تفسیر سراج البیان-1

ام ثوبان نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏اپریل 10, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690



    تفسیر سراج البیان​




    اشاعت اول : جنوری ء۲۰۱۰؁؁
    طابع : محمد احمد
    مطبوعہ : سٹی پرنٹ دہلی
    کمپیوٹرکمپوزنگ : پرنٹ آرٹ دہلی۔۱۱۰۰۰۶
    فون : 011-23634222 _ 9871216211
    ہدیہ، اول،دوم :
    ناشر : پرنٹ آرٹ
    ۹۱۰ شیش محل، آزاد مارکیٹ
    دہلی-۱۱۰۰۰۶ (انڈیا)









    تفسیر سراج البیان

    ترجمتین


    حضرت مولانا شاہ عبدالقادر دہلویؒ رحمہ اللہ

    حضرت مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی رحمہ اللہ


    تفسیر

    حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ
    ۱۰؍جون ۱۹۰۸؁ء - ۱۲ا؍جولائی ۱۹۸۷؁ء







    ناشر

    پرنٹ آرٹ

    ۹۱۰شیش محل، آزاد مارکیٹ دہلی-۱۱۰۰۰۶​
     
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    اس تفسیر کی ترتیب وتالیف میں حدیث وتفسیر کی جن کتابوں سے مدد لی گئی ہے، وہ یہ ہیں۔​


    نام اصل نام مصنف/مؤلف

    ۱۔ خازن لباب التأویل فی معانی التنزیل علامہ علاؤ الدین ابوالحسن محمد بن ابراہیم بغدادی رحمہ اللہ متوفی ۶۷۸ ؁ھ

    ۲۔ روح المعانی روح المعانی علامہسید محمد بن عبداللہ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ متوفی ۱۲۷۰ھ؁

    ۳۔ تفسیر کبیر مفاتیح الغیب امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ متوفی ۶۰۶ ھ؁

    ۴۔ تفسیر ابن جریر جامع البیان فی تفسیر القرآن علامہ ابوجعفر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ متوفی ۳۱۰ ھ؁

    ۵۔ درمنثور درمنثور علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ متوفی ۹۱۱ ھ؁

    ۶۔ تفسیر ابن کثیر تفسیرالقرآن العظیم امام حافظ عماد الدین ابوالفداء اسمٰعیل بن عمررحمہ اللہ
    ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ متوفی ۷۷۴ ھ؁

    ۷۔ مدارک مدارک التنزیل وحقائق التاویل امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی رحمہ اللہ۷۰۱ ھ؁
    (بعض ناشرین نے تفسیر نسفی کے نام سے بھی شائع کی ہے)

    ۸۔ مسند حاکم مسند حاکم علامہ ابوعبداللہ محمدبن عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ متوفی ۴۰۵؁ھ

    ۹۔ مسند بزار مسند بزار علامہ امام بزاررحمہ اللہ

    ۱۰۔ اسباب النزول اسباب النزول امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ متوفی ۹۱۱ ھ؁

    ۱۱۔ تفسیر حقانی تفسیر حقانی مولانا ابو محمد عبدالحق حقانی دہلوی رحمہ اللہ

    ۱۲۔ خلاصۃ التفاسیر خلاصۃ التفاسیر اردو مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، عربی علامہ عماد الدین رحمہ اللہ

    ۱۳۔ موضح القرآن موضح القرآن شاہ عبدالقادر دہلوی رحمہ اللہ متوفی ۱۲۰۵؁ھ

    ۱۴۔ تفسیر حسینی تفسیر حسینی علامہ ملا حسین بن علی کاشفی رحمہ اللہ متوفی ۹۰۰ ھ؁

    ۱۵۔ تفسیر بیان القرآن تفسیر بیان القرآن مولانامحمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ متوفی ۱۹۰۶؁ء


    کتب ستہ

    ۱۶۔ صحیح بخاری الجامع الصحیح المسند المختصر امام المحدثین شیخ محمد بن اسمٰعیل بخاری رحمہ اللہ متوفی ۲۵۶ ھ؁
    من اموررسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ

    ۱۷۔ صحیح مسلم الجامع الصحیح امام مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری رحمہ اللہ متوفی۲۶۱ھ؁

    ۱۸۔ سنن ابی داؤد سنن ابی داؤد امام حافظ سلیمان بن اشعث ابن اسحاق بن بشیرازدیؔ
    سجستانی رحمہ اللہ متوفی ۲۷۵؁ھ

    ۱۹۔ سنن ترمزی سنن ترمزی امام ابوعیسیٰ محمدبن عیسیٰ بن سورہ ترمزی رحمہ اللہ متوفی ۲۷۹ ھ؁

    ۲۰۔ سنن نسائی سنن نسائی امام احمد بن شعیب نسائی رحمہ اللہ متوفی۳۰۲ھ؁/۳۰۳ ھ؁

    ۲۱۔ سنن ابن ماجہ سنن ابن ماجہ امام محمد بن یزید بن ماجہ رحمہ اللہ متوفی ۲۷۳ ھ؁
     
  3. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690

    تأثرات



    ۱ حرف اول پروفیسر عبدالجبار شاکر ۱۳
    ڈائریکٹرجنرل دعوۃ اکیڈمی
    انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی
    اسلام آباد ، پاکستان


    ۲ مقدمہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ۱۹
    صدر جامعہ سلفیہ
    ریوڑی تالاب
    بنارس۔ یوپی، ہندوستان

    ۳ تفسیر قرآن سے متعلق چند اہم فوائد شیخ الاسلام امام ابن قیم رحمہ اللہ ۲۷

    ۴ مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی علمی خدمات مولانا محمد اسحاق بھٹی ۴۵
    جناح اسٹریٹ اسلامیہ کالونی ،
    ساندہ، لاہور،پاکستان

    ۵ اردو تراجم کی ابتدا مولانا رضاء اللہ عبدالکریم مدنی ۵۷
    سابق نائب ناظم
    مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند

    ۶ مفکراسلام مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی تفسیر سراج البیان
    حافظ شکیل احمد میرٹھی ۶۷
    سابق امیر جمعیت اہل حدیث دہلی

    ۷ تفسیر قرآن کے چند اصول وکلیات ماخوذ ۷۵
    از تیسیرالکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان

    ۸ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور ان کا معنی ومطلب
    شیخ عبدالرحمٰن بن ناصرالسعدی ۸۵
    عنیزہ، قصیم، سعودی عرب

    ۹ فضائل وآدابِ قرآن حافظ صلاح الدین یوسف ۹۷
    جامعہ اہل حدیث
    مدنی روڈ، مصطفیٰ آباد
    لاہور(پاکستان)



    ۱۰ مضامین قرآن مجید ۱۱۳

    ۱۱ قرآن مجید کی سورتوں کی فہرست ۱۴۳

    ۱۲ رموز اوقاف ۱۴۹

    ۱۳ فہرست مضامین ۱۵۱

     
  4. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690




    بسم اللہ الرحمن الرحیم​


    حرف اوّل


    انسان کو جس شر ف کے باعث مخلوقاتِ عالم میں مسجودِ ملائک ٹھہرایاگیا، وہ علم الاشیاء کا امتیاز ہے اگر یہی انسان علم الوحی کا حامل وعامل بن جائے تو اس میں نیابتِ الہیہ اور خلیفۃاللہ فی الارض کی تمام ترصفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ علوم انسانی کی انتہاؤں سے بھی بہت آگے علم الوحی کے علم خالص اور علم الہدایت کی ابتدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی حضرت انسان کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ وتسویہ کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم تک ۳۱۵ صحائف نازل کیے مگر آج قرآن مجید کے علاوہ تمام صحف سماوی کے متن معدوم ومفقود ہو چکے ہیں حتیٰ کہ بعض صحائف جن زبانوں میں اتارے گئے وہ زبانیں صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہیں، یوں انسانی ہدایت کا واحدذریعہ قرآن مجید علم الوحی کا وہ صحیفہ ہے جو اپنے متن اور تشریح وتفسیر کے ساتھ آج ہمارے پاس موجود ہے۔

    تہذیب جدید نے علوم وفنون کے انبار لگادیے ہیں مگر ان میں سے قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جو اپنے نام کی نسبت سے منفرد اوریگانہ ہے۔ یہ کتاب جس کے معنی بار بار اور مسلسل پڑھے جانے کے ہیں، ایک اطلاع کے مطابق جزائر فجی میں سب سے پہلے صبح طلوع ہوتی ہے اور پھر دن کا یہ سفر آسٹریلیا، انڈونیشیا، برصغیر پاک وہند، ایران وترکی، افریقہ اور پھر امریکہ میں جاکرختم ہو جاتا ہے، یوں چوبیس گھنٹے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آتا کہ جس میں اس قرآن حکیم کی تلاوت کسی نہ کسی شکل میں جاری نہ ہو۔

    قرآن مجید میں نبوت ورسالت کے فرائض ثلاثہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق تلاوت آیات، تزکیۂ نفوس اور تعلیم کتاب وحکمت وہ بنیادی ذمہ داری ہے جو کسی پیغمبر کو تفویض کی جاتی ہے، اگر ان تین فرائض کے حوالے سے قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو تعلیم وتربیت ،تزکیہ وطہارت کا ایک عجیب روح پروراور ایمان افروز منظر سامنے آتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں دار ارقم ہویامدینہ منورہ میں ریاض الجنہ کے قریب صُفہ کا چبوترہ، یہ دونوں مقامات قرآن خوانی ، قرآن فہمی
    اور قرآن شناسی کے اولین مراکز تھے۔ آج دنیا بھر میں تحفیظ قرآن، قرأت قرآن اور تدریس وتعلیم قرآن کے جو لاکھوں مراکز کام کررہے ہیں اصلاً ان ہی مقامات کی صدائے بازگشت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے اولین مفسر تھے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے تلمیذ تھے جنھوں نے قرآن مجید کے اسباق اور اس کی تعلیمات کو آپ ﷺ سے سیکھا اور جانا۔ ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے اس فن میں امتیاز اور افتخار بخشا ہے۔ طبقات المفسرین کا پہلا طبقہ ایسے ہی صحابہ رضی اللہ عنہ پر مشتمل ہے اس کے بعد مختلف ادوار میں تفسیر وتراجم، حواشی وتعلیقات اور احکام وشرائع کے علاوہ قرآن کے علمی، ادبی، تاریخی،عمرانی، قانونی، دستوری اور معاشی پہلوؤں پر بہت گراں قدر کتابیں لکھی گئی ہیں،یوں اس ایک کتاب سے تاریخ میں کتاب خانے تیار ہوتے چلے گئے ۔

    اصول تفسیر اور علوم القرآن پر لکھی گئی کتابوں پر توجہ کیجیے تو آپ کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ایسی شان اورقدر تاریخ علوم انسانی میں کسی دوسری کتاب کو میسر نہیں اور نہ آسکے گی۔ مختلف زبانوں میں آج تک قرآن مجید کے ہزاروں تراجم اور تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ قرآن مجید کے اولین جزوی مترجم تو خود حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ(م۳۵ھ) ہیں۔ جن کے بعد اب دنیا کی ایک سو بیس زبانوںمیں قرآن مجید کے مکمل تراجم ملتے ہیں اور کچھ زبانوں میں جزوی تراجم بھی موجود ہیں۔ راقم کے کتب خانے’’ بیت الحکمت‘‘ لاہور میں قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں ستر مکمل اور کچھ نامکمل تراجم موجود ہیں ۔ ان زبانوں میں اردو زبان کو ایک عجیب امتیاز حاصل ہے کہ اس کا پہلا ترجمہ شاہ رفیع الدین دہلویؒ نے ۱۸۰۵ ء میں کیا اور پھر ان کے برادر گرامی شاہ عبدالقادر دہلویؒ نے بے مثال اوربامحاورہ اردوترجمہ کیا۔ ان کے بعد گزشتہ دو سو سال میں اردو زبان میں قرآن مجید کے ایک ہزار سے زائد تراجم طبع ہو چکے ہیں۔ یہ اعزاز دنیا کی کسی دوسری زبان کو حاصل نہیں کہ اتنی مختصر مدت میں تراجم کی اتنی بڑی تعداد شائع ہوئی ہو۔

    قرآن مجید حجاز کی سرزمین میں نازل ہوا ۔ اہل مصر نے اس کی قرأت اور لحن کو اَوجِ کمال تک پہنچادیا مگر قرآن فہمی کے دریچے برصغیر میں کھلے، یوں فن تفسیر میں برصغیر کے علمی کمالات ایک الگ دفتر کا تقاضا کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا سب سے پہلا ترجمہ بھی برصغیر میں سندھ میں ہوا جو فارسی زبان میں تھا اور اب مخدوم نوح کا یہ ترجمہ طبع شدہ ملتا ہے اس کے علاوہ برصغیر کی درجنوں زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم دستیاب ہیں ۔

    قرآن مجید اگرچہ ابتداء خط حسیری میں لکھا گیا۔ پھر کوفی کی مختلف رسموں میں لکھا جاتا رہا۔ افریقہ میں خط مغربی کی شکل میں مقبول ہوا مگر برصغیر میںثلث، رقاع، محقق، ریحان،نستعلیق، نسخ، بہار اور متعدد تزئینی رسوم خط میں اسے لکھا گیا اور اب نسخ ہندی ہی اس کی مقبول ترین صورت ہے۔ اس کے لاکھوں نسخے دنیا بھر کے کتب خانوں ، عجائب گھروں اور انفرادی ذخائر میں موجود ہیں۔ اس فقیر کے نجی کتب خانے’’ بیت الحکمت‘‘ میں قرآن مجید اور تفاسیر کے ایک ہزار سے زائد مخطوطات موجود ہیں۔نیزقرآنیات پر تین ہزار کے قریب مطبوعات بھی اہل علم کے استفادے کے لیے موجود ہیں۔ صرف قرآنی لغت اور اشاریوں پر بیس کے قریب مطبوعات مجھے میسر آئی ہیں۔ اصول تفسیر میں ’ الفوزالکبیر‘ جیسی مختصر مگر جامع کتاب بھی شاہ ولی اللہ ؒ نے تحریر کی ہے جس کی افادیت اہل علم پر الم نشرح ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے ۱۷۳۹ ء میں قرآن مجید کا اسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اسی فارسی ترجمے کا ایک اور ترجمہ بھی ہو ا جو راقم کے کتب خانے میں نوادرات کی حیثیت سے موجود ہے۔ قرآن مجید کی جلد سازی، نقاشی، تذہیب کاری، اس کے طلائی اور لاجوردی شمسے، علامات آیات ورکوع، جد اول غرض کس کس پہلو سے عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کیے گیے ہیں۔

    بیسویں صدی میں علم تفسیر پر جومتنوع اور متعدد چیزیں لکھی گئی ہیں، وہ لائق اعتنا ہیں۔ انھیں میں ایک مستند، لائق اعتماد اور معتبر کام ’’سراج البیان‘‘ ہے جس کے مفسر معروف عالم، فلسفی، متکلم اورعبقری مولانا محمد حنیف ندوی رحمہٗ اللہ ہیں۔

    علم تفسیر کے طلبہ کو یہ نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ تفسیر اپنے لغوی مفاہیم میں کسی حقیقت پر پڑے ہوئے پردوں اور حجابات کو اٹھا دینے کا نام ہے اگر تفسیر سے ان پردوں اور حجابات میں اضافہ ہوتا چلا جائے تو یہ تفسیر نہیں بلکہ کچھ اور ہی بن جاتی ہے۔ بقول اقبالؔؒ

    احکام ترے حق ہیں، مگر اپنے مفسر
    تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پاژند

    تفسیر ماثورہ کی بجائے تفسیر بالرائے کے مکتب نے قرآنی تعلیمات اور مطالب کو حد درجہ پراگندہ اور ژولیدہ بنادیا ہے۔ اب تو مقام حیرت نہیں بلکہ حدتاسف ہے کہ قرآن مجید کو احادیث صحیحہ کی نسبت عہد جاہلی کے ادبی نمونوں اور شعری مجموعوں کے حوالے سے سمجھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس جاہلانہ جدت وندرت پر تعریف وتحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں۔ العیاذ با اللہ۔

    قرآن مجید کا فہم اگر محض لغت کا محتاج ہوتا تو حجاز کے کفار اور مشرکین میں سے کوئی ایک اس نورانیت سے محروم نہ رہتا۔ حق بات تو یہ ہے کہ تفسیر قرآن کا سب سے اہم اسلوب خود تفسیر القرآن بآیات القرآن ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات ایک دوسرے کا تتمہ اور تکملہ ہیں اور مختلف احکام ونصوص کی تشریح کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت برحق مگر اس کے احکامات وتعلیمات اس قدرسادہ ، سلیس اور عام فہم ہیں کہ ہر ذی عقل اور ہدایت کا طالب اسے صاف، واضح اور دو ٹوک انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ بعض مفسرین نے تفسیر قرآن کا جو اسلوب اختیار کیا یا تراشا ہے اس سے بھی جنگی قرآنی تعلیمات اور موضوعات ایک چیستان بن کر رہ گیے ہیں۔ ہمیں تسلیم ہے کہ تمدنی ارتقاء نے علوم جدیدہ کے افق بہت وسیع کردیے ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ روشن بھی ہوں۔ اس کج علمی کی روش کو کیا نام دیجیے کہ ہم علم الوحی کو علوم جدیدہ کی روشنی میں دیکھنے کے خوگر ہوئے ہیں حالاں کہ درست روش تو یہ ہے کہ علوم جدیدہ کا مطالعہ ومشاہدہ علم الوحی کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ علم الوحی سے استفادے کے بغیر روشنی کا تمدن تو میسر آسکتا ہے مگر تہذیب کی روشنی ہاتھ نہیں آتی ۔

    بقول اقبالؒ

    مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
    مغرب کے خداوند درخشندہ فکزات
    وہ قوم فیضان سماوی سے ہو محروم
    حد اس کے کمالات کی ہے برق وبخارات

    (بال جبریل)​

    بیسویں صدی میں برصغیر کے مفسرین کی تفسیروںمیں ’’سراج البیان‘‘ سراج التفسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں لغت عرب کے قرآنی محاورے کا التزام بھی ملے گا۔ ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم ان کے شاگرد حافظ عماد الدین ابن کثیر تینوں مسلم احیائے علوم کے اساطین ہیں جن کی قرآنی فکر کا امتزاج آپ کو اس تفسیر میں دکھائی دے گا۔ صاحب تفسیر مولانا محمد حنیف ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے عجیب وغریب امتیازات بخشے تھے۔ وہ مسلکاً اہل حدیث، مزاجاً فلسفی اور متکلم اور ادبی سطح پر شبلی و ابوالکلام کے دبستان کے فردتھے۔ ندوہ کی تعلیم اور ماحول نے ان کے اسلوب میں مؤرخانہ بصیرت،محدثانہ فقاہت اور ادیبانہ بلاغت پیدا کردی۔ یہی وہ علوم وفنون کی قدیم وجدید کلیدہے جس کے ذریعے انھوں نے تفسیر ی علوم کے مباحث کے قفل کھولے ہیں۔

    برصغیر میں پاکستان میں اس تفسیر کا ایڈیشن بہت مقبول ہے مگر مقام مسرت ہے کہ ہندوستان کی سرزمین سے اس کا نقش تازہ تدوین وطباعت کے مزیدحسن سے آراستہ ہو کرسامنے آرہا ہے۔ میرے لیے یہی سعادت کیا کم ہے کہ میں حرم کعبہ میں باب بلال میں بیٹھا ان سطور کو قلم بند کررہا ہوں۔ حق تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ وہ اس تفسیر کو عامۃ المسلمین کے لیے نافع اور علمائے دین کے لیے اصول تفسیر کے ایک مطلوبہ منہج کے تعارف کا ذریعہ بنائے۔ آمین

    مولانا جامع کمالات اور جامع اوصاف شخصیت تھے، ان کی ذہنی قابلیت اور دماغی کاوش اس تفسیر میں جس تناسب سے ڈھل گئی ہیں اس نے بیسویں صدی کے اردو ادب میں علم تفسیر کے ایک جداگانہ اور مخصوص اسلوب کی تشکیل کی ہے۔ تفسیری ادب میں ماثورہ روایات کے التزام کے ساتھ جدید مباحث کی تفہیم کے لیے یہ ایک قرآنی سوغات ہے جس سے ہمہ وقتی استفادہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ حق تعالیٰ اس کاوش کو ان کی حسناتِ جاریہ میں شمار فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

    ۲۰؍ذی الحجہ ۱۴۲۷؁ھ العبدالمذنب
    (مطابق ۱۱؍جنوری ۲۰۰۷جمعرات) پروفیسر عبدالجبار شاکر
    (نزیل مکہ)
    ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی
    انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی
    اسلام آباد ،پاکستان


     
  5. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690

    مقدمہ

    برصغیر میں اردو زبان میں قرآن کریم کی تفسیر اور اس کے معانی کے تراجم کا موضوع جماعت اہل حدیث کے لیے نیا نہیں، فہمِ قرآن کے سلسلے میں اور اس کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کے سلسلہ میں اس جماعت کے علماء نے جس طرح لوگوں کی رہنمائی کی ہے اور ان تعلیمات کے ذریعہ معاشرہ کو جس طرح شرک وبدعات کی آلودگیوں سے پاک وصاف کیا ہے، اس کی مثال دوسری جگہ نہیں ملے گی۔ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں اس جماعت کی ایک خصوصیت جسے اب عام طور پر محسوس کیا جانے لگا ہے، یہ ہے کہ اس کے علماء نے تفسیر بالقرآن اور تفسیر بالسنۃ پر خاص توجہ دی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ قارئین کو اسرائیلی روایات سے نجات حاصل ہوئی ہے ، اوہام وخرافات کے بندھن ٹوٹے ہیںاور قرآن کو انھوں نے ایک کتاب ہدایت اور عملی دستور کی حیثیت سے جانا ہے، فکر وعمل کا یہ ایسا انقلاب ہے جس کا تعلق منہج واصول سے ہے اور آج اسے ہر شخص محسوس کرتا ہے۔


    مذکورہ سلفی منہج کے مطابق برصغیر میں جن علماء نے اردو زبان میں فن تفسیر کی خدمت کی، ان میں ایک نمایاں نام مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کا ہے، موصوف کے سوانح حیات کے لیے فی الحال کوئی کتاب میرے پاس نہیں، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے ارمغانِ حنیف ترتیب دی ہے، اس میں مولانا کے حالات سے متعلق متعدد مضامین کی بات مذکور ہے، اس وقت میں بھٹی صاحب کی قافلۂ حدیث کی بنیاد پر مولانا کی زندگی اور علمی خدمات پر کچھ عرض کررہا ہوں۔


    مولانامحمد حنیف ندوی ۱۰؍مئی ۱۹۰۸ ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے، سرکاری اسکول کی تعلیم صرف پرائمری تک حاصل کی اور درس نظامیہ کی تکمیل کے لیے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے حلقۂ درس میں شامل ہو گیے۔


    ندوۃالعلماء کے دارالعلوم کا اس وقت شہرہ تھا ، مولانا حنیف ۱۹۲۵ ء میں ندوۃ گیے اور ۱۹۳۰ ء میں وہاں سے فراغت حاصل کرکے وطن واپس لوٹے اور تاحیات(۱۹۸۷ ء) دین اسلام کی خدمت میں مصروف رہے۔

    ۵۷
    برسوں کے اس مرحلہ کو ہم تقریباً دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک مرحلہ ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی سے پہلے کا اور دوسرا اس کے بعد کا ۔۱۹۳۰ ء سے ۱۹۵۱ ء تک مولانا مختلف جماعتی خدمات سے وابستہ رہے، اسی مرحلہ میں انھوں نے لاہور کی مسجد مبارک میں خطابت وتدریس کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ ۱۹۴۹ ء تک برابر جاری رہا، بیس برس کے اس عرصہ میں لوگوں کو خوب خوب استفادہ کا موقع ملا۔ ۱۹۵۱ ء میں مولانا ادارہ ثقافت اسلامیہ میں آگیے اور یہاں ۳۶ برس تک خدمت انجام دے کر جولائی ۱۹۸۷ ء میں وفات پائی، رحمہ اللہ تعالیٰ۔


    مولانادبلے پتلے جسم اور قدرے چھوٹے قد کے انسان تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں غیر معمولی ذہانت، وسیع علم، گہری نظر اور اخلاق کی بلندی سے نوازا تھا، انھوں نے اپنے پیچھے جو متنوع ومقبول علمی ذخیرہ چھوڑا، تحریر وتقریر کے میدان میں اپنی مضبوط شخصیت کا سکہ بٹھایا اور جرأت وبالغ نظری کے ساتھ اپنے دین ومسلک کی ترجمانی کی، اس سے ان کی شخصیت کا کمال وتفوق ظاہر ہوتا ہے۔


    مولانامحمد حنیف اپنے ملک کے طبقۂ علماء میں ممتاز مقام رکھتے تھے ،قدیم وجدید تحریکوں پر موصوف کی نظر تھی، ان کا تجزیہ ماہرانہ انداز میں کرتے تھے، دینی غیرت تھی، اس لیے جب مذہبی مسائل اور ضروریات زمانہ کے مابین تطابق کا موقع آتا تو مذہب کی برتری ثابت کرتے، ان کی تحریر وتقریر سے ان کے علم ومطالعہ کی فراوانی ثابت ہوتی تھی جو بھی انھیں سنتا یا پڑھتا اس پر اول وہلہ میں یہ تصور قائم ہوتا کہ اس کے سامنے جو شخصیت ہے وہ وسعت مطالعہ اور فضل وکمال کا پیکر ہے۔

    مولاناحنیف ۱۹۲۵ ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف لے گیے تھے، اس سے پہلے انھوں نے درس نظامیہ کی تکمیل شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی صاحب کے پاس کی تھی۔ اساطین سلفیت میں سے ایک اہم ستون کی تعلیم وتربیت کا اثر مولانا حنیف کی پوری علمی زندگی میں نمایاں تھا، ان کی ہر تحریر توحید اور اتباع سنت کی اشاعت کے لیے وقف تھی، تفسیر سے لے کر دیگر موضوعات پر ان کی تصانیف پر ایک نظر ڈالیے تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی عقائد وتعلیمات اور مسلک سلف کا مولانا کو حد درجہ پاس ہے، اپنی دانست بھر وہ اسلام کی ادنی تعلیم سے متعلق کسی طرح کی مداہنت برداشت نہیں کرتے، انکار سنت نبویہ کی جو دل خراش تحریک پاکستان میں سرگرم ہوئی اس کی بیخ کنی کے لیے مولانا ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے، مولانا ابوالکلام آزاد پر مولانا مسعود عالم ندوی کی تحریر شائع ہوئی تو مولانا حنیف نے اس کا بروقت نوٹس لیا اور تفصیل سے ہر نقطہ کا جواب لکھا، وہ برداشت نہیں کرپاتے تھے کہ علم کے معاملہ میں کسی طرح کی جانبداری یا استخفاف سے کام لیاجائے۔ ایک مومن کی زندگی میں اسلامی غیرت وحمیت کے اظہار کا کوئی خاص گوشہ یا پہلو متعین نہیں کیا جاسکتا البتہ اظہار کا طریقہ مناسب ہونا ضروری ہے، مولانا حنیف کو ہر موڑ پر اسلام کی عظمت وبرتری کا گہر ا احساس تھا، وہ بجا طور پر اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اسلام میں ہمارے تہذیبی ، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور روحانی مسائل کا حل بطریق احسن موجود ہے، صدقِ دل سے اسلامی تعلیمات پر غور کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، اس کے بعد محسوس ہوگا کہ یہاں ہر شے پوری مقدار میں دستیاب ہے، کہیں تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ مولانا نے اپنی کتاب ’’اساسیات اسلام ‘‘میں اسی پہلو سے بحث کی ہے۔

    دوسروں پر رائے زنی میں انسان آزاد ہے لیکن بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ قلب وضمیر کی بنیاد پر ہے۔ مولانا حنیف کے یہاں دینِ اسلام اور مسلک سلف کے لیے غیرت وجوش کا جو نمونہ نظر آتا ہے اس کی مثال کم ملے گی۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی کے نام اپنے ایک مکتوب میں مو لانا لکھتے ہیں:
    ’’بیماری کے اس دوران میں ،میں اپنے دل سے تمام تعصبات نکال چکا ہوں، سوا ایک تعصب کے اور وہ وہ ہے جس کا تعلق پرویز صاحب کی تحریک سے ہے کیوں کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کی تہہ میں میرے محبوب اور پیارے مقتدا علیہ الصلاۃ والسلام کے منصب نبوت کا انکار کار فرما ہے، میں الحاد وزندقہ کی ہر شکل کو کسی حد تک قابل برداشت سمجھتا ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے تلعب جو بدترین قسم کی گستاخی ہے، میرے نزدیک قابلِ عفو نہیں‘‘۔

    مولانا حنیف کے دل میں اسلام کی عظمت وصداقت کا راسخ یقین اور انسانی معاشرہ کے حالات پر گہری نظر تھی، اسی لیے وہ اسلامی دعوت کو ہر فرد تک پہنچانے کے لیے ایک تڑپ رکھتے تھے۔ محمد اسحاق بھٹی صاحب نے مولانا حنیف کے ایک پمفلٹ کا ذکر کیا ہے جس میں انھوں نے گاندھی جی کو قبول اسلام کی دعوت دی تھی اور جس کا عنوان تھا: ’’گاندھی جی کی سیوا میں تین سندیش ‘‘۔اردو رسم الخط میں لکھے ہوئے ہندی الفاظ کو پڑھ کر لطف آتا ہے، بعض اوقات ٹھہرکر غور کرنا پڑتا ہے کہ کون سا لفظ ہے، رسالہ کے مضامین پر نظر ڈالیں تو وقت کی نفسیات کو سمجھنے میں مولانا کی بالغ نظری کا ثبوت ملتا ہے۔ رسالہ میں پہلے اسلام کے ذریعہ وجود پذیر اصلاحات کا ذکر ہے پھر مالیات سے متعلق اسلام کے ضابطہ کی توضیح نیز سود کی حرمت، وراثت، عورت، اچھوت وغیرہ سے متلق اسلامی نقطۂ نظر کا بیان ہے۔

    اسلامی دعوت کے وسائل اس دور میں بے حد سہل ہو گیے ہیں اور ہر شخص جس کو چاہتاہے مخاطب کرلیتا ہے لیکن مولانا نے گاندھی جی کے نام جس دور میں اسلام کی دعوت پیش کی تھی وہ آج سے مختلف تھا، مولانا کے دل کا درد اور اشاعتِ اسلام کی تڑپ ہی تھی جس نے انھیں اس اقدام پر آمادہ کیا تھا۔

    نصف صدی سے زیادہ مدت کو محیط مولانا حنیف کی زندگی علمی تخلیقات کے لحاظ سے معمور وشاداب تھی، انھوں نے اس مدت میں اپنی خطابت اور تحریر دونوں سے موجود ہ نسل کو مستفید کیا اور آئندہ نسلیں بھی ان کے تحریری ذخیرہ سے فیضیاب ہوتی رہیں گی، اس مقام پر تمام آثار وباقیات کا تذکرہ ممکن نہیں، صرف قرآن کریم کے موضوع پر ان کی خدمات کی جانب اشارہ مقصود ہے۔

    اس سلسلہ کی پہلی چیز لاہور کی مسجد مبارک کا ان کا درس قرآن ہے جو ہر روز بعد نماز مغرب منعقد ہوتا تھااس درس کا سلسلہ بیس سال جاری رہا اوراس میں مولانا نے دو مرتبہ قرآن ختم کیا۔ اسی طرح ۱۹۳۰ ء سے ۱۹۴۹ ء تک مسجد مبارک میں مولانا کا خطبۂ جمعہ بھی جاری رہا، اس خطبہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ ابتدائے قرآن سے اخیر تک تسلسل کے ساتھ آیات پڑھتے اور ان پر اپنے خطبوں کی بنیاد رکھتے، اس طرح مولانا کا خطبۂ جمعہ بھی تفسیر قرآن کا رنگ لیے ہوتا تھا اور لوگوں کے دلوں پر اس کا مضبوط اثرہوتا تھا۔

    کسی موضوع پر کام کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو یہ کہ آدمی سرسری گزر جائے تاکہ یہ کہہ سکے کہ اس نے ذمہ داری ادا کردی ہے اور دوسرے یہ کہ فرض سے آگے بڑھ کر موضوع میں ڈوب جائے اور اس کے چھوٹے بڑے ہر تقاضہ کو اس طرح پورا کرے کہ دوسروں کے سامنے بہت سے پوشیدہ نئے گوشے بھی آجائیں ۔ تفسیر پر مولانا حنیف صاحب کے کام کا تعلق اسی دوسری قسم سے ہے، موصوف نے قرآن مجید سے شروع زندگی ہی سے گہرا ربط رکھا، انھیں اس صحیفۂ ہدایت سے وہی شغف تھا جس کا ایک مومن سے مطالبہ ہے، گوجرانوالہ میں تعلیم سے لے کر زندگی کی آخری گھڑی تک موصوف اس بحرکی شناوری میں محو رہتے تھے۔کتاب عزیز کی تقریری خدمت کے ساتھ ساتھ موصوف نے اپنی تحریر کے ذریعہ اس گنجینۂ رشد وہدایت سے فیض رسانی کا سلسلہ برابر جاری رکھا، ان کا قلم جس طرح جوانی کی عمر میں رواں تھا، اسی طرح ستر (۷۰) و اسی(۸۰) کے پیٹے میں بھی اس کی گہرباری برقرارتھی۔

    ۱۹۳۳ ء میں جب کہ مولانا کی عمر ۲۵ سال کی تھی، ’’سراج البیان ‘‘ نامی تفسیر لکھی، ستر سال کی منزل میں داخل ہونے کے بعد موصوف نے ’’مطالعۂ قرآن ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں قرآن مجید سے متعلق تمام مباحث ومسائل کا محققانہ انداز میں احاطہ کیا گیا ہے، اسے موصوف کے دورِ آخر کا بے مثال شاہکار مانا جاتا ہے۔

    ’’لسان القرآن‘‘ کے عنوان سے مولانا نے قرآن مجید کا ایک جامع تفسیری وتوضیحی لغت تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس کی دو جلدیں تیار بھی کی تھیں جو زیور طبع سے آراستہ ہوئیں لیکن وہ اسے مکمل نہ کرسکے، مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے اس کی تیسری جلد تیار کی ہے، قوی امید ہے کہ موصوف اس منصوبہ کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔مذکورہ دونوں کتابوں کے علاوہ مولانا موصوف نے مختلف جرائدومجلات میں بہت سے مضامین لکھے اور ریڈیو پاکستان سے قرآن کے موضوع پر تقریریں کیں، ان سب کے تعارف کا موقع نہیں، لیکن ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس موضوع سے مولانا کا صرف تعلق ہی نہیں تھا بلکہ کتابِ الٰہی سے شغف اور اس کی خدمت کا جذبہ ان کی رگ وپے میں اتر ا ہوا تھا اور وہ اس کتاب کی معجزانہ تعلیمات وتوجیہات کو دنیا کے ہر فرد بشر تک پہنچانے کا پاکیزہ جذبہ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے موصوف نے اس موضوع پر بے مثال خدمت انجام دی، جزاہ اللہ احسن الجزاء۔

    یہ سطور چونکہ مولانا محمد حنیف صاحب کی’’ تفسیرسراج البیان‘‘سے متعلق تحریر کی جارہی ہیں اس لیے ذیل میں اس کے بعض خصائص ومحاسن کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے، بعض مقامات پر ہم حضرت مولانا کے کلام کا نمونہ بھی پیش کریں گے تاکہ موضوع سے ان کے شغف اور زبان وبیان پر ان کی قدرت کا اندازہ ہو سکے۔

    تفسیر سراج البیان کا جو نسخہ مجھے حاصل ہوا ہے اس کے طابع وناشر ملک سراج الدین اینڈ سنز ، کشمیری بازار، لاہور ہیں، یہ اپریل ۱۹۸۳ ء میں پانچ جلدوں میں شائع ہوا ہے، صفحات مسلسل ہیں اور ان کی تعداد(۱۴۴۷) ہے، کتاب کا سائز چھوٹا اور خط بہت باریک ہے، اس کی شکایت محترم بھٹی صاحب نے بھی کی ہے، موصوف کے مطابق تفسیر سراج البیان کو مولانا محمد حنیف نے ۱۹۳۳ ء میں مکمل کیا تھا اور اس وقت سے متعدد ناشرین نے اسے باربار شائع کیا۔ ان اشاعتوں کے متعلق بھٹی صاحب کی صراحت ہے کہ وہ بڑے سائز پر تھیں اور خط ، کاغذ، کتابت اور طباعت وغیرہ تفسیر کی شان کے عین مطابق ۔ خط تو زیر نظر اشاعت کا بھی عمدہ ہے لیکن باریکی نے اسے ’’ معدومیت ‘‘کی سرحد تک پہنچا دیا ہے، اب اہلِ ہند کے لیے خوش خبری ہے کہ آئندہ انھیں باریک خط والے نسخہ کی جگہ واضح خط والا نسخہ دستیاب ہو جائے گا۔ چھوٹے سائز کے زیر نظر نسخہ میں اصل ظاہری ٹائٹل کے علاوہ دو اندرونی ٹائٹل بھی ہیں، ان کے ذکر کی کوئی ضرورت تو نہ تھی لیکن بعض امور کی وجہ سے یہاں ان کا ذکر آرہا ہے۔ پہلے ٹائٹل پر کتاب اور مصنف کے نام کے نیچے ایک چوکھٹے میں تفسیر سراج کے مآخذ کا ذکر ہے۔ دوسرے ٹائٹل پر بھی نام کے نیچے چوکھٹے میں سراج البیان کی خصوصیات کا ذکر ہے، ان میں اہم یہ ہیں: اہم مضامین کی تبویب، عصری علوم سے استفادہ، جدید زندگی کے مسائل کی وضاحت، مذہب سلف کی برتری اور تفوق کا اظہار، زبان اعلیٰ درجہ کی اور اندازِ بیان وجد آفریں، اس تفسیر کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوگا کہ قرآن دنیائے ادب میں سب سے عمدہ اضافہ ہے۔

    جہاں تک تفسیر کے خصائص کی بات ہے تو ان میں قاری کے تبدیلی سے تنوع پیدا ہو سکتا ہے، میں نے پانچوں جلدوں پر نظر ڈالی تو چوکھٹے میں مذکور خصوصیات کا اور بعض دیگر خصوصیات کا بھی ادراک ہوا مگر ان تعارفی سطور کو بنظر اختصارصرف پہلی جلد تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ جلد اول پر نظرڈالتے ہوئے نوک قلم پر بعض جملے آگیے، پہلے ان ہی کو درج کررہا ہوں:
    ٭ حل لغات میں اختصار وجامعیت۔
    ٭ عناوین میں جدت ومعنویت کہ مقصود واضح ہو۔
    ٭ بلیغ ادبی تعبیر، چست انداز ، دل کش اسلوب، استادانہ رنگ۔
    ٭ دعوت قرآن کی روح کو نمایا ںکیا ہے۔
    ان تاثراتی جملوں کا تعلق جلد اول کے کسی نہ کسی عنوان سے ہے لیکن بخوفِ طوالت ان کا ذکر نہیں کیا ہے، اب بعض عناوین کی معنویت اور دل کشی نیز خاکسار کا اس پر تاثر ملاحظہ ہو:
    ٭ سورۃ البقرۃ کی آیت (۴۳) کی تفسیرکے ضمن میں مولانا نے یہ عنوان ثبت کیا ہے: ’’تنظیم جماعت کے اصول‘‘ اور اس ضمن میں تحریر فرمایا ہے کہـ ’’جماعتی زندگی ہمیشہ سے ایک ممدوح اور شان دار زندگی رہی ہے، کوئی قوم جماعتی احساس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، قرآن حکیم نے اس طرف بالخصوص توجہ فرمائی ہے، غور کرو، جماعتوں کو اپنے بقاوتحفظ کے لیے دو چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے: اتحاد کی اور سرمایہ کی ’’الخ۔
    ٭ اسی سورہ کی آیت (۵۴) پر نوٹ کے لیے یہ عنوان متعین فرمایا ہے: ’’ قوموں کا آپریشن‘‘۔
    ٭ آیت (۵۸)کے لیے منتخب عنوان:’’شہریت کے تین اصول ‘‘ہے، اس ضمن میں مولانا لکھتے ہیں: ’’بنی اسرائیل کو
    جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق اریحاء میں داخلہ کی اجازت مل گئی جو عمالقہ کا ایک مشہور شہر تھا تو ان پر چند قیود عائد کردی گئیں جو تمدنِ صحیح کی جان اور شہری زندگی کے لوازم میں ہیں ورنہ خطرہ تھا کہ وہ شہریت وتمدن کو تعیش وفجور کا ہم معنی نہ سمجھ لیں۔

    وہ تین چیزیں قرآن کے الفاظ میں یہ ہیں:

    (ا)اللہ سے بہر حال تعلق قائم رہے، اس کا آستانۂ جلال ہمارے سجدہ ہائے خلوص سے ہمیشہ معمور رہے۔( ب)ہم اپنے گناہوں کا جائزہ لیتے رہیں، تمدن وشہریت کو مذہب کے کناروں میں محصور رکھیں اور ہر وقت اللہ کی رحمت ومغفرت کے جو یار ہیں۔ (ج) احسان اور جذبۂ اصلاح وتکمیل پیش نظر رہے۔‘‘

    آیت (۶۲) پر جو عنوان اور اس کی تشریح ثبت کی ہے اسے قوتِ تعبیر اور حسنِ بیان کے پہلو سے دیکھیے، ’’ہمہ گیر

    دعوت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں :

    ’’مذہب کا مقصد نوعِ انسانی میں وحدت ویگا نگت کا عظیم الشان مظاہرہ ہے، انبیاء علیہم السلام اس لیے تشریف لائے کہ ان تمام جماعتوں اور گروہوں کے خلاف جہاد کریں جنھوں نے ردائے انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہیں، خدا ایک ہے اور اس کا منشا تخلیق یہی ہے کہ سب لوگ اس کے آستانۂ عظمت پر جھکیں، تفرق وتشتت کا کوئی نشان نظر نہ آئے چنانچہ خدا کے ہر محبوب فرستادہ نے لوگوں کے سامنے ایسا کامل واکمل پروگرام رکھا کہ اسے مان کر رنگ وقومیت کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا، وہ آتے ہیں تاکہ جو بکھرگیے ہیں انھیں ایک روحانی رشتے میں منسلک کردیں، ان کے سامنے کوئی مادی رشتہ نہیں ہوتا، وہ اخوت ِ انسانی کی بنیادیں ایمان وعمل کی مضبوط چٹان پر رکھتے ہیں جسے کوئی تعصب نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘

    اسلامی دعوت کے انسانی پہلو کی اس سے زیادہ جامع اور حسین تعبیر اور کیا ہو سکتی ہے!

    ٭ آیت (۱۰۴) میں مسلمانوں کو راعِنا کی جگہ اُنْظرناکہنے کی تلقین ہے، اس مقام پر مولانا نے ’’حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کی سرخی لگائی ہے اور یہ عبارت لکھی ہے:

    ’’مسلمانوں کے نزدیک حب رسول وہ گرانمایہ متاع ہے جس سے وہ کسی حالت میں بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ شیفتگی اصلِ ایمان ہے‘‘الخ۔

    مولانا محمد حنیف کے ثبت کردہ بعض عناوین اور اس کے ذیل کی بعض عبارتوں کے نمونے آپ کے سامنے آچکے، اب ہم جلد اول کے صرف بعض عناوین یہاں نقل کررہے ہیں تاکہ مولانا کے ذہن کی بلند پروازی کا اندازہ ہو سکے، تشریح والی عبارت قارئین سراج البیان میں ملاحظہ فرمائیں گے:

    ٭ اسلامی مساجد انسانی اتحاد کا مرکز ہیں ۔ ٭ حلقۂ توحید کی وسعتیں۔
    ٭ وظیفۂ رسالت۔ ٭ بلند نصب العین۔

    ٭ قرآن کا اسلوب تفہیم۔ ٭ شاہانِ فقر۔
    ٭ راہِ عشق کی دشواریاں۔ ٭ حجتِ براہیمی۔
    ٭ اہل کتاب کا تعصب۔ ٭ پیغامِ اخوت۔
    ٭ تعددِ ازدواج۔ ٭ رازِ حیات۔
    ٭ جذبۂ اطاعت کا صحیح حل۔ ٭ رسول بجائے خود مطاع ہے۔
    ٭ حسنِ رفاقت۔ ٭ خونِ مسلم کی گرانمایگی۔

    قرآن کریم پر غور وفکر اور اس کی زریں تعلیمات سے استفادہ کسی وقت یا مقام کا پابند نہیں، اسی لیے اللہ کے بندوں نے ہر دور میں اس سرچشمۂ ہدایت کی خوشہ چینی کی ہے، پھر بھی اس دور میں دنیا کے بعض حصوں میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ لوگوں کی توجہ اسلام اور کتاب وسنت کی طرف جو شرعی احکام کا اصل ماخذ ہیں، خود بخود مبذول ہو گئی اور بہت سے دلوں میں یہ جستجو پیدا ہوئی کہ قرآن کی تعلیمات کا براہ راست مطالعہ کیا جائے ، خود مسلمانوں کے اندر بھی اسلام کے مطالعہ کا شوق ابھرا ہے اور وہ قرآن وحدیث کو اپنی زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں۔

    ان حالات میں ایک ایسی تفسیر کی اشاعت جو خوبصورت ادبی زبان میں مطالب قرآن کو واضح کرے، قرآن وسنت کے باہمی ربط کو نمایاں کرے، متلا شیانِ حق کو تشفی عطا کرے اور ہر طرح کے شکوک وشبہات کو دور کرے، وقت کی ایک اہم ضرورت تھی، جس ادارہ نے اس ضرورت کی تکمیل کی وہ اسلامیانِ ہند کی طرف سے اور اسی طرح اردو داں حلقہ کی طرف سے قدردانی ومبارکباد کا مستحق ہے۔

    اللہ تعالیٰ سے ہماری دعاء ہے کہ اس عظیم تفسیر سے تمام قارئین کو بیش ازبیش فائدہ پہنچائے اور مصنف وناشر کو اجرجزیل عطا فرمائے، آمین۔ وصلی اللہ علی رسولہ الکریم۔

    ۲۲ ؍ربیع الثانی ۱۴۲۸؁ھ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری
    بمطابق ۱۰ ؍مئی ۲۰۰۷ ؁ء صدر جامعہ سلفیہ
    بروز جمعرات ریوڑی تالاب بنارس۔ یوپی
     
  6. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690



    تفسیرِ قرآن سے متعلق چند اہم فوائد​


    فصل: علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نکرہ سیاقِ نفی میں عمومیت کا فائدہ دیتا ہے یہ اصول اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مستفاد ہے۔ {وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا} (الکھف:۴۹) ’’آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ {فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ} (السجدہ: ۱۷) ’’کوئی جان نہیں جانتی کہ ان کے لیے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپائی گئی ہے۔‘‘

    نکرہ سیاق استفہام میں عمومیت کا فائدہ دیتا ہے۔ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ماخوذ ہے۔ {ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیّاً} (مریم:۶۵) ’’کیا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو؟‘‘

    نکرہ اسلوبِ شرط میں عمومیت کا فائدہ دیتا ہے۔ یہ اصول اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل ارشادات سے مستفاد ہے۔ {فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا} (مریم:۲۶) ’’اگر تو کسی آدمی کو دیکھے‘‘{وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ} (التوبہ: ۶) ’’اگر کوئی مشرک تجھ سے پناہ کا طلب گار ہو۔‘‘

    نکرہ سیا ق نہی میں عمومیت کا فائدہ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ} (ہود: ۸۱) ’’تم میں سے کوئی مڑکر نہ دیکھے۔ ‘‘

    نکرہ سیاق اثبات میں عموم علت اور مقتضی کا فائدہ دیتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ} (التکویر:۱۴) ’’تب ہر شخص کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘

    جب نکرہ کے ساتھ (کُلُّ) کو مضاف بنالیا جائے تو اس سے عمومیت مستفاد ہوتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَجَآ ئَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَھَا سَآئِقٌ وَّشَھِیْدٌ} (ق: ۲۱) ’’ہر شخص کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہی دینے والا (فرشتہ) ہوگا۔‘‘

    نکرہ کی عمومیت، عموم مقتضیٰ کا فائدہ دیتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا} (الشمس : ۷) ’’اور انسان کی قسم اور اس کی جس نے اسے نک سک سے درست کیا۔‘‘

    فصل: اگر مفرد کے ساتھ لام معرفہ ہو تو وہ عموم کا فائدہ دیتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اِنَّ الاْانْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ} (العصر:۲) ’’بے شک انسان خسارے میں ہے۔‘‘ اور فرمایا: {وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ} (النبا:۴۰) ’’اور کافر کہے گا۔‘‘ اور اگر مفرد مضاف ہو تو اس سے عموم مستفاد ہوتا ہے مثلاً فرمایا: {وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہٖ} (التحریم: ۱۲) ’’اور ایک دوسری قرا ء ت کے مطابق (وکتابہ) ’’اس نے اپنے رب کی تمام باتوں کی تصدیق کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی‘‘…دیگر قراء ت کے مطابق…اس کی کتاب کی تصدیق کی۔‘‘امام حفص رحمۃ اللہ علیہ اور بصرہ کے قاریوں نے اسے جمع (وکتبہ) پڑھا ہے اور دیگر قاریوں نے اسے واحد {وکتابہ} ’’پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {ھٰذا کِتٰـبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ} (الجاثیہ:۲۹) ’’یہ ہماری کتاب ہے جو تمھارے بارے میں ٹھیک ٹھیک بیان کردے گی‘‘ اس سے مراد وہ تمام کتابیں ہیں جن میں انسانوں کے اعمال محفوظ کیے گیے ہیں۔

    جب جمع کے ساتھ لام معرفہ شامل ہو تو وہ عموم کا فائدہ دیتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {اِذَا الرُّّسُلُ اُقِّتَتْ} (المرسلات:۱۱)’’جب رسول مقرر کیے جائیں گے۔ ‘‘ اور فرمایا: {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَھُمْ} (الاحزاب: ۷) ’’اور جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا عہد لیا۔ ‘‘ مثلاً فرمایا: {اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ} (الاحزاب: ۳۵) ’’تمام مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔‘‘

    مضاف عموم کا فائدہ دیتا ہے مثلاً {کُلٌّ اٰمَنَ بِاللٰہِ وَمَلٰٓئِکَتَہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ} (البقرہ:۲۸۵) ’’ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔‘‘

    ادوات شرط سے عموم مستفاد ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْماً وَّ لَا ھَضْماً} (طٰہٰ: ۱۱۲) ’’پس جو کوئی نیک کام کرے گا اور وہ مومن بھی ہوگا تو اسے کسی ظلم کا ڈر ہوگا نہ کسی نقصان کا خدشہ۔‘‘ ارشاد ہے: {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَّرَہٗ} (الزلزال:۷) ’’جو کوئی ذرہ بھر بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘ اور فرمان ہے: {فَاِنِ انْتَھَوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} (البقرۃ:۱۹۲) ’’تم جو نیکی بھی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {اَیْنَ مَاتَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ} (النساء:۷۸) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تم کو پالے گی۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَحَیْثُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْاوُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ} (البقرہ: ۱۴۴،۱۵۰)’’اور جہاں کہیں بھی تم ہو اس کی طرف منہ پھیرلو۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ} (الانعام:۶۸)’’جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیتوں کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے ہیں تب آپ ان سے الگ ہو جائیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَاِذَا جَآ ئَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ} (الانعام:۵۴) ’’جب وہ لوگ جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں آپ کے پاس آئیں تو ان سے کہہ دیں تم پر سلامتی ہو تمھارے رب نے اپنی ذات پر حمت لازم کرلی ہے۔ ’’یہ اس وقت ہے جب جواب طلب کرنے کے طور پر ہو اگر شرط کا جواب ماضی میں ہو تب عموم لازم نہیں ہوتا مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْلَھْوًا انْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا} (الجمعہ:۱۱) ’’جب یہ لوگ کوئی تجارت یا کوئی کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔‘‘ فرمایا: {اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ} (المنافقون:۱)’’جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘جب شرط کا جواب مستقبل میں ہو تو عموم کی طرف لوٹانے کو لازم قراردیا ہے مثلاً {وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ} (المطففین:۳)’’ جب وہ لوگوں کو ناپ کریا تول کردیں تو کم دیں۔‘‘ ارشاد ہے: {وَاِذَا مَرُّوْابِھِمْ یَتَغَامَزُوْنَ} (المطففین:۳۰) ’’وہ جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کرتے۔‘‘ {اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ} (الصافات:۳۵) ’’بے شک جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔‘‘ اور کبھی کبھی یہ اسلوب عموم کا فائدہ نہیں دیتا۔ {وَاِذَا رَاَیْتَھُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُھُمْ} (المنافقون: ۴) ’’جب آپ ان کو دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو اچھے لگتے ہیں۔‘‘

    فصل: امرِ مطلق سے وجوب اس صورت میں مستفاد ہوتاہے کہ اس امر کی مخالفت کرنے والے کی مذمت کی گئی ہو، ایسے شخص کو نافرمان گردانا گیا ہو اور اس امر کی مخالفت پر کوئی دنیاوی سزا یا اخروی عذاب مرتب ہوتا ہو۔‘‘

    نہی مطلق سے تحریم اس صورت میں مستفاد ہوتی ہے کہ اس کے مرتکب کی مذمت کی گئی ہو، اسے نافرمان گردانا گیا ہو اور اس کے ارتکاب پر عذاب مرتب ہوتا ہو۔

    وجوب کبھی تو محض امر سے مستفاد ہوتا ہے کبھی وجوب، فرضیت اور لزوم کی تصریح سے اخذ ہوتا ہے اور کبھی لفظ ’’عَلٰی‘‘ اور کبھی ’’حَقٌّ عَلَی العِبَادِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ جیسے الفاظ وجوب کا فائدہ دیتے ہیں۔

    تحریم، نہی سے مستفاد ہوتی ہے نیز تحریم وحرمت کی تصریح، فعل حرام پر وعید، فاعل کی مذمت اور اس فعل کا کفارہ تحریم کا فائدہ دیتے ہیں۔

    (لَایَنْبَغِی) کا فقرہ قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لغت میں عقلا ً اور شرعاً ممانعت کے لیے ہے۔ اسی طرح {مَاکَانَ لَھُمْ کَذَا وَکَذَا، لَمْ یَکُنْ لَھُمْ} فعل پر حد کا مرتب ہونا، {لَایَحِلُّ) اور لَایَصْلُحُ} کا فقرہ، فعل کو فساد سے متصف کرنا نیز یہ کہ فعل مذکور شیطان کی طرف سے آراستہ کیا گیا اور شیطانی فعل ہے، اللہ تعالیٰ کا اس فعل کو پسند نہ کرنا، بندوں کے لیے اس فعل پر راضی نہ ہونا، اس کے فاعل کو پاک نہ کرنا، اس کے ساتھ کلام نہ کرنے اور اس کی طرف نہ دیکھنے کی وعید سنانا اور اس قسم کے تمام اسالیب تحریم کے لیے ہیں۔

    فعل کے ارتکاب کی اجازت واختیار، اس کو حرام ٹھہرانے کے بعد اس کے فعل کا حکم دینا، اس فعل پر گناہ، حرج اور مواخذے کی نفی، اس بات کی خبر کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو معاف کردیتا ہے، زمانۂ وحی میں مرتکب کو اس فعل پر باقی رکھنا، اس شے کو حرام ٹھہرانے والے کا انکارکرنا، اس بات کی خبردینا کہ یہ تمام اشیاء ہمارے لیے تخلیق کی گئی ہیں اور انھیں ہمارے لیے بنایا گیا ہے اور ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اپنے احسان کا ذکر کرنا، سابقہ امتوں کے کسی فعل کی اس کے مرتکب کی مذمت کیے بغیر خبردینا…اباحت کا فائدہ دیتا ہے۔

    اگر اس کی خبر کسی ایسی مدح کے ساتھ مقرون ہو جو اس کے راجح ہونے پر دلالت کرتی ہو تو استحباب اور وجوب کا فائدہ دیتی ہے۔

    فصل:ہر وہ فعل جس کی اللہ اور اس کے رسول نے تعظیم کی ہویا اس کی مدح کی ہو یا اس فعل کی وجہ سے اس کے فاعل کی مدح کی ہو یا اس فعل پر فرحت کا اظہار کیا ہو یا اس فعل کو پسند کیا ہو یا اس کے فاعل کو پسند کیا ہو یا اس فعل اور اس کے فاعل پر رضا کا اظہار کیا ہو یا اس فعل کو پاک، بابرکت اور اچھا ہونے کی صفت سے متصف کیا ہو یا اس فعل کو دنیا وآخرت میں اللہ کی محبت اور ثواب کا سبب قرار دیا ہویا اس فعل کو اس بات کا سبب قرار دیا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس فعل پر اپنے بندے کو یاد کرتا یا اس کا قدردان ہوتا ہے یا وہ اسے اپنی ہدایت سے نوازتا ہے یا اس کے فاعل کو راضی کرتا ہے یا اس فعل کے فاعلین کو پاکیزگی کی صفت سے موصوف کرتا ہے یا اللہ اس فعل کا یہ وصف بیان کرتا ہے کہ یہ معروف ہے یا اس کے فاعل سے حزن وخوف کی نفی کرتا ہے یا اس فعل پر امن کا وعدہ کرتا ہے یا اس فعل کو اپنی ولایت وسرپرستی کا سبب قراردیتا ہے یا وہ اس فعل کے بارے میں اس بات کی خبردیتا ہے کہ انبیاء ورسل نے اس فعل کے حصول کی دعا مانگی ہے یا اس کو تقرب الٰہی کا ذریعہ قراردیا ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس فعل یا اس کے فاعل کی قسم کھائی ہو مثلاً اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے گھوڑوں اور ان کے گرداڑانے کی قسم کھائی ہے یا یہ بات بتائی گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس فعل کے فاعل پر ہنسا یا اللہ تعالیٰ کو یہ فعل اچھا لگا…یہ تمام امور اس کی مشروعیت کی دلیل ہیں اس میں وجوب اور ندب دونوں مشترک ہیں۔

    فصل: ہر وہ فعل جس کو ترک کرنے کا شارع نے مطالبہ کیا ہو یا اس کے فاعل کی مذمت کی ہو یا اس کو معیوب قراردیا ہو یااس کے فاعل پر ناراضی کا اظہار کیا ہو یا اس پر لعنت بھیجی ہو یا اس سے اور اس کے فاعل سے اپنی محبت کی نفی کی ہو یا اس سے اور اس کے فاعل سے اپنی رضا کی نفی کی ہو یا اس کے فاعل کو جانوروں سے تشبیہ دی ہو یا اس فعل کو ہدایت سے مانع قرار دیا ہو یا اس کو برائی اور کراہت سے موصوف کیا ہو یا انبیائے کرام نے اس فعل سے پناہ مانگی ہو یا اسے برا سمجھا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو فلاح کی نفی کا سبب قراردیا ہو یا دنیا وآخرت کے عذاب کا باعث قراردیا ہو یا اسے کسی مذمت وملامت یا گمراہی ونافرمانی کا ذریعہ بتایا ہو یا اس کو خبث، رجس اور نجس کے اوصاف سے متصف کیا ہویا اسے فسق اور گناہ کہا ہو یا اسے گناہ اور جس یا لعنت اور غضب یا زوال نعمت کا سبب قراردیا ہو یا اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی، کسی حد یا قساوت اور رسوائی یا کسی جان کے مقید ہونے یا اللہ تعالیٰ کی عداوت ،اس کے ساتھ جنگ یا اس کے ساتھ تمسخر واستہزاء کا باعث قراردیا ہو یا اسے فاعل کے نسیان کا سبب بتایا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر اپنے آپ کو صبر ، حلم اور
    درگزر کی صفت سے متصف کیا ہو یا بندے کو اس فعل سے توبہ کرنے کے لیے کہا ہو یا اس کے فاعل کو خبث اور حقارت کے اوصاف سے موصوف کیا ہو یا اس فعل کو شیطان یا اس کی زینت کی طرف منسوب کیا ہو یا اس کے فاعل کے بارے میں یہ بتایا ہو کہ اس کا سرپرست شیطان ہے یا اسے کسی قابل مذمت صفت سے متصف کیا ہو مثلاً اسے ظلم وزیادتی، بغاوت یا گناہ کہا ہو‘‘یا انبیاء ورسل نے اس فعل اور اس کے فاعل سے براء ت کا اظہار کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے فاعل کا شکوہ کیا ہو یا انھوں نے اس کے فاعل کے ساتھ عداوت کا اعلان کیا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے فاعل کے لیے دنیا وآخرت میں ناکامی کا سبب گردانا ہو یا اللہ تعالیٰ نے اسے جنت سے محرومی کا باعث قراردیا ہو یا اس کے فاعل کو اس وصف سے موصوف کیا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے یا اللہ تعالیٰ اس کا دشمن ہے یا اس کے فاعل کے خلاف اللہ اور اس
    کے رسول نے اعلان جنگ کیا ہو یا اس کے فاعل کو دوسروں کے گناہ کے بوجھ کا حامل بتایا گیا ہو یا اس فعل کے بارے میں (لَا یَنْبَغِیْ) ’’یہ مناسب نہیں۔‘‘ یا(لَایَصْلُحُ) ’’ٹھیک نہیں۔‘‘ کا فقرہ استعمال کیا گیا ہو یا اس فعل کے بارے میں سوال کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہو یا اس فعل سے متضاد فعل کا حکم دیا گیا ہو یا اس کے فاعل سے علاحدگی کا حکم دیا گیا ہو (یا اللہ تعالیٰ نے یہ خبردی ہو)کہ اس فعل کے فاعلین قیامت کے روز ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ایک دوسرے سے براء ت کا اظہار کریں گے یا اللہ تعالیٰ نے اس کے فاعل کو ضلالت وگمراہی کی صفت سے موصوف کیا ہو یا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے (لَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ) ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں۔‘‘ فرمایا ہو یا اس کے بارے میں کہا گیا ہو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے نہیں یااسے کسی ایسی حرام چیز سے مقرون کیا گیا ہو جس کی تحریم کا حکم واضح ہو اور خبر واحد میں اس کو بیان کیا گیا ہو یا اس سے اجتناب کو فوزوفلاح کا سبب گردانا گیا ہو یا اسے مسلمانوں کے مابین عداوت اوربغض پیدا کرنے کا سبب بتایا گیا ہو یا اس کے فاعل کے بارے میں کہا گیا ہو (ہَلْ اَنْتَ مُنْتَہٍ) ’’کیا تو باز آئے گا؟‘‘ یا انبیاء ورسل کو اس کے فاعل کے لیے دعا کرنے سے روکا گیا ہو یا اس پر اللہ کی رحمت سے دوری مرتب ہوتی ہو یا اس کے بارے میں (قُتِلَ مَنْ فَعَلَہُ) اور (قَاتَلَ اللّٰہُ مَنْ فَعَلَہُ)’’وہ ہلاک ہوا جس نے یہ کام کیا ۔ اللہ اسے ہلاک کرے جس نے یہ کام کیا‘‘یا اللہ تعالیٰ نے اس کے فاعل کے بارے یہ خبردی ہو کہ (لَایُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَومَ القِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْہِ وَلَا یُزَکِّیْہِ) ’’قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے گا نہ اس کی طرف دیکھے گا اور نہ اسے پاک کرے گا۔‘‘ یا یہ خبردی گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل کی اصلاح نہیں کرے گا اور اس کے مکر کو راہ یا ب نہیں کرے گا یا اس کے بارے میں کہا گیا ہو کہ اس کا فاعل فلاح نہیں پائے گا اور قیامت کے روز وہ گواہوں اور سفارشیوں میں سے نہ ہوگا یا اس فعل کے بارے میں کہا گیا ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اس پر غیرت آتی ہے یا اللہ تعالیٰ نے اس فعل میں فساد کے کسی پہلو پر متنبہ فرمایا ہو یا اس کے بارے میں یہ خبردی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے فاعل سے کوئی فدیہ قبول نہیں فرمائے گا یا اس کے فاعل کے بارے میں یہ خبردی ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے شیطان مقرر کردیتا ہے جو اس کا ساتھی ہوتا ہے یا اس فعل کو فاعل کے دل کی کجی کا سبب قراردیا ہو یا اس فعل کو آیاتِ الٰہی کے فہم اور اس کی نعمتوں سے دور ہٹانے کا سبب بتایا گیا ہو یا اللہ تعالیٰ نے فاعل سے فعل کی علت کے بارے میں سوال کیا ہو مثلاً {لِمَ فَعَلَ} ’’کیوں کیا؟‘‘ مثلاً: {لِمَ تَصُدُّوْنَ
    عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ } (آل عمران: ۹۹) ’’تم اس شخص کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو جو ایمان لایا ؟‘‘ {لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ} (آل عمران:۷۱) ’’تم حق کو باطل کے ساتھ کیوں گڈمڈ کرتے ہو؟‘‘ {مَامَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ} (صٓ : ۷۵) ’’تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟‘‘ {لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَاتَفْعَلُوْنَ} (الصف:۲) ’’تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے؟‘‘

    یہ اسلوب صرف اس صورت میں ہے کہ اس کا جواب ساتھ نہ دیا گیا ہو اگر جواب موجود ہو تو اس کی اہمیت جواب کے مطابق ہوگی۔

    یہ اور اس قسم کے دیگر اسالیب فعل کی ممانعت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ اسلوب کسی فعل کی مجرد کراہت سے زیادہ اس کی تحریم پر دلالت کرتا ہے۔

    لفظ (یَکْرَھُہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہ) ’’اسے اللہ اور اس کا رسول ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ اور (مکروہ) ہو تو یہ اکثر حرام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی کراہت تنز یہی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

    یہ فقرہ (وَاَمَّا اَنَا فَلَا اَفْعَلُ) ’’اور رہا میں تو میں یہ کام نہیں کرتا۔‘‘ تو اس بارے میں تحقیق یہ ہے کہ یہ کراہت کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (اَمَّا اَنَا فَلَا اٰکُلُ مُتَّکِئاً) ۱؎ ’’رہا میں تو میں ٹیک لگاکر نہیں کھاتا۔‘‘

    لفظ(مَایَکُونُ لَکَ)اور(مَایَکونُ لَنَا )ہو تو اس کا عام استعمال حرام امور کے بارے میں ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھَا} (الاعراف:۱۳) ’’تیرے شایاں نہیں کہ تو اس کے اندر تکبر کرے۔‘‘{وَمَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَفِیْھَآ} (الاعراف:۸۹) ’’ہمارے شایاں نہیں کہ ہم اس کے اندر دوبارہ لوٹیں۔‘‘ {مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ} (المائدہ:۱۱۶) ’’میرے شایاں نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔‘‘

    فصل: لفظ (اِحْلَال) ’’حلال ٹھہرانا‘‘ (رَفْعُ الْجُنَاح) ’’گناہ نہ ہونا‘‘ (اَلْاِذْن) ’’اجازت‘‘ (اَلْعَفْو) ’’معاف کرنا‘‘ (اِنْشِئْتَ فَافْعَلْ وَاِنْ شِئْتَ فَلَا تَفْعَلْ) ’’اگر تو چاہے تو کر لے اور اگر نہ چاہے تو نہ کر۔‘‘بعض اشیاء کے فوائد پر احسان کا ذکر اور بعض افعال سے متعلق منافع کا تذکرہ مثلاً {وَمِنْ اَصْوَافِھَا وَاَوْبَارِھَا وَاَشْعَارِھَآ اَثَاثاً وَّ مَتَاعاً اِلیٰ حِیْنٍ} (النحل:۸۰) ’’ان بھیڑوں کی اون، اونٹوں کی پشم اور بکریوں کے بالوں سے تم سامان اور گھر میں استعمال کی چیزیں بناتے ہو جو ایک مدت تک کام دیتی ہیں۔‘‘ اور {وَبِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ} (النحل:۱۶) ’’اور وہ ستاروں کے ذریعے سے راہ پاتے ہیں۔‘‘ اس قسم کے اسلوب سے اباحت مستفاد ہوتی ہے۔ کسی چیز کی تحریم کے بارے میں خاموشی اور زمانۂ وحی میں کسی فعل کے مرتکب کو اس فعل پر برقرار رکھنا وغیرہ بھی اباحت کا فائدہ دیتے ہیں۔

    فائدہـ: کسی فعل پر اللہ تعالیٰ کا اظہار تعجب کرنا جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فعل کو پسند کرتا ہے جیسے (عَجِبَ رَبُّکَ مِنْ شَابٍّ لَیسَتْ لَہٗ صَبْوَۃٌ) ۱؎ ’’تیرا رب اس نوجوان سے بہت خوش ہوتا ہے جس میں جوانی کی نادانی نہ ہو۔‘‘ وہاں کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی پر بھی دلالت کرتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْ} (الرعد:۵) ’’اگر تو تعجب کرے تو تعجب والی بات یہ ہے کہ ان کا سوال ہی عجیب ہے۔‘‘ فرمایا: {بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ} (الصّٰفّٰت : ۱۲) ’’بلکہ تو تعجب کرتا ہے اور یہ مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد {وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلیٰ عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ}(آل عمران:۱۰۱) ’’تم کیسے کفر کرتے ہو حالاں کہ تمھارے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور اس کا رسول تمھارے اندر موجود ہے۔‘‘ اور کبھی یہ امتناع حکم اور عدم حسن پر بھی دلالت کرتا ہے مثلاً فرمایا: {کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ عِنْدَ اللّٰہِ} (التوبہ:۷) ’’بھلا مشرکوں کے لیے اللہ کے نزدیک عہد کیوں کر ہو سکتا ہے۔‘‘ اور کبھی تقدیری طور پر حسن ممانعت پر دلالت کرتا ہے نیز یہ کہ اس کا یہ فعل اس کے لائق ہی نہیں مثلاً فرمایا : {کَیْفَ یَھْدِی اللّٰہُ قَوْماً کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ} (آل عمران:۸۶) ’’اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے جنھوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟۔‘‘

    فائدہ : قرآن مجید میں عدم مساوات کا ذکر کبھی تو دو افعال کے مابین ہوتا ہے مثلاً فرمایا: {اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ} (التوبہ:۱۹) ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے اعمال کی مانند سمجھ لی ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا؟۔‘‘

    عدم مساوات کا ذکر کبھی فاعلوں کے مابین ہوتا ہے مثلاًـ: { لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } (النساء: ۹۵) ’’مومنوں میں سے جو لوگ جہاد سے جی چراکر گھر بیٹھ رہتے ہیں اور عذر نہیں رکھتے اور جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔‘‘

    عدم مساوات کا ذکر کبھی دو افعال کی جزا کے مابین ہوتا ہے مثلاً : {لَایَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِوَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ} (الحشر:۲۰) ’’جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزوں کے مابین عدم مساوات کا ذکر ایک ہی آیت میں جمع کردیا ہے مثلاً {وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ} (فاطر:۱۹۔۲۰) ’’اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوتا اور نہ اندھیرے اور روشنی برابر ہوتے ہیں۔‘‘

    فائدہ : قرآن مجید میں مذکور ضرب الامثال سے مندرجہ ذیل امور مستفاد ہوتے ہیں:
    تذکیر ، وعظ ونصیحت ، کسی فعل پر آمادہ کرنا، زجروتوبیخ، عبرت، کسی فعل پر برقرار رکھنا، مراد کو عقل کے قریب کرنا، مراد کو محسوس صورت میں اس طرح پیش کرنا کہ عقل سے اس کی نسبت ایسے ہی ہو جیسے محسوس کی نسبت حس سے ہوتی ہے۔

    قرآن مجید میں ایسی ضرب الامثال بھی وارد ہوئی ہیں جو تفاوت اجر، مدح وذم، ثواب، کسی معاملے کی تعظیم یا تحقیر اور کسی معاملے کی تحقیق یا اس کے ابطال پر مشتمل ہوتی ہیں۔

    فائدہ: سیاق کلام مجمل کو واضح کرنے، محتمل کو متعین کرنے، غیر مراد معنی کے عدم احتمال کو قطعی بنانے کے لیے عام کی تخصیص، مطلق کی تقیید اور تنوع دلالت پر راہ نمائی کرتا ہے۔ سیاق کلام متکلم کی مراد پر دلالت کرنے والاسب سے بڑا قرینہ ہے جو سیاق کلام کو مد نظر نہیں رکھتا وہ اپنے فکرونظر میں غلطی کرتا ہے اور اپنی بحث میں مغالطے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور کیجیے! {ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْکَرِیْمُ} (الدخان:۴۹) ’’اب تو مزا چکھ! تو بہت باعزت اور بڑا سردار ہے۔‘‘ آپ اس کلام کا وہ سیاق کیسے پاتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ بڑا ذلیل اور حقیر ہے؟

    فائدہ : محسوس اور واقع چیز کے بارے میں رب تعالیٰ کی خبر متعدد فوائد کی حامل ہوتی ہے ،مابعد امور کے ابطال کو آسان کرنے اور اس کے مقدمے کے طور پر اس کا نصیحت اور یاددہانی کا باعث ہونا، اس کا توحید الوہیت ، صداقت رسول اور زندگی بعدِ موت کی خبر کا گواہ ہونا، اللہ تعالیٰ کے احسانات کے تذکرے کے طور پر، ملامت اور زجروتوبیخ کے طور پر مدح یا مذمت کے طورپر یہ خبر دینے کے لیے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اسی نوع کے بعض دیگر فوائد۔ (ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا اقتباس ختم ہوا)

    یہ انتہائی نفیس کلام ہے اور علم تفسیر سے متعلق بہت سے اصول وضوابط پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کو جزائے خیر دے۔
    میں کہتا ہوں کہ قرآن مجید متعدد علوم پر مشتمل ہے جن کا اس میں بار بار اعادہ کیا گیا ہے مثلاً

    (۱) ضرب الامثال جن کا ذکر علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ان فوائد میں کیا ہے جنھیں ہم گزشتہ صفحات میں
    نقل کرچکے ہیں۔

    (۲) اہل سعادت اور اہل شقاوت کا تذکرہ۔ اس کے متعدد فائدے ہیں:

    الف: وہ اوصاف جن سے اہل خیر متصف ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضاپردلالت کرتے ہیںنیز یہ
    اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ اوصاف حمیدہ ہیں۔

    ب: وہ اوصاف جن سے اہل شرمتصف ہیں، وہ اس حقیقت کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ
    ان اوصاف کو سخت ناپسند کرتا ہے اور یہ اوصاف قابل مذمت ہیں۔

    (۳) اس میں ثنائے حسن کا بیان ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا میں نوازتا ہے۔ اس ثنائے حسن کی
    حیثیت دنیاوی ثواب کی سی ہے اور (قرآن کے اندر) ان اوصاف قبیحہ کا بیان ہے جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو رسوا کرتا ہے اور ان اوصافِ قبیحہ کی حیثیت دنیاوی عذاب اور سزا کی سی ہے۔

    (۴) قرآن مجید میں ایسے امور کا تذکرہ ہے جو نفوس انسانی کو اہل خیر کی پیروی کرنے پر ا بھارتے ہیں، بھلائیوں
    میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں، اصحاب اعمال کو اعمال بجالانے کے لیے چست اور ہشاش بشاش رکھتے ہیں اور اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ جو ان اعمال کو بجالاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔

    (۵) قرآن مجید میں اصحاب شر کے افعال سے ڈرایا گیا ہے اور ان گناہوں کو ناپسند ٹھہرایا گیا ہے جن کی تاثیر گناہ
    گاروں کے لیے بہت بری ہے۔

    (۶) قرآن مجید میں اصحاب خیر اور اصحاب شر کی صفات کا ذکر اعتبار کے طور پر کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ
    جو کوئی ان جیسے فعل کا ارتکاب کرے گا وہ ان جیسے ثواب وعقاب کا مستحق ہوگا۔

    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر اعتبار پر زور دیا ہے اور ’’اعتبار ‘‘ کا معنی ہے ایک چیز سے گزر کر دوسری چیز تک پہنچنا اور کسی چیز کو اس کی نظیر پر قیاس کرنا۔

    (۷) بندہ جب اصحاب خیر کے اعمال پر نظر ڈالتا ہے پھر اپنی کوتاہی کو دیکھتا ہے کہ وہ ان اعمال کو بجالانے سے قاصر
    ہے تو اپنے نفس کو اس کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے یہ زاویۂ نظر اس کے لیے عین بھلائی ہے جیسے اپنے آپ کو خود پسندی او ر تکبر کی نظر سے دیکھنا عین فساد ہے۔

    (۸) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات اور افعال کا ذکر اور اس بات کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص
    سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات اور اس کی تقدیس کے ذکر میں عظیم فوائد ہیں:

    الف: یہ علم یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات اور افعال کا علم علی الاطلاق دیگر تمام علوم سے زیادہ شرف کا
    حامل اور جلیل تر ہے پس اس علم کے فہم کے حصول میں مشغول ہونا اور اس کی تحقیق کرنا اس کے بلند ترین مطالب میں مشغول ہونا ہے اور بندے کے لیے اس کا حاصل ہو جانا اللہ تعالیٰ کی خصوصی نوازشات میں سے ہے۔

    ب: معرفت الٰہی اللہ تعالیٰ سے محبت ، اس سے خوف، اس پر امید اور اس کے لیے اخلاص کی دعوت دیتی
    ہے۔ اس معرفت کا حصول بندۂ مومن کی عین سعادت ہے اور معرفت الٰہی کے حصول کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی معرفت حاصل کی جائے اور ان کے معانی کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء صفات کی جو تفاصیل، توضیحات، ان صفات کی معرفت اور معرفتِ الٰہی کے جو اصول قرآن میں پائے جاتے ہیں وہ کہیں اور نہیں پائے جاتے، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کو پہنچان لیں۔

    ج: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اسے پہچان لے اور اس کی عبادت کرے اور یہی
    چیز ان سے مطلوب ومقصود ہے۔ پس اسماء وصفات کی معرفت میں مشغول ہونا گویا اس امر میں مشغول ہونا ہے جس کے لیے بندے کی تخلیق کی گئی ہے اور ان کی معرفت کے حصول کو چھوڑ دینا گویا اس امر کو مہمل اور بے فائدہ قراردینا ہے جو بندے کا باعث تخلیق ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے متواتر فیض یاب ہو اور ہر پہلو سے اس پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہو تو یہ بہت ہی قبیح بات ہے کہ بندہ اپنے رب کے بارے میں جاہل رہے اور اس کی معرفت حاصل کرنے سے گریز کرے۔

    د: اللہ تعالیٰ پر ایمان، ایمانیات کا سب سے بڑا رکن ہے بلکہ تمام ارکان سے افضل اور ان کی بنیاد ہے
    اور ایمان معرفت الٰہی کے بغیر (اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ) کہنے کا نام نہیں ہے بلکہ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے جس پر وہ ایمان رکھتا ہے اور اس کے اسماء وصفات کی معرفت حاصل کرنے کی جدوجہد کرے تاکہ وہ علم الیقین کے درجہ تک پہنچ جائے۔ بندہ اپنے رب کی جس قدر زیادہ معرفت رکھے گا اسی قدر اس کا ایمان زیادہ ہوگا اور جب کبھی رب تعالیٰ کی معرفت میں اضافہ ہوگا ایمان میں بھی اضافہ ہوگا اور جب معرفت رب میں کمی ہوگی تو ایمان میں بھی کمی واقع ہو جائے گی اور ایمان باللہ کی منزل تک پہنچنے کا قریب ترین راستہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں واقع اس کے اسماء وصفات میں غوروفکر کیا جائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسم مبارک پر اس کا گزرہو تو وہ کامل طور پر عمومیت کے ساتھ اس اسم کے معانی کا اثبات کرے اور اس کے متضاد معانی سے اللہ تعالیٰ کو پاک اور منزہ جانے۔

    اللہ تعالیٰ کے بارے میں علم حاصل کرنا تمام اشیاء کی بنیاد ہے وہ عارف باللہ جو اللہ تعالیٰ کی حقیقی
    معرفت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کی صفات وافعال کی معرفت سے ان کاموں پر استدلال کرتا ہے جو اس سے صادر ہوتے ہیں اور ان احکام پر استدلال کرتا ہے جو اس نے مشروع کیے ہیں کیوں کہ اس سے صرف وہی فعل صادر ہوتا ہے جو اس کے اسماء وصفات کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ پس اس کے تمام افعال عدل، فضل اور حکمت پر مبنی ہیں۔ اسی طرح وہ تمام احکام جو اس نے مشروع کیے ہیں ان کی مشروعیت صرف اس کی حمدوحکمت اور اس کے فضل وعدل کے تقاضے پر مبنی ہے۔ اس کی تمام اخبار حق وصداقت اور اس کے اوامرونواہی عدل اور حکمت ہیں۔ یہ علم اتنا عظیم اور مشہور ہے کہ اس کی وضاحت کے لیے تنبیہ کی ضرورت ہی نہیں۔ بقول شاعر
    وَکَیفَ یَصِحُّ فِی الْاَذْھَانِ شَی ئٌ اِذَا احْتَاجَ النَّھَارُ اِلیٰ دَلِیلٍ
    ’’ذہنوں میں کسی چیز کا صحیح ہونا کیسے قرار پاسکتا ہے جب دن (اپنے وجود کے اثبات کے لیے) کسی دلیل کا محتاج ہو۔‘‘

    (۹) قرآن مجید میں انبیاء ومرسلین اور ان کی تعلیمات کا ذکر ہے اور اس بات کا ذکر ہے کہ ان کے ساتھ اور ان کی
    امتوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا۔ اس کے درج ذیل فوائد ہیں:

    الف: انبیاء ومرسلین، ان کی صفات اور ان کی سیرت واحوال کی معرفت ان پر ایمان کی تکمیل ہے۔ بندۂ مومن
    انبیاء کی صفات اور امور سیرت واحوال کی جس قدر زیادہ معرفت حاصل کرے اسی قدر انبیاء پر ایمان زیادہ مضبوط ہوگا اور اسی قدر (اس کے دل میں) ان کی محبت اور ان کی تعظیم وتوقیر ہوگی۔

    ب: انبیاء ومرسلین خصوصاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر کچھ حقوق ہیں ان کی معرفت اور ان کے
    ساتھ سچی محبت کی معرفت کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ ہم ان کی سیرت واحوال کی معرفت حاصل کریں۔

    ج: انبیاء ومرسلین کی معرفت اللہ تعالیٰ کے شکر کی موجب بنتی ہے کہ اس نے مومنین میں اپنا ایک رسول
    بھیج کر ان پر احسان فرمایا۔ یہ رسول ان کو پاک کرتا ہے انھیں قرآن اور سنت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے قبل وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔

    د: انبیاء ورسل ہی اہل ایمان کے حقیقی مربی ہیں۔ اہل ایمان کو جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اور جو
    برائی ان سے دور کی جاتی ہے تو وہ انبیاء ہی کے ہاتھوں اور انھی کے سبب سے ہے لہٰذا مومن کے لیے یہ بہت ہی بری بات ہے کہ وہ اپنے مربی اور اپنے معلم کے حالات سے جاہل رہے۔ جب کسی انسان کے بارے میں یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے والدین کے حالات کے بارے میں جاہل ہوگا تو اس کے بارے میں یہ بات کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے نبی کے حالات سے آگاہ نہ ہو حالاں کہ نبی اہل ایمان پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔ نبی اہل ایمان کا حقیقی باپ ہے جس کا حق حقوق اللہ کے بعد تمام حقوق پر مقدم ہے۔

    ہ: اللہ تعالیٰ نے جس فتح ونصرت سے انبیائے کرام علیہم السلام کو سرفراز فرمایا اور راہ حق میں جن
    مصائب کا ان کو سامنا کرنا پڑا اس میں اہل ایمان کے لیے ایک نمونہ ہے جس سے ان کے قلق واضطراب میں تخفیف ہوتی ہے کیوں کہ اہل ایمان کو خواہ کتنی ہی تکالیف وشدائد کا سامنا کرنا پڑا ہو وہ ان شدائد ومصائب کا عشر عشیر بھی نہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام کو پیش آئیں۔ ارشاد فرماتا ہے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    کی سیرت میں تمھارے لیے ایک اچھا نمونہ ہے۔‘‘ اور ان کی سب سے بڑی پیروی ان کی تعلیمات کی پیروی، لوگوں کے حسب مراتب ان کو تعلیم دینے کی کیفیت میں ان کی پیروی، لوگوں کو تعلیم دینے میں صبرواستقامت، اچھی نصیحت اور حکمت ودانائی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف
    دعوت دینا اور احسن طریقے سے لوگوں کے ساتھ بحث کرنا ہے۔ اس بنا پر اور اس قسم کے دیگر امور کی بنا پر اہل علم کو انبیاء کا وارث کہا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے آیات قرآن کی معرفت اور ان کے معانی کا فہم حاصل ہوتا ہے۔ آیات قرآن کی مراد کا فہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول، اپنی قوم ، اپنے اصحاب اور دیگر لوگوں کے ساتھ آپ کی سیرت کی معرفت پر موقوف ہے کیوں کہ زمان ومکان اور اشخاص میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا ہے پس اگر انسان، ان مذکورہ امور کی معرفت حاصل کیے بغیر قرآن کے معانی کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کردے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے کلام سے اس کی مراد سمجھنے میں بہت زیادہ غلطیاں کرے گا اور اس کو وہی شخص جان سکتا ہے جو جانتا ہے کہ اکثر تفاسیر میں ایسی اغلاط قبیحہ ہیں جن سے اللہ کا کلام پاک ہے۔ اس کے علاوہ اس کے اور بہت سے مفید فوائد اور درست نتائج ہیں۔

    (۱۰) علوم قرآن میں اوامر ونواہی کا ذکر ہے جن کے خطاب کا رخ اس امت اور دیگر امتوں کی طرف ہے۔ ان
    اوامر ونواہی پر عمل پیرا ہونا ان سے مطلوب ہے ۔ ان امور کی معرفت میں متعدد فوائد ہیں:

    الف: اللہ تعالیٰ نے ان حدود کو پہچاننے کی بہت تاکید کی ہے جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہیں اور
    اس شخص کی سخت مذمت فرمائی ہے جس نے ان حدود کو نہ پہچانا۔

    ب: اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں سے سب سے بڑی حد جس کی معرفت حاصل کرنا واجب ہے اس
    کے اوامر ونواہی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کا ہمیں مکلّف ٹھہرایا گیا ہے اور ان کو قائم کرنا ان کو سیکھنا اور سکھانا ہم پر لازم قراردیا گیا ہے۔ احکام کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اوامر ومنہیات کی معرفت حاصل کی جائے تاکہ ترک وفعل کے احکام پر عمل ہو سکے کیوں کہ جب مکلف کو کسی چیز کا حکم دیا جاتا ہے تو اولین چیز جو اس پر واجب ٹھہرتی ہے وہ اس بات کی معرفت ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس کو بجالانے کا حکم دیا گیا ہے، کیا کیا امور اس میں داخل ہیںاور کون کون سے امور اس سے باہر ہیں؟جب بندہ مکلف کو اس بات کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو وہ اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے اور حتی الامکان اور مقدور بھر اس پر عمل کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔

    اسی طرح جب اسے کسی امر سے روک دیا جاتا ہے تو اس امر ممنوع اور اس کی حقیقت کی معرفت حاصل کرنا اس پر واجب ہو جاتا ہے پھر وہ اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم کو بجالاتے ہوئے اور اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے اس امر ممنوع کو ترک کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب دونوں واجب ہیں اور ہر وہ امر جس کے بغیر واجب مکمل نہ ہو وجوب کے زمرے میں آتا ہے پس اس سے تجھے معلوم ہو گیا ہوگا کہ عمل سے پہلے حصول علم ضروری ہے اور علم عمل سے متقدم ہے۔

    (۱۱) علوم قرآن میں خیر کی طرف دعوت، نیکی کا حکم اور برائیوں سے ممانعت شامل ہے۔ اس چیز کا حصول خیر کی
    معرفت حاصل کرنے کے بعد ہی ممکن ہے تاکہ اس کی طرف دعوت دی جاسکے اسی طرح معروف کا حکم دینے اورمنکرات سے روکنے کے لیے معروف اور منکر کی معرفت ضروری ہے۔ قرآن مجید احسن انداز سے ان مضامین پر مشتمل ہے نیز وہ انھیں مکمل طور پر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

    (۱۲) علوم قرآن میں آخرت کے احوال کا تذکرہ بھی شامل ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا، یہ وہ امور ہیں جن کے
    بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خبردی ہے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے موت ، قبر، میدان حشر کی ہولناکیوں، جنت اور جہنم کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے۔ ان امور کے علم میں بہت سے فوائد ہیں:

    الف: یوم آخرت پر ایمان ، ایمانیات کے ان چھ ارکان میں شمار ہوتا ہے جن کے بغیر ایمان کی تصحیح نہیں
    ہوتی۔ ان کی تفاصیل کی جتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی زیادہ بندۂ مومن کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔

    ب: ان امور کی حقیقی معرفت انسان پر خوف ورجاء کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ اگر خوف ورجاء سے انسان
    کا دل خالی ہو جائے تو وہ مکمل طور پر ویران ہو جاتا ہے۔ اگر دل خوف ورجاء سے معمور ہو تو خوف انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے روکتا ہے اور رجاء (امید) اس کے لیے نیکی اور اطاعت کو سہل اور آسان بنادیتی ہے اور یہ چیز ان امور کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے جن سے بچا اور ڈراجاتاہے مثلاً قبر کے احوال اور ان کی سختی، میدانِ حشر کی ہولناکیاں اور جہنم کے بدترین اوصاف۔

    جنت اور اس کی دائمی نعمتوں، مسرتوں، خوشیوں، قلبی، روحانی اور جسمانی نعمتوں کی مفصل معرفت کے سبب سے ایسا اشتیاق پیدا ہوتا ہے جو انسان کو اپنے محبوب ومطلوب کے حصول میں مقدور بھر جدوجہد کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

    ج: اس ذریعے سے بندے کو اللہ تعالیٰ کے فضل ، عدل اور اچھے برے اعمال کی جزا اور سزا کی معرفت
    حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی کامل حمدوثنا کی موجب ہے اور ثواب وعقاب کی تفاصیل کے علم کی مقدار کے مطابق بندۂ مومن کو اللہ کے فضل وعدل اور اس کی حکمت کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

    (۱۳) علوم قرآن میں اہل باطل کے ساتھ مجادلہ، اہل ظلم کے شبہات کارد اور دلائل نقلیہ کی تائید میں براہین عقلیہ کا
    تذکرہ بھی شامل ہے۔ علوم قرآن میں سے اس فن سے خواص علمائے ربانی، راسخ العلم ماہرین اور عقلمند اصحاب بصیرت ہی بہرہ مند ہوتے ہیں۔ قرآن مجید جن دلائل عقلیہ اور براہین قاطعہ پر مشتمل ہے اگر ان تمام دلائل صحیحہ کو جمع کرلیا جائے جو متکلمین کے پاس ہیں تو ان دلائل کی قرآنی دلائل وبراہین کے سامنے وہی حیثیت ہے جو ایک بحربیکراں کے سامنے چڑیا کی چونچ میں پانی کے قطرے کی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہی حق ہے اور حق ، صدق وعدل، میزان عدل وانصاف اور صلاح وفلاح پر مشتمل ہے اگر اس نے توحید اور شرک کا ذکر کیا ہے تو اول الذکر کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسرے سے روکا ہے۔ توحید کی صحت ،اس کے حسن کے اثبات اور اسے نجات کا راستہ قراردینے کے لیے براہین قائم کی ہیں۔ شرک کی قباحت اس کے بطلان اور ہلاکت کی راہ ثابت کرنے کے لیے دلائل دیے ہیں۔ بصیرت کے لیے ان کی حیثیت دوپہر کے وقت سورج کی سی ہے۔

    اگر قرآن اوامرشرعیہ کا حکم دیتا ہے، آداب اور مکارم اخلاق کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ عقل روشن کو ان ضروری مصلحتوں سے آگاہ کرتا ہے جن پر یہ اوامر شرعیہ مشتمل ہوتے ہیں اور انسان اپنی معاش ومعاد میں جن کے محتاج ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میں اس کا فیصلہ ہے کہ ان سے بہتر کوئی اور اصول نہیں ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ان اوامر شرعیہ کا شدید تقاضا کرتی ہے۔

    اگر قرآن نے حرام چیزوں ، برے کاموں اور دیگر خبائث سے روکا ہے تو اس نے اس کے فساد ، ضرر اور شر سے آگاہ کیا ہے جن پر یہ خبائث اور محرمات مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی انسانوں پر نعمت ہے کہ اس نے خبائث کو ان پر حرام ٹھہرایا۔ ان کو ان خبائث سے پاک کرکے عزت وتکریم سے نوازا۔ ان کو ان برائیوں میں ملوث ہونے سے محفوظ رکھنا ہر نعمت سے بڑی نعمت ہے پس واضح ہوا کہ تمام مامورات شرعیہ مصالح پر مشتمل ہیں اور تمام محرمات شرعیہ مفاسد کو متضمن ہیں۔

    اگر قرآن نے اہل باطل کے ساتھ مناظرہ کیا، اہل تشکیک کے شبہات کا تار پود بکھیر ا اور اہل ضلالت کے نظریات کا ابطال کیا تو آپ کہہ دیجیے کہ اس نے حق کو حق ثابت کیا، باطل کا رد کیا، کسی گمراہ کو راستہ دکھایا، معاندین حق کے خلاف حجت قائم کی اور واضح کردیا کہ باطل کے اندرذرہ بھر بھی حق نہیں ہوتا بلکہ باطل اپنے نام کی طرح فاسد ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ چند نام ہیں جن سے انھوں نے باطل کو موسوم کرکے سجارکھا ہے اگر ان کو ہٹادیا جائے تو معلوم ہوگا یہ باطل نظریات گردوغبار کے سوا کچھ بھی نہیں۔

    آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجید عقلی دلائل وبراہین کو واضح ترین اور مختصر عبارت میں پیش کرتا ہے۔ یہ دلائل اعتراضات، تناقض اور ابہام سے محفوظ ہیں ۔ وہ ایک ہی کلمہ میں ایجاز واختصار کے طور پر عقلی اور نقلی دلائل کو جمع کردیتا ہے اور مطلوب ومقصود میں خلل واقع نہیں ہونے دیتا اور کبھی کبھی تفصیل سے کام لیتا ہے اور پے درپے اس طرح دلائل بیان کرتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ ہی وضاحت کے لیے کافی ہوتا ہے۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالشُّکْرُ

    ان شاء اللہ یہ بہت ہی مفید مقدمہ ہے ۔ مسلمان کے لیے مناسب ہے کہ اس کے اہم مقامات پر تتبع اور استقراء سے کام لے اور جب مذکورہ مطالب اس کے سامنے آئیںتو تفصیلاً ان پر توجہ دے لہٰذا جو کوئی اس مقدمہ میں شامل اصولوں کو آیات کے سمجھنے میں استعمال کرے گا تو وہ ان سے بہت فائدہ اٹھائے گا۔ {ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ} (الجمعہ:۴)

    تصنیف بدائع الفوائد
    ماخوذ: تیسیرالکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان




     
  7. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جزاک اللہ خیر
     
  8. اخت طیب

    اخت طیب -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2013
    پیغامات:
    769
    جزاک اللہ خیر
     
  9. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    مولانا محمد حنیف ندوی اور ان کی علمی خدمات​


    مولانا محمد حنیف ندوی کا شمار بیسویں صدی عیسوی کے برصغیر کے مشاہیر علمائے اہل حدیث میں ہوتا ہے۔ وہ اس عہد کے ممتاز مصنف اور نامور محقق تھے۔ ۱۰ جون ۱۹۰۸ ء کو پنجاب کے مردم خیز شہر گوجراں والامیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام نورالدین تھا۔ بیٹے نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تو باپ نے سرکاری اسکول میں داخل کرادیا۔ اسکول میں صرف چار جماعتوں تک تعلیم پائی، جسے اس زمانے میں پرائمری کہا جاتا تھا ۔ اس کے ساتھ ناظرہ قرآن مجید بھی پڑھ لیا۔
     
  10. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    اپنی وفات (۱۹۶۸ ء) تک فریضۂ تدریس سرانجام دیتے رہے۔ اڑتالیس برس کی اس طویل مدت میں محمد حنیف ندوی جیسا کوئی تیز فہم اور ذہین طالب علم ان کے حلقۂ درس میں شریک نہیں ہوا۔ وہ مولانا سلفی کے لائق ترین شاگرد تھے۔

    علومِ متداولہ سے فراغت کے فوراً بعد ۱۹۲۵ ہی میں مولانا محمد اسماعیل سلفی نے مولانا سید سلیمان ندوی کے نام سفارتی خط دے کر ان کو دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) میں داخل کرادیا تھا۔ یہ مولانا محمد حنیف ندوی کی زندگی کا ایک نیا موڑ تھا۔ پانچ سال وہ اس دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ انھیں قرآن مجید سے انتہائی لگاؤ تھا چنانچہ اڑھائی سال میں انھوں نے قرآن مجید کے موضوع پر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تخصص کا اعزاز حاصل کیا۔ اس اثنا میں انھوں نے تمام قدیم وجدید تفسیروں کا بے حد محنت اور دلچسپی سے مطالعہ کیا۔ عربی ادب بھی ان کا خاص موضوع تھا اس کے بھی تمام گوشوں پر عبور حاصل کیا۔ لکھنؤ کی زبان اور ثقافت وتہذیب سے بھی وہ بہت متاثر ہوئے۔

    مولانامحمد حنیف ندوی کے اساتذہ کا حلقہ محدود ہے۔ گوجراں والا میں انھوں نے مولانا محمد اسماعیل سلفی اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مولانا عبدالرحمٰن نگرامی، مولانا حیدر حسن ٹونکی اور شمس العلماء مولانا حفیظ اللہ سے استفادہ کیا۔ ۱۹۳۰ ء میں ندوۃ العلماء کا نصاب مکمل کرکے واپس اپنے وطن گوجراں والا آئے تو ایک سیاسی جماعت ’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ میں شامل ہو گیے اور انگریزی حکومت کے خلاف تقریر یں کیں، جس کی پاداش میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور چھ مہینے کی سزاہوئی۔

    رہائی کے بعد ۱۹۳۰ ہی میں لاہور کی مسجد مبارک (اہل حدیث) میں انھیں خطابت کا منصب عطا ہوا۔ یہ مسجداسلامیہ کالج کے متصل ہے۔ خطابت کے علاوہ نماز مغرب کے بعد وہ درسِ قرآن بھی دیتے تھے، خطبہ جمعہ اور درسِ قرآن میں اسلامیہ کالج کے پروفیسر اور طلبا باقاعدہ شامل ہوتے تھے۔ درسِ قرآن کاآغاز انھوں نے ابتداء قرآن سے کیا تھا، خطبۂ جمعہ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ سورہ فاتحہ سے خطبہ دینا شروع کیا اور ایک تسلسل کے ساتھ آخر ِقرآن تک پہنچے۔ درسِ قرآن میں ایک دفعہ قرآن مجید ختم کر کے دوسری دفعہ بھی چند سپارے ختم کر لیے تھے۔ خطبہ جمعہ اور روزانہ کے درس قرآن میں وہ نئے سے نئے نکات بیان کرتے تھے۔ سامعین کے سوالات کے جواب بھی نہایت عمدگی سے دیتے تھے۔ ان کی زبان اور لب ولہجے سے متاثر ہو کر کالج کے اساتذہ وطلبا کے علاوہ لاہور کے اخبار نویس اور ایڈیٹر بھی ان کے خطباتِ جمعہ اور درس میں حاضر ہوتے تھے۔
     
  11. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    اس زمانے کا لاہور اردوزبان کے بڑے بڑے ماہرین کا مرکز تھا۔ مولانا ظفر علی خاں اس باب میں خاص طور سے شہرت رکھتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں مولانا حنیف ندوی کے درسِ قرآن اور خطبہ جمعہ میں اردو زبان کے لیے حاضر ہوتا ہوں۔ یہ کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی زبان بولتے ہیں۔

    بے شبہ مولانا محمد حنیف ندوی نستعلیق عالمِ دین تھے۔شکل وصورت اور وضع قطع دورگزشتہ کے اساتذۂ فن سے ملتی ہوئی۔ شبہ گزرتاتھا کہ غالب، ذوق، حالی اور نذیر احمد کے قبیلے کا کوئی فرد اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہے۔ لباس اور پہناوے کے اعتبار سے ایک خاص تہذیب اور خاص ثقافت کے حسین پیکر۔ لہجہ لکھنوی، اسلوبِ کلام میٹھا اور پیارا، لوگوں کو دھوکا ہوتا تھا کہ یوپی کے کسی بہت بڑے علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

    مسجد مبارک میں مولانا حنیف ندوی نے ۱۹۴۹ تک درسِ قرآن اور خطباتِ جمعہ کا سلسلہ جاری رکھا یعنی تقریباً بیس برس انھوں نے باقاعدگی سے یہ اہم خدمت سرانجام دی۔ بعد ازاں کچھ عرصہ ہراتوار کو نماز عصر کے بعد ان کا (ہفتہ وار) درسِ قرآن ہوتا رہا لیکن افسوس ہے ان کے اس دور کے درسِ قرآن کسی نے قلم بند نہ کیے ۔ لوگ اس سے متاثر تو بہت ہوئے، اس کا چرچا بھی ہوا لیکن سب زبانی کلامی۔

    اب آئیے مولانا ندوی کی تحریری خدمتِ قرآن کی طرف۔!
    ذ
    ۱۔ ۱۹۳۴ میں انھوں نے تفسیر ’’سراج البیان‘‘ لکھی۔ یہ تفسیر متعدد مرتبہ چھپی اور بہت پڑھی گئی۔یہی وہ تفسیر
    اب قارئین کے زیر مطالعہ ہے۔ اس تفسیر کے سلسلے میں مولانا نے تفسیر وحدیث کی جن کتابوں سے مدد لی ، وہ ہیں تفسیر خازن، تفسیرکبیر، تفسیر ابن جریر، درّ منثور، تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، مدارک، مسند حاکم، مسند بزاز، سیوطی کی اسباب النزول، تفسیر حقانی، خلاصۃ التفاسیر، موضح القرآن، تفسیر حسینی، تفسیر
    بیان القرآن، صحاح ستہ اور بعض دیگر کتب حدیث۔


    مولانا کی عمر اس وقت چوبیس برس کی تھی اور وہ ان کی بھر پور جوانی کا زمانہ تھا۔ انھوں نے تفسیر میں ہر صفحے کے اہم مضامین کی تبویب کی ہے۔ نیچے حلِّ لغات ہے جو لوگ مولانا کے اندازِ نگارش سے دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ بولتے اور لکھتے وقت کوئی کمزور بات ان کے قریب آنے کی جرأت نہیں کرتی تھی۔ وہ علمی معاملات میں جہاں قدیم علوم سے استفادہ کرتے تھے، وہاں جدید کو بھی پیش نگاہ رکھتے تھے۔ اس تفسیر میں بھی انھوں نے قدیم وجدید سے رابطہ قائم رکھا ہے۔
     
  12. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    یہاں یہ عرض کردیں کہ متحدہ ہندوستان گیارہ صوبوں پر مشتمل تھا، جن میں ایک صوبہ پنجاب تھا جو دریائے اٹک کی لہروں سے لے کر دلی کی دیواروں تک انتیس ضلعوں میں پھیلاہواتھا ۔ تقسیم ملک سے قبل اردو زبان میں شروع سے لے کر آخر تک پورے قرآن مجید کی تفسیر پنجاب کے صرف دو علمائے کرام نے لکھی اور وہ دونوں اہل حدیث ہیں۔ پہلے حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری جنھوں نے ’’تفسیر ثنائی‘‘ سپرد قلم کی اور دوسرے مولانا محمد حنیف ندوی جو ’’تفسیر سراج البیان‘‘ کے مصنفِ شہیرہیں ۔

    ۲۔ مولانا فتح محمد خاں جالندھری کا ترجمۂ قرآن بہت مقبول ومتداول ہے۔ پاکستان میں قرآن مجید سے متعلق ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں اسی ترجمے کو پیش نگاہ رکھا جاتا ہے۔ اس ترجمے پر پہلی مرتبہ ناشر کی درخواست پر مولانا محمد حنیف ندوی نے نظر ثانی کی تھی۔

    ۳ ’’ مطالب القرآن فی ترجمۃ القرآن‘‘کو لاہور کے ایک قدیم اشاعتی ادارے ’’پیکو لمیٹڈ‘‘کی مطبوعات میں
    بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس میں دائیں جانب کے صفحے پر قرآن مجید کا متن اور بائیں طرف اس کا ترجمہ اور حاشیے میں تفسیر ہے۔ ترجمہ سید محمد شاہ (ایم اے) کا ہے اور اس پر نظر ثانی ’’مجلسِ فکر ونظر‘‘ نے کی جو تین اہل علم پر مشتمل تھی۔ ان کے اسمائے گرامی علی الترتیب اس طرح مرقوم ہیں:

    ٭ مولانا محمد حنیف صاحب ندوی خطیب جامع مسجد مبارک، لاہور۔

    ٭ مولانا شہاب الدین صاحب فاضل دیوبند، خطیب جامع مسجد چوبرجی، لاہور۔

    ٭ پروفیسر یوسف سلیم چشتی بریلوی بی اے پرنسپل اشاعتِ اسلام کالج لاہور۔

    اس نظر ثانی شدہ مسودے کی برصغیر کے تیرہ معروف علمائے کرام نے تصدیق کی، جن میں علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا قطب الدین عبدالوالی فرنگی محلی لکھنوی، مولانا حیدر حسن ٹونکی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مولانا عبدالعزیز گوجراں والا، مولاناعبدالحلیم صدیقی لکھنؤ، مولانا محمد شبلی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، ڈاکٹر محمد ہدایت حسین پرنسپل مدرسہ عالیہ کلکتہ شامل ہیں۔

    ۴ تقسیم ہند سے پہلے پیکو لمیٹڈ (لاہور) کا ایک ماہنامہ ’’حقیقت اسلام‘‘ شائع ہوتا تھا۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے اس رسالے میں قرآن مجید کے مختلف موضوعات پر بہت سے مقالات لکھے جو نہایت شوق سے پڑھے گیے ۔
     
  13. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    ۱۹ ؍اگست ۱۹۴۹ ء کو گوجراں والا سے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا۔ اس وقت مولانا ندوی کا قافلۂ عمر
    چالیس منزلیں مکمل کرکے اکتالیسویں منزل میں داخل ہو چکا تھا۔ اس اخبار کے اجرا سے ٹھیک ایک سال بعد ۲۵؍اگست ۱۹۵۰ ء کو یعنی اپنی عمر کے بیالیسویں سال میں مولانا ممدوح نے ’’قرآن کی منتخب آیات کی تفسیر ‘‘ کے عنوان سے اخبار میں قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا آغاز فرمایا۔ سب سے پہلے انھوں نے ایک طویل نوٹ میں ’’منتخب آیات‘‘ کے الفاظ کی وضاحت فرمائی جس کی چند سطور یہ ہیں:

    ’’ہم اس شمارے سے اس نئے اور مستقل باب کو شروع کر رہے ہیں۔ تفسیر آیات کا انتخاب ان معنوں میں ہے کہ اختصار کے تقاضوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم کن آیات کو اپنے ذوق کی رعایتوں سے آپ کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ ورنہ یہاں متعارف معنوں میں انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں تو ایک ایک آیت جانِ معنیٰ اور روحِ انتخاب ہے۔ اس باب میں ہم صرف ان آیات کو لائیں گے جن کی ادبی، نحوی یا کلامی وفقہی اہمیتوں کو اجاگر کر سکیں۔ مقصود یہ ہے کہ ہماری موجودہ پود کے دلوں میں قرآن کی عظمت کا صحیح صحیح احساس کروٹ لے اور انھیں یہ معلوم ہو کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کی اس کتاب میں کتنا اعجاز ، کتنے معانی اور فکروعمل کا کتنا نکھار مضمر ہے۔ امید ہے ہمارے قارئین اسے دلچسپی سے پڑھیں گے۔‘‘

    اس عنوان کے تحت سب سے پہلے مولانا ندوی نے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ کے متعلق لکھا اور بڑی تفصیل سے لکھا۔ پھر سورہ فاتحہ کی چند آیات کو موضوعِ فکر ٹھہرا یا ۔ اس کے بعد قرآن کے مختلف مقامات کی بہت سی آیات کی تفسیر قلم بند کی۔ ’’الاعتصام‘‘ میں یہ سلسلہ کافی عرصہ جاری رہا۔ میں اس وقت مولانا کے ساتھ ’’الاعتصام ‘‘ میں خدمت انجام دیتا تھا۔

    ۶ ۱۵؍مئی ۱۹۵۱ ء کو مولانا محمد حنیف ندوی ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستہ ہو گیے (اور ’’الاعتصام‘‘
    کی ادارت میرے سپرد کر دی گئی) جنوری ۱۹۵۵ ء میں ادارہ ثقافت اسلامیہ کا ماہنامہ مجلہ ’’ثقافت‘‘ جاری ہوا تو مولانا ندوی نے تفسیر قرآن کا سلسلہ اس مجلے میں شروع کردیا ۔ پھر جنوری ۱۹۶۸ میں ماہنامہ ’’ثقافت‘‘ کا نام بد ل کر اسے ’’المعارف‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا گیا تو اس کے بعض شماروں میں بھی مولانا نے اس موضوع پر لکھا۔ (اکتوبر ۱۹۶۵ میں مجھے بھی ادارہ ثقافت اسلامیہ سے منسلک کر لیا گیا تھا اور ’’المعارف‘‘ کا ایڈیٹر مجھے مقرر کر دیا گیا تھا)
     
  14. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    7 ریڈیو پاکستان (لاہور) میں بھی مختلف اوقات میں بعض آیات قرآنی سے متعلق مولانا کی تقریریں ہوئیں۔
    ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ ، ماہنامہ ’’ثقافت‘‘، ماہنامہ ’’المعارف‘‘ اور ریڈیو کی تقریریں جمع کرلی جائیں تو ان سب آیات کی تفسیر کم سے کم پانچ سو صفحات کو پہنچ سکتی ہے۔ میں ان شاء اللہ یہ خدمت سرانجام دینے کی کوشش کروں گا۔

    مولانا طویل عرصے تک ٹیلی ویژن کے ’’بصیرت‘‘ پروگرام میں بھی قرآن مجید کی تفسیر بیان فرماتے رہے لیکن یہ زبانی سلسلہ تھا جو محفوظ نہیں رہ سکا۔


    8 ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی کے زمانے میں مولانا محمد حنیف ندوی نے قرآنِ مجید کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم
    کی سیرتِ طیبہ لکھنے کا عزم کیا۔ طے یہ پایا کہ وہ اس موضوع سے متعلق ہر ہفتے ’’الاعتصام‘‘ میں اشاعت کے لیے مضمون عنایت فرمایا کریں گے۔ اس کا عنوان ہم نے ’’چہرۂ نبوت قرآن کے آئینے میں ‘‘ رکھا۔ خیال یہ تھا کہ مضمون مکمل ہونے کے بعد اسی عنوان سے کتاب شائع کی جائے گی۔ مولانا نے ’’الاعتصام‘‘ میں بہتّر (۷۲) قسطیں لکھیں لیکن اس موضوع کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ان کی وفات کے بعد میں نے ان کی تحریر فرمودہ بہتر قسطوں کو جمع کیا اور جو حصہ مولانا سے رہ گیا تھا اسے مکمل کیا اور اس کی تبویب کرکے ’’چہرۂ نبوت قرآن کے آئینے میں‘‘ کے نام سے کتاب شائع کردی۔ یہ کتاب انتیس ابواب اور ۳۲۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب ۱۹۹۹ ء میں علم وعرفان پبلشرز اردو بازار لاہور نے شائع کی۔


    9 مولانا ندوی نے ۱۹۷۸ میں ’’مطالعہ قرآن‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل
    ہے۔ قرآن کے موضوع پر مولانا ندوی کی یہ نہایت محققانہ کتاب ہے جس میں سولہ عنوانات کو موضوعِ گفتگو ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عنوانات یہ ہیں (۱) قرآن کا تصور وحی وتنزیل (۲) قرآن مجید اور کتبِ سابقہ (۳) اسفار خمسہ (۴) عہد نامۂ جدید اور اناجیل اربعہ (۵) قرآن حکیم اور اس کے اسما وصفات (۶) قرآنی سورتوں کی قسمیں اور ترتیب (۷) قرآنی سورتوں کی زمانی ومکانی تقسیم(۸) جمع وکتابتِ قرآن کے تین مراحل (۹) قرآن حکیم کی لسانی خصوصیات (۱۰) اعجاز قرآن اور اس کی حقیقت (۱۱) محتویاتِ قرآن (۱۲) مشکلات قرآن (۱۳) قرآن کے رسم الخط کے بارے میں نقطۂ اختلاف (۱۴) تفسیر (۱۵) تفسیر کے دو مشہور مدرسۂ فکر۔ اصحاب الحدیث اور اہل الرائے (۱۶) اوّلیاتِ قرآن۔
     
  15. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    مطالعۂ قرآن کا ’’پیش لفظ‘‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ایس اے رحمان مرحوم کا تحریر کردہ ہے۔

    ۱۰ گزشتہ سطور سے ہمیں مولانا محمد حنیف ندوی کی تفسیر سراج البیان کا پتا چلا جو ان کے کلکِ گوہر بار کے اس دور کا
    ذخیرۂ علم وعرفان ہے، جب وہ چوبیس برس کے جوان رعنا تھے ۔ پھر ہم ان کے ان قرآنی افکار سے متعارف ہوئے جو انھوں نے اکتالیس بیالیس سال کی عمر میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ اور بعض دیگر رسائل وجرائد کے اوراق کی وساطت سے ہمیں مہیا فرمائے۔ اب آپ ان کے ایک اور شاہ کار قرآنی سے مطلع ہوتے اور اس سے اپنے قلب ونظر کی تازگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اس شاہ کار کا نام ہے ’’لسان القرآن‘‘۔ حروفِ تہجی کی ترتیب سے قرآن کا یہ توضیحی لغت ہے، جس کو صفحاتِ قرطاس پر منقش کرنے کا عزم انھوں نے ۱۹۸۲ میں کیا تھا جب کہ لیل ونہار کی پیہم رفتار نے ان کو عمر کی پچھترویں منزل میں پہنچادیا تھا۔ وہ سن وسال کے اعتبار سے اس
    وقت بوڑھے ہو چکے تھے لیکن ان کا قلم جوان تھا اور نئے سے نئے افکار اگلتا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا قلم ہمیشہ عالم شباب میں رہا۔ شب وروز کی تقویمی رفتار کبھی اس کی روانی کوروک نہ سکی۔ جس طرح ان کے معلومات کا ذخیرہ وسعت پذیر اور مطالعے کا دامن ہمہ گیر تھا، اسی طرح ان کے پاس الفاظ کا خزینہ بھی بھر پور تھا اور الفاظ کے طرزِ ادا کا سلیقہ بھی اللہ نے ان کو خاص طور سے بخشا تھا۔ قرآن سے انھیں جو دلی لگاؤ اور روحانی وابستگی تھی، اس کا اظہار اس موضوع سے متعلق ان کی نگارشات کے ہر مقام پر ہوتا ہے، اس کے حوالے دینے کو جی چاہتا ہے، لیکن افسوس ہے اس مختصر تحریر میں اس کی گنجائش نہیں ۔

    لسان القرآن کی پہلی جلد حروفِ تہجی کی ترتیب سے ا ب (اب) سے شروع ہوئی اور ج ی د (جید) پر ختم ہوئی۔ یعنی یہ جلد پانچ حروف، الف، ب، ت، ث، ج پر مشتمل ہے اور چار سو صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

    اس کے بعد دوسری جلد مسلسل نمبروں کے ساتھ صفحہ ۴۰۱ سے شروع ہوئی ہے۔ اس جلد کا آغاز ح، ب، ب (حبّ) سے ہوتا ہے اور اختتام د، ی، ن (دین) پر ہوتا ہے۔ دونوں جلد یں ۷۹۳ صفحات پر محیط ہیں۔ پہلی جلد ۱۹۸۳ ء میں اور دوسری ۱۹۸۵ میں شائع ہوئی۔
     
  16. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    لسان القرآن کی دوسری جلد مولانا محمد حنیف ندوی کی آخری تصنیف ہے۔ اس کے بعد وہ بیمار ہو گیے اور قلم کی رفتار ہمیشہ کے لیے رک گئی۔ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۷ کو ان کی کتابِ حیات کا خاتمہ ہو گیا۔

    انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون۔

    پھر بہت سے دوستوں کے اصرار پر اس فقیر نے ’’لسان القرآن‘‘ کا سلسلہ شروع کیا اور اس کی تیسری جلد لکھی جو تین حروف (د،ر،ز) پر مشتمل ہے یہ جلد چھپ گئی ہے اور ساڑھے تین سو صفحات پر محیط ہے۔

    اللہ تعالیٰ کا مولانا محمد حنیف ندوی پر یہ خاص فضل ہے کہ انھوں نے اپنے سفرِتحریر کا آغاز بھی قرآن مجید سے کیا اور اختتام بھی اللہ کی اسی متبرک ومقدس کتاب پر ہوا یعنی ان کی پہلی کتاب تفسیر سراج البیان ہے اور آخری لسان القرآن۔ یہ سعادت بہت کم مصنفین کے حصے میں آئی ہوگی۔


    یہ مولانا محمد حنیف ندوی کی قرآنی خدمات کا تذکرہ تھا جو بدرجہ غایت اہمیت کا حامل ہے۔ اب ان کی دیگر علمی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے نمبروار ملا حظہ فرمائیے۔
    ۱۔ مرزائیت نئے زاویوں سے :۔ یہ مولانا ندوی کے ان مضامین ومقالات کا مجموعہ ہے جو مرزائیت سے متعلق ان کے دورِ ادارت میں الاعتصام میں چھپتے رہے۔ ۱۹۵۲ ء کے آخر میں یہ مضامین پہلی دفعہ کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ نہایت دلچسپ کتاب ہے اور اس میں واقعی مرزائیت کے بارے میں نئے زاویوں سے گفتگو کی گئی ہے۔ حال ہی میں یہ کتاب میرے طویل مقدمے کے ساتھ طارق اکیڈمی فیصل آباد نے شائع کی ہے۔

    ۲۔ مسئلۂ اجتہاد :۔ یہ کتاب ۱۹۵۲ میں چھپی ۔ صفحات ۲۰۰۔

    ۳۔ افکارِ ابن خلدون :۔ سالِ اشاعت ۱۹۵۴ ء صفحات ۲۳۳۔

    ۴۔ افکارِ غزالی :۔ یہ کتاب ۱۹۵۶ ء میں شائع ہوئی ۔ صفحات ۵۱۴۔

    ۵۔ سرگزشتِ غزالی ـ:۔ یہ امام غزالی کی تصنیف ’’المنقذمن الضظلال‘‘ کا ترجمہ ہے۔ کتاب ۱۹۵۹ ء میں چھپی۔ صفحات۱۹۶۔

    ۶۔ تعلیمات غزالی : امام غزالی کی ’’احیاء علوم الدین‘‘ ان ابواب کا اردو ترجمہ جن کا تعلق نماز، زکوٰۃ، روزے، حج وغیرہ اہم مسائل سے ہے۔ ۱۹۶۲ میں چھپی ۔صفحات ۵۶۰۔

    ۷۔ مکتوبِ مدنی :۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے ان کے دور کے ایک مشہور عالم اسماعیل بن عبداللہ آفندی رومی مدنی نے وحدت الوجود اور نظر یہ شہود کے بارے میں سوال کیا تھا۔ شاہ صاحب نے اس مکتوب میں اس کا
     
  17. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    تفصیل سے جواب دیا ہے۔ اسے’’ مکتوب مدنی‘‘ کہاجاتا ہے ۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے اس اہم علمی کا وش کا سلیس اور شگفتہ اردو ترجمہ کردیا ہے۔ ۳۶صفحات کا یہ مکتوب ۱۹۶۵ میں چھپا۔

    ۸۔ عقلیات ابن تیمیہ:۔ اس کتاب کا اصل موضوع امام ابن تیمیہ کا فلسفہ اور منطق ہے۔۳۸۵ صفحات کی یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۶۶ ء میں چھپی

    ۹۔ مسلمانوں کے عقائد وافکار:۔علامہ ابوالحسن اشعری چوتھی صدی ہجری کی جلیل القدر شخصیت تھے۔ ان کی
    تصانیف میں ’’مقالات الاسلامیین‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مولانا نے شگفتہ اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہے اور دونوں جلدوں پر الگ الگ طویل مقدمہ لکھا ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۶۸ میں چھپی جو ۳۸۰ صفحات پر مشتمل ہے اور دوسری جلد ہے ۱۹۷۰ میں شائع ہوئی جو ۴۲۴ صفحات کو گھیرے ہوئے ہے۔

    ۱۰۔ اساسیاتِ اسلام:۔ اس کتاب میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام میں ہمارے تہذیبی، ثقافتی،
    سیاسی، اقتصادی اور روحانی مسائل کا حل بہ طریق احسن موجود ہے۔ اپنے موضوع کی یہ نہایت اہم کتاب ہے جو نو(۹)ابواب پر مشتمل ہے۔ تین سو صفحات کی یہ کتاب ۱۹۷۳میں چھپی۔

    ۱۱ تہافت الفلاسفہ (تلخیص وتفہیم) غزالی اور ابن رشد دونوں نے حکمت وفلسفہ کے امام ومجتہد کی حیثیت سے
    شہرت پائی ۔ غزالی کی تصانیف میں سے ایک مشہور کتاب ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ ہے اور ابن رشد کی قابلِ قدر فلسفیانہ تصانیف میں سے ایک معروف تصنیف ’’تہافۃ التہافہ‘‘ ہے جو انھوں نے غزالی کی تہافۃ الفلاسفہ کے جواب میں لکھی ۔ مولانا محمد حنیف ندوی نے غزالی کی شاہ کار ’’تہافتہ الفلاسفہ ‘‘کی سلیس اور رواں دواں اردو میں تلخیص کی ہے ۔ علاوہ ازیں اس پر طویل مقدمہ لکھا ہے، جس میں غزالی اور ابن رشد کے فلسفیانہ افکار ونظر یات پر جلاتلامحاکمہ کیا ہے۔ مولانا کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فلسفہ اور منطق کے دقیق مباحث کو اردو ادب کے خوب صورت قالب میں ڈھال دیا ہے ۔ ۲۲۵ صفحات کی یہ کتاب ۱۹۷۴ میں چھپی ۔

    ۱۲مطالعہ حدیث: مستشرقین اور استشراق زدہ لوگوں نے ایک مدت سے حدیث وسنت کے بارے میں اس ہرزہسرائی کو ’’علمی وتحقیقی‘‘ رنگ دینے کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے کہ اس کی تدوین وتسوید کا سلسلہ محض تاریخی عوامل کی بنا پر ظہور میں آیا۔ ہمارے ہاں کے کچھ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے اور انھوںنے مستشرقین کے اس اندازِ فکر کو آگے بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کی ۔مولانا محمد حنیف ندوی نے’’ مطالعہ حدیث‘‘ میں اس کا پورا
     
  18. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    پورا جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اشاعت وفروغ اور حفظ وصیانت کا معاملہ عہد نبوی سے لے کر صحاح ستہ کی تدوین تک ایک خاص نوع کا تسلسل لیے ہوئے ہے، جس میں شک وریب کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی ۔ علاوہ ازیں مولانا نے اس کتاب میں حدیث سے متعلقہ علوم وفنون پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس میں رجال وروّات کی جانچ پر کھ کے پیمانوں کی تشریح کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہے اور ان اصولوں کی بھی وضاحت کی گئی ہے، جن سے محدثین نے متنِ حدیث کی صحت واستواری کا تعین کیا ہے۔

    ’’مطالعہ حدیث‘‘ پندرہ عنوانات پر مشتمل ہے جو یہ ہیں (۱) قرآن حکیم اور اطاعت رسول (۲) سنت کن حقائق سے تعبیر ہے(۳) سنت عہد نبوی میں (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ دعوت وارشاد (۵) صحابہ اور تابعین کے دور میں علم حدیث کی اشاعت کا جذبہ (۶) صحابہ اور تابعین کے زمانے میں اشاعتِ حدیث کے اسباب وعوامل (۷) روایت کی دو قسمیں (۸) تدوینِ حدیث (۹) حدیث کے بارے میں فنِّ جرح وتعدیل (۱۰) فتنۂ وضعِ حدیث اور محدثین کی مساعیٔ جمیلہ (۱۱) اصطلاحاتِ حدیث (۱۲) علومِ حدیث (۱۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (۱۴) امام زہری (۱۵) کتبِ حدیث اور ان کے مؤلفین۔

    مولانا محمد حنیف ندوی کو حدیث وسنت سے قلبی شغف اور روحانی تعلق تھا اور منکرین ومعترضینِ حدیث سے انتہائی نفرت! یہی جذبۂ صادقہ اور داعیۂ حق اس کتاب کی تصنیف کا باعث بنا۔

    ’’مطالعہ حدیث‘‘ ۲۳۰ صفحات پر مشتمل ہے جو ۱۹۷۹ میں طبع ہوئی ۔

    اس کتاب کے علاوہ اپنی مختلف کتابوں میں مولانا نے حجیت حدیث کے متعلق بہت کچھ لکھا۔ اخبار ’’الاعتصام‘‘ اور دیگر متعدد رسائل وجرائد میں نہایت مدلل انداز میں اس موضوع پر بے شمار مضامین تحریر فرمائے۔

    مولانا محمد حنیف ندوی جماعت اہل حدیث کے گل سرسید تھے۔ تقسیم ملک کے بعد ۲۴ ؍جولائی ۱۹۴۸ کو مغربی پاکستان کی مرکزی جمعیت اہل حدیث کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس کے ارکان میں شامل تھے۔ مرکزی جمعیت کی مجلس عاملہ اور اس کی مختلف کمیٹیوں کے رکن تھے۔ ہفت روز ہ اخبار ’’الاعتصام‘‘ جاری ہوا تو انھیں اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور کئی سال اس کے ایڈیٹر رہے ،مئی ۱۹۴۹ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی پہلی سالانہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو انھیں اس کانفرنس کا صدرِ استقبالیہ بنایا گیا جب کہ اس کانفرنس کی صدارت کے فرائض مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی
     
  19. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    نے انجام دیئے۔ مولاناندوی کا خطبہ استقبالیہ زبان اور معلومات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل تھا جو الاعتصام کے اجرا کے بعد اس کے چند شماروں میں چھپا۔ صدر جمعیت اہل حدیث مولانا سید محمدداؤد غزنوی کے نزدیک مولانا ندوی کو بے حد احترام کا مقام حاصل تھا جماعتی اور علمی معاملات میں وہ مولانا ندوی کو اپنا مشیر قرار دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جب میں مولانا حنیف ندوی سے گفتگو کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں امام غزالی کی مجلس میں بیٹھا ہوں۔

    جماعت اہل حدیث کی مرکزی تعلیمی درس گاہ کا نام ’’جامعہ سلفیہ‘‘ مولانا محمد حنیف ندوی نے رکھا تھا تاکہ اس کے فارغ التحصیل حضرات اپنی نسبت سلفیت کی طرف کریں اور سلفی کہلائیں۔ جامعہ سلفیہ کے اولین اساتذہ کی جماعت میں مولانا ندوی بھی شامل تھے۔ جب کہ دیگر اساتذہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا شریف اللہ خاں تھے۔ جامعہ سلفیہ کی نصابی کمیٹی کے بھی مولانا ندوی رکن تھے اور اس کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے۔ اس کا نصاب تعلیم اسی کمیٹی نے ترتیب دیا تھا۔ جامعہ سلفیہ کی مجلس منتظمہ کے بھی مولانا ندوی ؒ رکن تھے۔ انھوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے بعض اجلاسوں کی صدارت بھی کی۔

    مولانا محمد حنیف ندوی قدیم وجدید کے پیکر حسین اور صاحبِ فضل وکمال بزرگ تھے۔ مفسرِ کتاب ہدیٰ، فنونِ نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، خزانۂ علوم قرآن ، محبِّ رسولِ عربی، دلدادۂ حدیث نبوی، حاضر جواب، مقرر شیریں بیان، خطیبِ نکتہ طراز، خلوت گزیں مجمع کمال اور گوشہ نشیں محفل آرا تھے۔ دنیا اور اہلِ دنیا سے بے نیاز، دولت وثروت سے مستغنی، لوگوں کی دادوتحسین سے بے پروا ، عربی کے ادیب، اردو کے صاحب، طرز مصنف، متوکل علی اللہ، مجسمۂ فہم وتدبر، اسلامی فلسفے میں یکتا، عمر انیات وعلوم حاضرہ میں منفرد اور علم ومطالعہ کے علاوہ ہر شے سے بے تعلق۔!

    اس قناعت پیشہ صاحب علم وہنر نے ۱۲ جولائی ۱۹۸۷ کو نمازِ مغرب کے بعد وفات پائی اور دوسرے دن ۱۳؍ جولائی کو انھیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔

    محمد اسحٰق بھٹی
    جناح اسٹریٹ
    اسلامیہ کالونی، ساندہ،
    لاہور، پاکستان​
     
  20. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    اردوتراجم قرآن ایک سرسری جائزہ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں