خطبہ حرم مدنی 05-04-2019 " اللہ تعالی کے ہاں عزت اور وجاہت" از ثبیتی حفظہ اللہ

شفقت الرحمن نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اپریل 5, 2019 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753
    ﷽​
    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 29 رجب 1440 کا خطبہ جمعہ " اللہ تعالی کے ہاں عزت اور وجاہت" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کے ہاں عزت اور وجاہت مل جائے یہ بہت ہی بلند مقام اور دنیا و آخرت میں قلبی سکون اور راحت کا باعث ہے، موسی علیہ السلام کے بارے میں قرآن نے یہی بتلایا ہے، صحابہ کرام بھی اللہ تعالی کے ہاں بلند مقام پانے کے لئے خصوصی دعائیں کرتے تھے، جب انسان اللہ کے ہاں مقام بنا لے تو اسے وہ سب ملتا ہے جو اللہ سے مانگتا ہے، وجاہت کا بلند ترین مقام یہ ہے کہ اللہ تعالی خود اپنے بندے کا تذکرہ فرمائے۔ جبکہ دنیاوی وجاہت اخلاقی تباہی اور نیت کی بربادی کا باعث بنتی ہے، کچھ لوگ تو دین بیچ کر دنیاوی عزت حاصل کرتے ہیں اور اپنا سب کچھ گنوا دیتے ہیں، حدیث قدسی کے مطابق اللہ کے ہاں معزز شخص کی دنیا میں بھی عزت ہوتی ہے، اللہ کے ہاں وجاہت امیر اور غریب سب کے لئے یکساں میسر ہے، اسے حاصل کرنے کے لئے صراط مستقیم پر پابندی، قرآن کی تلاوت، حفظ قرآن، کثرت سے نوافل ،ذکر الہی ، حسن اخلاق، لوگوں کی بھلائی، قطع تعلقی کرنے والوں سے بھی صلہ رحمی، ظالم کو معاف کرنا وغیرہ شامل ہیں ، دوسرے خطبے میں انہوں نے شہید، عالم اور سخی کے متعلق ایک لمبی حدیث سنائی جنہیں ان کی ریاکاری کی وجہ سے جہنم میں سب سے پہلے ڈالا جائے گا، پھر انہوں نے سب کے لئے دعا کروائی۔

    ترجمہ سماعت کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

    خطبہ کی عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں۔

    پہلا خطبہ:
    تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے اطاعت گزاروں کے لئے اپنے ہاں عظیم مرتبت اور وجاہت رکھی، میں اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے ہمیں امانت اور پاکیزگی پر ابھارا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ تعالی نے متقی لوگوں کو خوشحال اور سعادت مند زندگی کی وعدہ دیا۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے اپنے تمام صحابہ کو ہر مذموم حرکت اور حماقت سے منزہ فرمایا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور ہمت و فراست والے صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:

    میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہو، تقوی جنت میں بلند و بالا محلات پانے کا سبب ہے۔

    قرآن کریم نے اللہ کے نبی موسی علیہ السلام کا مقام انتہائی بلیغ انداز میں بیان کیا ہے؛ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا} [الأحزاب: 69]یعنی موسی علیہ السلام کو اللہ کے ہاں بہت وجاہت اور جاہ حاصل تھی؛ انہوں نے اللہ تعالی کے ہاں اپنی اسی عظیم وجاہت کی بنا پر اپنے بھائی ہارون کے بارے میں سفارش بھی کر دی کہ اللہ تعالی انہیں بھی ان کے ساتھ رسالت عطا فرما دے؛ تو اللہ تعالی نے ان کا مطالبہ پورا کر دیا اور فرمایا: {وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا} اور ہم نے اپنی خاص مہربانی سے ان کا بھائی ان کو نبی بنا کر عطا فرمایا ۔[مريم: 53]

    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (بیشک موسی علیہ السلام انتہائی باحیا تھے، ان کی یہ صفت اللہ کے فرمان میں ہے:{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا} اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جنہوں نے موسی کو اذیت دی؛ تو اللہ تعالی نے انہیں لوگوں کی باتوں سے بری فرما دیا اور وہ اللہ کے ہاں انتہائی وجاہت والے تھے۔[الأحزاب: 69] )

    اللہ تعالی کے ہاں وجاہت مل جائے تو یہ بہت بلند مقام اور اعلی مرتبہ ہے؛ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اعلی مقام پانے کے لئے عملی نمونہ ہیں کہ ان میں سے ایک صحابی بلندی پانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے سامنے دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یا اللہ! میں تجھ سے ایسے ایمان کا سوال کرتا ہوں جو پسپا نہ ہو، ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو، اور تیرے نبی محمد ﷺ کی رفاقت دائمی جنت کے اعلی درجوں میں مانگتا ہوں"

    جس شخص کو اللہ تعالی کے ہاں وجاہت مل جائے تو اسے بھلائی کا نہ خشک ہونے والا فیض، بے مثال سکون و اطمینان اور زندگی بھر کی بے نظیر سعادت مبارک ہو۔

    جو شخص اللہ کے ہاں معزز ہو وہ قربِ الہی پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اور جو شخص اپنے اللہ کے قریب ہو تو وہ اللہ سے کچھ بھی مانگے اللہ اسے عطا کر دیتا ہے، اگر اللہ سے پناہ مانگے تو اسے بچا بھی لیتا ہے اور اس کی ضروریات بھی پوری فرماتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: (میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، وہ اگر مجھ سے مانگے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے ضرور پناہ دیتا ہوں)

    تو تمہارا مالک الملک کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جب دے گا تو کیا دے گا!؟

    اگر وہ تم سے راضی ہو جائے تو تمہارا کیا حال ہو گا؟!

    اگر وہ تمہیں تمہاری ضروریات اور تحفظ فراہم کر دے تو تمہارا انجام اور نتیجہ کیسا بہترین ہو گا؟!

    اللہ کے ہاں وجاہت ؛ پاکیزگی اور بلندی کا نام ہے، اسی کے لئے لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جد و جہد کرتے ہیں، اسی کے لئے مقابلے میں آگے بڑھتے ہیں، تو اللہ تعالی کے ہاں وجاہت کا اشرف ترین مقام یہ ہے کہ آپ کا تذکرہ اللہ تعالی کرے، فرمانِ باری تعالی ہے: {فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ} تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔[البقرة: 152]

    جبکہ دنیا کے لئے وجاہت اور دنیا میں وجاہت کہ جس کے لیے لوگ مارے مارے پھرتے ہیں؛ اس سے تو زندگی ضائع، اخلاق تباہ، روح پراگندہ، اور نیت خراب ہو جاتی ہے، بالخصوص ایسے لوگوں کی جو دنیاوی وجاہت ؛ دین بیچ کر حاصل کرتے ہیں، اس طرح ان کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں جیسے کہ ایک عظیم حدیث میں اس کا بیان موجود ہے، ہم یہ حدیث دوسرے خطبے میں بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ

    اللہ کے ہاں وجاہت کی کرنیں معزز اہل ایمان کی اولاد تک بھی پہنچتی ہیں یہ اللہ کا خاص فضل و کرم ہے، تو اللہ تعالی مومن کی اولاد کو جنت میں اس کے ساتھ بلند فرما دے گا، چاہے ان کے اعمال کم ہی کیوں نہ ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ} اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان سے ان کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے ۔[الطور: 21]

    اللہ کے ہاں معزز لوگ بہت بلند مقام حاصل کرتے ہیں، اس کا اثر آسمان و زمین کے مکینوں میں نیک نامی، قبول عام، اور محبت عوام کی صورت میں عیاں ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی جس وقت کسی بندے سے محبت فرمائے تو جبریل کو بلا کر فرماتا ہے: میں فلاں سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: جبریل ان سے محبت کرنے لگتا ہے۔ پھر جبریل آسمان میں آواز لگاتے ہیں اور کہتے ہیں: بیشک اللہ تعالی فلاں سے محبت فرماتا ہے تم سب ان سے محبت کرو، تو آسمان کے مکین ان سے محبت کرنے لگتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ساری دھرتی پر اس کی مقبولیت پھیلا دی جاتی ہے)

    بسا اوقات یہ وجاہت بندے کو اس درجے پر بھی پہنچا دیتی ہے کہ اگر وہ اللہ تعالی پر کسی کام کی قسم ڈال دے تو اللہ تعالی اسے پورا فرما دیتا ہے، یہ خالصتاً اللہ کی جانب سے اس شخص کی عزت افزائی اور قدر دانی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ پر قسم ڈال دیں تو اللہ اسے ضرور پورا فرماتا ہے)

    ایسے ہی رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (بہت سے پراگندہ اور دروازوں سے دھتکارے جانے والے لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ پر قسم ڈال دیں تو اللہ اسے ضرور پورا فرما دیتا ہے۔)

    وجاہت دنیا میں کئی طرح سے عیاں ہوتی ہے؛ لیکن ایسی وجاہت جس کے اثرات دائمی اور امتیازات اعلی ہوں وہ صرف آخرت میں ہی عیاں ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے: {اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا} دیکھیں: کہ کس طرح ہم نے انہیں [دنیا میں]ایک دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے اور یقیناً آخرت کے درجے سب سے بڑے اور وہاں کی فوقیت سب سے اونچی ہوگی۔ [الإسراء: 21]

    اللہ کے ہاں وجاہت ایسی نہیں کہ صرف امیروں کو ملے غریبوں کو نہ ملے، یا غریبوں کو تو ملے مالداروں کو نہ ملے۔ کیونکہ وجاہت کی چاہت رکھنے والے کے لئے صحیح راستہ صراط مستقیم ہے، اس کے سنگ میل اور راستے سب واضح ہیں، اس کا معیار؛ کارکردگی ہے۔ حصولِ وجاہت کے لئے درجہ بندی؛ ہدف سے قلبی لگاؤ اور اطاعت کے لئے محنت کی بنیاد پر ہو گی، اس محنت میں نماز کے ساتھ قلبی تعلق، اور نماز با جماعت ادا کرنے کی کوشش نمایاں ترین اعمال ہیں، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (تم کثرت سے اللہ کے لیے [نوافل پڑھتے ہوئے] سجدے کرو؛ کیونکہ ہر سجدے کے بدلے میں اللہ تمہارا ایک درجہ بلند فرمائے گا، اور ایک گناہ اس کے بدلے میں مٹا دے گا)

    قرآن کریم کی تلاوت ، حفظ اور اس پر عمل انسان کو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے، اور لا متناہی وجاہت کی جانب گامزن کر دیتا ہے، امام ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (حافظ قرآن کو کہا جائے گا پڑھتے جاؤ چڑھتے جاؤ، اور ایسے ہی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرو جیسے تم دنیا میں کیا کرتے تھے؛ بیشک تمہاری منزل وہیں ہو گی جہاں تم آخری آیت پڑھو گے) رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور قرآن اسے زبانی یاد ہے تو وہ معزز مکرم محرِر فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔) اور قرآن والے ہی اللہ والے اور اللہ کے خاص لوگ ہیں۔

    وجاہت کے اللہ تعالی کے ہاں مختلف درجات ہیں جو کہ علم، ایمان اور ذکرِ رحمان میں مشغول ہو کر حاصل ہو سکتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ} تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی ان کے درجے بلند کرے گا۔ [المجادلہ: 11]

    سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤ جو تمہارے اعمال میں سب سے بہترین ، تمہارے بادشاہ(یعنی اللہ تعالی)کے ہاں سب سے زیادہ پاکیزہ، تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا اور تمہارے لئے سونا اور چاندی (اللہ کی راہ میں)دینے سے بہتر ہے، بلکہ اس سے بھی افضل ہے کہ تم اپنے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں کاٹیں ؟ ) صحابہ نے کہا: " اللہ کے رسول! وہ کیا ہے ؟" آپ نے فرمایا: ( اللہ کا ذکر ) اس حدیث کو حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔

    صاحب وجاہت لوگوں کی ایسی خوبیاں جو ان سے کبھی جدا نہیں ہوتیں بلکہ ان کے میزان اعمال میں وزن بھی رکھتی ہیں ، انہی کی بدولت وہ شان و شوکت کے زینے عبور کرتے ہیں وہ یہ ہیں: حسن سلوک، اعلی اخلاق، سخی دل، اور لوگوں کی بھلائی کا جذبہ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرما ن ہے: (بیشک آدمی اپنے اچھے اخلاق سے رات کو قیام اور دن میں صیام کا اہتمام کرنے والے کا مقام پا لیتا ہے۔)

    اسی طرح ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس کو اچھا لگے کہ اس کے لئے بلند محلات تیار کیے جائیں، اس کے درجات بلند کیے جائیں تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے کو معاف کر دے، جو اسے نہ دے اس کو بھی دے، اور جو اس سے قطع رحمی کرے اس سے صلہ رحمی کرے)

    اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

    دوسرا خطبہ:
    ڈھیروں تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، میں اپنے رب کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں اور اسی کی بڑائی بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کا فرمان ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا} اے ایمان والو! اللہ کا ڈھیروں ذکر کرو۔ [الأحزاب: 41] اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ جناب محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے حمد، تسبیح ، تکبیر، اور تہلیل کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ذکر کیا، اللہ تعالی آپ پر ،آپ کی آل ،صحابہ کرام رحمتیں نازل فرمائے جنہیں اللہ تعالی نے جنت میں سلسبیل نامی چشمے کا وعدہ دیا ہوا ہے۔

    حمد و صلاۃ کے بعد: میں سب کو تقوی الہی اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔

    یہاں ظاہری وجاہت سے خبردار کرنا ضروری ہے، انسان اس کی چمک دمک کے پیچھے چھپ کر اس سے دھوکا کھاتا ہے، اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی دھوکا دیتا ہے، اور آخر کار اس کا انجام برا ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ کیا جائے گا، وہ شہید کیا گیا آدمی ہو گا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا تو وہ اسے یاد آ جائیں گی۔ اللہ پوچھے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ بڑا بے باک ہے۔ اور یہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی تلاوت کی، اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، اسے بھی یاد آ جائیں گی، اللہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی تلاوت کی، اللہ فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے: یہ عالم ہے ، اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس کو اللہ نے فراخی سے نوازا اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، اسے یاد آ جائیں گی۔ تو اللہ فرمائے گا: تم نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے ایسی کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں مال خرچ کرنا آپ کو پسند ہے ، میں نے وہاں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے یہ سب اس لیے کیا تاکہ کہا جائے: بڑا سخی ہے، تو ایسا ہی کہہ دیا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔) مسلم
    ہم اللہ تعالی سے سلامتی اور عافیت کے طلب گار ہیں۔

    اللہ کے بندو!

    رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: {إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]

    اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

    یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، نیز اپنے رحم ، کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! تیرے اور دین دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

    یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا ہمارے ملک کے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے، یا اللہ! اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعاء!

    یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

    یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے لیکر انتہا تک، اول تا آخر، جامع ، ظاہری اور باطنی ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں ، یا اللہ! ہم تجھ سے جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں۔ یا رب العالمین!

    یا اللہ1 ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف نہ ہو، یا اللہ! ہماری رہنمائی فرمائی اور ہمارے لیے راہ ہدایت پر چلنا بھی آسان فرما، یا اللہ! ہم پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

    یا اللہ! ہمیں تیرا ذکر، شکر، تیرے لیے مر مٹنے والا، تیری طرف رجوع کرنے والا اور انابت کرنے والا بنا۔

    یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہماری کوتاہیاں معاف فرما، ہماری حجت کو ٹھوس بنا، ہماری زبان کو صحیح سمت عطا فرما، اور ہمارے سینوں کے میل کچیل نکال باہر فرما۔

    یا اللہ! توں ہی معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند بھی فرماتا ہے، لہذا ہمیں معاف فرما دے۔

    یا اللہ! ہمارے اگلے ، پچھلے، خفیہ، اعلانیہ، اور جن گناہوں کو توں ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے وہ سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی ترقی اور تنزلی دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۔

    یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، تیری جانب سے ملی ہوئی عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ، اور تیری ہمہ قسم کی ناراضی سے تیری ہی پناہ چاہتے ہیں۔

    یا اللہ! ہم تجھ سے ناتوانی، سستی، بخیلی، بڑھاپے، قرضوں کے بوجھ اور لوگوں کے دبدبے سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

    یا اللہ! مسلمان فوت شدگان پر رحم فرما، بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! ہمارے سب معاملات خود ہی سنبھال لے، یا رب العالمین!

    یا اللہ!ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان دونوں کو تیری رہنمائی کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کے تمام اقدامات تیری رضا کے لئے مختص فرما، یا رب العالمین!

    یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب اللہ اور شریعت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

    {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23] {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201] ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

    {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

    تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔

    پی ڈی ایف فارمیٹ میں پرنٹ یا ڈاؤنلوڈ کرنے کیلیے کلک کریں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا شیخ!
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں