تفسیر سراج البیان-2

ام ثوبان نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏اپریل 19, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690

    بسم اللہ الرحمن الرحیم


    ام الکتاب کے فضائل ونکات

    قرآن مجید میں اس کا نام ’’ سبع مثانی‘‘ ہے۔ احادیث میں فاتحہ، کا فیہ، ام الکتاب اور کنز وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہے ۔ اس لیے کہ نماز میں اسے بار بار پڑھا جاتا ہے ۔ ’’ سبع مثانی‘‘ ہے ۔ اس لیے کہ قرآن حکیم کی ابتدا اس سے ہوتی ہے ۔ ’’ فاتحہ‘‘ ہے۔ اس لیے کہ معارف کا گنج گراں مایہ اس میں پوشیدہ ہے ۔ ’’کنز‘‘ کہلاتی ہے۔ اس لیے کہ تمام اساسی وضروری اصول اس میں مذکور ہیںام الکتاب یا کافیہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔یہ سارے قرآن ذی شان کا عطر سمجھیے۔ تمام باتیں بالاجمال اس میں آگئی ہیں:

    (الف) رب کائنات کی حمد وستائش جس کی رحمتیں وسیع اور ہمہ گیر ہیںجو فیصلے کے دن کا تنہا مالک ہے۔

    (ب) ایک خدا کی پرستش کا اعتراف اور ہرکام میں اسی سے استعانت کا اقرار۔

    (ج) صراط مستقیم یا جادئہ ہدایت کی طلب جس پر چل کر تمام برگزیدہ لوگوں نے انعام حاصل کیے اور جس سے

    ہٹ کر چاہ غضب وضلالت میں گرگیے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ قرآن میں عظیم ترین سورۃ ہے ۔

    (د) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جو حبرامت اور پہلے مفسر قرآن صحابی ہیں، فرماتے ہیں:’’ فاتحہ میں دوثلث تقریباً آجاتے ہیں۔ یعنی دو تہائی مضامین۔‘‘

    ۱؎ بسم اللہ سے قرآن کا آغاز ہوتا ہے اور یہ ہرنوع کے آغاز کے لیے اس درجہ موزوں ہے کہ بسم اللہ کے معنی ہی آغاز یا شروع کے ہوگیے ۔ حدیث شریف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہکل امر ذی بال لم یبدأ باسم اللہ فھو ابتر۔ یعنی’’ ہرکام کا آغاز بسم اللہ سے ہو‘‘ ورنہ ناکامی ہوگی۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ہرکام میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھاجائے جو بسم اللہ میں بتائے گیے ہیں۔ بسم اللہ ایک پیغام عمل ہے جسے غلطی سے ایک فسوں سمجھ لیا گیا ہے۔

    (۱) کام کا مقصد نیک ہو اللہ کی رضا اس میں مستتر ہو۔(۲) خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت شروع کیاجائے یعنی بتدریج استقلال اور ر جاکو ہاتھ سے دیاجائے ۔(۳) مایوسی اور قنوط طبیعت پر نہ چھاجائے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ہے وہ کسی طرح بھی ہمارے نیک اعمال ضائع ہونے نہیں دیتا۔ یہ سہ گانہ اصول ہیں جو بسم اللہ میں بتائے گیے۔ ظاہر ہے انھیں ہروقت ملحوظ رکھنا ہرکام میں کامیابی حاصل کرنے کے مترادف ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جزاک اللہ خیر
     
  3. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝

    اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ

    الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۙ

    مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ

    اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۝۴ۭ

    اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ۝۵ۙ

    صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیھِم وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ ۝ ​


    ترجمہ:

    ؔشروع کرتا ھوں اللہ کے نام کے ساتھ جو نہا یت مہر بان بہت رحم کرنے والا ھے

    1۔ تمام تعریفیں اللہ ھی کے لیئے پالنے والا ھے سارے جہانوں کا

    2 ۔ نہا یت مہر بان بہت رحم کرنے والا ھے

    3 ۔ مالک ھے روزِجزا کا

    4 ۔ تیری ھی ھم عبادت کرتے ھیں اور تجھ ھی سے ھم مدد چاھتے ھیں

    5 ۔ د کھا ھمیں راستہ سیدھا

    6 ۔ راستہ ان لوگوں کا انعام کیا تو نے ان پر نہیں غصہ کیا گیا ان پر اور نہ وہ جو گمراہ ھیں


    حـل لـغـات

    {اَلْحَمْدُ } مصدر تعریف وستائش ا س صورت میں جب کہ ممدوح مختار اور فعل جمیل وخیر ہو۔{رَبّ }اسم صفت جو تخلیق واختراع کے بعد کائنات کا ہرمنزل میں خیال رکھے۔ یعنی ایجاد وتصویر سے لے کر تکمیل وتزئین تک ہرمرحلے میں اس کا التفات کرم فرمارہے{العالمین} جمع عَالَمٌ اسم آلہ خلاف قیاس۔ دنیا یا کائنات، ہر شئے، ہرجگہ، ہرچیز۔ {الرحمٰن } رُحْم رَحْمَۃٌ سے اسم صفت رَحِمْ سے مطلق ہے یعنی مادرانہ شفقت کی انتہائی تنزیہی صورت۔ مہرومحبت کا پاکیزہ ترین پیکر{اِھْدِ} مصدر ہدایت صیغۂ امر۔


    ۱؎ خدا کے متعلق قرآنی تخیل یہ ہے کہ وہ ساری کائنات کا رب ہے ۔ اس کی خدائی زمان ومکان کی قیود سے بالاوبلند ہے۔
    ۲؎ مکافات عمل کی آخری صورت فیصلے کا دن ہے جس میںکسی کو مداخلت کا حق نہیں۔ تمام جھگڑوں کو نپٹائے گا۔ والامریومئذ للہ۔
    ۳؎ قرآن کا یہ احسان ہے ساری دنیائے انسانیت پر کہ اس نے بندہ وخدا کے درمیان جتنے پردے حائل تھے چاک کردیے۔ اب ہرشخص براہ راست اسے پکارسکتا ہے ۔ نہ عبادت کے لیے کسی وسیلے کی ضرورت ہے نہ استعانت کے لیے کسی شفیع کی حاجت۔
    ۴؎ اللہ نے راہِ طلب کی وسعتوں کو غیر محدود بنایا ہے ۔ مسلمان عرفان وسلوک کے ہر منصب کے بعدبھی ’’ طالب‘‘ کے درجہ سے آگے نہیں بڑھتایعنی خدا کا انعام وفضل بے پایاں وبے حد ہے، اس لیے ایک عاصی سے لے کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک یہی دعا مانگتے چلے آئے ہیں کہ اے خدا ہمیں صراط مستقیم پر چلا۔ راہِ اکرام وافضال کے دروازے بند نہ ہوں۔
    ۵؎ ضال ومغضوب سے وہ لوگ مراد ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گیے ہیں اور پھر تمرد وسرکشی کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح عذاب میں گرفتار ہیں۔

    لطف ومحبت سے راہ نمائی کرنا۔ دھیرے دھیرے پیار سے منزل مقصود تک پہنچانا ۔{الصراط المستقیم} سیدھی ، قریب ترین اور بے خوف وخطر راہ۔

     
  4. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا سسٹر
     
  5. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690

    ۱؎ سورہ سجدہ میں فرمایا تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العٰلمین یعنی اس صحیفہ ٔہدیٰ کے الہامی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ طرز بیان کی دلربائی، دلائل کا احصاء،ضروریاتِ انسانی کا لحاظ اور فطرت حقہ سے تطابق۔ یہ سب چیزیں پڑھنے اور سننے والے کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں پھریہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یہ کلام خدا کا غیر مشکوک کلام ہے ۔

    ۲؎ ہدایت کے چار مرتبے ہیں۔ الہام فطرت یا معارف ضرور یہ کا علم جیسے ربنا الذی اعطیٰ کل شیٔ خلقہ ثم ھدیٰ یا وحی نبوت جیسے وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا یا توفیق وتیسیر جیسیوالذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا اور یا اللہ کے انعامات کی طرف راہ نمائی جیسے اہل فردوس یہ کہیں گے الحمد للہ الذی ھدانا لھٰذا۔ یہاں یہ آخری معنی مراد ہیں۔ مطلقاً راہ نمائی مقصود نہیں۔ وہ تو ہر شخص کے لیے ہے ۔ چاہے مانے چاہے نہ مانے۔

    ۳؎ ا للہ کا وہ انعام جسے وہ کلام کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے، یوںہی نہیں مل جاتا۔ اس کے لیے تما م مغیبات پر ایمان لانے کی ضرورت ہے اورپھر صحیح معنوں میں نماز پڑھنے کی حاجت ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اللہ کی راہ میں کچھ دینے کی بھی اور پھر یہ بھی خیال رہے کہ قرآن پر پورا پورا ایمان ہو۔ سابقہ کتب کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے اور نظام اخروی پر غیر متزلزل یقین رکھے ۔ یعنی ایمان وعمل دونوں تابحد کمال ہوں۔
     
  6. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690


    حروف مقطعات کا فلسفہ


    قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں یہ حروف آتے ہیں۔ مفسرین نے مختلف معانی ان کے بیان فرمائے ہیں جو کھلا ہوا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ حروف بے معنی نہیں۔ قطرب۔مبرد‘فراء اور محققین کا ایک عظیم القدر گروہ اس بات پر متفق ہے کہ یہ حروف قرآن کے ان حروف تہجی سے مرکب ہیں جن سے قرآن کے الفاظ بنے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن اپنے طرز بیان، الفاظ کی شوکت اور معنویت کے اعتبار سے جو معجزہ ہے تو اس کی ترتیب میں انھیں روز مرہ کے حروف سے کام لیا گیا ہے تمھیں اگر اس کی ساحری ومعجز نمائی سے انکار ہے تو آؤ ایک سورۃ ہی ایسی لکھ دو جو قرآن کی کسی سورت سے لگاؤ کھاسکے۔علامہ زمخشری نے کشاف میں ایک باریک نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ حروف جو مقطعات کی شکل میں آئے ہیں سب قسم کے حروف کا ایک بہترین اور زیادہ تر استعمال ہونے والا مجموعہ ہے ۔ غور کرکے دیکھو ان حروف کے بعد جہاں جہاں یہ آئے ہیں عموماً کتاب ،آیات،ذکر، تنزیل قرآن وغیرہ کا ذکر ہے جو اس بات پر دال ہے کہ یہ آیات بینات، ذکر جمیل، یہ قرآن معجزہ طراز انھیں حروف کے الٹ پھیر کا نتیجہ ہے ۔ حوصلہ ہے تو تم بھی میدان میں آکر دیکھو ۔ ان حروف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ قرآن نے جس طرح اپنے ادب کو ملحوظ رکھا ہے ، جس طرح اس کا لغت ، اس کی تشریح، اس کی تفسیر اور اس کا انداز بیان بغیر کسی تغیر وتبدل کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سینوں میں محفوظ ہے ، اسی طرح اس کے حروف کا تلفظ بھی محفوظ رہنا چاہیے تھا۔ حروف مقطعات سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ گویا قرآن تلفظ وترتیل سے لے کر تشریح وتوضیح تک سب کچھ اپنے اندر رکھتا ہے اور کسی بیرونی چیز کا مرہونِ منت نہیں۔

    ناقابل اصلاح گروہ

    آفتاب نبوت جب چمکتا ہے تو چند آنکھیں بینائی کھو بیٹھتی ہیں اور ایسے شپرہ چشم لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جنھیں نصف النہار کے وقت بھی حق سجھائی نہیں دیتا، جب اللہ کی عنایت وکرم کے بادل گھر کے آتے ہیں تو ایسی زمین بھی ہوتی ہے جوشور اور سنگلاخ ہو، وہاں روئیدگی کی قطعاً امید نہیں ہوتی۔ کفر وعناد کا زقوم تو وہاں اُگتا ہے مگر ایمان کا گل وریحان نہیں اُگتا۔ یہاں اسی چیز کا ذکر ہے۔ایک ناقابل اصلاح گروہ جس کا تمرد حد سے بڑھ گیا ہے جو تیئس سال تک چشمہ ٔ فیض سے سیراب ہوتا ہے لیکن انکار وناشکری سے باز نہیں آتا جو خود کہتا ہے قلوبنا غلف کہ ہمارے دلوں میں حق کے لیے کوئی جگہ نہیں،کیوں کر ہدایت پذیر ہوسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے اور ان کے کانوں پر بھی۔ نہ کان حق کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ دل ہی حق نیوش ہے ۔ آنکھوں کی بصیرت بھی نہیں رکھتے۔ اس پر بھی تعصب وعناد کی پٹی بندھی ہے یعنی یہ لوگ صحیح استعداد کھو بیٹھے ہیں۔
    آپ ان کی مخالفت سے نہ کڑھیں۔ یہاں چند نکات ملحوظ رہیں:

    (ا) ختم کا لفظ محض ان کی حالت کو واضح کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ ایک طبیب کی طرح کسی حالت میں بھی مریض کفر سے مایوس نہیں ہوتا ہے

    (ب) قلب، سمع اور بصر کا ذکر بجائے خود دلیل ہے اس بات کی مراد دل انقلاب پذیر ہے جو ٹھس ہوگیا ہے اور اس کے کان جن میں فطرت نے سماعت کی قوت رکھی تھی اب نہیں رہی اور ایسی آنکھیں ہیں جو بصارت سے بہرہ ور تھیں اب محروم ہوگئی ہیں ورنہ قلب کی جگہ فواد اور سمع کی جگہ اُذن اور بصر کی جگہ عین کا استعمال کیا جاتا۔

    (ج) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ تبلیغ واشاعت روک دیں۔ یہ کہا کہ ان کی حالت یہ ہے کہ نہ مانیں گے۔ نہ یہ کہ آپ بھی اپنے فرائض سے تغافل برتیں۔ یعنی سَوَآئٌ عَلَیْہِمْ فرمایا ہے ۔ سواء لک نہیں کہاکیوں کہ مصلح کو کسی وقت بھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔

    (د) حدیث میںاس انداز بیان کی تشریح نہایت حکیمانہ طرز میں مذکور ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جب کوئی انسان پہلی دفعہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نقطہ سا پڑجاتا ہے ، دوسری دفعہ دونقطے پڑجاتے ہیں اور بار بار اکتسابِ معصیت سے دل سیاہ دھبوں سے اَٹ جاتا ہے یعنی پہلے پہل اقدامِ گناہ پر ضمیر ملامت کرتا ہے اور عادت ہونے پر اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ ان آیات کا یہی مفہوم ہے کہ یہ لوگ مردہ ضمیر ہوچکے ہیں۔ گناہ کا احساس باقی نہیں رہا۔


    ۱؎ یہ وہ گروہ ہے جو منھ سے تو اسلام کا اعتراف کرتا ہے لیکن دلوں میں دستور کفر کی غلاظت موجود ہے ۔ اس لیے فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ مومن نہیں۔ یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا اور خدا پرست لوگوں کو دھوکہ میں رکھیں لیکن اس حرکت کا کیا فائدہ؟

    زہر کو تریاق سمجھ لینے سے اس کی مضرت توزائل نہیں ہوجاتی جب دلوں میں کفر ہے توزبان کا اقرار اور اعتراف کسی طرح بھی مفید نہیں۔

    ۲؎ مقصدیہ ہے کہ یہ جتنا اسلام کی کامیابی پرکڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ اسی تناسب سے اسلام کو کامیابی (باقی اگلے صفحہ پر)

     
  7. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


    الۗمّۗ۝۱ۚ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۝۰ۚۖۛ فِيْہِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۲ۙ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۙ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۶ خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰي سَمْعِہِمْ۝۰ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ۝۰ۡوَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۷ۧ

    شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

    الٓمٓ (۱)اس کتاب میں کچھ شک۱؎ نہیں ہے،پرہیزگاروں کے واسطے ہدایت ۲؎ہے۔(۲) جوغیب۳؎ پر ایمان لاتے ہیںاور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔(۳) اور جو یقین رکھتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتری اور جو کچھ تم سے پہلے اترا اس پر بھی اور وہ آخرت کایقین رکھتے ہیں۔ (۴) ان ہی لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت ہے اور وہی مرادکو پہنچے ۔(۵) بے شک جو لوگ منکر ہوئے ان کے لیے برابر ہے کہ تو ان کو ڈرائے یا نہ ڈرائے وہ نہ مانیں گے۔(۶) خدانے مہر کردی ہے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔(۷)


    ۱؎ سورئہ سجدہ میں فرمایا تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العٰلمین یعنی اس صحیفہ ٔہدیٰ کے الہامی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ طرز بیان کی دلربائی، دلائل کا احصاء،ضروریاتِ انسانی کا لحاظ اور فطرت حقہ سے تطابق۔ یہ سب چیزیں پڑھنے اور سننے والے کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں پھریہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یہ کلام خدا کا غیر مشکوک کلام ہے ۔

    ۲؎ ہدایت کے چار مرتبے ہیں۔ الہام فطرت یا معارف ضرور یہ کا علم جیسے ربنا الذی اعطیٰ کل شیٔ خلقہ ثم ھدیٰ یا وحی نبوت جیسے وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا یا توفیق وتیسیر جیسیوالذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا اور یا اللہ کے انعامات کی طرف راہ نمائی جیسے اہل فردوس یہ کہیں گے الحمد للہ الذی ھدانا لھٰذا۔ یہاں یہ آخری معنی مراد ہیں۔ مطلقاً راہ نمائی مقصود نہیں۔ وہ تو ہر شخص کے لیے ہے ۔ چاہے مانے چاہے نہ مانے۔

    ۳؎ ا للہ کا وہ انعام جسے وہ کلام کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے، یوںہی نہیں مل جاتا۔ اس کے لیے تما م مغیبات پر ایمان لانے کی ضرورت ہے اورپھر صحیح معنوں میں نماز پڑھنے کی حاجت ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اللہ کی راہ میں کچھ دینے کی بھی اور پھر یہ بھی خیال رہے کہ قرآن پر پورا پورا ایمان ہو۔ سابقہ کتب کو بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے اور نظام اخروی پر غیر متزلزل یقین رکھے ۔ یعنی ایمان وعمل دونوں تابحد کمال ہوں۔

    حـل لـغـات

    {تقویٰ} وقایہ سے مشتق ہے جس کے معنی بچاؤ کے ہیں۔ مراد ایسی حالت ہے نفس کی جو گناہوں اور لغزشوں سے بچائے۔ {غیب} ہر وہ جو ہمارے جوارح کی دسترس سے بالا ہو{ اقامت الصلوٰۃ} پوری طرح خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا۔

    {کَفَرُوْا} جمع کَـفَـرَ فعل ماضی معلوم۔ مذکرغائب۔مصدر کفر کے معنی اصل میں چھپانے کے ہیں۔ کسان کو ، رات کو، گھنے جنگل کو۔پرہول وادی کو بھی کافر کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں کیوں کہ یہ سب چیزیں کسی نہ کسی طرح مفہوم کی حامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بار بار وضاحت کے باوجود بھی جانتے ہوئے خود صداقت کو چھپاتے ہیں۔

     
  8. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690


    وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۝۸ۘ

    يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ

    فِىْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۝۰ۙ فَزَادَھُمُ اللہُ مَرَضًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِـيْمٌۢ۝۰ۥۙ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۝۱۰

    وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۝۱۱

    اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۝۱۲

    وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا كَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ كَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَاۗءُ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَاۗءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ۝۱۳

    آدمیوں میں سے بعض ہیں جو (زبان سے) کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ ہرگز مومن نہیں۔۱؎ (۸)

    وہ خدا اور ایمان لانے والوں کو فریب دیتے ہیں حالانکہ کسی کو فریب نہیں دیتے مگر اپنے آپ کو اور نہیں سمجھتے۔(۹)

    ان کے دلوں میں بیماری ۲ ؎ہے ۔پھر خدا نے ان کی بیماری بڑھادی اور جھوٹ بولنے کے سبب ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (۱۰)

    جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تومحض سنوارنے اور اصلاح کرنے والے ہیں۔(۱۱)

    خبردار رہو، وہی فساد کرنے والے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔(۱۲)

    اور جب انھیں کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایما ن لائے ہیں تو کہتے ہیں، کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جس طرح بے وقوف۳؎ ایمان لائے ہیں۔ خبرداررہو وہی بے وقوف ہیں لیکن جانتے نہیں۔(۱۳)

    ۱؎ یہ وہ گروہ ہے جو منھ سے تو اسلام کا اعتراف کرتا ہے لیکن دلوں میں بدستور کفر کی غلاظت موجود ہے ۔ اس لیے فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ مومن نہیں۔ یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا اور خدا پرست لوگوں کو دھوکہ میں رکھیںلیکن اس حرکت کاکیا فائدہ؟ زہر کو تریاق سمجھ لینے سے اس کی مضرت توزائل نہیں ہوجاتی جب دلوں میں کفر ہے توزبان کا اقرار اور اعتراف کسی طرح بھی مفید نہیں۔

    ۲؎ مقصدیہ ہے کہ یہ جتنا اسلام کی کامیابی پرکڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ اسی تناسب سے اسلام کو کامیابی بخش رہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ دل میں نفاق وحسد کا مرض بڑھتا ہی جاتا ہے کم نہیں ہوتا۔ اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یہ بتانا ہے کہ سب کام اللہ کی قدرت سے ہوتے ہیں،گو اس کا منشاء یہ نہیں کہ لوگ کفر اختیار کریں۔

    ۳؎ ایمان وکفر میں ہمیشہ دانائی وسفاہت کی حدود الگ الگ رہی ہیں۔ ایمان کی دعوت عقل وبصیرت کی دعوت ہے اور کفر وضلالت کی طرف بلانا درحقیقت بے علمی وجہالت پر آمادہ کرنا ہے۔کفر والے ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہے کہ ایمان قبول کرنا گھاٹے اور خسارے کو خواہ مخواہ مول لینا ہے ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے ۔ اَلاَ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَـھَآئُ۔ درحقیقت وہ خود بے وقوف ہیں۔ نفع ونقصان کو صرف مادیات تک محدود سمجھتے ہیں۔ نگاہوں میں بلندی نہیں ہے ، ورنہ دین ودنیا کی نعمتوں کا حصول کسی طرح بھی خسارہ نہیں اور مذہب تو کہتے ہیں اس نظامِ عمل کو جس کو مان کر فلاح دارین حاصل ہوجائے۔

    حل لغات

    {یُخٰدِعُوْنَ} فعل مضارع۔ باب مفاعلہ، اصل خَدَعْ کے معنی ہوتے ہیں مخالف کو ایسی بات کے یقین دلانے کی کوشش کرنا جو اس کا مقصد نہیں اور ایسے طریق سے کہ وہ بظاہر فریب دہ نہ ہو۔ {یَمُدُّھُمْ} مضارع معلوم۔ ڈھیل دیتا ہے۔ {یَعْمَھُوْنَ} مضارع معلوم۔ اصل العمہ۔ دل کا بصیرت سے محروم ہونا۔ بصیرت کے اندھے کو اعمہ کہتے ہیں۔{اَلسُّفَھَآء} جمع سَفِیْہٌ۔ کم عقل۔ بے وقوف۔
     
  9. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690

    وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۝۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِہِمْ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۝۰ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُوْنَ۝۱۴

    اَللہُ يَسْتَہْزِئُ بِہِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَھُوْنَ۝۱۵

    اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰى۝۰۠ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا كَانُوْا مُہْتَدِيْنَ۝۱۶

    اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں کہتے ہیں ہم مسلمان ہوئے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہم تو تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم تو (مسلمانوں سے ) ٹھٹھا ۱؎کرتے ہیں۔(۱۴)

    خدا ان سے ٹھٹھا کرتا ہے اور ان کی شرارت میں انھیں کھینچتا ہے ، وہ بہکتے ہیں۔(۱۵)

    یہی لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی۔ پھر ان کی سوداگری نے نفع نہ دیا اورانھوں نے ہدایت نہ پائی۔(۱۶)


    ۱ ؎ یہ بے علم منافق اس قدر دلوں کے کمزور اور بودے ہیں کہ نہ کفر پر ثبات واستقلال ہے اور نہ ایمان واستحکام۔ جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو منھ پر ایمان کے نعرے ہوتے ہیں اور جب اپنے لگے بندھوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو محض مذاق تھا۔ مانتا کون ہے ۔ دل کا یہ مرض لاعلاج ہے اور اس سے دلوں کی آلودگی خطرناک اور مہلک ہے۔


    حل لغات

    {خَلَوْا} ماضی مصدر خَلْوًا۔خَلاَاِلَیْہِ کے معنی ہیں گزرنے کے۔شَیٰطِیْن جمع شَیْطٰن۔ ایک شخص مبتدع جو رشد وہدایت سے محروم اور خداکی رحمتوں سے دور۔ یہاں مراد شریر لوگ ہیں جو شیطان کی طرح مفسد ہیں۔ {یَسْتَھْزِیُٔ} مضارع معلوم۔ مصدر استہزاء۔ مذاق کرنا۔ توہین کرنا۔ {یَمُدُّہُمْ} مضارع معلوم۔ ڈھیل دیتا ہے۔ {یَعْمَہُوْنَ} مضارع معلوم۔ اصل اَلْعَمْہُ۔ دل کا بصیرت سے محروم ہونا، بصیرت کے اندھدے کو اَعْمَہْ کہتے ہیں۔
     
  10. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690

    مَثَلُھُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا۝۰ۚ فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَہٗ ذَھَبَ اللہُ بِنُوْرِہِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ۝۱۷

    صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۝۱۸ۙ

    اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ فِيْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ۝۰ۚ يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِىْٓ اٰذَانِہِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ۝۰ۭ وَاللہُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ۝۱۹ ​

    ان کی ایسی مثال ہے جیسے ایک شخص نے آگ جلائی جب اس کاگرد روشن ہوا تو خدا ان کی روشنی کو لے گیا اور انھیں اندھیروں میں چھوڑدیا کہ وہ نہیں۱؎ دیکھتے۔(۱۷)

    بہرے ہیں، گونگے ہیں،اندھے ہیں پس وہ نہیں پھریں گے ۔(۱۸)

    یا(ان کی ایسی مثال ہے)جیسے آسمان سے مینہ برسے۔ اس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہو۔کڑک کے مارے موت کے ڈرسے وہ اپنے کانوں میںانگلیاں ڈالتے ہیں اور اللہ منکروں کو گھیر رہا ہے۔ (۱۹)

    ۱؎ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے دنیا وآخرت میں سلوک بھی اسی طرح کا روا رکھتے ہیں کہ جو بجائے خود ایک قسم کا مذاق معلوم ہو۔ نہ ایمان وذوق کی شیرینی سے یہ جماعت بہرہ ور ہوتی ہے اور نہ کفر والحاد کے فوائد ظاہر ی سے متمتع ،کفر اگر تذبذب کے خرخشوں سے معرا ہوتو کم از کم ظاہری وعارضی لذات سے محروم نہیں اور ایمان وعقیدت اگر شک وارتیاب سے پاک ہو تو پھر دونوں جہان کے مزے ہیں۔ اللہ بھی خوش ہے اور دنیا بھی تابع۔

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے دن جب یہ جنت کی طرف بڑھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ یہ مقام سرور وجسور ہمارے لیے ہے تو یکایک ان میں اور جنات نعیم میں ایک دیوار حائل ہو جائے گی اور گویا یہ بتایاجائے گا کہ یہ جواب ہے تمھارے اس مذاق واستہزاء کا جسے تم فخر یہ اپنے رؤساء دین سے ظاہر کیا کرتے تھے۔

    منافق کا نفسی تذبذب

    ان آیات میں نہایت ہی بلیغ انداز میں منافقین کے نفسی تذبذب کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کبھی تو ایمان کی مشعل فروزاں سے مستنیر ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی پھر کفر کی تاریکیوں میں جاگرتے ہیں۔ ان کی مثال ایسے متحیر اور پریشان شخص کی ہے جو آگ جلا کے روشنی پیدا کرلے اورپھریکایک اندھیرا ہوجانے پر اندھیاری میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرے۔

    ان آیات میںیہ بتایا گیا ہے کہ ایمان روشنی ہے اور نفاق ظلمت وتاریکی ۔ مسلمان کے سامنے اس کا مستقبل، اس کا نصب العین واضح اور بین طورپر موجود ہوتا ہے۔ بخلاف منافق کے کہ اس کی زندگی کا کوئی روشن مقصد نہیں ہوتا۔

    حل لغات​


    {صُمٌّ} بہرہ جس کے کان میں نقص ہو۔ {بُکْمٌ} جمع اَبْکَمْ۔ گونگا۔ قوت گویائی سے محروم{عُمْیٌ} جمع اَعْمٰی اندھا۔{صَیِّبٌ} بارش۔ پانی سے لبریز بادل۔( رعد) بجلی کی کڑک اور گرج۔ {برق} بجلی کی لمعاتی چمک {اَصَابِع} جمع اِصْبَع۔ انگلی۔ کانوں میں انگلی کا اگلا حصہ ٹھونسا جاتا ہے جسے عربی میں انملۃکہتے ہیں لیکن یہاں قرآن حمید اصابع کہہ کے گویا اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ بصورت مبالغہ رعد وگرج سے ڈرتے ہیں اور پوری انگلیاں کانوں میں ڈال دیتے ہیں۔{ ٰ اذان}۔ جمع اُذن۔ کان۔{ صَوَاعِق} جمع صَاعِقَۃ بجلی یا کڑک۔ وہ آواز جوابر کے احتکاک سے پیدا ہوتی ہے ۔حَذَرَ۔ڈر،خوف۔ اندیشہ۔ {مُحِیْطٌ} گھیرے ہوئے۔ اسم فاعل ہے ۔ اصل ہے۔ احاطۃ یعنی گھیرنا۔ مقصد یہ ہے کہ یہ نافرمان اس کے علم میں ہیں اور ہروقت اس کے قبضہ واختیار میں ہیں، جیسے کوئی چاروں طرف سے گھرگیاہو۔

     
  11. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690


    يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ۝۰ۭ كُلَّمَآ اَضَاۗءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِيْہِ۝۰ۤۙوَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْہِمْ قَامُوْا۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِہِمْ وَاَبْصَارِہِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۰ۧ

    يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۲۱ۙ ​

    قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جس وقت ان پر چمکتی ہے تو وہ اس میں چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے رہتے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو لے جائے ۔ بے شک خدا ہرشے پر قادر۱؎ ہے۔(۲۰)

    اے لوگو! اپنے رب کی جس نے تمھیںاورتم سے اگلوں کو پیدا کیا، بندگی کرو۔ تاکہ تم پرہیز گار ہوجاؤ(بچ جاؤ) (۲۱)


    ۱؎ پہلی مثال تو کفر کے تحیر کی تھی۔ اس مثال میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ لوگ بہرحال مطلب کے پورے ہیں۔ جب اسلام لانے سے کچھ مطلب براری ہوتی ہے تو پھر انھیں بھی اعلان کرنے میں دریغ نہیں ہوتا اور جب آزمائش وابتلا کا وقت ہوتو صاف انکار کردیتے ہیں یعنی جہاں ان کا ذاتی مفاد روشن نظر آرہاہو، مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں اور جہاں مشکلات کی تاریکی نظرآئی، رک گیے۔ انھیں تنبیہہ فرمائی کہ ایسا نہ کرو ور نہ اللہ کا عذاب آجائے گا اورپھر تم میں یہ استعداد بھی باقی نہ رہے گی۔


    دعوت عبادت واتقاء​


    قرآن نے ساری کائنات کو دعوت دی ہے کہ وہ رب خالق کی عبادت کرے اور اس طرح تمام انسانو ں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتا ہے۔ جب تمھارا اور تمھارے آباؤ اجداد کا خدا ایک ہے تو پھر یہ اختلاف کیسے؟ ایک خدا کے سامنے جھکو۔ ایک کی محبت اپنے دل میں رکھو۔اس طرح تم سب میں اتقاء پیدا ہوجائے گا اور تم سب ایک صف میں جمع ہوجاؤ گے ۔ رنگ وبو کا اختلاف ، لون ونسل کے قضیے ایک دم مٹ جائیںگے ۔


    حل لغات

    {یَخْطَفُ} مضارع مصدرخطف ۔اچک لینا۔{اعبدوا} امر۔ مصدر عباد ت تذلل وانکسار طریق معبد۔ پامال راستہ شرعاً مراد ہے وہ طریق عجز وانکسار جس کا اظہار اپنے رب کے سامنے قیام ورکوع کی صورت میں کیاجائے یا دوسرے فرائض کی ادائیگی۔ ہروہ بات جو جذبۂ عبودیت کو ابھارے۔ {خلق}فعل ماضی مصدر خلق پیدا کرنا۔ بنانا ۔ اختراع وایجاد کرنا۔

     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں