استاذ العلماء مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ اوکاڑہ)

ابوعکاشہ نے 'مسلم شخصیات' میں ‏اگست 26, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,954
    استاذ العلماءمولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ اوکاڑہ)

    شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ نے 1940 ءمیں مولانا عبدالرحیم کے گھر آنکھ کھولی۔ ہوش سنبھالتے ہی دینی و دنیاوی تعلیم میں کمال حاصل کیا۔ 1953 میں میٹرک کیا اور ضلع قصور لاہور بھر میں اول رہے۔ دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور سے سند فراغت حاصل کی۔ اور جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں صحیح بخاری محدث زماں حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی سے پڑھی۔ اور پھر فاضل عربی بھی اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔ حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی نے اعلیٰ ذہانت دیکھ کر اپنی دختر نیک اختر کا نکاح کر دیا۔ ان دنوں شام کوٹ نوکی سر زمین دین و مسلک کے لیے بڑی زرخیز تھی۔ شیخ برادری کو دینی و دنیاوی دولت سے اللہ تعالیٰ نے مالا مال کیا تھا اور وہ علماءکے بڑے قدردان تھے۔

    مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ کی شہرت سن کر پتوکی کی جماعت نے ان کے والد مولانا عبدالرحیم رحمہ اللہ سے مل کر مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ کو شامکوٹ نو لیجانے کی خواہش کی۔ مولانا عبدالرحیم رحمہ اللہ ان کے اصرار پر انکار نہ کر سکے۔ چنانچہ مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ نے شام کوٹ و علاقہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ خطابت و تدریس کے ساتھ فاضل عربی کی تدریس شروع کی۔ دور دور سے طلبہ و علماءنے شام کوٹ پہنچ کر فاضل عربی کی کلاس میں داخلہ لیا۔ مجھے اکثر علماءکے نام بھی یاد ہیں مگر یہاں ان کے بیان کی گنجائش نہیں۔ کچھ عرصہ بعد مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ نے شامکوٹ نو میں کھلی فضا میں مدرسہ قائم کرنے کے لیے جگہ خریدی اور مسجد فردوس کے نام سے مسجد تعمیر کی۔

    وہاں بھی کافی طلباءداخل ہوئے۔ مولانا معین الدین لکھوی حفظہ اللہ نے مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ کی علمی قابلیت کی شہرت سنی تو انہیں 1972 ءمیں آدمی بھیج کر اوکاڑہ بلا لیا۔ کہ ایسے علمی ہیرے کی جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کو اشد ضرورت ہے۔ جو جامعہ کی زینت بن کر دین متین کو چار چاند لگائے ، ابتداءمیں فاضل عربی کی کلاس کا اجراءمولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ کے سپرد کر دیا گیا۔ 1980 ءکو شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ امجد چھتوی (متعنا اللہ بطول حیاتہ) جب جامعہ محمدیہ سے سبکدوش ہوئے تو حضرت لکھوی صاحب نے مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ کو جامعہ کا شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کر دیا۔

    اس دن سے مولانا کے بجائے شیخ کے لاحقے سے مشہور ہوئے۔ اس منصب پر فائز ہو کر بھی شیخ نے دونوں شعبے احسن طریقے سے سر انجام دےے۔ 1972 سے 2007ءتک جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کو نہ چھوڑا۔ بلکہ جنازہ بھی جامعہ محمدیہ سے اٹھایا گیا۔ شیخ طلباءکے نہ صرف مشفق استاد تھے بلکہ بیٹوں کی طرح شفقت فرماتے۔ طلباءمیں اس طرح گھل مل جاتے جیسے کلاس فیلو ہوتے۔ شیخ کے بزرگ اور خاندان جلالی تھا مگر شیخ کبھی بھی جلالی نہ ہوتے ، آواز تو فطری طور پر بلند تھی جو دھیما کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔ اس کے باوجود طلباءسے مشفقانہ ، مربیانہ سلوک رکھتے۔ طلباءکو بلاتے تو کبھی مولانا کہتے اور کبھی حافظ صاحب اور کبھی نام لے کر بلاتے۔ طلباءجہاں بخاری شریف پڑھتے وہاں بہت سارے علمی جواہر پارے ، علمی یادداشتوں اور اسلاف کے علمی لطائف سے محظوظ ہوتے۔

    کسی طالب علم سے غلطی ہو جاتی یا سبق یاد نہ ہوتا تو زبانی کلامی الفاظ ناراضگی کا اظہار کرتے۔ اور کہتے تو ایسا تو ویسا۔ آج تجھے ایسی سزا دوں گا جو تو یاد رکھے گا۔ طالبعلم سمجھتا کہ آج میری خیر نہیں۔ مگر سزا دینے سے درگزر کر دیتے۔ شیخ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے نہ صرف زینت اور روشنی کا مینار تھے بلکہ جامعہ کے روح و رواں اور جان و آن تھے۔ وہ جامعہ کی رونق تھے۔ صبح سویرے دوائیاں پکڑے روزانہ جامعہ میں مسند بخاری پر بیٹھتے اور عصر کی نماز پڑھ کر واپس گھر لوٹ جاتے یہ سلسلہ وفات کی رات تک قائم رہا۔ ظہر کی نماز کے بعد آج کے مسئلہ پر پانچ دس منٹ خطاب کرتے۔ جس میں طلباءکے علاوہ اساتذہ ، افراد جماعت و مفکر اسلام مولانا معین الدین لکھوی بھی موجود ہوتے۔ اب پتہ نہیں کون جانشینی کا حق ادا کرے گا۔

    ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
    بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


    ہزاروں طلباءنے شیخ سے حدیث کی سماعت کی جو اپنے اپنے علاقہ میں دین متین کی خدمات میں مصروف ہیں۔ شیخ 6 دسمبر جمعرات بخاری پڑھا کر حسب عادت عصر کے بعد گھر لوٹے۔ طبیعت چند دنوں سے کچھ خراب تھی آخری رات زیادہ خراب ہو گئی۔ اذان فجر سے قبل ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

    علماءکی شمولیت کی خاطر7 دسمبر جمعہ کی نماز کے بعد کے بجائے نماز عصر کے بعد چار بجے جنازے کا اعلان کیا گیا۔ دور دور سے علماءتین بجے تک مرکزی جنازگاہ اوکاڑہ میں پہنچ گئے۔ شام چار بجے شیخ کی نماز جنازہ شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم جامعہ سلفیہ نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ پڑھائی۔ علماءکے علاوہ شہر کے بہت سے لوگوں نے جنازہ میں شمولیت کی۔ سینکڑوں کی تعداد میں شاگرد اپنے استاد اور مربی کے آخری دیدار کے لیے جوق در جوق پہنچے تھے۔ اکثر کی آنکھیں اشک بار تھیں۔

    شیخ کی وفات و جدائی سے مولانا معین الدین لکھوی کے آنسو رک نہیں رہے تھے۔ انہیں اس قدر صدمہ تھا جیسے ان کا حقیقی بیٹا فوت ہو گیا ہو۔ وہ صدمے سے لڑکھڑا رہے تھے۔ شیخ رحمہ اللہ یقینا جنتی ہیں جن کی ساری زندگی ہوش سے لے کر آخری دم تک مہد سے لے کر لحد تک قال اللہ وقال الرسول ہی زبان پر رہا ہو۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وارفع درجتہ مع العلیین والمھدیین فی جنۃ الفردوس۔ آمین۔ یارب العالمین۔ اللہ تعالیٰ شیخ کی کوئی لغزش ہو بھی تو درگزر فرما کر اعلیٰ علییسن میں شامل فرما کر جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔

    لواحقین حافظ عبدالوحید ، مولانا عبدالکبیر محسن ، عبدالباسط ، عمران ، عبدالحئی عابد ، مولانا عبدالحلیم ، صاحبزادہ مولانا عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ ، مولانا زبیر احمد عقیل ، قاری عبدالباقی اور ان کے اہل خانہ اور مفکر اسلام مولانا معین الدین لکھوی حفظہ اللہ تعالیٰ کو صدمہ برداشت کرنے کی توفیق اور صبر جمیل سے نوازے۔ مادر علمی جامعہ محمدیہ کو شیخ رحمہ اللہ کا صحیح صحیح جانشین عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

    استاذ العلماءمولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ اوکاڑہ)
    مضمون نگار :: جناب ڈاکٹر عبدالغفار حلیم ( چونیاں )
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. سلمان ملک

    سلمان ملک -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 8, 2009
    پیغامات:
    924
    اللھم اغفرلہ وارحمہ وارفع درجتہ مع العلیین والمھدیین فی جنۃ الفردوس۔ آمین۔ یارب العالمین۔ اللہ تعالیٰ شیخ کی کوئی لغزش ہو بھی تو درگزر فرما کر اعلیٰ علییسن میں شامل فرما کر جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔
     
  3. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    آمین،جزاک اللہ خیرا
     
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں