ماہنامہ الحدیث حضرو،مارچ 2013

محمد وقاص حبیب نے 'اسلامی کتب' میں ‏مارچ 4, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد وقاص حبیب

    محمد وقاص حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2011
    پیغامات:
    33
    ماہنامہ الحدیث حضرو،مارچ 2013
    [​IMG]

    فہرست
    • ولید بن مغیرہ اور جاوید احمد غامدی
    • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلنے والا:یزید
    • جمہور محدثین اور مسئلہ تدلیس (۳)
    • تقریظ:جمہور محدثین اور مسئلہ تدلیس(محمد داود ارشد)
    • تقریظ:جمہور محدثین اور مسئلہ تدلیس(مبشر احمد ربانی)
    • قاضی ابو القاسم احمد ابن بقی البقوی
    • غلام رسول سعیدی،حیلہ اسقاط اور ایک موضوع روایت
    • کیا اہلحدیث صرف محدثین کا لقب ہے؟
    فور شیئرڈ ڈاونلوڈ لنک
    میڈیا فائر ڈاونلوڈ لنک
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    السلام علیکم !
    جزاکم اللہ خیرا محمد وقاص بھائی ۔
    انصاف سے کام لیا جائے تو ظاہر میں اس حدیث سے یزید بن معاویہ مراد نہیں ! کیا اس زمانے میں صرف دو ہی یزید تھے ؟ یہ شیخ حفظ اللہ کا اپنا موقف ہے ، یزید اس الزام سے بری نظر آتے ہیں ـ
     
  3. محمد وقاص حبیب

    محمد وقاص حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2011
    پیغامات:
    33
    وعلیکم السلام !
    عکاشہ بھائی آپ کی بات درست ہے کہ اس زمانہ صرف دو ہی یزید نہ تھے
    اور یہ بات بھی درست ہے کہ یہ شیخ حفظہ اللہ کا اپنا موقف ہے۔۔۔۔۔کیونکہ یہ لکھا ہی انہوں نے ہے۔
    میں بھی اس موقف سے کلی اتفاق تو نہیں کرتا نہ ہی کر سکتا ہوں بہر حال یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے دیگر قرائن مثلا دور یزید میں واقعہ کربلا اور واقعہ حرہ کا وقوع پذیر ہونا،،گو کہ یہ انتظامی معاملات تھے اور یزید براہ راست تو ان کا ذمہ دار نہیں ٹھہرتا،محدثین کی جروح وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حدیث کا مصداق یزید کو ٹھہرایا ہے۔۔۔بہر حال چونکہ یہ انتہائی نازک مسئلہ ہے لہذا شیخ حفظہ اللہ کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی دلیل بھی ذکر کر دیتے تو بہتر تھا۔
    اور پھر میں یہ سمجھتا ہوں اگر ہمیں اس موقف سے اختلاف ہے تو ہمیں ان دو یزید کے علاوہ یزید تلاش کرنا ہوں گے جن کا تعلق بھی بنو امیہ سے ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔اور پھر چند دلائل کے ساتھ اختلاف کرکے شیخ حفظہ اللہ سے مزید وضاحت طلب کی جاسکتی ہے !!!
     
  4. محمد وقاص حبیب

    محمد وقاص حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2011
    پیغامات:
    33
    لیجئے مسئلہ کافی حد تک حل ہو گیا ہے ۔
    اس مسئلہ پر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کا انتہائی مدلل رد مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے۔

    ----------------
    [​IMG]
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلنے والا یزید ،

    أخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبدالله نا محمد بن هارون نا محمد بن بشار نا عبدالوهاب نا عوف ثنا مهاجر أبو مخلد حدثني أبو العالية حدثني أبو مسلم قال غزا يزيد بن أبي سفيان بالناس فغنموا فوقعت جارية نفيسة في سهم رجل فاغتصبها يزيد فأتى الرجل أبا ذر فاستعان به عليه فقال له رد على الرجل جاريته فتلكأ عليه ثلاثا فقال إني فعلت ذاك لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية يقال له يزيد فقال له يزيد بن أبي سفيان نشدتك بالله أنا منهم قال لا قال فرد على الرجل جاريته [تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔

    یہ روایت باطل ہے کسی سبائی درندے نے اسے گھڑاہے ۔

    اس روایت میں صرف یزید بن معاویہ ہی نہیں بلکہ یزید نامی صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر بھی انتہائی گھناؤنا الزام لگایا گیا ہے اور وہ یہ کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے (معاذاللہ) کسی اور کی لونڈی کو زبردستی چھین لیا اورجب انہیں یزید سے متعلق حدیث رسول سنائی گئی تو انہوں نے غصب کردہ لونڈی واپس کی۔
    غور کریں کتناگھناؤنا کردار صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا جارہا ہے ، کہ انہوں نے کسی اور کے حصہ میں خوبصورت لڑکی دیکھی تو اسے غصب کرلیا ، یادرہے کہ اصل متن کے الفاظ ہیں ’’فاغتصبها يزيد ‘‘ یعنی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اس خوبصورت لڑکی کو غصب کرلیا ، یہی ترجمہ درست ہے ۔

    اور مجلہ الحدیث کے محولہ صفحہ پر جو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’لونڈی قبضہ میں لے لی ‘‘ تو یہ ترجمہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ، اورشاید مترجم کو بھی معلوم تھا کہ یہ درست ترجمہ نہیں ہے لیکن چونکہ صحیح ترجمہ کرنے کی صورت میں ایک صحابی رسول کا بڑا گھناؤنا کردار سامنے آرہا تھا اس لئے مترجم اس کی جرات نہیں کرسکے، حالانکہ یہ غلط ترجمہ سیاق وسباق سے بالکل کٹ جاتا ہے ۔

    حدہوگئی کہ یزید دشمنی میں یزید نامی صحابی رسول رضی اللہ عنہ پر بھی گھناؤنا الزام لگانے سے لوگ نہیں ہچکچاتے ۔ واللہ المستعان۔


    روایت مذکورہ کی استنادی حالت


    کسی بھی روایت کی محض ظاہری سند دیکھ کر یا اس کے دیگر طرق سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک ہی طریق کو سامنے رکھ کر حکم لگانا متقدمین کے منہج کے سراسر خلاف ہے ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی شخص صرف ایک حدیث کو سامنے رکھ کر فتوی دینے لگ جائے ۔

    جب ہم روایت کے مذکورہ کی تمام اسانید کو سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ ابوالعالیہ اور ابوذر کے بیچ سے ایک روای ساقط ہے عبدالوہاب کے علاوہ تمام رواۃ نے اس سند کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ملاحظہ ہو:

    هوذة بن خليفة الثقفي:
    امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
    أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار، حدثنا محمد بن العباس المؤدب، حدثنا هوذة بن خليفة حدثنا عوف عن أبي خلدة عن أبي العالية قال لما كان يزيد بن أبي سفيان أميرا بالشام غزا الناس فغنموا وسلموا فكان في غنيمتهم جارية نفيسة فصارت لرجل من المسلمين في سهمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها منه وأبو ذر يومئذ بالشام قال:فاستغاث الرجل بأبي ذر على يزيد فانطلق معه فقال ليزيد: رد على الرجل جاريته- ثلاث مرات- قال أبو ذر: أما والله لئن فعلت، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى عنه فلحقه يزيد فقال أذكرك بالله: أنا هو قال: اللهم لا ورد على الرجل جاريته [دلائل النبوة للبيهقي 6/ 467]

    امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
    حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ يُبَدِّلُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ.[مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 19/ 554 ، دلائل النبوة للبيهقي: 6/ 467]۔

    معاذ بن معاذ العنبري:
    امام ابن أبي عاصم (المتوفى: 287) نے کہا:
    حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّه بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا عَوْفٌ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ لِيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ»[الأوائل لابن أبي عاصم ص: 77]۔

    سفيان بن عيينة الهلالي:
    امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
    أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ فِي كِتَابِهِ إِلَيَّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ أَبَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: كُنَّا بِالشَّامِ مَعَ أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ رَجُلٍ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ» فَقَالَ يَزِيدُ: أَنَا هُوَ؟ قَالَ: لَا[تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان 1/ 132]۔

    سعيد بن عبدالكريم بن سليط :
    امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
    أخبرنا أبو الفضل أحمد بن منصور بن بكر بن محمد أنا جدي أنبأ أبو بكر أحمد بن محمد بن عبدوس الحيري إملاء أنا أبو الحسين عبد الصمد بن علي بن مكرم البزاز ببغداد نا أحمد بن محمد بن نصر ثنا سري بن يحيى نا سعيد بن عبدالكريم بن سليط أنه سمع عوف بن أبي جميلة يحدث عن المهاجر أنه حدث أبو العالية قال لما كان زمن يزيد بن أبي سفيان بالشام غزا الناس فغنموا وكانت في غنائمهم جارية نفيسة فصارت لرجل في قسمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها وأبو ذر يومئذ بالشام فاستعان الرجل بأبي ذر فانطلق معه فقال رد على الرجل جاريته فتلكأ يزيد فقال أما والله لئن فعلت لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى فلحقه فقال أذكرك الله أهو أنا قال اللهم لا فرد على الرجل جاريته
    [تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔

    النضر بن شميل المازني:
    أخبرني أحمد بن شعيب قال : أنبأ سليمان بن سلم قال : أنبأ النضر بن شميل قال : أنبأ عوف ، عن أبي المهاجر ، عن أبي خالد ، عن رفيع أبي العالية قال : قال أبو ذر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : « إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية »[الكنى والأسماء للدولابي 3/ 363 ]۔


    مؤخرالذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے پھر ان دونوں کے ساتھ مل کر بقیہ رواۃ کا بیان بھی درست ثابت ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ابن عساکر کی زیر نظر روایت میں رویانی کے شیخ عبدالوہاب سے سند بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے انہوں نے منقطع روایت کو موصول بیان کردیا ہے ۔

    اس طرح کی غلطی کی ایک مثال ملاحظہ ہو:
    امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
    وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ.قَالَا: وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ.وَفِيهِ بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ. فِيهِ انْقِطَاعٌ.
    جابراورابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عام الفیل، بروز پیر بتاریخ ١٢ ربیع الاول ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اوراسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی۔
    امام ابن کثیر رحمہ اللہ یہ روایت نقل کرنے کے بعد ہی فرماتے ہیں ’’ فِيهِ انْقِطَاعٌ‘‘ یعنی اس کی سند میں انقطاع ہے[البداية والنهاية ط إحياء التراث 3/ 135]۔

    اس روایت سے اہل بدعت استدلال کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش بارہ ربیع الاول ہے ۔
    لیکن اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ ابن کثیر اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اس حدیث کو منقطع قرار دیا ہے ۔
    مگر امام جوزقانی سے اپنی سند سے ابن ابی شیبہ کے طریق سے یہی راویت نقل کی ہے اور ان کی نقل کردہ سند میں انقطاع نہیں ہے بلکہ عفان اورسعیدبن میناء کے درمیان
    سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ نامی ثقہ راوی کا ذکرہے۔


    ملاحظہ ہو یہ یہ مکمل روایت:
    أَخْبَرَنَا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاهِرِ بْنِ عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى، إِمْلَاءً، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْبَغَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ سَلِيمِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: «وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِيلِ، يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بُعِثَ، وَفِيهِ عَرَجَ إِلَى السَّمَاءِ، وَفِيهِ هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»[الأباطيل والمناكير للجورقاني: 1/ 267]۔

    لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انقطاع کا ازالہ ہوگیا اور مذکورہ روایت صحیح ہوگئی کیونکہ موصول روایت کرنے والے ’’محمد بن طاهر‘‘ گرچہ ثقہ ہیں لیکن متکلم فیہ ہیں لہٰذا ثقہ کے خلاف ان کا موصول بیان کرنا غیر مقبول ہے تفصیل کے لئے دیکھئے درج ذیل لنک ۔

    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش سے متعلق ایک روایت کاجائزہ۔

    میرے خیال سے جو لوگ یزید سے متعلق ابن عساکر کی مذکور روایت کو صحیح یا حسن کہتے ہیں انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے متعلق بھی محولہ روایت کو صحیح کہنا چاہئے بلکہ بدرجہ اولی صحیح کہنا چاہئے کیونکہ یہاں صرف ایک ثقہ روای کی مخالفت ہے ، اور زیربحث روایت میں تو متعدد ثقات کی مخالفت ہے ۔

    بہرحال یہ متقدمین کا منہج نہیں ہے کہ ثقہ یا حسن الحدیث کی زیادتی مطلقا قبول کرلی جائے اورحقیقت یہ ہے کہ زیادثی ثقہ کے قبول و رد کے لئے متقدمین کے یہاں کوئی ٍ ضابطہ ہے ہی نہیں بلکہ متقدمیں قرائن کو دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے امام ابن رجب رحمہ اللہ نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے فرماتے ہیں:
    وأما أكثر الحفاظ المتقدمين فإنهم يقولون في الحديث - إذا تفرد به واحد - وإن لم يرو الثقات خلافه - : (( إنه لا يتابع عليه ، ويجعلون ذلك علة فيه ، اللهم إلا أن يكون ممن كثر حفظه واشتهرت عدالته وحديثه كالزهري ونحوه ، وربما يستنكرون بعض تفردات الثقات الكبار أيضاً ،ولهم في كل حديث نقد خاص ، وليس عندهم لذلك ضابط يضبطه [شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 216]۔

    اسی لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے تاریخ پیدائش والی رویات کو منقطع کہا ہے حالانکہ حسن الحدیث راوی نے اسے موصول بیان کیا ، لیکن چونکہ موصول والی سند میں کمزور حافظہ والا راوی ہے اور یہ وصل مصنف کی اصل کتاب کے خلاف بھی ہے لہٰذا ان قرائن کی بناد پر حسن الحدیث راوی کے وصل کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

    یہی حال زیربحث یزید سے متعلق روایت کا بھی ہے کہ تمام رواۃ نے اسے منقطع بیان کیا ہے صرف عبدالوہاب نے وصل کیا ہے اور یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ :
    امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
    عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي. ويكنى أبا محمد. وكان ثقة وفيه ضعف.[الطبقات لابن سعد: 7/ 212]۔

    اور اخیر عمر میں ان کا حافظہ اس حدتک خراب ہوگیا تھا کہ یہ اختلاط کے شکار ہوگئے تھے۔
    حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
    عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 284]۔

    معلوم ہوا کہ عبدالوہاب ثقہ ہونے کے باوجود متکلم فیہ تھے نیز ان کے وصل والی روایت کے ہوتے ہوئے بھی بہت سارے محدثین نے ان زیربحث روایت کو منقطع قراردیا ہے ۔

    چنانچہ خود ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ ایک مقام پر اسی روایت کو منقطع روایت کرنے کے بعد کہا:
    رواه عبد الوهاب الثقفي عن عوف عن أبي مهاجر عن أبي العالية عن أبي مسلم عن أبي ذر زاد فيه أنا مسلم [تاريخ دمشق لابن عساكر: 18/ 160]۔

    امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس سند میں ابو مسلم کی زیادتی پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
    أخرجه الروياني في مسنده» عن بندار، وروي من وجه آخر، عن عوف، وليس فيه أبو مسلم.[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 273]۔

    امام بیہقی رحمہ اللہ بھی اس سند کو منقطع قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:
    وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي:6/ 467]۔

    اسی طرح امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس سند پر انقطاع ہی کا حکم لگایا ہے چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ ابن عساکر کی مذکورہ روایت اور اس جیسی روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
    وقد أورد ابن عساكر أحاديث فى ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شىء منها وأجود ما ورد ما ذكرناه على ضعف أسانيده وانقطاع بعضه[البداية والنهاية 8/ 231]۔

    یعنی ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن عساکر میں موجود یزید کی مذمت کرنے والی تمام روایات کو مردود قرار دیا ہے ان میں زیربحث روایت بھی ہے ۔

    نیز امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے زیربحث روایت کے کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ سے تضعیف کا قول نقل کیا ہے چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    وكذا رواه البخارى فى التاريخ وأبو يعلى عن محمد بن المثنى عن عبد الوهاب ثم قال البخارى والحديث معلول ولا نعرف أن أبا ذر قدم الشام زمن عمر بن الخطاب قال وقد مات يزيد بن أبى سفيان زمن عمر فولى مكانه أخاه[البداية والنهاية 8/ 231]۔

    اسی طرح ابن طولون نے بھی امام بخاری کی تضعیف نقل کرتے ہوئے کہا:
    قال البخاري : ((والحديث معلول)) [قيد الشريد لابن طولون ص38] ۔

    امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) فرماتے ہیں:
    حَدَّثَنَا محمد , قال : حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه.[التاريخ الأوسط للبخاري 1/ 397]۔

    یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے بقول صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے امیر تھے اور عہد فاروقی ہی میں وفات پاگئے اور عہدفاروقی میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا ثابت ہی نہیں ہے اور زیر بحث روایت میں اسی دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام میں بتلایا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے شام میں صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو زیربحث حدیث سنائی ۔
    یہ زبردست دلیل ہے کہ زیربحث روایت موضوع من گھڑت ہے اور جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا اس نے یہ حدیث تو وضع کردی کہ شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حدیث سنائی لیکن اس بدنصیب کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس دور میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان شام میں تھے اس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے بہت بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام گئے تھے، اور اس سے پہلے ہی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوچکے تھے ۔ لہٰذا ایک فوت شدہ شخص کو ابوذر رضی اللہ عنہ کوئی حدیث کیسے سناسکتے ہیں۔

    امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق سے اس روایت کا موضوع ومن گھڑت ہونا ثابت ہوگیا ۔

    اب یا تو یہ بات مان لی جائے کہ عبدالوہاب سے روایت کوموصول بیان کرنے میں غلطی ہوئی اور حقیقت میں سند سے ایک راوی ساقط ہے جیساکہ امام ابن کثیر وغیرہ نے کہا ہے یا اعلان کیا جائے کہ ابومسلم الجذمی کذاب ہے کیونکہ وہ دو صحابہ کی ملاقات ایسی جگہ بتلارہا ہے جہاں ان دونوں صحابہ کا ملنا ممکن ہی نہیں۔ اور ان دونوں میں کوئی بھی بات مانی جائے روایت مردود ثابت ہوگی۔


    امام بخاری ہی کی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی یہ اشکال پیش کیا ہے ہے کہ صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ جن دنوں شام کے امیر تھے ان دنوں ابوذر رضی اللہ عنہ شام میں تھے ہی نہیں کیونکہ یہ تو عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام آئے اور صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ شام میں صرف ابوبکر اورعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ تھے چنانچہ :

    امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) فرماتے ہیں:
    قلت: يزيد بن أبي سفيان كان من أمراء الأجناد بالشام في أيام أبي بكر وعمر. لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
    یعنی صحابی رسول یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ تو ابو بکر اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر شام کے امیر ہواکرتے تھے (اوراس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام آئے ہی نہیں) ۔

    اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس اشکال کو رفع کرنے کا یہ حل پیش کیا ہے کہ زیربحث روایت میں یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے بجائے ان کے ہمنام یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہوگا ، چنانچہ:
    امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
    لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- [دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔

    عرض ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ تمام تر روایات میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ہی کی صراحت ہے ، نیز اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس حدیث میں لونڈی غصب کرنے کا جو واقعہ ہے وہ یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کا واقعہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید نے جب ایک لونڈی غصب کی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث سنادی لیکن جب انہوں نے مسندخلافت غصب کی کما یقال تو اس وقت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث لوگوں کوکیوں نہ سنائی گئی کیونکہ ظاہر ہے یہ واقعہ پیش آنے کے بعد یہ حدیث کئ لوگوں کے علم میں آچکی ہوگی ۔
    نیز اسی حدیث میں ہے کہ یزید نے جب ابوذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ میں ہوں تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اگر یہ واقعہ یزید بن معاویہ کا ہے تب تو بتصریح ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ اس کے مصداق ہیں ہی نہیں۔

    الغرض یہ کہ امام بخاری وامام بیہقی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے ملے ہیں نہیں ، اور امام بخاری رحمہ اللہ کی اسی تحقیق کو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی برضاء ورغبت نقل کیا ہے ۔

    امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے علاوہ اور بھی ایسے قرائن ہیں جو بتلاتے ہیں کہ یہ روایت مکذوب ہے ۔

    مثلا یہ کہ جب یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو ولیعہدی کے لئے نامزد کیا گیا تو اس وقت بعض لوگوں نے اس آئین کی مخالفت کی لیکن اس موقع پر کسی نے بھی اس حدیث کو پیش نہیں کیا ، جبکہ مذکورہ واقعہ پیش آنے کے بعد اس حدیث کا عام ہوجانا ظاہر ہے ، غور کیا جائے کہ زیربحث روایت کے مطابق ایک جلیل القدر صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ایک لونڈی غصب کرتے ہیں اور اس ایک غلطی پر انہیں یہ حدیث فورا سنادی گئی جبکہ آپ صحابی رسول تھے تو پھر یزید بن معاویہ تو تابعی تھے انہوں نے ایک لونڈی ہی نہیں بلکہ مخالفین کے بقول مسندخلافت ہی کو غصب کرلیا آخر انہیں کسی نے یہ حدیث کیوں نہ سنائی ؟؟؟؟؟؟؟؟

    لطیفہ :
    مخالفین یزید کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جن فتنہ پرداز امیروں کا نام لوگوں سے چھپایا اس سے یزید ہی مراد ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جان کے خوف سے یزید بن معاویہ کا نام نہیں بتایا عرض ہے کہ مذکورہ روایت کے مطابق تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزید کا نام بتادیاوہ بھی خاندان بنوامیہ کے ایک فرد یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے سامنے آخر ان کی گردن کیوں نہیں ماری گئی ؟؟؟؟؟؟


    خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ روایت کی سند کا منقطع ہونا ہی راجح ہے قرائن اسی پردال ہیں اورچونکہ اس روایت میں شدید نکارت بلکہ محال وناممکن باتوں کا ذکر ہے جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحقیق پیش کی اس لئے متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اس روایت کے موضوع من گھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے اورقطعی یقین ہوجاتاہے کہ یہ روایت کسی سبائی ذہن کی کارستانی ہے، یاد رہے کہ شدید نکارت والے متن پر مشتمل روایت کے اندر گرچہ کوئی کذاب راوی نہ ہو پھر بھی متن کی نکارت کو دیکھتے ہوئے اہل علم اسے موضوع قرار دیتے ہیں چنانچہ ترمذکی کی ایک روایت کو ابن الجوزی ، حافظ ابن حجر اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا حالانکہ اس کے سارے رجال بخاری ومسلم کے ہیں بس سند میں بخاری ومسلم کے راوی ولیدبن مسلم کا عنعنہ ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے :[الموضوعات لابن الجوزي 2/ 140،لسان المیزان : ج 5ص 20 الضعیفہ :ج 7ص 387]۔
    کیا یزید بن معاویہ سنت کو بدلنے والا تھا ؟
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 11, 2013
  5. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    جزاک اللہ خیرا عکاشہ بھائی آپ نے بالکل صحیح کہا اول تو روایت موضوع و کن گھڑت ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے مردود قراردیا ہے ۔
    دوم اگر بفرض محال صحیح بھی مان لیں تو یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو اس کا مصداق قرار دینا محل نظر ہے۔ واللہ اعلم
     
  6. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    وایاک یا شیخ (وایاک پرمضمون ابھی تک نہیں آیا)دیکھا جائے تو یہ سب آپ کے تحقیقی مضامین کا اثر لگتا ہے۔۔ کہ وہابیوں کا مشہور و معروف مجلہ بھی یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کے ساتھ انصاف نہ کرسکا : ))
    آپ کے ان تحقیقی مضامین کو اکٹھا کیا جائے تو شاید ایک کتاب تیار ہو جائے ، امید ہے کہ آپ جلد ہی اس طرف توجہ دیں‌ گئے ۔ بارک اللہ فیک و نفع بک
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. محمد اسد حبیب

    محمد اسد حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2011
    پیغامات:
    411

    شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے اس مدلل مضمون کی توضیح کے لیے ہم نے شیخ زبیر حفظہ اللہ اور شیخ ندیم ظہیر حفظہ اللہ (نائب مدیر ماہنامہ اشاعۃ الحدیث)سے بات کی تا کہ ان کا موقف معلوم کیا جاسکے کیونکہ مضمون نگار پرجان بوجھ کر ترجمہ غلط کرنے اور من گھڑت روایت کو صحیح باور کروانے جیسے سنگین الزامات لگائے گئے تھے۔ ذیل میں ان سے کی گئی گفتگو کی روشنی میں شیخ کفایت اللہ کے مضمون پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے:
    فاغتصبها کا جو ترجمہ کیا گیاہے وہ لغت کے اعتبار سے غلط نہیں ہے اور یہ ترجمہ بالکل ویسا ہی ہےجیسے بعض صحابہ کا ایک دوسرے کے بارے میں کذب کے الفاظ کہنا اور مترجمین کا کذب کاترجمہ جھوٹ کی بجائے غلط کرنا۔ نیز کیا ایسی تمام صحیح روایات صرف اس وجہ سے ردّ کر دینے کے قابل ہیں کہ ان سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا غلط کام سامنے آتا ہے؟ مثلاً حضرت ماعز المزنی رضی اللہ عنہ کا زنا کا واقعہ، صحابی کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زنا کی اجازت طلب کرنا،حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کا شراب کی خرید و فروخت کو جائز سمجھنا وغیرہ۔ لیکن ہمارا مقصد چونکہ صحابہ کی تنقیص کرنا ہر گز نہیں سو یہ چنداشارے صرف مسئلے کی وضاحت کے لیے لکھے گئے ہیں۔
    عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی ہیں نیز ان پر جو مختلط ہونے کی جرح کی گئی ہے وہ چنداں مضر نہیں کیونکہ انہوں نے اختلاط کے بعد کچھ روایت نہیں کیا جیسا کہ حافظ ذہبی اور دیگر محدثین نے صراحت کی ہے (ملاحظہ ہو ’’المعجم المختلطین‘‘ ص۲۲۰)
    امام بیہقی نے جس روایت کو منقطع قرار دیا ہے اس میں عبدالوہاب نہیں ہے۔
    عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفيوالی روایت منقطع و ضعیف نہیں ہے جیسا کہ دلائل سے ثابت ہے۔
    امام بخاری کا یہ قول بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
    زیرِ بحث روایت کا کوئی راوی ضعیف و کذاب نہیں ہے۔ نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
    ۱۔ " أول من يغير سنتي رجل من بني أمية ".

    أخرجه ابن أبي عاصم في " الأوائل " (7 / 2) : حدثنا عبيد الله بن معاذ حدثنا
    أبي حدثنا عوف عن المهاجر أبي مخلد عن أبي العالية عن أبي ذر أنه قال ليزيد
    ابن أبي سفيان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره.
    قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير المهاجر وهو ابن مخلد
    أبو مخلد، قال ابن معين: " صالح ". وذكره ابن حبان في " الثقات ". وقال
    الساجي: " صدوق ". وقال أبو حاتم: " لين الحديث ليس بذاك وليس بالمتقن،
    يكتب حديثه ".
    قلت: فمثله لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن. والله أعلم. ولعل المراد
    بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة، وجعله وراثة. والله أعلم. ( سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹)
    ۲۔ "أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية".
    "حسن". "ع" عن أبي ذر. الصحيحة 1749: ابن أبي عاصم. (صحیح الجامع:۲۵۲۸)

    اس کے علاوہ کیا یہ اصول حدیث کا مسئلہ ہے کہ متن کی نکارت کی بنا پر بھی روایت موضوع ہو جاتی ہے جبکہ اس میں کوئی کذاب راوی نہ ہو؟

    شیخ زبیر حفظہ اللہ سے گفتگو کے بعد شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے مضمون کادیا گیا جواب

    مذکورہ روایت میں ’یزید‘ سے مراد یزید بن معاویہ ہی ہے۔ اگر کسی کے علم میں بنوامیہ کا کوئی اور مشہور یزید نامی شخص ہو تو باحوالہ پیش کرے
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 11, 2013
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  8. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    جزاکم اللہ خیرا محمد اسد بھائی ۔ مضمون کی اہمیت کے پیش نظر شیخ زبیرعلی زئی حفظ اللہ کے مکمل رد کو ہی نقل کردیا گیا ہے تاکہ بحث کا تسلسل قائم رہے ۔
    معلوم نہیں‌روایت کہاں تک درست ہے ، مکمل تحقیق سامنے آئے گی تو کچھ تبصرہ کر سکیں گئے ۔ میرے سوال کا مقصد یہ تھا کہ یزید کے ساتھ انصاف نہیں‌کیا گیا ۔ صرف ایک روایت سے کسی کے کردار کو نشانہ نا مناسب لگتا ہے ۔اسی قسم کی روایتوں کی وجہ سے انجینیر محمد علی مرزا جیسے گمراہ لوگ بھی محقق بن چکے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  9. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
  10. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    السلام علیکم ۔ جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم ۔ بہت شکریہ شیخ ۔ معذرت کے ساتھ کہ ، مصروفیت کی وجہ سے یہ تھریڈ ابھی دیکھا ہے ۔

    محمد اسد بھائی جب روایت ہی جھوٹی ثابت ہو گئی تو کسی دوسرے یزید کو تلاش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔

    لطیفہ یہ بھی ہے کہ جامعہ کے ایک ساتھی سے باتوں میں ہی اس روایت کا ذکر کیا توانہوں نے پہلے ہی جملے میں اس کو گھڑی ہوئی اور جھوٹی روایت قرار دیا ۔ ایک ایسی روایت جس کا جھوٹا ہونا عام ہو، اس پر اعتبار کرنا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ۔

    یہاں ایک بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہاں محترم کفایت اللہ بھائی نے یہ رد پیش کیا وہاں عوام الناس کی طرف سے '' شیخ زبیر علی زئی حفظ اللہ " کے لیے ''رجوع ''کی بات اس کثرت سے دیکھی گئی کہ جیسے سارے محدیثین اور جراح و تعدیل کے ماہر موجود ہوں ۔ اور بقول ایک بھائی !‌ ان پوسٹس میں‌کچھ پلانٹڈ پوسٹس بھی موجود تھیں اور بعض نے تو ہمیشہ کی طرح ایک محاذ ہی کھول لیا ۔

    کسی عامی کو اور حدیث کے میدان سے ناواقف شخص کو یہ حق حاصل نہیں‌کہ وہ محدث عصر شیخ زبیر علی زئی حفظ اللہ سے '' رجوع '' کی بات کرے !! شیخ کسی بھی روایت پر اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں‌ ۔ ان کی یہ تحقیق غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح ہے ۔ ہر دو صورتوں میں‌ان کے لیے اجر ہے ۔ جبکہ شیخ حفظ اللہ کی حدیث کے لیے خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ اگرچہ شیخ البانی رحمہ اللہ کا بہت اعلیٰ مقام ہے ، لیکن اردو دان طبقہ کے لیے شیخ نے بہت کام کیا ہے ۔ اللہ عزوجل شیخ کی حفاظت فرمائے ۔ آمین ۔

    شیخ کفایت اللہ بھائی کا بھی شکریہ کہ روایت کے ضعف کو واضح کرتے ہوئے ان کا اسلوب بہت ہی اچھا تھا ، جیسا کہ ان کا خاصا ہے کہ وہ اہل علم کی قدر و منزلت کا خیال رکھتے ہیں اور ان کے مقام کو نہیں بھولتے ۔ جزاه الله خير الجزاء۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  11. محمد اسد حبیب

    محمد اسد حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2011
    پیغامات:
    411
    وعلیکم السلام
    اسکی وضاحت میں یہاں‌ کرچکا ہوں کہ اوپر دیا گیا جواب شیخ زبیر حفظہ اللہ کا نہیں ہے۔ اور نہ ہی انہیں اس بات کا علم ہے کہ ایسا کوئی جواب شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے مضمون کےجواب میں دیا گیا ہے۔
    روایت اگر صحیح تو ایک بھی کافی ہو سکتی ہے۔ انجئینر علی مرزا تو ایک گمراہ شخص ہے سو اس کا تذکرہ یہاں فضول ہے۔
    آپ اس کے ساتھ ’فی الحال‘ کا اضافہ کرلیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہکا مضمون ماہنامہ المکرم میں چھپ چکا ہے سو شیخ زبیر حفظہ اللہ کا جواب آنے کے بعد ہی روایت کی استنادی حیثیت واضح ہو سکے گی۔ اور اگر جواب نہیں آتا تو بےشک شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی تحقیق ہی راجح قرار پائے گی۔
    یہ واقعی ایک لطیفہ ہی ہے کہ اب ایسے بھی روایات موضوع ہونے لگ پڑی ہیں۔
     
  12. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    سبحان اللہ یہ التاریخ الاوسط سے لیا گیا ہے جو ان کی اپنی کتاب ہے ۔ اس کی تحقیق ہو چکی ہے نسبت ثابت ہے اب کون سی سند درکار ہو گی ؟
    امام العلل نے اس روایت کا تاریخی لحاظ سے جھوٹ ہونا ثابت کر دیا ہے اس کے بعد کسی راوی کی ضرورت نہیں پڑتی ۔عجیب بات ہے اتنی بنیادی بات کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے ۔
    یہ تاریخی دلیل ہے اس دلیل کو تاریخی اعتبار سے غلط ثابت کیا جائے تو قبول کیا جائے سند کا تو یہاں کوئی سوال ہی نہیں ۔اگر کوئی صحیح سند سے کہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں باراک اباما الیکشن جیت گیا تو ہم کیا کریں گے؟
    پچھلی باتوں کی موجودگی میں اس پر بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔
    لاحول ولا قوۃ ۔اغتصب جب عورت کے لیے استعمال ہو تو اس کا معنی بہت گھناؤنا ہے۔ لا شک یہ رافضی دماغ کی وضع کردہ روایت ہے۔ اور اس کا موضوع ہونا بالکل واضح ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  13. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    الحمدللہ ۔
    بھیا ان کا مقصد ہے کہ یہ مشہور موضوع روایت ہے ۔اور اس میں کوئی شک نہیں ۔ اصولا سب کو شیخ محترم کی رائے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ اس سے قبل مزید بات کرنا عامۃ الناس کو فتنے میں ڈالنے والی بات ہے ۔ علماء کرام کی شاذ آرا ہو سکتی ہیں لیکن ہمیں ان کے پیچھے پڑنے سے منع کیا گیا ہے ۔ ربنا لا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ۔۔
     
  14. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017

    میں یہاں ایک اصولی بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتاہوں ، اوروہ یہ کہ راجح ومرجوح کا معیارکیا ہونا چاہئے؟؟
    کیا یہ طرز فکر درست ہے شیخ زبیرحفظہ اللہ جواب نہ دیں تو کفایت اللہ کا موقف راجح ہوگا؟؟
    کیا راجح ومرجوح کا معیار دلائل ہیں یا جواب درجواب ؟؟؟ اگرجواب درجواب ہی راجح و مرجوح کے لئے معیار ہے تو اس کا مطلب جس کی آخری تحریر ہوگی اسی کا موقف راجح ہوگا قطع نظر اس کے کہ آخری تحریر والے نے دلائل کیا دئے ہیں‌؟؟
    آج اہل حدیثوں کی کتنی ایسی تحریریں ہیں جن کا مخالفین نے جواب دیا مگر اہل الحدیث‌ کی طرف سے جواب الجواب ابھی نہیں آیا، اب فرض کریں کہ اہل حدیث‌ اگرجواب الجواب نہ دیں‌ تو کیا مخالفین کا موقف ہی راجح قرار پائے گا؟؟

    کم ازکم میری نظر میں‌ یہ طرز فکر درست نہیں ہے کہ اگرشیخ زبیرحفظہ اللہ کی طرف سے جواب نہیں‌ آیا تو کفایت اللہ کا موقف راجح ہوگا بلکہ معیار دلائل کو بنانا چاہئے لہٰذا اگر شیخ‌ زیبر حفظہ اللہ کے دلائل سے کوئی مطئن ہے تو اس کی نظر میں شیخ کا موقف ہی راجح قرار پانا چاہئے خواہ شیخ اپنے موقف پر کئے گئے رد کا جواب دیں یا نہ دیں‌؟؟
     
  15. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    اغتصب کے ساتھ روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ اغتصب کا عمل اس لئے ہوا کیونکہ عورت خوبصورت تھی ، اورسب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ کردار ایک جلیل القدر صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیاجارہا ہے جو لشکر کے امیر تھے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
    اس طرح کا گھناونا کام ایک عام سچے مسلمان کا بھی نہیں ہوسکتا چہ جائے کہ ایک امیرلشکر اور وہ بھی صحابی رسول رضی اللہ عنہ کا ہو ۔
    متقدمین نے جس روایت کو متفقہ طور پرمردود قرار دے دیا اس کی بنیاد پراس طرح کا گھناؤنا کردار ہم ان مقدس ہستیوں کے بارے میں کیسے مان لیں جن کی بابت الصحابۃ کلھم عدول کی گواہی پوری امت نے اجماعی طورپر دی ہے ۔


     
  16. محمد وقاص حبیب

    محمد وقاص حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2011
    پیغامات:
    33
  17. محمد اسد حبیب

    محمد اسد حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2011
    پیغامات:
    411
    ہماری بات کا مطلب آپ نے غلط سمجھا ہے۔
    1-آپ کا جواب ماہنامہ المکرم میں چھپ چکا ہے
    2۔ شیخ زبیر حفظہ اللہ کو اس کا پتہ چل جائیگا
    3-آپ کا ہمارے مضمون کا جواب الجواب بھی شیخ زبیر حفظہ اللہ کو بھجوا دیا جائے گا۔
    ان سب باتوں کے بعد بھی اگر شیخ صاحب جواب دینے سے قاصر رہے یا ہمیں کسی اور ذریعے سے بھی شیخ صاحب کے دلائل معلوم نہ ہو سکے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ شیخ صاحب کے پاس آپکے پیش کردہ دلائل کا جواب نہیں ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں ہم آپ ہی کے مؤقف کو راجح سمجھیں گے۔
     
  18. محمد اسد حبیب

    محمد اسد حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2011
    پیغامات:
    411
    شیخ صاحب کی رائے آنے کے بعد ہی آپکی باتوں پر تبصرہ کروں گا۔ ان شاءاللہ
     
  19. کفایت اللہ

    کفایت اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 23, 2008
    پیغامات:
    2,017
    آپ کا کیا مطلب تھا اسے بے شک آپ بہتر سمجھتے لیکن آپ کے ظاہری الفاظ سے‌ جو جوطرز فکر ظاہر ہورہی تھی میں نے اسی پر تنبیہ کی ہے اگر آپ کی مراد کچھ اورہے تو میں‌ معذرت خواہ ہوں۔
    تاہم میں نے جو اصول پیش کیا ہے کم از کم میں اسے درست ہی سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ راجح کا معیار جواب برجواب کو نہیں بلکہ دلائل کو بنانا چاہئے ، آپ کی یہ طرز فکرنہیں تو بہت اچھی بات ہے ، لیکن ہمارے معاشرہ میں‌ ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جواس طرزفکر کے حامل ہیں ، اور کسی نے جواب نہیں دیا تو یہ سمجھ لیا کہ اس کے پاس دلائل ہیں ہی نہیں یا اس کے برعکس کسی نے جواب دے دیا تو یہ سمجھ لیا کہ اس نے دلائل دے دئے !
    حالانکہ جواب دینے اور نہ دینے، اسی طرح دلائل دینے اور نہ دینے میں بہت فرق ہے ، اس لئے معیار دلائل ہی کو بنانا چاہے ۔
    بارک اللہ فیک۔

     
  20. محمد اسد حبیب

    محمد اسد حبیب -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 3, 2011
    پیغامات:
    411
    جی بالکل شیخ صاحب معیار میسردلائل ہی ہونے چاہئیں۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں