صرف اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی کوتاہی بھی دور کیجئے !

باذوق نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏مئی 1, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

    ہمارے معاشرے میں کچھ اچھے واقعات اصلاح عمل کی خاطر بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن نادانستگی میں کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ واقعہ سے نتیجہ اخذ کرنے میں صرف ایک پہلو سے استفادہ کیا جاتا ہے اور دوسرے اہم پہلو کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

    قرآن کریم میں امت محمدیہ کو "خیر امت" کا لقب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ :
    [QH]كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُون - آل عمران:110[/QH]
    تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لئے بہتر تھا ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔

    یعنی ۔۔۔۔ "خیر امت" اس وجہ سے کہ یہ امت لوگوں کو نیکی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے۔
    متذکرہ آیت کی شرح میں مفسرین لکھتے ہیں :
    اس آیت کریمہ میں "[QH]أمر بالمعروف ونهي عن المنكر[/QH]" کو "ایمان" سے بھی پہلے ذکر فرمایا، حالانکہ ایمان سب چیزوں کی اصل ہے۔ ایمان کے بغیر کوئی بھی نیکی معتبر نہیں۔
    "[QH]أمر بالمعروف ونهي عن المنكر[/QH]" کو "ایمان" پر ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ ایمان میں تو اور امم سابقہ بھی شریک تھیں۔
    "خیر امت" کی وہ خصوصیت ، جس کی وجہ سے تمام انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کے متبعین پر امت محمدیہ کو فوقیت حاصل ہے ۔۔۔۔ یہی "[QH]أمر بالمعروف ونهي عن المنكر[/QH]" ہے جو اس امت کا تمغۂ امتیاز ہے۔
    مگر چونکہ ایمان کے بغیر کوئی عمل معتبر قرار نہیں پاتا ، لہذا اس عمل کے ساتھ ہی بطورِ قید "ایمان" کا بھی ذکر کر دیا گیا۔
    جبکہ اس آیت میں اصل مقصود یہی "[QH]أمر بالمعروف ونهي عن المنكر[/QH]" ہے ، اسی لیے اسے مقدم رکھا ہے۔

    اس امت کے لیے تمغۂ امتیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس فریضہ کا مخصوص اہتمام کیا جائے۔
    صرف چلتے پھرتے تبلیغ کر دینا کافی اس لیے بھی نہیں کہ اس طرح کا عام امر تو پہلی امتوں میں بھی پایا جاتا تھا جو کو آیت ۔۔۔
    [QH]فلما نسوا ما ذكروا به - (الأنعام:44)[/QH]
    و دیگر آیات میں بیان کیا گیا ہے۔

    اس امتیاز کا مطلب یہی ہے کہ "[QH]أمر بالمعروف ونهي عن المنكر[/QH]" کا مخصوص اہتمام کیا جائے !
    "[QH]أمر بالمعروف ونهي عن المنكر[/QH]" کو مستقل کام سمجھ کر دین کے اور کاموں کی طرح اس میں مشغول ہوا جائے۔
    اسلام اپنے پیروکاروں کو جہاں "[QH]أمر بالمعروف[/QH]" کا فریضہ انجام دینے کا حکم دیتا ہے اور امت پر اسے لازم قرار دیتا ہے وہیں ان پر "[QH]نهي عن المنكر[/QH]" کی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے۔
    جب محنت دو طرفہ ہوگی یعنی ۔۔۔
    ایک طرف : نیکیوں کی اشاعت و ترویج
    دوسری طرف : برائیوں کا استحصال
    تب اسی صورت میں معاشرہ اسلامی رنگ میں ڈھلے گا ، نیکیاں پروان چڑھیں گی اور برائیوں کا قلع قمع ہوگا ، ان شاءاللہ۔

    اپنی کوتاہیوں یا اپنی خرابیوں کو دور کرنا اچھی بات ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہ ہونا چاہئے کہ آدمی صرف اپنی خطاؤں کو درست کرنے میں لگ جائے اور "نهي عن المنكر" کے فریضہ کو نظر انداز کر ڈالے۔

    یہ بالکل صحیح ہے کہ ۔۔۔۔
    نیکی کا حکم دینے والا اس نیکی کا سب سے پہلے کرنے والا ہو ، اور برائی سے منع کرنے والا اس برائی کا سب سے پہلے چھوڑنے والا ہو ، جیسا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا طرزِ عمل تھا۔
    لیکن ، یہ کہنا درست نہیں کہ ۔۔۔
    نیکی کا کرنا اور برائی کا ترک کرنا ، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے شرط ہے !
    جو شخص نیکی کا حکم دے رہا ہو اور خود نہ کرتا ہو ، اسی طرح برائی سے روک رہا ہو لیکن خود اسے کرتا ہو ، اسے یہ نہ کہا جائے گا کہ : نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بند کر دو بلکہ ۔۔۔
    ہم اسے کہیں گے کہ نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکنا جاری رکھو لیکن اپنے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرو ، خود بھی نیکی کرو اور برائی سے اجتناب کرو۔


    اس تعلق سے مزید تفصیل یہاں ضرور پڑھئے :
    کیا نیکو کار اور گناہ گار دونوں کو دوسروں کا احتساب کرنا ضروری ہے ؟

    جس معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خلاف ورزی اور نافرمانی عام ہو جائے اور دینی حِس رکھنے والے صرف اپنی ذات کی کوتاہیاں دور کرنے میں لگے رہیں اور دوسروں کو منع نہ کریں اور برائیوں سے بیزاری کا اظہار نہ کریں تو ۔۔۔۔
    تو اس نافرمانی کے نتیجہ میں جب عذابِ الٰہی آئے گا تو سب اس عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ چاہے کوئی نیکوکار ہو یا گناہگار !

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
    اللہ تعالیٰ نے (حضرت) جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا کہ فلاں شہر کو اس کے باشندوں پر الٹ دو۔ انہوں نے کہا کہ : اے میرے رب ! ان لوگوں میں تیرا فلاں بندہ ایسا ہے جس نے پلک جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا : اس پر بھی اور دوسرے لوگوں پر بھی اس شہر کو الٹ دو اس لیے کہ لوگوں کے گناہ دیکھ کر میری خاطر کبھی بھی اس کے چہرے پر بل نہیں پڑا۔

    اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے عابد و زاہد کی عبادت کو قبول نہیں کیا اور اس لیے اتنی بڑی سزا دی کہ اس نے "[QH]نهي عن المنكر[/QH]" کا فریضہ ادا کرنے میں کوتاہی برتی !

    دراصل ۔۔۔۔ اسلام راہبوں ، جوگیوں اور صرف اپنی ذات کے گرد گھومنے والے زاہدوں کا دین نہیں، بلکہ مجاہدوں ، غازیوں ، شہیدوں اور داعیوں کا دین ہے۔
    اسلام میں تو انفرادی اور اجتماعی ، دونوں طرح کی اصلاح ساتھ ساتھ جاری رہتی ہیں۔
    "[QH]أمر بالمعروف ونهي عن المنكر[/QH]" ہر اس شخص پر واجب ہے جو عاقل ، بالغ اور مسلمان ہو اور قدرت رکھتا ہو۔ اس وجوب میں عورت ، غلام اور فاسق بھی داخل ہیں۔ باشعور لڑکے کے لیے جائز ہے کہ وہ برائی سے منع کرے۔ جس طرح باشعور لڑکا نماز اور امامت کا اہل ہے اسی طرح منکر سے روکنے کا بھی اہل ہے !

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے :
    اس اللہ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ، تمہارے لئے لازم ہے کہ معروف کا حکم دو اور برائی سے لوگوں کو منع کرو اور بدکار کا ہاتھ پکڑو اور اسے حق کی طرف موڑ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بدکاروں کے دلوں کا زنگِ معصیت ، حق پرستی کے دعویداروں کے دلوں پر چڑھا دے گا یا تم پر بھی اسی طرح لعنت کر دے گا جس طرح یہودیوں پر کی۔
    (بحوالہ تفسیر ابن کثیر ، سورہ المائدہ : آیات - 78-79)

    اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے صرف زبانی اقرار یا انفرادی تقویٰ و دینداری کا ہی مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اپنی قوم کے علاوہ جہاں تک پہنچنا ممکن ہو ، تمام لوگوں کی اصلاح و ہدایت کی ذمہ داری کا فرض بھی اس نے ہم پر عائد کر رکھا ہے۔
    اس کام میں غفلت کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے روبرو اسی طرح جوابدہی کرنا ہوگی جس طرح کہ نماز ، روزے اور دوسرے فرائض میں کوتاہی کے لیے کرنی ہے۔

    اللہ تعالیٰ ہم تمام کو یہ حقیقت سمجھنے کی ہدایت اور اس پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے ، آمین۔


    ***
    استفادہ از مضمون:
    "امر بالمعروف و نہی عن المنکر، عصر حاضر کا تقاضا" - قاری شبیر احمد ملک (جدہ) ، روشنی سپلیمنٹ (اردو نیوز - 30/اپریل/2010ء)۔
     
  2. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
  3. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
    لیکن یاد رہے کہ
    خیر امت, امت محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا لقب نہیں
    بلکہ یہ اصحاب محمد صلى اللہ علیہ وسلم کا لقب بلکہ ہر داعی کا لقب ہے
    اور کنتم خیر امۃ أخر جت للناس کا ترجمہ یوں ہے
    تم اس امت کے بہترین لوگ ہو جو امت لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے
     
  5. محمد ارسلان

    محمد ارسلان -: Banned :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 2, 2010
    پیغامات:
    10,398
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں