امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

mahajawad1 نے 'سیرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا' میں ‏فروری 13, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. mahajawad1

    mahajawad1 محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2008
    پیغامات:
    473
    امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا


    عائشہ نام، صدّیقہ اور حمیرہ لقب، امّ عبداللہ کنیت،قریش کے خاندان بنو تمیم سے تھیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے:
    عائشہ بنت ابی بکر صدّیق بن ابی قحافہ بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مُرّہ بن کعب بن لُؤیّ۔ والدہ کا نام امّ رومان بنت عامر تھا اور وہ جلیل القدر صحابیہ تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت نبوی کے چار سال بعد ماہ شوّال میں پیدا ہوئیں۔ ان کا زمانہ طفولیت صدّیق اکبر جیسے جلیل القدر باپ کے زیر سایہ بسر ہوا، وہ بچپن ہی سے بیحد ذہین اور ہوش مند تھیں اور اپنے بچپن کی تمام باتیں انہیں یاد تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی دوسری صحابیہ یا صحابی کی یادداشت اتنی اچھی نہ تھی۔ بچپن میں ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گڑیوں سے کھیل رہی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے۔ ننھی عائشہ کی گڑیوں میں ایک پردار گھوڑا بھی تھا۔ حضورﷺ نے پوچھا: ’’ عائشہ یہ کیا ہے؟‘‘ جواب دیا: ’’گھوڑا ہے۔‘‘ حضورﷺ نے فرمایا گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بے ساختہ کہا: ’’ کیوں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے تو پر تھے۔‘‘ حضورﷺ نے یہ جواب سن کر تبسم فرمایا۔
    امام بخاری رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت

    ’’ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّo (سورۃ القمر:۴۶)

    مکہ میں نازل ہوئی تو اس وقت حضرت عائشہ کھیل کود میں مشغول تھیں۔ حضور ﷺ کے نکاح میں آنے سے پہلے حضرت عائشہ کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے ( یا بروایت دیگر خود جبیر بن مطعم) سے ہوئی تھی مگر ان لوگوں نے یہ نسبت اسلئے فسخ کردی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خاندان مسلمان ہو چکے تھے۔اس کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کی تحریک پر حضورﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کیلئے پیغام بھیجا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول کریم ﷺ کے منہ بولے بھائی تھے تعجب سے پوچھا: ’’ کیا بھائی کی بیٹی سے نکاح ہو سکتا ہے؟‘‘ خولہ رضی اللہ عنہا نے حضورﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’ ابو بکر میرے دینی بھائی ہیں اور ایسے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے۔‘‘ جناب صدیق اکبر کیلئے اس سے بڑھ کر خوشی کی کون سی بات تھی کہ ان کی بیٹی رحمتہ اللعالمین کے نکاح میں آئے۔ چنانچہ فوراً راضی ہو گئے۔ چنانچہ 6 سال کی عمر میں حضرت عائشہ ہجرت سے تین سال( یا بروایت دیگرایک سال) قبل ماہ شوّال میں رسول کریم ﷺ کے حبالہ نکاح میں آگئیں۔حضرت ابو بکر صدیق نے خود نکاح پڑھایا۔ پانچ سو درہم حق مہر مقرر ہوا۔
    ایک مرتبہ شوّال کے مہینے میں عرب میں طاعون کی خوفناک وبا پھیلی تھی جس نے ہزاروں گھروں کو ویران کر دیا تھا۔ اس وقت سے شوّال کا مہینہ اہل عرب میں منحوس سمجھا جاتا تھا اور وہ اس مہینے میں خوشی کی تقریب کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح بھی شوال میں ہوا اور رخصتی بھی چند سال بعد شوال ہی میں ہوئی۔ اس وقت سے ماہ شوال کی نحوست کا وہم لوگوں کے دلوں سے دور ہوا۔ حضرت عائشہ سے نکاح کی بشارت حضورﷺ کو خواب میں ہو چکی تھی۔ آپ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ریشم میں لپٹی ہوئی کوئی چیز آپ ﷺ کو دکھا رہا ہےاور کہتا ہے ’’ یہ آپ کی ہے۔‘‘آپ ﷺ نے کھولا تو حضرت عائشہ تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نہایت سادگی سے ہوا۔ وہ فرماتی ہیں: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرمایا تو میں اپنی ہمجولیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ مجھے اس نکاح کا حال تک معلوم نہ ہوا تاآنکہ میری والدہ نے مجھے گھر سے باہر نکلنے سے منع کردیا۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پیدائشی مسلمان تھیں، ان سے روایت ہے کہ ’’ جب میں نے اپنے والدین کو پہچانا انہیں مسلمان پایا۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر روز اول سے کفرو شرک کا سایہ تک نہ پڑا۔
    سنہ ۱۳ بعد بعثت میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیّت میں ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لیگئے۔مدینہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن حارثہ، ابو رافع اور عبداللہ بن اریقط رضی اللہ عنہم کو اپنے اہل و عیال لانے کیلئے مکے بھیجا۔ واپسی پر حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ حضرت فاطمہ الزّہرا، حضرت امّ کلثوم، حضرت سودہ بنت زمعہ، امّ یمن، اور اسامہ بن زید تھے۔ اور عبداللہ بن اریقط کے ساتھ عبد اللہ بن ابی بکر، امّ رومان، عائشہ صدیقہ، اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ تھیں۔ مدینہ پہنچ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا محلّہ بنو حارث بن خزرج میں اپنے والد محترم کے گھر اتریں۔ مدینہ کی آب و ہوا شروع شروع میں مہاجرین کو موافق نہ آئی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کی نہایت تندہی سے تیمارداری کی جب وہ صحتیاب ہوئے تو خود بیمار ہو گئیں۔مرض کا حملہ اتنا شدید تھا کہ سر کے بال گر گئے تاہم جان بچ گئی۔ جب صحت بحال ہوئی تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! عائشہ کو آپ رخصت کیوں نہیں کروا لیتے‘‘۔ فرمایا: ’’ فی الحال میرے پاس مہر نہیں ہے۔‘‘ صدیق اکبر نے اپنے پاس سے ۵۰۰ درہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور قرض حسنہ پیش کئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالئے اور وہی حضرت عائشہ کے پاس بھیج کر انہیں شوّال ۱ ہجری( یا بروایت دیگر ۲ ہجری) میں رخصت کرا لیا۔ اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی عمر نو سال کی تھی۔ بعض جدید سیرت نگار اس طرف گئے ہیں کہ رخصتی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر سترہ برس کے لگ بھگ تھی۔ان کے اپنے دلائل ہیں۔
    سنہ ۳ ہجری میں غزوہ احد پیش آیا جب ایک اتفاقی غلطی سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو مدینہ سے حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت صفیہ بنت عبد المطلب، سیّدہ فاطمہ الزّہرا، رضی اللہ عنہما اور دوسری خواتین اسلام دیوانہ وار میدان جنگ کی جانب لپکیں۔ وہاں پہنچ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامت دیکھا تو سجدہ شکر بجا لائیں۔ ان سب نے مل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کو دھویا اور پھر مشکیزے سنبھا ل کر زخمیوں کو پانی پلانا شروع کیا۔ جب دوسرے صحابہ کرام جو ادھر ادھر منتشر تھے حضور کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے تو مدینہ واپس تشریف لائیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بعض دوسری خواتین کے ہمراہ مدینہ منوّرہ ہی سے لشکر اسلام کے ساتھ میدان جنگ میں گئی تھیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب مسلمانوں میں اضطراب برپا تھا تو وہ اپنی پیٹھ پر مشک لاد لاد کر زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔امام احمد بن حنبل نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غزوہ خندق میں بھی قلعہ سے باہر نکل کر نقشہ جنگ دیکھا کرتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری لڑائیوں میں شریک ہونے کی اجازت مانگی تھی لیکن نہ ملی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ وہ رات کو اٹھ کر قبرستان چلی جایا کرتی تھیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فطری طور پر نہایت دلیر اور نڈر تھیں۔
    حضرت عائشی رضی اللہ عنہا کی حیات مبارکہ میں چار واقعات بے حد اہم ہیں۔ اِفک، ایلا، تحریم اور تخییر۔
    (۱)اِفک کا واقعہ یوں پیش آیا کہ غزوہ بنو مصطلق کے سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔راستے میں ایک جگہ رات کو قافلے نے قیام کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رفع حاجت کیلئے پڑاؤ سے دور نکل گئیں۔ اہاں ان کے گلے کا ہار جو وہ اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مانگ کر لائی تھیں، بے خبری کے عالم میں گر گیا۔ واپسی پر پتہ چلا تو بہت مضطرب ہوئیں، پھر اسی سمت واپس گئیں اور خیال کیا کہ قافلے کے چلنے سے پہلے ہار ڈھونڈ کر واپس پہنچ جائینگی۔جب ہار ڈھونڈ کر واپس پہنچیں تو قافلہ جا چکا تھا۔ بہت گھبرائیں، ناتجربہ کاری کی عمر تھی، چادر اوڑھ کر وہیں لیٹ گئیں۔ حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہا ایک صحابی کسی انتظامی ضرورت کے سلسلے میں قافلہ سے پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ کو پہچان لیا کیونکہ بچپن میں ( یا حکم حجاب سے پہلے) انہیں دیکھا ہوا تھا۔ ان سے پیچھے رہ جانے کا سبب پوچھا، جب واقعہ معلوم ہوا تو ہمدردی کا اظہار کیا پھر امّ المؤمنین کو اونٹ پر بٹھا کر عجلت سے قافلے کی جانب روانہ ہوئے اور دوپہر کے وقت قافلے سے جا ملے۔ مشہور منافق عبداللہ بن ابئ کو جب اس واقعے کا پتہ چلا تو اس نے حضرت صدیقہ کے متعلق مشہور کردیا کہ اب وہ باعصمت نہیں رہیں۔چند سادہ لوح مسلمان بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ۔جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قدرتاً تشویش پیدا ہوئی اور حجرت عائشہ صدیقہ بھی ناحق کی بدنامی کے صدمے سے بیمار ہو گئیں۔ اس وقت غیرت الٰہی جوش میں آئی اور آیات برأت نازل ہوئیں۔

    لَوْلا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ ۔( سورۃ النور: ۱۲)

    ترجمہ: اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے۔

    آیت برأت کے نزول سے دشمنوں لے منہ سیاہ ہو گئے اور سادہ لوح مسلمان جو غلط فہمی کا شکار تھے سخت شرمندہ ہوئے۔ انہوں نے نہایت عاجزی سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے والدین کو قدرتاً بیحد خوشی ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔ انہوں نے فرمایا میں صرف اپنے اللہ کی شکر گزار ہوں اور کسی کی ممنون نہیں۔
    (۲)واقعہ تحریم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ عصر کی نماز کے بعد ازواج مطہّرات کے پاس تھوڑٰ دیر کیلئے تشریف لیجاتے، ایک دفعہ حضرت زینب بنت جحش کے پاس زیادہ دیر ہو گئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رشک ہوا، انہوں نے تجسس کیا تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کے ہاں شہد کھایا ہے جو انہیں کسی نے تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہمارے اور تمہارے گھر تشریف لائیں تو کہنا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کا شہد کھایا ہے۔ ( مغافیر ایک پھول ہوتا ہے جسے شہد کی مکھی چوستی ہے اس میں قدرے بو ہوتی ہےاور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی بو ناپسند تھی) جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ زینب نے شہد پلایا ہے تو تم کہنا شاید یہ شہد عرفط کی مکھی کا ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے تشریف لائے تو یہی سوال و جواب ہوئے پھر حضرت صفیہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے بھی یہی گفتگو دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت مبارک میں تکدّر پیدا ہوا۔ چنانچہ جب آپ اگلے روز زینب رضی اللہ عنہا کے تشریف لے گئے اور انہوں نے حسب معمول شہد پیش کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ مجھے اس کی ضرورت نہیں میں آئندہ شہد نہیں کھاؤں گا۔‘‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔ (سورۃ التحریم: ۱)

    ترجمہ: اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کیلئے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(0)

    واقعہ ایلا: ازواج مطہّرات کیلئے غلّہ اور کھجور کی جو مقدار مقرر تھی وہ انکی ضروریات کیلئے کافی نہ تھی اور وہ تنگدستی سے گزراوقات کرتی تھیں۔ ادھر اموال غنیمت اور سالانہ محاصل میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ ازواج مطہّرات نے اپنے مقرر ہ گزارہ میں اضافہ کی خواہش کی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو سمجھا کر اس مطالبے سے باز رکھا لیکن دوسری ازواج اس مطالبے پر قائم رہیں۔ اتفاق سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے میں گھوڑے سے گر پڑے اور پہلوئے مبارک میں چوٹ لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے متصل ایک بالا خانے پر قیام فرمایا اور عہد کیا کہ ایک مہینے تک ازواج مطہّرات سے نہیں ملیں گے۔ منافقین ایسے موقعے کی تلاش میں رہتے تھے، انہوں نے مشہور کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم یہ خبر سن کر سخت رنجیدہ ہوئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھرّی چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور جسم اطہر پر بان کے نشان بن گئے تھے۔ فاروق اعظم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! کیا آپ نے بیویوں کو طلاق دے دی؟‘‘ فرمایا ’’ نہیں‘‘۔ جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ خوشخبری تمام لوگوں کو سنا دی ۔ اس پر تمام مسلمانوں میں اور ازواج مطہّرات میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں ایک ایک دن گنتی تھی، انتیسویں دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالا خانے سے اتر کر سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے ۔ میں نے عرج کی : ’’ یا رسول اللہ! آپ نے ایک مہینہ کا عہد فرمایا تھا اور آج انتیس دن ہوئے ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’ مہینہ کبھی انتیس کا بھی ہوتا ہے۔
    (۴)واقعہ تخییر: واقعی ایلا کے بعد ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’ عائشہ میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اس کا جوا ب اپنے والدین سے پوچھ کر دو تو بہتر ہوگا۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! وہ کیا بات ہے؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ احزاب کی یہ آیات تلاوت فرمائیں:

    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا
    وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا ۔(سورۃ الاحزاب
    : ۲۹۔۲۸)

    ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت ِ دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کردوں۔(۲۸)
    اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو( یقین مانو) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کیلئے اللہ نے بہت زبردست اجر چھوڑ رکھے ہیں۔(۲۹)


    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ صل اللہ علہ وسلم! اس میں والدین کے مشورے کی کیا ضرورت ہے میں تو اللہ اور اللہ کا رسول اور آخرت کا گھر اختیار کرتی ہوں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب پسند فرمایا۔ یہی بات جب دوسری ازواج سے پوچھی تو انہوں نے بھی ویسا ہی جواب دیا۔
    سیّد الانام کو حضرت عائشہ بیحد محبوب تھیں۔ مسند ابی داؤد میں روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
    ’’ اے باری تعالیٰ یوں تو میں سب بیویوں سے برابر کا سلوک کرتا ہوں مگر دل میرے بس میں نہیں کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو زیادہ محبوب رکھتا ہے یا اللہ اسے معاف فرمانا۔‘‘
    رسول کریم صلی اللہ علہ وسلم طہارت میں بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے اور اپنی مسواک بار بار دھلوایا کرتے تھے ۔ اس خدمت کی انجام دہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کے سپرد تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جان چھڑکتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے، جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ کھلی اور حضور کو نہ پایا تو سخت پریشان ہوئیں، دیوانہ وار اٹھیں اور ادھر ادھر اندھیرے میں ٹٹولنے لگیں۔ آخر ایک جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ملا، دیکھا تو آپ صل اللہ علیہ وسلم سر بسجود یاد الٰہی میں مشغول ہیں، اس وقت انہیں اطمینان ہوا۔
    ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کمبل اوڑھ کر مسجد میں تشریف لائے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! اس پر دھبے نظر آ رہے ہیں۔‘‘
    آپ نے اس کو غلام کے ہاتھوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کٹورے میں پانی منگوایا اورخود اپنے ہاتھ سے داغ دھوئے۔ اس کے بعد کمبل خشک کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس بھیجا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھتے ا احرام کھولتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جسم مبارک میں خوشبو لگاتی تھیں۔
    ایک مرتبہ سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار کھو گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی تلاش میں چند صحابہ کو بھیجا۔ وہ اسکی تلاش میں نکلے تو راستے میں نماز کا وقت آگیا، دور دور تک پانی نہیں تھا اسلئے لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی۔ واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ماجرا بیان کیا۔ اس وقت آیت تیمّم نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے اس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہت بڑی فضیلت سمجھا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا:
    ’’ امّ المؤمنین! اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے آپ کو کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا جس سے اللہ نے آپ کو نکلنے کا راستہ نہیں بتایا اور مسلمانوں کیلئے وہ ایک برکت بن گیا۔‘‘







     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. mahajawad1

    mahajawad1 محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2008
    پیغامات:
    473
    جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ازدواجی زندگی کے ۹ برس گزر گئے تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم مرض وفات میں مبتلا ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ دن علیل رہے، ان تیرہ دنوں میں پانچ دن دیگر ازواج کے ہاں قیام فرمایا اور آٹھ دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رہے۔ شدّت مرض میں کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسواک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیتے وہ اپنے دانتوں سے چبا کر نرم کرتیں اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے استعمال فرماتے۔ ۹ یا ۱۲ ربیع الاوّل سنہ ۱۱ ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سینے پر رکھا ہوا تھا ، پھر انہی کے حجرہ مبارک کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ابدی آرامگاہ بننے کا شرف حاصل ہوا۔
    رحلت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر ۱۸ سال کی تھی۔ ۴۸ برس انہوں نے عالم بیوگی میں بسر کئے،اس تمام عرصے میں وہ تما م عالم اسلام کیلئے رشد و ہدایت، علم و فضل اور خیروبرکت کا عظیم مرکز بنی رہیں۔ ان سے ۲۲۱۰(دو ہزار دوسودس) احادیث مروی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی حصہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ہر قسم کے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کو کوئی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کا علم حضرت عائشہ کے پا س نہ ہو۔ یعنی ہر مسئلہ کے متعلق انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ معلوم تھا۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ اور علم الانساب میں امّ المؤمنین حضرت عائشہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ احنف بن قیس رحمہ اللہ اور موسیٰ بن طلحہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ حضرت عائشہ سے بڑھ کر میں نے کسی کو فصیح الّلسان نہیں دیکھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ بلیغ، زیادہ فصیح اور زیادہ تیز فہم کو ئی خطیب نہیں دیکھا۔
    کتب سیئر میں متعدد روایات ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دینی علوم کے علاوہ، طب، تاریخ اور شعروادب میں بھی دستگاہ حاصل تھی۔فی الحقیقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا پایہ علم و فضل اتنا بلند تھا کہ اس کو بیان کرنے کیلئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں۔ بہت سے علم سیئر کے نزدیک علمی کمالات، دینی خدمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات کے نشرواشاعت کے اعتبار سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا کوئی حریف نہیں ہو سکتا۔ اگر انہیں محسنہ امّت کہا جائے تو اسمیں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تلامذہ اور مستفیدین کی تعداد دوسو کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے جن میں متعدد اکابر صحابہ کے علاوہ تابعین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ ان میں سے کچھ کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ، فقیہ الامّت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، قاسم بن محمّد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ، ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ، مسروق بن اجداع رضی اللہ عنہ، معاذہ بن عبداللہ العدویہ رضی اللہ عنہا، صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا، عمرہ بنت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہا، عائشہ بنت طلحہ رضی اللہ عنہا ار امام نخعی رحمہ اللہ۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو حدیث بیان کرتیں اکثر اس کا پس منظر اور اسباب و علل بھی بیان کردیتیں جو توجیہ آپ پیش کرتیں اسے باور کرنے کیلئے دو رازکار تاویلوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ وہ کورانہ تقلید پسند نہ کرتیں، ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی حقیقی روح تک پہنچنے کی کوشش کرتیں۔ محدّثین نے متعدد ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوسرے صحابہ سے اختلاف کیا ہے ان میں سے کچھ روایات یہ ہیں۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کسی نے بیان کیا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین چیزیں نحس ہیں، عورت گھوڑا اور گھر۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آدھی بات سنی، جب ابو ہریرہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلا فقرہ فرما چکے تھے وہ یہ کہ ’’ یہودی کہتے ہیں کہ نحوست تین چیزوں میں ہے عورت، گھر اور گھوڑا۔‘‘
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ایک روایت سماع موتی (فوت شدگان کا سننا) کے متعلق ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دریافت کرنے پر فرمایا: ’’ وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے۔‘‘
    جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس روایت کو سنا تو فرمایا عمر کو سننے میں غلطی ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں تھا کیونکہ قرآن میں اسکے خلاف نص موجود ہے کہ:

    فَإِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى(الروم:۵۲)
    وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ(الفاطر:۲۲)


    ترجمہ: بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔(الروم)
    ترجمہ: اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔(الفاطر)


    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’ مردے پر اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ روایت سنی تو اس کو ماننے سے انکار کردیا اور فرمایا حقیقت حال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر گزرے۔ اس کے عزیزواقارب رو رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ رو رہے ہیں اور اس پر عذاب ہو رہا ہے(یعنی وہ اپنے اعمال کی سزا بھگت رہی ہے) اس کے بعد فرمایا کلام مجید میں واضح ارشاد ہے:
    ’’ کوئی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔‘‘
    حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی تھے جب ان کا وقت وفات قریب آیا تو انہوں نے نئے کپڑے منگا کر پہنے اور فرمایا کہ:
    ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مسلمان جس لباس میں مرے گا اسی میں اٹھایا جائیگا۔‘‘
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سن کر فرمایا:
    ’’ اللہ ابو سعید پر رحم کرے۔ لباس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اعمال تھے۔‘‘
    حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نماز عصر اور نماز فجر کے بعد کوئی نماز یعنی نفل و سنت بھی جائز نہیں۔‘‘ بظاہر اس ممانعت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ روایت سنی تو فرمایا:
    ’’ عمر کو وہم ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس طرح نماز سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص آفتاب کے طلوع یا غروب کو تاک کر نماز نہ پڑھے۔( یعنی آفتاب پرستی کا شبہ نہ ہو)
    فضائل اخلاق کے لحاظ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا رتبہ بہت بلند تھا۔وہ بے حد فیاض، مہمان نواز اور غریب پرور تھیں۔ ایک بار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک لاکھ درہم بھیجے، انہوں نے اسی وقت سب رقم غریبوں میں تقسیم کردی۔اس دن وہ روزے سے تھیں شام ہوئی تو خادمہ نے کہا:’’ امّ المؤمنین! کیا اچھا ہوتا آپ نے اس رقم سے کچھ گوشت افظار کیلئے خرید لیا ہوتا۔‘‘ فرمایا: ’’ تم نے یاد دلایا ہوتا۔‘‘
    حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ستّر ہزار کی رقم آئی انہوں نے ان (عروہ) کے سامنے کھڑے کھڑے ساری رقم راہ خدا میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ جھاڑ دیا۔
    مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دن روزے سے تھیں اور گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اتنے میں ایک سائلہ نے آواز دی۔ انہوں نے لونڈی کو حکم دیا کہ یہ روٹی سائلہ کو دے دو۔ لونڈی ن ے کہا ، شام کو افطار کس چیز سے کیجئے گا۔امّ المؤمنین نے فرمایا یہ تو اس کو دے دو۔ شام ہوئی تو کسی نے بکری کا گوشت ہدیتاً بھیج دیا۔ لونڈی سے فرمایا، دیکھو اللہ نے روٹی سے بہتر چیز بھیج دی ہے۔
    امّ المؤمنین کی فیاضی کی حد و نہایت نہیں تھی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو ان کے بھانجے اور منہ بولے بیٹے تھے، اکثر ان کی خدمت کیا کرتے تھے۔ خالہ کی فیاضیوں کو دیکھ کر ایک بار وہ بھی گھبرا گئے اور ان کے منہ سے نکل گیا کہ اب ان کا ہاتھ روکنا چاہئے۔ حضرت عائشہ کو معلوم ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئیں اور قسم کھالی کہ اب ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے کبھی نہ بولیں گی۔ ان کے ترک کلام نے طول پکڑا تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بہت گھبرائے اور بڑی مشکل سے حضرت مسور بن محزمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود رضی اللہ عنہم کو بیچ میں ڈال کر اپنا قصور معاف کروایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی قسم توڑنے کے کفارہ میں چالیس غلام آزاد کئے۔ انہیں جب یہ واقعہ یاد آتا تو روتے روتے آنچل تر ہو جاتا۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ نے اپنے رہنے کا مکان امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ فروخت کردیا تھا، انہیں جو قیمت ملی وہ سب راہ خدا میں دے ڈالی۔
    امّ المؤمنین رات کا زیادہ حصہ عبادت میں یا لوگوں کو مسائل بتانے میں صرف کرتی تھیں۔ ان کا دل مہرومحبت اور عفو وشفقت کا خزینہ تھا۔ دشمنوں اور مخالفوں تک کو معاف کر دیتیں۔ مشہور شاعر صحابی حجرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے واقعہ اِفک میں غلط فہمی کی بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مخالفت کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس واقعہ کا نہایت رنج تھا لیکن اسکے باوجود انہوں نے حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہا کو معاف کردیا تھا اور ان کی بہت عزت کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے بعض رشتہ دار حضرت حسّان رضی اللہ عنہ کو واقعہ اِفک میں شرکت کی وجہ سے برا کہنا چاہتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو نہایت سختی سے منع فرمایا اورکہا کہ ان کو برا مت کہو، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شعرائے مشرکین کو جواب دیتے تھے۔
    معاویہ بن خدیج نے ان کے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا تھا، اسلئے وہ ان سے کبیدہ خاطر تھیں لیکن جبب انہوں نے سنا کہ میدان جہاد میں معاویہ کا سلوک اپنے ماتحتوں کے ساتھ بہت اچھا ہوتا ہے ، کسی کا جانور مر جائے تو ان کو اپنا جانور دے دیتے ہیں، کسی کا غلام بھاگ جائے تو اسے اپنا غلام دے دیتے ہیں اور لوگ ان سے راضی ہیں تو فرمایا ’’ استغفراللہ جس شخص میں یہ اوصاف ہوں میں اس سے اس بنا پر ناراض نہیں رہ سکتی کہ وہ میرے بھائی کا قاتل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ اے اللہ! جو شخص میری امت کے ساتھ ملاطفت کرے تو بھی اس کے ساتھ ملاطفت کر، اور جو اسکے ساتھ سختی کرے تو بھی اس پر سختی کر۔‘‘
    امّ المؤمنین کو غیبت اور بدگوئی سے سخت اجتناب تھا، ان سے مروی کسی حدیث میں کسی شخص کی توہین یا بدگوئی کا ایک لفظ بھی نہیں ہے۔ وسعت قلب کا یہ عالم تھا کہ اپنی سوکنوں کی خوبیاں اور مناقب خوشدلی سے بیان کرتی تھیں۔دل میں حد درجہ خوف خدا تھا بعض اوقات عبرت پذیری کی کوئی بات یاد آجاتی تو بے اختیار رونے لگتی تھیں۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ میں کبھی سیر ہو کر نہیں کھاتی کہ مجھے رونا نہ آتا ہو ۔ ان کے ایک شاگرد نے پوچھا کہ، یہ کیوں؟ فرمایا، مجھے وہ حالت یاد آتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے، اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی دن میں دو بار بھی سیر ہو کر روٹی اور گوشت نہیں کھایا۔
    عبادت الٰہی سے بے انتہا شغف تھا۔ فرض نمازوں کے علاوہ سنتیں اور نوافل بھی کثرت سے پڑھتی تھیں۔ تہجّد اور چاشت کی نماز کا ساری عمر ناغہ نہیں کیا۔ رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی بڑی کثرت سے رکھتی تھیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ ہمیشہ روزے سے رہتی تھیں۔ حج کی شدّت سے پابند تھیں۔ کوئی ایسا سال بہت کم گزرتا تھا جس میں وہ حج نہ کرتی ہوں، ایّام حج میں ان کا خیمہ کوہ حرا اور ثبیر کے درمیان نصب ہوتا وہاں وہ حلقہ درس قائم کرتیں اور تشنگان علم جوق در جوق ان کی خدمت میں حاضر ہو کر مسائل پوچھتے اور فیضیاب ہوتے تھے۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ان کی بیعتِ خلافت کے بعد ازواج مطہّرات نے چاہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجیں اور وراثت کا مطالبہ کریں۔ اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا کہ میرا کوئی وارث نہ ہوگا اور میرے تمام متروکات صدقہ ہونگے۔ یہ سن کر سب خاموش ہوگئیں چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہّرات کے مصارف جس جائداد سے ادا فرمایا کرتے تھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی اپنے عہد خلافت میں یہ مصارف اسی جائداد سے ادا کرتے رہے۔

    جاری ہے
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. mahajawad1

    mahajawad1 محسن

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2008
    پیغامات:
    473
    سنہ ۱۳ ہجری میں حضرت عائشہ سایہ پدری سے بھی محروم ہو گئیں اور عہد فاروقی کا آغاز ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تما ازواج مطہّرات کا دس دس ہزار سالانہ وظیفہ مقرر کیا البتہ امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ۱۲ ہزار درہم سالانہ دیے جاتے تھے۔ اسکی وجہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ بیان فرماتے تھے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھیں۔ جب عراق فتح ہوا تو مال غنیمت میں موتیوں کی ڈبیہ بھی فاروق اعظم کی خدمت میں بھیجی گئی۔ انہوں نے لوگوں سے اجازت لے کر اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیج دیا۔ امّ المأمنین نے فرمایا: ’’ اے اللہ عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ پر بڑے احسان کئے ہیں آئندہ مجھے ان کے عطیات کیلئے زندہ نہ رکھنا۔‘‘
    جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے فرزند حضرت عبداللہ کو امّ المؤمنین کی خدمت میں بھیجا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک میں دفن ہونے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ یہ جگہ میں نے اپنی تدفین کیلئے رکھی تھی، لیکن عمر کی خاطر آج میں اس سے دستبردار ہوتی ہوں۔‘‘
    حضرت عائشہ صدیقہ کا یہ عدیم المثال ایثار ہی تھا کہ آج فاروق اعظم سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں استراحت فرما ہیں۔ حضرت عمر کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے۔ ان کے عہد خلافت میں امّت مسلمہ میں خوفناک فتنوں اور سازشوں نے سر اٹھایا جن کے نتیجے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہا کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا۔ تین دن کے بھوکے پیاسے ضعیف العمر امیر المؤمنین کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے ظالموں نے جس شقاوت سے شہید کیا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دل اس سے خون ہو گیا۔ چنانچہ خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بعض صحابہ کرام اور دوسرے مسلمانوں کا ایک گروہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کیلئے اٹھا۔ اس جماعت میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ (حوارئ رسول صلی اللہ علیہ وسلم) اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شریک تھے۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بے انتہا قلق تھا۔ اسلئے وہ نیک نیّتی کے ساتھ اس جماعت کے ساتھ ہو گئیں۔ اس جماعت کا خیال تھا کہ قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ میں بعض لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پناہ میں ہیں۔ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ جب تک کامل تحقیق کے بعد قاتلوں کا پتہ نہ چل جائے ان پر حد جاری کرنا ممکن نہیں۔ اس اختلاف کی بنأ پر جنگ جُمل کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اصلاح احوال کیلئے اپنی جماعت کے ساتھ بصرہ گئیں۔ بدقسمتی سے وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ پیش آ گئی۔ اس جنگ میں طرفین کا شدید جانی نقصان ہوا۔ تاہم حضرت علی رضی اللہ عنہ غالب آئے۔ انہوں نے امّ المؤمنین کو نہایت احترام کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب بھی یہ جنگ یاد آتی زاروقطار روتیں اور فرمایا کرتیں: ’’ کاش میں آج سے بیس سال پہلے معدوم ہو چکی ہوتی۔‘‘
    سنہ ۴۰ ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں شہادت پائی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سخت صدمہ پہنچا۔ کوفہ سے کچھ لوگ مدینہ آئے اور انہوں نے اہل عراق کی حضرت علی رضی اللہ عنہا پر الزام تراشی اور ان کے واقعہ شہادت کی تفصیل بیان کی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ اللہ تعالی علی پر رحمت بھیجے، ان کو جب کوئی بات پسند آتی تو یہی کہتے صَدَقَ اللہُ وَرَسُولُہ‘ اہل عراق ان پر جھوٹ تہمت باندھتے ہیں اور بات کو بڑھا کر بیان کرتے ہیں۔(مسند احمد)
    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بے انتہا اعزازوکرام کیا تاہم امّ المؤمنین کو کسی معاملے میں ان سے اختلاف ہوتا تو وہ برملا اس کا اظہار کرتیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً اٹھارہ سال امیر معاویہ کے عہد حکومت میں بسر کئے۔ یہ پورا زمانہ امّ المؤمنین نے جزئی اوقات کے سوا خاموشی میں گزارا۔ ۱۷ رمضان سنہ ۵۸ ہجری (۱۳ جون ۶۷۸) میں نماز وتر کے بعد شب کے وقت وفات پائی۔ جنازہ میں اتنا ہجوم تھا کہ اس سے پہلے رات کے وقت نہیں دیکھا گیا تھا۔ نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور وصیت کے مطابق جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ ان کے انتقال کی خبر پھیلی تو تمام عالم اسلام میں صف ماتم بچھ گئی۔
    حضرت عائشہ صدیقہ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنی کنّیت ’’ امّ عبداللہ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر کے نام پر رکھی تھی۔
    کتب سیئر میں بےشمار ایسی روایات ہیں جن میں امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں چند مخصوص فضائل ایسے ہیں جن کی بنا پر وہ تمام صحابہ اور صحابیات میں امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔ بروایت قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کہتی ہوں کہ اللہ نے مجھ کو چند باتیں ایسی عطا کی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کو نہیں ملیں۔صرف میں ہی کنوار پن کیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئی۔


    • جبرائیل امین علیہ السلام میری شکل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور کہا کہ عائشہ سے شادی کرلو۔
    • میں نے جبرائیل علیہ السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
    • اللہ تعالیٰ نے میرے لئے آیت براءت نازل فرمائی۔
    • میرے ماں باپ دونوں مہاجر ہیں
    • میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوتی اور آپ نماز میں مصروف ہوتے۔
    • میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل فرماتے تھے۔
    • نزول وحی کے وقت ازواج میں سے صرف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتی تھی۔
    • جس دن میری باری تھی اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی۔
    • جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک نے عالم اقدس کی طرف پرواز کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا۔
    • میرے ہی حجرے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔

    تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ اسلام میں حضرت خدیجہ الکبریٰ، حضرت فاطمہ الزہرا،اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما عورتوں میں سب سے افضل ہیں۔
    صحیحین میں حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی زبانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ ’’ عائشہ کو عورتوں پر اس طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح شوربے میں ملی ہوئی روٹی کو (ثرید) کو کھانوں کی دوسری اقسام پر۔‘‘

    رضی اللہ عنہا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  4. طارق راحیل

    طارق راحیل -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2009
    پیغامات:
    351
    بہت خوب
     
  5. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاكم الله خيرا وبارك فيكم سسٹر۔
     
  6. طارق راحیل

    طارق راحیل -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2009
    پیغامات:
    351
    جزاک اللہ خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کیا یہ ورڈ‌میں دستیاب نہیں ہو سکتی؟
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں