پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ ۔۔الحادی نظریات کے فروغ کے راستے پر گامزن

اہل الحدیث نے 'نقطۂ نظر' میں ‏مئی 15, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ
    الحادی نظریات کے فروغ کے راستے پرگامزن ‘لارڈمیکالے کے خوابوں کی عملی تعبیر

    از معظم ادریس
    کسی بھی ملک کانصابِ تعلیم اس کی معاشرتی‘ سماجی‘ تاریخی اورمذہبی روایات کاآئینہ دار ہوتا ہے۔قومیں اپنی نئی نسل کو ترقی کی راہ پرگامزن رکھنے کے لیے ایسا تعلیمی نظام وضع کرتی ہیں جو ان کی مذہبی اورتہذیبی ضروریات کاضامن ہو۔آج اگرہمیں دنیامیں بعض اقوام معاشی اورسماجی اعتبار سے مضبوط دکھائی دیتی ہیں تویہ اس ہم آہنگی کانتیجہ ہے جو ان کے ہاں پائے جانے والے اقدار اورتعلیمی نظام کے درمیان موجود ہے۔ اگرچہ ان اقوام کے اقدار وروایات ہمارے ہاں کسی بھی اعتبار سے لائقِ تحسین نہیں مگرہم اس ہم آہنگی کاکسی بھی اعتبار سے انکار نہیں کرسکتے جوانہوں نے اپنے اقدار اورنظامِ تعلیم کے درمیان پیداکی۔
    لیکن بدقسمتی سے مملکتِ خداداد پاکستان جو لاالٰہ الااللہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا جس کی بنیادوں میں سیدین شہیدین سے لے کرتحریک پاکستان کے جانثار مجاہدین تک خون کے دریا بہے۔ جس کے آئین کی بات آئی توقائدِتحریکِ پاکستان نے یہ کہہ کر جواب دیا کہ ’’ہماراآئین چودہ سوسال پہلے سے بن چکاہے‘‘ آج اس پاکستان کے نونہالان کے قلوب واذہان پرالحادی اور استعماری نظریات کے پے درپے وہ نشترچلائے جارہے ہیں کہ لارڈ میکالے کاوہ قول جواس نے 1938ء میں اردو کی جگہ انگریزی کو ہندوستان کی سرکاری زبان بناتے ہوئے لکھاتھا:
    "We must, at present, do our best to form a class of persons, Indian in blood and colour. but English in taste, in opinions, in morals and in Intellect"
    ’’موجودہ حالات میں ہم ضرور ایک افراد کی ایسی کھیپ تیار کریں گے جو رنگ ونسل کے اعتبارسے ہندوستانی مگرعملی‘ نظریاتی‘ اخلاقی اورعقلی اعتبارسے (مکمل) انگریزہوں گے‘‘۔کے تسلسل کا عین مظہرہیں۔
    ویسے تو ہردوتین سال کے وقفے میں نصاب میں جدت اور فنی وتکنیکی خوبیوں کے نام پرتبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ خوبیاں کس حدتک موجود ہیں ۔اس مضمون میں ہمارا مقصدصرف ان خرابیوں کی طرف توجہ دلانا ہے جوقومی‘ معاشرتی اور ملی اعتبار سے ناصرف معیوب ہیں بلکہ اسلامی تہذیب وتمدن سے عین متصادم اور اس سے سراسرانحراف کامظہر ہیں۔بعض علمی حلقوں کے مطابق یہ جو حکومتِ پنجاب لیپ ٹاپس کے ٹرکوں کے ٹرک طلباء میں تقسیم کر رہی ہے۔ یہ بیرونی آقاؤں کے عطاکردہ ہیں اور نصابِ تعلیم میں موجودہ تبدیلی اورمیل اور فی میل اساتذہ کو سکول کی ایک چھت تلے جمع کرنے کی پالیسی اسی نام نہاد’’Aid‘‘ کا نتیجہ ہے۔
    حکومتِ پنجاب کی طرف سے تعلیمی سال 2012-13ء کے لیے لکھی گئی کتب ملاحظہ فرمائیں۔
    -1 اردو: جماعت ششم
    (i) سبق نمبر5’’ہم ایک ہیں۔‘‘
    مشق: سوال نمبر3۔
    جز(الف) ہم کس کے سائے تلے ایک ہیں؟
    (i) آسمان(ii)بادل(iii)اسلام(iv) پرچم
    درست جواب ہے ۔پرچم
    یہاں چندایک سوال پیدا ہوتے ہیں۔
    (الف) اگرکوئی طالب علم جز(iii)اسلام کودرست کرے تو کیا تو اس کاجواب غلط تصورہوگا؟
    (ب) کیایہاں اسلام کے Option کا دینا ضروری تھا؟
    (ج) ہمارے اس ’’محترم ماہرِ تعلیم‘‘ جس نے یہ سوال ترتیب دیاہے۔ہم اس سے پوچھنے کی جسارت کریںگے کہ وہ لفظ ’’اسلام‘‘ کو Option میں دے کر کون سی فنی و تکنیکی صلاحیت طلباء میں پیدا کرناچاہتے ہیں؟
    جز(د)کس کی عزت ہمیں اپنی جان سے پیاری ہے؟
    (i) پرچم کی(ii) دین کی(iii) وطن کی(iv) اپنی
    درست جواب ہے۔ پرچم کی
    میں خادمِ اعلی پنجاب سے التماس کروں گا کہ براہِ کرم وہ قوم کے سامنے صراحتاً بیان فرمائیں کہ کیاانہیں دین سے بڑھ کر اپنے پرچم کی عزت عزیزہے؟ دین کوثانوی حیثیت دینے کی اس سے بڑھ کر اورکیاشکل ہوسکتی ہے۔
    اسی نظم کامصرعہ ملاحظہ فرمائیں۔
    اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانثار سپاہی
    مسلمان تواعلائے کلمۃ اللہ کے لیے میدان کارِزار میں اتر کر مرتبۂ شہادت کے حصول کی جدوجہد کرتاہے۔ ناکہ اپنی یاوطن کی آن پر
    بقول اقبال
    شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
    نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
    سبق نمبر20۔ ’’اتفاق‘‘ مشق
    سوال 4: جز(ج)۔
    مشکل وقت میں کیاکام آتاہے؟
    (i) خدا(ii) روپیہ(iii)دوست(iv) ایکا
    درست جواب ہے’’ایکا‘‘۔
    ملاحظہ فرمائیں کس دیدہ دلیری سے ’’خدا ‘‘ اور’’ایکا‘‘ کا موازنہ کیاگیاہے۔ ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں۔ ان’’ خدا وندان مکتب‘‘سے کہ کیایہ وہی علم سے جوآپ گورنمنٹ اداروں کی جبینوں پرلکھتے ہوکہ
    طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم؟
    کیا یہ وہی علم ہے جوتم ایک بے سندحدیث کاسہارا لے کر لکھتے ہو کہ ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جاناپڑے۔‘‘
    اوریہ کہ
    قسمتِ نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
    اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
    ہم اس نام نہاد شعرکی (جو تعلیمی اداروں کے صدر دروازوں پر لکھاہوتاہے)اس سے بڑھ کر توضیح نہیں کرسکتے کہ قبل ازیں یہ ’’قسمتِ نوعِ بشر‘‘ کی تبدیلی اور ’’مقدس فرض‘‘ کی تکمیل یورپ کے تعلیمی اداروں اور مستشرقین اساتذہ کے ہاتھوں رونما ہوتی تھی لیکن اب خادمِ اعلیٰ کی زیرِ نگرانی پاکستانی تعلیمی اداروں میں مسلمان اساتذہ کے ذریعے ہوتی ہے۔
    چاراسباق۔(i)اشتہارات’’ضرورت نہیں ہے‘‘ کے۔ (ii) پراناکوٹ۔(iii)خراب ہے۔(iv)میری پیاری سائیکل۔ مکمل طوپرمزاحیہ اسباق ہیں اورمزاح وہ جوغیر شرعی ہے۔ یعنی جھوٹ پرمبنی مزاح کے انداز میں تحریرکیے گئے ہیں۔
    (iii) چھٹی جماعت کی گزشتہ اردو کی کتاب میں 9ا سباق اسلام ‘ اسلامی شخصیات اورتاریخِ اسلام سے متعلق تھے جبکہ حالیہ کتاب میں کوئی ایک سبق بھی ان موضوعات سے متعلقہ نہیں ہے‘صرف ایک سبق ’’اسلامی ممالک کی تنظیم‘‘OIC کے نام سے ہے جس کا اسلامی حوالے سے کردار اظہرمن الشمس ہے۔
    (iv) سبق نمبر10 ’’کھیل‘‘ اس سبق میں بین الاقوامی کھیل کرکٹ‘ہاکی اورفٹ بال وغیرہ اورعلاقائی کھیل آنکھ مچولی ‘گلی ڈنڈا اور ککلی وغیرہ کاذکر کیاگیاجبکہ حدیث میں مذکور مسنون کھیلوں (تیراکی‘ گھڑسواری‘ نشانہ بازی وغیرہ)کے نام تک لکھنے سے احتراز کیاگیا۔
    اردو۔ جماعت نہم
    (i) حصہ نثرمیں کل 11 اسباق شامل ہیں جن میں سے 5 مضامین(i)شاعروں کے لطیفے(ii)آرام وسکون(iii) امتحان (iv)ملکی پرندے اوردوسرے جانور(v) قدرِایاز
    طنزومزاح پرمبنی ہیں۔ گوکہ کتاب کانصف حصہ سنجیدگی و متانت اورمفیدمعلومات سے تہی دامن ہے جبکہ عمر کے اس حصے میں طلباء کی سوچ کے دریچے کھلتے ہیں اوران کی سوچ (Develop) ہوتی ہے لیکن بجائے اس کے کہ طلباء کی پرمغز اسلامی ‘معاشرتی ‘تمدنی اور تاریخی معلومات سے ذہن سازی کی جائے بلکہ ہمارے نصاب سازوں کا حال یہ ہے ۔بقول اقبال
    شکایت ہے یارب مجھے ان خدا وندانِ مکتب سے
    سبق دے رہے ہیں شاہین بچوں کو خاکبازی کا
    غزل1: میرتقی میر۔ شعرنمبر2 میں واضح عشق ومحبت کے اشعارات استعمال کیے گئے۔
    اور آخری شعر میں شراب نوشی کااقرارکیاگیا اورطلباء کے ذہن میں عشق ومحبت اور شراب کی حرمت واضح کرنے کی بجائے ان دونوں کولازم وملزوم قرار دیاگیاہے۔
    -2 غزل نمبر2: خواجہ حیدرعلی آتش۔
    شعرنمبر پانچ میں برہمن اورخدا دونوں کوالوہی طاقت قرار دیاگیااوربرہمن کی خدائی صفت تسلیم کی گئی۔
    -3 غزل4: اسداللہ غالب۔ شعرملاحظہ فرمائیے۔
    شاعر اپنے محبوب/محبوبہ کومخاطب کرکے کہتاہے۔
    جان تم پہ نثار کرتا ہوں
    میں نہیں جانتا دعا کیا ہے؟
    قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ o(الانعام:162)
    نماز‘قربانی اور جینامرناجہاں جہانوں کے مالک کے لیے ہونا چاہیے‘وہاں ہمارے خداوندانِ مکتب محبوب پر قربان کرنے کے درپے ہیں۔(الامان والحفیظ)
    فزکس (9th)
    باب اوّل
    -1 پرانی کتاب میں ’’اسلامی تعلیمات اورسائنس‘‘ کے حوالے سے ایک عنوان موجودتھا ‘جسے موجودہ ایڈیشن میں حذف کر دیاگیاہے۔
    -2 باب اوّل:’’سائنس کی ترقی میں عالم اسلام اورپاکستانی سائنسدانوں کاحصہ‘‘ کے عنوان سے ایک اور (Topic)تھا جسے مکمل طورپر حذف کردیاگیاہے۔
    چندایک اقتباسات ہم نے امثال کے طورپر تحریرکیے ہیں۔ اگرعمیق نظری سے جائزہ لیاجائے توان تمام نکات کا احاطہ کرنا ایک مضمون میں ناممکن ہے جو ہمارے قومی وملی تشخص پر ضرب کاری ہیں۔
    آخرپرہم ملتمس ہیں۔
    -1 خادمِ اعلیٰ پنجاب ‘وزیرتعلیم اور قومی کمیٹی برائے تدوینِ نصاب سے کہ موجودہ تبدیل شدہ نصاب پرنظرثانی کی جائے اور اسے اسلامی‘ملی اور قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجائے۔
    -2 اساتذہ کرام سے کہ وہ نصاب پڑھاتے وقت غیر شرعی اور غیراخلاقی تعلیمات پر مشتمل معلومات کی حقیقت طلباء پر واضح کریں اور موجودہ نصاب میں تبدیلی کے حوالے سے پرزور تحریک کھڑی کرکے مثبت تبدیلی کی کوشش کریں۔
    -3 طلباء تنظیموں سے کہ وہ ان نصابی یلغاروں کی حقیقت مختلف سیمینارزاور پروگرامز کے انعقاد سے عوام الناس اور علمی حلقوں پرواضح کریں اور اسے اپنے ایجنڈے کاحصہ بناکر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پربھرپور کوریج دیں۔
    اللہ تعالیٰ ہماری جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی بھی حفاظت فرمائے۔آمین
     
  2. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر علماء و عوام کو ’’یقین‘‘ نہیں۔ نہ ہی ہم توکل پر عمل پیرا ہیں۔ ورنہ……… ’’مسلمانوں‘‘ نے تو صرف ’’قرآن‘‘ کی تعلیم حاصل کر کے اس دنیا کو زیر و زبر کر دیا تھا۔ دنیا کی تمام عزت و آبرو ان کے حصے میں آئی۔ مال و دولت اُن کے گھر کی لونڈی بن گئی۔ کیا میرا اور میرے علماء اور قائدین کا آج اس پر ’’ایمان و یقین‘‘ ہے؟؟؟؟؟؟؟

    دنیا کے ساتھ بھی تو چلنا پڑتا ہے۔

    یہ وہ جواب ہے جو بڑے بڑے ’’جدید فقہاء‘‘ کی طرف سے اُس وقت دیا جاتا ہے جب کوئی اُن سے یہ سوال کر لیتا ہے کہ جناب آپ تو ماشاء اللہ ’’علوم دینیہ‘‘ کے ماہر ہیں۔ اور آپ کے تمام ’’صاحبزادے اور صاحبزادیاں‘‘ صرف عصری اسکولوں میں ہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کوئی یونیورسٹی میں، کوئی بیکن ہاؤس میں، کوئی ایجوکیٹر میں وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا آپ نے اپنے بچوں کو ’’دینی تعلیم‘‘ دے دی ہے؟
    شاید اسی لئے اقبال نے کہا تھا:

    گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا................. کہاں سے آئے صدا لا الہ الااللہ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں