خوش اخلاقی اور دعوتِ دین

جاسم منیر نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏جون 2, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


    "چلو بھئی، ظہر کا وقت ہو گیا۔ نماز کے لیے چلیں"
    فہد جو کہ وضو کر کے اپنے آفس کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا، اس نے سب کو دعوت دی۔ بابر نے کچھ دن پہلے ہی آفس جوائن کیا تھا۔ فہد نے سوچا کہ کیوں نا بابر کو نماز کے لیے خاص دعوت دی جائے۔
    "چلیں بابر بھائی، مسجد میں چل کر نماز پڑھتے ہیں۔"
    "نہیں سر، آپ پڑھ آئیں، ہم تو نہیں پڑھتے"
    بابر کے اس اچانک اور غیر متوقع جواب سے فہد ایک دم چونک گیا۔
    فہد نے سوچا پتہ نہیں بابر کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے، شاید مسجد میں نماز نہ پڑھتا ہو۔ پتہ نہیں مسلمان بھی ہے یا نہیں۔اس نے تعجب سے پوچھا:
    "بابر بھائی ۔۔۔ آ۔۔۔آ۔۔ آ پ مسلمان تو ۔۔۔۔۔"
    "ہاں ہاں الحمدللہ سنی ہیں" بابر نے جوش سے فہد کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
    "تو بھائی پھر آؤ چلو مسجد میں چلیں" فہد نے اصرار کیا۔
    "نہیں سر، آپ جائیں، ہمیں تو عادت ہی نہیں ہے" بابر نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
    "ارے یہ کیا بات ہوئی، کیا کبھی نماز نہیں پڑھی" فہد نے اکتا کر پوچھا
    "نہیں سر، پڑھ لیتے ہیں، بس کبھی کبھی رمضان میں، باقی دنوں‌میں تو پڑھتے نہیں، عادت جو نہیں ہے، من بھی نہیں کرتا" بابر اسی انداز میں جواب دیتا گیا۔
    "بابر بھائی، نماز صرف رمضان میں تو فرض نہیں۔ باقی دنوں میں بھی تو فرض ہے۔اور نماز کا من کے نہ چاہنے سے کیا تعلق؟ مسلمان کا دل تو مسجد کے ساتھ لگا رہنا چاہیے۔ آؤ مسجد میں چلیں جماعت کھڑی ہونے والی ہے"۔ فہد نے دوبارہ اصرار کیا
    "نہیں سر آپ جائیں"
    فہد نے مزید بحث کرنا مناسب نہ سمجھا اور دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوا کہ اللہ نے اسے تو نماز کی توفیق دی، اور بابر کے لیے ہدایت کی دعا کرتا ہوا مسجد کی طرف چل پڑا۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ روزانہ بابر کو نماز کی دعوت دے گا۔ شاید ایک دن بابر کو بات سمجھ آ ہی جائے۔
    پھر وہ روزانہ بابر کو دعوت دیتا رہتا، پیار سے، اسے نماز کی افادیت سمجھاتا۔ نماز چھوڑنے کے نقصانات سے آگاہ کرتا۔ اس معاملے میں‌ اس نے اپنے آفس کے ایک سینئر ساتھی احمد کو بھی بتایا۔ احمد نے بھی بابر پر اس معاملے میں پیار سے محنت شروع کر دی۔
    اور پھر ایک دن اللہ نے بابر کو مسجد جانے کی توفیق دی۔ اب کم ازکم وہ کبھی کبھی مسجد جا کر نماز پڑھ لیتا ہے۔ اگر انکار بھی کرنا ہو تو یہ نہیں کہتا کہ عادت نہیں ہے، بلکہ یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے کہ آفس میں پڑھ لوں گا۔ فہد کو بابر میں‌ تبدیلی نظر آ رہی تھی، اور وہ تبدیلی تھی نماز کی اہمیت کا احساس پیدا ہونے کی۔



    اچھا اخلاق، دعوتی سرگرمی کا ایک بنیادی جزو ہے۔ کبھی کبھی کسی کی طرف سے ایسا غیر متوقع جواب بھی مل جاتا ہے کہ فطرتی طور پر انسان کو غصہ بھی آ جاتا ہے۔ اگر چہ کسی کو ہدایت انسان کے اختیار میں نہیں، لیکن ہماری طرف سے پیار سے کی گئی بات شاید کسے کے دل میں اتر سکتی ہے۔
    ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں کتنے ہی لوگ دین اسلام سے دور نظر آتے ہیں۔ شاید وہ ہماری توجہ کے منتظر ہیں، شاید وہ ہمارے اچھے اخلاق کے منتظر ہیں۔ ترش اور سخت رویہ تو ہماری کوئی بات دوسرے کے دل میں نہیں ڈال سکتا، لیکن ترش اور سخت رویہ کہیں ہمارے اپنے ہی خلاف حجت نہ بن جائے۔
    اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حکمت و دانائی کے ساتھ قرآن و سنت کا پیغام لوگوں‌ تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

     
  2. حجاب

    حجاب -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2010
    پیغامات:
    666
    اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حکمت و دانائی کے ساتھ قرآن و سنت کا پیغام لوگوں‌ تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

    ثم آمین
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    جزاک اللہ ۔ اچھا موضوع ہے ۔
    فہد کو چاہے تھا کہ وہ صرف ایک بار کہتا ۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ ایسے ماحول پلےمیں بڑھے ہوتے ہیں‌ جس میں نماز صرف رمضان کے آخری عشرہ ، عیدین ، جمعہ ، میں‌ ہی پڑھی جاتی ہے ایسے لوگوں کو حکمت اور موعظتہ الاحسنہ کے ساتھ قرآن و احادیث کی روشنی میں سمجھانا چاہے ۔ اور اللہ سے اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہے ۔
     
  4. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ ۔ جاسم بھائی ایک اچھی اور مُفید شیئرنگ ہے
     
  5. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    :00002: آمين اللہ تعالى مجھے عمل كى توفيق دے۔ بدقسمتى سے مسلمانوں كى اكثريت اپنے خالق سے غافل ہے۔ باجماعت نماز پڑھنے والے خوش نصيب اتنے كم ہو گئے ہیں كہ خوف آتا ہے۔ اللہ تعالى ہم سب مسلمان مردوں اور عورتوں كو نيكى كى طرف بلانے كى توفيق دے۔ كس شرم كا مقام ہے كہ مسلمان اتنى آسانى سے نعمتين عطا كرنيوالے رب كے بلاوے كو نظر انداز كر دے ، يہ كہہ كر كہ مجھے عادت نہیں؟ اللہ تعالى ہمارى كوتاہياں معاف فرمائے۔ ہم كس بلندى سے كس پستى ميں آپڑے ہیں؟
     
  6. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    صحیح کہا سسٹر واقعی ہم بہت غافل ہو گئے ہیں‌
     
  7. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیرا
     
  8. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    آمین یا رب
    جی سسٹر صحیح کہا آپ نے۔ اور افسوس تب زیادہ ہوتا ہے کہ ہم عبادت کو عادت سمجھتے ہیں۔ تبھی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اسلیے نہیں پڑھتا کہ اسے عادت نہیں۔ تبھی تو اس کی اہمیت اس کے سامنے فرض کی بجائے ایک عادت کی سی ہوتی ہے۔
     
  9. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    ہمم اسی نماز کی عادت کو لے کر تھریڈ شیئر کروں‌گا میں‌ان شاءاللہ۔ جس کا عنوان یہ ہو گا

    نماز عادت یا مجبوری کیوں؟
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں