منکرین حدیث کے شبہات اور ان کے جوابات، محدث نور پوری رحمہ اللہ

آزاد نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏مارچ 3, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    منکرین حدیث کے شبہات اور ان کے جوابات:

    پہلا شبہ:
    حدیث اور سنت وحی نہیں، اس لیے حجت نہیں ہوسکتی۔
    جواب نمبر1:
    اس شبہ کا پہلا جواب یہ ہے کہ انہوں نے جو قاعدہ بنا لیا ہے ، وہ قاعدہ غلط ہے۔ مثلاً: باپ بیٹے کو ایک حکم دیتا ہے، بیٹا اس حکم کو مانتا ہے تو کیا وہ حکم وحی ہوتا ہے؟ پرویز صاحب اپنے شاگردوں کو حکم کریں، شاگرد اطاعت نہ کریں کیونکہ پرویز صاحب بذریعہ وحی نہیں بولتے، تو کیا یہ بات درست ہوگی؟ گویا یہ لوگ رسول اللہﷺ کو باپ یا استاد کامرتبہ نہیں دیتے۔
    حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ سورۃ القصص، آیت نمبر 19 تا 21 میں ہے کہ جب ان سے ایک قبطی مارا گیا تو شہر کے باہر سے ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا: موسیٰ علیہ السلام! بادشاہ نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، آپ نکل جائیں۔ موسیٰ علیہ السلام ڈرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔ اس آدمی نے یہ حکم وحی کے ذریعے سے نہیں دیا تھا تو معلوم ہوا کہ وحی کے بغیر بھی اقوال حجت ہوا کرتے ہیں۔
    جواب نمبر2:
    اس شبہ کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ حدیث بھی اللہ کی طرف سے وحی ہے۔
    جواب نمبر3:
    منکرین حدیث اپنے اس دعویٰ ”حدیث وحی نہیں“ کو قرآن سے ثابت کریں۔ وہ ثابت نہیں کرسکیں گے [وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيراً [الإسراء : 88]]
    دوسرا شبہ:
    حدیث اس لیے حجت نہیں کہ اس وقت لکھی ہوئی نہیں تھی۔
    جواب نمبر1:
    یہ قاعدہ بنا لینا کہ جو چیز لکھی ہوئی نہ ہو، وہ حجت نہ ہوگی، یہ اصول غلط ہے۔ اپنے اس اصول کی دلیل پیش کریں۔ قرآن مجید میں اس کے برعکس دلیل موجود ہے کہ جب وہ آدمی موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اس نے موسیٰ علیہ السلام کو لکھا ہوا کوئی رقعہ نہیں دکھایا۔ اگر تحریر کے بغیر کوئی چیز تسلیم نہ کی جاسکتی ہو تو پھر موسیٰ علیہ السلام کی وہ تبلیغ کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو انہوں نے تورات اترنے سے پہلے فرعون کو دعوت دی تھی کیونکہ وہ لکھی ہوئی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کو تورات کی نعمت سے نوازا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ القصص، آیت نمبر: 43 میں موجود ہے:
    [وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَى بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ [القصص : 43]]
    حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کو جو تبلیغ کرتے رہے، فرعون نے اس کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو غرق کیا۔ اس قانون کی رو سے قبل از کتاب موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ حجت نہیں ہوسکتی۔ اگر حجت نہ ہو تو پھر فرعون کو جو غرق کرنے کی سزا دی گئی ، وہ کس جرم کی تھی؟ اس سے معلوم ہوا کہ حجت بننے کےلیے اس کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں۔
    جواب نمبر 2:
    یہ قاعدہ بنانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت کم نبی ہیں جو لکھی ہوئی ہدایت لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ اگر یہ قانون نافذ کردیا جائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ مثلاً: آج کتنے ہی کاروبار ہیں جو ٹیلیفون پر طے کرلیے جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ قاعدہ تسلیم کرلیں تو پھر قرآن مجید بھی حجت نہیں رہتا کیونکہ رسول اللہﷺ کے پاس جس وقت قرآن آتا تھا، وہ لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا، ورنہ کفار یہ اعتراض نہ کرتے:
    [وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَاباً نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَراً رَّسُولاً [الإسراء : 93]]
    گویا یہ قاعدہ تسلیم کرنا قرآن سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔
    جواب نمبر3:
    اس سے پہلے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ زمانہ رسالت میں حدیث لکھی جاتی تھی۔
    تیسرا شبہ:
    حدیث اس لیے حجت نہیں کہ یہ بالمعنیٰ مروی ہے۔ محدثین روایت کرتے وقت معنیٰ کا خیال رکھتے تھے۔ الفاظ کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ موجودہ الفاظ حدیث رسول اللہﷺ کے ہیں یا نہیں؟ اس وجہ سے حدیث حجت نہیں ہوسکتی۔
    پہلا جواب:
    اس شبہ کا پہلا رد یہ ہے کہ یہ جو اصول بنا لیا گیا ہے کہ بالمعنیٰ روایت حجت نہیں ہوسکتی، اس کا ثبوت ہونا چاہیے۔ اس قاعدہ کی نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی۔ نقل کے اس لیے خلاف ہے کہ اس کا ثبوت قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں اور عقل کے اس لیے خلاف ہے کہ جو مسائل نکالے جاتے ہیں وہ معنیٰ کے لحاظ سے نکالے جاتے ہیں مثلاً: کوئی شخص کہتا ہے : ”[font="al_mushaf"]ہذا شیئ حرام
    “ تو حرمت ثابت ہوجائے گی۔ ”[font="al_mushaf"]لا یحل ، ولا یجوز
    “ حرمت ہی کے معنیٰ میں ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ معنیٰ محفوظ ہونا چاہیے۔
    جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حدیث کی حفاظت کا ذمہ بھی اٹھا یا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [الحجر : 9]]
    دوسرا جواب:
    اس کا دوسرا رد یہ ہے کہ حدیث کا اکثر حصہ روایت باللفظ پر مشتمل ہے کیونکہ محدثین نے روایت بالمعنیٰ کےلیے کچھ شرائط لگا رکھی ہیں۔ مثلاً: جس کو الفاظ یاد نہیں، وہ روایت بالمعنیٰ کرے گا۔ جس کو الفاظ یاد ہیں، وہ روایت بالمعنیٰ کرتا ہی نہیں۔ روایت بالمعنیٰ بہت قلیل ہے۔ پھر حدیث دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ احادیث جن کے الفاظ میں تعبد پایا جاتا ہے۔ مثلاً: دعا ہے، ورد ہے، ذکر اللہ ہے۔ لفظ تعبد والی جتنی احادیث ہیں، وہ سب کی سب باللفظ محفوظ ہیں۔ جیسے صحیح بخاری میں ہے:
    حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سونے کی دعا سنائی:
    فَلَمَّا بَلَغْتُ: اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، قُلْتُ: وَرَسُولِكَ، قَالَ: «لاَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ»“ (صحیح البخاری: 247)
    کہ میں نے اس دعا میں ” آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ “ کے بعد ” وَرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ “ پڑھا جو اصل میں ” وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ “ تھا تو رسول اللہﷺ نے فوراً فرمایا: ” وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ “ پڑھو۔ منکرین حدیث کو چاہیے کہ کم از کم وہ روایات جو بالمعنیٰ روایت نہیں ، ان کو تسلیم کرکے عمل شروع کردیں۔ سب احادیث کو ترک کردینا انصاف نہیں۔
    تیسرا جواب:
    اگر حدیث کے حجت بننے کےلیے شرط لگائی جائے کہ وہ روایت بالمعنیٰ نہ ہو، پھر اس شرط سے تو قرآن مجید بھی حجت نہیں بن سکتا۔ کیونکہ قرآن مجید کا اکثر حصہ روایت بالمعنیٰ پر مشتمل ہے۔ حدیث تو اس کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ مثلاً: تورات، انجیل، زبور اور صحیفے دوسری زبانوں میں نازل ہوئے تھے۔ قرآن مجید میں کئی مرتبہ ان کے حوالے دیے گئے ہیں۔ وہ قرآن کی عربی زبان میں روایت بالمعنیٰ ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان جتنے مکالمے ہوئے، وہ السنہ عجمیہ میں تھے۔ قرآن مجید میں معنیٰ کا اعتبار کرتے ہوئے ان کو عربی میں نقل کیا گیا۔
    منکرین حدیث اس کا یہ جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ روایت بالمعنیٰ اللہ نے کی ہے۔ حدیث میں روایت بالمعنیٰ انسانوں نے کی ہے۔ اس لیے قرآن میں تو حجت ہے، حدیث میں حجت نہیں ہوسکتی۔
    اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ روایت بالمعنیٰ ہونےکے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ کسی چیز کے روایت بالمعنیٰ ہونے سے اس کی حجیت کی نفی تو نہ ہوئی۔ باقی انسانوں کی روایت بالمعنیٰ کے حجیت میں مخل ہونے کی دلیل درکار ہے۔
    چوتھا شبہ:
    حدیث ظنی ہے۔ جو چیز ظنی ہو، وہ حجت نہیں ہوسکتی۔
    [إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً [يونس : 36]]
    جواب:
    اس اعتراض کا جواب سننے سے پہلے لفظ ظن کا معنیٰ سمجھنا ضروری ہے۔
    [(1) غیر علمی زبانوں پر متعارف اصطلاحات غیر اصطلاحی معانی استعمال ہوکر بعض سادہ لوح حضرات کےلیے لغزش کا موجب ہورہی ہیں۔ ان ہی اصطلاحات سے ایک اصطلاح ”ظن“ کی بھی ہے۔ حدیث کے متعلق یہ شبہ بھی پیدا کیا گیا ہے کہ یہ ظنی ہے۔ (حجیت حدیث، ص: 29)
    (2) غلطی کی اصل وجہ ظن کا پنجابی زبان میں استعمال ہے اور ان حضرات کی عربی زبان اور اس کے محاورات سے ناواقفیت۔ (حجیت حدیث، ص: 33)]
    قرآن مجید میں ظن کا لفظ پانچ معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
    پہلا معنیٰ: یقین ہے۔ سورۃ البقرۃ ، آیت: 46 میں ہے:
    [الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [البقرة : 46]]
    یہاں ظن کا معنیٰ یقین ہے۔
    دوسرا معنیٰ: ظن غالب ہے۔ سورۃ البقرۃ، آیت : 230 میں ہے:
    [فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ [البقرة : 230]]
    یہاں ظن کا معنیٰ: غالب ظن ہے۔
    تیسرا معنی: شک ہوتا ہے جو یقین کے مقابلہ میں ہوتا ہے، جیسے کافر کہتے ہیں:
    [إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنّاً وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [الجاثية : 32]]
    ظن کا چوتھا معنیٰ: جھوٹ بولنا ہوتا ہے۔ جیسے:
    [وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لاَ يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلاَّ أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَ [البقرة : 78]]
    ” يَظُنُّونَ“ کا معنیٰ ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔
    دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    [وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ [الجاثية : 24]]
    ظن کا پانچواں معنیٰ: سوئے ظن ہوتا ہے۔ جیسے سورۃ الحجرات، آیت: 12 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    [اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ [الحجرات : 12]]
    یہاں ظن کا معنیٰ سوئے ظن ہے۔
    [إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً [يونس : 36]] میں ظن حق کے مقابلے میں ہے کہ حق کے مقابلے میں ظن نہیں چل سکتا۔ لیکن اگر ظن غالب ہو ، حق کے مقابلے میں نہ ہو تو اس پر عمل ہوگا۔ جیسے میاں بیوی حدود قائم کریں تو رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہاں [إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً [يونس : 36]] میں ظن کا معنیٰ جہالت لاعلمی ہے کہ حق کے مقابلہ میں لاعلمی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ حدیث حق ہے۔ اور حق کے مخالف حق کیسے ہوگا؟ اس سے معلوم ہوا کہ ظن بھی بعض صورتوں میں معتبر ہوتا ہے۔
    ظن کے معنیٰ کے لحاظ سے ظنی حدیث کی دو صورتیں ہیں:
    ایک صورت یہ ہے کہ وہ ظنی الثبوت ہو۔
    دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ظنی الدلالت ہو۔
    منکرین حدیث کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی ظن نہیں : [ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ [البقرة : 2]] تو اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے اللہ کی طرف سے نازل ہونے میں کوئی شک نہیں، اس کا ثبوت قطعی ہے۔ دلالت کے لحاظ سے قرآن اور حدیث دونوں برابر ہیں۔ کچھ حدیثیں ظنی الدلالت ہیں اور کچھ قطعی الدلالت ہیں۔ اسی طرح دلالت کے اعتبار سے کئی آیات ظنی ہیں اور کچھ دوسری قطعی ہیں۔
    مثلاً: ” «كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ» (صحیح البخاری: 4343)“ کہ ہر مسکر حرام ہے۔ اس کی دلالت بالاتفاق قطعی ہے۔ ” «لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ» (صحیح البخاری: 756)“ کی دلالت بالاتفاق قطعی ہے اور کئی احادیث ظنی الدلالت ہوتی ہیں۔ مثلاً: کسی حدیث میں لفظ مشترک ہو۔ جیسے ” مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ (صحیح البخاری: 7527)“ کا معنیٰ بے نیاز ہونا ہوتا ہے۔ اور دوسرا معنیٰ سُر لگانا ہوتا ہے۔
    اسی طرح سورۃ البقرۃ ، آیت: 282 میں ہے:
    [وَلاَ يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ [البقرة : 282]] فعل مضارع کے معلوم یا مجہول ہونے کے لحاظ سے معنیٰ میں فرق پڑے گا کہ کاتب اور گواہ کو تکلیف نہ دی جائے۔ یا کاتب اور گواہ نقصان نہ پہنچائیں۔ ہر وہ آیت جو لفظ مشترک والی ہوگی، وہ ظنی ہوگی۔ جیسے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
    [هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ [آل عمران : 7]]
    جو آیات متشابہات ہیں ، وہ سب کی سب ظنی ہوں گی۔ لیکن قرآن مجید ثبوت اور سند کے لحاظ سے قطعی ہے۔ واقع کے لحاظ سے قرآن متواتر ہے۔ اگر ظنی ہونے کی وجہ سے حدیث حجت نہ ہو تو قرآن بھی حجت نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ بھی ظنی ہے۔ احادیث کا وہ ذخیرہ جو تواتر سے منقول ہے، وہ ظنی نہیں، بلکہ قطعی ہے۔ اسے تو حجت ماننا چاہیے۔
    پانچواں شبہ:
    حدیث قرآن مجید کے خلاف ہے، اس لیے حجت نہیں ہوسکتی۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
    [فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ وَلاَ تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىَ يَطْهُرْنَ [البقرة : 222]]
    اور حدیث میں ہے: ”«وَكَانَ يَأْمُرُنِي، فَأَتَّزِرُ، فَيُبَاشِرُنِي وَأَنَا حَائِضٌ» (صحیح البخاری: 299)“
    اس قسم کی کچھ دوسری روایات پیش کی جاتی ہیں۔
    جواب نمبر1:
    یہ شبہ منکرین حدیث کا اپنا نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی معتزلہ اور مرجئہ یہ اعتراض بناتے رہے ہیں۔ کئی حنفی بھی اس قاعدے کے قائل ہوکر احادیث کا رد کرتے ہیں۔ خطیب بغدادی نے لکھا ہے کہ ایک صاحب الرائے کے پاس جب ”[font="al_mushaf"]البیعان بالخیار[/font]“ والی حدیث پیش کی گئی تو اس نے حدیث کا رد کردیا۔ (تاریخ بغداد، ج: 13، ص: 387، طبع: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
    حالانکہ یہ حدیث تواتر کا درجہ رکھتی ہے۔(صحیح البخاری: 2110)
    منکرین حدیث اس قاعدے کےلیے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد آپ پر احادیث پیش کی جائیں گی ، ان کو قرآن پر پرکھ لینا، اگر مخالف ہو تو چھوڑ دینا۔
    اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث باطل ہے، بلکہ حدیث ہے ہی نہیں۔
    جواب 2:
    دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ نے یہاں بطور دلیل حدیث کو پیش کیا ہے۔ پہلے حدیث کو حجت تسلیم کریں ، پھر پیش کریں کیونکہ آپ تو منکرین حدیث ہیں۔
    جواب3:
    قرآن مجید میں کوئی ایسا قانون نہیں کہ جو حدیث قرآن کے موافق ہوگی، وہ حجت ہوگی اور جو موافق نہ ہو، وہ حجت نہیں بن سکے گی۔ یہ بات انہوں نے اپنی طرف سے بنائی ہے۔ خلاف اس میں ہوتا ہے کہ ایک جگہ چیز کی نفی ہو اور دوسری جگہ اسی کا اثبات ہو۔ لیکن قرآن میں ایک مسئلہ نہیں۔ رسول اللہﷺ اسے بیان کردیں تو یہ حدیث قرآن کے خلاف کیسے ہوگی؟ جیسے وضوء کے بعض فرائض قرآن مجید میں نہیں ہیں، اصل میں حدیث نے قرآن مجید کی وضاحت کی ہے۔ یہاں [فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء [البقرة : 222]] میں حکم ہے کہ جماع سے الگ رہو۔ اور ” فَيُبَاشِرُنِي“ کا معنیٰ ہے کہ جسم کو جسم کے ساتھ لگانا۔ اسی طرح ” «البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ» (صحیح البخاری: 2110)“ والی حدیث بھی عقود کے منافی نہیں۔ یہ تخصیص ہے ، خلاف نہیں۔ احناف کہتے ہیں کہ حدیث ظنی ہے اور قرآن قطعی ہے۔ قطعی کی تخصیص ظنی کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ کتاب و سنت میں اس قاعدہ کے اثبات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
    چھٹا شبہ:
    منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حدیث عقل کے خلاف ہے، اس لیے حجت نہیں ہوسکتی، کیونکہ عقل نقل پر مقدم ہوتی ہے۔
    جواب:
    منکرین حدیث کا یہ شبہ بھی نیا نہیں بلکہ پرانا ہے۔ معتزلہ اور جہمیہ نے اسی اصول کے تحت احادیث کا انکار کیا ہے۔ اس شبہ کا سبب یہ ہے کہ جب فلسفہ عربی زبان میں آیا تو بہت سے علماء اس سے متاثر ہوگئے اور عقل کو نقل پر مقدم کرنا شروع کردیا۔ ان متاثرین میں معتزلہ بھی تھے۔ انہوں نے اسی شبہ کی بناء پر اللہ کے متکلم ہونے کا انکار کیا۔ اہل سنت میں سے احناف بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ انہوں نے شرط لگا دی کہ حدیث قیاس کے خلاف نہ ہو تو مانی جائے گی۔
    مثلاً: بیع المصراۃ والی احادیث ہیں کہ ایک ایسی گائے یا بکری خریدی جس کا دودھ روک دیا گیا ہو، تاکہ قیمت زیادہ مل جائے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ خریدار ایسے جانور کو واپس کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی ایک صاع کھجوروں کا بھی واپس کرے گا۔ یہ صاع تمر دودھ کے بدلے ہوگا۔ بعض احناف کہتے ہیں کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے۔ عقل تو یہ چاہتی ہے کہ اس سے جتنا دودھ پیا ہے، اتنی قیمت واپس کردے۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے دودھ زیادہ پیا ہو اور صرف ایک صاع کھجوریں دے، یہ عقل کے خلاف ہے۔ انہوں نے فلاسفہ سے متاثر ہو کر ایسی باتیں بنائی ہیں۔
    پہلا رد:
    ان کے اس شبہ کا پہلا رد یہ ہے کہ عقلیں زیادہ ہیں۔ یہودی اور عیسائی بھی عاقل ہیں اور مسلمان بن عقل رکھتے ہیں۔ اب یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ حدیث کون سی عقل کے خلاف ہے؟ پہلے اس عقل کا تعین کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ عقل کے مخالف ہے تو دوسرا کہہ سکتا ہے کہ یہ عقل کے موافق ہے۔ پھر منکرین حدیث یا متاثرین حدیث کے پاس عقل کو معین کرنے کا کوئی قاعدہ بھی نہیں ۔ ہاں ایک عقل ہے جس کو میزان مقرر کیا جاسکتا ہے، وہ رسول اللہﷺ کی عقل ہے۔ اب جو بھی حدیث رسول اللہو سے ثابت ہوجائے، وہ عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی کیونکہ آپﷺ کی عقل معیاری ہے۔ جب احادیث معیاری عقل کے مطابق ہیں تو جب کبھی وہ جس عقل کے خلاف قرار دی جائیں گی، وہ عقل ہی نہیں ہوگی بلکہ کم عقلی ہوگی۔
    دوسرا رد:
    تھوڑی دیر کےلیے ہم آپ کی بات تسلیم کرلیں ، تب بھی آپ کے پاس موافقت اور مخالفت کا کوئی ضابطہ نہیں۔ اس کےلیے بھی ہمیں رسول اللہﷺ کی عقل کو دیکھنا پڑے گا یا قرآن کو دیکھنا ہوگا۔
    تیسرا رد:
    قرآن مجید کی بھی کچھ آیات عقل کے خلاف ہیں، پھر تو قرآن مجید بھی حجت نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً: ہدہد کا گفتگو کرنا (سورۃ النمل: 22تا 26) اور چونٹیوں کا بولنا (سورۃالنمل: 18) عقل کے خلاف ہے بلکہ جتنے معجزات ہوئے ہیں، وہ سب عقل کے خلاف ہیں۔ منکرین حدیث آیات معجزات کی تاویل کرلیتے ہیں ، اسی طرح احادیث کی بھی تاویل کرلینی چاہیے۔ احادیث کو اس طرح حجت نہ ماننا کوئی درست طریقہ نہیں۔
    ساتواں شبہ:
    حدیث اس لیے حجت نہیں کیونکہ وہ سائنس کے خلاف ہے۔
    پہلا رد:
    سائنسی تحقیقات میں اختلاف رونما ہوئے ہیں۔ ان میں سے کس کو تسلیم کریں اور کس کو رد کریں؟ مثلاً: پہلے سائنسدان یہ کہتے تھے کہ زمین ساکن ہے ۔ اب سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین متحرک ہے۔ پہلے سائنسدان کہتے تھے کہ آسمان مادی ہے۔ اب کہتے ہیں کہ حد نگاہ کا نام ہے۔
    دوسرا رد:
    قرآن مجید بھی سائنس کے خلاف ہے۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
    [حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ [الكهف : 86]] کہ جب ذوالقرنین انتہاء کو پہنچ گئے تو دیکھا کہ سورج کیچڑ والے گڑھے میں غروب ہورہا ہے۔
    آج کے سائنسدان سورج کے غروب ہونے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن بھی سائنس کے خلاف ہے۔ جہنم کی آگ کی شدت کے باوصف جہنم کے درختوں کا وجود اور پھلدار ہونا (سورۃ الصافات: 66-62)کیا یہ سائنس کے مطابق ہے؟ تو پھر قرآن کیسے حجت بنے گا؟
    اصل بات یہ ہے کہ سائنس کی رسائی انسانی عقل تک محدود ہے۔ اس لیے ہمیں احادیث اس کے خلاف معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً: آج کل ٹیلیفون اور ٹیلیویژن، پہلے سائنسدان ان کو جانا نہیں کرتے تھے۔ اصل سائنس قرآن وحدیث ہی ہیں۔ جن کی رسائی انسان عقل تک ہی محدود نہیں بلکہ اللہ علیم وخبیر کے علم پر مبنی ہے۔
    آٹھواں شبہ:
    احادیث آپس میں متعارض ہوتی ہیں۔
    رد:
    احادیث میں حقیقی تعارض نہیں ہوتا۔ بفرض تسلیم قرآن مجید میں بھی ظاہری تعارض ہوتا ہے۔ تو جو جواب اس کا ہوگا، وہی تعارض احادیث کا جواب ہوگا۔ تو ثابت ہوا کہ ظاہری تعارض سے شئے کا حجت نہ ہونا لازم نہیں آتا۔ ورنہ قرآن بھی حجت نہیں رہے گا۔
    نواں شبہ:
    اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور احادیث کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا۔
    جواب:
    اللہ تعالیٰ نے دونوں کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    [إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [الحجر : 9]]
    اس آیت میں ذکر سے صرف قرآن مجید مراد ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
    دسواں شبہ:
    حدیث تاریخ کے خلاف ہے۔
    جواب:
    کیا تاریخی بات باسند ہے یا کہ بلاسند ہے؟ بلا سند کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر باسند ہے تو سند دیکھی جائے گی، کیا صحیح ہے یا ضعیف ہے؟ ضعیف ہے تو اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ صحیح ہے تو وہ حدیث کے خلاف نہیں۔ اور حدیث بھی اس کے خلاف نہیں۔ بفرض تسلیم قرآن مجید بسا اوقات تاریخی روایات کے خلاف آتا ہے، مثلاً: قرآن کہتا ہے:
    [وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ [الأنعام : 74]]
    اور تاریخ آزر کو چچا کہتی ہے۔ جو جواب اس کا ہوگا، وہی حدیث کا تاریخ کے خلاف ہونے کا جواب ہوگا۔
    مرآۃ البخاری از حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ
    ص: 35 تا 48
    کمپوزنگ: آزاد​
    [/font]
    [/FONT]
     
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  2. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا آزاد بھائی
     
  3. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاک اللہ خیرا یا آزاد
     
  4. طارق راحیل

    طارق راحیل -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 23, 2009
    پیغامات:
    351
    جزاک اللہ۔۔۔ شکریہ
     
  5. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    یہ جواب غلط ہے ۔
     
  6. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    کیسے غلط ہے ؟
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    جواب اِسی آیت میں موجود ہے ۔
     
  8. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    اس آیت میں تو ذکر کی حفاظت کا ذمہ ہے ۔
    ہمارا دعوى یہ ہے کہ ذکر سے مراد وحی الہی ہے جو کہ قرآن اور حدیث دونوں ہیں ۔
    ہم اس دعوى پر دلیل رکھتے ہیں ۔
    اور اگر آپ ذکر سے مراد صرف قرآن لیتے ہیں تو اسکی دلیل پیش کریں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  9. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جزاک اللہ خیر
     
  10. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    یہ آیت اپنے سیاق و سباق میں بالکل واضح ہے اس لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔اگر آپ اسکی تاویل کر کےبطور ِ دلیل مطمئن ہیں تو الگ بات ہے۔
     
  11. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    مولانا محمد جونا گڑھی:-
    انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06



    ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09


    مولانا اسحاق مدنی:-

    اور کہتے ہیں یہ لوگ (اللہ کے رسول سے) کہ اے وہ شخص جس پر اتارا گیا ہے یہ ذکر، تو تو پرلے درجے کا دیوانہ ہے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06



    اور بلاشبہ ہم ہی نے اتارا ہے اس ذکر (قرآن حکیم) کو، اور بلاشبہ ہم خود ہی اس کے (محافظ و) نگہبان بھی ہیں

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09


    مولانا مفتی تقی عثمانی:-

    اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : اے وہ شخص جس پر یہ ذکر (یعنی قرآن) اتارا گیا ہے ! تم یقینی طور پر مجنون ہو۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06



    حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر ( یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09


    مولانا محمد لقمان سلفی:-
    اور کفار مکہ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے تو یقینا پاگل ہے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06



    بیشک ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09



    مولانا غلام رسول سعیدی:-

    اور انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر نصیحت نا زل کی گئ ہے، بے شک تو ضرور دیوانہ ہے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06



    بے شک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09



    ڈاکٹر محمد طاہر القادری:-

    اور (کفار گستاخی کرتے ہوئے) کہتے ہیں : اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے! بیشک تم دیوانے ہو۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06


    بیشک یہ ذکر عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09



    حافظ نذر احمد:-

    اور وہ (کافر) بولے اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے بیشک تو دیوانہ ہے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06


    بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا، اور بیشک ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09



    مولانا وحید الدین خان:-

    اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر نصیحت اتری ہے تو بے شک دیوانہ ہے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06



    یہ یاد دہانی (قرآن) ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09


    مولانا احمد رضا خان بریلوی:-
    اور بولے کہ اے وہ جن پر قرآن اترا بیشک مجنون ہو۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06


    بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09



    مولانا اشرف علی تھانوی:-
    اور ان کفار (مکہ) نے یوں کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے تم مجنون ہو۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06



    ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور ہم اس کے محافظ ( اور نگہبان) ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09


    مولانا ابو الکلام آزاد:-

    اور (اے پیغمبر) ان لوگوں نے تم سے کہا اے وہ آدمی کہ تجھ پر نصیحت اتری ہے تو (ہمارے خیال میں) یقینا دیوانہ ہے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06



    بلاشبہ خود ہم نے الذکر (یعنی قرآن کہ سرتا پا نصیحت ہے) اتارا ہے اور بلا شبہ خود ہم ہی اسکے نگہبان ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09



    پیر کرم شاہ ولی :-

    اور وہ کہنے لگے اے وہ شخص اتارا گیا ہے جس پر قرآن بے شک تو مجنون ہے

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06


    بے شک ہم ہی نے اتارا ہے اس ذکر (قرآن مجید) کو اور یقیناً ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09


    مولانا عبدالرحمٰن کیلانی:-
    کافر یہ کہتے ہیں کہ : اے وہ شخص جس پر یہ قرآن نازل ہوا ہے تو تو دیوانہ ہے۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 06


    یقینا ہم نے ہی الذکر اتارا ہے اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

    قرآن، سورۃ الحجر ، آیت نمبر 09


    ہم نے مختلف مکاتیبِ فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء کرام کے قرآنی تراجم رکھ دیے ہیں لہذا اگر ہم سورۃ الحجرکی آیت 06اور 09 کا مطالعہ کریں تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دونوں آیتوں میں ”الذکر“سے مراد سوائے قرآن مجید کے اور کوئی چیز نہیں۔

     
    • ناپسندیدہ ناپسندیدہ x 1
  12. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    دونوں آیات میں لفظ ذکر استعمال ہوا ہے
    ذکر کا ترجمہ قرآن مجید کرنا کس لغت یا دلیل کی رو سے صحیح ہے ؟
    ذکر کی تفسیر کو قرآن مجید پہ محصور کرنا بھی بلا دلیل ہے !
    ان مترجمین نے ہی ذکر کا ترجمہ نصیحت بھی کیا ہے اور ذکر بھی ، اور یاد دہانی بھی ، پھر لفظ یعنی یا بریکٹ لگا کر قرآن لکھ دیا ہے ۔ اور بعض نے صرف قرآن ہی کیا ہے ۔
    تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان مترجمین کے نزدیک بھی ذکر کا ترجمہ قرآن مجید نہیں، بلکہ یہ لفظ ذکر کی تفسیر ہے ۔
    اور ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ ذکر صرف قرآن ہی ہے یا قرآن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یا یہاں ذکر سے مراد صرف اور صرف قرآن ہی ہے ۔
    آپ کا دعوی ذکر سے مراد صرف قرآن کا ہے
    جبکہ تمام تر تراجم اس بات سے خالی ہیں ۔
    اپنے دعوی پر دلیل پیش کریں جس میں ذکر کو قرآن مجید پہ محصور کیا گیا ہو۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • متفق متفق x 1
  13. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    بہت عمدہ جواب ہے
     
  14. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    ہم قرآن مجید میں تاویل کرنے کے قائل نہیں بلکہ قرآن مجید کی آیت کا جو مدعا اسکے سیاق و سباق اور دوسری آیات سے سمجھتے ہیں وہی پیش کرتے ہوں اگر آپ تاویل کے قائل ہیں تو ضروری نہیں کہ ہم بھی آپ کےہم ہوں۔ ہم نے معتبر علماء کرام بشمول اہلِ حدیث کے تراجم بھی سامنے رکھ دیے ہیں اور انہوں نے بھی یہاں الذکر سے صرف قرآن مجید کی تخصیص سورۃ الحجر کی آیت 06 کی روشنی میں کی ہے جس میں سوائے قرآن مجید کے اور کوئی چیز مراد نہیں ہے ۔ مزید بر آں انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون میں” لہ“ کی ضمیر الذکر کی طرف لوٹ رہی ہے اور الذکر سے کیا مراد ہے وہ سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے اسی بناء پر کچھ علماء کرام نے اگر پہلی آیت میں الذکرسے یاد ہانی یا نصیحت مراد لی ہے تو دوسری آیت میں قرآن مجید کی تخصیص کو واضح کر دیا ہے ۔
    قرآن مجید کے الذکر ہونے پر آیات بطور دلیل ملاحظہ ہوں:-
    ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ ﴿ ١﴾
    ص، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی (۳۸: ۱)
    اس آیت میں نصیحت سے بھری ہوئی (الذکر)سوائے قرآن کے اور کوئی چیز نہیں۔
    إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿ ٤١﴾
    یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلام نصیحت آیا تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے (۴۱: ۴۱)
    اس آیت میں بھی الذکر سے سوائے قرآن مجید کے اور کوئی چیز نہیں کیونکہ اس میں ”انہ“ کی ضمیر صرف قرآن مجید ہی کی طرف لوٹ رہی ہے اور اسی کو ”کتاب عزیز“ کہا گیا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • ناپسندیدہ ناپسندیدہ x 1
  15. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ﴿٤١﴾ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ﴿٤٢﴾ مَّا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ ﴿٤٣﴾ وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًىۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ﴿٤٤﴾
    یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلام نصیحت آیا تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہےاے نبیﷺ، تم سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ہےاگر ہم اِس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے ”کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی“ اِن سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے اُن کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے اُن کا حال تو ایسا ہے جیسے اُن کو دور سے پکارا جا رہا ہو۔
    قرآن، سورۃ فصلت، آیت نمبر 44-42
    سرخ رنگ والے الفاظ پر غور کریں تو یہ آیات قطعیت کے ساتھ فیصلہ کر دیتی ہیں کہ سورۃ الحجر کی آیت 06 اور 09 میں ”الذکر“ میں سوائے قرآن مجید کے اور کوئی چیز مراد نہیں۔


     
  16. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    آپکی دونوں پوسٹوں میں جو دلائل ہیں انکا نتیجہ ہے :
    ذکر سے مراد قرآن ہے۔
    اور ہمیں اس سے انکار نہیں۔ ہم بھی ذکر سے مراد قرآن مانتے ہیں ۔
    آپ سے یہ مطالبہ نہیں تھا، آپ سے مطالبہ کیا گیا تھا ایسے دلائل کا جس سے ثابت ہو کہ:
    ذکر سے مراد صرف قرآن ہی ہے۔
    یعنی ہمارے نزدیک ذکر عام ہے اور اسکے عموم میں قرآن اور حدیث دونوں شامل ہیں۔ جبکہ آپ اسے صرف قرآن پہ محصور کر رہے ہیں ۔
    اس حصر کی دلیل درکار ہے۔
     
    • متفق متفق x 4
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  17. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    میں نے پہلے بھی آپ سے عرض کیا تھا کہ آپ حضرات تاویل کے ذریعے ایسا کرتے ہیں اور ہم تاویل کرنے سے قاصر ہیں ۔ میں نے اپنا مؤقف سامنے رکھ دیا ہے اور اس ضمن میں قرآن مجید سےدلائل بھی دے دیے ہیں ۔ یہ فیصلہ اب قارئین نے کرنا ہے کہ وہ کس مؤقف کو ترجیح دیتے ہیں۔
    جیسا کہ آپ نے عرض کیا کہ:-
    تو میں نے سورۃ الحجر کی دونوں آیات سے یہی ثابت کیا ہے کہ یہاں”الذکر“ کی تخصیص سے صرف قرآن مجید مراد ہے اور اس ضمن میں نے مختلف علماء کرام کے تراجم بھی نقل کیے ہیں۔
    اسی لیے میں نے کہا تھا کہ:-
     
  18. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    اپنی اس مراد پہ دلیل پیش فرمائیں!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  19. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    محترمی !
    اگر آپ بات سمجھنا چاہتے تو یقیناً میری پیش کردہ آیات اور مختلف علماء کے تراجم سے با آسانی سمجھ سکتے تھے لیکن شائد آپ جان بوجھ کرپیش کیے گئے دلائل سے چشم پوشی کرکے بات اُلجھا نا چاہ رہے ہیں ۔
    یہی وجہ ہے جو اہلِ حدیث مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والےمولانا عبد الرحمٰن کیلانی ، مولانا محمد جونا گڑھی اور مولانا محمد لقمان سلفی کے تراجم میں ”قرآن مجید کی تخصیص“ بھی آپ کو نظر نہیں آرہی ۔
    دوسرے مکتبۂ فکر کے علماء کرام سے قطع نظر کر کے آپ اپنے اہلِ حدیث علماءہی کے تراجم کے بارے میں سوچیں کہ انہوں نے یہاں ”الذکر“ سے صرف قرآن مجید ہی کیوں مراد لیا ہے ؟
     
  20. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    ابھی تک آپکو "قرآن مراد لینے"
    اور
    "صرف قرآن مراد لینے "
    میں فرق سمجھ نہیں آیا شاید !
    پہلے اس فرق کو سمجھ لیں‘ پھر بات کو آگے چلائیں۔
    کیونکہ آپ فی الحال "قرآن مراد لینے" کے دلائل دے رہے ہیں جبکہ وہ مطلوب ہی نہیں ہیں۔
    آپ سے مطلوب:
    "صرف قرآن مراد لینے" کے دلائل ہیں !
     
    • متفق متفق x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں