اسیر ایرانی صحافی نے العربیہ کے سامنے تہران ـ تل ابیب دشمنی کا بھانڈا پھوڑ دیا

اعجاز علی شاہ نے 'اسلام اور معاصر دنیا' میں ‏جنوری 12, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    ایران ۔ اسرائیل انٹلیجنس اداروں نے مشترکہ تفتیش کیاسیر ایرانی صحافی نے العربیہ کے سامنے تہران ـ تل ابیب دشمنی کا بھانڈا پھوڑ دیا

    ایران کی ایک جیل میں زیر حراست صحافی نادر کریمی نے انکشاف کیا ہے کہ تہران اور تل ابیب کے درمیان گہرے دوستانہ لیکن خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ نادر کریمی کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران 200 گھنٹے تک ایرانی انٹیلی جنس کے اہلکاروں جبکہ 20 گھنٹے اسرائیلی خفیہ ایجنسی "موساد" کے جاسوسوں نے اس سے پوچھ تاچھ کی ہے جو اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات قائم ہیں۔

    العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسیر ایرانی صحافی نےاہم نوعیت کے یہ خفیہ انکشافات تہران کی ایک جیل میں ایک ملاقاتی "ایو ین" کےذریعے العربیہ تک پہنچائے ہیں۔ کریمی کا کہنا ہے کہ ایرانی محکمہ انٹیلی جنس اور موساد کے اہلکار دوران تفتیش اسے جسمانی اذیت کابھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس کاکہنا ہے کہ وہ جیل سے رہائی کے بعد اپنے اوپر بیتی جانے والی داستان قلمبند کرنے کے ساتھ ایران اور اسرائیل کےدرمیان خفیہ تعلقات کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھیں گے جس میں وہ تمام مشاہدات پیش کیے جائیں گے جو وہ جیل میں رہ کر دیکھ چکے ہیں۔ نادر کریمی نے ملاقاتی کو بتایا کہ ایرانی جیلوں میں اسیران سے موساد کے اہلکاروں کا تفتیش کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ تہران اور تل ابیب کے آپس میں گہرے دوستانہ روابط ہیں۔ ان کی مخالفت صرف ظاہری اور نمائشی ہے۔

    خیال رہے کہ نادر کریمی ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور ان کے قدامت پسند حامیوں کے سخت ناقد سمجھے جاتے رہے ہیں۔عراق ـ ایران جنگ کے دوران وہ پاسداران انقلاب میں شامل تھے اور جنگ میں زخمی بھی ہوئے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے صحافت سے وابستگی اختیارکی اور فارسی اخبارات "سیاست روز"، "جہان صنعت" اورجریدہ "گزارش" کے مدیراعلیٰ کے فرائض انجام دیے۔

    انہیں سنہ 2009ء میں صدارتی انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں اوراصلاح پسندوں کے احتجاجی مظاہروں کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔ان پر ایرانی حکومت اور اسلامی انقلاب کے خلاف لکھنے کی پاداش میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد نادر کریمی کے وکیل کی طرف سے سزا کے خلاف دائر اپیل کے بعد یہ سزا کم کر کے 05 سال کردی گئی تھی۔

    ایک ماہ قبل ایرانی سرکاری ٹی وی نے نادرکریمی کے مبینہ اعتراف جرم کی ایک ویڈیونشرکی تھی۔ تاہم کریمی نے العربیہ.نیٹ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں ان اعترافات کوخلاف حقیقت قراردیا تھا۔ کریمی کا کہنا تھا کہ ایرانی انٹیلی جنس اہلکاروں نے اس سے یہ اعترافات تشدد کے ذریعے لیے ہیں۔

    نادر کریمی کا کہنا ہے کہ وہ ایران اوراسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات بارے جو کتاب تحریرکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے لیے موساد کے کئی ایجنٹوں سے انٹرویو بھی لیے ہیں۔ اس ضمن میں اپنی گرفتاری سے قبل وہ ترکی میں موسادکے کئی جاسوسوں سے بھی مل چکے ہیں جن سے اسے نہایت کارآمد معلوما حاصل ہوئی ہیں۔


    تہران ـ تل ابیب میں صرف لفظی جنگبظاہر ایران اور اسرائیل کے درمیان نظر آنے والی کشیدگی اور سرد مہری کے بارے میں نادرکریمی نے کہا کہ "یہ صرف الفاظ کی جنگ ہے۔ ایران صرف اسلامی دنیا کو دکھانے کے لیے اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں سے ہمدردی جتانے کی کوشش کرتا ہے۔ ورنہ اندرون خانہ دونوں ملکوں کی آپس میں کوئی ایسی دیرینہ دشمنی نہیں"۔

    ایک سوال کے جواب میں نادرکریمی نے کہا کہ "حالات ایسے بھی نہیں جن سےایران کو اسرائیل سے کوئی خطرہ لاحق ہو۔ ایرانی میڈیا تک ملکی خارجہ پالیسی کی شکل ایک اور انداز میں پہنچتی ہے اور ایرانی فیصلہ ساز ادارے کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں۔ ایران میں صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو فیصلہ ساز شخصیات اور انٹیلی جنس سے متعلق اداروں کے افسران بالاسے ملنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے میڈیایا حقیقت احوال سے لاعلم حقیقت جاننے سے قاصررہتا ہےکہ آیا تہران اور تل ابیب کے درمیان کس نوعیت کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں"۔

    کریمی کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل دونوں اپنے اپنے میڈیا کو ایک دوسرے کے لیے تیارکردہ دشمنی کے غبارے میں ہوابھرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔


    دشمنی کا اظہار صرف فوائد کےلیےاسیر ایرانی صحافی ایران اور اسرائیل کے امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں انہوں نے اس سوال پر کہ آیا ایران اور اسرائیل کی ایک دوسرے سے بظاہردشمنی کے اظہارکی وجہ ہو سکتی ہے جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ دوستی بھی قائم ہے، ایرانی صحافی نے کہا کہ "یہ ایک اہم سوال ہے کہ دونوں ملک ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس کا جواب بھی واضح ہے اور وہ یہ کہ دونوں ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اگر دونوں ملک اعلانیہ باہمی تعلق قائم کریں تو ان کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ صرف ایک دوسرے سے دشمنی اور مخاصمت کے پھل کاٹ رہے ہیں۔

    کریمی نے بتایا کہ اسیری سے قبل اس نے کئی سیاسی اور سفارتی شخصیات سے انٹرویو کئے اور ان سے ملاقاتیں کی۔ سیاست دانوں اور چوٹی کے رہنماٶں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں انہیں کافی حد تک یقین ہو گیا ہے کہ ایران کی اسرائیل کے بارے میں اعلانیہ اور خفیہ پالیسی میں اچھا خاصا تضاد موجود ہے۔ تاہم اگر دونوں ملکوں کے درمیان کسی حد تک مخالفت نظر آتی ہے تو صرف جزوقتی مفادات کے لیے ہے۔ اس مخالفت کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ وہ واقعی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ دراصل اس مخالفت کے پردے میں وہ ایک دوسرے کے نفع کا سامان کر رہے ہوتے ہیں"۔



    ایران، اسرائیلی مصنوعات کا خریدارنادر کریمی نے ایران اور اسرائیل کے درمیان خفیہ دوستی کا پردہ چاک کرتے ہوئے العربیہ کو بتایا کہ "یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ ایران میں اسرائیلی مصنوعات کی خرید وفروخت پر کوئی پابندی عائد ہے۔ اگرچہ ایران عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے اسرائیل کے خلاف سخت تلخ لہجہ استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حقوق کا علمبردار بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

    ایران یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تجارتی مراسم نہیں لیکن اس کے باوجود تہران میں نہ تو اسرائیلی فرموں کی ایسی کوئی فہرست موجود ہے جن کی مصنوعات پر پابندی ہو اور نہ ہی ایرانی مارکیٹ تک پہنچنے والی اسرائیلی مصنوعات کی راہ روکی جاتی ہے۔ ایرانی حکومت کے کئی سرکردہ لیڈر اور ان کی کمپنیاں اسرائیل سے باضابطہ طور پر کئی چیزیں منگواتے ہیں جن میں میوہ جات اور دیگر اشیاء بھی شامل ہیں"۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ ایران اوراسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک ایران ـ عراق جنگ کے بعد سے اب تک مسلسل دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کا اسلحہ فراہم کرکے اپنی جیبیں بھی گرم کررہے ہیں۔ ایران اپنے مغربی ثالثوں کے ذریعے نہ صرف مغرب کا اسلحہ اور جدید آلات خرید رہا ہے بلکہ اسرائیل میں تیارکی جانے والی جنگی مصنوعات بھی حاصل کی جا رہی ہیں"۔


    فلسطینیوں کو جاسوسی پر مجبور کرنازیرحراست ایرانی صحافی نادر کریمی نے بتایا کہ ایرانی حکومت کے فلسطینیوں کے حقوق کے دعوے صرف نمائشی اور کھوکھلے ہیں، حقیقت میں ایرانی حکومت ملک میں زیر تعلیم فلسطینیوں کو ایرانی انٹیلی جنس اداروں کے لیےجاسوسی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

    نادر کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت فلسطینی طلبہ کو مجبور کرتی ہے کہ وہ فلسطین کے مسلح گروپوں، سیاسی جماعتوں اور ایران میں قائم عرب ممالک کے سفارت خانوں کے بارے میں ان کے لیے جاسوسی کریں اور خفیہ معلومات ان تک پہنچائیں۔

    ایک مثال دیتے ہوئے کریمی نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایرانی انٹیلی جنس اداروں نے تہران سے اسلامی تاریخ میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ایک فلسطینی نوجوان کو تہران میں اردن اور سوڈان کے سفارت خانوں کی جاسوسی پر مامور کیا، تاہم کچھ عرصہ بعد انٹیلی جنس حکام کو اس پر کچھ شبہ ہوا جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد اسے 15 ماہ تک جیل میں رکھا گیا بعد ازاں ایران سے بے دخل کر دیا گیا۔

    بشکریہ العربیہ
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    بہت شکریہ ۔ اعجاز بھائی ۔
    روافض اور یہودیوں کی مشترکہ قدروں اور دیرینہ دوستی سے کون واقف نہیں‌۔ اور ہو بھی کیوں نہ کیونکہ روافض کے آل ابن سباء بھی یہودی تھے ۔ اور ان کی مخالفت سوائے دکھاوے کے کچھ نہیں‌۔
     
  3. علی....Ali

    علی....Ali -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 17, 2009
    پیغامات:
    39
    بھائی جہاں بھی اسلام کے نام پر اپ سے سختی کی جائے گی اپ سے کہا جائے کہ نماز پڑھو۔ ۔ ۔روزہ رکھو عورتوں کو پردہ کرواو ۔ ۔ ۔ ۔ حیادار بنو۔ ۔ ۔بے شرمی سے نہ پھرو تو بھائی کوئی بھی عام مسلمان اس کے خلاف ہوجائے گا جسیا کہ ہورہا ہے کہ خود پاکستان میں ٹی وی پر بے حیائی اور بے شرمی ہی کو اگر کوئی ختم کرنے کے لیے آٹھے تو سب سے پہلے میں اور اپ ہی آٹھیں گئے کہ یہ کیا زبردستی کا اسلام ہے ۔ ۔ ۔ہمیں قبول نہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ایسا نہی ہوگا ۔ ؟؟؟؟

    یقیں نہ ائے تو مجھ سے کہیں میں ایرانی حکومت کے خلاف لکھنا شروع کرتا ہوں کیونکہ میں خود زبردستی کے اسلام کے خلاف ہوں ۔ ۔
    میں جو بھی کہوں گا اس کے پیچھے صرف اور صرف زبردستی کے اسلام والی سوچ ہوگئی ۔ ۔ ۔ زبردستی کا پردہ ۔۔ ۔ ۔ ۔زبردستی کی نماز زبردستی کے حدود میں قید کرنا وغیر وغیرہ
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں