مکہ المکرمہ روحانی تقدیس کے تاریخی آئینے میں

اعجاز علی شاہ نے 'دیس پردیس' میں ‏فروری 2, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    مکہ المکرمہ روحانی تقدیس کے تاریخی آئینے میں
    بیت اللہ کی دیکھ بھال مسلم خلفاء کا طرۂ امتیاز​


    سعودی عرب کا شہر مکہ المکرمہ روئے زمین پر موجود مقدس مقامات میں اپنی تقدیس، طہارت اور انسانی روحانی مرکز ہونے کے ناتے جس فقید المثال بلند مرتبےکا حامل ہے، کرہ ارض پر کوئی دوسری جگہ اس کی ہمسری نہیں کر سکتی۔

    "مکہ" جسے قرآن کریم میں"بکہ" کی اصطلاح سے بھی موسوم کیا گیا اپنے اندر"ہجوم" اور "ازدحام" کے معانی سموئے ہوئے ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کم و بیش چار ہزار برس قبل جلیل القدر پیغمبر سیدنا ابراہیم خلیل اللہ تشریف لائے اور اس بے آب وگیاہ وادی کو وہ ابدی سر سبزی اور رونق بخشی جو تا قیامت اس کا خاصہ رہے گی۔

    حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آمد کے بعد یہ شہر کرہ ارض کے انسانوں کا ایک لافانی روحانی مرکز قرار پایا جہاں ہر سال پوری دنیا سے لاکھوں لوگ یہاں حج کے لئے حاضر ہو کر اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں۔

    تاریخ مکہ کے مطابق قدیم عرب کے کئی قبائل نے اس شہر کو اپنی آماجگاہ بنایا. اس مقدس مقام کی نسبت آج تک ان قبائل کے ناموں کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہے ۔ بنی خزاعہ قدیم ترین قبیلہ تھا جس نے حرم مکہ کے آس پاس رہائش اختیار کی۔ تیسری صدی عیسوی میں مشہور قیبلہ قریش یہاں آ کر آباد ہوا۔ اسی کی ایک شاخ سےنور نبوت پھوٹا جس نے وادی فاراں کے ذرے ذرے کو چمکا دیا۔

    مکہ مکرمہ جو تاریخ قدیم ہی سے انسانوں کی توجہ کا مرکز بنا. علماء، حجاج کرام اور تاجروں نے اس کی اہمیت کو اور بھی دو چند کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں مکہ مکرمہ اور حرم شریف کی تعمیر،ترمیم اور توسیع کا عمل جاری رہا۔

    اسلام کے چودہ سو سالہ دور میں مکہ مکرمہ پر حکمرانی کرنے والے خلفاء نے حرم مکی کی تعمیرو توسیع کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھا۔ آج تک ایسے لگتا ہے کہ مختلف حکمرانوں کے درمیان حرم شریف کی تعمیر وتوسیع کا ایک مقابلہ رہا ہے اور ہر ایک نے اپنے پیش رو کی نبست حرم مکہ کو زیادہ بارونق، کشادہ اور خوبصورت بنایا۔

    خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اور خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما کے ادوار میں مکہ مکرمہ مسجدوں کا شہر مشہور ہو چکا تھا۔ اس کے بعد اسی سلسلے کو عبداللہ بن زبیر، ولید بن عبدالملک، ابو جعفر منصور، عباسی خلفاء مہدی، معتضد، مقتدر اور عثمانی خلیفہ سلیم نے حرم کی توسیع کے ساتھ ساتھ مکہ مکرمہ میں تعمیر کردہ تاریخی عمارات کو مزید وسعت دی۔

    حرم مکہ کی توسیع کا سب سے بڑا منصوبہ جدید سعودی ریاست کے بانی شاہ عبدالعزیز مرحوم کے دورمیں شروع کیا گیا۔ اسی منصوبے کو ان کے فرزند شاہ فہد بن عبدالعزیز نے آگے بڑھایا۔ یہ شاہ فہد ہی تھے جنہوں نے خادم الحرمین الشریفین کا لقب اختیار کیا۔ یوں حرم مکی کی توسیع کا یہ طویل المدت منصوبہ موجودہ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے ہاتھ سے مکمل ہونے جا رہا ہے۔

    مکہ مکرمہ تاریخی اور روحانی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہاں پرموجود صدیوں سے آباد بیت اللہ ہی کافی ہے، لیکن شہر میں موجود تاریخی اسلامی مقدس مقامات، مساجد، قدیم مآذن، آس پاس کے پہاڑ اور غاریں اس کی خوبصورتی اور رونق کو دوبالا کر دیتی ہیں۔ مکہ مکرمہ کی ثقافتی اور جغرافیائی اہمیت، امن ومحبت پر مبنی اس کے باسیوں کی سماجی روایات اسے دورِ جدید کا قابل قدر اور مقدس ہی نہیں بلکہ قابل رشک مقام بنا دیتی ہیں۔

    بشکریہ العربیہ
     
  2. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
  3. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
  4. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    السلام علیکم !‌جزاکم اللہ‌ خیرا۔
    قرآن کریم میں "بکہ" کا لفظ صرف مطاف کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ مکہ حرم کے لیے ۔ اللہ اعلم ۔
    تفصیل ۔۔۔۔
     
  5. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیرا
     
  6. جاچکعے911

    جاچکعے911 -: معاون :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 21, 2012
    پیغامات:
    15
    جزاک اللہ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں