دہشت گردی ، تعریف اور تجزیہ از مفتی عام مملکت سعودی عرب

ابوعکاشہ نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏اگست 16, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    بسم الله الرحمن الرحيم
    دہشت گردی ، تعریف اور تجزیہ
    شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل شیخ (مفتی عام مملکت سعودی عرب)
    مترجم ::مولانا محمد ابراہیم عمری
    /کمپوزنگ :: عُکاشہ

    دہشت گردی دور حاضر میں سب سے زیادہ اسعتمال ہونےو الی اصطلاح ہے ـ خصوصا 11 ستمبر کے حادثات کے بعد ذرائع ابلاغ اور خبر رساں ایجنسیاں عالمی پیمانے پر اس کی تشہیر اور ترویج واشاعت میں مصروف ہیں ـ دنیا کے کونے کونے میں دہشت گردی اور دہشت گرد افراد موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ، دنیا کا ہر ملک ، ہر مذہب ، ہر قوم ، ہر جماعت اس کی مذمت میں رطب اللسان ہے ـ
    دہشت گردی کی اس قدر شناخت کے باوجود غور طلب بات یہ ہے کہ اب تک دہشت گردی کی کوئی جامع تعریف سامنے نہیں آئی ہے اور نہ اس کا مفہوم واضح اور متعین ہوا ہے کہ دہشت گردی ہے کی ؟ دہشت گرد ہیں کون ؟ کوئی فرد ، جماعت یا حکومت دہشت گرد کب اور کیسے بنتی ہے ؟ یہ سب باتیں عالمی سطح پر ابھی غیر واضح ہے ـ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ہی اس کی واضح اور متعین تعریف نہیں کی جارہی ہے ـ
    دہشت گردی کے لفظی معنی دہشت پھیلانے اور خوف زدہ کرنے کے ہیں اصطلاح میں اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ـ سیاسی انسائیکوپیڈیا میں اس کی تعریف یوں منقول ہے :
    [qh]الارهاب هو استخدام العنف غير القانوني أو التهديد به بأشكاله المختلفة كما الاغتيال والتشويه والتعذيب بغية تحقيق هدف سياسي معين مثل كسرروح المقاومة عند الافراد وهدم المعنويات عند الهئيات والمؤسسات كوسيلة من وسائل المحصول على المعلومات أومال أو بشكل عام استخدام الاكراه لا خضاع طرف مناوئ لمشية الجهة الارهابية [/qh]
    ''دہشت گردی نام ہے غیرقانونی تشدد پھیلانے یا تشدد آمیز دھمکیاں دینے کا ـ مثلا خفیہ رازوں کو معلوم کرنے ، یا مال حاصل کرنے کے لیے افراد کے اندرپائی جانے والی مدافعانہ روح کو ختم کرنے یا تنظمیوں اور اداروں کی نفسیات کو کچلنے وغیرہ جیسے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے حقائق کی غلط ترجمانی کرنا ، یا قتل وغارتگری ، ایذا ء رسانی اور خون خرابہ کرنا ـ ـ ـ عام اور مختصر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد تنظیم کا اپنے ناجائز مقاصد منوانے کے لیے مدمقابل پرسختی اور زبردستی کا نام دہشت گردی ہے ـ ''
    عربی عالمی انسائیکوپیڈیا میں ہے : [qh]الارهاب،استخدام العنف أو التهديد به لا ثارة الرعب-[/qh] تشدد کے ذریعہ یا تشدد آمیز دھمکیوں کے ذریعے خوف و اہراس پھیلانا دہشت گردی ہے ـ
    آکسفورڈ ڈکشنری میں دہشت گردی کی تعریف یہ کی گئی ہے ا[qh]لشخص الذى يستعمل العنف المنظم لضمان نهاية سياسية [/qh]"دہشت گرد وہ شخص ہے جو کسی سیاسی مقصد کے حصول کے لیے منظم طریقے سے تشدد پھیلائے ''ـ
    ان تمام تعریفات سے جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ ہے '' معاشرے میں خوف و اہراس اور وحشت پھیلانا دہشت گردی ہے '' ـ مگر ان میں کچھ الفاظ غیر واضح ہیں ـ مثلا : پہلی تعریف میں میں لفظ ''غیرقانونی '' کی شرط ہے ـ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قانون کو معیارحق قرار دیا جائے ؟ جس کی خلاف ورزی پر کسی عمل کو دہشت گردی کہا جا سکے ـ اگر ہر ملک اپنا ملکی قانون مراد لے تو ایک ملک کی دوسرے ملک پر دست درازی اور ظلم وزیادتی کو کس بنیار پر دہشت گردی قرار کیا جا سکتا ہے ـ ـ ـ ـ اسی طرح اس تعریف میں ایک اور لفظ '' مدمقابل '' ہے ـ یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اعتدال پسند گردہ کا معیار کیاہے ؟ اور کیا ہر مدمقابل دہشت گرد کھیلائے گا ؟
    دوسری تعریف میں تشدد کے ذریعے دہشت پھیلانے کو دہشت گردی کہا گیا ہے ـ کیا ہر تشدد جس سے دہشت پھیلتی ہو کیا اسے دہشت گردی کہا جائے گا ؟ نہیں !! کیونکہ ہم روزہ مرہ میں ایسے ہزاروں حادثات کا مشاہدہ کرتے ہیں جن سے دلوں میں کچھ نہ کچھ دہشت پیدا ہوتی ہی ہے ، مگر ان کو دہشت گردی نہیں کہا جاتا ـ
    اسی طرح آکسفورڈ ڈکشنری میں جو تعریف کی گئی ہے کہ وہ جامع نہیں کیونکہ ہر دہشت گردی مقصود سیاسی مفاد کا حصول نہیں ہوتا ، بلکہ سیاسی اغراض کے علاوہ دیگر مقاصد کے حصول کے لیے بھی دہشت گردی کی راہ اپنائی جاتی ہے
    خلاصہء کلام یہ ہے کہ ان تمام تعریفات سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ خوف و اہراس کس طریقے سے ہو ، کس درجے میں ہو ، یا کس حد کو پہنچے جسے دہشت گردی سمجھا جائے ـ

    دہشت گردی کی اصطلاح (عالمی عربی انسائیکلوپیڈیا کے بیان کے مطابق )
    1779 سے 1789 کے دوران انقلاب فرانس کے وقع پر وجودمیں آئی ـ جس وقت حملہ آور اپنے دشمنوں کے خلاف فرانس پر بزور قوت قابض ہوئے ان کایہ عہد تاریخ میں دور دہشت گری کے نام سے مشہور ہے ـ اس کے بعد دہشت گردی تحریکوں ، تنظمیوں اورجماعتوں کا سلسلہ شروع ہوا ، جن میں چند اہم دہشت گرد تنظمیں یہ ہیں :
    کوکلوس کلات : یہ ایک امریکہ دہشت گرد تنظیم ہے جس کا ظلم و ستم کا نشانہ امریکہ کے سیاہ فام باشندے اور ان کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں ـ اسی طرح بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں اٹلی میں الآلویة الحمراء (سرخ جھنڈی والی جماعت ) اور جرمنی میں جیش احمر (ریڈ آرمی ) نامی جماعت وجود میں آئی ـ یہ دونوں جاعتیں اپنے اپنے ملک میں فرسودہ نظام ہٹا کر نیا نظام قائم کرنے کے لیے سیاسی اور اقتصادی تنظمیوں کو تباہ و برباد کرنے میں لگی ہوئی ہیں ـ
    جن لوگوں نے اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے دہشت گردی کی راہ اپنائی ، ان میں جرمنی کے ہٹلر ، اٹلی کے موسولینی اور روس کا جوزف اسٹالین وغیرہ ہیں ، جنہوں نے لاکھوں معصوم افراد کو بے دردی سے قتل کیا ـ
    اس مختصر تاریخی جائزے سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں ـ
    1-دہشت گردی کی اصطلاح اٹھارویں صدی عیسوی کے اختتام پربنی جب کہ اسلام اس سے بارہ سو سال پہلے دنیا میں موجود ہے ـ
    2- یہ اصطلاح سب سے پہلے جن قوموں کے لیے اسعتمال ہوئی وہ سب کے سب یورپی اقوام ہیں ـ ان میں سے کوئی بھی قوم نہ عرب ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی اور مسلم قوم ـ
    3- یہ ممکن ہے کہ اسلام کی طرف منسوب کچھ افراد یا جماعتوں پر دہشت گردی کی یہ اصطلاح منطبق ہوتی ہو ـ دین اسلام کو ان کی دہشت گردی کا سبب قرار دینا درست نہیں ـ

    دہشت گردی کی جامع تعریف
    رابطہ عالم اسلامی کی زیر نگرانی اسلام فقہ اکیڈمی کی جانب سے جو سہولویں کانفرنس 1422 ھجری میں مکہ مکرمہ منعقد ہوئی اس میں دیشت گردی کی جامع تعریف اس طرح کی گئی ہے :-
    '' وہ ظلم و زیادتی جو انسان کے دین ، عقل ، مال اور عزت پر افراد ، تحریکات اور جماعتوں کی جانب سے کی جائے ـ اس میں خوف و اہراس ایذرسانی ، تہدید و تخویف ، ناحق قتل ، راستوں کو پرخطر بنانا اور رہزنی اور ڈاکہ زنی جیسی تمام صورتیں داخلہ ہیں ـ اور ہر وہ دہشت اور دھمکی آمیز اقدام جو کسی ایسی انفرادی یا اجتماعی مجرمانہ منصوبہ بندی کی تنفیذ کے لیے ہوتا ہو جس کا مقصود لوگوں میں خوف پھیلانا ، انسانی جان کی آزادی اور امن وسکون کو خطرے میں ڈال کر ڈرانا دھمکانا ، اسی طرح ملک کے کسی خطے کو ، رفاہ عامہ کی چیزوں کو یا عوامی یا ذاتی ملکیتوں کو نقصان پہنچانا یا سرکاری اور قدرتی ذرائع آمدنی کو تباہ و برباد کرنا ـ''
    یہ تمام دہشت گردی اور فساد فی الارض کی صورتیں ہیں ، جن سے اجتناب کرنے کا اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو تاکیدی حکم دیا ہے ـ

    دور حاضر کے جدید قوانین میں جن افعال اور حرکات کو دہشت گردی قرار دیا ہے ـ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی ایسی تمام حرکتوں کو سنگین قرار دے کر ان کے مرتکبین کے سخت سزائیں تجویز کیں ، تاکہ کوئی بھی متبع اسلام ان کے ارتکاب کی جرات نہ کر سکے ـ جن میں اہم یہ ہیں ـ
    1ـ کسی معصوم جان کو قتل کرناـ اگر کوئی اس جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی سزا قتل ہے ـ چنانچہ سورہ البقرہ میں ارشا دہے [qh]ـ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى سورة البقرة 178[/qh]
    ائے ایمان والو!تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے ـ''

    2- زمین میں فساد اور بگاڑ پھیلانا ڈاکہ زنی ، اور امن پسند لوگوں کو خوف زدہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ـ بم دھماکے ، خودکش حملے اور ہوائی جہاز اور بس وغیرہ کا اغوا بھی اسی میں داخل ہے ـ اسلام کے نزدیک امن ے یہ غارت گر اور دہشت پسند دنیا اور آخرت دونوں میں سزائے کے مستحق ہوں گئے ـ
    سورہ مائدہ میں ارشا دہے ـ
    [qh]إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (33سورة المائدة))''[/qh] جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دود کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ان کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں ، یا انہیں سولی پر چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا ان کو جلاوطن کردیا جائے ـ یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بھی بڑی سزا ہے ـ

    3- شرعی اعتبار سے قائم شدہ حکومت کے خلاف افراد یا تنظیموں کا مسلح کوش کرنا ـ یہ بھی بڑا جرم ہے ـ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے [qh]:من أتاكم و أمركم جميع على رجل واحد يريد أن يشق عصاكم أو يفرق جماعتكم فاقتلوه مسلم [/qh]
    '' کسی امیر پر تمہاری بیعت ہوجانے کے بعد اگر کوئی تمہارے درمیان پھوٹ ڈالنے یا تمہاری جماعت میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرے تو اس کو قتل کردو ''

    4- چوری : اس کی سزا یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے ـ جیساکہ ارشاد ہے ـ [qh]وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (38سورة المائدة)[/qh]'' اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ـ''

    اس طرح کی بہت سی تعیلمات ہیں جن کی بنیاد پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ صرف الہی قانون ہی دنیا کی امن وسلامتی کا واحد ذریعہ ہے ـ اس کا نفاذ ملک و وطن ، رنگ ونسل اور اقوام و ملل کے اختلاف کے باوجود ساری انسانیت کی فلاح اور سعادت کا باعث ہے ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. اہل سلف

    اہل سلف -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏اگست 7, 2011
    پیغامات:
    59
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
  4. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاکم اللہ خیرا
    مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والوں کی اپنی تاریخ ہی دہشت گردی سے بھری پڑی ہے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں