سورۃ المائدۃ---------- از تفسیر تفسیر عثمانی

irum نے 'قرآن - شریعت کا ستونِ اوّل' میں ‏اگست 19, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ



    [TABLE="head"]

    يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَوْفُوا۟ بِٱلْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَٰمِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّى ٱلصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ(1)
    اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے چارپائے جانور (جو چرنے والے ہیں) حلال کر دیئے گئے ہیں۔ بجز ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے(1)
    تفسیر
    ف۹ ایمان شرعی دو چیزوں کا نام ہے صیحح معرفت اور تسلیم وانقیاد۔ یعنی خدا اور رسول کے جملہ ارشادات کو صیحح و صادق سمجھ کر تسلیم و قبول کے لئے اخلاص سے گردن جھکا دینا۔ اس تسلیمی جزء کے لحاظ سے ایمان فی الحقیقت تمام قوانین و احکام الہٰیہ کے ماننے اور جملہ حقوق ادا کرنے کا ایک مضبوط عہد واقرار ہے گویا حق تعالٰی کی ربوبیت کاملہ کا وہ اقرار جو عہد الست کے سلسلہ میں لیا گیا تھا جس کا نمایاں اثر انسان کی فطرت اور سرشت میں آج تک موجود ہے اسی کی تجدید و تشریح ایمان شرعی سے ہوتی ہے۔ پھر ایمان شرعی میں جو کچھ اجمالی عہد و پیمان تھا اسی کی تفصیل پورے قرآن و سنت میں دکھلائی گئی ہے۔ اس صورت میں دعویٰ ایمان کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ تمام احکام الہٰیہ میں خواہ ان کا تعلق براہ راست خدا سے ہو یا بندوں سے جسمانی تربیت سے ہو یا روحانی اصلاح سے دنیاوی مفاد سے ہو یا اخروی فلاح سے شخصی زندگی سے ہو یا حیات اجتماعی سے، صلح سے ہو یا جنگ سے، اس کا عہد کرتا ہے کہ ہر نہج سے اپنے مالک کا وفادار رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو عہد و پیمان اسلام، جہاد، سمع و طاعت، یا دوسرے عمدہ خصال اور امور خیر کے متعلق صحابہ سے بشکل بیعت لیتے تھے وہ اسی عہد ایمانی کی ایک مخصوص صورت تھی۔ اور چونکہ ایمان کے ضمن میں بندہ کو حق تعالٰی کے جلال و جبروت کی صیحح معرفت اور اس کی شان انصاف و انتقام اور وعدوں کی سچائی کا پورا پورا یقین بھی حاصل ہو چکا ہے، اس کا مقتضا یہ ہے کہ وہ بد عہدی اور غداری کے مہلک عواقب سے ڈر کر اپنے تمام عہدوں کو جو خدا سے یا بندوں سے یا خود اپنے نفس سے کئے ہوں اس طرح پورا کرے کہ مالک حقیقی کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔ اس تقریر کے موافق عقود (عہدوں) کی تفسیر میں جو مختلف چیزیں سلف سے منقول ہیں ان سب میں تطبیق ہو جاتی ہے اور آیت میں "ایمان والو" کے لفظ سے خطاب فرمانے کا لطف مزید حاصل ہوتا ہے۔ ف۱۰ "سورہ نسائ" میں گزر چکا ہے کہ یہود کو ظلم وبدعہدی کی سزا میں بعض حلال و طیب چیزوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔ فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیِبٰتٍ (نسآء رکوع ٢٢'آیت نمبر ١٦٠) جن کی تفصیل " سورہ انعام" میں ہے اس امت مرحومہ کو ایفائے عہد کی ہدایت کے ساتھ ان چیزوں سے بھی منتفع ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری، اور اسی جنس کے تمام اہلی اور وحشی (پالتو اور جنگلی) چوپائے مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ تمہارے لیے ہر حالت میں حلال کئے گئے، بجز ان حیوانات یا حالات کے جن کے متعلق حق تعالٰی نے قرآن کریم میں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تمہارے جسمانی یا روحانی یا اخلاقی مصلحت کے لئے ممانعت فرما دی ہے۔ ف۱۱ غالباً اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو اسی رکوع کی تیسری آیت میں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی "حرمت علیکم المیتۃ " سے "ذلکم فسق" تک۔ ف۱۲ محرم کو صرف خشکی کے جانور کا شکار جائز نہیں دریائی شکار کی اجازت ہے۔ اور جب حالت احرام کی رعایت اس قدر ہے کہ اس میں شکار کرنا ممنوع ٹھرا تو خود حرم شریف کی حرمت کا لحاظ اس سے کہیں زیادہ ہونا چاہئے۔ یعنی حرم کے جانور کا شکار محرم وغیر محرم سب کے لئے حرام ہوگا جیسا کہ لا تحلوا شعائر اللّٰہ کے عموم سے مترشح ہوتا ہے۔ ف۱ جس خدا نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا پھر کمال حکمت سے ان میں باہم فرق مراتب رکھا ہر نوع میں اس کی استعداد کے موافق جدا جدا فطری خواص و قویٰ ودیعت کئے۔ زندگی اور موت کی مختلف صورتیں تجویز کیں بلاشبہ اسی خدا کو اپنی مخلوقات میں یہ حق حاصل ہے کہ اپنے اختیار کامل علم محیط اور حکمت بالغہ کے اقتضا سے جس چیز کو جس کسی کے لئے جن حالات میں چاہے حلال یا حرام کر دے لا یسئل عما یفعل و ھم یسئلون۔(1)
    | [/url][/TABLE]​
     
  2. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُحِلُّوا۟ شَعَٰٓئِرَ ٱللَّهِ وَلَا ٱلشَّهْرَ ٱلْحَرَامَ وَلَا ٱلْهَدْىَ وَلَا ٱلْقَلَٰٓئِدَ وَلَآ ءَآمِّينَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًۭا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَٰنًۭا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَٱصْطَادُوا۟ ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا۟ ۘ وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ(2)
    مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت الله) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے(2)
    تفسیر
    ف ۲ یعنی جو چیزیں حق تعالٰی کی عظمت و معبودیت کے لئے علامات اور نشانات خاص قرار دی گئی ہیں ان کی بے حرمتی مت کرو۔ ان میں حرم، محترم بیت اللہ شریف، جمرات، صفا و مروہ، ہدی، احرام، مساجد، کتب سماویہ وغیرہ تمامی حدود وفرائض اور احکام دینیہ شامل ہیں۔ آگے ان نشانیوں میں سے بعض مخصوص چیزوں کو جو مناسک سے متعلق ہیں ذکر فرماتے ہیں جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں بھی محرم کے بعض احکام ذکر کئے گئے تھے۔ ف۳ ادب والے مہینے چار ہیں منھا اربعۃ حرم (توبہ رکوع٥) ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب ان کی تعظیم و احترام یہ ہے کہ دوسرے مہینوں سے بڑھ کر ان میں نیکی اور تقویٰ کو لازم پکڑے اور شرو فساد سے بچنے کا اہتمام کیا جائے خصوصاً حجاج کو ستا کر اور دق کر کے حج بیت اللہ سے نہ روکا جائے۔ گویا یہ امور سال کے بارہ مہینوں میں واجب العمل ہیں لیکن ان محترم مہینوں میں بالخصوص بہت زیادہ مؤکد قرار دیے گئے۔ باقی دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ہاجمانہ اقدام ہو تو جمہور کا مذہب یہ ہی ہے بلکہ ابن جریر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس کی ان مہینوں میں ممانعت نہیں رہی اس کا بیان سورہ توبہ میں آئے گا۔ انشاء اللہ ف٤ قلائد قلادہ کی جمع ہے جس سے مراد وہ ہار یا پٹا ہے جو ہدی کے جانور کے گلے میں نشان کے طور پر ڈالتے تھے تاکہ ہدی کا جانور سمجھ کر اس سے تعرض نہ کیا جائے اور دیکھنے والوں کو اسی جیسا عمل کرنے کی ترغیب بھی ہو قرآن کریم نے ان چیزوں کی تعظیم و حرمت کو باقی رکھا اور ہدی یا اس کی علامات سے تعرض کرنے کو ممنوع قرار دیا۔ ف۵ بظاہر یہ شان صرف مسلمانوں کی ہے۔ یعنی جو مخلص مسلمان حج و عمرہ کے لئے جائیں ان کی تعظیم و احترام کرو۔ اور ان کی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ اور جو مشرکین حج بیت اللہ کے لئے آتے تھے اگر وہ بھی اس آیت کے عموم میں داخل ہوں کیونکہ وہ بھی اپنے زعم اور عقیدہ کے موافق خدا کے فضل و قرب اور خوشنودی کے طالب ہوتے تھے تو کہنا پڑے گا کہ یہ حکم اس وقت سے پہلے کا ہے جب کہ اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا کی منادی کرائی گئی۔ ف ٦ یعنی حالت احرام میں شکار کی جو ممانعت کی گئی تھی وہ احرام کھول دینے کے بعد باقی نہیں رہی۔ ف۷ پچھلی آیت میں جن شعائر کو حق تعالٰی نے معظم و محترم قرار دیا تھا ٦ھ ہجری میں مشرکین مکہ نے ان سب کی اہانت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ ماہ ذیقعدہ میں محض عمرہ ادا کرنے کیلئے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر مشرکین نے اس مذہبی وظیفہ کی بجا آوری سے روک دیا نہ حالت احرام کا خیال کیا نہ کعبہ کی حرمت کا نہ محترم مہینہ کا نہ ہدی و قلائد کا، مسلمان شعائر اللہ کی اس توہین اور مذہبی فرائض سے روک دیے جانے پر ایسی ظالم اور وحشی قوم کے مقابلہ میں جس قدر بھی غیظ و غضب اور بغض و عداوت کا اظہار کرتے وہ حق بجانب تھے اور جوش انتقام سے برافروختہ ہو کر جو کاروائی بھی کر بیٹھتے وہ ممکن تھی۔ لیکن اسلام کی محبت و عداوت دونوں جچی تلی ہیں۔ قرآن کریم نے ایسے جابر و ظالم دشمن کے مقابلہ پر بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کا حکم دیا۔ عموماً آدمی زیادہ محبت یا زیادہ عداوت کے جوش میں حد سے گزر جاتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ سخت سے سخت دشمنی تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہو کہ تم زیادتی کر بیٹھو اور عدل و انصاف کو ہاتھ سے چھوڑ دو۔ ف۸ اگر کوئی شخص بالفرض جوش انتقام میں زیادتی کر بیٹھے تو اس کے روکنے کی تدبیر یہ ہے کہ جماعت اسلام اس کے ظلم و عدوان کی اعانت نہ کرے۔ بلکہ سب مل کر نیکی اور پرہیزگاری کا مظاہرہ کریں اور اشخاص کی زیادتیوں اور بے اعتدالیوں کو روکیں۔ ف۹ یعنی حق پرستی، انصاف پسندی اور تمام عمدہ اخلاق کی جڑ خدا کا خوف ہے اور اگر خدا سے ڈر کر نیکی سے تعاون اور بدی سے ترک تعاون نہ کیا تو عام عذاب کا اندیشہ ہے۔(2)

    | [/url][/TABLE]​
     
  3. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةُ وَٱلدَّمُ وَلَحْمُ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ وَٱلْمُنْخَنِقَةُ وَٱلْمَوْقُوذَةُ وَٱلْمُتَرَدِّيَةُ وَٱلنَّطِيحَةُ وَمَآ أَكَلَ ٱلسَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا۟ بِٱلْأَزْلَٰمِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ ٱلْيَوْمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَٱخْشَوْنِ ۚ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًۭا ۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ فِى مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍۢ لِّإِثْمٍۢ ۙ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ(3)
    تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پاسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے(3)
    تفسیر
    ف۱۰اس آیت سے جن چیزوں کا کھانا حرام ہوا ان میں اول میتہ (مردار جانور) ہے جو واجب الذبح جانور ذبح کئے بدون خود اپنی موت سے مر جائے اس کا خون اور حرارت غلیظ یہ گوشت ہی میں محتقن اور جذب ہو کر رہ جاتی ہے جس کی سمیت اور گندگی سے کئی قسم کے بدنی اور دینی مضار لاحق ہوتے ہیں (ابن کثیر) شاید اسی تعلیل پر متنبہ فرمانے کے لئے میتہ (مردہ جانور) کے بعد دم (خون) کی حرمت مذکور ہوئی اس کے بعد حیوانات کی ایک خاص نوع (خنزیر) کی تحریم کا ذکر کیا۔ جس کی بے انتہا نجاست خوری اور بے حیائی مشہور عام ہے شاید اسی لئے شریعت حقہ نے دم (خون) کی طرح اس کو نجس العین قرار دیا ان تین چیزوں کے ذکر کے بعد جن کی ذوات میں مادی گندگی اور خباثت پائی جاتی تھی، محرمات کی ایک اور قسم کا ذکر فرمایا یعنی وہ جانور جو اپنی ذات کے اعتبار سے حلال و طیب ہے، مگر مالک حقیقی کے سوا کسی اور کی نیاز کے طور پر نامزد کر دیا گیا ہو اس کا کھانا بھی نیت کی خباثت اور عقیدہ کی گندگی کی بنا پر حرام ہے۔ کسی جاندار کی جان صرف اسی مالک و خالق کے حکم اور نام پر لی جاسکتی ہے جس کے حکم اور ارادہ سے اس پر موت و حیات طاری ہوتی ہے۔ باقی "مُنْخَنِقَہ" وغیرہ غیر مذبوح جانور سب میتہ کے حکم میں داخل ہیں جیسا کہ "مَاذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ"، "مَااُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ" کے ساتھ ملحق ہے۔ جاہلیت میں ان سب چیزوں کے کھانے کی عادت تھی اس لئے اس قدر تفصیل سے ان کا بیان فرمایا۔ ف ۱۱ یعنی بہتا ہوا خون اَوْدَماً مَّسَفُوحاً (انعام رکوع ١٨) ف ۱۲ تھوڑا سا پہلے ہدی کے ادب و احترام کا ذکر فرمایا تھا یعنی وہ جانور جو تقرب الی اللہ کی غرض سے خدائے واحد کی سب سے پہلی عبادت گاہ کی نیاز کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے اس کے بالمقابل اس جانور کا بیان فرمانا جسے خدا کے سوا کسی دوسرے کے نام پر یا خانہ خدا کے سوا کسی دوسرے مکان کی تعظیم کے لئے ذبح کیا جائے (موضح القرآن) اس دوسری صورت میں بھی فی الحقیقت نیت نذر غیر اللہ ہی کی ہوتی ہے گو ذبح کے وقت زبان سے "بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر" کہا جائے۔ اس تقریر کے موافق "ما اھل بہ لغیر اللّٰہ " اور" ما ذبح علی النصب " کا فرق واضح ہوگیا (ابن کثیر) ف۱۳ بعض مفسرین نے ازلام سے تقسیم کے تیر مراد لئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں لحم ذبیحہ وغیرہ کے بانٹنے میں استعمال ہوتے تھے اور وہ ایک صورت قمار (جوئے) کی تھی جیسے آجکل چٹھی ڈالنے کی رسم ہے لیکن حافظ عماد الدین ابن کثیر وغیرہ محقیقین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ ازلام سے مراد وہ تیر ہیں جن سے مشرکین مکہ کسی اشکال اور تردد کے وقت اپنے ارادوں اور کاموں کا فیصلہ کرتے تھے یہ تیر خانہ کعبہ میں قریش کے سب سے بڑے بت "ہبل" کے پاس رکھتے تھے۔ ان میں سے کسی پر امرنی ربی، لکھا تھا (میرے پروردگار نے حکم دیا) کسی پر" نھانی ربی "اسی طرح ہر تیر پر یوں ہی اٹکل پچو باتیں لکھ چھوڑی تھیں۔ جب کسی کام میں تذبذب ہوا تو تیر نکال کر دیکھ لئے۔ اگر "امرنی ربی" والا تیر نکل آیا تو کام شروع کر دیا اور اس کے خلاف نکلا تو رک گئے وعلیٰ ہذا القیاس گویا بتوں سے یہ ایک قسم کا مشورہ اور استعانت تھی۔ چونکہ اس رسم کا مبنیٰ خالص جہل، شرک، اوہام پرستی اور افتراء علی اللہ پر تھا اس لئے قرآن کریم نے متعدد مواقع میں نہایت تغلیظ و تشدید کے ساتھ اس کی حرمت کو ظاہر فرمایا ہے اس تقریر کے موافق "ازلام" کا ذکر "نصب" کی مناسبت سے ہوا اور مردار، خون، خنزیر وغیرہ نہایت ہی خبیث اور گندی چیزوں کی تحریم کے سلسلہ میں منسلک کر کے بتلا دیا کہ اس کی معنوی اور اعتقادی نجاست و خباثت ان چیزوں سے کم نہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں "رجس" کے اطلاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ ف ۱٤ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ زندگی کے ہر شعبہ اور علوم ہدایت کے ہر باب کے متعلق اصول و قواعد ایسی طرح ممہد ہو چکے تھے اور فروع و جزئیات کا بیان بھی اتنی کافی تفصیل اور جامعیت سے کیا جا چکا تھا کہ پیروان اسلام کے لئے قیامت تک قانون الٰہی کے سوا کوئی دوسرا قانون قابل التفات نہیں رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے ہزاروں سے متجاوز خدا پرست، جانباز اور سرفروش ہادیوں اور معلموں کی ایسی عظیم الشان جماعت تیار ہو چکی تھی جس کو قرآنی تعلیم کا مجسم نمونہ کہا جاسکتا تھا مکہ معظمہ فتح ہو چکا تھا صحابہ رضی اللہ عنہم کامل وفاداری کے ساتھ خدا سے عہد و پیمان پورے کر رہے تھے نہایت گندی غذائیں اور مردار کھانے والی قوم مادی اور روحانی طیبات کے ذائقہ سے لذت اندوز ہو رہی تھی۔ شعائر الہٰیہ کا ادب و احترام قلوب میں راسخ ہو چکا تھا۔ ظنون و اوہام اور انصاب و ازلام کا تار و پود بکھر چکا تھا۔ شیطان جزیرۃ العرب کی طرف سے ہمیشہ کے لئے مایوس کر دیا گیا تھا کہ دوبارہ وہاں اس کی پرستش ہو سکے ان حالات میں ارشاد ہوا الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشو ھم واخشون۔ یعنی آج کفار اس بات سے مایوس ہوگئے ہیں کہ تم کو تمہارے دین قیم سے ہٹا کر پھر "انصاب" و "ازلام" وغیرہ کی طرف لے جائیں یا دین اسلام کو مغلوب کر لینے کی توقعات باندھیں یا احکام دینیہ میں کسی تحریف و تبدیل کی امید قائم کر سکیں آج تم کو کامل و مکمل مذہب مل چکا جس میں کسی ترمیم کا آئندہ امکان نہیں خدا کا انعام تم پر پورا ہو چکا جس کے بعد تمہاری جانب سے اس کے ضائع کر دینے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ خدا نے ابدی طور پر اسی دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کر لیا اس لئے اب کسی ناسخ کے آنے کا بھی احتمال نہیں۔ ایسے حالات میں تم کو کفار سے خوف کھانے کی کوئی وجہ نہیں وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ البتہ اس محسن جلیل اور منعم حقیقی کی ناراضی سے ہمیشہ ڈرتے رہو جس کے ہاتھ میں تمہاری ساری نجاح و فلاح اور کل سود و زیاں ہے۔ گویا "فلا تخشو ھم واخشون " میں اس پر متنبہ فرما دیا کہ آئندہ مسلم قوم کو کفار سے اس وقت تک کوئی اندیشہ نہیں جب تک ان میں خشیت الہٰی اور تقویٰ کی شان موجود رہے۔ ف۱۵ یعنی اس کے اخبار و قصص میں پوری سچائی بیان میں پوری تاثیر اور قوانین و احکام میں پورا توسط و اعتدال موجود ہے۔ جو حقائق کتب سابقہ اور دوسرے ادیان سماویہ میں محدود و ناتمام تھے ان کی تکمیل و تعمیم اس دین قیم سے کر دی گئی۔ قرآن و سنت نے "حلت"و "حرمت" وغیرہ کے متعلق تنصیصاً یا تعلیلاً جو احکام دیے ان کا اظہار و ایضاح تو ہمیشہ ہوتا رہے گا لیکن اضافہ یا ترمیم کی مطلق گنجائش نہیں چھوڑی۔ ف۱ ٦ سب سے بڑا احسان تو یہ ہی ہے کہ اسلام جیسا مکمل اور ابدی قانون اور خاتم الانبیاء جیسا نبی تم کو مرحمت فرمایا۔ مزید برآں اطاعت اور استقامت کی توفیق بخشی۔ روحانی غذاؤں اور دنیاوی نعمتوں کا دستر خوان تمہارے لئے بچھا دیا، حفاظت قرآن، غلبہ اسلام اور اصلاح عالم کا سامان مہیا فرما دیا۔ ف۱۷ یعنی اس عالمگیر اور مکمل دین کے بعد اب کسی اور دین کا انتظار کرنا سفاہت ہے "اسلام" جو تفویض و تسلیم کا مرادف ہے اس کے سوا مقبولیت اور نجات کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں (تنبیہ) اس آیت " الیوم اکملت لکم دینکم" الخ کا نازل فرمانا بھی منجملہ نعمائے عظیمہ کے لیے ایک نعمت ہے۔ اسی لئے بعض یہود نے حضرت عمر رضی اللہ عنہم سے عرض کیا کہ امیر المومنین! اگر یہ آیت ہم پر نازل کی جاتی تو ہم اس کے یوم نزول کو عید منایا کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے فرمایا تجھے معلوم نہیں کہ جس روز یہ ہم پر نازل کی گئی مسلمانوں کی دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں۔ یہ آیت ١٠ ہجری میں "حجتہ الوداع" کے موقع پر "عرفہ" کے روز "جمعہ" کے دن "عصر" کے وقت نازل ہوئی جب کہ میدان عرفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد اًتقیا و ابرار رضی اللہ عنہم کا مجمع کثیر تھا۔ اس کے بعد صرف اکیاسی روز حضور اس دنیا میں جلوہ افروز رہے۔ ف۱۸ یعنی حلال و حرام کا قانون تو مکمل ہو چکا اس میں اب کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا البتہ مضطر جو بھوک پیاس کی شدت سے بیتاب اور لاچار ہو وہ اگر حرام چیز کھا پی کر جان بچا لے بشرطیکہ مقدار ضرورت سے تجاوز نہ کرے اور لذت مقصود نہ ہو (غیر باغ ولا عاد) تو حق تعالٰی اس تناول محرم کو اپنی بخشش اور مہربانی سے معاف فرما دے گا۔ گویا وہ چیز تو حرام ہی رہی مگر اسے کھا پی کر جان بچانے والا خدا کے نزدیک مجرم نہ رہا یہ بھی اتمام نعمت کا ایک شعبہ ہے۔(3)

    | [/url][/TABLE]​
     
  4. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    يَسْـَٔلُونَكَ مَاذَآ أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ ٱلْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ ٱللَّهُ ۖ فَكُلُوا۟ مِمَّآ أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَٱذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ(4)
    تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا جلد حساب لینے والا ہے(4)
    تفسیر
    ف۵ پچھلی آیات میں بہت سی حرام چیزوں کی فہرست دی گئی تو قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حلال چیزیں کیا کیا ہیں؟ اس کا جواب دے دیا کہ حلال کا دائرہ تو بہت وسیع ہے۔ چند چیزوں کو چھوڑ کر جن میں کوئی دینی یا بدنی نقصان تھا دنیا کی تمام ستھری اور پاکیزہ چیزیں حلال ہی ہیں اور چونکہ شکاری جانور سے شکار کرنے کے متعلق بعض لوگوں نے خصوصیت سے سوال کیا تھا۔ اس لئے آیت کے اگلے حصہ میں اس کو تفصیلاً بتلا دیا گیا۔ ف ٦ شکاری کتے یا باز وغیرہ سے شکار کیا ہوا جانور ان شروط سے حلال ہے (١) شکاری جانور سدھا ہوا ہو (٢) شکار پر چھوڑا جائے (٣) اسے اس طریقہ سے تعلیم دی گئی ہو جس کو شریعت نے معتبر رکھا ہے یعنی کتے کو سکھلایا جائے کہ شکار کو پکڑ کر کھائے نہیں اور باز کو یہ تعلیم دی جائے کہ جب اس کو بلاؤ گو شکار کے پیچھے جا رہا ہو فوراً چلا آئے۔ اگر کتا شکار کو خود کھانے لگے یا باز بلانے سے نہ آئے تو سمجھا جائے گا کہ جب اس کے کہنے میں نہیں تو شکار بھی اس کے لئے نہیں پکڑا بلکہ اپنے لئے پکڑا ہے۔ اسی کو حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "جب اس نے آدمی کی تعلیم سیکھی تو گویا آدمی نے ذبح کیا " (٤) چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لو یعنی بسم اللّٰہ کہہ کر چھوڑو۔ ان چار شرطوں کی تصریح تو نص قرآنی میں ہوگئی۔ (٥) شرط جو امام ابو حنیفہ کے نزدیک معتبر ہے کہ شکاری جانور اگرچہ شکار کو زخمی بھی کر دے کہ خون بہنے لگے۔ اس کی طرف لفظ "جوارح" اپنے مادہ "جرح" کے اعتبار سے مشعر ہے۔ ان میں سے اگر ایک شرط بھی مفقود ہوئی تو شکاری جانور کا مارا ہوا شکار حرام ہے۔ ہاں اگر مرا نہ ہوا اور ذبح کر لیا جائے تو وما اکل السبع الا ماذکیتم کے قاعدہ سے حلال ہوگا۔ ف۷ یعنی ہر حالت میں خدا سے ڈرتے رہو، کہیں "طیبات کے استعمال اور شکار وغیرہ سے منتفع ہونے میں حدودو قیود شرعیہ سے تجاوز نہ ہو جائے۔ عموماً آدمی دنیاوی لذتوں میں منہمک ہو کر اور شکار وغیرہ مشاغل میں پڑ کر خدا اور آخرت سے غافل ہو جاتا ہے اس لئے تنبیہ کی ضرورت تھی کہ خدا کو مت بھولو اور یاد رکھو کہ حساب ہونے والا ہے۔(4)

    | [/url][/TABLE]​
     
  5. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]

    ٱلْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُ ۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ حِلٌّۭ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّۭ لَّهُمْ ۖ وَٱلْمُحْصَنَٰتُ مِنَ ٱلْمُؤْمِنَٰتِ وَٱلْمُحْصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِىٓ أَخْدَانٍۢ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِٱلْإِيمَٰنِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُۥ وَهُوَ فِى ٱلْءَاخِرَةِ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ(5)
    آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جبکہ ان کا مہر دے دو۔ اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی اور جو شخص ایمان سے منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا(5)
    تفسیر
    ف ۸ یعنی جیسے آج دین کامل تم کو دیا گیا دنیا کی تمام پاکیزہ نعمتیں بھی تمہارے لئے دائمی طور پر حلال کر دی گئیں جو کبھی منسوخ نہ ہونگی۔ ف ۹ یہاں طعام (کھانے) سے مراد "ذبیحہ" ہے یعنی کوئی یہودی یا نصرانی (بشرطیکہ اسلام سے مرتد ہو کر یہودی یا نصرانی نہ بنا ہو) اگر حلال جانور ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام نہ لے تو اس کا کھانا مسلمان کو حلال ہے مرتد کے احکام جدا گانہ ہیں۔ ف۱۰ اس مقام پر اس کا ذکر بطور مجازات و مکانات کے استطراداً فرما دیا۔ یعنی بعض احادیث میں جو آیا ہے "لَا یَاْ کُلُ طَعَامَکَ اِلاَّ تَقِیٌّ" (تیرا کھانا نہ کھائے مگر پرہیز گار) اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر پرہیز گارورں کے لئے تمام کھانا حرام ہے۔ جب مسلمان کے لئے کافر کتابی کے ذبیحہ کی اجازت ہوگئی تو ایک موحد مسلم کا ذبیحہ اور کھانا دوسروں کیلئے کیوں حرام ہوگا۔ ف۱۱ "پاک دامن" کی قید شاید ترغیب کے لئے ہو یعنی ایک مسلمان کو چاہیے کہ نکاح کرتے وقت پہلی نظر عورت کی عفت اور پاک دامنی پر ڈالے۔ یہ مطلب نہیں کہ پاک دامن کے سوا کسی اور سے نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ ف۱۲ اہل کتاب کے ایک مخصوص حکم کے ساتھ دوسرا مخصوص حکم بھی بیان فرما دیا۔ یعنی یہ کہ کتابی عورت سے نکاح کرنا شریعت میں جائز ہے۔ مشرکہ سے اجازت نہیں وَلَا تَنْکِحُو ا الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُوْ مِنَّ (بقرہ رکوع ٢٧'آیت۔ ٢٢١) مگر یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانہ کے "نصاریٰ" عموماً برائے نام نصاریٰ ہیں ان میں بکثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتاب آسمانی کے قائل ہیں نہ مذہب کے نہ خدا کے، ان پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ان کے ذبیحہ اور نساء کا حکم اہل کتاب کا سا نہ ہوگا نیز یہ ملحوظ رہے کہ کسی چیز کے حلال ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں فی حد ذاتہ کوئی وجہ تحریم کی نہیں۔ لیکن اگر خارجی اثرات و حالات ایسے ہوں کہ اس حلال سے منتفع ہونے میں بہت سے حرام کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے بلکہ کفر میں مبتلا ہونے کا احتمال ہو تو ایسے حلال سے انتفاع کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ موجودہ زمانہ میں یہود نصاریٰ کے ساتھ کھانا پینا بے ضرورت اختلاط کرنا، ان کی عورتوں کے جال میں پھنسنا، یہ چیزیں جو خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں وہ مخفی نہیں۔ لہٰذا بدی اور بد دینی کے اسباب و ذرائع سے اجتناب ہی کرنا چاہئے۔ ف۱۳ یعنی قید نکاح میں لانے کو۔ گویا اس طرف اشارہ ہوگیا کہ نکاح بظاہر قید ہے لیکن یہ قید ان آزادیوں اور ہوس رانیوں سے بہتر ہے جن کی طلب میں انسان نما بہائم سلسلہ ازدواج ہی کو معدوم کر دینا چاہتے ہیں۔ ف۱٤ جس طرح پہلے عورت کی پاکدامنی کا ذکر کیا تھا، یہاں مرد کو پاک باز اور عفیف رہنے کی ہدایت فرما دی وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ ( رکوع٣'آیت۔ ٢٦) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حق تعالٰی کی نظر میں نکاح کی غرض گوہر عصمت کو محفوظ اور مقصد تزویج کو پورا کرنا ہے شہوت رانی اور ہوا پرستی مقصود نہیں۔ ف۱۵ جن کتابی عورتوں سے نکاح کی اجازت ہوئی اس کا فائدہ یہ ہونا چاہیے کہ مومن قانت کی حقانیت عورت کے دل میں گھر کر جائے۔ نہ یہ کہ کتابیات پر مفتون ہو کر الٹا اپنی متاع ایمانی ہی کو گنوا بیٹھے اور "خسر الدنیا و الاخرہ" کا مصداق ہو کر رہ جائے۔ چونکہ کافر عورت سے نکاح کرنے میں اس فتنہ کا قوی احتمال ہو سکتا ہے اس لئے "ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ" کی تہدید نہایت ہی برمحل ہے یہ میرا خیال ہے۔ باقی حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ" اہل کتاب کو کفار سے دو حکم میں مخصوص کیا یہ فقط دنیا میں ہے اور آخرت میں ہر کافر خراب ہے اگر عمل نیک بھی کرے تو قبول نہیں۔"(5)
    | [/url][/TABLE]​
     
  6. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]

    يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغْسِلُوا۟ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى ٱلْمَرَافِقِ وَٱمْسَحُوا۟ بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى ٱلْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًۭا فَٱطَّهَّرُوا۟ ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌۭ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوا۟ مَآءًۭ فَتَيَمَّمُوا۟ صَعِيدًۭا طَيِّبًۭا فَٱمْسَحُوا۟ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍۢ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ(6)
    مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تم منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیا کرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلا سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (یعنی تیمم) کر لو۔ خدا تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو(6)
    تفسیر
    ف۱ ٦ امت محمدیہ پر جو عظیم الشان احسانات کئے گئے ان کا بیان سن کر ایک شریف اور حق شناس مومن کا دل شکر گزاری اور اظہار وفاداری کے جذبات سے لبریز ہو جائے گا اور فطری طور پر اس کی یہ خواہش ہوگی کہ اس منعم حقیقی کی بارگاہ رفیع میں دست بستہ حاضر ہو کر جبین نیاز خم کرے اور اپنی غلامانہ منت پذیری اور انتہائی عبودیت کا عملی ثبوت دے۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ جب ہمارے دربار میں حاضری کا ارادہ کرو یعنی نماز کے لئے اٹھو تو پاک و صاف ہو کر آؤ۔ جن لذائذ دینوی اور مرغوبات طبیعی سے متمتع ہونے کی آیت وضو سے پہلی آیت میں اجازت دی گئی (یعنی طیبات اور محصنات) وہ ایک حد تک انسان کو ملکوتی صفات سے دور اور بہیمیت سے نزدیک کرنے والی چیزیں ہیں اور کل احداث (موجبات وضو و غسل) ان ہی کے استعمال سے لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا مرغوبات نفسانی سے یکسو ہو کر جب ہماری طرف آنے کا قصد کرو تو پہلے بہیمیت کے اثرات اور "اکل و شرب" وغیرہ کے پیدا کئے ہوئے تکدرات سے پاک ہو جاؤ یہ پاکی "وضو" اور "غسل" سے حاصل ہوتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ وضو کرنے سے مومن کا بدن پاک و صاف ہو جاتا ہے بلکہ جب وضو باقاعدہ کیا جائے تو پانی کے قطرات کے ساتھ گناہ بھی جھڑتے جاتے ہیں۔ ف۱۷ یعنی سو کر اٹھو یا دنیا کے مشاغل چھوڑ کر نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہو تو پہلے وضو کر لو لیکن وضو کرنا ضروری اس وقت ہے جب کہ پیشتر سے باوضو نہ ہو۔ آیت کے آخر میں ان احکام کی جو غرض و غایت "ولکن یرید لیطھر کم" سے بیان فرمائی ہے اس سے معلوم ہوگیا کہ ہاتھ منہ دھونے وغیرہ کا وجوب اسی لئے ہے کہ حق تعالٰی تم کو پاک کر کے اپنے دربار میں جگہ دے۔ اگر یہ پاکی پہلے سے حاصل ہے اور کوئی ناقص وضو پیش نہیں آیا تو پاک کو پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کو ضروری قرار دینے سے امت "حرج" میں پڑتی ہے جس کی نفی "مایرید اللّٰہ لیجعل علیکم من حرج" میں کی گئی۔ ہاں مزید نظافت، نورانیت اور نشاط حاصل کرنے کے لئے اگر تازہ وضو کر لیا جائے تو مستحب ہوگا۔ شاید اسی لئے "اذا قمتم الی الصلٰو ۃِ فاغسلوا وجوھکم" الآیہ میں سطح کلام کی ایسی رکھی ہے جس سے ہر مرتبہ نماز کی طرف جانے کے وقت تازہ وضو کی ترغیب ہوتی ہے۔ ف۱ یعنی تر ہاتھ سر پر پھیر لو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدت العمر میں مقدار ناصیہ سے کم کا مسح ثابت نہیں ہوتا "مقدار ناصیہ" چوتھائی سر کے قریب ہے۔ ابو حنیفہ اس قدر مسح کو فرض کہتے ہیں۔ باقی اختلافات اور دلائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ف۲مترجم محقق نے پاؤں کے بعد لفظ "کو" نہ لکھ کر نہایت لطیف اشارہ فرما دیا کہ "ارجلکم" کا عطف مغسولات پر ہے یعنی جس طرح منہ، ہاتھ دھونے کا حکم ہے، پاؤں بھی ٹخنوں تک دھونے چاہئیں سر کی طرح مسح کافی نہیں چنانچہ اہلسنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے اور احادیث کثیرہ سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر پاؤں میں موزے نہ ہوں تو دھونا فرض ہے۔ ہاں "موزوں" پر ان شرائط کے موافق جو کتب فقہ میں مذکور ہیں مقیم ایک دن رات اور مسافر تین دن تک مسح کر سکتا ہے۔ ف ۳ یعنی جنابت سے پاک ہونے میں صرف اعضائے اربعہ کا دھونا اور مسح کرنا کافی نہیں۔ سطح بدن کے جس حصہ تک پانی بدون تضرر کے پہنچ سکتا ہو وہاں تک پہنچانا ضروری ہے اسی لئے حنفیہ غسل میں "مضمضہ" اور "استنشاق" (کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا) کو بھی ضروری کہتے ہیں وضو میں ضروری نہیں سنت ہے۔ ف٤ یعنی مرض کی وجہ سے پانی کا استعمال مضر ہو یا سفر میں پانی بقدر کفایت نہ ملے یا مثلاً کوئی قضائے حاجت کر کے آیا اور وضو کی ضرورت ہے یا جنابت کی وجہ سے غسل ناگزیر ہے مگر پانی کے حاصل کرنے یا استعمال کرنے پر کسی وجہ سے قادر نہیں تو ان صورتوں میں وضو یا غسل کی جگہ تیمم کر لے۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم کی مشروعیت سے جو غرض ہے وہ بہر صورت یکساں طور پر حاصل ہوتی ہے "تیمم" کے اسرار و مسائل اور اس آیت کے فوائد "سورہ نسآء" کے ساتویں رکوع میں مفصل گزر چکے۔ (تنبیہ) مترجم محقق قدس سرہ نے "لَمَسْتُمُ النِّسَآئَ" کا جو ترجمہ کیا ہے (پاس گئے ہو عورتوں کے) وہ محاورہ کے اعتبار سے حالت جنابت ہی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ ترجمہ ابن عباس اور ابو موسیٰ اشعری کی تفسیر کے موافق ہے جسے ابن مسعود نے بھی سکوتاً تسلیم کیا ہے (کمافی البخاری) نیز مترجم علام نے "فَتَیَمَّمُوْا " کے ترجمہ میں "قصد کرو" کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ اصل لغت کے اعتبار سے "تیمم" کے معنی میں "قصد" معتبر ہے۔ اور اس لغوی معنی کی مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے "تیمم شرعی" میں بھی قصد یعنی نیت کو علماء نے ضروری قرار دیا ہے۔ ف۵ اس لئے جو احداث کثیر الوقوع تھے ان میں سارے جسم کا دھونا ضروری نہ رکھا صرف اور اعضاء (منہ، ہاتھ، پاؤں، سر) جن کو اکثر بلادِ متمد نہ کے رہنے والے عموماً کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے ان کا دھونا اور مسح کرنا ضروری بتلایا تاکہ کوئی تنگی اور دقت نہ ہو۔ ہاں "حدث اکبر" بمعنی "جنابت" جو احیاناً پیش آتی ہے اور اس حالت میں نفس کو ملکوتی خصال کی طرف ابھارنے کے لئے کسی غیر معمولی تنبیہ کی ضرورت ہے، اس کے ازالہ کے لئے تمام بدن کا دھونا فرض کیا۔ پھر "مرض" اور "سفر" وغیرہ حالات میں کس قدر آسانی فرما دی۔ اول تو پانی کی جگہ "مٹی" کو مطہر بنا دیا۔ پھر اعضائے وضو میں سے نصف کی تخفیف اس طرح کر دی کہ جہاں پہلے ہی سے تخفیف تھی یعنی سر کا مسح اسے بالکل اڑا دیا اور پاؤں کو شاید اس لئے ساقط کر دیا کہ وہ عموماً مٹی میں یا مٹی کے قریب رہتے ہیں اور تمام اعضائے بدن کی نسبت سے گرد وغبار میں ان کا تلوث شدید تر ہے۔ لہٰذا ان پر مٹی کا ہاتھ پھیرنا بے کار سا تھا۔ بس دو عضو رہ گئے "منہ" اور "ہاتھ" ان ہی کو ملنے سے وضو اور غسل دونوں کا "تیمم" ہو جاتا ہے۔ ف ٦ کیونکہ وہ خود پاک ہے تو پاکی ہی پسند کرتا ہے۔ ف۷ پچھلے رکوع میں جو نعمائے عظیمہ بیان ہوئی تھیں انکو سن کر بندہ کے دل میں جوش اٹھا کہ اس منعم حقیقی کی بندگی کے لئے فوراً کھڑا ہو جائے۔ اسے بتلا دیا کہ ہماری طرف آؤ تو کس طریقہ سے پاک ہو کر آؤ۔ یہ بتلانا خود ایک نعمت ہوئی اور بدن کی سطح ظاہر پر پانی ڈالنے یا مٹی ڈالنے یا مٹی لگانے سے اندرونی پاکی عطا فرما دینا یہ دوسری نعمت ہوئی۔ بندہ ابھی پچھلی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر سکا تھا قصد ہی کر رہا تھا کہ یہ جدید انعامات فائض ہوگئے۔ اس لئے ارشاد ہوا للَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ یعنی ان پہلی نعمتوں کو یاد کرنے سے پہلے ان جدید نعمتوں کا جو "احکام وضو" وغیرہ کے ضمن میں مبذول ہوئیں شکر ادا کرنا چاہئے۔ شاید اسی لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن سے حضرت بلال نے تحیۃ الوضو کا سراغ لگایا ہو۔ اس درمیانی نعمت کے شکریہ پر متوجہ کرنے کے بعد اگلی آیت میں ان سابق نعمتوں اور احسانات عظیمہ کو پھر اجمالاً یاد دلاتے ہیں جن کی شکر گزاری کے لئے بندہ اپنے مولا کے حضور میں کھڑا ہونا چاہتا تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں وَاذْکُرُوْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ الخ۔(6)
    | [/url][/TABLE]​
     
  7. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    وَٱذْكُرُوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَٰقَهُ ٱلَّذِى وَاثَقَكُم بِهِۦٓ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ(7)
    اور خدا نے جو تم پر احسان کئے ہیں ان کو یاد کرو اور اس عہد کو بھی جس کا تم سے قول لیا تھا (یعنی) جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے (خدا کا حکم) سن لیا اور قبول کیا۔ اور الله سے ڈرو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا دلوں کی باتوں (تک) سے واقف ہے(7)
    تفسیر
    ف۸ غالباً یہ عہد وہ ہی ہے جو سورہ بقرہ کے آخر میں مومنین کی زبان سے نقل فرمایا تھا۔ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ (سورہ بقرہ رکوع ٤٠'آیت۔٢٨٥) جب صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرتے تھے اس وقت بھی یہ اقرار کرتے تھے کہ ہم اپنی استطاعت کے موافق آپ کی ہر بات کو سنیں گے اور مانیں گے خواہ ہمارے منشاء اور طبیعت کے موافق ہو یا خلاف۔ یہ تو عام عہد تھا۔ اس کے بعد بعض ارکان اسلام یا مناسب حال اہم چیزوں کے متعلق خصوصیت سے بھی عہد لیا جاتا تھا گویا اس سورت کے شروع میں جو "اَوْفُوْا بِا لْعُقُوْدِ" فرمایا تھا، درمیان میں بہت سے احسانات کا ذکر کر کے جن کو سن کر ایفائے عہد کی مزید ترغیب ہوتی ہے پھر وہ ہی اصلی سبق یاد دلایا گیا۔ ف۹ ایک شریف اور حیا دار آدمی کی گردن اپنے محسن اعظم کے سامنے جھک جانی چاہئے۔ مروت و شرافت اور آئندہ مزید احسانات کی توقع اسی کو مقتضی ہے کہ بندہ اس منعم حقیقی کا بالکل تابع فرمان بن جائے، خصوصاً جب کہ زبان سے اطاعت و وفاداری کا پختہ عہد و اقرار بھی کر چکا ہے ممکن ہے حق تعالٰی کی بے انتہا مہربانیاں دیکھ کر بندہ مغرور ہو جائے اس کی نعمتوں کی قدر اور اپنے قول و قرار کی کوئی پروا نہ کرے اس لئے فرمایا "وَاتَّقُوْ اللّٰہَ" یعنی خدا سے ہمیشہ ڈرتے رہو۔ وہ ایک لمحہ میں تم سے سب نعمتیں چھین سکتا ہے اور ناشکری اور بد عہدی کی سزا میں بہت سخت پکڑ سکتا ہے۔ بہرحال مروت، شرافت، امید اور خوف ہرچیز کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کی مخلصانہ اطاعت اور وفاداری میں پوری مستعدی دکھلائیں۔ آگے وہ "عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ" ہے ہم جو کچھ کریں گے وہ ہمارے اخلاص یا نفاق، ریاکاری یا قلبی نیاز مندی کو خوب جانتا ہے۔ فقط زبان سے "سمعنا و اطعنا " کہنے یا شکر گزاری کی رسمی اور ظاہری نمایش سے ہم اس کو دھوکا نہیں دے سکتے۔(7)

    | [/url][/TABLE]​
     
  8. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُونُوا۟ قَوَّٰمِينَ لِلَّهِ شُهَدَآءَ بِٱلْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ ۚ ٱعْدِلُوا۟ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرٌۢ بِمَا تَعْمَلُونَ(8)
    اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے(8)
    تفسیر
    ف۱۰ اس سے پہلی آیت میں مومنین کو حق تعالٰی کے احسانات اور اپنا عہد و پیمان یاد کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہاں بتلا دیا کہ صرف زبان سے یاد کرنا نہیں بلکہ عملی رنگ میں ان سے اس کا ثبوت مطلوب ہے اس آیت میں اسی پر تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بے شمار احسانات اور اپنے عہد و اقرار کو بھلا نہیں دیا تو لازم ہے کہ اس محسن حقیقی کے حقوق ادا کرنے اور اپنے عہد کو سچا کر دکھانے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہو اور جب کوئی حکم اپنے آقائے ولی نعمت کی طرف سے ملے فوراً تعمیل حکم کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور خدا کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق ادا کرنے میں بھی پوری جدو جہد اور اہتمام کرو۔ چنانچہ "قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ" میں "حقوق اللہ کی " اور "شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ" میں "حقوق العباد" کی طرف اشارہ ہے۔ اسی قسم کی آیت وَالْمُحْصَنٰتِ کے آخر میں گزر چکی ہے۔ صرف اس قدر فرق ہے وہاں "بالقسط " کی اور یہاں "للّٰہ" کی تقدیم مناسب ہوئی۔ نیز یہاں لحاق میں مبغوض دشمن سے معاملہ کرنے کا ذکر ہے جس کے ساتھ "قسط" کو یاد دلانے کی ضرورت ہے اور "سورہ نساء" کے لحاق میں محبوب چیزوں کا ذکر ہے اس لئے وہاں سب سے بڑے محبوب (اللہ) کو یاد دلایا گیا۔ ف۱۱ "عدل" کا مطلب ہے کسی شخص کے ساتھ بدون افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔ عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہیے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلوں میں سے کسی پلہ کو جھکا نہ سکے۔ ف۱۲ جو چیزیں شرعاً مہلک یا کسی درجہ میں مضر ہیں اس سے بچاؤ کرتے رہنے سے جو ایک خاص نورانی کیفیت آدمی کے دل میں راسخ ہو جاتی ہے اس کا نام "تقویٰ" ہے۔ تحصیل تقویٰ کے اسباب قریبہ وبعیدہ بہت سے ہیں۔ تمام اعمال حسنہ اور خصال خیر کو اس کے اسباب و معدات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ "عدل و قسط" یعنی دوست و دشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملہ میں جذبات محبت و عداوت سے قطعاً مغلوب نہ ہونا یہ خصلت حصول تقویٰ کے موثر ترین اور قریب ترین اسباب میں سے ہے۔ اسی لئے "ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ" فرمایا (یعنی یہ عدل جس کا حکم دیا گیا تقویٰ سے نزدیک تر ہے) کہ اس کی مزاولت کے بعد تقویٰ کی کیفیت بہت جلد حاصل ہو جاتی ہے۔ ف ۱۳ یعنی ایسا عدل و انصاف جسے کوئی دوستی یا دشمنی نہ روک سکے اور جس کے اختیار کرنے سے آدمی کو متقی بننا سہل ہو جاتا ہے اس کے حصول کا واحد ذریعہ خدا کا ڈر اور اس کی شان انتقام کا خوف ہے۔ اور یہ خوف "اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ" کے مضمون کا بار بار مراقبہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کسی مومن کے دل میں یہ یقین مستحضر ہوگا کہ ہماری کوئی چھپی یا کھلی حرکت حق تعالٰی سے پوشیدہ نہیں تو اس کا قلب خشیتہ الہٰی سے لرزنے لگے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تمام معاملات میں عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرے گا۔ اور احکام الہٰیہ کے امتثال کے لئے غلامانہ تیار رہے گا۔ پھر اس نتیجہ پر ثمرہ وہ ملے گا جسے اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔ وَعْدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الخ۔(8)

    | [/url][/TABLE]​
     
  9. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]

    وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌۭ وَأَجْرٌ عَظِيمٌۭ(9)
    جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے(9)
    تفسیر
    ف۱ یعنی نہ صرف یہ کہ ان کوتاہیوں کو معاف کر دیں گے جو بمقتضائے بشریت رہ جاتی ہیں بلکہ عظیم الشان اجر و ثواب بھی عطا فرمائیں گے۔(9)
    وَٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَكَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَآ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلْجَحِيمِ(10)
    اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں(10)
    تفسیر
    ف ۲ یہ پہلے فریق کے بالمقابل اس جماعت کی سزا ذکر کی گئی جس نے قرآن کریم کے ان صاف و صریح حقائق کو جھٹلایا یا ان نشانات کی تکذیب کی جو سچائی کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے خدا کی طرف سے دکھلائے جاتے ہیں۔(10)
    يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱذْكُرُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوٓا۟ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ(11)
    اے ایمان والو! خدا نے جو تم پر احسان کیا ہے اس کو یاد کرو۔ جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ روک دیئے اور خدا سے ڈرتے رہوں اور مومنو کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے(11)
    تفسیر
    ف۳ عمومی احسانات یاد دلانے کے بعد بعض خصوصی احسان یاد دلاتے ہیں۔ یعنی قریش مکہ اور ان کے پٹھوؤں نے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچانے اور اسلام کو مٹانے کے لئے کس قدر ہاتھ پاؤں مارے مگر حق تعالٰی کے فضل و رحمت نے انکا کوئی داؤ چلنے نہ دیا۔ اس احسان عظیم کا اثر یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان غلبہ اور قابو حاصل کر لینے کے باوجود اپنے دشمنوں کو ہر قسم کے ظلم اور زیادتی سے محفوظ رکھیں اور جوش انتقام میں عدل و انصاف کا رشتہ ہاتھ سے نہ چھوڑیں جیسا کہ پچھلی آیات میں اس کی تاکید کی گئی ہے ممکن ہے کسی کو یہ شبہ گزرے کہ ایسے معاند دشمنوں کے حق میں اس قدر رواداری کی تعلیم کہیں اصول سیاست کے خلاف تو نہ ہوگی۔ کیونکہ ایسا نرم برتاؤ دیکھ کر مسلمانوں کے خلاف شریروں اور بد باطنوں کی جرأت بڑھ جانے کا قوی احتمال ہے اس کا ازالہ "وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤمِنُونَ" سے فرما دیا۔ یعنی مومن کی سب سے بڑی سیاست "تقویٰ " اور "توکل علی اللہ" (خدا سے ڈرنا اور اسی پر بھروسہ کرنا) ہے۔ خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں اس سے اپنا معاملہ صاف رکھو اور جو عہد و اقرار کئے ہیں ان میں پوری وفاداری دکھلاتے رہو۔ پھر بحمد اللہ کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ اگلی آیت میں ہماری عبرت کے لئے ایک ایسی قوم کا ذکر فرما دیا جس نے خدا سے نڈر ہو کر بد عہدی اور غداری کی تھی وہ کس طرح ذلیل و خوار ہوئی۔(11)
    | [/url][/TABLE]​
     
  10. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]

    وَلَقَدْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ ٱثْنَىْ عَشَرَ نَقِيبًۭا ۖ وَقَالَ ٱللَّهُ إِنِّى مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَيْتُمُ ٱلزَّكَوٰةَ وَءَامَنتُم بِرُسُلِى وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًۭا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ(12)
    اور خدا نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور خدا کو قرض حسنہ دو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کر دوں گا اور تم کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں پھر جس نے اس کے بعد تم میں سے کفر کیا وہ سیدھے رستے سے بھٹک گیا(12)
    تفسیر
    ف٤ یعنی کچھ امت محمدیہ ہی کی خصوصیت نہیں پہلی امتوں سے بھی عہد لئے جا چکے ہیں۔ ف۵ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے بارہ سردار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چن لئے تھے جن کے نام بھی مفسرین نے تورات سے نقل کئے ہیں، ان کا فرض یہ تھا کہ وہ اپنی قوم پر عہد پورا کرنے کی تاکید اور ان کے احوال کی نگرانی رکھیں۔ عجب اتفاق یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے جب "انصار" نے "لیلۃ العقبہ" میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تو ان میں سے بھی بارہ ہی "نقیب" نامزد ہوئے۔ ان ہی بارہ آدمیوں نے اپنی قوم کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ جابر بن سمرہ کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے متعلق جو بارہ خلفاء کی پیشین گوئی فرمائی ان کا عدد بھی "نقبائے بنی اسرائیل" کے عدد کے موافق ہے اور مفسرین نے تورات سے نقل کیا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے حق تعالٰی نے فرمایا کہ "میں تیری ذریت میں سے بارہ سردار پیدا کروں گا۔" غالباً یہ وہی "بارہ" ہیں جن کا ذکر جابر بن سمرہ کی حدیث میں ہے۔ ف ٦ یا تو یہ خطاب بارہ سرداروں کو ہے یعنی تم اپنا فرض ادا کرو میری حمایت اور امداد تمہارے ساتھ ہے۔ یا سب بنی اسرئیل کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں یعنی کسی وقت تم مجھے اپنے سے دور مت سمجھو۔ جو کچھ معاملہ تم سرا یا اعلانیۃ کرو گے وہ ہر جگہ اور ہر وقت میں دیکھ رہا اور سن رہا ہوں۔ اس لئے جو کچھ کرو خبردار ہو کر کرو۔ ف ۷ یعنی جو رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آتے رہیں گے ان سب کی تصدیق کرو گے اور دلی تعظیم سے پیش آؤ گے اور دشمنان حق کے مقابلہ پر ان کا پورا ساتھ دو گے۔ جان سے بھی اور مال سے بھی۔ ف ۸ خدا کو قرض دینے سے مراد اس کے دین اور اس کے پیغمبروں کی حمایت میں مال خرچ کرنا ہے۔ جس طرح روپیہ قرض لینے والا اس امید پر دیتا ہے کہ اس کا روپیہ واپس مل جائے گا اور قرض لینے والا اس کے ادا کرنے کو اپنے ذمہ پر لازم کر لیتا ہے، اسی طرح خدا ہی کی دی ہوئی جو چیز یہاں اسی کے راستہ میں خرچ کی جائے گی وہ ہرگز گم یا کم نہیں ہوگی، حق تعالٰی نے کسی مجبوری سے نہیں محض اپنے فضل و رحمت سے اپنے ذمہ لازم کر لیا ہے کہ وہ چیز تم کو عظیم الشان نفع کی صورت میں واپس کر دے۔ ف۹ "اچھی طرح" سے مراد یہ ہے کہ اخلاص سے دو اور اپنے محبوب و مرغوب اور پاک و صاف مال میں سے دو۔ ف ۱۰ یعنی نیکیاں جب کثرت سے ہوں تو وہ برائیوں کو دبا لیتی ہیں۔ جب آدمی خدا کے عہد کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہے تو حق تعالٰی اس کی کمزوریوں کو دور کر کے اپنی خوشنودی اور قرب کے مکان میں جگہ دیتا ہے۔ ف۱۱ یعنی ایسے صاف اور پختہ عہد و پیمان کے بعد بھی جو شخص خدا کا وفادار ثابت نہ ہوا اور غدر و خیانت پر کمر بستہ ہوگیا تو سمجھ لو کہ اس نے کامیابی اور نجات کا سیدھا راستہ گم کر دیا۔ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ہلاکت کے کس گڑھے میں جا کر گرے گا۔ بنی اسرائیل سے جن باتوں کے عہد لینے کا یہاں ذکر ہے وہ یہ ہیں نماز، زکوٰۃ، پیغمبروں پر ایمان لانا، ان کی جان و مال سے مدد کرنا۔ ان میں سے پہلی عبادت بدنی ہے، دوسری عبادت مالی، تیسری قلبی مع لسانی،چوتھی فی الحقیقت تیسری کی اخلاقی تکمیل ہے۔ گویا ان چیزوں کو ذکر کر کے اشارہ فرما دیا کہ جان ومال اور قلب و قالب ہرچیز سے خدا کی اطاعت اور وفا شعاری کا اظہار کرو۔ لیکن بنی اسرائیل نے چن چن کر ایک ایک عہد کی خلاف ورزی کی۔ کسی قول و قرار پر قائم نہ رہے۔ ان عہد شکنیوں کا جو نتیجہ ہوا اسے اگلی آیت میں بیان فرماتے ہیں۔(12)
    | [/url][/TABLE]​
     
  11. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَٰقَهُمْ لَعَنَّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَٰسِيَةًۭ ۖ يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِۦ ۙ وَنَسُوا۟ حَظًّۭا مِّمَّا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَآئِنَةٍۢ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّنْهُمْ ۖ فَٱعْفُ عَنْهُمْ وَٱصْفَحْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ(13)
    تو ان لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی ان کا بھی ایک حصہ فراموش کر بیٹھے اور تھوڑے آدمیوں کے سوا ہمیشہ تم ان کی (ایک نہ ایک) خیانت کی خبر پاتے رہتے ہو تو ان کی خطائیں معاف کردو اور (ان سے) درگزر کرو کہ خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے(13)
    تفسیر
    ف۱۲ "لَـــعْـــن" کے معنی طرد و ابعاد کے ہیں۔ یعنی عہد شکنی اور غداری کی وجہ سے ہم نے اپنی رحمت سے انہیں دور پھینک دیا۔ اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔ "فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِیْثَاقَھُمْ" کے لفظ سے ظاہر فرما دیا کہ ان کے ملعون اور سنگدل ہونے کا سبب عہد شکنی اور بے وفائی ہے جو خود انہی کا فعل ہے۔ اسباب پر مسبب کا مرتب کرنا چونکہ خدا ہی کا کام تھا اس لحاظ سے جَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قَاسِیَۃً کی نسبت اسی کی طرف کی گئی۔ ف۱۳ یعنی خدا کے کلام میں تحریف کرتے ہیں کبھی اس کے الفاظ میں، کبھی معنی میں، کبھی تلاوت میں۔ تحریف کی یہ سب اقسام قرآن کریم اور کتب حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ جس کا قدرے اعتراف آجکل بعض یورپین عیسائیوں کو بھی کرنا پڑا ہے۔ ف۱ یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ ان قیمتی نصیحتوں سے فائدہ اٹھاتے جو مثلاً نبی آخرالزمان کی آمد اور دوسرے مہمات دینیہ کے متعلق ان کی کتابوں میں موجود تھیں مگر اپنی غفلتوں اور شرارتوں میں پھنس کر یہ سب بھول گئے بلکہ نصیحتوں کا وہ ضروری حصہ ہی گم کر دیا اور اب بھی جو نصیحتیں اور مفید باتیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کو یاد دلائی جاتی ہیں ان کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ حافظ ابن رجب حنبلی نے لکھا ہے کہ "نقض عہد" کے سبب سے ان میں دو باتیں آئیں۔ "ملعونیت" اور" قسوت قلب" ان دونوں کا نتیجہ یہ دو چیزیں ہوئیں "تحریف کلام اللہ" اور "عدم انتفاع بالذکر" یعنی لعنت کے اثر سے ان کا دماغ ممسوخ ہوگیا حتیٰ کہ نہایت بے باکی اور بدعقلی سے کتب سماویہ کی تحریف پر آمادہ ہوگئے۔ دوسری طرف جب عہد شکنی کی نحوست سے دل سخت ہوگئے تو قبول حق اور نصیحت سے متاثر ہونے کا مادہ نہ رہا اس طرح علمی اور عملی دونوں قسم کی قوتیں ضائع کر بیٹھے۔ ف۲ یعنی دغا بازی اور خیانت کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا۔ اسی لئے ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی دغا بازی اور مکرو فریب پر آپ مطلع ہوتے رہتے ہیں۔ ف۳ یعنی عبد اللہ بن سلام وغیرہ جو اسلام میں داخل ہو چکے۔ ف ٤ یعنی جب ان کی عادت قدیمہ ہی یہ ہے تو ایسے لوگوں سے ہر جزئی پر الجھنے اور ان کی ہر خیانت کا پردہ فاش کرنے کی ضرورت نہیں، ان کو چھوڑیے اور درگزر کیجئے اور ان کی برائی کا بدلہ عفو و احسان سے دیجئے شاید اسی سے کچھ متاثر ہوں۔ قتادہ وغیرہ نے کہا ہے یہ آیت منسوخ ہے۔ قَاتِلُو ا الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاَخِرِ الخ سے مگر اس کی کچھ حاجت نہیں۔ قتال کے حکم سے یہ لازم نہیں آتا کہ کسی وقت اور کسی موقع پر بھی ایسی قوم کے مقابلہ میں عفو و درگزر اور تالیف قلب سے کام نہ لیا جاسکے۔(13)

    | [/url][/TABLE]​
     
  12. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    وَمِنَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّا نَصَٰرَىٰٓ أَخَذْنَا مِيثَٰقَهُمْ فَنَسُوا۟ حَظًّۭا مِّمَّا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ ٱلْعَدَاوَةَ وَٱلْبَغْضَآءَ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ ٱللَّهُ بِمَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ(14)
    اور جو لوگ (اپنے تئیں) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے ان سے بھی عہد لیا تھا مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جو ان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کر دیا تو ہم نے ان کے باہم قیامت تک کے لیے دشمنی اور کینہ ڈال دیا اور جو کچھ وہ کرتے رہے خدا عنقریب ان کو اس سے آگاہ کرے گا(14)
    تفسیر
    ف ۵ "نصاریٰ" کا ماخذ یا تو "نصر" ہے جس کے معنی مدد کرنے کے ہیں اور "ناصرہ" کی طرف نسبت ہے جو ملک شام میں اس بستی کا نام ہے جہاں حضرت مسیح علیہ السلام رہے تھے۔ اسی لئے ان کو "مسیح ناصری" کہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے کو "نصاریٰ" کہتے تھے وہ گویا اس بات کے مدعی تھے کہ ہم خدا کے سچے دین اور پیغمبروں کے حامی و ناصر اور حضرت مسیح ناصری کے متبع ہیں اس زبانی دعوے اور لقبی تفاخر کے باوجود دین کے معاملہ میں جو رویہ تھا وہ آگے ذکر کیا گیا ہے۔ ف ٦ یعنی یہود کی طرح ان سے بھی عہد لیا گیا لیکن یہ بھی عہد شکنی اور بے وفائی میں اپنے پیشرووں سے کچھ کم نہیں رہے۔ انہوں نے بھی ان بیش بہا نصائح سے جن پر نجات و فلاح ابدی کا مدار تھا کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ "بائبل" میں نصیحتوں کا وہ حصہ باقی ہی نہ چھوڑا جو حقیقۃ مذہب کا مغز تھا۔ ف۷ یعنی باہم "نصاریٰ" میں یا "یہود" اور "نصاریٰ" دونوں میں عداوتیں اور جھگڑے ہمیشہ کے لئے قائم ہوگئے۔ آسمانی سبق کو ضائع کرنے اور بھلا دینے کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا وہ ہوا۔ یعنی جب وحی الہٰی کی اصلی روشنی ان کے پاس نہ رہی تو اوہام و اہوا کے اندھیریوں میں ایک دوسرے سے الجھنے لگے۔ مذہب تو نہ رہا پر مذہب کے جھگڑے رہ گئے۔ یہ ہی فرقے پیدا ہو کر اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ یہ ہی فرقہ وار تصادم آخرکار آپس کی شدید ترین عداوت و بغض پر منتہی ہوا۔ کوئی شبہ نہیں کہ آج مسلمانوں میں بھی بیحد تفرق و تشتت اور مذہبی تصادم موجود ہے لیکن چونکہ ہمارے پاس وحی الہٰی اور قانون سماوی بحمد اللہ بلا کم و کاست محفوظ ہے۔ اس لئے اختلافات کی موجودگی میں بھی مسلمانوں کی بہت بڑی جماعت برابر مرکز حق و صداقت پر قائم رہی ہے اور رہے گی۔ اس کے برخلاف "یہود" و "نصاریٰ" کے اختلافات یا مثلاً "پروٹسٹنٹ" اور "رومن کیتھولک" وغیرہ فرقوں کی باہمی مخالفت میں کوئی ایک فریق بھی نہ آج شاہراہ حق و صداقت پر قائم ہے اور نہ قیامت تک ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ وحی الہٰی کی روشنی کو جس کے بدون کوئی انسان خدا تعالٰی اور اس کے قوانین کی صحیح معرفت حاصل نہیں کر سکتا اپنی بے اعتدالیوں اور غلط کاریوں سے ضائع کر چکے ہیں۔ اب جب تک وہ اس محرف "بائبل" کے دامن سے وابستہ رہیں گے محال ہے کہ قیامت تک ان کو رانہ اور محض بے اصول اختلافات اور فرقہ وار بغض وعناد کی ظلمت سے نکل کر حق کا راستہ دیکھ سکیں اور نجات ابدی کی شاہراہ پر چل سکیں۔ باقی جو لوگ آج نفس مذہب خصوصاً عیسائیت کا مذاق اڑاتے ہیں اور جنہوں نے لفظ "مسیحیت" یا موجودہ "بائبل" کو محض چند سیاسی ضرورتوں کے لئے رکھ چھوڑا ہے اس آیت میں ان "نصاریٰ" کا ذکر نہیں اور اگر مان لیا جائے کہ وہ بھی آیت کے تحت میں داخل ہیں تو ان کی باہمی عداوتیں اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ ریشہ دوانیاں اور اعلانیہ محاربات بھی باخبر اصحاب پر پوشیدہ نہیں ہیں۔ ف۸ یعنی جب تک وہ رہیں گے یہ اختلافات اور بغض و عناد بھی ہمیشہ رہے گا۔ یہاں "قیامت تک" کا لفظ ایسا ہے جیسے ہمارے محاورات میں کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص تو قیامت تک بھی فلاں حرکت سے باز نہ آئے گا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ شخص قیامت تک زندہ رہے گا اور یہ حرکت کرتا رہے گا۔ مراد یہ ہے کہ اگر قیامت تک بھی زندہ رہے تو اس بات کو نہ چھوڑے گا۔ اسی طرح آیت میں "الـٰـی یـوم الـقیــامۃ" کا لفظ آنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ "یہود" و "نصاریٰ" کا وجود قیامت تک رہے جیسا کہ ہمارے زمانے کے بعض مبطلین نے اپنی تفسیر میں لکھ دیا ہے۔ ف۹ یعنی آخرت میں پوری طرح اور دنیا میں بھی بعض واقعات کے ذریعہ سے ان کو اپنی کرتوت کا نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔(14)

    | [/url][/TABLE]​
     
  13. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًۭا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَيَعْفُوا۟ عَن كَثِيرٍۢ ۚ قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌۭ وَكِتَٰبٌۭ مُّبِينٌۭ(15)
    اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر (آخرالزماں) آ گئے ہیں کہ جو کچھ تم کتاب (الہٰی) میں سے چھپاتے تھے وہ اس میں سے بہت کچھ تمہیں کھول کھول کر بتا دیتے ہیں اور تمہارے بہت سے قصور معاف کر دیتے ہیں بےشک تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آ چکی ہے(15)
    تفسیر
    ف۱۰ یہ سب "یہود" و "نصاریٰ" کو خطاب ہے کہ وہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم جن کی آمد کی بشارت تمہاری کتابوں میں اس قدر تحریف ہونے پر بھی کسی نہ کسی عنوان سے موجود ہیں۔ تشریف لے آئے جن کے منہ میں خدا نے اپنا کلام ڈالا ہے اور جنہوں نے ان حقائق کی تکمیل کی جو حضرت مسیح ناتمام چھوڑ گئے تھے "تورات" و "انجیل" کی جن باتوں کو تم چھپاتے تھے اور بدل سدل کر بیان کرتے تھے ان میں ان کی سب ضروری باتیں اس نبی آخر الزمان نے ظاہر فرما دیں اور جن باتوں کی اب چنداں ضرورت نہ تھی ان سے درگزر کیا۔(15)
    يَهْدِى بِهِ ٱللَّهُ مَنِ ٱتَّبَعَ رِضْوَٰنَهُۥ سُبُلَ ٱلسَّلَٰمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذْنِهِۦ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ(16)
    جس سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھیرے میں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا اور ان کو سیدھے رستہ پر چلاتا ہے(16)
    تفسیر
    ف١۱ شاید "نور" سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور "کتاب مبین" سے قرآن کریم مراد ہے۔ یعنی یہود و نصاریٰ جو وحی الہٰی کی روشنی کو ضائع کر کے اہواء وآراء کی تاریکیوں اور باہمی خلاف و شقاق کے گڑھوں میں پڑے دھکے کھا رہے ہیں جس سے نکلنے کا بحالت موجودہ قیامت تک امکان نہیں ان سے کہہ دو کہ خدا کی سب سے بڑی روشنی آگئی اگر نجات ابدی کے صحیح راستہ پر چلنا چاہتے ہو تو اس روشنی میں حق تعالٰی کی رضا کے پیچھے چل پڑو سلامتی کی راہیں کھلی پاؤ گے اور اندھیرے سے نکل کر اجالے میں بے کھٹکے چل سکو گے۔ اور جس کی رضا کے تابع ہو کر چل رہے ہو اسی کی دستگیری سے صراط مستقیم کو بے تکلف طے کر لو گے۔(16)
    لَّقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ ٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًۭا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ(17)
    جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ عیسیٰ بن مریم خدا ہیں وہ بےشک کافر ہیں (ان سے) کہہ دو کہ اگر خدا عیسیٰ بن مریم کو اور ان کی والدہ کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو اس کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے؟ اور آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب پر خدا ہی کی بادشاہی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے(17)
    تفسیر
    ف۱٢ یعنی مسیح کے علاوہ خدا کوئی اور چیز نہیں کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ نصاریٰ میں سے "فرقہ یعقوبیہ" کا ہے جس کے نزدیک مسیح کے قالب میں خدا حلول کئے ہوئے ہے (معاذاللہ) یا یوں کہا جائے کہ جب "نصاریٰ" حضرت مسیح کی نسبت "الوہیت" کے قائل ہیں اور ساتھ ہی توحید کا بھی زبان سے اقرار کرتے جاتے ہیں یعنی خدا ایک ہی ہے تو ان دونوں دعووں کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک مسیح کے سوا کوئی خدا نہ ہو۔ بہرحال کوئی صورت لی جائے اس عقیدہ کے کفر صریح ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ ف۱ یعنی اگر فرض کرو خدائے قادر و قہار یہ چاہے کہ حضرت مسیح اور مریم اور اگلے پچھلے کل زمین پر بسنے والوں کو اکٹھا کر کے ایک دم میں ہلاک کر دے، تو تم ہی بتلاؤ کہ اس کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے۔ یعنی ازل و ابد کے سارے انسان بھی اگر فرض کرو مجتمع کر دیے جائیں اور خدا ایک آن میں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو سب کی اجتماعی قوت بھی خدا کے ارادہ کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی نہیں کر سکتی۔ کیونکہ مخلوقات کی قدرت جو عطائی اور محدود ہے خدا کی ذاتی اور لا محدود قدرت کے مقابلہ میں عاجز محض ہے جس کا اعتراف خود وہ لوگ بھی کرتے ہیں جن کے رد میں یہ خطاب کیا جا رہا ہے بلکہ خود مسیح ابن مریم بھی جن کو یہ لوگ خدا بنا رہے ہیں اسکے معترف ہیں چنانچہ مرقس کی انجیل میں حضرت مسیح کا یہ مقولہ موجود ہے۔ "اے باپ ہرچیز تیری قدرت کے تحت میں ہے تو مجھ سے یہ (موت کا) پیالہ ٹلا دے اس طرح نہیں جو میں چاہتا ہوں بلکہ اس طرح جیسے تیرا ارادہ ہے" پس جب حضرت مسیح علیہ السلام جن کو تم خدا کہتے ہو اور ان کی والدہ ماجدہ مریم صدیقہ جو تمہارے زعم میں خدا کی ماں ہوئیں۔ وہ دونوں بھی تمام من فی الارض کے ساتھ مل کر خدا کی مشیت و ارادہ کے سامنے عاجز ٹھرے تو خود سوچ لو کہ ان کی یا ان کی والدہ یا کسی اور مخلوق کی نسبت خدائی کا دعویٰ کرنا کس قدر گستاخی اور شوخ چشمی ہو گی۔ آیت کی اس تقریر میں ہم نے "ہلاک" کو "موت" کے معنی میں لیا ہے۔ مگر جمیعاً کے لفظ کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جو مدلول لفظ جمیعاً کا ہم نے بیان کیا وہ ائمہ عربیہ کی تصریحات کے عین موافق ہے۔ اس کے سوا یہ بھی ممکن ہے کہ آیت میں "ہلاک" کے معنی موت کے نہ لیے جائیں جیسا کہ راغب نے لکھا ہے کبھی "ہلاک" کے معنی ہوتے ہیں "کسی چیز کا مطلقاً فنا اور نیست و نابود ہو جانا۔" مثلاً کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ، یعنی خدا کی ذات کے سوا ہرچیز نابود ہونے والی ہے۔ اس معنی پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر خدائے قدیر حضرت مسیح اور ان کی والدہ اور تمام من فی الارض کو قطعاً نیست و نابود اور بالکلیہ فنا کر ڈالنے کا ارادہ کر لے تو کون ہے جو اس کے ارادہ کو روک دے گا اوست سلطان ہر چہ خواہدآں کند عالمے رادردمے ویراں کند۔ حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں اللہ تعالٰی کسی جگہ نبیوں کے حق میں ایسی بات فرماتے ہیں تاکہ ان کی امت بندگی کی حد سے زیادہ نہ چڑھا دے واِلاَّ نبی اس لائق کا ہے کہ ان کے مرتبہ عالی اور وجاہت عند اللہ کا خیال کرتے ہوئے ایسا خطاب کیا جاتا۔ ف۲ جو چاہے اور جس طرح چاہے۔ مثلاً حضرت "مسیح" کو بدون باپ کے حضرت "حوا " کو بدون ماں کے اور حضرت آدم علیہ السلام کو بدون ماں اور باپ کے پیدا کر دیا۔ ف ۳ کسی کا زور اس کے سامنے نہیں چل سکتا۔ سب اخیار وابرار بھی وہاں مجبور ہیں۔(17)

    | [/url][/TABLE]​
     
  14. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]

    وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ وَٱلنَّصَٰرَىٰ نَحْنُ أَبْنَٰٓؤُا۟ ٱللَّهِ وَأَحِبَّٰٓؤُهُۥ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌۭ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ(18)
    اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں کہو کہ پھر وہ تمہاری بداعمالیوں کے سبب تمھیں عذاب کیوں دیتا ہے (نہیں) بلکہ تم اس کی مخلوقات میں (دوسروں کی طرح کے) انسان ہو وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمان زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب پر خدا ہی کی حکومت ہے اور (سب کو) اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے(18)
    تفسیر
    ف ٤ شاید اپنے کو "بیٹے" یعنی اولاد اس لئے کہتے ہوں کہ ان کی "بائبل " میں خدا نے اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) کو اپنا پہلوٹا بیٹا اور اپنے کو اس کا باپ کہا ہے۔ ادھر نصاریٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو "ابن اللہ" مانتے ہیں تو اسرائیل کی اولاد اور حضرت مسیح کی امت ہونے کی وجہ سے غالباً ابناء اللہ کا لفظ اپنی نسبت استعمال کیا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ "بیٹا" کہنے سے مراد یہ ہو کہ ہم خدا کے خواص اور محبوب ہونے کی وجہ سے گویا اولاد ہی جیسے ہیں۔ اس صورت میں "ابــناء" کا حاصل وہ ہی ہو جائے گا جو لفظ "احبــاء" کا ہے۔ ف۵ چونکہ کسی مخلوق کا حقیقۃً "ابن اللہ" ہونا بالکل محال اور بد یہی البطلان ہے اور خدا کا محبوب بن جانا ممکن تھا۔ یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہ، (مائدہ رکوع٨'آیت۔ ٥٤) اس لئے اس جملہ میں اول "محبوبیت" (پیارے ہونے) کے دعوے کا رد کیا گیا یعنی جو قوم اعلانیہ بغاوتوں اور شدید ترین گناہوں کی بدولت یہاں بھی کئی طرح کی رسوائیوں اور عذاب میں گرفتار ہو چکی اور آخرت میں بھی حبس دوام کی سزا کا عقلاً و نقلاً استحقاق رکھتی ہے۔ کیا ایسی باغی و عاصی قوم کی نسبت ایک لمحہ کے لئے بھی کوئی ذی شعور یہ خیال کر سکتا ہے کہ وہ خدا کی محبوب اور پیاری ہوگی؟ خدا سے کسی کا نسبی رشتہ نہیں۔ اسکا پیار اور اس کی محبت صرف اطاعت اور حسن عمل سے حاصل ہوسکتی ہے۔ ایسے کٹر مجرموں کو جو سخت سزا کے مستحق اور مورد بن چکے ہوں، شرمانا چاہیے کہ وہ "نَحْنُ اَبْنَاءُ اللّٰہِ وَ اَحِبَّاوُہ،" کا دعویٰ کریں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو باوجودیکہ انکا صلبی بیٹا تھا خدا نے فرما دیا اِنَّہ، لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہ، عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ (ہود، رکوع٤'آیت۔ ٤٦) ف ٦ "بَشَر" اصل لغت میں کھال کی اوپر والی سطح کو کہتے ہیں۔ تھوڑی سی مناسبت سے آدمی کو "بشر" کہنے لگے۔ شاید اس لفظ کے یہاں اختیار کرنے میں یہ نکتہ ہو کہ تم کو خدا کا بیٹا اور پیارا تو درکنار، شریف اور ممتاز انسان بھی نہیں کہا جاسکتا۔ صرف بشرہ اور شکل و صورت کے لحاظ سے خدا کے پیدا کئے ہوئے ایک معمولی آدمی کہلائے جاسکتے ہو جن کی پیدائش بھی اسی معتاد طریقہ سے ہوئی ہے جس طرح عام انسانوں کی ہوتی ہے۔ پھر بھلا "ابنیت" کا وہم کدھر سے راہ پا سکتا ہے۔ ف۷ کیونکہ وہ ہی جانتا ہے کہ کون بخشنے کے لائق ہے اور کسے سزا دی جائے۔ ف۸ تو جسے وہ اپنی رحمت اور حکمت سے معاف کرنا چاہے یا عدل و انصاف سے سزا دینا چاہے اس میں کون مزاحم ہو سکتا ہے نہ کسی مجرم کے لئے یہ گنجائش ہے کہ اس کے قلمر و آسمان و زمین سے باہر نکل جائے اور نہ یہ کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کہیں اور بھاگ جائے۔(18)
    | [/url][/TABLE]​
     
  15. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]

    يَٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍۢ مِّنَ ٱلرُّسُلِ أَن تَقُولُوا۟ مَا جَآءَنَا مِنۢ بَشِيرٍۢ وَلَا نَذِيرٍۢ ۖ فَقَدْ جَآءَكُم بَشِيرٌۭ وَنَذِيرٌۭ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ(19)
    اے اہلِ کتاب پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جو (ایک عرصے تک) منقطع رہا تو (اب) تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آ گئے ہیں جو تم سے (ہمارے احکام) بیان کرتے ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری یا ڈر سنانے والا نہیں آیا سو (اب) تمہارے پاس خوشخبری اور ڈر سنانے والے آ گئے ہیں اور خدا ہر چیز پر قادر ہے(19)
    تفسیر
    ف۹ یعنی ہمارے احکام و شرائع نہایت توضیح کے ساتھ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ اس رکوع کے شروع سے "بنی اسرائیل" (یہود و نصاریٰ) کے مختلف قسم کی شرارتوں اور حماقتوں کو بیان فرما کر یہ بتلایا تھا کہ اب ہمارا رسول تمہارے پاس آچکا جو تمہاری غلط کاریوں کو واضح کرتا ہے اور تم کو ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد اس پر متنبہ فرمایا کہ اب نور ہدایت کی طرف جانا دو چیزوں پر موقوف ہے۔ ایک یہ کہ خدا تعالٰی کی صحیح معرفت حاصل کرو اور مخلوق و خالق کے تعلق کے متعلق غلط عقیدے مت جماؤ۔" لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ "سے یہاں تک اسی جزو کا بیان تھا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ جو تمام انبیائے سابقین کے کمالات کے جامع اور شرائع الہٰیہ کے سب سے بڑے اور آخری شارح ہیں۔ اس جزو کا بیان اس آیت یَا اَھْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ الخ میں کیا گیا ہے۔ ف ۱۰ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد تقریباً چھ سو برس سے انبیاء کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا۔ ساری دنیا الا ما شاء اللہ جہل، غفلت اور اوہام و اہواء کی تاریکیوں میں پڑی تھی۔ ہدایت کے چراغ گل ہو چکے تھے۔ ظلم و عدوان اور فساد و الحاد کی گھٹا تمام آفاق پر چھا رہی تھی۔ اس وقت سارے جہان کی اصلاح کے لئے خدا نے سب سے بڑا "ہادی" اور "نذیر" و "بشیر" بھیجا، جو جاہلوں کو فلاح دارین کے راستے بتلائے۔ غافلوں کو اپنے انذار و تخویف سے بیدار کرے اور پست ہمتوں کو بشارتیں سنا کر ابھارے۔ اس طرح ساری مخلوق پر خدا کی حجت تمام ہوگئی۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ ف ۱۱ یعنی تم اگر اس پیغمبر کی بات نہ مانو گے تو خدا کو قدرت ہے کہ کوئی دوسری قوم کھڑی کر دے جو اس کے پیغام کو پوری طرح قبول کرے گی اور پیغمبر کا ساتھ دے گی خدا کا کام کچھ تم پر موقوف نہیں۔(19)
    | [/url][/TABLE]​
     
  16. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]

    وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ يَٰقَوْمِ ٱذْكُرُوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنۢبِيَآءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًۭا وَءَاتَىٰكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًۭا مِّنَ ٱلْعَٰلَمِينَ(20)
    اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم پر خدا نے جو احسان کئے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تم کو اتنا کچھ عنایت کیا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہیں دیا(20)
    تفسیر
    ف۱۲ موضح القرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کا وطن چھوڑ نکلے اللہ کی راہ میں اور ملک شام میں آکر ٹھہرے اور مدت تک ان کے اولاد نہ ہوئی تب اللہ تعالٰی نے بشارت دی کہ تیری اولاد بہت پھیلاؤں گا اور زمین شام ان کو دوں گا اور نبوت، دین، کتاب اور سلطنت ان میں رکھوں گا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت وہ وعدہ پورا کیا۔ بنی اسرائیل کو فرعون کی بیگار سے خلاص کیا اور اس کو غرق کیا اور ان کو فرمایا کہ جہاد کرو عمالقہ سے، ملک شام فتح کر لو۔ پھر ہمیشہ وہ ملک شام تمہارا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارہ شخص بارہ قبائل بنی اسرائیل پر سردار کئے تھے ان کو بھیجا کہ اس ملک کی خبر لاویں وہ خبر لائے تو ملک شام کی بہت خوبیاں بیان کیں اور وہاں جو عمالقہ مسلط تھے ان کا زور و قوت بیان کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو کہا کہ تم قوم کے سامنے ملک کی خوبی بیان کرو اور دشمن کی قوت کا ذکر مت کرو۔ ان میں سے دو شخص اس حکم پر رہے اور دس نے خلاف کیا۔ قوم نے سنا تو نامردی کرنے لگی اور چاہا کہ پھر الٹے مصر چلے جائیں۔ اس تقصیر کی وجہ سے چالیس برس فتح میں دیر لگی۔ اس قدر مدت جنگلوں میں بھٹکتے پھرتے رہے۔ جب اس قرن کے لوگ مر چکے مگر وہ دو شخص کہ وہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد خلیفہ ہوئے ان کے ہاتھ سے فتح ہوئی۔ ف ۱۳ یعنی تمہارے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آج تک کتنے نبی تم میں پیدا کئے۔ مثلاً حضرت اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف اور خود موسیٰ و ہارون علیہم الصلوٰۃ والسلام پھر ان کے بعد بھی یہ ہی سلسلہ مدت دراز تک ان میں قائم رکھا۔ ف۱٤ یعنی فرعونیوں کی ذلیل ترین غلامی سے آزادی دلا کر ان کے اموال و املاک پر قبضہ کیا اور اس سے پہلے تم ہی میں سے حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کے خزائن اور سلطنت پر کیسا تسلط عطا فرمایا۔ پھر مستقبل میں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام وغیرہ نبی اور بادشاہ پیدا کئے گویا دین اور دنیا دونوں کی اعلیٰ نعمتوں سے تم کو سرفراز کیا۔ کیونکہ دینی مناصب میں سب سے بڑا منصب نبوت اور دنیاوی اقبال کی آخری حد آزادی اور بادشاہت ہے یہ دونوں چیزیں مرحمت کی گئیں۔ ف۱ یعنی اس وقت جب موسیٰ علیہ السلام کو یہ خطاب فرما رہے تھے بنی اسرائیل پر تمام دنیا کے لوگوں سے زیادہ خدا کی نوازشیں ہوئیں اور اگر "اَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِیْنَ" کا عموم پر حمل کیا جائے تو یہ اس لئے صحیح نہیں کہ امت محمدیہ کی نسبت خود قرآن میں تصریح ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران رکوع١٢'آیت١١٠) اور وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدآءَ عَلَی النَّاسِ(بقرہ رکوع١٧'آیت ١٤٣)۔(20)
    | [/url][/TABLE]​
     
  17. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    يَٰقَوْمِ ٱدْخُلُوا۟ ٱلْأَرْضَ ٱلْمُقَدَّسَةَ ٱلَّتِى كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا۟ عَلَىٰٓ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا۟ خَٰسِرِينَ(21)
    تو بھائیو! تم ارض مقدس (یعنی ملک شام) میں جسے خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھا ہے چل داخل ہو اور (دیکھنا مقابلے کے وقت) پیٹھ نہ پھیر دینا ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے(21)
    تفسیر
    ف۲ یعنی خدا نے پیشتر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ تیری اولاد کو یہ ملک دونگا وہ و عدہ ضرور پورا ہونا ہے۔ خوش قسمت ہونگے وہ لوگ جن کے ہاتھوں پر پورا ہو۔ ف۳ یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں بزدلی اور پست ہمتی دیکھ کر غلامی کی زندگی کی طرف مت بھاگو۔(21)
    قَالُوا۟ يَٰمُوسَىٰٓ إِنَّ فِيهَا قَوْمًۭا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا۟ مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا۟ مِنْهَا فَإِنَّا دَٰخِلُونَ(22)
    وہ کہنے لگے کہ موسیٰ! وہاں تو بڑے زبردست لوگ (رہتے) ہیں اور جب تک وہ اس سرزمین سے نکل نہ جائیں ہم وہاں جا نہیں سکتے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم جا داخل ہوں گے(22)
    تفسیر
    ف٤یعنی بہت قوی ہیکل تنومند اور پر رعب۔ ف۵ یعنی مقابلہ کی ہمت ہم میں نہیں ہاں بدون ہاتھ پاؤں ہلائے پکی پکائی کھا لیں گے آپ معجزہ کے زور سے انہیں نکال دیں۔(22)
    قَالَ رَجُلَانِ مِنَ ٱلَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمَا ٱدْخُلُوا۟ عَلَيْهِمُ ٱلْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَٰلِبُونَ ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَتَوَكَّلُوٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ(23)
    جو لوگ (خدا سے) ڈرتے تھے ان میں سے دو شخص جن پر خدا کی عنایت تھی کہنے لگے کہ ان لوگوں پر دروازے کے رستے سے حملہ کردو جب تم دروازے میں داخل ہو گئے تو فتح تمہارے ہے اور خدا ہی پر بھروسہ رکھو بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو(23)
    تفسیر
    ف ٦ دو شخص حضرت یوشع بن نون اور کالب بن یوحنا تھے جو خدا سے ڈرتے تھے اسی لئے عمالقہ وغیرہ کا کچھ ڈر ان کو نہ رہا۔ ہر کہ تر سید از حق و تقویٰ گزید ترسد ازوے جن وانس و ہر کہ دید ف ۷ یعنی ہمت کر کے شہر کے پھاٹک تک تو چلو پھر خدا تم کو غالب کرے گا خدا اسی کی مدد کرتا ہے جو خود بھی اپنی مدد کرے۔ ف ۸ معلوم ہوا کہ اسباب مشروعہ کو ترک کرنا توکل نہیں۔ "توکل" یہ ہے کہ کسی نیک مقصد کے لئے انتہائی کوشش اور جہاد کرے پھر اس کے مثمر و منتج ہونے کے لئے خدا پر بھروسہ رکھے اپنی کوشش پر نازاں اور مغرور نہ ہو۔ باقی اسباب مشروعہ کو چھوڑ کر خالی امیدیں باندھتے رہنا توکل نہیں تعطل ہے۔(23)

    | [/url][/TABLE]​
     
  18. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    قَالُوا۟ يَٰمُوسَىٰٓ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَآ أَبَدًۭا مَّا دَامُوا۟ فِيهَا ۖ فَٱذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَٰتِلَآ إِنَّا هَٰهُنَا قَٰعِدُونَ(24)
    وہ بولے کہ موسیٰ! جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ہم کبھی وہاں نہیں جا سکتے (اگر لڑنا ہی ضرور ہے) تو تم اور تمہارا خدا جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے(24)
    تفسیر
    ف۹ یہ اس قوم کا مقولہ ہے جو نحن ابناء اللہ و احباوہ"کا دعویٰ رکھتی تھی مگر یہ گستاخانہ کلمات ان کے مستمر تمرد و طغیان سے کچھ بھی مستبعد نہیں۔(24)
    قَالَ رَبِّ إِنِّى لَآ أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِى وَأَخِى ۖ فَٱفْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ ٱلْقَوْمِ ٱلْفَٰسِقِينَ(25)
    موسیٰ نے (خدا سے) التجا کی کہ پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی کردے(25)
    تفسیر
    ف ۱۰ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سخت دلگیر ہو کر یہ دعا فرمائی۔ چونکہ تمام قوم کی عدول حکمی اور بزدلانہ عصیان کو مشاہدہ فرما رہے تھے۔ اس لئے دعا میں بھی اپنے اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے سوا کہ وہ بھی نبی معصوم تھے اور کسی کا ذکر نہیں کیا۔ یوشع اور کالب بھی دونوں کے ساتھ تبعاً آگئے۔(25)
    قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةًۭ ۛ يَتِيهُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْفَٰسِقِينَ(26)
    خدا نے فرمایا کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لیے حرام کر دیا گیا (کہ وہاں جانے نہ پائیں گے اور جنگل کی) زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرو(26)
    تفسیر
    ف١ یعنی جدائی کی دعا حسی اور ظاہری طور پر تو قبول نہ ہوئی۔ ہاں معناً جدائی ہو گئی کہ وہ سب تو عذاب الہٰی میں گرفتار ہو کر حیران و سرگرداں پھرتے تھے اور حضرت موسیٰ ہارون علیہما السلام پیغمبرانہ اطمینان اور پورے قلبی سکون کے ساتھ اپنے منصب ارشاد و اصلاح پر قائم رہے جیسے کسی بستی میں عام وبا پھیل پڑے اور ہزاروں بیماروں کے مجمع میں دو چار تندرست اور قوی القلب ہوں جو ان کے معالجہ، چارہ سازی اور تفقد احوال میں مشغول رہیں۔ اگر "فافرق بیننا" کا ترجمہ جدائی کر دے کی جگہ"فیصلہ کر دے" ہوتا تو یہ مطلب زیادہ واضح ہو جاتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ سب قصہ اہل کتاب کو سنایا اس پر کہ تم پیغمبر آخرالزمان کی رفاقت نہ کرو گے جیسے تمہارے اجداد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رفاقت چھوڑ دی تھی اور جہاد سے جان چرا بیٹھے تھے تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہو گی چنانچہ نصیب ہوئی۔ ایک لمحہ کے لئے اس سارے رکوع کو سامنے رکھ کر امت محمدیہ کے احوال پر غور کیجئے ان پر خدا کے وہ انعامات ہوئے جو نہ پہلے کسی امت پر ہوئے نہ آئندہ ہونگے۔ ان کے لئے خاتم الانبیاء سیدالرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو ابدی شریعت دیکر بھیجا۔ ان میں وہ علماء اور ائمہ پیدا کئے جو باوجود غیر نبی ہونے کے انبیاء کے وظائف کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ ایسے ایسے خلفاء نبی علیہ السلام کے بعد امت کے قائد بنے جنہوں نے سارے جہان کو اخلاق اور اصول سیاست وغیرہ کی ہدایت کی۔ اس امت کو بھی جہاد کا حکم ہوا۔ عمالقہ کے مقابلہ میں نہیں روئے زمین کے تمام جبارین کے مقابلہ میں۔ محض سرزمین "شام" فتح کرنے کے لئے نہیں بلکہ شرق وغرب میں کلمۃ اللہ بلند کرنے اور فتنہ کی جڑ کاٹنے کے لئے بنی اسرائیل سے خدا نے ارض مقدسہ کا وعدہ کیا تھا لیکن اس امت سے یہ فرمایا وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضَیٰ لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا (نو رکوع٧'آیت ٥٥) اگر بنی اسرائیل کو موسیٰ علیہ السلام نے جہاد میں پیٹھ پھیرنے سے منع کیا تھا تو اس امت کو بھی خدا نے اس طرح خطاب کیا یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا اِذَالَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلاَ تُوَ لُّو ھُمُ الْاَدْبَارَ (انفال، رکوع٢'آیت١٥) انجام یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفقا تو عمالقہ سے ڈر کر یہاں تک کہہ گزرے کہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۔ تم اور تمہارا پروردگار جا کر لڑ لو ہم یہاں بیٹھے ہیں لیکن اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ خدا کی قسم اگر آپ سمندر کی موجوں میں گھس جانے کا حکم دیں گے تو ہم اسی میں کود پڑیں گے اور ایک شخص بھی ہم میں سے علیحدہ نہیں رہے گا۔ امید ہے کہ خدا آپ کو ہماری طرف سے وہ چیز دکھلائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ ہم اپنے پیغمبر کے ساتھ ہو کر اس کے دائیں اور بائیں آگے اور پیچھے ہر طرف جہاد کریں گے۔ خدا کے فضل سے ہم وہ نہیں ہیں جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا تھا " اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ اسی کا نتیجہ ہے کہ جتنی مدت بنی اسرائیل فتوحات سے محروم ہو کر "وادی تیہ"میں بھٹکتے رہے اس سے کم مدت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے مشرق و مغرب میں ہدایت و ارشاد کا جھنڈا گاڑ دیا۔ رضی اللّٰہ عنھم و رضواعنہ ذٰلک لمن خشی ربہ۔(26)

    | [/url][/TABLE]​
     
  19. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]

    وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ٱبْنَىْ ءَادَمَ بِٱلْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًۭا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ ٱلْءَاخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْمُتَّقِينَ(27)
    اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے خدا (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ خدا پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے(27)
    تفسیر
    ف٢ یعنی آدم کے دو صلبی بیٹوں قابیل و ہابیل کا قصہ ان کو سناؤ۔ کیونکہ اس قصہ میں ایک بھائی کے دوسرے بھائی کی مقبولیت اور تقویٰ پر حسد کرنے اور اسی غیظ میں اس کو ناحق قتل کر ڈالنے کا ذکر ہے اور ناحق خون کرنے کی عواقب بیان کئے ہیں۔ پچھلے رکوع میں یہ بتلایا تھا کہ بنی اسرائیل کو جب یہ حکم دیا گیا کہ ظالموں اور جابروں سے قتال کرو تو خوف زدہ ہو کر بھاگنے لگے۔ اب ہابیل و قابیل کا قصہ سنانا اس کی تمہید ہے کہ متقی اور مقبول بندوں کا قتل جو شدید ترین جرائم میں سے ہے اور جس سے ان لوگوں کو بے انتہا تہدید و تشدید کے ساتھ منع کیا گیا تھا اس کے لئے یہ ملعون ہمیشہ کیسے مستعد اور تیار نظر آتے ہیں۔ پہلے بھی کتنے نبیوں کو قتل کیا اور آج بھی خدا کے سب سے بڑے پیغمبر کے خلاف ازراہ بغض و حسد کیسے کیسے منصوبے گانٹھتے رہتے ہیں۔ گویا ظالموں اور شریروں کے مقابلہ سے جان چرانا اور بے گناہ معصوم بندوں کے خلاف قتل و آسر کی سازشیں کرنا، یہ اس قوم کا شیوہ رہا ہے اور اس پر نحن ابنآء اللہ واحبآوہ کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں اس تقریر کے موافق قابیل و ہابیل کا قصہ پھر اس پر مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ الآیۃکی تفریع، یہ سب تمہید ہوگی اس مضمون کی جو اس قصہ اور تفریع کے ختم پر فرمایا "وَلَقَدْ جَآءَ تُھُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ اِنَّمَا جَزَآءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ،۔ الخ ف٣ یعنی آدم علیہ السلام دستور کے موافق جو لڑکی ہابیل کے نکاح میں دینا چاہتے تھے قابیل اسکا طلب گار ہوا۔ آخر حضرت آدم علیہ السلام کے اشارہ سے دونوں نے خدا کے لئے کچھ نیاز کی کہ جس کی نیاز مقبول ہو جائے لڑکی اسی کو دے دی جائے۔ آدم علیہ السلام کو غالباًیہ یقین تھا کہ ہابیل ہی کی نیاز مقبول ہوگی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آتش آسمانی ظاہر ہوئی اور ہابیل کی نیاز کو کھا گئی۔ یہ ہی علامت اس وقت قبول عند اللہ کی تھی۔ ف٤ قابیل یہ دیکھ کر آتش حسد میں جلنے لگا اور بجائے اس کے کہ مقبولیت کے وسائل اختیار کرتا غیظ و غضب میں اپنے حقیقی بھائی کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا۔ ف ٥ یعنی ہابیل نے کہا کہ میرا اس میں کیا قصور ہے خدا کے یہاں کسی کی زبردستی نہیں چلتی تقویٰ چلتا ہے۔ گویا میری نیاز جو قبول کر لی گئی اس کا سبب تقویٰ ہے تو بھی اگر تقویٰ اختیار کر لے تو خدا کو تجھ سے کوئی ضد نہیں۔(27)
    | [/url][/TABLE]​
     
  20. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578


    [TABLE="head"]
    لَئِنۢ بَسَطتَ إِلَىَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِى مَآ أَنَا۠ بِبَاسِطٍۢ يَدِىَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّىٓ أَخَافُ ٱللَّهَ رَبَّ ٱلْعَٰلَمِينَ(28)
    اور اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے مجھ پر ہاتھ چلائے گا تو میں تجھ کو قتل کرنے کے لئے تجھ پر ہاتھ نہیں چلاؤں گا مجھے تو خدائے رب العالمین سے ڈر لگتا ہے(28)
    تفسیر
    ف ٦ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ناحق کسی کو مارنے لگے اس کو رخصت ہے کہ ظالم کو مارے اور اگر صبر کرے تو شہادت کا درجہ ہے اور یہ حکم اپنے مسلمان بھائی کے مقابلہ میں ہے ورنہ جہاں انتقام و مدافعت میں شرعی مصلحت و ضرورت ہو وہاں ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا جائز نہیں۔ مثلاً کافروں یا باغیوں سے قتال کرنا۔ والذین اذآاصابھم البغی ھم ینتصرون (شوریٰ رکوع٤)۔ ف٧ یعنی میں تجھ سے ڈر کر نہیں بلکہ خدا سے ڈر کر یہ چاہتا ہوں کہ جہاں تک شرعاً گنجائش ہے بھائی کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین نہ کروں ایوب سختیانی فرماتے تھے کہ امت محمدیہ میں سے پہلا شخص جس نے اس آیت پر عمل کر کے دکھلایا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہے (ابن کثیر) جنہوں نے اپنا گلا کٹوا دیا لیکن اپنی رضا سے کسی مسلمان کی انگلی نہ کٹنے دی۔(28)
    إِنِّىٓ أُرِيدُ أَن تَبُوٓأَ بِإِثْمِى وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَٰبِ ٱلنَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَٰٓؤُا۟ ٱلظَّٰلِمِينَ(29)
    میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی ماخوذ ہو اور اپنے گناہ میں بھی پھر (زمرہ) اہل دوزخ میں ہو اور ظالموں کی یہی سزا ہے(29)
    تفسیر
    ف ٨ یعنی میرے قتل کا گناہ بھی اپنے دوسرے گناہوں کے ساتھ حاصل کر لے۔ ابن جریر نے مفسرین کا اجماع نقل کیا ہے کہ "باثمی" کے معنی یہی ہیں۔ باقی جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ قیامت میں مظلوم کے گناہ ظالم پر ڈالے جائیں گے وہ مضمون بھی ایک حیثیت سے صحیح ہے مگر محققین کے نزدیک وہ اس آیت کی تفسیر نہیں۔ اب ہابیل کے کلام کا حاصل یہ ہوا کہ اگر تو نے یہ ہی ٹھان لی ہے کہ میرے قتل کا وبال اپنے سر رکھے تو میں نے بھی ارادہ کر لیا ہے کہ کوئی مدافعت اپنی جانب سے نہ کروں حتی کہ ترک عزیمت کا حرف بھی مجھ پر نہ آنے پائے۔ ف٩ یعنی تیرے عمر بھر کے گناہ تجھ پر ثابت رہیں اور میرے خون کا گناہ چڑھے اور مظلومیت کی وجہ سے میرے گناہ اتریں (موضح القرآن)۔(29)

    | [/url][/TABLE]​
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں