین۔۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں