’’آزادی کیا ہوتی ہے؟

m aslam oad نے 'متفرقات' میں ‏جنوری 27, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. m aslam oad

    m aslam oad نوآموز.

    شمولیت:
    ‏نومبر 14, 2008
    پیغامات:
    2,443
    میرا بیٹا تیسری جماعت کا طالب علم تھا، اس کے ہاتھ کوئی ہتھیار نہیں تھے، وہ کوئی جنگجو، مجاہد نہیں تھا، اسے پھر بھی بھارتی فورسز نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ اس کی شہادت کے بعد پتہ چلا کہ آزادی کیا ہوتی ہے… اور غلامی کیا ہوتی ہے، اگر ہم آزاد ہوتے تو میرا بیٹا کبھی یوں قتل نہ ہوتا، ہم اور کچھ نہیں مانگتے، بس ہمیں آزادی دے دو…‘‘
    یہ الفاظ سرینگر میں گزشتہ سال بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے معصوم بچے وامق فاروق کی والدہ کے تھے جو اس نے بی بی سی پر گفتگو کرتے ہوئے کہے۔
    مقبوضہ کشمیر کی یہ ماں آج حیران و پریشان ہے… بیٹے کے غم میں نڈھال ہے، رات کو سوتے میں اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے… لیکن نہ اسے اب اپنا پیارا، راج دلارا، وہ چاند چہرہ، وہ کلی جسے وہ دن رات پال پوس کر بڑا کر رہی تھی، نظر نہیں آتا۔ وہ ہر وقت کشمیر چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہتی ہے لیکن کہیں جا بھی نہیں سکتی، یہ کیفیت صرف وامق کی والدہ کی نہیں، مقبوضہ کشمیر کی لاکھوں مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔ وہ نہ سو سکتی ہے نہ جاگ سکتی ہے۔ وہ تو ان سے کہیں زیادہ مطمئن و پرسکون ہیں کہ جن کے پیاروں کو قتل کر کے ان کی لاشیں ورثاء کو دے دی گئیں۔ اب انہیں یہ تو پتہ ہے کہ ان کے پیارے اب اپنے رب کے پاس پہنچ چکے، جہاں وہ دعا کر سکتے ہیں لیکن ان کا کیا کیا جائے جو اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
    یہ بھارت ہے جو مسلمانوں کے ساتھ ایسے ہی سلوک روا رکھتا ہے۔ اگر کشمیر کے گلی کوچوں میں قدم در قدم اور گام درگام ایسی داستانیں ہیں تو بھارت کے اندر بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔ گزشتہ چند سال میں بھارت کے بہت سے علاقوں میں بم دھماکے ہوئے، جس میں سے کئی ایک مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر تھے، لیکن بھارت نے کیا کیا…؟ مساجد میں دھماکوں اور بیسیوں مسلمانوں کی شہادت کے بعد گرفتار بھی مسلمانوں ہی کو کیا اور جیلوں میں ڈال دیا۔ اب انہیں نہ رہائی مل سکتی ہے، نہ شنوائی… بھارت کے ہندو مذہبی دہشت گرد سوامی ایسمانند نے اعتراف تک کر لیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگانے والوں میں مرکزی کردار اسی کا تھا لیکن بھارت سرکار یہاں جلنے والے مسلمانوں کے ’’مجرم‘‘ مسلمانوں کو پھر بھی چھوڑنے پر تیار نہیں۔ مسلمان تڑپ رہے ہیں، بلک رہے ہیں… لیکن کوئی سنتا نہیں… بہت سوں کو یاد ہو گا کہ1993ء میں بھارتی شہر بمبئی میں بم دھماکے ہوئے تھے، جس کے بعد مسلم کش فسادات بپا کر دیئے گئے تھے، ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمان جلا کر خاک کر ڈالے گئے، ان کی اربوں روپے کی جائیدادیں پھونک دی گئیں لیکن ہوا کیا…؟ اس جرم میں بھی مسلمان ہی جیلوں میں ڈالے گئے اور 17سال بعد بھی کئی جیلوں میں ہیں، کئی وہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے اور کئی قریب المرگ ہیں… بہت سوں کے تو بیوی بچے بھیک مانگنے اور در در جانے پر مجبور ہیں لیکن ان پر بھارت سرکار کو ترس نہیں آتا۔
    گجرات فسادات کو 10سال بیتنے والے ہیں، یہاں 25ہزار سے زائد مسلمان گھروں میں گھیر گھیر کر اور باندھ باندھ کر اجتماعی طور پر زندہ جلائے گئے۔ یہاں تو ظلم کی وہ آندھی چلی تھی کہ ہلاکو اور چنگیز بھی شرما جائیں، لیکن ان مسلمانوں پر ظلم کی یہ آندھی اب بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔50ہزار سے زائد مسلمان اب بھی اپنے گھروں، علاقوں اور زمینوںسے دور خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جہاں نہ صاف پانی ہے، نہ بجلی، نہ گیس نہ کوئی دوسری سہولت۔ ان کے بچے سکولوں میں نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے لئے سکول موجود ہی نہیں۔ یہاں ہندوئوں نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ مسلمان ان کے علاقوں سے نکل کر اپنے اکثریتی علاقوں میں چلے گئے تاکہ وہاں کسی حد تک تو محفوظ رہیں کیونکہ ہندو اکثریتی علاقوں میں تو انہیں ہر وقت موت اور کسی بھی وقت لٹ پٹ جانے کا خطرہ رہتا تھا۔ مسلمانوں کے اس عمل نے تقسیم ہند کے فارمولے پر ایک بار پھر مہرتصدیق ثبت کی کہ جس کی بہت سے لوگ مخالفت کرتے تھے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو آج بھی اس بات پر بضد ہیں۔ حال ہی کی بات ہے کہ جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کے لئے تقسیم ہند سے لیکر اب تک50ہزار سے زائد مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں۔ یہ بات نو برسوں سے نئی دہلی جامع مسجد کے امام کہہ رہے تھے جس کو مولانا ارشد مدنی نے دہرایا۔
    زیادہ دور کیا جائیں، 12جنوری 2011ء کو نئی دہلی میں دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے مسجد نور کو یہ کہہ کر شہید کر دیا کہ یہ تجاوزات میں آتی تھی اور غیر قانونی تھی لیکن اس جگہ اور اس اراضی پر بنائے گئے مندراور چرج جوں کے توں ہیں۔ مسلمانوں نے سارے حقائق اور ثبوت پیش کئے لیکن ان کی کسی نے نہ سنی۔ انہوں نے اس پر احتجاج کیا تو انہیں پولیس نے مار مار کر بے حال کر کے رکھ دیا، کئی ایک کو اٹھایا اور جیلوں میں ڈال دیا۔ مسلمانوں نے نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت مانگی تو اس پر بھی مار ان کا مقدر بنی۔ اس سے چند روز پہلے حیدرآباد دکن کے علاقے سوریہ پیٹ میں مسجد شہید کر دی گئی۔ مسلمان بے چارے ملبے پر دو مرتبہ نماز ادا کر کے خاموش ہو گئے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور چارہ کار ہی نہ تھا اور بھارت میں تو مساجد کی یوں توہین تو روز کا معمول ہے اور اس میں فوج، پولیس، حکومت، عدلیہ اور انتظامیہ سب ایک ہیں اور دوسری طرف یہی بھارت ہے جو ہر سال 26جنوری کو یوم جمہوریہ مناتا اور خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر ثابت کروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے۔ ہم یہ سب اس لئے بتا رہے ہیں کہ بھارتی چنگل سے آزادی اسلامیان پاکستان کو آزادی کی نعمت کی قدر و احساس ہو جائے۔ ہم جس ملک کے باسی ہیں، شاید نہیں یقینا اس جیسا ملک کرئہ ارض پر کہیں نہیں ہے۔ تیونس کے مسلمان 15جنوری کو آزاد ہوئے تو آج انہیں احساس ہو رہا ہے کہ آزادی کیا ہے؟ ہم چونکہ 63سال سے آزاد ہیں اس لئے ہمیں احساس نہیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے اور آزادی کا دفاع کس قیمت پر ہوتا ہے۔ یہی تو وہ آزادی ہے جس کو چھیننے کے لئے ساری دنیا متحد ہو چکی ہے اور صرف پاکستان ہی ان کا نشانہ ہے تو پھر ہم سب کا خیال کیا ہے…

    بشکریہ۔۔۔۔ہفت روزہ جرار
     
  2. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    اللہ تعالی پاکستان کو ہر مشکل سے دور کرے آمین
     
  3. قاسم

    قاسم -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 29, 2011
    پیغامات:
    875
    ملاّ کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
    ناداہ یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں