"صراط مستقیم" کی ضد جومغضوب اورگمراہ ہوئے

ابوعکاشہ نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏جون 27, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    "الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ" اور "الضَّالِّينَ"


    تفسیر ام الکتاب از ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ

    "صراط مستقیم" کی پہچان صرف اس کے مثبت پہلو ہی سے واضح نہیں کی گئی، بلکہ اس کا ضد مخالف پہلو بھی واضح کر دیا گیا : "غیر المغضوب علیھم ولا الضالین" "ان کی راہ نہیں جو مغضوب ہوئے، نہ ان کی جو گم راہ ہو کربھٹک گئے۔"
    "مغضوب علیھم" گرو "منعم علیھم" کی بالکل ضد ہے، کیونکہ انعام کی ضد غضب ہے، اور فطرت کائنات کا قانون یہ ہے کہ راست باز انسانوں کے حصے میں انعام آتا ہے، نافرمانوں کے حصے میں غضب۔ "گمراہ" وہ ہیں جو راہ حق نہ پا سکے اور اس کی جستجو میں بھٹک گئے۔ پس مغضوب وہ ہوئے جنہوں نے راہ پائی اور اس کی نعمتیں بھی پائیں، لیکن پھر اس سے منحرف ہو گئے اور نعمت کی راہ چھوڑ کر محرومی و شقاوت کی راہ اختیار کر لی۔ "گمراہ" وہ ہوئے جو راہ ہی نہ پا سکے، اس لیے ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اور صراط مستقیم کی سعادتوں سے محروم ہیں۔
    "مغضوب علیہ" کی محرومی حصول معرفت کے بعد انکار کا نتیجہ ہے اور "گم راہ" کی محرومی جہل کا نتیجہ۔ پہلے نے پا کر، روگردانی کی اس لیے محروم ہوا، دوسرا پا ہی نہ سکا اس لیے محروم ہے۔ محروم دونوں ہوئے، مگر یہ ظاہر ہے کہ پہلے کی محرومی زیادہ مجرمانہ ہے، کیونکہ ان نے نعمت حاصل کر کے پھر اس سے روگردانی کی، اسی لیے اسے مغضوب کہا گیا اور دوسرے کی حالت صرف گم راہی کےلفظ سے تعبیر کی گئی۔
    ہم دیکھتے ہیں دنیا میں فلاح و سعادت سے محروم آدمی ہمیشہ دو طرح کے ہوتے ہیں : جاحد اور جاہل۔ جاحد وہ ہوتا ہے جو حقیقت پا لیتا ہے، بایں ہمہ اس سے روگردانی کرتا ہے،جاہل وہ ہوتا ہے جو حقیقت سے ناآشنا ہوتا ہے، اور اپنے جہل پر قانع ہو جاتا ہے۔ پس صراط مستقیم پر چلنے کی طلب گاری کے ساتھ محرومی و شقاوت کی ان دونوں صورتوں سے بچنے کی طلب بھی سکھلا دی، تاکہ فلاح و سعادت کی راہ کا تصور ہر طرح کامل اور لغزشوں سے محفوظ ہو جائے۔
    جہاں تک مذہبی صداقت کا تعلق ہے، دونوں طرح کی محرومیوں کی مثالیں قوموں کی تاریخ میں موجود ہیں۔ کتنی ہی قومیں ہیں جن کے قدم صراط مستقیم پر استوار ہو گئے تھے اور فلاح و سعادت کی تمام نعمتیں ان کے لیے مہیا تھیں، بایں ہمہ انہوں نے روگردانی کی اور راہ حق کی معرفت حاصل کر کے پھر اس سے منحرف ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہی قوم جو کل تک دنیا کی انعام یافتہ جماعت تھی، سب سے زیادہ محروم و نامراد جماعت ہو گئی۔ اسی طرح کتنی ہی جماعتیں ہیں جن کے سامنے فلاح و سعادت کی راہ کھول دی گئی، لیکن انہوں نے معرفت کی جگہ جہل اور روشنی کی جگہ تاریکی پسند کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ راہ حق نہ پا سکے اور نامرادی ومحرومی کی وادیوں میں گم ہو گئے۔

    احادیث و آثار میں اس کی جو تفسیر بیان کی گئی ہے اس سے یہ حقیقت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ ترمذی اور احمد و ابن حبان وغیرہم کی مشہور حدیث ہے کہ: "آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا "المغضوب" یہودی ہیں اور "الضالین" نصاریٰ ہیں"۔ یقیناً اس تفسیر کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ مغضوب سے مقصود صرف یہودی اور گمراہ سے مقصود صرف نصاریٰ ہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مغضوبیت اور گم راہی کی حالت واضح کرنے کے لیے دو جماعتوں کا ذکر بطور مثال کے کر دیا جائے۔ چنانچہ ان دونوں جماعتوں کی تاریخ میں ہم محرومی کی دونوں حالتوں کا کامل نمونہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی قومی تاریخ مغضوبیت کے لیے اور عیسائیوں کی تاریخ گمراہی کے لیے عبر و تذکیر کا بہترین سرمایہ ہے۔

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 8
    • اعلی اعلی x 1
    • معلوماتی معلوماتی x 1
    • مفید مفید x 1
  2. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    ماشاء اللہ۔ بہترین اور جامع تحریر
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    جی ـ اہم پوائنٹ ،،،، جو کہ کسی اور تفسیر میں نا مل سکا ـ رحمہ اللہ رحمتہ واسعہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  4. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    جزاک اللہ خیرا
    تو کیا یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہودی قوم دراصل مغضوب علیھم کا استعارہ ہے اور نصاریٰ ضالین کے لیے؟
    اور چونکہ کسی قوم کا انجام اس کی خصلتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے تو جس قوم میں یہود کی وہ خصلتیں پائی جائیں جن کا کتاب و سنت میں رد کیا گیا ہے تو وہی قوم مغضوب علیہ ہے؟

    اگر تفسیر کا یہ اسلوب درست ہے تو قرآن کی کئی دیگر تراکیب کی توجیہ اس طرح سے کرنا درست ہوگا؟
    مثلا سورۃ الغاشیہ کی کچھ آیات کی تفسیر ایک عالم نے یوں کی کہ
    افلا ینظرون الی الابل میں اونٹ کے صبر کو مسلمان قوم کی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح
    الی السماء کیف رفعت میں آسمان کی بلندی کو نظریہ کی بلندی کا استعارہ
    الی الجبال کیف نصبت میں پہاڑ کی سی مضبوطی
    الی الارض کیف سطحت میں ذہنی وسعت
     
  5. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا
     
  6. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    واللہ اعلم ـ ،اگر مفسر نے صحابہ کرامؓ کی تفسیر سے فائدہ اٹھا کر یہ توجیہ پیش کی ہے تو صحیح ہے ورنہ درست نہیں کہ سکتے ـ باقی اہل علم بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. مریم جمیلہ

    مریم جمیلہ رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 26, 2015
    پیغامات:
    111
    جزاك الله خيرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں