آل بیت اور صحابہ کے سلسلے میں شبہات کی تردید کے اصول و ضوابط

ابوعکاشہ نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏ستمبر 22, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,929
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    آل بیت اور صحابہ رضی للہ عنہم کے سلسلے مں شبہات کی تردید کے اصول و ضوابط ـ
    تحریر ۔ عبدالکریم بن خالد الحربی

    اردو ترجمہ :عبدالحمید اطہر

    آل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ پر کیے گئے شبہات اور الزمات کا خلاصہ ہم چار باتوں میں پیش کر سکتے ہیں ، جو مندرجہ ذہل ہیں ـ
    پہلی قسم ـ ضعیف روایتیں اور آثار : یہ وہ روایتیں ہیں جو سند کے اعتبار سے باطل ہوں اور متن کے اعتبار سے منکر ہوں ، بعض کتابوں میں یہ روایتیں اور واقعات بکثرت پائے جاتے ہیں ، ان کتابوں کو پڑھتے وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ ان میں وہ روایتیں بھی ہیں ، جو کہ آل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بلند مقام و مرتبے کے مناسب نہیں ہیں ، ان میں سے اہم کتابوں کا تذکرہ مستقل طور پر الگ باب میں کیا جائے گا ـ
    ان کتابوں کی تہہ میں بہت سی ضعیف اور باطل روایتیں ، آثار اور خبریں موجود ہیں ، جن کو آل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں گھڑا گیا ہے ، اس طرح کے شبہات کے سلسلے میں اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ ان کو دیوار پر دے مارا جائے ، کیونکہ یہ جھوٹ کے پلندے ہیں ، جن پر بھروسہ اور اعتماد کرنا ایک مسلمان کے اپنے عقیدے اور دین کی جائز نہیں ہے ، کیونکہ آل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسلمانوں کے عقیدے کا ایک جزء ہیں ، پھر ایک مسلمان اپنے لیے یہ کیسے جائز سمجھ سکتا ہے کہ اپنے دین کی تعلیمات کے سلسلے میں موضوع اور جھوٹی حدیثوں کو بنیاد بنائے، جن کی کوئی حقیقت اور اصل نہیں ہے ، اور ان کے مقابلے میں صریح اور صحیح نصوص کوچھوڑ دے ، جن میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں ، یا وہ قرآن کریم اور رسولﷺ کی صحیح ثابت شدہ حدیثوں پر شک کرے ؟!
    قرآن کریم نےبہت سی آیتوں میں آل بیت کو پاکیزہ قرار دیا ہے اور صحابہ کرام کی صفائی پیش کی ہے اور ان کی تعریف کی ہے ، اللہ سبحانہ و تعالٰی آل بیت کے سلسلے میں فرماتا ہے ، [QH] إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33سورة الأحزاب)''[/QH] ''بلاشبہ اللہ چاہتا ہے کہ ، ائے گھروالو! تم سے گندگی کودور کرے اور تم کو پاکیزہ بنا دے ـ ''
    یہ آیت کریمہ اہل بیت کے فضائل کا سرچشمہ ہے ، اس میں اللہ تعالٰی نے ان کو عزت و شرافت سے سرفراز کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس نےان کو پاک کیا ہے ، اور برے افعال اور قابلِ مذمت اخلاق کی گندگی ان سے ہٹا دی ہے ـ
    اللہ تعالٰی نےبہت سی آیتوں میں صحابہ کرامؓ کی تعریف کی ہے ، اللہ سبحانہ و تعالٰی ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ـ
    [QH]تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سورة الفتح 29 ،[/QH]'' تم ان کو رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گئے کہ وہ اللہ کے فضل اور اسکی خوشنودی کی تلاش میں ہے ـ''
    اس جامع آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا ہے کہ صحابہ رکوع ، سجود ، نماز اور خشوع و خضوع کرنے والوں میں سے ہیں ـ ، پھر انکے دلوں میں موجود اخلاص اور سچائی کو واضح فرمایا ہے ، اللہ تعالی فرماتتا ہے '' [QH]يَبْتَغُونَ ''[/QH] یہ والی کیفیت ہے ، جس سے صرف عالم الغیب والشہادہ اللہ عزوجل کی ذات ہی واقف ہو سکتی ہے ، یہی اخلاص اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں سچائی کا مطلب ہے ـ
    اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالٰی نے آپس میں صحابہ کرام کے حالات کو بیان کیا ہے ، اللہ سبحانہ و تعالٰی رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :''
    [QH]هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ () وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ (سورة الأنفال'' 62-63 )''[/QH]
    ''اسی نے اپنی مدد سے اور مؤمنین کی تائید سے تیری تائید کی ہے ، اور ان کے دلوں میں باہمی محبت ڈال دی ہے ـ ''
    آل بیت اور صحابہ کرامؓ کے دل ایک ہی کلمے پر جمع ہیں ، وہ کلمہ توحید ، اسلام اور آپس کی محبت ہے ، یہ اور اس طرح کی دوسری آیتیں اصل ہیں ، جن کی طرف رجوع کرنا چاہے ، اور آل بیت اور صحابہ کرامؓ کے حق میں باطل روایتوں اور خبروں کو چھوڑ دینا چاہے ـ
    شاعر نے سچ کہا ہے ـ:
    [QH]حب الصحابة والقرابة سنة
    ألقى بها ربي إذا أحياني ــ [/QH]
    صحابہؓ اور نبی کریمﷺ کے رشتہ داروں کی محبت سنت ہے ، میرے پرودگار نے مجھ میں یہ محبت اس وقت ڈال دی تھی جب اس نے مجھے پیدا کیا ـ

    [QH]فئتان عقدهما شريعة أحمد
    بأبي و أمي ذانك الفئتانِ[/QH]
    یہ ایسی دو جماعتین ہیں جن میں باہمی تعلق اور ربط احمدﷺ کی شریت ہے ان دو جماعتوں پر میرےماں ، باپ قربان ـ

    [QH]فئتان سالكتان في سبيل الهدى
    وهما بدين الله قائمتانِ[/QH]
    یہ دونوں ہدایت کے راستوں پر گامزن ہیں ، اور یہ دونوں اللہ کے دین کے لیے ستون اور پائے کی طرح ہیں

    [QH]فكأنما آل النبي و صحبه
    روحٌ يضم جميعا جسدانِ [/QH]
    اہل بیت اور صحابہ کرامؓ گویا دو قالب ایک جان ہیں ـ
    (نوينة القحطاني)
    ہم کو اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہے کہ آلِ بیت اور صحابہ کرامؓ کو ایسی جھوٹی اور موضوع حدیثوں کی ضرورت نہیں ، جن میں ان کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ، کیونکہ ان کی فضیلت کا انکار کرنے والا یا متکبر ہے، یا منکر۔
    دوسری قسم ـ آل بیت اور صحابہ کرامؓ کے فضائل و محاسن کے واقعات اور روایتوں کوجھوٹوں اور الٹ پھیر کرنے والوں نے عیوب اور مذمتوں میں تبدیل کردیا ہے، آل بیت اور صحابہؓ کے سلسلے میں شبہات بھڑکانے والوں کے سلسلے میں عجیب وغریب چیز یہ ہے کہ ان صحیح احادیث اور روایات سے غافل ہوتے ہیں جون ان کی روایت کردہ باطل اور بے بنیاد خبروں کی تردید کرتی ہیں اور جن سے ان کے دعوؤں کی عمارت مسمار ہو جاتی ہے ، ان شبہات اور خبروں کی مثال مندرجہ ذیل ہے ، جن کو وہ زور وشور سے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ـ
    * نبی کریم ﷺکی وفات کے بعد ابوبکرؓ کا مرتدین سے جنگ کرنا رسول اللہ ﷺکے حکم کی بجآوری میں تھا مرتدین جنھوں نے اپنے دین کو بدل دیا ہے ، ان کو قتل کردیا جائے ، ابوبکرؓ نے اسلام اور مسلمانوں کے قلعے کی حفاظت کی خاطر جنگ کی ، بعض لوگوں نے اس فضیلت اور منقبت کو ابوبکرؓ کی برائیوں میں شمار کیا ہے ، اللہ کی پناہ ! ان لوگوں نے خلیفہ رسول ﷺ کے اس بابرکت عمل کے سلسلے میں شبہات کو بھڑکایا ہے ، ان لوگوں کا دعوٰی ہے کہ ابوبکر نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی ، یا اپنے ہاتھوں پر بیعت نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کی ـ
    ان لوگوں نے اس عمل میں کبار صحابہ کرامؓ کی تائید بلکہ اس کے بہتر ہونے پر اجماع امت کو بھلا دیا ، اسی طرح اہلِ بیت کے امام علیؓ کی طرف سے مرتدین کے خلاف جنگوں میں ابوبکرؓ کی تائید کو بھلا دیا ، ابوبکرؓ نے علیؓ سے نبی کریم کی وفات کے بعد مرتد ہونے والوں اور زکواتہ دینے سے انکار کرنےوالوں کے خلاف جنگ کرنے کے سلسلے میں مشورہ کیا ، ابوبکرؓ نے علیؓ سے دریافت کیا ، ابوالحسن! اس سلسلے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ انھوں نے کہا: '' میں کہتا ہوں : اگر آپ ان چیزوں میں سے کچھ بھی چھوڑو گئے جن کو رسول اللہ ﷺنے ان سے لیا ہے تو تم رسول اللہ ﷺکی سنت کی مخالفت کرو گئے ـ
    ابوبکرؓ نے فرمایا : '' اگر تم یہ کہ رہے ہو تو میں ضرور بالضرو ان کے خلاف جنگ کروں گا ، گرچہ اس جنگ کی وجہ سے زکات کے جانور کے گلے کی رسی دینے سے انکار ہی کیوں نہ ہو ـ (1)
    علیؓ کا ابوبکرؓ کےتئیں اخلاصءاسلام اور مسلمانوں کے حق میں خیرخواہی ، خلافت کی بقاء اور مسلمانوں کے اتحاد کی خواہش کی روشن دلیل وہ موقف ہے ،جب ابوبکرصدیقؓ نے خود '' ذوالقصہ '' کا رخ کرتے اور مرتدین کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کا ارادہ کیا ـ
    ابن عمرؓ سے روایت ہے :" جب ابوبکرصدیقؓ ذوالقصہ کے ارادے سے نکلے اور اپنی سواری پر بیٹھ گئے تو علی بن ابی طالبؓ نے یہ کہتے ہوئے روکا :' میں آپ سے وہی بات کہتا ہوں جو بات جنگِ احد میں رسول اللہ ﷺنے آپ سے کہی تھی :'' اپنی تلوار نیام میں ڈالوں اور اپنی موت سے ہم کومصیبت سے دوچار مت کرو ، اور مدینہ لوٹ جاؤ ، اللہ کی قسم ! اگر ہم آپ کی موت سے مصیبت سے دوچار ہوئے تو اسلام کے لیے کبھی بھی کوئی نظام نہیں رہے گا '' ـ (2) ، چنانچہ ابوبکرصدیقؓ نے امانت دارومخلص علی ابن ابی طالبؓ کی نصیحت قبول کرتےہوئے واپس لوٹ آئے ـ
    ان تمام حقائق کے باوجود بعض لوگ ظلم و زیادتی کےکلمات دہراتے اور کہتے ہیں :'' یہ لوگ (صحابہ) ابوبکرصدیقؓ کی خلافت قبول نہ کرنے والے قبیلوں کو ظلم اور زیادتی کی بنیاد پر مرتدین کا نام دیا کرتے تھے ـ''(3)
    وہ لوگ کون ہیں جو یہ نام دیا کرتے تھے ، ہمیں بتاؤ کہ وہ کون لوگ ہیں؟ یہ کیوں ان کو یہ نام دیتے ہیں ؟ کس چیز کو وسیلا بناتے ہیں ، ان کے پاس احکام صادر کرنےاور تاریخ پر فیصلہ سنانے کے لیے جھوٹ اور ظلم و زیادتی کے سوا کچھ نہیں ہے ـ ان کے اس کمزور طریقے میں علمی تحقیق سے کوئی واسطہ نہیں ہے-
    *امیر المؤمینین علیؓ کا خوارج کے خلاف جنگ کرنا نبی کرم کی پیش گوئی کی تکیمیل اور آپ کے حکم کی فرماں برداری ہے ، ان لوگوں نے علیؓ کے ان مناقب و فضائل ، حکومت اور انتظام میں ان کے تجربے کو عیوب اور برائیوں میں تبدیل کردیا ، علی بن ابی طالبؓ کی طرف سے عبداللہ بن عباسؓ کو خوارج کی طرف بھیجنے کا قصد ہماری بیان کردہ تفصیلات کی واضح دلیل ہے ـ
    *معاویہ بن ابی سفیانؓ کے حق میں حسن بن علیؓ کا خلافت سے معزول ہونا ،نبی کرم ﷺکی پیشن گوئی کی تکمیل ،مسلمانوں کے خون کے تحفظ اور ان کے اتحاد کو باقی رکھنے کی خاطر ہے ، ان فضائل اور کارناموں کو برائیوں میں تبدیل کیا گیا، یہاں تک کہ جنتی نوجوانوں کے سردار حسن بن علیؓ کے سلسلے میں بعض لوگوں نے بدزبانی کی ہے ،اور ان کو '' مذل المؤمنین '' (مومنین کو ذلیل کرنے والا ) کا لقب دیا ہے (4) ، یہ محرومی اور ذلت کی تعبیر ہے ، اللہ اس سے محفوظ رکھے ، نقصان اٹھانے والا اللہ کے نبی ﷺ کی زبانی حسن کے اس کارنامے کی تعریف میں تجاہل عارفانہ برتتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا "میرا یہ فرزند سردار ہے ، شاید اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوبڑی جماعتوں کے درمیان صلح فرمائے گا '' (5) بلکل اسی طرح یہ واقعہ پیش آیا ـ
    *خلیفہ ثالث عثمان بن عفانؓ کے جمع قرآن کے سلسلے میں ان لوگوں کا یہی نظریہ ہے ، اس عظیم احسان کو ان کی برائیوں میں تبدیل کردیا گیا اور آپ پر طعن و تشنیع کی گئی ، باوجود یہ کہ آج تک ہماری امت آپ کی اس توفیق یافتہ مبارک عمل کی تعریف کرتی آرہی ہے کہ یہ بڑا اہم کام ہے اور اسلام اور مسلمانوں پر یہ ایک عظیم احسان ہے ، جس کی عظمت کو اللہ، پھر علمائے کرام کے علاوہ دوسرا نہیں جانتا ـ
    اسی وجہ سے علی بن ابی طالبِؓ نے عثمان بن عفانؓ پر عیب لگانے والوں کو منع فرماتے تھے اور کہتے تھے :'' ائے لوگو! عثمان کے سلسلے میں غلو نہ کرو ، اور ان کے سلسلے میں بھلی بات ہی کہو ، اللہ کی قسم انھوں نے (مصاحف میں ) جو کچھ کیا ہے ، وہ ہم سب کے سامنے کیا ہے ، یعنی صحابہ کرامِ ؓ کے سامنے ، اللہ کی قسم ! اگر میں خلیفہ ہوتاتومیں بھی ان کی طرح کرتا (6)
    اس کے علاوہ بہت سے واقعات ہیں ،جن کا تذکرہ بڑا طویل ہے ، جن میں طعن و تشنیع کی گئی ہے آل بیت اور صحابہ کرام کے حق میں حقائق کوبدل کر پیش کیا گیا ہے ، ہم نے یہاں وضاحتین اور تبیین کے لیے چند مثالیں پیش کی ہیں ، تاریخ کا مطالعہ کرنے والے کو ان طریقوں ، اور اسالیب سے چوکنا رہنا چاہے ، اللہ ان لوگوں کو ہدایت سے نوازے ـ آمین
    تیسری قسم واقعہ اور روایت کی اصل صحیح ہو ، لیکن بعض لوگ اصل متن میں بہت سی باتوں کا اضافہ کرتے ہیں ، یہاں تک کہ چند کلمات جو ایک صفحے سے زیادہ نہیں ہوتے ، پوری کتاب بن جاتے ہیں ، کیوں کہ بہت سے باطل ، من گھڑت اور جھوٹی باتیں اس میں شامل کر لی جاتی ہیں ، مثلا مندرجہ ذیل واقعات ہیں :
    1-بنو سقیقہ کا واقعہ :: اصلاً یہ حدیث ایک صفحہ سے زیادہ نہیں ، بعض لوگوں نے اس کو روایت کیا تو صحیح روایت کے بلکل برخلاف من گھڑت اور موضوع نصوص کو اس میں شامل کردیا ہے ، پھر بعض خود غرض لوگوں نے اس کو اپنا موضوع بنایا اور پوری کتاب ترتیب دے ڈالی ، تاکہ صحابہ کرامؓ پر طعن و تشنیع کی جائے ، جس طرح جوہری نے اپنی اپنی کتاب '' السقیقہ '' (7) میں کیا ہے ـ ان کے علاوہ بھی بہت سے مصنفین نے اسی طرح کا مطالعہ کیا ہے ، جنہوں نے سقیقہ کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں ، ان لوگوں نے اس واقعہ میں بہت سی جھوٹی باتوں کا اضافہ کیا ہے ـ
    2-اسی '' رزیتہ الخمیس''(8) کا واقعہ ہے اور ان کے علاوہ دوسرے بہت سے واقعات ہیں ، اسی وجہ سے تاریخ کامطالعہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس طرح کی چیزوں سے چوکنا رہے ، دراصل واقعے اور اس میں کیے گئے اضافوں کے درمیان فرق کرے ، اکثراوقات ایسا ہوتا ہے کہ اصل واقعہ قابل بھروسہ مراجع اور مصادر میں موجود رہتا ہےاور صحیح سندوں سے ثابت رہتا ہے ، لیکن اس میں اضافہ کی روایتیں قابل اعتماد مراجع سے نہیں لی جاتی ہیں اور اس کی سند باطل رہتی ہیں ، بلکہ اصلا اس کی سند ہی نہیں پائی جاتی ہے ـ
    اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان مردود نصوص کے اضافوں نے حقوق کو ضائع کرنے اور بہت سے لوگوں کے سامنےحقیقت کو گڈ مڈ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور اب تک یہ ناپسندیدہ کردار ادا کررہے ہیں ، جس بعض لوگوں کے ذہنوں میں تاریخ کی مسخ شدہ تصویر بیٹھ جاتی ہے اور اس جھوٹ کی وجہ سے امتِ مسلمہ کے ہیروں پر ظالمانہ احکام لگائے جاتے ہیں ـ
    چوتھی قسم :حدیث یا واقعہ کی سند صحیح رہتی ہے اور اس میں کوئی زیادتی یا کمی نہیں رہتی ، البتہ روایت میں بعض غلطیاں ہو جاتی ہیں ، جو صحابی سے بھی ہو سکتی ہیں ، کیوں کہ صحابی بھی معصوم نہیں ہوتا ، صحابی سے بھی ہر جگہ اورہر زمانے کے لوگوں کی طرح غلطی ہو سکتی ہے ـ
    اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں : ایسا کون شخص ہے جس سے کبھی غلطی نہ ہوئی ہو؟ اور کون سے ایسا شخص ہے جوصرف بھلائی ہی کرتا ہو؟
    صحابہ کرامؓ کے سلسلے میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ وہ انسان ہیں ، وہ صحیح کام کرتے ہیں اور ان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں ، سبھی انسانوں کی طرح ان سے غفلت ہوتی ہے اور ان سے بھول بھی ہوتی ہے ، اور ان کے حق میں ہم گناہوں سے معصومیت کا دعوٰی نہیں (9) اسی وجہ سے ان کی اچھائیوں کا تذکرہ کرنا اوران کی برائیوں سے تجاہل برتنا ضروری ہے ، اللہ کی قسم ! اگرہم ان کی اچھائیوں اور اعمال صالحہ مثلا اللہ کے راستے میں خرچ ، جہاد کرنے اور دین اسلام کی مدد و نصرت کا مقابلہ ہم اپنی اچھائیوں کے ساتھ کریں تو ہماری اچھائیاں اتاہ سمندر کے ایک قطرے کے برابر ہوں گی ـ
    جرح و تعدیل کے میزان میں روایت صحیح ہو اور اس کے ظاہر سے غلطی ہوتی ہو تومسلمانوں کو بہترین مخرج ، اور عذر تلاش کرنا چاہے ، ابن ابی زید قیروانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :'' صحابہ کے درمیان ہوئے جھگڑوں کے تذکرے سے باز رہنا ضروی ہے ، اور وہ لوگوں میں اس بات کے سب سے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے حق میں عذر تلاش کیا جائے اور ان کے سلسلے میں سب سے بہترین گمان رکھا جائے ـ (10)
    ابن دقیق العید نے لکھا ہے :'' ان کے جو جھگڑے اور اختلافات نقل کیے گئے ہیں ، ان میں بعض باطل اور جھوٹے ہیں ، جن کی طرف توجہ ہی نہیں کی جائے گی اور بعض صحیح ہیں ، جن کی ہم نے بہترین تاویل کی ہے ، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلے ہی ان کی تعریف کی ہے ، جو باتیں بعد میں بیان ہوئی ہیں ، ان کی تاویل کی جا سکتی ہے ، کیونکہ جو مشکوک اور موہوم ہوتا ہے ، وہ معصوم اور محقق کو باطل نہیں کرتا (11)
    آمدی نے لکھا ہے کہ :'' یہ واجب اور ضروری ہے کہ رسول اللہ کے ساتھیوں سے متعلق حسنِ ظن رکھا جائے ، ان کے درمیان ہوئے اختلافات اور جھگڑوں کے تذکرے سے باز رہا جائے اور جو کچھ انھوں نے کیا ہے یا کہا ہے اس کوصرف بہترین رخ پر ڈالا جائے اور اس کو اجتہاد پر محموم کیا جائے ، کیونکہ ان کی تعریف اور ان کی فضیلت کے سلسلے میں آئے ہوئے کلمات کانوں میں پیوست ہیں اور نفوس میں بیٹھے ہوئے ہیں ،اس کے سلسلے میں وارد روایتیں متواتر اور صحیح ہیں جو قرآن کریم اور حدیث نبوی سے ثابت ہیں اور اس پر امت کا اتفاق بھی ہے ، یہ بات اتنی مشہور ہے کہ اس کے اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، ان کے برے اعمال کے تعلق سے جو باتیں روایت کی گئی ہیں ، ان میں سے اکثر روایتوں کی کوئی حقیقت اور اصل نہیں ہے ، یہ محض خواہشات کرنے والوں کی ذہنی کاوشیں اور دشمنوں کے کرتوت ہیں ـ ـ ـ ـ ـ " انھوں نے مزید لکھا ہے :'' البتہ جو روایتیں ثابت ہیں اور اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں ہے تو ان میں سے جس کی کسی صورت میں تاویل کرنا ممکن ہو تو اس کی سب سے بہترین تاویل کرنا لازم ہے ، ورنہ اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے اور یہ اعتقاد رکھنا لازم ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی تاویل موجود ہے ، جہاں تک اس کا ذہن پہنچا نہیں ہے اور وہ اس سے واقف ہوا ہے ، کیونکہ اربابِ دین اور اصحابِ مروت کے بارے میں یہی لائق ہے اور غلطیوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والا یہی راستہ ہے ، اس لیے بھی کہ انسان کا ان امور سے خاموش رہنا جن کے بارے میں بولنا لازم نہ ہو ، یہ اس سے بہتر ہے کہ لایعنی باتوں میں پڑ جائے خصوصا اس وقت جب پھسلنے ، بدگمانی کرنے اور اٹکل باتیں کرنے کا احتمال ہوـ''(12)
    بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ خود غرض لوگ ان غلطیوں کو بہت بڑی بنا کر پیش کرتے ہیں ، یہاں تک ہر طریقے سے ان غلطیوں کی تلاش و جستجو ان کا مشغلہ بن جاتا ہے ، تاکہ وہ اپنے دل کی خواہش پورا کریں ،گویا یہی قضیہ حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے اور اس کو جو لے وہ مومن ہے '' اور جو اس کا انکار کرے وہ کافر یا منافق ہے ! لا حولہ و لا قواتہ الا باللہ
    صحابہ کرامؓ کے درمیان پیش آئے ہوئے اختلافات اور جھگڑوں کے بارے میں قابلِ اعتماد و دقیق معلومات کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کی تاریخ کے ساتھ ان لوگوں کا سا معاملہ کریں جن کو اللہ نے اپنی کتاب میں پاک قرار دیا ہے ، یہی اصل اور بنیاد ہے ، اگر محقق اور مطالعہ کرنے والے کو کسی روایت کی صحیح سند نہ ملے تو ایک اصول ہے ، جس کی پیروی کرنا ضروری ہے ، یہ اصول یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کی تعریف کی ہے جس نے رسول اللہ کی صحبت اختیار کی اور دین کو قائم کرنے کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کیا ، اللہ اس قوم کی تعریف ہی نہیں کر سکتا ، جس کے بارے میں اس کو معلوم ہو کہ وہ مستقبل میں اسی تعریف کے لائق نہیں رہیں گئے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے ؟!
    ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ وہ انسان ہیں ، جن سے غلطی سرزد ہو سکتی ہے ، ان کو وہم ہو سکتا ہے اور ان سے کوتاہی بھی ہو سکتی ہے ، اس سلسلے میں ان کا حال بنی نوع انسانی کے سبھی افراد کی طرح ہے ـ
    لیکن ان کو برائی کا الزام دینا ، ناکردہ گناہوں کا مجرم گرادننا ، نفاق اور حب سلطنت کی تہمت لگانا ، اللہ کے خلاف جرات اور اللہ تعالیٰ تبارک و تعالی کی صفات میں سے ایک صفت کے سلسلے میں جھگڑا کرنا ، کیونکہ یقین کے ساتھ یہ الزامات لگانے کا تعلق علم غیب سے ہے ، جو صرف اللہ تبارک و تعالی کو معلوم ہے اس سے وہ کسی کو مطلع نہیں کرتاہے ـ
    اسی وجہ سے ہم پر ضروری ہے کہ ہم ان روایتوں سے متاثر ہو کر ٹھوکر کھانے سے باز رہیں ، جن کو بعض مستشرقین نے رواج دیا ہے ، (13) اور خواہشات کی پیروی کرنے والوں نے پھیلایا ہے ،جنہوں نے کمزور ، من گھڑت اور موضوع روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے صحابہ کے درمیان رونما ہونے والے اختلاف کو بدترین شکل میں پیش کیا ، جن سے ان کی یہ تصویر سامنے آئی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے والے ہیں ، وہ عہدوں کے طلب گاروں اور منصب سے عشق رکھنے والوں سے مختلف نہیں !!
    ہر غیرت مند شخص کے مناسب یہ ہے کہ وہ واقعات کا تجریہ کرے اور ان کی تحقیق کرے ، اللہ کی قسم ! ہمارے لیے تاریخ کا وہ تھوڑا حصہ ہی کافی ہے جس کی سندیں صحیح اور نقص سے پاک ہوں ،یہ اس سے بہتر ہے کہ ہماری تاریخ بہت سے جھوٹے ، قصے ، کہانیوں اور الزمات سے بھری ہو، تاکہ مؤمینین کی صفوں میں فتنہ پھیلانے والے ہرشخص کو باز رکھا جائے ، جس نسل نے نور نبوت کا مشاہدہ کیا اور زمین سے آسمان کے رابطے کو دیکھا ، اس دین کی سر بلندی اور پوری دنیا میں اس کی نشرو اشاعت کے لیے اپنی ہرچیز کی قربانی دے کر جدوجہد اور کوشش کی ، ان کے سلسلے میں ان من گھڑت اور ضعیف روایتوں اور واقعات پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے ـ
    ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان روایات میں سے صرف ان ہی چیزوں کو قبول کریں جس کی نسبت صحابہ کرامؓ کی طرف صحیح ہو ، ان کی قدرو قیمت میں غلو یا تنقیص سے دور ہو ، حقائق کو خوش آمدید کہنا چاہے گرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو ، جھوٹ ، خراقات ، من گھڑت کہانیوں اور مسابقہ آرائی سے پناہ ! چاہے اس کے مصادر کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو ، کیونکہ بحث وتمحیص کے میزان اور حق کے ہتھوڑوں کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ـ (14)
    ان لوگوں پر تعجب در تعجب ہےجو علمی تحقیق کے اصولوں کو ایسے امور میں منطبق کرتے ہیں ، جو ان کی ضرورتوں اور خواہشات کے مطابق ہو ، اور دوسرے امور میں ان ہی اصولوں دھجیاں اڑاتے ہیں ، جس طرح مرتضی عسکری نے اپنی کتاب '' عبداللہ بن سبا '' میں کیا ہے ، وہ ابن سبا کی حقیقت کا انکار کرتے ہیں اور ان حقائق سے پہلوتہی اختیار کرتے ہیں جو ثابت ہیں ،لیکن جب صحابہ کے سلسلے میں بات آتی ہے تو ہر چیز ان کے یہاں مقبل ہے ، چاہے وہ ضعیف ہو یا موضوع ، جب تک ان کے مقصد کی تکمیل ہوتی ہے تب تک مقبول ہے ، وہ اصول پسندی کہاں ہے ، یہ لوگ جس کی ندا لگاتے ہیں ؟ وہ علمی اسلوب کہاں ہے جس کا جھنڈا یہ لوگ بلند کرتے ہیں ؟ صدر اسلام کے باقی تاریخی روایتوں اور اہم واقعات پر یہ اصول کیون منطبق نہیں ہوتے ہیں ؟!
    کیا طبطبائی نے اپنی تفسیر میں آیت کریمہ کی تفسیر کے وقت یہ نہیں کہا ہے :
    [QH]''(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (سورة الإسراء 36)[/QH]
    جس بات کی تجھے خبر ہی نہیں ہے اس کے پیچھے مت پڑ، کیونکہ کان ، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کے بارے میں سوال کیا جانے والا )
    وہ کہتے ہیں ، آیت کریمہ ان چیزوں کی پیروی سے منع کرتی ہے جن کے بارے میں علم نہ ہو ، یہ مطلق حکم ہونے کی وجہ سے عقیدہ اور عمل دونوں کو شامل ہے، اور اس کا خلاصہ ہماری زبان میں یہ ہے :-جس کا تمہیں علم نہیں ہے اس کا عقیدہ نہ رکھو اور جس کا تمہیں علم نہ ہو اس کے بارے میں مت کہو ، کیونکہ ان تمام امور میں پیروی ضروری ہے اور انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علمی کی پیروی واجب ہے اور غیر علمی کے پیروی سے باز رہنا ضروری ہے ، کیونکہ اپنی فطرت کی وجہ سے انسان اپنی کاروانِ زندگی میں اپنے اعتقاد یا عمل کے ذریعے صرف حقیقت کو پانا چاہتا ہے ، اور معلوم چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے ـ جس کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ وہی ہے ، البتہ مشکوک اور موہوم چیز کے بارے میں مطلقا یہ بات کہنا صحیح نہیں کہ یہ وہی ہے ، پس تم یہ بات سمجھو ـ (15)
    ''حسن کاشف العطاء کہتے ہیں : جس بارے میں کوئی ایسا نص وارد نہ ہوا ہو جس کے بدلنے سے مخصوص حکم بدل جاتا ہو ، تو وہ اس اصول پر باقی رہتا ہے کہ اصل صحیح نہ ہونا ہے ـ ''(16)
    ----------
    [QH]1-(( الرياض النضرة )) لمحب الطبري (ص 670) ,(( أسمي المطالب في سيرة أمير االمؤمنين علي بت أبي طالب )) للدكتور علي الصلابي حفظ الله (ص 144 )
    2- انظر (( البداية و النهاية )) لابن كثير ( 315-314/6)
    3-(( كامل النجار و جريمة الارتداد )) لنبيل الكرخي (48)-
    4- راجع: (( السير)) للذهبي ( 272،147/3)، وراحع النص في كتاب (( تحف العقول عن آل الرسول )) ص 308 لابن شعبة الحراني .
    5-أخرجه الإمام البخاري في (( صحيحه ,رقم 2704))
    6-(( فتح الباري)) لابن حجر وقال( 18/9), : إسناده صحيح و(( أسني المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي ين أبي طالب )) للدكتور علي الصلاحي ( ص . 190)[/QH]
    8- اس کتاب کے اگلے صفحات میں آرہا ہے ( 86/89)
    9- اس حدیث کے مفہوم و تشریح اس کی روایت کی سندوں اور اس واقعے سے متعلق اٹھائے گئے شبہات کی تفصیلات [QH](( العقد النفيس بدراسة حديث الخميس ))[/QH]
    10[QH]- اعتقاد اهل السنة في الصحابة للوهيبي ص 93 و المنهج في التعامل مع روايات ما شجر بين الصحابة للدكتور محمد أبي الخليل ص 49
    11-(( مقدمة رسالة أبي زيد القيرواني )) بشرح صالح الأبي الأزهري ص (23).
    12-(( أصحاب رسول الله و مذاهب الناس فيهم )) لعبد العزيز العجلات (ص 360)
    13- وغاية المرام (ج 1 ’ ص 390).[/QH]
    14- مسلمانوں کے تاریخی اور عقائدی وراثے کو نشانہ بنانے والے بعض مستشرقین کے نام درج ذیل ہیں ـ [QH] (أج أريري –د)’ د- مرجبلوث , ج, فينسك, ماكدونالد, زويمر , جولد زيهرغ ,فون جرونباوم,[/QH]ان لوگوں کے منصوبوں اور سازشوں سے بہت علماء اور مصنفین نے پردہ فاش کیا ہے جس میں [QH].يوسف العظيم (تاريخنا بين ترويز الأعداء وغفلة الأبناء . دارلقلم . مصطفى سباعي (الاستشراق و المستشقرون )) دارالبيان , دكتور حامد الخليفة (المؤقف من التاريخ الإسلام الإسلامي ))[/QH] دارلقلم .نے لکھی ہیں ـ
    15-فتوحات کے تھوڑے عرصے کے بعد اسلام کے حاملین عرب اقوام سے نسل پرستانہ انتقامی رد عمل کے امور پر قوم پرستی کا وجود ہوا ، بعض خواہش پرستوں اور بدعتیوں نے بڑی کوشش کی اور عربوں کی برائیوں کے سلسلے میں کتابیں تصنیف کیں ـ اس کے جواب میں عربوں کی برائیوں میں کتابیں تالیف کی گئیں ـ اس وجہ سے اس حاقدانہ وراثت پر توجہ دینا اور اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے ـ بلکہ اس دور رہنا ضروری ہے ـ کیونکہ یہ علمی بحث و تحقیق سے ہٹا ہوا مواد ہے ، اس کے لیے دیکھ جائے ـ [QH]((الشعوبية عدو العرب الأول )) لخير الله طلفاح , مطبعة المعارف بغداد .2-أحادث و أحاديث فتنة الهرج )) للدكتور عبدالعزيز دخان ""[/QH]
    16- [QH]تفسير الميزان 92/13, (( شرح مقدمة كشف الغطاء -البحث السابع و الأربغون))[/QH]
    کمپوزوپروف ریڈ:: عُکاشه
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. ابو عبداللہ صغیر

    ابو عبداللہ صغیر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 25, 2008
    پیغامات:
    1,979
    جزاک اللہ‌خیرا
     
  3. راہگیر

    راہگیر -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2011
    پیغامات:
    158
    جزاک اللہ
     
  4. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    جزاک اللہ‌خیرا
     
  5. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
  6. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    بہت اچھی پوسٹ ہے قابل تعریف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اگریہاں کوئی شیعہ ہوتااوروہ آپ کی یہ پوسٹ پڑھتاتوآپ سے فورن سوال کرتاکہ جی یہ توامام علی کرم اللہ وجہہ کااخلاص ساصحابہ کباررضی اللہ تعالی عنہم کے لیے لیکن صحابہ کرام کتنے مخلص سے حضرت علی رض سے۔ایسے سوال اگرآپ شیعوں کے چینل دیکھتے ہیں توانکے علماتواترسے اٹھاتے ہیں۔۔۔ہمیں اسکاٹھنڈے دل اوردماغ سے جواب دیناچاہیے لیکن علمی اندازسے نہ کہ انکی طرح مسابقتی اورقابل اعتراض اندازسے جوکافی دیتے بھی ہیں اپنی ایک مختصرپوسٹ میں میں نے اسپرلکھاہے۔
     
  7. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,929
    جزاکم اللہ خیرا۔
    جب شیعہ سوال کرے گا تو ان شاء اللہ جواب دیں گئے ۔ فی الحال روافض اور شیعہ ''آل بیت اور صحابہ کے سلسلے میں شبہات کی تردید کے اصول و ضوابط '' سمجھ جائیں تو ان شاء اللہ اس سوال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔
     
  8. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    آپ اگرضرورت کاتعین خودکرناچاہتے ہیں توآپ کی مرضی جواب دینانہیں چاہتے ہیں تومیں آپ سے اصرارنہیں کروں گااورنہ ہی یہ سمجھوں گاکہ آپ کے پاس جواب نہیں ہے۔آپکی صوابدیدپرہے،،، ویسے بھی ضروری نہیں کہ ہرسوال کاجواب دیاجائے۔
     
  9. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,929
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔
    محترم ۔ میں نے لکھا تھاکہ یہ تھریڈ روافض کو جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ اصول و ضوابط سمجھانے کے لیے لگایا گیا ہے ۔ سمجھنے والوں کے لیے تو اللہ کا فرمان '' [QH]رُحَمَاء ُ بَينَهمْ[/QH]'' ہی کافی ہے ۔
    ابھی اس حوالے سے مزید چند مضامین اردو مجلس پر پیش کیے جائیں ، ان شاءاللہ آپ کوسوال کا جواب مل جائے گا ۔ فی الحال آپ درج ذیل لنک چیک کریں ، مزید کا انتظار کریں‌۔
    تاریخ کے مطالعے میں کوتاہی کے اسباب ـ - URDU MAJLIS FORUM
    تاریخ الامم والملوک ''میں امام طبری کا اسلوبِ تحریر - URDU MAJLIS FORUM
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  10. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ۔
    جزاک اللہ خیرا بھائی
     
  11. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ۔
    جزاک اللہ خیرا بھائی
     
  12. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,485
    جزاک اللہ خیرا وبارک فیک ۔
     
  13. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,929
    صحابہ کرامؓ کا آل بیت کے ساتھ اخلاص سے ہرسنی واقف ہے ـ شیعہ کو چودہ سو سال ہو گئے آجتک جواب نہیں ملا ـ
    عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تعریف میں اہلِ بیت کے اقوال - URDU MAJLIS FORUM
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق اہلِ بیت کا مؤقف - URDU MAJLIS FORUM
    حضرت صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کے بارے میں اہلِ بیت کا نقطۂ نظر - URDU MAJLIS FORUM
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں