شیخ الاسلام ابن تیميہ رحمہ اللہ پر تشدد کا دیوبندی الزام اور اس کا جائزہ

کفایت اللہ نے 'امام ابنِ تیمیہ' میں ‏جون 27, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    محدث فورم پر ایک دیوبندی عالم جمشید صاحب نے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ پر تشدد کا الزام لگا یا ہے ، اور وہاں‌ ہم نے ان کے جوابات دئے ہیں ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان جوابات کو یہاں بھی محفوظ کرلیا جائے۔

    سب سے پہلے موصوف کا اصل مراسلہ ملاحظہ ہو۔
    لنک دیکھیں۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جون 27, 2011
  2. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    اولا:
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی کے کلام کا خلاصہ پیش کیا ہے اور امام ذہبی کی اصل کتابوں میں میں یہ کلام تلاش نہیں کرسکا اوراگراصل امام ذھبی کا کلام پیش کردیا جائے تو مہربانی ہوگی۔
    ثانیا:
    یہ حدت اور شدت کن کے خلاف تھی ، کیا اپنوں کے خلاف تھی؟ اس بات کی وضاحت تو مذکورہ سطور میں نہیں ہے اوراگر غیروں ساتھ تھی ، تو ان کی اس خوبی کا حوالہ ان کی ایسی عبارت کے ساتھ نہیں دیا جاسکتا جس میں انہوں نے اپنوں(اہل سنت) کے بارے میں بات کی ہو۔
    ثالثا:
    تھوڑی سی حدت وشدت وہ بھی کبھی کبھار اس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں، لیکن ہر کلام میں اس کی جھلک دیکھنا یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
    رابعا:
    اگر حق اور علم کے ساتھ شدت وحدت ہو تو محض شدت وحدت سے حق بات کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔
    خامسا:
    جہاں سے یہ نقل کیا جارہا ہے کہ شیخ الاسلام کے کلام میں شدت وحدت تھی وہیں پر ذرا پہلے یہ بھی لکھا ہوا ہے :
    تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 176]


    جمشید صاحب نے شاذ اقوال کو لے کر نہ صرف یہ کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں تھوڑی سی شدت و حدت کا حوالہ دے کراسے ہرجگہ فٹ کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ علی الاطلاق یہاں تک کہا ہے:
    اب اگر ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں جمہور محدثین کے اقوال نقل کرنے لگ جائیں تو بات بہت مہنگی پڑ جائے گی اس لئے مشورہ یہی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بارے میں شاذ اقوال پیش کرکے ان کی تنقیص کرنے سے پرہیز کریں۔

    رہا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول تو:
    اولا:
    ان کا قول صرف حافظ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک خاص کتاب سے متعلق ہے جس میں انہوں نے رافضیوں کی تردید کی ہے، اورجمشید صاحب نے علی الاطلاق یہ بات کہہ ڈالی جو بڑی زیادتی ہے۔
    ثانیا:
    حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تنقیص علی کی کوئی مثال نہیں پیش کی ہے کہ دعوی اوردلیل میں غورکیا جائے، نیز بسااوقات روافض کی تردید کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بعض باتیں الزاما پیش کی جاتی ہیں جن سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔
    عام رواۃ سے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بہت سارے فیصلے دلائل سے خالی ہونے کے سبب ہر طبقہ کی طرف سے رد کردئے جاتے ہیں تو ایک عظیم شخصیت کی بابت تنقیص علی جیسے خطرناک الزام کو بغیر دلیل کے کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
    وضح رہے کہ صرف علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ انہیں حافظ ابن حجرکے بقول بعض لوگوں نے تو ان پر ابوبکرصدیق اورعثمان غنی رضی اللہ عنہما کی تنقیص کابھی الزام لگایاہے، بلکہ انہیں حافظ ابن حجررحمہ کے بقول بعض لوگوں نے توان پر تنقیص نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کا بھی الزام لگایا دیا ہے، کیا یہ بات بھی مان لی جائے؟

    حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    وأطلق ابن تيمية إلى الشام وافترق الناس فيه شيعا فمنهم من نسبه إلى التجسيم لما ذكر في العقيدة الحموية والواسطية وغيرهما من ذلك كقوله إن اليد والقدم والساق والوجه صفات حقيقية لله وأنه مستو على العرش بذاته فقيل له يلزم من ذلك التحيز والانقسام فقال أنا لا أسلم أن التحيز والانقسام من خواص الأجسام فألزم بأنه يقول بتحيز في ذات الله ومنهم من ينسبه إلى الزندقة لقوله إن النبي صلى الله عليه وسلم لا يستغاث به وأن في ذلك تنقيصا ومنعا من تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 181]

    اب ذرا دیکھیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے یہ کہہ دیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب نہیں کی جاسکتی بس اتنی سی بات پر نتقیص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا الزام لگ گیا ، اسی طرح ابن تیمہ رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ سے متعلق مبالغہ آمیز تصورات کی نفی کریں تو کیا یہ تنقیص علی ہے؟؟؟
    بہرحال اس دعوی کی دلیل چاہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی ہے۔
    یہ وہی ابن تیمہ رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے رَفْعِ الْمَلَامِ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَعْلَامِ نامی کتاب لکھ کر ائمہ کرام کا دفاع کیا ہے ، آخر جو شخصیت ائمہ کرام تک کی تنقیص گورا نہ کرے اور ان کے دفاع میں مستقل کتاب لکھے ، ایسی شخصیت کے بارے میں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہم کیسے مان لیں کی انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی نتقیص کی ہے؟؟؟؟؟
     
  3. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    کبھی تو جہالت پر ماتم کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم جاہل ہیں لہٰذا تقلید کے بغیر چارہ کار نہیں اور کبھی تو اتنے بڑے مجتہد کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ جیسی شخصیت سے متعلق ایک منفی رائے قائم کرنے پر بھی قدرت ہے۔
    اہل تقلید جب دلائل پر بحث کرتے ہیں اور اس پر ان سے سوال ہوتا ہے کہ آپ تو مقلد ہیں ، دلائل پر بحث کرنا مقلد کا کام نہیں تو ان کا مضحکہ خیز جواب سامنے آتا ہے کہ ہم امام اعظم کے بالمقابل جاہل ہیں اور آپ کے بالمقابل عالم ہیں، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ اہل تقلید شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بالمقابل بھی عالم ہیں ۔

    دراصل شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ پر شدت کا بہتان جمشید صاحب کے مطالعہ کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے حکیم الامت کی نبض شناسی کا کمال ہے !

    حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
    ’’ابن تیمہ بزرگ ہیں ، عالم ہیں ، متقی ہیں اللہ ورسول پر فدا ہیں، دین پر جاننثار ہیں ، دین کی بڑی خدمت کی ہے مگر ان میں بوجہ فطرۃ تیز مزاج کے تشدد ہوگی ‘‘ (ملفوظات حکیم الامت :ج١٠ص ٤٩)

    دراصل حکیم الامت صاحب کی یہ پڑیا ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو مقلدین کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا کوئی قول پیش کریں ، اور جمشید صاحب نے اس پڑیا کا برمحل استعمال کیا ہے۔

    ورنہ محدث فورم پرہی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا ایک اور اقبتاس بنام ’’بدعتیوں کی ایک نشانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زبانی‘‘ موجود ہے اور یہاں جمشید صاحب کی اجتہادی کرم فرمائیاں کچھ اور ہی ہیں ۔
    اس متضاد رویے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ حکیم الامت نے یہ پڑیا اسی لئے تیا ر کی ہے تاکہ ان کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمہ کے کسی قول میں کوئی تاثیر باقی نہ رہے، اورجمشید صاحب نے یہاں اسی پڑیے کا استعمال کیاہے۔

    فائدۃ :
    حافظ زیبرعلی زئی حفظہ اللہ شیخ الاسلام پر حکیم الامت کی طرف سے لگائے گئے بہتان کی تردیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    تشدد والی بات تو مردود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ (علمی مقالات ج2ص:305)

    تلاش کرنے پر مجھے یہ عبارت امام ذہبی کی طرف منسوب ضمیمہ ’’ذیل تاریخ الاسلام ‘‘ میں ملی، اس ذمیمہ کا دوسرا نام ’’ذيل سير النبلاء‘‘ بھی بتلایا گیا ہے ، الفاظ ملاحظہ ہوں:

    وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه.[ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]

    اس کتاب کے ناسخ عبد القادر بن عبد الوهاب بن عبد المؤمن القرشي ہیں،ان کی پیدائش ٨٣٧ھ ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کی وفات ٧٤٨ھ میں ہوئی ہے، لہذا ظاہر ہے کہ ناسخ کو سند پیش کرنی ہوگی ۔
    اورناسخ نے اپنی سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
    بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم صل على أشرف خلقك سيدنا محمد وآله وسلم، أخبرني غير واحد مشافهة وكتابة، عن الإمام الحافظ الكبير شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز رحمة الله تعالى عليه؛ قال: هذا مجلد ملحق " تاريخ الإسلام " شبه الذيل عليه۔

    یہ سند کئی لحاظ سے محل نظر ہے :

    اولا:
    یہ غیر واحد کون ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، لہذا اس ضمیمہ کی نسبت امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف محل نظر ہے۔

    ثآنیا:
    ناسخ کے مجہول شیوخ اسے امام ذہبی سے نقل کرتے ہیں اور ناسخ کے شیوخ کو امام ذہبی کی معاصرت حاصل نہیں ہے لہذا ناسخ کے شیوخ اور امام ذہبی کے مابین انقطاع ہے اور اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ ناسخ کے شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے۔

    ثالثا:
    اس کتاب میں ہے :
    ابن السباك عالم بغداد، الإمام تاج الدين علي بن سنجر بن السبالك..... توفي رحمه الله تعالى في سنة خمسين وسبعمائة ببغداد، رحمه الله تعالى وإيانا (ذيل تاريخ الإسلام:ص:494-495)
    غورکرنے کی بات ہے کہ امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ھ میں ہوئی !!!

    واضح رہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ہجری میں ہوئی ہے۔
    چنانچہ امام تقی الدین الفاسی فرماتے ہیں:
    علي بن سنجر بن السباك البغدادي تاج الدين عالم بغداد الحنفي، وسمع من الرشيد بن ابي القاسم من "صحيح البخاري"۔۔۔۔۔توفي سنة خمسين وسبعمائة [ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 2/ 193]

    سوال یہ ہے کہ جب ابن السماک کی وفات سے دو سال قبل خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟
    حیرت ہے کہ کتاب کے محقق نے بھی اس بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے واضح رہے کہ اصل مخطوطہ میں بھی یہی عبارت موجود ہے

    معلوم ہوا کہ یہ کتاب امام ذہبی کی ہے ہی نہیں ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی سے مذکورہ قول نقل کرنے میں اسی کتاب کو ماخذ بنا یا ہے جیسا کہ وہ کتاب کے شروع میں ماخذ کی فہرست دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
    وتاريخ مصر لشيخ شيوخنا الحافظ قطب الدين الحلبي وذيل سير النبلاء للحافظ شمس الدين الذهبي [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 3]


    معلوم ہوا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف مذکورہ ضمیمہ کی نسبت درست نہیں لہذا اس ضمیہ سے پیش کردہ عبارت سے امام ذہبی بری ہیں۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جون 27, 2011
  4. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    جب اختصار کے ساتھ کسی کا کلام نقل کیا جائے تو کبھی کبھی بطور مقولہ نقل کی گئی بات میں بھی ناقل کی طرف سے تصرف ہوجاتا ہے جس کی متعدد مثالیں ، تہذیب میں دیکھیں جاسکی ہیں ، جس میں بطور مقولہ ناقدین کے اقوال نقل کئے گئے ہیں مگر اصل مرجع کی طرف لوٹنے سے ہمیں وہاں کچھ اور ہی ملتاہے ، گرچہ بطور مقولہ نقل کی گئی بات میں ایسا کم ہوتا ہے لیکن امکان بہرحال ضرور ہے۔
    مثلا تھوڑا بہت فرق تو زیربحث عبارت میں بھی ہے:
    سب سے پہلے اصل عبارت ملاحظہ ہو:
    وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه. [ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]

    اب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی منقولہ عبارت ملاحظہ ہو:
    قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 176]
    گرچہ یہاں جو فرق ہے اس سے مفہوم نہیں بدلتا لیکن کبھی مفہوم بدل بھی سکتاہے، اس لئے اصل عبارت پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

    اوپر امام ذہبی کی طرف منسوب کتاب سے جو اصل عبارت نقل کی گئی ہے اس میں یہ صراحت ہے:
    لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. [ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]
    اس صراحت کے باوجود بھی آپ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے ہرکلام میں شدت کی بو سونگھیں گے۔

    یا للعجب !
    کہاں شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ اورکہاں علامہ شبلی نعمانی !
    میں نہیں سمجھتا کہ یہاں شبلی نعمانی کی کہانی سنانے کا بھی کوئی محل تھا! کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا مقام اس قدر گر گیا ہے انہیں شبلی نعمانی جیسے لوگوں پر قیاس کیا جائے گا جن کے بارے میں سنا ہے کہ خود ان کے اپنوں نے بھی انہیں نہیں بخشا۔
     
  5. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    یہ لیں میں مزید آگے پیچھے کے کچھ اور الفاظ نقل کردیتا ہوں :
    قال الذهبي ما ملخصه كان يقضي منه العجب إذا ذكر مسالة من مسائل الخلاف واستدل ورجع وكان يحق له الاجتهاد لاجتماع شروطه فيه قال وما رأيت أسرع انتزاعا للآيات الدالة على المسألة التي يوردها منه ولا أشد استحضارا للمتون وعزوها منه كأن السنة نصب عينيه وعلى طرف لسانه بعبارة رشيقة وعين مفتوحة وكان آية من آيات الله في التفسير والتوسع فيه وأما أصول الديانة ومعرفة أقوال المخالفين فكان لا يشق غباره فيه هذا مع ما كان عليه من الكرم والشجاعة والفراغ عن ملاذ النفس ولعل فتاويه في الفنون تبلغ ثلاثمائة مجلد بل أكثر وكان قوالا بالحق لا يأخذه في الله لومة لائم قال ومن خالطه وعرفه فقد ينسبني إلى التقصير فيه ومن نابذه وخالفه قد ينسبني إلى التغالي فيه وقد أوذيت من الفريقين من أصحابه وأضداده وكان أبيض أسود الرأس واللحية قليل الشيب شعره إلى شحمة أذنيه وكأن عينيه لسانان ناطقان ربعة من الرجال بعيد ما بين المنكبين جهوري الصوت فصيحا سريع القراءة تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك قال وكان محافظا على الصلاة والصوم معظما للشرائع ظاهرا وباطنا لا يؤتى من سوء فهم فإن له الذكاء المفرط ولا من قلة علم فإنه بحر زخار ولا كان متلاعبا بالدين ولا ينفرد بمسائله بالتشهي ولا يطلق لسانه بما اتفق بل يحتج بالقرآن والحديث والقياس ويبرهن ويناظر أسوة من تقدمه من الأئمة فله أجر على خطائه وأجران على إصابته إلى أن قال تمرض أياما بالقلعة بمرض جد إلى أن مات ليلة الاثنين العشرين من ذي القعدة وصلى عليه بجامع دمشق وصار يضرب بكثرة من حضر جنازته المثل وأقل ما قيل في عددهم أنهم خمسون ألفا قال الشهاب ابن فضل الله لما قدم ابن تيمية على البريد إلى القاهرة في سنة سبعمائة نزل عند عمي شرف الدين وحض أهل المملكة على الجهاد فأغلظ القول للسلطان والأمراء ورتبوا له في مقر إقامته في كل يوم دينارا ومخفقة طعام فلم يقبل شيئا من ذلك وأرسل له السلطان بقجة قماش فردها قال ثم حضر عنده شيخنا أبو حيان فقال ما رأت عيناي مثل هذا الرجل
    [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 177]

    اولا:
    ہم نے ’’تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم ‘‘ کے الفاظ کا حوالہ دیا تھا ، اوربعض ناقلین اسی کلام کو مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے ، مثلا:
    تعتريه حِدة ثمَّ يقهرها بحلم وصفح [الوافي بالوفيات 7/ 12]۔
    تعتريه حدة، ثم يقهرها بحلم وصفح [فضل أبي بكر الصديق رضي الله عنه 13/ 1224(مقدمہ)]۔
    تعتريه حِدة ثمَّ يقهرها بحلم وصفح [ثلاث تراجم نفيسة للأئمة الأعلام ص: 27]۔
    تعتريه حدة ثم يقهرها بحلم وصفح [معجم أصحاب شيخ الإسلام ابن تيمية ص: 130، بترقيم الشاملة آليا]۔

    اب سوال یہ ہے کہ اگر شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ اپنی شدت پر پر حلم و بردباری اور صفح و درگذر سے قابو پالیتے تھے تو پھر اس کے برے نتائج بیان کرنا اس بیان کے سراسر خلاف ہے، لہٰذا دونوں عبارتوں میں تضاد ہے، ہم نے اسی طرف اشارہ کیا تھا جمشید صاحت نے دونوں عبارتیں تو نقل کردیں لیکن اس تضاد پر کوئی خامہ فرسائی نہیں کی، نیز یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ کسی کے بارے میں یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنی شدت پر حلم وصفح سے قابو بھی پالیتا ہے ، اوردوسری طرف اس کے ہرکلام میں اس کے برے نتائج بھی محسوس کریں؟؟؟

    ثانیا:
    پیش کردہ اقتباس کے ملون سطور پر دھیان دیں جا بجا علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی یہ خوبی بیان ہوئی ہے کہ آپ حق بات کہنے میں کسی طرح کی مداہنت کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے اوربادشاہوں کے سامنے بھی بے خوف حق کا اعلان کرتے تھے ، یہی وہ خوبی ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی اصل تحریر میں حدت سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ آگے وضاحت آرہی، اور یہ کوئی بری چیز نہیں بلکہ محمود شے ہے۔
    ملتقی اہل الحدیث کے ایک رکن ایک شخصیت کے اندرموجود وصف حدت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    فلقد رأيته سهل الخلق لين الكنف تعتريه حدة هي من حسن خلقه لا سوئها، وهذا لا يفقهه إلا من أمعن النظر في تراجم السلف فسيعلم أن من مظاهر حسن خلق أبي بكر رضي الله عنه غضبه يوم الردة على عمر رضي الله عنه، وشدة عمر في الحق أيضًا من جميل أخلاقه وكذا سائر الصحابة والسلف، وهذا ابن تيمية رحمه الله تعالى كانت تعتريه حدة أهلك الله بها المبتدعة وجلى على يديه السنة، وكذا الإمام النووي رحمه الله حفظ الله به أموال الناس لفرط هذه الحدة في الله تعالى وهذا ضد لا يظهر حسنه إلا بضده إذا جمع معه كما قال القائل:
    ضدان لما استجمعا حسنا والضد يظهر حسنه بالضد

    ربط

    ہم کہتے ہیں یہی مفہوم امام ذہبی کے اس کلام کا بھی ہے جس میں وہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کو حدت سے موصوف کرتے ہیں۔

    ثالثا:
    مذکورہ اقتاس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صاف لکھتے ہیں:
    لا يؤتى من سوء فهم فإن له الذكاء المفرط ولا من قلة علم فإنه بحر زخار ولا كان متلاعبا بالدين ولا ينفرد بمسائله بالتشهي ولا يطلق لسانه بما اتفق بل يحتج بالقرآن والحديث والقياس ويبرهن ويناظر أسوة من تقدمه من الأئمة فله أجر على خطائه وأجران على إصابته
    یعنی ابن تیمہ رحمہ اللہ کی کوئی بات سوء فہم یا کم علمی یا دین سے کھلواڑ کرنے یا من مانی یا زبان درازی کی نتیجہ میں نہیں ہوتی تھی بلکہ دلائل کے ساتھ ہوتی تھی اس لئے اگر ان سے کوئی ٍغلط بات بھی ہوگئی ہے تو اس پر بھی انہیں ایک اجر ملے گا ، اورصحیح باتوں پر دو اجر ملے گا۔
    مگر جمشید صاحب یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ تشدد کی بناپر غلط باتیں کہہ دیا کرتے تھے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے غطی پر ایک اجر کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔

     
    Last edited by a moderator: ‏جون 27, 2011
  6. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    اولا:
    امام ذہبی کے رسالہ ’’الدرة اليتيمية في السيرة التيمية‘‘ میں مذکوہ عبارت اسی سیاق اور ترتیب کے ساتھ قیامت کی صبح تک نہیں دکھائی جاسکتی ، ’’المختصر من اخبارالبشر المعروف بتاريخ ابن الوردي‘‘ کے مولٍف نے بھی یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ انہوں نے یہ عبارت امام ذہبی کیا کتاب ’’الدرة اليتيمية في السيرة التيمية‘‘ سے ہوبہو نقل کیا ہے بلکہ مؤلف کے الفاظ یہ ہیں:
    وَهَذِه نبذة من تَرْجَمَة الشَّيْخ مختصرة أَكْثَرهَا من الدرة اليتيمية فِي السِّيرَة التيمية للْإِمَام الْحَافِظ شمس الدّين مُحَمَّد الذَّهَبِيّ وَالله أعلم. [تاريخ ابن الوردي 2/ 279]

    ثانیا:
    ’’الدرة اليتيمية في السيرة التيمية‘‘ نامی رسالہ میرے پاس ورڈ فائل میں موجود ہے، اس میں مذکورہ عبارت پیش کردہ سیاق کے ساتھ ہرگز نہیں ہے ،البتہ اس کے کچھ الفاظ ہیں لیکن وہ بھی متفرق مقامات پر۔
    مثلا:
    وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته، فلو طفت بين الركن والمقام لحلفت أني ما رأيت بعيني مثله، ولا والله ما رأى هو مثل نفسه في العلم . وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له. وهو فقيرٌ لا مال له، وملبوسه كأحد الفقهاء: فرجية، ودلق، وعمامة تكون قيمةَ ثلاثين درهما، ومداس ضعيف الثمن.[الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
    واجتمع بعد ذلك بالسلطان. ولم يكن الشيخ من رجال الدولة، ولا يسلك معهم تلك النواميس، فلم يعد السلطان يجتمع به، فلما قدم السلطان لكشف العدو عن الرحبة جاء الشيخ إلى دمشق سنة اثنتي عشرة [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
    ودخل في مسائل كبار لا تحتملها عقول أبناء زمانه ولا علومهم، كمسألة التكفير في الحلف في الطلاق ، ومسألة أن الطلاق الثلاث لا يقع إلا واحدة، وأن الطلاق في الحيض لا يقع، وصنف في ذلك تواليف لعلَّ تبلغ أربعين كراسًا، فمُنع لذلك من الفتيا ، وساس نفسه سياسة عجيبة، فحبس مراتٍ بمصر ودمشق والإسكندرية، وارتفع وانخفض ، واستبد برأيه، وعسى أن يكون ذلك كفارة له، [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]


    یہ الگ الگ مقامات کی عبارتیں ہیں ان کو پورے سیاق کے ساتھ پڑھا جائے تو بات بالکل صاف ہوجاتی ہیں کہ ان الفاظ کے ذریعہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی شجاعت کو بیان کیا ہے کہ وہ کسی کے سامنے نہیں دبتے تھے اور اعلان حق میں سخت اور مثل شیر کے تھے۔
    بالخصوص درج ذیل الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
    وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته، فلو طفت بين الركن والمقام لحلفت أني ما رأيت بعيني مثله، ولا والله ما رأى هو مثل نفسه في العلم . وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له. وهو فقيرٌ لا مال له، وملبوسه كأحد الفقهاء: فرجية، ودلق، وعمامة تكون قيمةَ ثلاثين درهما، ومداس ضعيف الثمن.[الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
    اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کو حدت سے متصف کرنے ساتھ آپ کی تشبیہ میدان جنگ کے شیر سے دی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ شیخ الاسلام کی بہادری بیان کررہے ہیں نہ کہ ان کی بے جا سختی ورنہ ان کی اس سختی کو میدان جنگ کے شیر سے تشبیہ ہرگز نہ دیتے،
    اس کے بعدآگے قلت مداراۃ اورعدم تودت کی بات کہی ہے گویا کہ اعلان حق میں آپ مداراۃ اور تودت کا مظاہہرہ نہیں کیا کرتے تھے جیسا کہ دیگرحفاظ ایسا کربیٹھتے تھے
    مثلا خود امام ذھبی فرماتے ہیں:
    عبد الصمد بن علي بن عبدالله بن العباس الهاشمي الامير. عن أبيه بحديث: أكرموا الشهود. وهذا منكر، وما عبد الصمد بحجة. ولعل الحفاظ إنما سكتوا عنه مداراة للدولة [ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 620]
    میزان الاعتدال میں امام ذہبی کی اس عبارت سے صاف واضح ہوگیا کہ یہاں امام ذہبی جو شیخ الاسلام سے مداراۃ اور تودۃ کی نفی کررہے ہیں اس سے کیا مرادہے۔

    ان وضاحتو ں کے بعد اب بھی اگر کوئی امام ذہبی کے کلام سے حدت وغیرہ کا خود ساختہ مفہوم نکالے توسوائے اس کے اور کیا کہا جائے کہ وہ الٹی فہم اور اورٹیڑھی عقل کا مالک ہے ، جیسا کہ ایک عربی بحث نگار نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے:
    وكانت له عبارات قد يفهم منها أصحاب الفهم المقلوب والعقل المنكوس! أنّها طعنُ وغمزٌ في شيخه شيخ الإسلام. مثل قوله..:"وفيه قلة مداراة وعدم تؤدة غالباً، والله يغفر له!"
    یعنی امام ذہبی کی کچھ عبارتیں ایسی ہیں جن سے الٹی فہم اور ٹیڑھی عقل والے یہ سمجھتے ہیں کہ امام ذہبی نے اپنے شیخ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر طعن وتشنیع کی ہے جیسا کہ امام ذہبی کی یہ عبارت ہے ’’وفيه قلة مداراة وعدم تؤدة غالباً، والله يغفر له‘‘ ہے
    ملاحظہ فرمائیں یہ لنک۔

    مفقود یا مخطوط کی بات دور کی ہے اگر کسی موجود اور مطبوع کتاب سے بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ نقل کریں تب بھی وہ بات تب تک مستند نہیں ہوسکتی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس کتاب کی نسبت مؤلف کی طرف درست ہے، خود امام ذہبی کی مثال لیں ان کی طرف بھی من گھڑت کتب منسوب ہیں مثلا النصیحہ وغیرہ ، اسی طرح ظالموں نے امام ذہبی کی طرف ایک خط بھی منسوب کیا ہے جس میں امام ذہبی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو سمجھاتے ہیں اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ایسی صورت میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کس کتاب سے کیا نقل کیا جارہا ہے اور س کتاب کی پوزیش کیاہے۔
    خود زیربحث حوالہ ہی کو دیکھ لیں یہ ایسی کتاب سے منقول ہے جس کی نسبت امام ذہبی کی طرف ثابت ہی نہیں۔

    یہ بات خود آپ نے کہی تھی کہ:
    اب تھوڑی سی حدت اورشدت کو ہر عبارت میں باور کرانا یہ آپ ہی کے نزدیک قابل فہم ہوسکتاہے۔

    مذکورہ جملے میں شدت کو ایک معیوب چیز مان کر جواب دیا گیا تھا لہٰذا یہاں یہ حدیث پیش کرنے کا کوئی محل ہی نہیں ہے یہ حدیث آپ تب پیش کرتے جب ہم نے یہ کہا ہوتا کہ اسلوب میں شدت کے باوجود اسلوب پسندیدہ ہوتا ہے لیکن ہم نے سخت اسلوب میں پیش کے گئے حق پر بات کیا تھا یعنی حق اگر معیوب طریقہ سے پیش کیا جائے تو اس کی وجہ سے حق کو نہیں ٹھکرانے کا جواز نہیں ملتا ہے، اگر اس سے آپ کو اتفاق نہیں تو اسی حدیث کی روشنی میں بتلائے کہ اگر کوئی باطل کو نرمی کے ساتھ پیش کرے توکیا اسے قبول کرلیا جائے گا؟؟؟

    یہ ایک سازش ہے کہ شیخ الاسلام نے بعض مسائل میں شدت سے کام لیا تھا اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ نے حنفیت کے خلاف جو کچھ کہا ہے اس کی تردید آسان ہو ، ورنہ انہیں شیخ الاسلام نے حنبلیت ، شافعیت اور مالکیت کے خلاف بھی مسائل بیان کئے ہیں لیکن ان میں مسائل میں آپ کو شدت کا نام ونشان بھی نظر نہ آئے گا۔

    جی ہاں پوری طرح اس لئے منقح نہیں ہے کیونکہ آپ کے خلاف پیش کیا گیا ہے اگر آپ کے موافق پیش کیاجائے تو آپ ہی اسے منقح ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے جیسا کہ اس ٹھریڈ(بدعتیوں کی ایک نشانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زبانی) میں آپ نے کیا ہے۔
    ہم اب بھی آپ سے یہی کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام کسی بات سے آپ کو اختلاف ہو تو شوق سے اختلاف کریں لیکن خواہ مخواہ انہیں معیوب اوصاف سے متصف نہ کریں ، ورنہ کیا خیال جب بھی امام ابوحنیفہ کا کوئی قول سامنے آئے تو اس کی تردید سے پہلے امام صاحب پر کی گئی جروح کا تذکرہ شروع کردیا جائے۔

    نقد رجال میں تشدد اور شرعی مسائل کے بیان میں تشدد دونوں الگ الگ چیز ہے ، خلط ملط نہ کریں۔

    الزاما کوئی بات پیش کرنا طعن وتشنیع نہیں ہوتا ، پہلے ہی اس کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ اہل تشیع کو جواب دینے کے لئے کبھی کبھار علی رضی اللہ عنہ کے بعض خوبیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اس سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔

    الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے !
    دوسری بحث خود آپ نے شروع کی ہے موضوع تھا تقلید ، اس پر بات کرنے کے بجائے آپ شیخ الاسلام کی تحریر وں میں شدت دکھانے پر اتر آئے ، قصور آپ کا نہیں قصور آپ کے حکیم الامت کا ہے جنہوں نے ایسے مواقع کے لئے آپ کو یہ پڑیا عنایت کی ہے۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جون 27, 2011
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔
    جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم ۔ بہت اچھا خیال ہے ۔ جاری رکھیں ۔
     
  8. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    یہاں پھر آپ نے وہی بات دہرا دی جس کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے:

    اولا:
    ان کا قول صرف حافظ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک خاص کتاب سے متعلق ہے جس میں انہوں نے رافضیوں کی تردید کی ہے، اورآپ علی الاطلاق مذکورہ بات کہہ رہے ہیں۔

    ثانیا:
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام کے مذکورہ طرزعمل کا عذر بھی پیش کردیا ہے اور وہ یقینا تشدد نہیں ہے جس کا ورد آپ کررہے ہیں آپ ہی کے نقل کردہ اقتباس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے یہ الفاظ صاف طورپر موجود ہیں:
    لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،
    اب آپ بتائیں کہ کیا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ شدت کو سبب قرار دے رہے ہیں یا عدم استحضار اور نسیان کو؟؟؟

    ثالثا:
    شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے تو عدم استحضار کے سبب بعض روایا ت کو رد کردیا لیکن آپ کے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو محض اپنی رائے اور قیاس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن واحادیث کو رد کردیا:
    حماد بن سلمہ فرماتے ہیں:
    إِن أَبَا حنيفَة اسْتقْبل الْآثَار وَالسّنَن يردهَا بِرَأْيهِ [العلل ومعرفة الرجال : 2/ 545 وسندہ صحیح ، وانظر:الكامل في الضعفاء 7/ 8،تاريخ بغداد 13/ 408 ]



    جی ہاں انہیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے آپ کے امام صاحب کےصنیع کی شکایت یا حکایت کی بھی کی ہے ملاحظہ ہو:

    علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    فإن قلتم بشرعيته خالفتم سنة نبيكم وضللتم وهذا مما لا نرجوه لكم وإن قلتم بعدمها - كما هو الظن بكم - أصبتم وبطل فلسفتكم ولزمكم الرجوع عنها والاكتفاء في ردكم علي بالأدلة الشرعية إن كانت عندكم فإنها تغنيكم عن زخرف القول وإلا حشرتم أنفسكم في (الآرائيين) كما روى أحمد في " العلل " (٢ / ٢٤٦) عن حماد بن سلمة قال: إن أبا حنيفة استقبل الآثار والسنن يردها برأيه [الرد المفحم للالبانی :ص: 13]۔


    { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (٢) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ } [الصف: 2، 3]


    لطیفہ:
    جمشید صاحب نے اسی محدث فورم پر یہاں پر شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’’الالفۃ بین المسلمین‘‘ کے کچھ اقتباسات پیش کئے ہیں ، عجیب بات ہے کہ ایک مقام پر انہیں شیخ الاسلام سے الفت و نرمی کی دعوت دی جاتی ہے اور دوسرے مقام پر خود انہیں کی عبارات کو پر تشدد بتلایا جاتا ہے !!
    کیا جو شخصیت ’’الالفۃ بین المسلمین‘‘ جیسی کتاب لکھے اس کے اندروہ شدت ہوسکتی ہے جس کا الزام جشید صاحب لگارہے ہیں؟؟؟

    اب آخر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اخلاق ، اور آپ کی صفت حلم وبرد باری سے متعلق شیخ الاسلام ہی کی ایک ہم عصر اور عظیم شخصیت کی گواہی ملاحظہ ہو:

    علامہ شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي بن يوسف الدمشقي الحنبلي (المتوفى: 744ھ) فرماتے ہیں:
    فوَاللَّه ثمَّ وَالله ثمَّ وَالله لم ير أَدِيم تَحت السَّمَاء مثل شيخكم علما وَعَملا وَحَالا وخلفا واتباعا وكرما وحلما فِي حق نَفسه وقياما فِي حق الله عِنْد انتهاك حرماته أصدق النَّاس عقدا وأصحهم علما وعزما وأنفذهم وَأَعْلَاهُمْ فِي انتصار الْحق وقيامه همة وأسخاهم كفا وأكملهم اتبَاعا لنَبيه مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم [العقود الدرية من مناقب شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ص: 327]
     
    Last edited by a moderator: ‏جون 27, 2011
  9. طارق راحیل

    طارق راحیل -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2009
    پیغامات:
    351
    شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں