شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کے خلاف ہرزہ سرائی

آزاد نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏مارچ 29, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کے خلاف ہرزہ سرائی​

    حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے مقابلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت طلحہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کرام کے مابین تنازعات کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے کی وجہ سے ان کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا:
    ”شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بہت جھوٹ بولا، جھوٹی روایات کتابوں میں بھر دیں، ذرا خوف ِ خدا نہ کیا، میرا دعویٰ ہے، آئیں شیخ الحدیث اور نکالیں کہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ آخر میں پچھتاتے تھے کہ کاش میں پہلے فوت ہوگیا ہوتا، یہ سراسرجھوٹ ہے۔“
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ محدث دہلوی کا مقام ومرتبہ کسی سے مخفی نہیں، اس کے باوصف ہم انہیں معصوم نہیں سمجھتے مگر اس طرز تکلم کے بارے میں ہم کیا عرض کریں آپ ہی انصاف سے کہیں، یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
    ہمیں اس جسارت پر کوئی تعجب نہیں، جو صاحب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کی جرأت کرتے ہیں، ان سے ان اکابر امت پر یوں طعن وتشنیع کہ ”انہوں نے بہت جھوٹ بولا اور جھوٹی روایتیں کتابوں میں بھر دیں“، ہمارے لیے کچھ اجنبی نہیں۔
    وہ ”جھوٹی روایتیں“ کون کون سی ہیں او رکتنی ہیں؟ کاش انہوں نے اس کی وضاحت کی ہوتی اور ہمیں اس کی خبر ہوجاتی لیکن جس روایت کا انہوں نے ذکر فرمایا ، وہ یہ کہ ”حضرت علی آخر میں پچھتاتے تھے کہ کاش میں پہلے فوت ہوگیا ہوتا“۔ آئیے اس روایت کو دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ جھوٹی روایت ہے؟
    چنانچہ امام حارث رحمہ اللہ نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں اور جنگ میں شریک نہ ہونے کی میری طرف سے معذرت کریں تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: معذرت! آپ کیا کریں گے، وہ میرے پاس کھڑے کہہ رہے تھے: ” يَا حَسَنُ لَيْتَنِي مُتُّ قَبْلَ هَذَا بِعِشْرِينَ سَنَةً “ (بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث: 764/2، رقم: 757)
    اے حسن! کاش میں اس سے بیس سال پہلے فوت ہوگیا ہوتا۔
    یہ روایت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے المطالب العالیہ (رقم: 4406، 144/35) میں بھی ذکر کی ہے اس کی سند صحیح ہے، یہی قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ (180/3) میں بھی ذکر کیا ہے۔
    یہی روایت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام مسدد رحمہ اللہ کی سند سے بھی بیان کی ہے اور اس میں ”[FONT="Al_Mushaf"]عشرین سنۃ
    “ کی بجائے ”[FONT="Al_Mushaf"]بکذا وکذا سنۃ[/FONT]“ کے الفاظ ہیں اور اس کی سند بھی صحیح اوراس کے تمام راوی ثقہ ہیں جیسا کہ المطالب کے محقق نے فرمایا ہے۔ علامہ البوصیری رحمہ اللہ نے یہی قول اتحاف الخیرہ (17/8) میں بھی ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ یہ اثر المصنف(286-282/15)، امام نعیم بن حماد رحمہ اللہ کی کتاب الفتن (99-80-78/1)، امام احمد رحمہ اللہ کی السنۃ (589-556/2)، طبرانی کبیر (114،113/1)، المستدرک (373/3)، السنۃ للخلال (ص: 474)، البدایہ (241/7) میں مختلف اسانید سے مروی ہے اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد (150/9) میں کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔
    علامہ البوصیری رحمہ اللہ اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ وغیرہ کا اس اثر کی سند کو صحیح اور حسن قرار دینے کے بعد ضرورت تو نہیں رہتی کہ اس کے راویوں پر بحث کی جائے، تاہم رفع اشتباہ کی خاطر اور اس حقیقت کو مدلل طو رپر مبرہن کرنے کےلیے اس کے راویوں کی پوزیشن قارئین کرام کے سامنے عرض کیے دیتے ہیں تاکہ نصف النہار کی طرح واضح ہوجائے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ تاثر دینے والے خود کتنے ”سچے“ اور کس قدر ”خوف ِخدا“ رکھنے والے ہیں؟ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ المطالب العالیہ میں امام مسدد رحمہ اللہ کی مسند سے اس کی سند یوں نقل کرتے ہیں: ” حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو عَوْنٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، قَالَ: قَالَ سليمان بن صرد لِلْحَسَنِ بن علي رَضِيَ الله عَنْهما: اعْذُرْنِي عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ الْحَسَنُ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَوْمَ الْجَمَلِ وَهُوَ يَلُوذُ بِي، وَهُوَ يَقُولُ: وَدِدْتُ أَنِّي مِتُّ قَبْلَ هَذَا بِكَذَا وَكَذَا سَنَةٍ “ (المطالب: 4405)
    اس سند کے پہلے راوی یحییٰ رحمہ اللہ ہیں جو معروف امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ثقة متقن حافظ إمام قدوة “ (تقریب، ص: 375)
    ان کے استاد امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ثقة حافظ متقن أمير المؤمنين في الحديث“ (تقریب، ص: 145)
    ان کے استاد ابوعون محمد بن عبداللہ الثقفی رحمہ اللہ ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ ہے: ”[FONT="Al_Mushaf"]ثقۃ[/FONT]“ (تقریب، ص: 309)
    ان کے استاد ابوالضحی مسلم بن صبیح الہمدانی رحمہ اللہ تابعی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”[FONT="Al_Mushaf"]ثقۃ فاضل[/FONT]“ (تقریب، ص: 335)
    اور ان کے شیوخ میں سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کا ذکر موجود ہے۔ (التہذیب: 200/4 وغیرہ)
    یہی روایت امام حارث بن محمد بن ابی اسامہ نے المسند میں عبدالرحمن بن غزوان ابونوح قراد سے، جیسا کہ بغیۃالباحث عن زوائد مسند الحارث (رقم: 757) میں اور المطالب (رقم: 4406) میں ہے، ابن ابی شیبہ (288/15) نے ابواسامہ حماد بن اسامہ سے، نعیم بن حماد نے التن (80/1) میں امام ابن المبارک سے، یہ تینوں حضرات امام شعبہ سے بیان کرتے ہیں، اس کے علاوہ بھی اس اثر کے مزید طرق محولہ کتب میں موجود ہیں۔
    یہاں استیعاب مقصود نہیں، بتلانا صرف یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول صحیح اور حسن اسانید سے ثابت ہے اور اسی سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے صداقت ودیانت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے انکار کا پس منظر یہ ہے کہ اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو ان تنازعات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موقف کو اجتہاد اور تاویل پر مبنی قرار دینا پڑے گا اور اس سے طاعنین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موہوم عمارت زمین بوس ہوجائے گی۔
    اس کے علاوہ حسب ِ ذیل روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ یہی روایت امام عبداللہ بن احمد السنۃ (555/2) میں ذکر کی ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات صفین یا جمل کے موقع پر فرمائی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر (384/6) میں ذکر کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ عمرو رضی اللہ عنہ کو ڈانٹا کہ تم جنگ میں پیچھے کیوں رہے ہو، عمرو رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے ملے تو انہوں نے فرمایا: تم پریشان نہ ہو اللہ کی قسم! میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صفین کے روز سنا، فرماتے تھے: ”ليت أمي لم تلدني وليت أني مت قبل اليوم
    کاش میری ماں مجھے نہ جنتی اور کاش میں آج سے پہلے فوت ہوجاتا۔
    امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صفین کے دن فرمایا: ”لو علمت أن الأمر يكون هكذا ما خرجت
    اگر مجھے معلوم ہوتا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا تو میں اس لڑائی کےلیے نہ نکلتا۔
    بلکہ اس کے ساتھ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے، جنہیں انہوں نے اپنی طرف سے حکم مقرر کیا تھا، فرمایا: ”
    اذهب يا أبا موسى فاحكم ولو خر عنقي​

    ابوموسیٰ جاؤ کوئی فیصلہ کرو اگرچہ میری گردن نیچے ہوجائے۔ (ابن ابی شیبہ: 293/15)
    اس اثر کے بھی تمام راوی ثقہ وصدوق ہیں مگر یہ مرسل ہے لیکن اس کی تائید ایک اور مرسل سے بھی ہوتی ہے جسے قاضی ابویوسف نے کتاب الآثار (208) میں بواسطہ امام ابوحنیفہ ، موسیٰ بن ابی کثیر نقل کیا ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوموسیٰ سے فرمایا: ”خلصني منها ولو بعرق رقبتي
    میری اس سے جان چھڑا دیں اگرچہ میری گردن کی رگ کٹ جائے۔
    ان جنگوں میں فریقین ایک دوسرےکے مقتولین کو تلاش کرتے اور باہم مل کر ان کی تدفین کرتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی نماز جنازہ پڑھاتے۔ (البدایۃ: 278/7، منہاج السنۃ: 108/4)
    بلکہ 40ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی، چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی خدمت میں یہ خط لکھا کہ امت ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوگئی آپ عراق کے حاکم او رمیں شام کا حاکم ہوں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو قبول کرلیا۔فریقین ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے لگ گئے۔ لشکروں کو اپنے اپنے شہروں میں بھیج دیا گیا اور اسی پر عمل صلح قائم دائم رہا۔ (البدایۃ: 323/7، تاریخ طبری: 81/5، الکامل لابن اثیر: 385/3، المنتظم: 163/5)
    قابل غور بات یہ ہے کہ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمنوا حضرات کے ”باغی“ ثابت ہوجانے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان سے مصالحت کس نص کی بنیاد پر تھی؟ حضرت ابوموسیٰ سے تحکیم کے معاملے میں جان بخشی کروانے کے کیا معنی تھے؟ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے اپنی پریشانی کا اظہار کیوں کرتے؟
    لہٰذا یہ کہنا کہ ”شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جھوٹی روایتیں کتابوں میں بھر دیں۔“ بجائے خود جھوٹ ہے۔ ہمیں بتلا دیا جائے کہ ابن ابی شیبہ وغیرہ کتب کے حوالہ سے جو روایات ہم نے ذکر کیں اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ، علامہ بوصیری رحمہ اللہ وغیرہ سے ان کی تحسین وتصحیح نقل کی، ان میں کون سا راوی جھوٹا اور کذاب ہے؟ اگر یہ عذر پیش کیا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت حسن سے اپنی پریشانی کا اظہار جنگ جمل کے بارے میں تھا تو یہ عذر، عذر ِ گناہ بد از گناہ کے قبیل سے ہے، کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف جنگ جمل میں راجح اور درست نہیں تھا؟ جنگ صفین کی طرح جب جمل میں بھی ان کا موقف راجح تھا تو پھر یہ پچھتاوا چہ معنی دارد؟ بعض طرق میں صفین کا ذکر بھی اس عذر لنگ کے ابطال پر برہان ہے۔
    حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان اقوال اور بالآخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کی مصالحت کی بنا پر ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ” بَلْ كَانَ فِي آخِرِ الْأَمْرِ يَطْلُبُ مُسَالَمَةَ مُعَاوِيَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَمُهَادَنَتَهُ، وَأَنْ يَكُفَّ عَنْهُ، كَمَا كَانَ مُعَاوِيَةُ يَطْلُبُ ذَلِكَ مِنْهُ أَوَّلَ الْأَمْرِ، فَعُلِمَ أَنَّ ذَلِكَ الْقِتَالَ، وَإِنْ كَانَ وَاقِعًا بِاجْتِهَادٍ، فَلَيْسَ هُوَ مِنَ الْقِتَالِ الَّذِي يَكُونُ مُحَارِبُ أَصْحَابِهِ مُحَارِبًا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ “ (منہاج السنۃ: 234/2)
    حضرت علی رضی اللہ عنہ آخر کار حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت اور لڑائی سے بچنے کےطلب گار تھے، جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ابتداء ہی سے ایسا چاہتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ان کے مابین لڑائی اگرچہ اجتہاد (کے مختلف ہونے) کی بنا پر ہوئی لیکن یہ اس نوعیت کی لڑائی نہ تھی جس میں حصہ لینے والے گویا اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرنے والے ہیں۔
    بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے ان جنگوں میں حصہ نہ لینے والوں کے بارے میں فرمایا: یہ بہترین مقام ہے جس پر عبداللہ بن عمر اور سعد بن مالک رضی اللہ عنہم قائم ہیں اگر وہ اچھا ہے تو اس کا بہت بڑا اجر ہے اور یہ برا ہے اس کا نقصان بہت کم ہے۔ (منہاج السنۃ: 180/3، تاریخ الاسلام للذہبی: 553/1)
    جنگ صفین سے واپسی پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ” أيها الناس لا تكرهوا إمارة معاوية إنه لو فقدتموه رأيتم الرؤوس تَنْدر عنْ كَوَاهِلِهَا كَأنها الْحَنْظَلِ “ (البدایۃ: 131/8، منہاج السنۃ: 180/3)
    لوگو! معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو ناپسند نہ کرو اگر تم نے انہیں گنوا دیا تو تم سروں کو دھڑوں سے یوں جدا دیکھو گے جیسے حنظل ہوتے ہیں۔
    کمپوزنگ: آزاد

    [/FONT]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں