کفایت شعاری ۔ ابن انشاء

ابوعکاشہ نے 'طنزیہ و مزاحیہ نثری تحریریں' میں ‏جون 28, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    کفایت شعاری ۔ ابن انشاء

    سب سے زرین اصول یہ ہے کہ جو کام کل ہو سکتا ہے۔اسے آج پر نہ ڈالو ۔ اور جو چیز کہیں اور مل سکتی ہےاسے سامنے کی دوکان سے نہ خریدو۔ ہم فلم دیکھنے میں بالعموم یہی اصول برتتے ہی ۔ شروع کے تین دنوں میں تو ہم رش سے گھبراتے ہیں ۔ تاکہ جن کو دیکھنا ہے دیکھ لیں۔ اور بھیڑ چھٹ جاۓ۔ پیر کے بعد ہم حساب لگاتے ہیں کہ ابھی چار روز اور ہیں۔ کسی بھی دن دیکھ لیں گے۔ دو تین دن ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ میٹنی شو دیکھنا مناسب ہو گا یا رات کا۔حتی کہ اخبار میں فلم اترنے کا اعلان آجاتا ہے۔ شیطان کے جن کاموں کو ہم برا جانتے ہیں ان میں تعجیل بھی ہے۔ قلم اب نہ دیکھی پھر آے گی تو دیکھ لی جاۓ گی ۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت تمام اچھی فلمیں ہماری ویٹنگ لسٹ پر ہیں کہ دوبارہ آئیں گی تو دیکھی جایئں۔ کپڑوں کے بارے میں بھی یہی قیمتی اصول ہمارے پیش نظر رہتا ہے۔ پاکستان میں صنعتیں برابر ترقی کر رہی ہیں۔ ہر سال نۓ نۓ اور بہتر ڈیزائین کے کپڑے بازار میں آتے ہیں۔ اگر ہم بالفرض گزشتہ سال سوٹ سلوا لیتے تو آج افسوس ہوتا۔ آج سلوالیں تو اگلے برس افسوس ہو گا۔ انسان ایسا کام ہی کیوں کرے جس میں بعد ازاں افسوس کا اندیشہ ہو۔
    1961ء میں کنٹرول ریٹ پر ایک کار مل رہی تھی۔ پھر وہ نہ ملی کیونکہ دکاندار ہمارے اصول سے واقف نہ تھا، اس نے بیچنے میں جلدی کی۔ اگر کہیں اس وقت ہم یہ کار خرید لیتے تو اس وقت چار سال پرانی ہوتی ۔ کوئی آدھے داموں بھی نہ پوچھتا۔
    اس میں کوئی شک نہیں کہ کفایت شعاری اور جزرسی جسے فضول خرچ خسست کا نام دیتے ہیں۔اﷲ کی دین ہے ۔ تاہم ایسی مثالیں بھی ہیں کہ انسان کوشش سے یہ ملکہ حاصل کر لیتا ہے۔ ان میں سب سے روشن مثال خود ہماری ہے۔ ابھی چند سال پہلے تو ہم کبھی کبھار کو‏ئی چیز خرید بیٹھتے تھے اور ظاہر ہے کہ آخر میں پچھتاتے تھے۔ آخر ایک روز اپنے دوست ممتاز مفتی سے جو ہمارے ساتھ کام کرتے تھے۔ ہم نے گزارش کی کہ ہمارے ساتھ ایک نیکی کیجۓ ۔
    بولے “کہو کیا بات ہے۔ کچھ قرض چاہیۓ؟”
    ہم نے کہا ” جی نہیں۔ وہ تو روز چاہیۓ ہوتا ہے۔ آج یہ کہنا ہے کہ ہم بازار میں خریداری کو نکلیں تو ہمارے ہم رکاب رہا کیجۓ۔ آپ کا کام فقط ہمیں مفید مشورے دینا ہوگا۔ جہاں آپ دیکھیں کہ ہم کو‏‏ئی چیز خریدنے پر تلے ہوۓ ہیں۔ آہستہ سے اتنا فرما دیا کیجۓ کہ اگلی دکان پر چار آنے سستی ہے۔
    بولے ٹھیک ہے۔ اب ہوا یہ کہ ہم نے ایک جگہ دو روپے موزوں کے طے کیے۔ (دکاندار تین روپے مانگ رہا تھا) اور بٹوہ نکال کر ادائگی کرنے کو تھے کہ مفتی جی نے کہا۔ “یہاں سے مت لو جی” فرئر روڈ کے فٹ پاتھ پر یہی چیز ڈیڑھ روپے کی ہے۔
    یوں ہمارے وہ دو روپے بھی بچے اور وہ ڈیڑھ روپیہ بھی، کیونکہ اس روز فٹ پاتھ پر تلاش بسیار کے باوجود دکان دار ہمیں نہ مل سکا۔مل جاتا تو مفتی صاحب فرماتے کہ ” ذرا بندر روڈ پر چلو تو یہ موزہ ایک روپے میں دلادوں۔”

    چند روز میں ہم یہ بھول گۓ کہ یہ ترکیب مفتی صاحب کو خود ہم نے سمجھا ئی ہے۔ قارئین کرام بھی یہ نسخہ استعمال کر کے دیکھیں۔ فائدہ ہو تو اس فقیر کو دعاۓ خیر سے یاد فرمائیں۔
     
    Last edited by a moderator: ‏جون 28, 2011
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت عمدہ انتخاب !
    اب ايسا نفيس مزاح كہاں مطالعے كو ملتا ہے ۔
     
  3. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    بہت خوب
     
  4. ابو یاسر

    ابو یاسر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 13, 2009
    پیغامات:
    2,413
    یہ جملہ آپ کا ہے؟ یا ابن انشاء کا؟
    ویسے ترکیب ہے کافی دلچسپ ، نوٹیڈ!
     
  5. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا
     
  6. بنت واحد

    بنت واحد محسن

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2008
    پیغامات:
    11,962
    بہت خوب
     
  7. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    زبردست انتخاب ہے۔

    ابو یاسر بھائی، یہ ابن انشاء کا ہی جملہ ہے:)
     
  8. گمنام

    گمنام رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اپریل 6, 2013
    پیغامات:
    12
    بہت عمدہ انتخاب
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں