عام کے لفظ کی دلالت اور اس کے استعمالات

رفی نے 'تسہیل الوصول إلى فہم علم الاصول' میں ‏مئی 8, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395

    عام کے لفظ کی دلالت اور اس کے استعمالات:


    لفظ عام میں اصول یہ ہے کہ اس کی دلالت کلی ہونی چاہیےیعنی اس پر لگایا جانے والا حکم اس کے تحت آنے والے افراد میں سے ہر فرد پر ہونا چاہیے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جس اس میں تخصیص داخل نہ ہو، یہ وہ عام ہوتا ہے جو اپنے عموم پر باقی رہتا ہے اور ایسا بہت کم ہوتا ہے (یعنی یہ کہ اس عموم کی تخصیص نہ آئے) اس (عموم پرباقی رہنے والے عام)کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

    1۔ اللہ رب العزت کا یہ فرمان : ﴿ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الأَرْضِ إلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا ﴾ [هود:6] زمین پر جو بھی جاندار ہے ، اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔

    2۔ اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان: ﴿ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَلِيمٌ ﴾ [البقرة:282] اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب اچھی طرح جاننے والے ہیں۔

    3۔ اور اللہ رب العالمین کا یہ فرمان بھی: ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ ﴾ [النساء:23] تم پر اپنی ماؤں سے نکاح کرنا حرام کردیا گیا ہے۔

    بعض اوقات عام کا لفظ بول کر اس سے عام کے بعض افراد مراد ہوتے ہیں۔ یہ وہ عام ہوتا ہے جس سے کچھ خاص افراد مراد ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رب کائنات کا یہ فرمان مبارک ہے: ﴿ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ ﴾ [آل عمران:173] جب انہیں لوگوں نے کہا۔

    یہاں پر ’ناس‘ یعنی لوگوں سے مراد صرف نعیم بن مسعود یا اس کے علاوہ کوئی شخص ہے۔
    اسی طرح اللہ رب العزت کا یہ فرمان عالیشان بھی: ﴿ أَمْ يحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ﴾ [النساء:54] یا پھر وہ لوگوں سے اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان (لوگوں )کو اپنے فضل سے نوازا ہے۔

    تو یہاں پر ’ناس‘ سے مراد نبی کریمﷺ ہیں۔
    اور کبھی عام لفظ بولا جاتا ہے پھر اس میں تخصیص داخل ہوجاتی ہے، یہ مخصوص عام ہوتا ہے۔جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ فرمان گرامی ہے:
    ﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ ﴾ [البقرة:228] اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے نفسوں کے ساتھ تین حیض تک انتظار کریں (یعنی عدت گزاریں)۔

    تو یہاں پر لفظ ’مطلقات‘ عام ہے جس کی تخصیص اللہ رب العالمین کے اس فرمان کے ذریعے کی گئی ہے: ﴿ وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﴾ [الطلاق:4] اور حیض والی (طلاق یافتہ) عورتوں کی عدت کی مدت ان کے وضع حمل تک ہے۔

    تو اس طرح ان حاملہ مطلقات کی عدت وضع حمل تک ہے نہ کہ تین حیض تک۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں