خطبہ حرم مکی زندگی کے سنہرے اصول (خطبہ حرم مکی)

فرهاد أحمد سالم نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اپریل 9, 2019 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. فرهاد أحمد سالم

    فرهاد أحمد سالم ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏فروری 23, 2019
    پیغامات:
    9

    خطبہ جمعہ مسجد حرام
    خطیب: معالی الشیخ صالح بن حمید (حفظہ اللہ تعالی)
    موضوع: زندگی کے سنہرے اصول۔
    تاریخ: 29 رجب 1440 بمطابق 5 اپریل 2019
    مترجم : فرہاد احمد سالم۔

    پہلا خطبہ!
    تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں ۔ جو انسانوں کے کمائے ہوئے اعمال کا نگران ہے ۔ اور ان کے تمام اعضاء کے اعمال سے باخبر ہے۔ وہ پاک ہے اور اس ہی کی تعریف ہے۔ زمین و آسمان میں رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی چیز اس سے مخفی نہیں خواہ وہ حرکت میں ہو یا سکونت میں۔
    میں اللہ پاک کا اس کی بے پایاں ، لا تعداد نعمتوں اور احسانات پر شکر ادا کرتا ہوں۔
    میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، یہ سچی گواہی اس دن کے لیے ذخیرہ ہے جس دن ہر جان اپنا عمل پا لے گی۔
    میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ نے ملت حنیف کی طرف خلوت و جلوت میں دعوت دی، یہاں تک کہ وہ غالب ہو ئی اور پھیل گئی۔
    اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ،پرچم دین بلند کرنے والے صحابہ کرام ، تابعین اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر ڈھیروں برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے، جب تک کہ دن رات کا تسلسل جاری رہے۔
    حمد و صلاۃ کےبعد!
    لوگو میں اپنے آپ اور آپ سب کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں ۔ اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے اسی سے ڈرو، ایسے شخص کی صحبت سے اجتناب کرو جو اعتماد کو ٹھیس پہنچائے، رازوں کو فاش کرے، اور جب مطلب نہ ہو تو منہ موڑ لے۔
    لوگوں کو ان کے مناصب اور اموال کے مطابق نہیں تولا جاتا، بلکہ ان کو دل کی پاکیزگی ، اچھے بول، بہترین کارکردگی، اور نقائص سے چشم پوشی جیسی صفات کے ذریعے تولا جاتا ہے۔
    انسان کی فضیلت مال و دولت سے نہیں بلکہ اس چیز سے عیاں ہوتی ہے جو دوسروں کو دے ۔
    اہل اسلام:
    آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرو، باہمی اختلاف نہ کرو، ایک دوسرے سے سختی کی بجائے نرمی کا معاملہ کرو ۔
    اللہ تعالیٰ نے جس کو فتنوں سے بچا لیا وہی پاکباز، وسیع القلب، اور دوسروں کے بوجھ سے آزاد ہے۔
    اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    {وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ} [العنكبوت: 69]
    اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بلاشبہ اللہ یقیناً نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
    مسلمانو!
    زندگی میں مسلمان کی ذمہ داری عمل اور کوشش ہے، چاہے اسے زمانے کی سختی ، یا مشکل حالات کا سامنا ہو؛ کیونکہ حق کو ہی غلبہ حاصل ہو گا ، اور مومنین ہی بلند ہوں گے۔
    اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    {وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} [آل عمران: 139]
    اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔
    چنانچہ بندے کے لائق نہیں ہے کہ بدلتے حالات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے، اسی طرح انہیں رکاوٹ یا مانع بھی نہ سمجھے۔
    کامیاب وہ ہی ہے جو دشوار پتھروں کے بعد قدم رکھنے کی جگہ دیکھے، اور کوشش کر کے رکاوٹوں میں بھی راستہ بنائے۔
    مومنو! جنت سلیمان (علیہ السلام) کے شکر اور ایوب (علیہ السلام) کے صبر کے درمیان ہے۔
    چنانچہ اللہ تعالی نے ان دونوں عظیم نبیوں میں سے ہر ایک کے بارے میں فرمایا:
    {نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ} [ص: 30]
    وہ بہت اچھا بندہ اور (اپنے پروردگار کی طرف) با کثرت رجوع کرنے والا تھا۔
    اپنے مقام کو مخلوق میں نہ ڈھونڈیں بلکہ یہ دکھیں خالق کے ہاں آپ کا کیا مقام ہے؟ دنیا کی فکر نہ اٹھائیں، دنیا و آخرت دونوں ہی اللہ تعالی کے لئے ہیں۔
    اور نہ ہی رزق کی فکر کریں ، کیونکہ وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اسی طرح آپ مستقبل کی فکر بھی نہ کریں کیونکہ وہ بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے، آپ صرف اسباب اختیار کریں۔ جیسے کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے ڈٹ جائیں ، اور ہوس پرستی میں نہ پڑیں۔
    کوئی دوست آپ سے تکلیف نہیں بانٹے گا، اور نہ ہی کوئی محبوب یا ڈاکٹر آپ کا درد اٹھائے گا، آپ اپنا خیال رکھیں، اور اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔ اور مطمئن رہیں کے آپ کا رزق کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ آپ محنت کریں کے آپ کا کام کوئی دوسرا نہیں کرے گا۔ آپ ہی اپنے معاملات اور کاموں کے ذمہ دار ہیں کوئی بھی آپ کی جگہ اپنے آپ کو پیش نہیں کرے گا۔
    اور جان لیں۔ کہ بیرونی اثرات کی اس وقت تک تاثیر نہ ہو گی جب تک کہ اندرونی قابلیت نہ ہو ۔
    {إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ } [الرعد: 11]
    اللہ تعالیٰ کسی قوم کی (اچھی) حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف خود نہ بدل لیں۔
    محبوب لوگو ! رہا میدان عمل ،اور جنت کا راستہ تو وہ بہت لمبا ، وسیع اور آسان راستہ ہے، نہ اس کی حد بندی ہو سکتی ہے اور نہ احاطہ۔ چنانچہ آپ عمل کریں، ہر شخص کے لیے وہی امر آسان کیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔
    مساجد ادارے ہیں اور ادارے مساجد، گھر تربیت گاہ ہیں ، اور ماں ، باپ، معلم، اہل فضل، اور رہنمائی کرنے والے یہ سب مقتدا اور قدوہ ہیں۔
    با عمل مصلح ، پوری امت کی نمائندگی تو نہیں کر سکتا تاہم وہ امت سے پیش پیش ہوتا ہے۔
    نیک اعمال شمار نہیں کیے جا سکتے نہ ان کا فضل گنا جا سکتا ہے اور نہ ان کے اثر کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔
    وضو سے گناہ جھڑتے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ مسجد میں جانے والے قدموں سے بھی گناہ مٹتے اور درجات بلند ہوتے ہیں۔
    اندھیروں میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی بشارت دے دیں۔
    اور نماز کے بعد نماز کا انتظار رباط ہے ۔ جنتا آسان ہو سکے قرآنی آیات پڑھیں اور تدبر کریں، نبی ﷺ کی احادیث میں بھی اپنا ورد اور وظیفہ بنائیں۔ حلقات علم میں شرکت لازمی بنائیں، محروم کو دیں اور مصیبت زدہ کی امداد کریں، والدین سے حسن سلوک کریں، صلہ رحمی کریں، نیز پرہیز گار کی صحبت اختیار کریں، بھائی کی رہنمائی کریں، مریض کی عیادت کریں، خوشیاں دیں، عیوب کی پردہ پوشی کریں، مظلوم کی مدد کریں، نصیحت پیش کریں۔
    اس کے ساتھ ساتھ گمراہ کی رہنمائی کریں، پانی پلائیں، راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹائیں، اللہ کے سامنے دعا میں گڑگڑائیں ، دن اور رات کی گھڑیوں اور سحر میں اذکار کا ورد کریں،
    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي المِيزَانِ، حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ: ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ ۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے پھلکے میزان میں بہت بھاری بھرکم اور رحمن کو بڑے ہی پیارے ہیں وہ (( سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ ۔))
    حق پر عمل اور حق کے تذکرے سے اس کا احیا کریں، اور باطل سے روک کر اور اسے چھوڑ کر مات دیں۔
    بحث مباحثہ چھوڑ دیں، آپ سے جو کچھ صادر ہو آپ کے حق میں گواہ ہو، نہ کہ آپ کے خلاف۔ بھلائی کی چابی اور برائی کے لیے تالا بنیں۔
    اور جان لیں! سب سے پہلی رکاوٹ اور حوصلہ شکن وہ چیز ہے، جو نفس سے صادر ہو۔
    اللہ جل شانہ نے فرمایا:
    {أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ} [آل عمران: 165]
    بھلا جب (احد کے دن) تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ ''یہ کہاں سے آ گئی؟'' حالانکہ اس سے دو گنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے ہو۔ ؟ آپ ان مسلمانوں سے کہئے کہ : یہ مصیبت تمہاری اپنی ہی لائی ہوئی ہے ۔
    دوستو! جس چیز کو مسلمان مشکل سمجھتے وہ اللہ کے ہاں آسان ہے۔ اور جس کو بڑا دیکھتے ہیں ، وہ اللہ کے ہاں چھوٹی ہے۔ اور جس کو سخت سمجھ رہے ہیں وہ اللہ کے ہاں نرم ہے۔
    چنانچہ بندے کی ذمہ داری صرف دروازہ کھٹکھٹانا ہے۔ اللہ تعالی اپنی حکمت اور وسیع رحمت سے ٹوٹے کو جوڑ دے گا، اور اپنی طاقت سے کمزور کو طاقت ور کر دے گا۔
    اللہ کے ہاں کوئی امید خالی نہیں ہوتی اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ مولیٰ جب دروازے کھولتا ہے تو بیش بہا عطا کرتا ہے۔
    مومن کی امید نہیں ٹوٹتی اگرچہ کہ ناامیدی زیادہ نظر آئے ، کیونکہ اس کو اللہ کی حکمت پر یقین ہوتا ہے۔ اگرچہ عقل اس کا ادراک نہ کر سکیں۔
    بلکہ بعض اسلاف کا قول ہے: اگر دنیا میں مصائب نہ ہوں تو ہم آخرت میں مفلس ہوں ۔
    مسلمانوں کی جماعت! اگر بات اسی طرح ہے تو اس شخص کے بارے میں مزید غور و فکر کریں ، جو یہ سوچتا ہے کہ وہ امت کے غم اٹھائے ہوئے ہے۔ حالانکہ وہ صرف دوسرے بڑے چھوٹے لوگوں کی ذمہ داریوں کی بات کرتا ہے۔
    چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جس کو وہ کوتاہی یا غلطی سمجھتا ہے اس کی ذمہ داری ان پر ڈال دیتا ہے، اور وہ اس کوتاہی میں ایک بڑی حقیقت اور قانونی ذمہ داری سے بے خبر ہوتا ہے اور اپنی ذ مہ داری ، واجبات، صلاحیتوں، امکانات، وسائل اور اسباب سے بھی مکمل غافل ہوتا ہے۔ اور یہ نہیں جان پاتا کہ دوسروں کی سستی اور کوتاہی اس بات سے معذور نہیں کرتی کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور اپنے واجبات ادا کرے۔
    بلکہ شدید غفلت کے پردے کے سبب وہ ایسی چیز میں مشغول ہوتا ہے کہ جو نہ تو اس پر واجب اور نہ ہی اس کی ذمہ داری میں سے ہے۔
    اپنی ذمہ داری میں سستی اور واجبات میں کوتاہی کرتا ہے۔
    كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔
    تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اپنی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔
    پھر آپ غور کریں کیسے اس کی غفلت اور کوتاہی شدید ہوتی ہے، یہاں تک کہ یہ مبتلا شخص تنازعات، لڑائی جھگڑے اور اختلافات میں مشغول ہو جاتا ہے، اس طرح وہ برباد ہونے والا اور برباد کرنے والا بن جاتا ہے۔
    اللہ کے بندو آپ حق کی جستجو اور ثقہ لوگوں سے اس کے بارے میں تحقیق کے ذمہ دار ہیں،
    اور جان لیں کہ کسی چیز کا پھیلنا اور عام ہونا اور لوگوں کا اس میں ملوث ہونا آپ کے لئے اس میں ملوث ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا کہ لوگوں کے ساتھ چلیں یا حق کی جستجو میں سستی کریں۔
    سوشل میڈیا ، ویب سائٹس اور ان سے صادر ہونے والی حوصلہ شکن چیزوں، اقتباسات ، شکوک و شبہات، اور مشہور کرنے والی چیزوں کے پیچھے نہ پڑیں۔
    وقت کی حفاظت کریں، فائدہ مند چیز کو لیں اور نیک کام کو لازم پکڑیں۔
    جھگڑوں، بحث مباحثہ اور جلسوں کے میدان بھرے ہیں؛ مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ ان کے پیچھے دوڑے یا انہیں اس بات کا ذریعہ بنائے کہ علماء اور ذمہ دار لوگوں کی آبرو کو نقصان پہنچائے اور فقط ان ہی پر ذمہ داری ڈالے، بلکہ ہر انسان کی اپنی ذمہ داری بھی ہے۔
    بعض لوگوں کا غلو ، تساہل یا ان کی کوتاہی، دین اس کے احکامات اور اہل دین کی تنقیص کو جائز نہیں ٹھرا سکتی۔
    جس کی نیت نیک ، ارادہ اچھا، عمل بہترین، اور اللہ پر سچا توکل ہے تو اس شخص کے لئے اعتدال اور میانہ روی کا راستہ واضح ہے ۔ اس کے بعد اللہ کے بندو، استقامت کی حفاظت ایمان، صبر اور توکل ہے ، اور بڑا اجر تو بڑی آزمائش کے ساتھ ہی ملتا ہے۔
    وہ نصیحت کتنی مختصر ہے جو نبی ﷺ نے اپنے چچا عباس کو کی: اللہ تعالی سے دنیا اور آخرت میں عافیت مانگو ۔
    جو نیک کام کرے تو وہ شکر ادا کرے تاکہ مزید نیک کام کر سکے، اور جو برائی کا کام کرے، تو اس کو چاہیے کہ توبہ اور استغفار کرے۔ توبہ گزشتہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔
    اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    { أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ } [البقرة: 214]
    کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ تمہیں ابھی وہ مصائب پیش ہی نہیں آئے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں کو پیش آئے تھے۔ ان پر اس قدر سختیاں اور مصیبتیں آئیں جنہوں نے ان کو ہلا کے رکھ دیا۔ تا آ نکہ رسول خود اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا) سن لو! اللہ کی مدد پہنچا ہی چاہتی ہے۔
    اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن اور نبی ﷺ کے طریقے سے فائدہ پہنچائے۔
    میں اسی بات پر اکتفا کرتا ہوں، اپنے لئے آپ سب کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی سے ہر گناہ اور غلطی کی استغفار کرتا ہوں۔ آپ بھی اس ہی سے استغفار کریں، بے شک وہ بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

    دوسرا خطبہ!

    تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں۔ جو وعدے کا سچا، اور اس کا شکر واجب ہے۔
    میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، یہ گواہی اس کا عہد اور رسی ہے۔
    میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
    اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل ، صحابہ اور آپ کے طریقے پر چلنے والوں پر ڈھیروں سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔ پس آپ کا راستہ ہی راستہ اور آپ کی ہدایت ہی ہدایت ہے۔
    اما بعد!
    مسلمانو! بندہ جن مشکلات ، تنگ دستیوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے، وہ سب بھلا دی جائیں گی۔ جیسے کہ حدیث میں آیا ہے۔
    وَیَوْتٰی بِاَشَدِّ النَّاسِ فِی الدُّنْیَا مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَیُصْبَغُ فِی الْجَنَّۃِ صَبْغَۃً فَیُقَالُ لَہُ: ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُوْسًا قَطُّ؟ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ: لَا وَاللّٰہِ! یَارَبِّ! مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَاَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ۔)) (مسند احمد: ۱۳۱۴۳)
    ایک جنتی آدمی کو بلایا جائے گا، جو دنیا میں سب سے زیادہ دکھوں اور شدتوں والا تھا، اسے جنت میں ایک چکر دیا جائے گا، اس کے بعد اس سے پوچھا جائے گا: اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف دیکھی ہے؟ کیا کبھی تجھے کوئی پریشانی آئی ہے؟ وہ کہے گا: جی نہیں، اللہ کی قسم! اے میرے رب! نہ مجھے کوئی تکلیف آئی ہے اور نہ کبھی کوئی پریشانی دیکھی ہے۔
    بعض دفعہ بعض ممالک میں ہم اس دین پر دشمنوں کا تسلط، اور باطل پھیلانے پر ان کی کد و کاوش دیکھتے ہیں۔ اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ غالب ہوں گے۔
    جبکہ یہ سب کچھ تو اللہ تعالی کی طرف سے اہل ایمان کے لئے بطور آزمائش ہوتا ہے۔ اور اسی وقت تو اہل ایمان کو یقین آتا ہے کہ وہ سیدھی راہ پر اور مشکلات سے گھری جنت کی راہ پر رواں ہیں۔
    اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    { إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ} [آل عمران: 140]
    اگر تمہیں کوئی صدمہ پہنچا ہے تو (اس سے پہلے) کافروں کو بھی ایسا ہی صدمہ پہنچ چکا ہے اور یہ (فتح و شکست وغیرہ کے) دن تو ہم لوگوں کے درمیان پھراتے رہتے ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ ان لوگوں کو جاننا چاہتا تھا جو سچے دل سے ایمان لائے ہیں اور پھر تمہیں میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنانا چاہتا تھا۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
    خبردار! اللہ آپ پر رحم فرمائے ۔
    اللہ کا تقوی اختیار کریں۔ رحمت ہدایت اپنے نبی محمد ﷺ پر درود و سلام بھیجیں۔
    اس بات کا حکم تمہیں تمہارے رب نے دیا ۔ چنانچہ قرآن مجید میں بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی:
    { إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا } [الأحزاب: 56]
    اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپ ﷺ پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔
    یا اللہ تو حبیب مصطفی ، نبی مجتبیٰ ،اپنے بندے اور رسول، ہمارے نبی محمد ﷺ آپ کی پاکیزہ آل اور امہات المومنین پر سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
    یا اللہ تو چاروں ہدایت یافتہ خلفاء ، ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ، تمام صحابہ ، تابعین اور قیامت تک اچھے طریقے سے آپ کی پیروی کرنے والوں سے راضی ہو جا۔ نیز ان کے ساتھ اپنی معافی، سخاوت ، اور احسان کا معاملہ فرما۔ یا اکرم الاکرمین!
    یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما۔ نیز حد سے بڑھے ہوئے ، ملحدین، اور دین و ملت کے تمام دشمنوں کو تباہ و برباد فرما۔
    یا اللہ ہمیں ہمارے ملکوں میں امن عطا فرما۔ اور ہمارا ولی اس کو بنا جو تجھ سے ڈرتا ، متقی ، اور تیری رضا کے ساتھ تیری پیروی کرتا ہو۔
    یا اللہ! ہمارے حکمران اور ان کے ولی الامر خادم الحرمین الشریفین کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما۔ ان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو بلندیاں عطا فرما۔
    اے اللہ ! ان کو اور ان کے نائب کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما اور ان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو بلندیاں عطا فرما۔
    یا اللہ ! تمام مسلمان حکمرانوں کو اپنی کتاب اور نبی ﷺ کی سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کو مومنوں کے لئے باعث رحمت بنا،
    یا اللہ! تمام جگہوں پر مسلمانوں کے احوال درست فرما۔ یا اللہ! تمام جگہوں پر مسلمانوں کے احوال درست فرما۔ یا اللہ! تمام جگہوں پر مسلمانوں کے احوال درست فرما۔ ان کو ہدایت اور سنت پر جمع فرما، ان کے گھروں میں امن و استحکام نصیب فرما ، ان کو ظاہری اور باطنی برائیوں اور فتنوں سے محفوظ فرما۔
    یا اللہ ! جو ہمارے ساتھ ، ہمارے دین ، گھر ، امت، امن، حکمرانوں، علماء، نیز امن کے محافظین، ہماری قوت اور وحدت کے ساتھ برا ارادہ کرے، تو اس کو ان کے نفس کے ساتھ مشغول فرما دے، اس کی باطل تدبیروں کو ضائع فرما دے، اور اس کی تدبیروں کو اس ہی پر لوٹا دے۔ یا قوی یاعزیز!
    یا اللہ ! ہماری سرحدوں کے پہرے داروں کی نصرت فرما، ان کے نشانوں کو درست ، ان کی کمر کو مضبوط ، ان کے حوصلوں کو بلند، ان کے قدموں کو ثابت قدم اور ان کو دشمنوں پر غالب فرما۔
    یا اللہ ! ان کی مدد فرما، ان کے شھداء کی قربانیوں کو قبول فرما۔ ان کے مریضوں کو شفا عطا فرما۔
    یا اللہ تو کمزوروں کی مدد کرنے والا ہے ! یا اللہ تو مومنوں کو نجات دینا والا ہے!
    فلسطین ، شام، برما ، یمن ،لیبیا اور جہاں کہیں بھی مسلمان مظلوم ہیں ان کی مدد فرما۔ یا اللہ ! ان کی مدد فرما، ان کے معاملات کو اچھائی کی طرف پھیر دے، ان کو غموں سے نجات دے، ان کی پریشانیاں دور فرما ، ان کے لئے کشادگی فرما، نیز ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ دے، ان کو حق بات پر جمع فرما۔
    یا اللہ ! اپنی مدد سے ان کی مدد ، اور اپنے لشکر سے ان کی تائید، اور اپنی نصرت سے ان کی نصرت فرما۔
    {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ } [الأعراف: 23]
    ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
    {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
    اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
    اللہ کے بندو!
    { إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} [النحل: 90]
    اللہ تعالی ٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔
    پس تم اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا، اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو ، وہ اور زیادہ دے گا۔
    اور اللہ کا ذکر ہی سب سے بلند، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو جانتا ہے۔
    خطبہ کو ویڈیو لنک:
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا!
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  3. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753
    عمدہ کاوش، جزاک اللہ خیرا
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  4. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں