تفسیر السراج- 45 صحف انبیاء اور قبلہ

ام ثوبان نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏مئی 13, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690

    • [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]
    • قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاۗءِ۝۰ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَۃً تَرْضٰىھَا۝۰۠ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَ۝۱۴۴ [/font]


    • [*]ہم نے تیرے منہ کا پھر پھرجانا آسمان۱؎ میں دیکھا۔ سوہم ضرور تجھے اس قبلے کی طرف پھیردیں گے جس سے توراضی ہے۔پس پھیر لے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف اور جہاں تم ہواپنے منہ پھیرواور اہل کتاب جانتے ہیں کہ یہ (یعنی کعبہ کی طرف منہ پھیرنا )حق ہے ان کے رب کی طرف سے اور خدا ان کے کاموں سے غافل نہیں۔۲؎(۱۴۴)
      [*]ملکۂ نبوت

      [*] ۱؎ ان آیات میں بتایا کہ تحویل قبلہ کی ایک وجہ یہ تھی کہ تم (یعنی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام) یہی چاہتے تھے۔ ہم نے تمھاری رضامندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قبلہ بدل دیا۔ بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں ایک ملکۂ نبوت ہوتا ہے جو پہلے سے موجود رہتا ہے اور جس کی روشنی سے انبیاء علیہم السلام استفادہ کرتے ہیں۔ یہ سراج ِ نبوت ان کے دماغ میں ہروقت روشن رہتا ہے ۔


      [*]صحف انبیاء اور قبلہ

      [*]۲؎ اس آیت میں ’’ تحویل قبلہ‘‘ کوحق کہا ہے اور فرمایا ہے کہ اہل کتاب اس کو
      [*]جانتے ہیں لیکن انھیں یہ منظور نہیں کہ بیت المقدس کی تقدیس چھین کر بیت اللہ کو دے دی جائے ۔ بائبل میں ’’شوکت کا گھر‘‘ بیت الحرام کا ٹھیٹھ ترجمہ ہے ۔

      [*]دانیال علیہ السلام کے مکاشفہ میں ہے کہ میں نے آسمان سے نیا یروشلم اترتاہوا دیکھا جس پر خدا کا نیا نام کندہ ہے۔ کیا یہ تبدیلی قبلہ کی پیش گوئی نہیں۔ زبور میں حضرت داؤد علیہ السلام اسی گھر کی زیارت کے شوق میں گیت گاتے ہیں۔

      [*]حل لغات

      [*]{شَطَرَ} جانب۔طرف۔
     
  2. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    انبیاء اور گیت گانا؟
    اللہ آپ سب حضرات و خواتین کو جزائے خیر دے
    جو اس کام میں کسی بھی طرح اپنا حصہ ڈال رہے ہیں
    ایک گزارش ہے کہ اگر اس تفسیر پر کام کرین تو کیا ہی اچھا ہو

    http://www.vblinks.urdumajlis.net/showthread.php?t=6603
     
  3. اُم تیمیہ

    اُم تیمیہ -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏مئی 12, 2013
    پیغامات:
    2,723
    ‎[font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ۝۰ۚ وَمَا بَعْضُہُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ۝۰ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۝۰ۙ اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ۝۱۴۵ۘ اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَہٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْہُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝۱۴۶ؔ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ۝۱۴۷ۧ
    اور اگر تو اہل کتاب کے پاس ساری نشانیاں بھی لاوے وہ تیرے قبلہ کے تابع نہ ہوں گے اور تو بھی ان کے قبلے کا تابع نہ ہوگا اور ان میں سے بھی بعض بعض کے قبلے کے تابع نہیں ہیں اور اگر تو ان کی خواہشوں کے تابع ہوگا بعد اس کے کہ تجھے علم حاصل ہوچکا ہے تو توظالموں میں سے ہوجائے گا۔۱؎(۱۴۵)جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو (یعنی محمدﷺ کو) ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ان میں سے ایک فرقہ دانستہ حق کو چھپاتا ہے ۔۲؎(۱۴۶) حق تیرے رب ہی کی طرف سے ہے تو تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔(۱۴۷)
    فہم حق کے بعد اس پر عمل نہ کرنا ظلم و تکبر ہے
    ۱؎ ان آیات میں فرمایا کہ یہودی باوجود جاننے کے اعتراض ضرور کریں گے۔ وہ کسی بات پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ ان کی ذہنیت مسخ ہوچکی ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت بلا کسی خر خشہ کے حق کی تابع رہے اور ان کے شبہات اور اعتراضات کی جانب بالکل توجہ نہ کرے ، ورنہ خطرہ ہے کہ خدا کے ہاں ظالم نہ ٹھہرائے جائیں۔آیت کا خطاب گو حضورﷺ سے ہے لیکن مراد عام مسلمان ہیں لیکن ان کا منصب انھیں ہرنافرمانی سے روکتا ہے ۔ وہ بحیثیت نبی ہونے کے خدا کی منشاء کے خلاف کوئی حرکت کرہی نہیں سکتے۔ بل ھم عباد مکرمون لایسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون۔ یعنی گروہ انبیاء خدا کا وہ نیک گروہ ہے جو اس کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ اس کے اوامر کا ماننے والا ہے ۔ اس طرز خطاب سے یہ بتانا مقصود نہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اب بھی یہود کی خواہشات کو مان کرخدا کی نافرمانی کا ارتکاب کرسکتے ہیں بلکہ یہ ان کے جذبات کی پاسداری وضوحِ حق کے بعد اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر تم بھی اس کا ارتکاب کروتو بایں جلالت قدر ہرگز معافی کے مستحق نہیں ہو یعنی بحث امکان ظلم سے نہیں بلکہ جرم کی اہمیت سے ہے کہ کس قدر زیادہ ہے ۔

    ۲؎ یَعْرِفُوْنَہٗ کی ضمیر یا توتحویل قبلہ کی طرف راجع ہے جیسا کہ ظاہر سباق سے واضح ہے اور یا حضورﷺ کی طرف جو گومذکور نہیں لیکن معناً سمجھے جاسکتے ہیں۔ یعنی جس طرح یہ اپنے بچوں کو بغیر کسی دلیل منطقی کے پہچان لیتے ہیں اور کبھی انھیں شبہ نہیںہوتا،اسی طرح یہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ درست وصحیح ہے یعنی ان کی مذہبی کتابوں میں جب اس کا ذکر ہے توپھر شک وشبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔ اگرضمیر حضورﷺ کی طرف راجع ہوتو مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپﷺ کی نبوت اس قدر جلی اور اظہر ہے کہ کم از کم ان لوگوں کے لیے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ جو صبح ومساتین سال تک متواتر آپ کے انوار وتجلیات کو برملا دیکھتے ہیں وہ کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے متعلق قطعی وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ میری اولاد ہے اور جس طرح اسے نفسیاتی یقین ہوتا ہے جسے کوئی منطق اور کوئی فلسفہ شک وشبہ سے نہیں بدل سکتا اسی طرح ان میں کے اہل حق وبصیرت حضورﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ نفسیاتی طورپر حضورﷺ کو پہچانتے ہیں مگر باطل اور کتمان حق کی مرتکب جماعت جن کا شیوئہ حیات ہی لوگوں کوگمراہ کرنا ہے ، انھیں روکتی ہے۔

    حل لغات
    [font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]{اَھْوَآء}[/font] جمع ھَوَآء بمعنی خواہش۔[font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]{یَعْرِفُوْن}[/font] م‎ادہ عرفان بمعنی پہچاننا{[font="4 uthman taha naskh 2.01 (www.m"]مُمْتَرِیْنَ[/font]} مصدر امتراء بمعنی شک وشبہ۔
    [/font]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں