حکام کے معاصی اور کبائر کے ارتکاب سے ان کے خلاف خروج واجب!!

’’عبدل‘‘ نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏جنوری 10, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ’’عبدل‘‘

    ’’عبدل‘‘ -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 2, 2012
    پیغامات:
    118
    الشیخ عبدالعزیز البرعی

    ترجمہ ونظر ثانی
    الشیخ ابو عمیر حفظہ اللہ​


    سوال : کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکام کے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے ان کے خلاف خروج ( بغاوت) اور تبدیلی کی کوشش واجب ہو جاتی ہے ۔ چاہے اس کی وجہ سے ملک میں مسلمانوں کو ( جانی و مالی ) ضرر اور نقصان پہنچتا ہو،اور عالم اسلام جن حادثات کا سامنا کر رہا ہے وہ بہت زیادہ ہیں آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟
    جواب :

    حمدو ثنا اور درودو سلام کے بعد !

    اللہ تعالی کا فرمان ہے :
    يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59؀ۧ
    اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا حکم مانو اور رسولﷺ کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹاؤ ، اگر تم اللہ اور یوم آخرپر ایمان رکھتے ہو ، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے ۔
    ( النساء : 59)
    یہ آیت ولی الامر کی اطاعت کےواجب ہونے میں واضح نص ہے اور وہ امراء اور علماء ہیں ، اور رسول ﷺ کی صحیح احادیث میں بھی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ اطاعت واجب اور لازمی ہے جب وہ معروف ( نیکی اور اچھائی ) کا حکم دیں ۔
    لہذا معروف اور اچھے کاموں میں ان کی اطاعت فرض ہے نافرمانی اور گناہ کے کام میں ان کی اطاعت جائز نہیں لیکن اس وجہ سے ان کے خلاف بغاوت ( خروج ) جائز نہیں ہو گا ۔
    عوف بن مالک الاشجعی  سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ٓدمی پر سننا اور ماننا فرض ہے چاہے پسند کرے ، الا یہ کہ گناہ کا حکم دیا جائے ، پس جب گناہ اور ( اللہ و رسول کی ) نافرمانی کا حکم دیا جائے تو سمع و اطاعت نہیں ہو گی ۔ ( احمد ۔ مسلم)
    اور ابو ہریرہ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا : اور جو اطاعت سے نکلا اور ( مسلمانوں کی)جماعت کو چھوڑ ا پھر مر گیا ، تو یہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔
    اورابن عمر  سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : خبردار ! جس پر کوئی حکمران مسلط ہو جائے پس وہ اسے دیکھے کہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کا کام کررہا ہے تو اس نافر مانی کے کام کو ناپسند کر ے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھنچے ( اطاعت سے انکا نہ کرے ) مسلم، نسائی
    اور ایک صحابی نے آپ سے پوچھا جب آپ نے ذکر کیا کہ ایسے امراء آئیں گے جن کی کچھ باتوں کو تم جانو گے اور کچھ کا انکار کرو گے ( یعنی بعض کام اچھے اور بعض برے کام کریں گے )
    صحابہ نے پوچھا : آپ ﷺہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا : ان کو ان کا حق دینا اور اپنا حق اللہ سے مانگنا ۔ ( متفق علیہ ۔ ابن مسعود )
    عبادہ بن صامت رضی االلہ عنہ کہتے ہیں : ہم نے اپنی خوشی اور ناراضگی میں سمع و طاعت ( سننے اور ماننے ) پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیعت کی ، اپنی تنگی اور آسانی میں ، اپنے اوپر ( دوسروں کو ) ترجیح میں اور یہ کہ ہم حکام کے ساتھ حکومت واقتدار کے لئے جھگڑا نہیں کریں گے اور آپ نے فرمایا : إلا یہ ، کہ تم کھلا کفر دیکھو جس میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو ۔ ( بخاری و مسلم )
    یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکمرانوں سے جھگڑنا اور ان پر خروج کرنا جائز نہیں ہے ۔ الا یہ کہ وہ کوئی واضح کفر کا ارتکاب کریں جس کے لئے ہمارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے کوئی دلیل ہو ۔
    یہ اس لئے ہے کہ حکمرانوں کے خلاف خروج بہت بڑے فساد اور عظیم شر کا سبب ہے اس سے امن میں خلل واقع ہوتا ہے حقوق و مال اور ضا ئع ہو تے ہیں ، ظالم کو ظلم سے باز رکھنا اور مظلوم کی مدد کرنامشکل ہو جاتی ہے ۔ رستے غیر محفوظ ہو جاتے ہیں پس حکام کی بغاوت سے بہت زیادہ فساد اور بہت بڑا فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے ۔ ہاں اگر وہ اپنے حکمران میں کھلا کفر دیکھیں جس کے لئے ان کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے دلیل ہواور ان کے پاس اتنی قوت و طاقت بھی ہو کہ وہ اسے ہٹا سکیں اور مسلم معاشرے میں فتنہ و فساد و قتل و غارت کا بالکل احتمال نہ ہو ، تو اس کے خلاف خروج میں کوئی حرج نہیں اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتے ہو ں تو بغاوت نہ کریں یا اگر خروج کی وجہ سے اس سے بڑا شر پیدا ہوتا ہو تو خروج جائز نہیں ، کیونکہ عوام کی مصلحت مقدم ہے اور شرعی قاعدہ بھی ہے جس پر اجماع ہے کہ کسی شر کا ازالہ اس سے بڑے شر کے ساتھ نہ کیا جائے بلکہ شر کا ازالہ اس چیز سے کیا جائے جو اسے ختم کر دے یا کم کر دے ۔
    کسی شر کو اس سے بڑے شر سے دور کرنا اور ہٹانا با جماع المسلمیں جائز نہیں ، اب اگر یہ گروہ ، کفر بواح کا ارتکاب کرنے والے سلطان ( حاکم ) کو ہٹانے کی قدرت اور طاقت رکھتا ہے اور اس کی جگہ سے مسلمانو ں کے لئے کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور نہ ہی اس حکمران کے شر سے بڑا شر پیدا ہوتا ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ۔
    جب ( خروج ) بغاوت کی وجہ سے بڑے بگاڑ ، امن و امان میں خلل ، لوگوں پر ظلم و زیادتی ، اور بعض لوگوں کے ناحق خفیہ قتل وغیرہ کا اندیشہ و امکان ہو تو اس صورت میں خروج جائز نہیں بلکہ صبر و برداشت ، سمع و طاعت ، نیکی میں حکمرانوں کو نصیحت و خیر خواہی ان کے حق میں دعا ، شر کو کم اور خیر کو زیادہ کرنے کی کوشش واجب ہوتی ہے یہی وہ درست اور صحیح راہ ہے جس پر چلنا ضروری ہے کیونکہ اس میں عام مسلمانوں کی مصلحت ہے اسی طریقے سے شر کم اور خیر زیادہ ہو سکتی ہے، اسی طریقے سے امن و امان میں بہتری اور مسلمانوں کی زیادہ سلامتی پو شیدہ ہے ۔
    ہم اللہ تعالی سے ہدایت و توفیق کا سوال کرتے ہیں ۔

    کتابچے کا پی ڈی ایف فارمیٹ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں