نصاری کو اپنا بھائی کہنے اورکرسمس مبارکباددینے کاحکم

ابوبکرالسلفی نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏دسمبر 23, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    بسم اللہ الرحمن الرحیم


    نصاری جیسی بدترین قوم کو اپنا بھائی کہنے
    اور
    ان کے مذہبی تہوار میں شرکت و مبارکباد دینے کا حکم

    مختلف علماء کرام

    انتخاب، ترجمہ وترتیب
    طارق علی بروہی

    نصاری اللہ تعالی کے نزدیک بدترین قوم ہیں اور کسی عزت واکرام کے مستحق نہیں

    [FONT="Al_Mushaf"]الحمدلله والصلاة والسلام على رسول الله، اما بعد
    :

    [FONT="Al_Mushaf"]عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ : قُلْتُ لِعُمَرَ[/FONT] :‘‘[FONT="Al_Mushaf"] إنَّ لِي كَاتِبًا نَصْرَانِيًّا قَالَ : ما لَكَ قَاتَلَكَ اللَّهُ ! أَمَا سَمِعْت َاللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴾ )المائدة :51) . أَلا اتَّخَذْتَ حَنِيفِيًّا [/FONT](يعني : مسلماً) [FONT="Al_Mushaf"]قَالَ : قُلْتُ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لِي كِتَابَتُهُ وَلَهُ دِينُهُ . قَالَ : لا أُكْرِمُهُمْ إذْ أَهَانَهُمْ اللَّهُ ، وَلا أُعِزُّهُمْ إذْ أَذَلَّهُمْ اللَّهُ ، وَلا أُدْنِيهِمْ إذْ أَقْصَاهُمْ اللَّهُ[/FONT]’’ (.([1]

    امام احمد بن حنبلؒ صحیح اسناد کے ساتھ سیدنا ابو موسی اشعری ؓ سے روایت بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ: (میں نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے کہا: میرا ایک کاتب نصرانی ہے۔ انہوں نے غصہ میں کہا تیرا بیڑہ غرق ہو تو نے ایسا کیوں کیا! کیا تو نے سنا نہیں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

    (اے ایمان والو! یہود ونصاری کو اپنے دوست نہ بناؤ یہ تو صرف ایک دوسرے ہی کہ دوست ہیں)​

    کیوں نہیں تو نے ایک مسلمان کو رکھ لیا ہوتا۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین مجھے تو محض اس کی کتابت سے مطلب ہے، وہ جانے اور اس کا دین۔ آپ t نے فرمایا: میں تو ان کا اکرام نہیں کروں گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ان کی اہانت فرمائی ہے۔اور نہ ان کی عزت کروں گا کیونکہ اللہ تعالی نے ہی انہیں ذلیل ورسواء کیا ہے، اور نہ انہیں اپنے سے قریب کرو ں گا جبکہ اللہ تعالی ہی نے انہیں دھتکار دیا ہے)۔

    اور اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب ؓ بالخصوص نصاری کے متعلق فرماتے ہیں: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]أهينوهم ولا تظلموهم ، فقد سبوا الله مسبة ما سبه إياها أحد من البشر[/FONT]’’ (انہیں ذلیل کرو اور ان پر ظلم نہ کرو، انہوں نے اللہ تعالی کو ایسی گالی دی ہے ، جس گالی کے ساتھ پوری انسانیت میں سے کسی نے گالی نہیں دی)۔

    نصاری کی اللہ تعالی اور انبیاء کرام علیہم السلام کی شان میں گستاخی

    حافظ ابن القیمؒ فرماتے ہیں:

    یہ بات معلوم ہے کہ اس امت نصاری نے دو ایسی عظیم برائیوں کا ارتکاب کیا ہے، جس سے کوئی بھی عقل ومعرفت رکھنے والے راضی نہیں ہوسکتے۔

    اول: مخلوق کے بارے میں غلو کرنا یہاں تک کہ اسے خالق کا شریک اور اس کا جزء بنادینا([2]) اور اس کے ساتھ ایک اور معبود بنادینا، ساتھ ہی اس بات کا انکار کیا کہ وہ اس کے بندے ہیں۔

    دوم: خالق کی تنقیص کرنا اور اسے گالی دینا، اور بہت ہی غلیظ وگندی باتوں سے اسے متصف کرنا، جیسا کہ ان کا باطل گمان ہے (اور اللہ تعالی تو ان کے اس قول سے بہت پاک وبلند ہے) کہ اللہ تعالی عرش و اپنی عظمت والی کرسی سے نازل ہوا اور ایک عورت کی فرج میں داخل ہوا، اور وہاں نوماہ پیشاب وخون وگندگی میں لپ پت رہا۔ پھر اس کے سبب سے رحم مادر کو نفاس لاحق ہوا، پھر جہاں سے داخل ہوا تھا وہیں سے خارج ہوا۔ نومولود بچہ تھا جو ماں کی چھاتیوں سے دودھ پیتا تھا، بچوں کے کپڑوں میں لپیٹا گیا، بستر پر لیٹا، جو روتا ہے اور بھوکا ہوتا ہے، پیاسا ہوتا ہے، بول وبراز کرتا ہے، جسے ہاتھوں اور کاندھوں پر اٹھایا جاتا ہے۔پھر یہود نے اسے تھپڑ تک رسید کرکے اس کے ہاتھ باندھ کر اس کے چہرے پر تھوک کر بندھے ہاتھوں دھکا دیتے ہوئے کھلم کھلا سب چور ڈاکوؤں کے سامنے پھانسی پر چڑھا دیا۔انہی کانٹوں بھرا تاج پہنا دیا، بڑی سخت اذیت کا مزہ چکھایا، یہ ہے ان کے نزدیک معبود برحق جس کے ہاتھ میں تمام جہانوں کی باگ ڈور ہے! یہ ہے ان کا معبود ومسجود!

    اللہ کی قسم! یہ تو ایسی قبیح ترین گالی ہے جو ان سے پہلے انسانیت میں سے کسی نے نہ دی ہوگی اور نہ بعد میں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا، أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا ﴾[/FONT] (مریم: 90-91)
    (قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے اور زمین پھٹ پڑے اور پہاڑ ٹل جائیں کہ انہوں نے رحمن کی اولاد قرارد ی)
    اور اس کے رسول ﷺ نے اپنے رب کی نسبت سے اسے پاک قرار دیتے ہوئے فرمایا جیسا کہ ان کے بھائی مسیح علیہ السلام نے بھی اس باطل کا ردفرماتے ہوئے اپنے رب کو پاک قرار دیا تھا،فرمایا آپ ﷺ نے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]شَتَمَنِي ابْنُ آدَمَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ذَلِكَ. وَ كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ذَلِكَ. أَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ ، فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، وَأَنَا الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كَفُّوا أَحَدٌ،وَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ. فَقَوْلُهُ: لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدأنِي. وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ[/FONT]’’([3]) (مجھے ابن آدم گالی دیتا ہے حالانکہ اسے یہ قطعاً زیب نہیں دیتا۔ اور ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ بھی اسے بالکل زیب نہیں دیتا۔ مجھے گالی دینا یہ ہےکہ وہ کہتا ہے: اللہ نے اولاد اختیار کی، جبکہ میں تو احد (اکیلا)، صمد(بےنیاز) ہوں، جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ کسی سے جنا گیا، اور میرا ہمسر بھی کوئی نہیں۔ اور مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے وہ مجھے دوبارہ اس طرح زندہ نہیں کرے گا جیسے پہلے پیدا کیا تھا، حالانکہ دوبارہ تخلیق کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل تو نہیں)۔
    عمر بن خطاب ؓ اس امت نصاری کے بارے میں فرماتے ہیں: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]أهينوهم، ولا تظلموهم، فلقد سبوا الله عز وجل مسبة ما سبه إياها أحد من البشر[/FONT]’’ (ان کی اہانت کرو (یعنی ذلیل سمجھو انہیں) اوران پر ظلم نہ کرو، بے شک انہوں نے اللہ تعالی کو ایسی گالی دی ہے جو انسانیت میں سے کبھی کسی نے نہیں دی)۔

    اللہ کی قسم! بت پرست لوگ باوجویکہ درحقیقت اللہ تعالی اور اس کے رسولوں علیہم السلام کے دشمن ہیں اور کفر میں سب سے بدتر ہیں مگر پھر بھی وہ اس بات سے بالکل بھی راضی نہیں کہ ان کے معبودات جو کہ شجر وحجر اور لوہا وغیرہ ہیں کو ایسے قبیح اوصاف سے متصف کریں جس سے اس امت نے رب العالمین الہ السماوات والارضین کو متصف کیا۔ ان بت پرست مشرکوں کے دلوں میں اللہ تعالی کی شان وعظمت اس سے بہت بلند ہے کہ اس قوم کے جیسے اوصاف سے بلکہ جو اس کے قریب تک بھی ہوں سے متصف کیا جائے۔ ان مشرکین کا شرک تو محض یہ تھا کہ وہ اللہ کی ہی مخلوق ومربوب کی عبادت اس زعم میں کرتے تھے کہ یہ انہیں اللہ تعالی کے قریب کردیں گی۔اپنے ان معبودوں کی کسی بھی چیز کو وہ اللہ تعالی کا ہمسر، نظیر یا اس کی اولاد نہیں گردانتے تھے۔ لہذا جو لعنت اللہ تعالی کی اس قوم پر ہوئی وہ کسی اور کے مقدر میں نہیں آئی۔

    اس بارے میں جو ان کا عذر ہے وہ تو ان کے اس قول سے بھی زیادہ قبیح ترین ہے کیونکہ ان کے اس اعتقاد کی اصل یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا مسیح علیہ السلام تک انبیاء کرام o کی روحیں جہنم میں ابلیس کی جیل میں تھیں، اورآدم علیہ السلام کی اس ممنوعہ درخت کو کھا لینے کی غلطی کی بناء پر سیدنا ابراہیم، موسی، نوح، صالح وھود علیہم السلام اس جہنم کی جیل میں مبتلائے عذاب تھے۔ پھر اس کے بعد جب کبھی بھی بنی آدم میں سے کوئی فوت ہوتا تو اسے ابلیس پکڑ کر اس جیل میں بند کردیتا ان کے والد سیدنا آدم علیہ السلام کے گناہ کی سزا میں۔ پھر جب اللہ تعالی نے اپنی رحمت فرمانے اور انہیں اس عذاب سے نجات دلانےکا ارادہ فرمایا تو ابلیس کے خلاف ایک حیلہ سازی کی۔ پس وہ اپنی عظمت والی کرسی سے نازل ہوا۔اور سیدہ مریم [کے پیٹ میں جاگھسا یہاں تک کہ وہیں سے پیدا ہوا پل بڑھ کر بڑا آدمی بن گیا۔ اور پھر اسی (اللہ) نے اپنے دشمنوں یہود کو اپنے آپ کو پکڑوا دینے یہاں تک کہ سولی پر چڑھا دینے اور سر پر کانٹوں بھرا تاج سجادینے کی توفیق دی۔ پس اس کے ذریعہ انبیاء ورسل کو نجات بخشی اور ان پر اپنی جان وخون کو فدا کردیا اور اس نے اولاد آدم کی رضا کی خاطر اپنا خون بہا دیاکیونکہ آدم کا گناہ ان سب کی گردنوں میں باقی تھا۔ پس ان سب کو اس گناہ وعذاب سے نجات دلوانے کے لئے اس نے اپنے دشمنوں یہود کے ذریعہ اپنے آپ کو پھانسی دلوائی، ہاتھ پیر بندھوائے، تھپڑ کھائے وغیرہ۔(نعوذباللہ من ذلک)۔ الا یہ کہ جو ان کے سولی چڑھنے کا انکار کرتے ہیں یا اس بارے میں شک میں مبتلا ہیں یا کہتےہیں کہ معبود تو ان باتوں سے پاک وبلند ہوتا ہے۔ تو ان کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی ابلیس کے قیدخانے میں مبتلائے عذاب رہے گا یہاں تک کہ اس بات کا اقرار کرے کہ معبود برحق خود پھانسی چڑھا، تھپڑ کھائے اور ہاتھ پیر بندھوائے۔

    چناچہ انہوں نے معبود برحق کی جانب ایسی ایسی گندی باتیں منسوب کی جو ایک ذلیل ترین ونیچ ترین انسان کے لئے بھی سننے کو کوئی گوارا نہیں کرتا کہ وہ اپنے غلاموں یا زیردست لوگوں سے ایسا سلوک کرے، یہاں تک کہ بت پرست بھی اپنے بتوں کے لئے ایسی باتیں منسوب کرنا گستاخی خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالی کو اس بات میں بھی جھٹلایا کہ اس نے سیدنا آدم علیہ السلامکی توبہ قبول فرماکر ان کی غلطی کو معاف فرمادیا تھا۔ اور اللہ تعالی کی جانب قبیح ترین ظلم کو منسوب کیا کہ اس نے اپنے انبیاء ورسل اور اپنے اولیاء کو ان کے باپ آدم علیہ السلام کی غلطی کی پاداش میں جہنم رسید کیا ہوا ہے۔اور اس قدر جہالت پر مبنی گری ہوئی بات اللہ تعالی کی طرف منسوب کی کہ اس نے ان سب کو نجات دلوانے کے لئے پہلے اپنے آپ کو دشمنوں کے ہاتھوں پکڑوایا یہاں تک کہ انہوں نے اسے قتل کردیا، سولی پر چڑھا دیا، اس کا خون بہا دیا۔ یعنی معبود برحق کے لئے اس درجہ عاجز ہونا منسوب کیا کہ وہ محض اپنی قدرت سے انہیں نجات نہیں دلاسکتا تھا کہ اسے مجبوراً شیطان کے ساتھ یہ حیلہ کرنا پڑا!اور غایت درجہ نقص کو اس کی طرف منسوب کیا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے بیٹے کو دشمنوں کے ہاتھوں میں دے دے اور وہ جو چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں!۔

    الغرض، ہم کسی امت کو اس امت سے بدتر نہیں پاتے کہ جو اپنے معبود کو ایسی گالی دے جو اس امت نے دی ہے، جیسا کہ سیدنا عمر t کا قول ہے ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إنهم سبوا الله مسبة ما سبه إياها أحد من البشر[/FONT]’’ (انہوں نے اللہ تعالی کو ایسی گالی دی ہے جیسی انسانیت میں سے کسی نے اسے گالی نہیں دی ہوگی)۔
    بعض آئمہ اسلام اگر کسی صلیبی کو دیکھ لیتے تو اس سے اپنی آنکھیں پھیر لیتے، اور فرماتے: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]لا أستطيع أن أملأ عينى ممن سب إلهه ومعبوده بأقبح السب[/FONT]’’ (میں ایسے شخص کے چہرے کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا کہ جو اپنے معبود والہ کو قبیح ترین گالی دیتا ہو)۔

    اسی لئے عقل مند مسلم بادشاہوں نے کہا کہ:‘‘[FONT="Al_Mushaf"]إن جهاد هؤلاء واجب شرعا وعقلا، فإنهم عار على بنى آدم، مفسدون للعقول والشرائع[/FONT]’’ (ان لوگوں کے خلاف جہاد شرعاً وعقلاً واجب ہے، کیونکہ یہ بنی آدم کے لئے عار کا سبب ہیں، جو عقل وشریعت میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں)۔
    [FONT="Al_Mushaf"](إغاثة اللهفان من مصايد الشيطان ص 282-284)[/FONT]

    ہماری مسیحی برادری یا ہمارے عیسائی بھائی کہنے کا حکم

    شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ؒ فرماتے ہیں: کافر مسلمان کا کبھی بھی بھائی نہیں ہوتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾[/FONT]
    (الحجرات: 10)
    (مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں یا صرف مومن ہی تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)​

    اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:‘‘ [FONT="Al_Mushaf"]الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ[/FONT]’’([4]) (مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے)

    لہذا کافر چاہے یہودی ہو، یا نصرانی، بت پرست، مجوسی، کمیونسٹ وغیرہ مسلمان کا بھائی نہیں ہوتا، جائز نہیں کہ اسے اپنا یار ودوست بنایا جائے۔
    (فتاوی شیخ ابن باز 6/392)

    شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ سے پوچھا گیا کہ کافر کو "بھائی" کہنا کیسا ہے؟

    شیخؒ نے جواب ارشاد فرمایا کہ: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافر کو چاہے کسی بھی نوعیت کا کافر ہو خواہ نصرانی ہو یا یہودی، مجوسی ہو یا ملحد، قطعاًجائز نہیں کہ اسے اپنا بھائی کہے([5])۔ اے بھائی تمہیں اس قسم کی عبارت استعمال کرنے سے خبردار رہنا چاہیے، کیونکہ کبھی بھی ایک مسلمان اور کافر میں اخوت (بھائی چارگی) نہیں ہوسکتی۔ اخوت تو دراصل ایمانی اخوت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

    ﴿ [FONT="Al_Mushaf"]إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ[/FONT]﴾
    (الحجرات: 10)
    (مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں یا صرف مومن ہی تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)​

    (مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین 3/43)

    کرسمس میں شرکت یا کسی بھی طور پر معاونت کرنے کا حکم

    شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ " کے فتاوی جلد 3 ص 105 میں ہے:

    کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافروں کی عیدوں میں شرکت کرے۔ خواہ وہ شرکت خود اس میں حاضر ہوکر ہویا انہیں اسے منانے کی اجازت دینے کی صورت میں ہو یا پھر ان کی عید کی مناسبت سے اشیاء ومواد کی خریدوفروخت کی صورت میں ہو۔ شیخ محمد بن ابراہیم ؒ نے وزیرِ تجارت کو خط بھی لکھا کہ:

    محمد بن ابراہیم کی طرف سے جناب وزیر تجارت (اللہ آپ کو سلامت رکھے) کی طرف۔

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد:

    ہمیں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ بعض تاجرحضرات نے گزشتہ برس سال نو کے آغاز کے قریب مسیحیوں کی عید (کرسمس) کی مناسبت سے خاص گفٹ وتحائف درآمد کئے تھے۔ اور انہی تحائف میں کرسمس ٹری بھی تھا، جبکہ وطنی لوگ انہیں خرید کر ہمارے ملک میں بسنے والے مسیحی لوگوں کو ان کی عید کی مناسبت سے پیش کرتے ہیں۔

    یہ بہت منکر بات ہے۔ ان کے لئے ایسا کرنا نہایت ہی غیر مناسب ہے۔ ہمیں شک نہیں کہ یقیناً اس کا ناجائز ہونا اور اہل علم نے مشرکین واہل کتاب کے کافروں کی عیدوں میں شرکت کی ممانعت پر جواتفاق فرمایا ہےآپ پر عیاں ہوگا۔ ۔ پس ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ ایسے تحائف اور جو اس ہی کی قبیل کے ہوں کی ہمارے ملک میں درآمد ملاحظہ فرمائیں گےجو کہ ان کی عیدوں کے خصائص میں سے ہے۔

    شیخ عبدالعزیز بن بازسے دریافت کیا گیا:

    سوال: بعض مسلمان نصاری کی عید میں شرکت کرتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا توجیہ فرمائیں گے؟
    جواب: کسی مسلمان مردوعورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نصاری یا یہود یا ان کے لئے علاوہ بھی کسی کافر کی عیدوں میں شرکت کرے۔ بلکہ اس کا ترک کرنا (بائیکاٹ کرنا) واجب ہے۔ کیونکہ ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ[/FONT]’’([6]) (جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے) اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ان کی مشابہت اور ان کے اخلاق وعادات کو اپنانے سے منع فرمایا ہے۔ پس ایک مومن اور مومنہ کو چاہیے کہ وہ اس سے خبردار رہے۔ اور ان کے لئے کسی بھی صورت میں ان کی خلاف شریعت عیدوں میں معاونت جائز نہیں، نہ ان میں شرکت کی صورت میں، نہ ان لوگوں سے تعاون کی صورت میں، اور نہ ہی مدد ومساعدت کے طور پر، نہ چائے، نہ قہوہ([7]) اور نہ ہی اس کے علاوہ برتنوں وغیرہ کے ذریعے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

    [FONT="Al_Mushaf"]﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب﴾ [/FONT]
    ( المائدۃ: 2)
    (اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)​

    اورکافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرنا گناہ اور زیادتی میں تعاون ہی کی ایک قسم ہے۔

    (مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 6/405)

    دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتاوی، سعودی عرب سے سوال پوچھا گیا:

    کیا غیر مسلموں کی عیدوں میں شرکت کی جاسکتی ہے، جیسے جشن میلاد سیدنا عیسی علیہ السلام (کرسمس)؟

    جواب: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرے اور اس مناسبت سے کسی بھی طرح کی خوشی ومسرت کا اظہار کرے، اور اپنے دینی یا دنیاوی کاموں کی چھٹی کرلے۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے دشمنوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور باطل میں ان کے ساتھ تعاون پایا جاتا ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ[/FONT]’’([8]) (جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے) اور اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے:

    ﴿[FONT="Al_Mushaf"]وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب[/FONT]﴾
    (المائدۃ: 2)
    (اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)​

    اور ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی کتاب "اقتضاء الصراط المستقيم" کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت کرتے ہیں، جو کہ اس باب میں بہت مفید ہے۔

    [FONT="Al_Mushaf"]وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم[/FONT]
    [FONT="Al_Mushaf"]اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء[/FONT] . فتوى رقم (2540).

    کرسمس کی مبارکباد دینا

    امام ابن القیمؒ اپنی کتاب "[FONT="Al_Mushaf"]أحكام أهل الذمة[/FONT]" میں فرماتے ہیں:

    کافروں کے مخصوص شعائر وتہواروں میں انہیں مبارکباد دینا حرام ہے جیسے ان کی عید یاان کے روزوں کے موقع پر کہنا کہ آپ کو عید مبارک ہو وغیرہ ۔ ایسا کام کرنے والے پر اگرچہ کفر کا فتوی نہ بھی لگے لیکن پھر بھی بہرحال یہ محرمات میں سے تو ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی کو صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دی جائے اور ایسی مبارکباد تو کسی کو شراب نوشی، ناحق قتل کرنے اور زنا کرنے پر مبارکباد دینے سے بھی بدتر فعل ہے۔ لیکن بہت سے ایسے لوگ جودین کو کوئی وقعت نہیں دیتے اس قسم کے امور میں واقع ہوتے ہیں، اور اپنے اس فعل کی قباحت تک سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ چناچہ جس شخص نے بھی کسی بندے کو گناہ، بدعت یا کفر پر مبارکباد دی تو گویا اس نے اللہ کے غیض وغضب کا اپنے آپ کو حقدار ٹھہرا لیا۔
    مزید فرماتے ہیں:

    اہل علم كا اتفاق ہے كہ مسلمانوں كےليے مشركوں كی عيدوں ميں شركت كرنا جائزنہيں ہے، اور مذاہب اربعہ كےفقہاء نےبھی اپنی كتب ميں اس كی صراحت كی ہے.... اور امام بيہقیؒ نےصحيح سند كےساتھ سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روايت كيا ہے كہ عمرt نےكہا: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]وَلا تَدْخُلُوا عَلَى الْمُشْرِكِينَ فِي كَنَائِسِهِمْ يَوْمَ عِيدِهِمْ، فَإِنَّ السَّخْطَةَ تَنْزِلُ عَلَيْهِمْ[/FONT]’’([9]) (مشركوں كی عيد كےدن ان كےگرجا گھروں(چرچ)([10]) ميں مشركوں كےپاس نہ جاؤ كيونكہ ان پر(اللہ کی) ناراضگی نازل ہوتی ہے) اور عمر t كا يہ بھی قول ہےكہ: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]اجْتَنِبُوا أَعْدَاءَ اللَّهِ فِي عِيدِهِمْ[/FONT]’’([11]) (اللہ كےدشمنوں سےان كی عيدوں ميں اجتناب كيا كرو) اور امام بيہقیؒنے سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ سے جيد سند كےساتھ روايت كيا ہے كہ انہوں نےفرمایا: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]من مَرَّ ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك حشر معهم يوم القيامة[/FONT]’’([12]) (جو كوئی بھی عجميوں كےملك سےگزرا اور اس نےان كے نيروز اور مہرجان([13]) كےجشن منائے اورموت تك ان سےمشابہت اختيار كئے رکھی تو وہ روز قيامت بھی ان كےساتھ اٹھايا جائےگا )۔

    ([FONT="Al_Mushaf"]أحكام أهل الذمة[/FONT] 1/723-724)

    نئے سال کی مبارکباد دینا

    اسی طرح سے فتوی کمیٹی کا بیان جو ملینیم کے سلسلے میں منائی جانے والی تقریبات میں شرکت سے متعلق تھا میں علماء کرام فرماتے ہیں:

    کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافروں کی عیدوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کا تعاون کرے جیسے ان کی عیدوں کا اعلان تشہیر، یا ملینیم منانا (جوکہ سوال میں مذکور ہے)۔ نہ اس کی طرف دعوت دے خواہ کسی بھی وسیلے کے استعمال کے ذریعے ہو چاہے میڈیا کے ذریعے ہو، یا گھڑیال وسائن بورڈز ہوں، یا خاص ملبوسات کی تیاری ہو یا یادگاری اغراض ہوں، یا عیدکارڈز ومدرسے (اسکولوں) کی اس موقع مناسبت سے خاص رجسٹرز وکاپیاں وغیرہ کی اشاعت ہو، یا اپنی تجارتی اشیاء پر خصوصی رعایت کی پیشکش ہو یا قیمتی انعامات کا اسکیم ہو([14])۔ یا کوئی خاص ورزش وکھیل کود کا پروگرام منعقد کرنا ہو۔ یا ان کے خاص شعار کو نشر کرناہو۔

    شیخ احمد بن یحیی النجمیؒ سال نو کی مبارکباد دئے جانے کے بار ےمیں فرماتے ہیں:
    ---یہ عادت باطل ہے اور بدعت سمجھی جائے گی اور ہر بدعت گمراہی ہے جسے چھوڑنااور اس پر عمل نہ کرنا واجب ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ تو عادات میں سے ہے (ناکہ عبادات میں سے) اور عادات کے بارے میں اصل (شرعی قاعدہ) یہ ہے کہ وہ حلال وجائز ہیں (الا یہ کہ ان کی حرمت کی دلیل ہو)۔ تو ہم اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ ان لوگوں (غیرمسلموں) نے اس دن کو باقاعدہ عیدبنالیا ہے۔ اور اس میں وہ وہ چیزیں مشروع کردی ہیں جو نہ اللہ تعالی نے اور نہ ہی اس کے رسول ﷺ نے مشروع فرمائی ہیں۔ جبکہ اسلام نے سوائے دو عیدوں کے یعنی عید الفطر اور عید الاضحی اور ہفتہ وار عید یعنی جمعۃ المبارک کے کوئی عید مشروع قرار نہیں دی۔ جو بھی شریعت مخالف عید وعادات لوگوں نے نکال لی ہیں وہ سب باطل ہیں۔۔۔
    (فتح الرب الودود : ج1ص37)
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حاشیہ:

    [1] دیکھیں [FONT="Al_Mushaf"]مجموع الفتاوی ابن تیمیہ25/326 اور اقتضاء الصراط المستقیم 1/184، اھل الملل والردۃ من الجامع للخلال 334[/FONT]۔
    [2] بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی بریلوی فرقہ اسی قسم کا عقیدہ رکھنا ہے کہ رسول اللہﷺ نور من نور اللہ تھے اللہ تعالی کے ذات کا حصہ تھے جو کہ واضح شرکیہ عقیدہ ہے، سچ فرمایا اللہ تعالی نے کہ:
    ﴿[FONT="Al_Mushaf"]وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِين[/FONT]﴾ (الزخرف: 15)
    (انہوں نے اللہ تعالی کے بندوں کو اس کا جزء بنادیا، بیشک ایسا انسان کھلا ناشکرا وکافر ہے)۔
    [3] صحیح بخاری 4974۔
    [4] صحیح بخاری 2442، صحیح مسلم 2565۔
    [5] جماعت اسلامی مرکزی کے نائب امیر پروفیسر غفوراحمد جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی مسیحی برادی کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں جماعت کی نمائندگی فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسیحی ہمارے بھائی ہیں (روزنامہ امت منگل 21 دسمبر، 2010)، اور یہی اس جماعت کا اور اخوان المسلمین کا منہج ہے۔ سب ادیان اور فرقوں کو جمع کرکے بس حکومت کا حصول کیا جائے۔ اسی طرح سے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب بھی فرماتے ہیں کہ: ایک عام مسلمان اور ایک عام ہندو الحمدللہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ہم اپنے غیرمسلم بھائیوں سے محبت کرتے ہیں۔۔۔(خدا کا تصور عالمی مذاہب میں)۔
    [6] صحیح ابی داود 4031۔
    [7] بعض دکاندار ومارکیٹ والے مسلمان ہوکر کرسمس کیک یاچاکلیٹ کےایسٹر ایگ وغیرہ بناتے ہیں اور مخصوص کرسمس تحائف پر اسپیشل ڈسکاؤنٹ وغیرہ کی پیشکش کرتے ہیں، یہ سب بھی اسی ضمن میں آتاہے۔
    [8] تخریج گذر چکی ہے۔
    [9] [FONT="Al_Mushaf"]السنن الکبری للبیھقی[/FONT] 9/234۔
    [10] ہمارے یہاں بھی نام نہاد اسلامی اسکالر ڈاکٹر طاہر القادری ان کی کرسمس کی تقریب میں شرکت کرکے اسلام اور نصرانیت میں یکسانیت کے گیت گاتے ہیں، اور تو اور اسلامی جماعت کہلانے والوں کے سربراہان جو نفاذ شریعت کی بات کرتے ہیں وہاں جاجاکر کیک کاٹتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔دیکھیں اخبار نوائے وقت 22 دسمبر، 2010 میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کی مسیحی برادی کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں کرسمس کیک کاٹنے کی تصاویر۔
    [11] [FONT="Al_Mushaf"]السنن الکبری للبیھقی[/FONT] 9/234۔
    [12] [FONT="Al_Mushaf"]السنن الکبری للبیھقی [/FONT]9/234 میں یہ الفاظ ہیں: ‘‘[FONT="Al_Mushaf"]مَنْ بَنَى بِبِلادِ الأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ، حَتَّى يَمُوتَ، وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ[/FONT]’’۔
    [13] جیسے فارسی مجوس اور ایرانی مناتے ہیں۔
    [14] جیسے بہت سے مسلمان اپنے تجارت چمکانے کو کافروں اور بدعتیوں کے تہواروں پر خصوصی رعایات واسکیمیں نکلالتے ہیں جیسے کرسمس میں بیکری والے خصوصی رعایت اور خاص قسم کے کرسمس کیک تیار کرتے ہیں یا پھر محرم میں پکوان والے محرم کی مجالس کے لئے خصوصی رعایت کا اعلان کرتے ہیں وغیرہ۔[/FONT]
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا.
     
  3. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    ہم اِن الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ اور الضَّاۗلِّيْنَ لوگوں سے اعلان براءت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ سید نا انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول قیامت کب ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے قیامت کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے اس نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے تو محبت رکھتا ہے انس کہتے ہیں ہمیں اسلام کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول تو انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے تو محبت رکھتا ہے سے بڑھ کر اور کسی بات کی زیادہ خوشی نہں ہوئی انس نے کہا پس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر سے محبت رکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میں انہیں کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میں نے ان جیسے اعمال نہیں کئے۔
     
  4. ابو عبداللہ صغیر

    ابو عبداللہ صغیر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مئی 25, 2008
    پیغامات:
    1,979
    جزاک اللہ خیرا بھائی
    صحیح وقت پہ بہترین تحریر

    ہمارے ہاں آج کل سیاسی خواتین و حضرات اپنی اسی "مسیحی برادری" کو کرسمس کی ایڈوانس مبارک باد دے رہے ہیں۔ بلکہ ایک جگہ تو بینر پہ ایک کالج کی طرف سے بھی "اپنے مسیحی بہن بھائیوں" کو کرسمس مبارک کا پیغام لکھا ہوا تھا۔

    اللہ تعالی ہمیں اس طرح کی لغویات س بچا کر صرف صرف اپنے راستے پہ ہی چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
     
  5. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیرا
     
  6. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاک اللہ خیرا
     
  7. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں