عقیدہ ومنہج میں مخالف کی وفات پر علمائے اہل حدیث کا طرز عمل

ابوعکاشہ نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏نومبر 22, 2020 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    عقیدہ ومنہج میں مخالف کی وفات پر علمائے اہل حدیث کا طرز عمل(1)

    بشکریہ ۔ حافظ شاھد رفیق

    پاک وہند کی ملّی ومذہبی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر شخص اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ہمارے مخلوط معاشرے میں دینی جماعتیں اور ہر مسلک کے اکابر علماء مشترکات میں باہم مل کر مذہبی وسیاسی جد وجہد کرتے رہے ہیں جس کی بدولت بیشتر مواقع پر ملک ومعاشرے میں دینی مصالح اور اسلامی شعائر کا تحفظ ممکن ہوا ہے۔
    آج بھی الحاد کے مقابلے میں سخت ضرورت ہے کہ دین پسند قوتیں مل جل کر متحدہ طاقت کے ساتھ اس لا دینی کے سیلاب کے آگے بند باندھیں اور حتی الامکان سعی کریں کہ باہمی اختلافات اس قدر نہ بڑھ جائیں کہ ہمارے تشتت وتفرق کے نتیجے میں لبرل طبقہ طاقتور ہو کر ہماری دینی شناخت اور اسلامی شعائر کو نقصان پہنچا دے۔
    اسی دینی مصلحت کی خاطر ہمارے اکابر اہل علم کا دیگر مسالک کے زعماء وقائدین کے ساتھ میل جول رہا اور مختلف تحریکوں میں سب نے مل جل کر کام کیا۔ ہمارے سنجیدہ اور معتبر علماء نے ہمیشہ مسلمانوں میں باہمی تکفیر وتفریق کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کی اور مشترکہ دینی مفادات کے حصول کی خاطر باہمی اتحاد کو قائم رکھا۔
    اہل حدیث کا یہ امتیازی منہج ہے کہ وہ جذباتیت میں آ کر مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں نہ ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے درپے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ان باتوں کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے پڑی کہ آج مخالف مسلک کی بابت ہمارے کچھ نوجوان جذباتیت کے باعث افراط وتفریط کا شکار ہو کر یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ مخالف مسلک سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھنا درست ہے نہ اس کے لیے دعائے مغفرت ہی کر سکتے ہیں۔۔پھر اس پر استدلال ایسی نصوص سے کیا جاتا ہے جن کا اس موضوع سے تعلق نہیں اور وہ دلائل ان کفار ومشرکین کے بارے میں ہیں جو دائرہ اسلام سے خارج تھے۔
    اور جب ان بھائیوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ اپنے مخالف کو کافر سمجھتے ہیں تو اس کا اقرار تو نہیں کرتے مگر جو فتوے عائد کرتے ہیں اس کا بدیہی مطلب تکفیر ہی ہوتا ہے۔
    ایسے حالات میں ہم نے ضرورت سمجھی کہ اپنے بھائیوں کو برصغیر کے اکابر علماء کے طرز عمل سے متعارف کروایا جائے کہ وہ عقیدہ ومنہج میں اپنے مخالف اہل علم کی وفات پر کیسا رویہ ظاہر کرتے تھے، اور آج ہم اس منہج سے کتنے دور چلے گئے ہیں۔
    ایک بات ہم سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ کتابوں سے علم ضرور ملتا ہے لیکن اس پر عمل اور تطبیق کی راہ اہل علم کے مجموعی عمل ہی سی روشن ہوتی ہے۔۰۰۰۰۰۰جس جس گروہ یا فرد نے برصغیر کے معاشرے میں یہاں کے اکابر علماء کی فکر، تطبیق اور لائحہ عمل سے گریز کر کے یا ان کو کمترین سمجھ کر نئی راہ اپنائی ہے وہ شذوذ یا انحراف ہی کا مرتکب ہوا ہے۔اللہ تعالی ہمیں سمجھ دے اور اپنے سلفی اکابر اہل علم کی روشن بصیرت سے سیکھنے کی توفیق دے۔
    1۔ برصغیر کی ایک نامور شخصیت پیر مہر علی شاہ گولڑوی صاحب کی وفات پر شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نہ صرف اپنے اخبار میں تعزیتی شذرہ لکھتے ہیں بلکہ ان کی دینی خدمات ذکر کرتے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ ذیل میں وہ تعزیتی شذرہ ملاحظہ کیجیے۔
    " پیر مہر علی شاہ گولڑوی مرحوم "
    دنیا کو کسی نے بھی دار البقا نہیں سمجھا۔ مگر عملی طور پر دار البقا سے کم بھی نہیں جانا گیا۔ واقعاتِ دنیا شب و روز اہلِ دنیا کو ہوشیار کرتے ہیں کہ
    یہاں رہنے کی مہلت کوئی کب پاتا ہے
    آتا ہے اگر آج تو کل جاتا ہے
    پیر صاحب مرحوم گولڑہ ضلع راولپنڈی کے رہنے والے تھے۔ آپ صوفی منش اور وحدت الوجود کے معتقد تھے مگر صوفیوں میں ایک ذی علم بزرگ تھے جن کی علالت کی خبریں عرصہ سے آ رہی تھیں۔ آخر علالت طویلہ کے بعد آپ اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
    مرحوم کو پنجاب میں زیادہ شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب آپ مرزا صاحب قادیانی کی مخالفت کے میدان میں کھڑے ہوئے اور ’’سیف چشتیائی‘‘ وغیرہ کتابیں لکھیں۔
    مرزا صاحب کی دعوت پر مقابلے میں تفسیر نویسی کے لیے لاہور تشریف لے گئے مگر مرزا صاحب نہ پہنچے۔ میں بذات خود اس جلسہ میں شریک تھا جو ان کے آنے پر لاہور میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں احناف و اہل حدیث کے اکابر علما شریک تھے جو باری باری سب رخصت ہو گئے حتی کہ پیر صاحب موصوف بھی تقریباً ستر سال کی عمر پا کر چل بسے۔ غفر اللہ لہ
    واحسرتا یاراں من تنہا مرا بگذاشتند
    (ہفت روزہ اہل حدیث امرتسر: ۲۱ مئی ۱۹۳۷ء)

    جاری ہے ۔ ـ ـ
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    عقیدہ ومنہج میں مخالف کی وفات پر علمائے اہل حدیث کا طرز عمل(2)

    ذیل میں بریلوی مکتب فکر اور دیگر مخالف مسلک کے مختلف علماء کی وفات پر شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم ہی کے کچھ تعزیتی شذرات ملاحظہ کیجیے۔
    ان کے آخر میں بریلوی مکتب فکر کے بانی مولانا احمد رضا خان کی وفات پر لکھا گیا تعزیتی شذرہ بھی ہماری توجہ کا خاص حق دار ہے کہ خان صاحب میں بھی ہر وہ عیب موجود تھا جس کی آج بات ہو رہی ہے مگر ذرا غور سے ملاحظہ کیجیے کہ ہمارے اور ایک مسلمہ اہل حدیث فقیہ ومحقق عالم دین کے رویے میں کیا فرق ہے، اور کیوں؟؟؟
    شیخ الاسلام امرتسری رحمہ اللہ کی عبارات پیش کرنے سے مقصود یہ یے کہ وہ ان سب فرق کے عقائد ونظریات سے آگاہ اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھ جو علمی وعملی، ملکی وملی،دینی وسیاسی اور دعوتی ومناظراتی مجالات میں مصروف کار تھے، اس لیے ان کے فتاوی باشندگانِ پاک وہند کے لیے فقہ الواقع کے آئینہ دار بھی ہیں اور ہمارے لیے راہنما بھی۔...اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ کچھ دیگر اہل علم کے اقوال وآرا بھی ذکر کریں گے۔
    2۔ جہلم سے ایک رسالہ سراج الاخبار نکلتا تھا جس کے ایڈیٹر مولوی فقیر محمد جہلمی صاحب مسلک اہل حدیث کے خلاف بہ کثرت لکھتے تھے۔ ان کی وفات پر مولانا امرتسری نے ذیل کا شذرہ لکھا تھا:
    "مولوی فقیر محمد صاحب، اڈیٹر سراج الاخبار"
    پنجاب کے ایک پرانے حنفی عالم مولوی فقیر محمد صاحب اڈیٹر سراج الاخبار جہلم بھی فوت ہو گئے۔
    مرحوم جماعت اہلِ حدیث کے بر خلاف ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھا کرتے تھے۔طبیعت کے بہت نرم اور نیک دل تھے۔ اللہ تعالیٰ بخشے۔ ناظرین دعائے مغفرت کریں۔
    (ہفت روزہ اہل حدیث: ۱۸ اکتوبر ۱۹۱۸ء)
    3۔ "آہ مولوی خیر شاہ حنفی"
    حافظ جماعت علی شاہ علی پوری کے خلیفہ تھے۔ مباحثہ میر پور میں فریقِ ثانی کے ساتھ شامل تھے۔ آتے ہی بیمار ہوئے۔ بیماری میں مجھے خاص طور پر بلایا اور کہا کہ آپ کی محبت، عزت اور اقتدار میرے دل میں ہمیشہ رہا ہے باوجود اس کے کوئی لفظ آپ کے حق میں بُرا نکلا ہو تو معاف کر دیں۔میں نے تسلی دی کہ آپ ان شاء اللہ صحت یاب ہو جائیں گے۔ آخر ۹ رمضان کو انتقال ہو گیا۔ خدا بخشے۔
    (اہل حدیث: ۵ جون ۱۹۲۰ء)
    4۔ "مولوی نثار احمد صاحب کان پوری، مقیم آگرہ"
    مولوی نثار احمد صاحب کان پوری مقیم آگرہ سے ہمارے ناظرین واقف ہوں گے۔ موصوف کو جماعت اہل حدیث سے خاص تعلق تضاد تھا۔
    آہ! آج ہم ان کی وفات کی خبر دیتے ہیں۔ بمبئی سے صدیق کھتری نے آگرہ میں اطلاع دی کہ مولوی صاحب مرحوم جدہ میں انتقال کر گئے۔ افسوس ایک عالم حافظ قرآن کی کمی ہو گئی۔ رحمہ ا للہ
    (اہل حدیث ۱۵مئی ۱۹۳۱ء)
    5۔ "نہایت افسوسناک بلکہ حسرت ناک وفات: مولوی حسن میاں"
    ایں ماتم سخت است کہ گوئیند جوانمرد
    ناظرین جناب مولوی شاہ سلیمان صاحب پھلواروی کو جانتے ہوں گے۔ آپ کے صاحبزادہ مولوی حسن میاں عرصہ تک مرض سل میں مبتلا رہ کر حسب روایت روزنامہ پیسہ اخبار گزشتہ ہفتہ انتقال کر گئے۔
    آہ ! مرحوم نوجوان، خوش صورت، خوش سیرت، خوش تقریر تھے۔ ہمارے مکرم مولانا شاہ محمد عین الحق صاحب کے بھانجے تھے۔ اس لیے ہم اپنے مکرم دوست مولانا شاہ سلیمان صاحب اور مولانا شاہ عین الحق صاحب اور حضرت شاہ بدر الدین صاحب سجادہ نشیں پھلواری اور مرحوم کے جملہ متعلقین کی خدمت میں وہی سناتے ہیں جو وہ خود بارہا ایسے مواقع پر ماتم زدوں کو سنا چکے ہوں گے۔
    بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اولئک علیھم صلواۃ من ربھم و رحمۃ و اولئک ھم المھتدون
    صوفیاء کا مقام رضا و تسلیم یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو بخشے اور ان کے متعلقین کو صبر جمیل عطا فرما دے۔ آمین
    (اہل حدیث ۸ اگست ۱۹۱۳ء)
    6۔ "مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی"
    مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی مشہور صوفی، خوش بیان مثنوی خواں اس ہفتہ دار الفنا سے دار البقا کو انتقال کر گئے۔ مرحوم فن حدیث میں حضرت میاں صاحب (مولانا سید نذیر حسین صاحب) دہلوی کے شاگرد تھے۔ کتاب معیار الحق مصنفہ میاں صاحب پر آپ کی تقریظ بھی ہے۔ اس کے بعد آپ نے صوفیانہ رنگ اختیار کر کے حال قال پسند کیا۔ مگر افرادِ اہل حدیث سے آپ کو انس بہت تھا۔ بہر حال آپ قابل قدر بزرگ تھے۔ جماعت اہل حدیث کے ادہم (شاہ عین الحق مرحوم) کے آپ بہنوئی تھے۔ آپ کی عمر غالباً ۷۵، ۷۶ سال ہوگی۔ غفر اللہ لہ و رحمہ
    (۷ جون ۱۹۳۵ء)
    7۔ "آہ حضرت مولانا محمد علی مونگیری"
    حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ مرحوم بہت پرانے بزرگوں میں سے تھے۔ آپ کی زندگی کا پہلا حصہ مناظرہ عیسائیوں میں گزرا۔ پھر تصوف میں مشغول ہوئے مگر اس حال میں بھی آپ مناظرہ قادیاں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ چند سالوں سے آپ کبر سنی کی وجہ سے حواس باختہ ہو گئے تھے۔ تاہم آپ کا وجود باعث رحمت تھا۔ آخر ۶ ستمبر انتقال فرما گئے۔ نور اللہ مرقدہ
    (اہل حدیث: ۱۶ ستمبر ۱۹۲۷ء)
    8۔ "مولانا اشرف علی صاحب تھانوی"
    مولا نا اشرف علی صاحب تھانوی کے انتقال کی خبر گزشتہ ہفتے اس وقت آئی تھی جب کہ اخبار طبع ہو چکا تھا۔ مرحوم حنفی مذہب، صوفی مشرب بزرگ تھے۔ عمر قریباً ۹۰ سال ہو گی۔ آپ شرک و بدعت کی تردید میں جماعت اہل حدیث کے ہم نوا مگر مسئلہ تقلید میں علیحدہ تھے۔ خدا مرحوم کو بخشے اور مسلمانوں کو ان کا نعم البدل عطا کرے۔ مرحوم بیعت بھی لیا کرتے تھے۔
    (اہل حدیث: 30 جولائی،6 اگست ۱۹۴۳ء)
    9۔ "آہ ! مولانا احمد رضا خاں"
    ہمارے ناظرین نے پچھلے ہفتے کے اہل حدیث میں خبروں کے صفحے کے نیچے یہ خبر پڑھی ہوگی کہ بریلی کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب اس دنیا سے سفر آخرت کر گئے۔
    مرحوم کی زندگی پر ریویو کرنا طول چاہتا ہے۔ ہم اتنا کہنا کافی جانتے ہیں کہ آپ مناظرہ اور جدلیات میں ایک خاص قسم کے موجد تھے جس میں ادلّہ اربعہ مستعملہ فقہاء کے علاوہ ایک مزید دلیل کا استعمال زیادہ کرتے تھے جس کا لقب اور معزز خطاب ہے:"دشنام"
    آپ کی ساری زندگی کا مایہ ناز علمی خزانہ آپ کا فتاویٰ ہے جس کی ایک جلد بہت ضخیم چھپی ہوئی مل سکتی ہے جو ہمارے دعویے کی شاہد عادل ہے۔ بوقت ضرورت ہم اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے بہمہ وجوہ تیار ہیں کہ مولانا موصوف اس فن (دشنام اور دلآزاری بلکہ افترا پردازی) میں درجہ کمال رکھتے تھے۔
    آہ ! بہت افسوس ہے کہ اسلام اور سنت نبی علیہ السلام کے خدمت گزاروں سے آپ کی کبھی نہ بنی یہاں تک کہ غالباً ۸۰، ۹۰ برس کی درمیانی عمر میں اس دنیا سے کوچ کر گئے اور اس عدالت میں جا پہنچے جس کی شان یہ ہے:
    من یعمل مثقال ذرّۃ خیراً یرہ و من یعمل مثقال ذرّۃ شرًا یرہ
    (اہل حدیث امرتسر: ۱۱ نومبر ۱۹۲۱ء)

    ہماری ان گزارشات سے قارئین کے ذہن میں دو سوال پیدا ہو سکتے ہیں:
    ١. ائمہ سلف کے ہاں اہل بدعت کی وفات پر جو اظہارِ مسرت کا تذکرہ ملتا ہے، اس کی توجیہ کیا یے؟
    ٢. دوسرا جو لوگ شرک وبدعت پر فوت ہوں بلکہ اس کے داعی ہوں، ان کی وفات پر دعا اور جنازہ کیوں کر مشروع ہے؟
    ان دونوں باتوں کی وضاحت ان شاء اللہ ہم مضمون کے آخر میں کریں گے۔


    جاری ہے ـ ـ ـ
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    عقیدہ ومنہج میں مخالف کی وفات پر علمائے اہل حدیث کا طرز عمل(3)

    10۔ مولانا عبد الحی حنفی لکھنوی اہل حدیث سے شدید اختلاف رکھتے تھے جو باہمی رد وقدح اور جدل ومناظرہ کی حدود تک متجاوز تھا، بالخصوص نواب صدیق حسن خان اور مولانا بشیر سہسوانی سے عقدی و فقہی مسائل پر ان کی معرکہ آرائیاں علمی دنیا کی یادگاریں ہیں لیکن باہم مودت کا یہ عالم تھا کہ مولانا سہسوانی جب لکھنو جاتے تو فاضل لکھنوی کے یہاں قیام کرتے۔
    اور جب مولانا لکھنوی کی وفات ہوئی تو امام العصر نواب صاحب مرحوم شدتِ غم سے کھانا نہ کھا سکے اور ساری مصروفیات ترک کر کے تنہائی میں بیٹھ گئے، پھر سارا دن بڑے کرب سے گزرا۔ جیسا کہ نزھة الخواطر میں تفصیل مرقوم ہے۔
    11۔ حلقہ دیوبند کے نامور عالم مولانا حسین احمد مدنی فوت ہوئے تو امام سلفیت مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے الاعتصام میں بیت پر زور اور دردناک تعزیتی شذرہ لکھا، جبکہ مولانا سلفی نے کئی مقامات میں ان پر علمی نقد بھی کیا یوا۔
    ذیل میں حضرت سلفی کا وہ شذرہ ملاحظہ کیجیے:
    "حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے سانحہ ارتحال نے علمی حلقوں میں ایک ارتعاش کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ یہ حادثہ ہونا تھا مگر جب بھی ہوتا اسے عام طور پر بے وقت ہی سمجھا جاتا۔
    مولانا جید عالم ہونے کے علاوہ مخلص، قابل اور تجربہ کار راہنما تھے۔ ہندوستان میں ان کا وجود اللہ کی نعمت تھا۔ ان کی قیادت ہندوستان کے پیش آمدہ حالات میں مخلص قیادت تھی جس میں مذہبی دیانت اور سیاسی بصیرت کا صحیح امتزاج فرما دیا گیا تھا۔ ملک کی تقسیم کے بعد مولانا کی علمی اور سیاسی خدمات ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سہارا تھیں۔
    ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلم اور غیر مسلم زعماء کے سامنے ایک مخلص رفیق کی موت نے ایسا خلا پیدا کر دیا ہے جسے پاٹنا ممکن نہیں۔ مولانا کے انتقال کا جس قدر رنج ان کے اقرباء اور متعلقین کو ہوگا، ٹھیک اسی قدر رنج علمی دنیا کو ہو گا۔ مولانا کے فیوض سب کے لیے برابر تھے۔
    اللہ تعالی انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے متعلقین کو صبر کی توفیق مرحمت فرمائے۔"
    (ہفت روزہ الاعتصام لاہور 13 دسمبر 1957ء)
    12۔ جب گوجرانولہ خے نامور دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر صاحب فوت ہوئے تو محقق العصر مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فیصل آباد سے ان کے جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے تھے لیکن بیماری کے باعث نہ جا سکے، پھر ان کے صاحبزادے مولانا زاہد الراشدی کے نام افسوس بھرا تعزیتی خط لکھا اور مولانا کے لیے دعائے مغفرت کی حالانکہ ان دونوں علماء میں سخت علمی اختلاف تھا اور رد و نقد میں انھوں نے باہم ضخیم کتابیں لکھیں۔
    ذیل میں وہ تعزیتی مکتوب ملاحظہ کیجیے۔
    مکرمی ومحترمی مولانا زاہد الراشدی صاحب۔۔۔۔۔۔۔ زادکم اللہ عزا وشرفا
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    اعصابی تناؤ، درد اور اسہال کے عارضہ میں گھر میں لیٹا ہوا تھا کہ میرے بیٹے حافظ عبدالرحمن سلمہ اللہ نے فون پر اطلاع دی کہ حضرت مولانا شیخ الحدیث صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور عصر کے بعد نماز جنازہ ہے۔ اس خبر نے طبیعت کو مزید بوجھل بنا دیا اور مسلسل ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھتا رہا۔
    حضرت کے انتقال کا صدمہ آپ کا، اہل خانہ کا اور احباب ومتو سلینِ نصرۃ العلوم کا ہی نہیں بلکہ تمام اہل توحید کا صدمہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ حضرت مرحوم کی دینی وعلمی خدمات کو قبول فرمائے اور بشری کمزوریوں کو اپنے عفو وکرم کی بنا پر معاف فرمائے۔ آپ اور آپ کے علاوہ ہزاروں ان کے تلامذہ یقیناً ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور اجر وثواب میں اور رفع درجات میں اضافے کا باعث ہیں۔
    دل چاہتا تھا کہ حضرت مرحوم کے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کروں مگر صحت کی خرابی کے سبب اس سے محروم رہا۔ بس یہی دعا ہے کہ ’’اللھم اغفر لہ وارحمہ وارفع درجتہ فی المہدیین وألحقہ بالنبیین والصدیقین والشہداء والصالحین۔ آمین یا رب العالمین۔
    محترم عمار صاحب کو بھی سلام عرض ہے۔
    (ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ۔ اشاعت خصوصی بیاد مولانا سرفراز خان صفدر)
    .......... ................
    ان مختصر شذرات کے بعد ہم زیادہ تفصیلی نتائج لکھنے کے بجائے فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔۔۔
    سابقہ قسط میں ہم نے بریلوی اہل علم کی وفیات پر تعریتی شذرات پیش کیے تھے،
    اور آج ہم نے دیوبندی علماء کی وفات پر اکابر ائمہ اہل حدیث کے طرز عمل کی کچھ مثالیں ذکر کی ہیں۔۔۔
    ممکن ہے کچھ حضرات اسے دیوبندی حضرات کے حق میں یہ کہتے ہوئے گوارا قرار دیں کہ ان کی بدعت مکفرہ نہیں مگر جو احباب بریلوی حضرات کے لیے حرمت استغفار کی باتیں کر رہے ہیں ان کے نزدیک دیوبندی اکابر کے عقائد بھی بدعات مکفرہ پر مشتمل ہیں۔
    آخر میں عرض ہے کہ ہمارے اکابر علماء کی ایسی مزید بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔کیا خیال ہے یہ علماء علم و عقل سے خالی اور دینی و مسلکی حمیت سے عاری تھے یا ہمیں کوئی خاص آسمانی فیض ملا ہے جو پہلوں کو نصیب نہیں ہوا تھا؟
    اب ہم ان شاء اللہ اس موضوع سے متعلق کچھ اصولی مباحث آیندہ لکھنے کی کوشش کریں گے۔ واللہ الموفق

    جاری ہے ـ ـ ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں