کیا بیوی بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع لینے کی مجاز ہے؟

سلمان ملک نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏اکتوبر، 22, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

Tags:
  1. سلمان ملک

    سلمان ملک -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 8, 2009
    پیغامات:
    924
    ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 5
    جلد نمبر 39 16 تا 22 محرم الحرام 1429 ھ 26 تا 1 فروری 2008 ء
    مولانا ابو محمد عبدالستارالحماد ( میاں چنوں ) احکام و مسائل

    کیا بیوی بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع لینے کی مجاز ہے؟ وہ کونسے حالات ہیں جن کی بناءپر خلع لینا جائز ہے، کیا خلع لینے کے لئے عورت کو اپنے والدین سے اجازت لینا ضروری ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب کتاب و سنت کی روشنی میں دیں۔ ( ابوعبدالرحمن۔ جلالپور جٹاں )
    خلع، عورت کی طرف سے علیحدگی اختیار کرنے کا نام ہے، عورت کو چاہیے کہ کسی معقول وجہ کی بناءپر اپنے خاوند سے علیحدگی کا مطالبہ کرے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    ” جو عورت کسی معقول وجہ کے بغیر اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔ “ ( مسند امام احمد، ص 277 ، ج 5 )
    اس حدیث کی بناءپر عورت کو بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود وہ بلاوجہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے اگرچہ وہ ایسا کرنے میں گنہگار ہو گی۔

    وہ حالات جن کے پیش نظر وہ خلع لینے میں حق بجانب ہوتی ہے وہ حسب ذیل ہیں :
    1۔ شکل و صورت، سیرت و کردار یا دینی اقدار کے متعلق اپنے خاوند کو ناپسند کرے۔
    2۔ عمر میں بڑا ہونے، کمزور ہونے یا قوت برداشت سے باہر ہونے میں بھی وہ خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

    یا اس طرح کی کوئی بھی وجہ ہو جسکی بناءپر وہ حقوق کی ادائیگی نہ کر سکتی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ” اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان پر ( خلع میں ) کوئی گناہ نہیں ہے۔ “ ( البقرہ : 229 )

    حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی جمیلہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ میں اپنے خاوند ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے خلق و کردار اور دینی اقدار کے متعلق کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن میں اسے برداشت نہیں کر سکتی ہو، میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ اسلام میں رہتے ہوئے کفر ان نعمت کا ارتکاب کروں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں اسے خلع لینے کی اجازت دی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ حق مہر میں دیا ہوا باغ واپس کر دے۔ ( صحیح بخاری، الطلاق : 5275, 5273 )

    واضح رہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ان کی شکل و صورت پسند نہ تھی جیسا کہ بعض دیگر روایات میں اس کی صراحت موجود ہے، چونکہ یہ عورت کا ایک ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے اس لئے اگر وہ عقلمند اور صاحب بصیرت ہو تو اسے خلع لینے کے لئے اپنے والدین سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، ہاں اگر ناسمجھ یا کم عمر یا واجبی سی فہم و بصیرت کی حامل ہو تو والدین یا اپنے بھائیوں سے اجازت لے اور اس اقدام پر ان سے مشورہ کر لے تا کہ آئندہ زندگی میں اس کے لئے کوئی مسئلہ نہ کھڑا ہو ( واللہ اعلم )

    کیا بیوی بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع لینے کی مجاز ہے؟ وہ کونسے حالات ہیں جن کی بناءپر خلع لینا جائز ہے، کیا خلع لینے کے لئے عورت کو اپنے والدین سے اجازت لینا ضروری ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب کتاب و سنت کی روشنی میں دیں۔ ( ابوعبدالرحمن۔ جلالپور جٹاں )
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں