کسی پریشانی کے بعد“اگر”اور“کاش”وغیرہ الفاظ کے ساتھ اظہار حسرت کرنا منع ہے

فاروق نے 'غاية المريد فی شرح کتاب التوحید' میں ‏جولائی 10, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    باب:56-- کسی پریشانی یا حادثہ کے بعد “اگر” اور “کاش” وغیرہ الفاظ کے ساتھ اظہار حسرت کرنا منع ہے (1)
    اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    [qh](يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا(سورة آل عمران3: 154))[/qh]
    “یہ لوگ (منافق) کہتے ہیں اگر ہمارے بس میں کچھ ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے۔”

    نیز ارشاد ہے:
    [qh](الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا(سورة آل عمران3: 168))[/qh]
    “یہ (منافق)وہ لوگ ہیں جو خود تو (گھروں میں)بیٹھے رہے اور اپنے (ان)بھائیوں کی نسبت (جنہوں نے اپنی جانیں اللہ تعالی کی راہ میں فدا کردیں)کہنے لگے کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو مارے نہ جاتے۔”


    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    [qh](احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ، فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ لَكَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ)[/qh](صحیح مسلم، القدر، باب الایمان بالقدر و الاذعان لہ ح:2664 ومسند احمد:2/ 366، 370)
    “اس چیز کی حرص کر جو تیرے لیے مفید ہو۔ اور صرف اللہ تعالی سے مدد مانگ۔ اور عاجزوکاہل ہو کر نہ بیٹھا رہ۔ اور اگر تجھے کوئی پریشانی لاحق ہو تو یوں نہ کہہ، اگر میں یہ کر لیتا تو یوں ہو جاتا۔ بلکہ یوں کہہ یہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے، اس نے جو چاہا سو کیا۔ اس لیے کہ “اگر”کہنا شیطانی عمل دخل کا سبب بنتا ہے۔”(2)


    مسائل

    1) اس باب میں سورۂ آل عمران کی مندرجہ بالا دو آیات (154 اور 168)کی تفسیر ہے جن میں “اگر”کہنے والے منافقین کا تذکرہ ہے۔
    2) نیز معلوم ہوا کہ نقصان ہونے پر اگر مگر کہنا منع ہے۔
    3) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ “اگر” کہنے سے شیطانی عمل دخل کا دروازہ کھلتا ہے۔
    4) نیز اس مذکورہ حدیث میں اچھی گفتگو کی رہنمائی کی گئی ہے۔
    5) اور مفید چیز کے حصول کی ترغیب اور اس سلسلے میں اللہ تعالی سے مدد مانگنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔
    6) نیز اس حدیث میں عاجز، کاہل، اور ست ہو کر بیٹھ رہنے کی ممانعت بھی ہے۔

    نوٹ:-

    (1) بعض لوگ لاعلمی یاکم علمی کی بنا پر لاشعوری طور پر تقدیر کے شاکی ہوتے ہیں۔ جب کوئی ناگوار واقعہ یا حادثہ پیش آجائے تو کہنے لگتے ہیں اگر ہم یوں کرلیتے تو یوں ہوجاتا۔ اگر ہم فلاں تدبیر اختیار کرلیتے تو اس نقصان اور پریشانی سے بچ جاتے، حالانکہ جو کچھ پیش آچکا ہے اللہ کو وہی منظور تھا،اس لیے کسی پیش آمدہ واقعہ یا پریشانی کے بعد اگر مگر کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر دل و جان سے راضی رہنا چاہیے۔ اگر مگر کی باتیں کرنا حرام اور نفاق کی علامت ہے۔
    (2) کسی گزشتہ کام کے بارے میں اظہار حسرت و افسوس کے لیے “اگر” اور کاش” جیسے الفاظ استعمال کرنا حرام ہے۔ البتہ زمانہ مستقبل میں ہونےوالے خیر و بھلائی کے کسی کا م کے لیے، رحمت الہی کی امید رکھتے ہوئے، “اگر” کا لفظ بولنا جائز ہے اور اگر مستقبل میں ہونے والے کسی کام پر اپنے تکبر و غیرور کا اظہار کرتے ہوئے “اگر”کا لفظ کہا جائے تو ہرگز جائز نہیں۔ یہ تو گویا تقدیر الہی کو چیلنج ہے۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں