اِس ماہ کی خبروں کے روابط : اکتوبر ،2011

ابوعکاشہ نے 'خبریں' میں ‏اکتوبر، 2, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    پاک فوج میں رشوت اور فراڈ کے52 سکینڈلز کا انکشاف

    پاکستان آرمی میں پچھلے تین سالوں میں رشوت، بدعنوانی اور فراڈ کے52 نئے سکینڈلز کا انکشاف ہوا ہے جن میں جی ایچ کیو میں ہونے والے چار ’گھپلے‘ بھی شامل ہیں جن کا پاکستانی ’آزاد میڈیا‘ میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ فوج کے علاوہ پی آئی اے میں بھی اسی عرصہ میں 36 فراڈ اور کرپشن کے سیکنڈلز سامنے آئے ہیں۔

    وزارت دفاع کے زیرکنٹرول چلنے والے فوجی اداروں میں ہونے والے ان مالی بدعنوانیوں کے سکینڈلز کا اعتراف سینٹ آف پاکستان میں پیش کی گئی دستاویزات میں وزیر دفاع چوہدری احمد مختار نے خود کیا ہے جو ٹاپ سٹوری آن لائن کے پاس موجود ہیں۔ سینٹ میں پیش گئی وزارت دفاع کی سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت دفاع کے نیچے کام کرنے فوجی اداروں میں پچھلے تین سالوں میں بہت سارے سکینڈلز سامنے آئے تھے جن میں پاکستان آرمی کا جنرل ہیڈ کواٹر اور ائر ہیڈکواٹر بھی بھی شامل ہیں۔ تاہم ایک بات بڑی حیران کن ہے کہ سینٹ میں پیش کی گئی دستاویزات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان اٹھاسی سکینڈلز میں کل کتنی رقم شامل تھی جو لوٹی گئی تھی اور کتنے فوجی اور سویلین افسران ان سکینڈلز میں ملوث تھے۔

    ان تفصیلات کے مطابق جی ایچ کیو میں چار سکینڈلز سامنے آئے، ائرہیڈکوارٹر میں بارہ، پاکستان آرمڈ سروسز بورڈ ایک، ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ ڈیپارٹمنٹ اکیس، پاکستان ملٹری اکاوئنٹس ڈیپارٹمنٹ گیارہ، ایف جی ای آئی میں تین اور پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کارپوریشن میں چھتیس۔ یہ معلومات اس وقت وزارت دفاع نے سینٹ میں پیش کیں جب سینٹر محمد طلحہ محمود نے یہ سوال اٹھایا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران وزارت دفاع، اس کے ملحقہ محکموں، ذیلی دفاتر اور کارپوریشنوں میں سامنے آنے والے رشوت، بدعنوانی اور فراڈ کی تفصیلات کیا ہیں۔

    ذرائع کے مطابق یہ پہلی دفعہ ہو ا ہے کہ وزارت دفاع نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس کے ذیلی اداروں میں کرپشن کے اتنے بڑے پیمانے پر سکینڈلز سامنے آئے تھے۔ تاہم ایک مبصر کے مطابق کرپشن اور فراڈ کے زیادہ کسیز پی آئی اے کے ہیں جس کا فوج سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لہذا ان چھتیس کیسز کو اگر نکال دیا جائے تو پھر پاکستان آرمی میں ہونے والے فراڈ اور رشوت بدعنوانیوں کے کیسیز کی کل تعداد اٹھاسی کی بجائے باون ہو گئی۔ ان سکینڈلز کو اتنا چھپا کر رکھا گیا تھا کہ اب تک ان میں کوئی ایک بھی سکینڈل کسی بھی اخبار کی زینت نہیں بن سکا۔

    اس سے پہلے پاکستان آرمی کے تین سابق ٹاپ جرنیلوں کے حوالے سے سب سے بڑا سکینٖڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب نیشنل لاجسٹک سیل میں اعلی عہدوں پر کام کرنے والے دو لیفٹینٹ جنرلز، ایک میجر جنرل کے علاوہ کچھ سویلین نے مل کر اس ادارے میں چار ارب روپے کا فراڈ کیا تھا۔جن جرنیلوں کا نام اس میں شامل تھا ان میں لیفٹیٹ جنرل (ر) خالد منیر، لیفٹنٹ جنرل (ر) محمد افضل مظفر اور میجر جنرل(ر) خالد ظہیر اختر شامل تھے جو این ایل سی کو 2003 سے لے کر 2008 تک چلاتے رہے اور اربوں روپے کی ساری رقم اس دوران ڈوب گئی تھی۔

    اس فراڈ کا انکشاف اڈیٹرجنرل آف پاکستان نے کیا تھا جس کے بعد پبلک اکاونٹس کمیٹی نے تین مختلف انکوائریاں کرائی تھیں اور ان تنیوں میں یہ ثابت ہوا تھا کہ ان آرمی جرنیلوں نے چار ارب روپے کا نقصان کیا تھا۔ اس وقت یہ بتایا گیا تھا کہ این ایل سی کے ان جرنیلوں نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو ارب روپے اٹھا کر سٹاک ایکسچنج میں انویسٹ کر دیے۔شوکت عزیز نے ان جرنیلوں کو منع کیا تھا کہ وہ اپنا پیسہ اٹھا کر سٹاک میں مت انویسٹ کریں کیونکہ یہ ڈوب جائے گا۔ یہ پیسہ دراصل اس ادارے کا منافع اور وہاں کام کرنے والے ملازمین کی گریجویٹی اور پنشن کا پیسہ تھا۔ جب یہ سارا پیسہ ڈوب گیا تو ان تین جرنیلوں نے کمرشل بنکوں سے دو ارب روپے کا قرضہ لے لیا اور اسے بھی کراچی اور لاہور کی سٹاک میں لگا دیا۔

    اس کام کے لیے کراچی اور لاہور میں سٹاک بروکر کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں جنہیں کڑورں روپے ان کا کمیشن ادا کیا گیا اور جونہی مارکیٹ کریش ہوئی، اس کے ساتھ ہی دو ارب روپے ایک ہی جھٹکے میں ڈوب گئے۔ یہ تین جرنیل کب کے ریٹائرڈ ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں لیکن این ایل سی ابھی دو ارب روپے کے اس کمرشل لون پر بنکوں کو سود سیمت ادائگیاں کر رہا ہے جو ان تین جرنیلوں نے لے کر سٹاک ایکسچیج ’جوئے‘ میں لگا دیا تھا۔

    تاہم اس سے پہلے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ان جرنیلوں کے خلاف پچھلے سال دسمبر میں کوئی ایکشن کرتی کہ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے فوج کی اپنی ایک انکوئرای کرانے کا حکم دے دیا۔ یوں پبلک اکاوئنٹس کمیٹی نے اپنی کارروائی روک دی۔

    اب آرمی نے پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کو بتایا ہے کہ آرمی کی انکوائری میں بھی وہ تین جنرلز قصور وار پائے گئے تھے اور ان کے خلاف کاروائی کی جارہی تھی۔ تاہم فوج نے اپنی انکوائری رپورٹ پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے ممبران کے سامنے پیش نہیں کی اور نہ ہی اب تک یہ پتہ چلا ہے کہ ان تین جنرلز کے خلاف کیا ایکشن کیا گیا ہے۔
     
  2. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    زرداری کی پھانسی کا مطالبہ: شہباز ہٹلر یا موسولینی؟

    لاہور میں جمہ کو شہباز شریف کے دھواں دھار خطاب کے دوران لگنے والے نعروں ” نواز شریف قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں”، سن کر مجھے وسط 2007 کی ایک شام یاد آگئی جب میاں نواز شریف لندن سے برطانیہ کے ایک اور شہر پاکستانیوں کے جلسے سے خطاب کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ میں بھی اس ٹرین میں سوار تھا اور اپنے اخبار دی نیوز کے لیے کوریج کر رہا تھا۔ جب نواز شریف کی تقریر کی باری آئی تو ہال میں پرجوش پاکستانیوں نے انہی نعروں سے آغاز کیا، نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
    نواز شریف چپ کرکے ان نعروں کے تھمنے کا انتظارکرتے رہے اور پھر شروع یہاں سے کیا کہ آپ لوگوں کے یہ نعرے سن کر میں نے بارہ اکتوبر 1999کو ایک قدم بڑھا کر جنرل مشرف کو برطرف کر دیا تھا۔ جب فوجی جرنیل وزیراعظم ہاوس میں انہیں ہھتکڑیاں ڈالنے کے لیے آئے اور انہوں نے مڑ کر دیکھا تو ایک بھی پاکستانی سڑک پر باہر آکر انہیں بچانے نہیں آیا۔ ان کے بقول البتہ میں نہ صرف جیل گیا بلکہ پاکستان سے بھی باہر آگیا۔
    زرداری کی پھانسی کا مطالبہ: شہباز ہٹلر یا موسولینی؟ | Top Story Online
     
  3. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    بھارت میں غربت ،بے روزگاری اور گھریلو جھگڑے

    دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرے بڑے ملک اور خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے بھارت میں غربت، بے روزگاری، گھریلو جھگڑوں اور دیگر سماجی و اقتصادی مسائل کی وجہ سے ہر گھنٹے میں اوسطاً پندرہ یا اس سے زیادہ افراد خودکشیاں کررہے ہیں۔

    یہ بات حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال ایک ارب بیس کروڑ آبادی والے ملک بھارت میں ایک لاکھ پینتیس ہزار افراد نے خودکشیاں کی تھیں اور یہ تعداد اس سے پیوستہ سال کے دوران خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد سے 5۰9فی صد زیادہ ہے۔

    بھارت کے قومی جرائم ریکارڈز بیورو کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2010ء کے دوران ایک لاکھ کی آبادی میں خودکشی کی شرح بڑھ کر11۰4 فی صد ہو گئی ہے جبکہ سال2009ء میں یہ شرح 10۰9 فی صد تھی۔

    بھارتی مردوں میں خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہندوساہوکار یا بنکوں کے قرضے اور معاشی مسائل ہیں جبکہ خواتین گھریلو جھگڑوں اور مردوں کی جانب سے جسمانی اور ذہنی تشدد اور بیش قیمت جہیز لانے کے بے جا مطالبات کی وجہ سے اپنی جان لے لیتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت نے 2008ء میں بھارت کو خودکشی کی شرح کے اعتبار سے دنیا میں اکتالیسواں ملک قراردیا تھا لیکن ایک ارب سے زیادہ آبادی کی وجہ سے بھارت میں خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد دنیا بھر میں خودکش کرنے والے افراد کی کل تعداد کا بیس فی صد ہے۔

    بھارت کی جنوبی ریاستوں کیرالہ ،تامل ناڈو ،آندھرا پردیش اور کرناٹک میں خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ان ریاستوں میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے کسانوں کو زندگی کی قید سے آزادی کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ زندگی پر خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔

    کاشتکار بالعموم بیجوں ،زرعی آلات یا اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے بنکوں یا ساہو کاروں سے قرضے حاصل کرلیتے ہیں لیکن خراب فصلوں کی وجہ سے وہ اپنا قرضہ بروقت چکانے میں ناکام رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ گوناگوں مسائل کا شکارہوجاتے ہیں اور وہ بنکوں اور ساہوکاروں کے ہاتھوں ذلت برداشت کرنے کے بجائے اپنی زندگیوں ہی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔

    رام بابو نامی ایک کاشتکار کی خودکشی کی کہانی اس صورت حال کی درست عکاسی کرتی ہے۔اس کے بیٹے رام غلام نے بتایا کہ ''میرے والد نے بنک سے ٹریکٹر خریدنے کے لیے چھے ہزار ڈالرز کا قرضہ لیا تھا لیکن وہ خراب فصل کی وجہ سے اپنا قرضہ چکانے میں ناکام رہا۔اس پر بنک کے کولیکٹروں نے اس کا پیچھا کیا۔حتی کہ انھوں نے ایک روز اس کی بے عزتی کے لیے ڈھول بجانے والوں کی خدمات حاصل کیں تا کہ وہ پورے گاٶں میں ڈھول پیٹ کر اس کی عزت کی جنازہ نکالیں۔

    رام غلام نے بتایا کہ ''میرا والد ایک عزت دار آدمی تھا اور وہ اس بے عزتی کی تاب نہ لاسکا۔اس سے اگلے روز اس نے اپنے کھیت میِں لگے درخت سے جھول کر پھانسی لے لی''۔رام بابوکی خودکشی کی خبر مقامی اخبارات میں رپورٹ نہیں ہوئی تھی۔اسی طرح خودکشیوں کے روزانہ اور بھی بیسیوں واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن وہ کہیں رپورٹ نہیں ہوتے جبکہ نوبیاہتا دلہنوں کی ایک بڑی تعداد جہیز نہ لانے کی وجہ سے سسرالیوں کے طعنے سن کر خودسوزی کر لیتی ہے۔
     
  4. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    "کون بنے گا کروڑ پتی" کا انعام غریب بھارتی نوجوان نے جیت لیا

    بھارتی فلم "سلم ڈاگ ملینئر" کی عملی تفسیر اس وقت دیکھنے میں آئی کہ جب جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک ہندوستان میں ایک معمولی درجے کا انتہائی غریب ملازم معروف ٹی وی شو "کون بنے گا کروڑ پتی" میں ایک دس لاکھ ڈالرز کا انعام جیت گیا۔

    شیشل کمار کی گزشتہ ہفتے ٹی وی شو میں کامیابی کے قلابے "سلم ڈاگ ملینئر" کے ساتھ ملائے جا رہے ہیں۔ اس فلم کو سنہ دو ہزار آٹھ میں آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ فلم میں ہیرو کا کردار جمال شاہد نامی غیر معروف نوجوان نے ادا کیا تھا۔

    "کون بنے کا کروڑ پتی" پروگرام کو مشہور بھارتی فلم اداکار امیتابھ بچن ہوسٹ کرتے ہیں اور اس پروگرام کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی شریک نے اس میں رکھا گیا سب سے بڑا انعام جیتا ہو۔ یہ پروگرام اس ہفتے پیش کیا جائے گا، جس میں ٹیکس کٹوتی کے بعد کمار کو 7 لاکھ بیس ہزار ڈالر بطور پیش کئے جائیں گے۔

    یاد رہے کہ شیشل کمار نے یہ پروگرام اپنے ہمسائیوں کے گھر ٹی وی سیٹ پر دیکھا کیونکہ وہ غربت کے باعث ٹی وی خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تھا۔ اپنی کامیابی کے حوالے سے مسٹر کمار کا کہنا تھا کہ اس نے ابھی تک انعامی رقم کے تصرف کے حوالے سے کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ واضح رہے کہ بھارت میں فی کس یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔

    برطانوی خبر رساں ایجنسی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے شیشل کمار نے بتایا کہ وہ پہلے اپنے گھر کی حالت ٹھیک کرے گا، پھر وہ شہری خدمات کے میدان میں تعلیم حاصل کرنے دلہی جائے گا۔ کمار مشرقی بھارت کی ایک غریب ترین ریاست بھار کے سرکاری دفتر میں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کی ماہانہ آمدنی ایک سو بیس ڈالر یعنی چھے ہزار بھارتی روپے ہے۔
     
  5. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    شہباز تاثیر اغواء: لاہور کے یونیورسٹی طلباء ملوث

    پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر جنہیں اس سال اگست میں لاہور سے اغواء کیا گیا تھا کی بازیابی کے سلسلے میں جاری کوششوں کے دوران تفتیش کاروں کو معلوم ہوا ہے کہ انہیں شمالی وزیرستان میں موجود محمد علی ازبک گروپ نے انجینرنگ یونیورسٹی لاہور کے پانچ طلباء کے ذریعے اغوا کیا گیا تھا اور اب ان کی رہائی کے بدلے میں پچاس کڑور روپے تاوان کے علاوہ ایک سو ساٹھ ایسے مبینہ دہشگردوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جن کے بارے میں اغواء کاروں کو شبہ ہے کہ وہ آئی ایس آئی کی حراست میں ہیں۔
    شہباز تاثیر اغواء: لاہور کے یونیورسٹی طلباء ملوث | Top Story Online
     
  6. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    ناانصافی، ہمیشہ نفرت اور انتقام کو جنم دیتی ہے

    رحیم اللہ یوسف زئی

    صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستانی حکام کا خیال تھا کہ انہوں نے پاکستان میں طالبان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف اور مجاہد رہنما گل بدین حکمت یار کے مطلوب داماد ڈاکٹرغیرت بحیر کو گرفتار کرکے، امریکی حکومت کے سپرد کر دیا ہے اور اس طرح امریکا اور افغانستان کی حکومتوں پر گویا کوئی احسان کردیا ہے۔ بہر صورت، دونوں افراد کو کئی سال گوانتا ناموبے اور بگرام کی بدنام زمانہ جیلوں میں غیرقانونی حراست میں رکھنے کے بعد بالآخر رہا کر دیا گیا اور اب بالعموم یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ انہیں غلطی سے حراست میں رکھا گیا تھا۔

    اس کے باوجود اسلام آباد نے واشنگٹن اور کابل دونوں کو خوش رکھنے کا یہ طریقہ ترک نہیں کیا اور اس طرح طالبان اور حزب اسلامی کی مخالفت مول لے لی کہ وہ ان دونوں کے سربراہ غیر لڑاکا اراکین کو گرفتار کرکے ان کے اعتماد کو مجروح کر رہا ہے۔ حقیقت میں یہ دونوں اشخاص بجائے روپوشی کے اسلام آباد میں آزادانہ زندگی بسر کر رہے تھے اور افغانستان میں غیر ملکی افواج پر مبنی نیٹو کے خلاف کسی مزاحمتی مسلح گروپ کا حصہ بھی نہیں تھے، عبدالسلام ضعیف کو تو سفارتی استثنا بھی حاصل تھا۔جب کہ ڈاکٹر بحیر اپنے خسر کی جماعت حزب اسلامی (حکمت یار) کے پاکستان میں سیاسی نمائندہ بھی تھے۔

    ڈاکٹر بحیر نے اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر امریکا اور پاکستان کے لئے نفرت اور غصے کا کوئی اظہار بھی نہیں کیا لیکن ضعیف نے دھمکی دی کہ وہ اپنی گرفتاری کے خلاف، اسلام آباد پر مقدمہ قائم کریں گے جو انہوں نے عملاً اب تک نہیں کیا لیکن اکثر و بیشتر انہوں نے بیانات میں پاکستان کے لئے اپنی برہمی کا اظہار ضرور کیا انہوں نے حال ہی میں خبردار کیا کہ پاکستان کو کسی بھی قسم کے افغان امن مذاکرات میں شریک نہیں کیا جائے کیوں کہ پاکستان کے ماضی کا ریکارڈ ایک ناقابل اعتماد ریاست کا ہے جس پر کمزور و غیر محفوظ حکمراں حکومت کرتے آرہے ہیں۔

    جیو ٹی وی کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر حامد کرزئی نے بھی کہا کہ ضعیف اور ڈاکٹر بحیر کو پاکستان نے گرفتار کرکے غلطی کی تھی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت طالبان رہنما ملا محمد عمر کی گرفتاری میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اسلام آباد، طالبان رہنماؤں کو محفوظ ٹھکانوں کی فراہمی بند کر دے، یہ کرزئی کا وہی انٹرویو ہے جس میں انہوں نے کھل کر اعلان کیا کہ اگر پاکستان پر امریکا اور بھارت نے حملہ کیا تو افغانستان ، پاکستان کا ساتھ دے گا۔ ہمیں اس بیان کو اس لئے اہمیت نہیں دینی چاہیئے کہ کسی نے بھی ان کے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیوں کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کرزئی کے اس فیصلے کو جلد ہی آزمایا جا سکے گا۔

    بھارت کے ساتھ، افغانستان کے سیکورٹی معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کی بے چینی کے خاتمے کیلئے یہ بیان محض دوستانہ کوشش سے کچھ زیادہ نہیں ہے چوں کہ ڈاکٹر بحیر اور ضعیف حزب اختلاف کی معروف شخصیات تھی اس لئے ان کے کیسز کو میڈیا سے بھرپور کوریج دی جب کہ دیگر افراد کو میڈیا نے نظر انداز کردیا ضعیف نے اپنی ناجائز حراست کو ادب کا حصہ بنا کر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب میری زندگی طالبان کے ساتھ تحریر کی ہے۔جس کا پشتو سے، دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے۔ کتاب پر طالبان تحریک کو چلانے والے طاقت ور عوامل کے تذکرے پر مثبت تبصرے بھی منظر عام پر آرہے ہیں۔


    43 سالہ ضعیف بگرام ایئربیس اور گوانتاناموبے کی جیلوں میں 5 سال مقید رہے ان پر جسمانی و ذہنی تشدد کے واقعات اس کتاب میں تفصیل سے درج کئے گئے ہیں۔ انہیں رات بھر جگانے، غیر معمولی حرارت، جسمانی تشدد اور تذلیل کرنے جیسی سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ جو امریکی اہل کاروں بشمول صدر بارک اوباما اور سیکرٹری ہیلری کلنٹن کے انسانی حقوق کے احترام، جمہوریت کے فروغ اور تشدد کے خلاف بیانات کی یکسر تردید ہیں۔ حال ہی میں وہ پاکستان کے دورے پر، اسلام آباد میں مذکورہ عنوانات سمیت دیگر معاملات پر پاکستان کو لیکچر بھی دے کر گئی ہیں۔

    ضعیف نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ وہ کس شرمناک طریقے سے اپنے گھر واقع اسلام آباد سے گرفتار ہوئے۔ جہاں سے انہیں پشاور لے جایا گیا اور وہاں آئی ایس آئی کے ایک محفوظ ٹھکانے پر حراست میں رکھا گیا۔ بعد ازاں انہیں ایئر پورٹ پر امریکی فوجیوں کے سپرد کر دیا گیا۔ یہ واقعہ بلاشبہ پاکستان کے لئے بے حد افسوس ناک ہے اگر ان کا یہ بیان درست ہے کہ امریکیوں نے انہیں زد وکوب کیا اور پاکستانی اہل کاروں کے روبرو انہیں برہنہ کیا گیا تو ان کے اس بیان کو پاکستان کے پہلے سے قائم خراب تاثر کا بھلا کرنے کی کوئی اچھی کوشش نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تمام تفصیلات کتاب میں موجود ہیں جیسے بہت زیادہ بڑھایا جا رہا ہے۔

    ضعیف کو بطور سفیر عزت مآب کا لقب دیا گیا تھا لیکن اگلے ہی روز امریکی فوج کو یہ اجازت دے دی گئی کہ وہ پاکستان کی سر زمین پر، ایک بے یارو مددگار کی تذلیل کریں اور اسے زدو کوب کریں۔ فی زمانہ، طالبان، پاکستان کے دوست ہو سکتے ہیں کیوں کہ انہیں اسلام آباد کی مدد کی ضرورت ہے اگر انہیں دوبارہ دھوکہ دیا گیا یا اگر حالات تبدیل ہو جاتے ہیں تو وہ دشمن میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ مستقبل میں فریقین کے مابین تعلقات میں کشیدگی کے اسباب میں ایک سبب، ضعیف کے ساتھ کی گئی یہ بدسلوکی بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر بحیر نے کتاب نہیں لکھی لیکن میڈیا کے مختلف حصوں نے ان کے معاملے کی بہترین طریقے سے تشہیر کی ہے، انہوں نے پاکستان کے خلاف کبھی سخت جذبات و احساسات کا مظاہرہ نہیں کیا ان کی امریکا کے لئے دشمن بھی، اس قدر شدید نہیں ہے۔ (جاری ہے)

    بہ شکریہ روزنامہ جنگ
     
  7. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    شہزادہ خالد کا اسرائیلی فوجیوں کے اغواء کے بدلے ایک ملین ڈالر کا اعلان

    سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین شیخ عوض القرنی کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں کے اغواء کے بدلے میں ایک لاکھ ڈالرز کی انعامی رقم مقرر کرنے کے بعد سعودی شاہی خاندان کے شہزادہ خالد بن طلال بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی جانب سے ایک اسرائیلی فوجی کو یرغمال بنانے کے لیے نو لاکھ ڈالرز کے انعام کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد یہ انعامی رقم ایک ملین ڈالرز تک جا پہنچی ہے۔
    شہزادہ خالد کا اسرائیلی فوجیوں کے اغواء کے بدلے ایک ملین ڈالر کا اعلان
     
  8. حرب

    حرب -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 14, 2009
    پیغامات:
    1,082
    شیخ عوض القرنی سلمہ اللہ۔۔۔ کے اس ردعمل کی دلیل کیا ہے؟؟؟۔۔۔ کیا ایک لاکھ ڈالر کی انعامی رقم یہ لالچ دینے کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا؟؟؟۔۔۔ جس سے فساد برپا ہو۔۔۔ اس سے مشکلات پیدا ہونگی ان مسلمانوں کے لئے جو فلسطین میں بستے ہیں۔۔۔ اس طرح کے شرانگیز بیانات سے بہتر یہ ہوتا کے شیخ موصوف سوریا میں سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے حق میں چار جملے ادا کردیتے تو اُن کا مزید حوصلہ بلند ہوتا۔۔۔ جو وہاں کی موجودہ حکمت کے ظلم وستم کا شکار بننے ہوئے ہیں۔۔۔
     
  9. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    فوج میں رشوت اور فراڈ سکینڈلز کا انکشاف

    پاکستان آرمی میں پچھلے تین سالوں میں رشوت، بدعنوانی اور فراڈ کے52 نئے سکینڈلز کا انکشاف ہوا ہے جن میں جی ایچ کیو میں ہونے والے چار ’گھپلے‘ بھی شامل ہیں جن کا پاکستانی ’آزاد میڈیا‘ میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ فوج کے علاوہ پی آئی اے میں بھی اسی عرصہ میں 36 فراڈ اور کرپشن کے سیکنڈلز سامنے آئے ہیں۔

    وزارت دفاع کے زیرکنٹرول چلنے والے فوجی اداروں میں ہونے والے ان مالی بدعنوانیوں کے سکینڈلز کا اعتراف سینٹ آف پاکستان میں پیش کی گئی دستاویزات میں وزیر دفاع چوہدری احمد مختار نے خود کیا ہے جو ٹاپ سٹوری آن لائن کے پاس موجود ہیں۔ سینٹ میں پیش گئی وزارت دفاع کی سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت دفاع کے نیچے کام کرنے فوجی اداروں میں پچھلے تین سالوں میں بہت سارے سکینڈلز سامنے آئے تھے جن میں پاکستان آرمی کا جنرل ہیڈ کواٹر اور ائر ہیڈکواٹر بھی بھی شامل ہیں۔ تاہم ایک بات بڑی حیران کن ہے کہ سینٹ میں پیش کی گئی دستاویزات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان اٹھاسی سکینڈلز میں کل کتنی رقم شامل تھی جو لوٹی گئی تھی اور کتنے فوجی اور سویلین افسران ان سکینڈلز میں ملوث تھے۔

    ان تفصیلات کے مطابق جی ایچ کیو میں چار سکینڈلز سامنے آئے، ائرہیڈکوارٹر میں بارہ، پاکستان آرمڈ سروسز بورڈ ایک، ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ ڈیپارٹمنٹ اکیس، پاکستان ملٹری اکاوئنٹس ڈیپارٹمنٹ گیارہ، ایف جی ای آئی میں تین اور پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کارپوریشن میں چھتیس۔ یہ معلومات اس وقت وزارت دفاع نے سینٹ میں پیش کیں جب سینٹر محمد طلحہ محمود نے یہ سوال اٹھایا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران وزارت دفاع، اس کے ملحقہ محکموں، ذیلی دفاتر اور کارپوریشنوں میں سامنے آنے والے رشوت، بدعنوانی اور فراڈ کی تفصیلات کیا ہیں۔

    ذرائع کے مطابق یہ پہلی دفعہ ہو ا ہے کہ وزارت دفاع نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس کے ذیلی اداروں میں کرپشن کے اتنے بڑے پیمانے پر سکینڈلز سامنے آئے تھے۔ تاہم ایک مبصر کے مطابق کرپشن اور فراڈ کے زیادہ کسیز پی آئی اے کے ہیں جس کا فوج سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لہذا ان چھتیس کیسز کو اگر نکال دیا جائے تو پھر پاکستان آرمی میں ہونے والے فراڈ اور رشوت بدعنوانیوں کے کیسیز کی کل تعداد اٹھاسی کی بجائے باون ہو گئی۔ ان سکینڈلز کو اتنا چھپا کر رکھا گیا تھا کہ اب تک ان میں کوئی ایک بھی سکینڈل کسی بھی اخبار کی زینت نہیں بن سکا۔

    اس سے پہلے پاکستان آرمی کے تین سابق ٹاپ جرنیلوں کے حوالے سے سب سے بڑا سکینٖڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب نیشنل لاجسٹک سیل میں اعلی عہدوں پر کام کرنے والے دو لیفٹینٹ جنرلز، ایک میجر جنرل کے علاوہ کچھ سویلین نے مل کر اس ادارے میں چار ارب روپے کا فراڈ کیا تھا۔جن جرنیلوں کا نام اس میں شامل تھا ان میں لیفٹیٹ جنرل (ر) خالد منیر، لیفٹنٹ جنرل (ر) محمد افضل مظفر اور میجر جنرل(ر) خالد ظہیر اختر شامل تھے جو این ایل سی کو 2003 سے لے کر 2008 تک چلاتے رہے اور اربوں روپے کی ساری رقم اس دوران ڈوب گئی تھی۔

    اس فراڈ کا انکشاف اڈیٹرجنرل آف پاکستان نے کیا تھا جس کے بعد پبلک اکاونٹس کمیٹی نے تین مختلف انکوائریاں کرائی تھیں اور ان تنیوں میں یہ ثابت ہوا تھا کہ ان آرمی جرنیلوں نے چار ارب روپے کا نقصان کیا تھا۔ اس وقت یہ بتایا گیا تھا کہ این ایل سی کے ان جرنیلوں نے اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو ارب روپے اٹھا کر سٹاک ایکسچنج میں انویسٹ کر دیے۔شوکت عزیز نے ان جرنیلوں کو منع کیا تھا کہ وہ اپنا پیسہ اٹھا کر سٹاک میں مت انویسٹ کریں کیونکہ یہ ڈوب جائے گا۔ یہ پیسہ دراصل اس ادارے کا منافع اور وہاں کام کرنے والے ملازمین کی گریجویٹی اور پنشن کا پیسہ تھا۔ جب یہ سارا پیسہ ڈوب گیا تو ان تین جرنیلوں نے کمرشل بنکوں سے دو ارب روپے کا قرضہ لے لیا اور اسے بھی کراچی اور لاہور کی سٹاک میں لگا دیا۔

    اس کام کے لیے کراچی اور لاہور میں سٹاک بروکر کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں جنہیں کڑورں روپے ان کا کمیشن ادا کیا گیا اور جونہی مارکیٹ کریش ہوئی، اس کے ساتھ ہی دو ارب روپے ایک ہی جھٹکے میں ڈوب گئے۔ یہ تین جرنیل کب کے ریٹائرڈ ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں لیکن این ایل سی ابھی دو ارب روپے کے اس کمرشل لون پر بنکوں کو سود سیمت ادائگیاں کر رہا ہے جو ان تین جرنیلوں نے لے کر سٹاک ایکسچیج ’جوئے‘ میں لگا دیا تھا۔

    تاہم اس سے پہلے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ان جرنیلوں کے خلاف پچھلے سال دسمبر میں کوئی ایکشن کرتی کہ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے فوج کی اپنی ایک انکوئرای کرانے کا حکم دے دیا۔ یوں پبلک اکاوئنٹس کمیٹی نے اپنی کارروائی روک دی۔

    اب آرمی نے پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کو بتایا ہے کہ آرمی کی انکوائری میں بھی وہ تین جنرلز قصور وار پائے گئے تھے اور ان کے خلاف کاروائی کی جارہی تھی۔ تاہم فوج نے اپنی انکوائری رپورٹ پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے ممبران کے سامنے پیش نہیں کی اور نہ ہی اب تک یہ پتہ چلا ہے کہ ان تین جنرلز کے خلاف کیا ایکشن کیا گیا ہے۔
     
  10. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    عمران خان سرخرو، مبارکباد کا حقدار صرف ہارون الرشید!

    تبصرہ : رؤف کلاسرا

    عمران خان جب پانی پت ( لاہور) کا محاذ فتح کر کے فارغ ہوا، تو میرے ذہن میں جس شخص کا نام آیا کہ اسے مبارک دینی چاہیے ، وہ ٹاپ کے پاکستانی کالم نگار ہارون الرشید کا تھا۔ہارون الرشید نے اس وقت عمران پر اپنا پورا یقین برقرار رکھا جب ان کی اپنی بیوی جمائعہ خان بھی مایوس ہو کر ان سے طلاق لے کرلندن لوٹ گئی تھی۔ وہ تو عمران سے اتنی مایوس ہوئی کہ اپنے ساتھ اپنے دو بیٹے بھی لے گئی کہ اسے شک تھا کہ عمران ان کی پرورش کر سکے گا، ملک کے بچوں کا مستقبل بنانے کے دعوی کرنے تو دور کی بات تھی !

    جب بندے پر بیوی ہی اعتماد نہ کرے ، تو پھر اور کسی سے کیا گلا۔
    عمران خان سرخرو، مبارکباد کا حقدار صرف ہارون الرشید! | Top Story Online
     
  11. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    عمران، الطاف اور سیاسی کعبہ کی ’منتقلی‘

    نواز شریف کے بعد اب آصف زرداری کے ترکی جانے کو محض اتفاق سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہیے یا پھر امریکی مصنف ماریو پزو کے شہرہ آفاق ناول گاڈ فادر کے مرکزی کردار کے اس ڈایئلاگ کو یہاں دہرانے کی ضرورت ہے جب وہ اپنے بڑے بیٹے سونی کے مارے جانے کے بعد اپنے چھوٹے بیٹے مایئکل کو بچانے کے لیے اپنے دشمنوں سے ایک ڈیل کرتے وقت انہیں خبردار کرنا بھی نہیں بھولتا کہ وہ زندگی میں اتفاقات پر یقین نہیں کرتا اور اب اگر اس ڈیل کے بعد اس کے بیٹے پر آسمانی بجلی بھی گری تو بھی وہ یہی سمجھے گا کہ انہوں نے خدا سے مل کر اسے مارنے کی سازش کی تھی! !
    عمران، الطاف اور سیاسی کعبہ کی ’منتقلی‘ | Top Story Online
     
  12. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    مصر میں اہل تشیع کی سیاسی جماعت کےقیام پر نئی بحث شروع

    مصرمیں اہل تشیع کی ایک سرکردہ شخصیت ڈاکٹراحمد راسم النفیس نے "فریڈم" کے نام سے ایک نئی مذہبی سیاسی جماعت کی تاسیس کا اعلان کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت فریڈم پارٹی میں قبطیوں، قوم پرستوں، لبرل اور صوفی ازم پر یقین رکھنے والے مذہبی افراد کی بڑی تعداد شامل ہو گی۔ دوسری جانب ماہرین سیاسیات نے مذہب یا مسلک کی بنیاد پر کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کی کوششوں پر تنقید کی ہے۔

    قاہرہ میں العربیہ ٹی وی کے نامہ نگارکی تیارکردہ رپورٹ کے مطابق ماہرین کا خیال ہےکہ خالصتا ایک شیعہ سیاسی جماعت کے قیام کا مقصد مصر کے اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان ایک نئی جنگ چھیڑنا ہے۔

    مصر جہاں پہلے ہی عیسائی قبطیوں اور مسلمانوں کے درمیان حالات کشیدہ ہیں، ایسے میں کسی دوسرے فرقے کا خود کو مذہب یا مسلک کی بنیاد پر منظم کرنا بھی کسی خطرے سے کم نہیں ۔ نیز مذہب کی بنیاد پر کسی جماعت کی تشکیل ویسے بھی مصرکے دستور کےخلاف ہے۔ اگر ڈاکٹر نفیس نے جماعت کی تشکیل سے قبل ہی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں تو انہیں سیاست میں حصہ لینے پر پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
    فریڈم پارٹی ایک نیا بوجھ ہو گی

    مسلکِ اہلِ تشیع کی جانب سے نئی سیاسی جماعت "فریڈم" کے بارے میں ایک دوسری سیاسی جماعت "سوسائٹی" کے صدر ڈاکٹر رفعت سعید نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ" سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "کسی بھی طبقے یا شخص کو اپنی سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی افکار ونظریات کے فروغ کی اجازت حاصل ہے.

    بشرطیکہ اس کا مقصد ملک میں اصلاح احوال اور جمہوریت کا فروغ ہو۔ جہاں تک کسی مسلک کی بنیاد پر سیاسی جماعت کی تشکیل کا اعلان ہے تو یہ فرقہ ورانہ لڑائیوں کی بنیاد ڈالنا ہے۔ مصر پہلے بھی شیعہ سنی فسادات کے ہولناک مناظرکا سامنا کر چکا ہے۔ اہل تشیع مسلک کی بنیاد پر کسی نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے"۔

    ڈاکٹر سعید کہہ رہے تھے کہ مصری عوام پہلے قبطیوں اور مسلمانوں کے مابین پائے جانے والے بعض اختلافات کی بنا پر سخت پریشان ہیں۔ فریڈم کے نام سے کسی دوسری ایسی مذہبی سیاسی جماعت جس کی بنیاد فرقہ واریت پر رکھی جائے مصری قوم پر ایک بوجھ اور قومی سلامتی کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہو گی۔

    ڈاکٹر رفعت نے کہا کہ ہمارا آئین اور دستور بھی مذہب یا مسلک کی بنیاد پر جماعت کی تشکیل کی اجازت نہیں دیتا۔ مصر میں اخوان المسلمون،"العدالہ" اور"النور" کے نام سے موجود جماعتیں بھی اصلا سیاسی جماعتوں کے طور پر وجود میں آئی ہیں، تاہم ان تمام کا ایک خاص مذہبی پس منظر ہے۔ البتہ کسی شیعہ جماعت کی تاسیس ہمیں یہ سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے کہ آیا اس جماعت کی اپنی کیا شناخت ہو گی؟ کیا اس کے لبنانی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے ساتھ تعلقات ہوں گے؟۔

    ایک سوال کے جواب میں مصری سیاست دان نے کہا کہ فریڈم کے نام سے اہل تشیع کی سیاسی پارٹی ملک میں کوئی نئی سیاسی زندگی کا باعث نہیں بنے گی بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہمارے معاشرے اور قوم پر ایک نیا بوجھ ہو گی۔ اگر یہ جماعت قائم ہو جاتی ہے اور اسے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت مل جاتی ہے تو یہ سیاسی سرگرمیوں کے بجائے مسلکی سرگرمیوں پر توجہ دے گی جس کا نتیجہ شیعہ اور سنی فساد کی شکل میں سامنے آئے گا۔

    مصر کے ایک سرکردہ شیعہ رہ نما اور "فریڈم" کے بانی رکن طاہر ہاشمی نے مصری اخبار "الاھرام" سے گفتگو کرتے ہوئے نئی سیاسی جماعت کے قیام کا دفاع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی (اہل تشیع) کی سیاسی جماعت صرف شیعہ طبقے کے لیے مخصوص نہیں ہو گی بلکہ اس میں لبرل سوسائٹی اور قبطی بھی شامل ہوں گے۔

    طاہر الہاشمی نے وضاحت کی ان کی جماعت مصر میں اہل تشیع کی تبلیغ کے لیے قائم نہیں کی جا رہی ہے بلکہ یہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں ہی کی طرح ایک سیاسی جماعت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بعض طبقات کی جانب سے اہل تشیع کی جماعت کی تاسیس کو ملک میں فرقہ واریت کی نئی کوشش سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے، تاہم ان کی سیاسی جماعت ملک میں مسلکی اور گروہی بنیاد پر ہونے والے جھگڑوں کو ختم کرنے کی کوشش ضرور کرے گی۔
    انقلاب کے بعد امام رضاء کی پیدائش

    مصری اخبار "الاھرام" سے بات کرتے ہوئے شیعہ رہ نما طاہر الہاشمی نے کہا کہ ان کی سیاسی جماعت اور ایران میں موجود اہل تشیع کی سیاسی جماعتوں میں زمین آسمان کا فرق ہو گا۔ جن خصوصیات اور اہداف و مقاصد کے لیے ایران میں دینی سیاسی جماعتیں قائم کی گئی ہیں،"فریڈم پارٹی" کو وہ ان خطوط میں نہیں ڈھالنا چاہتے۔

    اس سوال پر کہ اس سال فروری میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف برپا ہونے والے انقلاب کے بعد مصری شیعہ حضرات اپنے ساتویں امام "امام الرضاء" کی پیدائش کی تقریبات منا رہے ہیں۔ ایسا کیون ہے؟ طاہر ہاشمی نے کہا کہ "یہ صرف دعائیہ تقریبات ہیں، جو سڑکوں یا چوراہوں پر نہیں بلکہ گھروں کے اندر منائی جاتی ہیں۔ یہ انفرادی نوعیت کاایک اقدام ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
    اہل تشیع کی جماعت کی تاسیس میں کوئی حرج نہیں

    مصری تجزیہ نگاراورمعروف صحافی احمد جمال نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ" سے گفتگوکرتے ہوئے شیعوں کی نئی سیاسی جماعت سے متعلق سوال پر کہا کہ"اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل تشیع ایک سیاسی جماعت کی تاسیس کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں مسلک کی بنیاد پر پہلے بھی مذہبی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ اخوان المسلمون اہل سنت کی نمائندگی کرتی ہے اور"النور" سلفی مسلک کی نمائندہ جماعت ہے۔ ایسے میں ایک اہل تشیع کی نمائندہ جماعت بھی قائم ہو گئی تو اسے کیا فرق پڑے گا۔

    مسلک کی بنیاد پر سیاسی جماعت کی تشکیل اور اس کے مُلک کی سلامتی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں احمد جمال نے کہا کہ مصری معاشرے کی ساخت دیگر معاشروں سے مختلف ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اہل تشیع کی سیاسی جماعت ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے کا موجب بن سکتی ہے۔
    شیعہ سیاسی جماعت کی ضرورت؟

    مصر میں دینی جماعتوں کے امور کے ماہر دانشور فہمی ہویدی نےبھی مصر میں اہل تشیع مسلک کی بنیاد پر کسی نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کی ضرورت واہمیت اور اس کے فوائد ونقصانات پر روشنی ڈالی۔

    "العربیہ ڈاٹ نیٹ" سے بات کرتے ہوئے مسٹر ہویدی کا کہنا تھا کہ "قبل اس کے ہم یہ غور کریں کہ آیا اہل تشیع کی سیاسی جماعت قومیت پر فرقہ واریت کو حاوی کر دے گی، ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ ہمیں ایک ایسی جماعت کی کس حد تک ضرورت ہے جو مسلک اور مذہب کے نام پر وجود میں لائی جا رہی ہو"۔

    انہوں نے کہا کہ گو کہ اس وقت مصر کے داخلی حالات کسی ایسی تنظیم کے قیام کی اجازت نہیں دیتے جس کا پس منظر ایک خاص مذہبی فرقے سے ہو کیونکہ اس سے ملک میں سیکیورٹی کے حوالے سےکئی سوالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اہل تشیع کی سیاسی جماعت مصر میں کسی فرقہ واریت کاباعث نہیں بنے گی۔ البتہ موجودہ حالات میں اس کا قیام کئی مشکلات کا جنم دے گا۔

    اس سوال پر کہ کیا اہل تشیع کی سیاسی جماعت مصری سیاست میں اپنا کوئی موثر کردار ادا کر پائے گی یا نہیں؟ فہمی ہویدی کا کہنا تھا کہ "مصری کل آبادی آٹھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان میں اہل تشیع کی کل تعداد 15 سے 20 ہزار تک ہو گی۔ اب یہ بیس ہزار افراد کروڑوں کی اس آبادی پر کیسے حاوی ہو سکتے ہیں؟۔

    فریڈم پارٹی کے ایک دوسرے بانی رُکن احمد العزب نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے ایران سے فنڈ لیں گے اور نہ ہی جماعت کو فرقہ واریت کے لیے استعمال کریں گے۔ ان کی جماعت کے دروازے قبطیوں، شیعوں، صوفی حضرات اور لبرل سب کے لیے کھلے ہیں۔
     
  13. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    ایران: اِہلِ سُنت والجماعت کے 56 علماء کی رہائی کا مطالبہ

    ایران کے سُنی اکثریتی صوبے کردستان کے علماء کی جانب سے زیر حراست تقریباً ساٹھ علماء کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ناکامی کے بعد علماء نے چیف جسٹس سے تحریری طور پر تمام گرفتار مذہبی شخصیات کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

    "العربیہ ڈاٹ نیٹ" کے مطابق صوبہ کردستان کے شہر"بوکان" کے ایک سرکردہ عالم دین نے ایرانی چیف جسٹس صادق لاریجانی کو مکتوب میں لکھا ہے کہ اہل سنت کے چھپن علماء کو بغیر کسی آئینی جواز کے مسلسل حراست میں رکھا گیا جہاں اُنہیں تفتیش کاروں کے ہاتھوں وحشیانہ تشدد کا سامنا ہے۔ چیف جسٹس زیر حراست تمام علماء کی فوری رہائی کے احکامات صادر کریں۔

    ایرانی خبر رساں ایجنسی"ایرنا" کے مطابق کردستان کے شہر "بوکان" کے ایک سُنی مفتی اور ممتاز عالم دین الشیخ ابراہیم صوفی زادہ نے یہ مراسلہ چیف جسٹس کو ارسال کیا ہے۔ مراسلے میں اہل سنت مسلک کے پانچ دیگر سرکردہ علماء حسین عزیزی، عبدالرحمان عبداللہ اسعدی، محمد محمودی، رسول چراغی، سید احمد حسینی اور مساجد کے آئمہ کی بڑی تعداد کے دستخط ثبت ہیں۔ رپورٹ کے مطابق علماء کی جانب سے چیف جسٹس کو تحریر کردہ مراسلہ ایرانی انٹیلی جنس نے قبضے میں لے لیا ہے،اس میں سے صرف سنی علماء کی گرفتاری کی شکایت چیف جسٹس تک پہنچائی گئی ہے۔

    چیف جسٹس کو تحریر کردہ مراسلے میں کہا گیا تھا کہ "حراست میں رکھے گئےاہل سنت والجماعت کے تمام علماء بے قصور ہی نہیں بلکہ مظلوم بھی ہیں۔ ان سے ریاست یا حکومت کےخلاف ایسی کوئی خطاء سر زد نہیں ہوئی جس کی پاداش میں انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ تواس کے برعکس نوجوانوں کو مساجد میں نمازوں کی ادائیگی کی ترغیب دیتے تھے۔ ان میں سے کسی نے نقص امن کا ارتکاب نہیں کیا۔ لوگوں کو نماز کی طرف بلانا عبادت کا حصہ ہے تمام ادیان میں اس کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایسا کرنے سے ملک میں کسی قسم کے سیکیورٹی مسائل بھی جنم نہیں لیتے لیکن سیکیورٹی فورسز نے اس کے باوجود علماء کی ایک بڑی تعداد کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے"۔

    خیال رہے کہ حال ہی میں آنے والی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ ایرانی عدالتوں سے صوبہ کردستان کے سرکردہ 56 سنی علماء کو مجموعی طور پر 156 سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں، ان میں سے چھ کا تعلق "بوکان" شہر سے ہے جن کے نام موستا محمد برائی، حسین جوادی، عثمان احسنی، عبداللہ خسرو زادہ، ھیمن محمود تختی اورحسام محمدی بتائے جاتے ہیں۔ ان علماء کو مجموعی طور پر اڑتیس سال قید بامشقت کی سزاؤں کا سامنا ہے۔

    ایرانی جوڈیشل حکام کی جانب سے سزا یافتہ علماء پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ملک میں سنی مسلک کی تبلیغ میں سرگرم تھے، جس کے باعث ملک میں سیکیورٹی کے مسائل جنم لے رہے تھے۔ بار بار کے منع کرنےکے باوجود ان کی تبلیغی سرگرمیاں جاری رہیں جس کی بنا پر انہیں گرفتار کا گیا ہے۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں