پردہ

شفیق نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏ستمبر 15, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفیق

    شفیق ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جنوری 24, 2010
    پیغامات:
    137


    z
    الحمد للہ وحدہ والصلاة والسلام علی من لا نب بعدہ 'أما بعد:
    میری مسلمان بہن! سبھی جانتے ہیں کہ بعض اہل قلم کی نگارشات آپ کے خلاف ہیں'اور یہ لوگ آپ پر اور آپ کے پردہ پر حملہ آور ہیں۔ یہ لوگ پردہ کو پسماندگی اور دقیانوسی سے تعبیر کرتے ہوئے جدید معاشرتی ترقی اور نئی صدی میں داخل ہونے کی راہ میں رکاوٹ قراردیتے ہیں ۔ اس لیے کہ اب سٹیلائٹ اور ٹیلی مواصلات کا دور ہے۔ جہاں پر نت نئے افکار سامنے آرہے ہیں'اور دنیا ٹیکنا لوجی میں ترقی کررہی ہے ۔
    مغربی تہذیب کے متاثرین خود کئی گروہوں میں بٹ گئے ہیں ۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پردہ کی فرضیت کے ہی منکرہیں۔ان کا خیال ہے کہ پردہ پہلے دور کی اسلامی روایات کی خصوصیت تھا۔
    ان میں سے بعض ایسے ہیں جو چہرہ کے پردہ کا انکار کرتے ہیں ' اور وہ چہرہ کھلارکھنے اور اختلاط کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ aمیں عورت کے چہرہ کے پردہ کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ موروثی عادت ہے جسے متشدد لوگوں نے فرض قرار دیا ہے ۔
    اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو مزید اول فول چھوڑتے ہیں ' ان کا کہنا ہے کہ پردہ ایک جیل ہے۔عورت کو چاہیے کہ اس سے آزادی حاصل کرے تاکہ ترقی کے اس دور میں اس کی صلاحیت سے استفادہ کیا جاسکے۔اور عورت کو چاہیے کہ وہ جدید مدنی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے مرد کے شانہ بشانہ شریک عمل ہو۔
    ان میں سے بعض ایسے ہیںجو اس کہاوت کی طرح کہتے ہیں : '' وہ مجھ پر اپنی بیماری پھینک کر خود کھسک گئی ''۔ ان کا خیال ہے کہ جو لوگ حجاب اور پردہ کی دعوت دیتے ہیں ' اور بے پردگی اور بے حیائی سے منع کرتے ہیں وہ عورت کو صرف جسمانی لحاظ سے دیکھتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ عورت کو آزاد چھوڑ دیں تاکہ اس کی مرضی جو چیز چاہیے پہنے ؛ تو پھر یقیناً عورت جسم کے اس محدود نظریہ سے باہر آسکتی ہے۔ یہ تمام لوگ اختلاف نظریات و افکار کے باوجود جہالت اور گمراہی کی طرف دعوت دینے میں برابر کے شریک ہیں ' بھلے وہ مانیں یا نہ مانیں ۔ شعر ؛
    '' اگر آپ یہ جانتے ہیں تو یہ ایک مصیبت ہے ' اور اگر نہیں جانتے تو پھر مصیبت اور بھی بڑی ہے '' ۔
    ان کے دعوی کی حقیقت کسی بھی صاحب نظر انسان پر مخفی نہیں ہے ۔
    ان لوگوں کا کلام سراسر باطل ہے۔اول سے آخر تک اور آخر سے اول تک سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
    ( وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اَعْمَالَکُمْ)
    ''آپ انہیںبات کے انداز سے ضرور ہی پہچان لیں گے' اور اللہ تمھارے اعمال جانتا ہے ''۔
    ان لوگوں کی یہ دعوت مسلمان عورت ؛ مسلمان خاندان اور اسلامی معاشرہ اور امت کے خلاف ایک کھلی ہوئی سازش ہے۔ اور اس کے باوجود یہ لوگ ہماری بعض خواتین کی عقول پر غالب آگئے ہیں ۔ اور اپنے شیریں کلام ' اوران خوبصورت جملوں سے دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں جن کے اندر تباہی 'ہلاکت اور زہر بھرا ہوا ہے ۔یہ لوگ اپنے تئیں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ عورت کے مسائل اور حقوق کی حفاظت کی جنگ لڑرہے ہیں۔مگر اس بات سے جاہل ہی رہے کہ اسلام نے عورت کو مکمل طور پر حفاظت فراہم کی ہے۔اور زندگی کے تمام مراحل میں عورت کوایک بلند مقام عطا کیا ہے خواہ و ہ بچی کی حیثیت ہو یا بیٹی کی یا بیوی ؛ یا ماں کی یا دادی و نانی کی ۔
    اس صورت حال میں واجب ہوگیا تھا کہ ان لوگوں پر رد کیا جائے اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا جائے۔ اور ان کے کلام کے بودے پن کو سب کے سامنے لایا جائے۔ اور ان کی خفیہ چالوں اور سازشوں کو طشت ازبام کیا جائے ؛ یقین اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ بہت سارے لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائیں گے اور انہیں باطل سے حق کی طرف لوٹنا نصیب ہوگا۔
    پردہ عبادت ہے:
    پردہ عبادات میں ایک بڑی عبادت اور فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا حکم دیا ہے' اور اس کی مخالفت یعنی بے پردگی سے منع کیا ہے ۔ نبی کریم aنے اپنے مبارک فرامین میں پردہ کا حکم دیا ہے اور بے پردگی سے منع کیا ہے۔قدیم وجدید ہردور کے علماء کرام کا پردہ کے واجب ہونے پر اجماع ہے ۔اور بہت ہی کم لوگوں نے اس کی مخالفت کی ہے ۔پھر اس عبادت ـپردہ ـ کو کسی زمانے کے ساتھ خاص کرنا دلیل کا محتاج ہے۔ اور اس قسم کا دعوی کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی لیے ہم اپنی بات کو دھراتے ہوئے کہتے ہیں :
    '' پردہ میں کوئی چیز نئی نہیں ہے ''۔
    اگر کتاب و سنت میں پردہ کرنے کا حکم نہ بھی ہوتا ؛ اور اس کی خوبیوں پر کو ئی شرعی دلیل موجود نہ بھی ہوتی تو پھر بھی اس کا شمار ان پاکیزہ اخلاق اور اعلی فضائل میں ہوتا ہے جن کے التزام اور پابندی کی وجہ سے عورت کی تعریف اور مدح سرائی کی جاسکتی ہے۔ تو پھر اس وقت کیا کہا جاسکتا ہے جب کہ اس کی فرضیت پر کتاب و سنت اور اجماع امت سے دلائل بھی موجود ہوں ۔
    کتاب و سنت سے پردہ پر دلائل:
    اس مسئلہ میں کتاب وسنت سے ہمارے پاس دندان شکن اور کھلے ہوئے دلائل موجود ہیں ۔ جن سے ان لوگوںکا بھر پور رد ہوتا ہے جو اسے عادات اور رسم و رواج خیال کرتے ہیں یا پھر اسے پرانے دور کی تہذیب قرار دیتے ہیں۔
    قرآن مجید سے پردہ کے وجوب پر دلائل :
    &پہلی دلیل : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا …لی… وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَتُوْبُوْا اِِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ )]النور٣٠[۔ ''مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے…آگے تک …اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو!تم سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ نجات پا سکو' ' ۔حضرت عائشہ cفرماتی ہیں: '' اللہ تعالیٰ پہلے کی مہاجر عورتوں پر رحم کرے ' جب یہ آیت نازل ہوئی : (وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ) ''اور انہیں چاہیے کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں '' انہوں نے اپنی چادریں پھاڑ کر ان سے پردہ کرلیا تھا ''۔]رواہ البخاری [۔
    دوسری دلیل : اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: (وَالْقَوَاعِدُ مِنْ النِّسَائِ اللَّاتِیْ لاَ یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاح اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَةٍ وَّاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْر لَہُنَّ وَاللّٰہُ سَمِیْع عَلِیْم)۔ ]النور٣٠[۔''بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید(اور خواہش ہی)نہ رہی ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے بہت افضل ہے، اور اللہ تعالی سنتا اور جانتا ہے''۔
    تیسری دلیل : فرمان الٰہی ہے: (یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلِّ اَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا )۔ ]الحزاب٥٩[۔''اے نبی!اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے''۔
    چوتھی دلیل : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّةِ الْاُوْلٰی)۔ ]الحزاب٣٣[۔''اور اپنے گھروں میں قرار سے رہواور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بنا کا اظہار نہ کرو ''۔
    پانچویں دلیل : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِھِنَّ )۔ ]الحزاب٥٣[۔''جب تم ان بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو ؛تمہارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی یہی ہے ''۔
    سنت سے حجاب پر دلائل:
    پہلی دلیل:بخاری ومسلم ہے میں حضرت عمرbنے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اپنی بیویوں کو پردہ کرائے ۔حضرت عائشہ cفرماتی ہیں : اس پر پردہ کی آیت نازل ہوئی ۔
    دوسری روایت میں ہے : حضرت عمر bنے عرض کیا : یارسول اللہ ! اگر آپ امہات المؤمنین کو پردہ کرنے کا حکم دیتے ''۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے حجاب کی آیات نازل فرمائیں''۔
    دوسر ی دلیل : حضرت عبد اللہ بن مسعودbفرماتے ہیں: رسول اللہ aنے فرمایا: '' عورت تمام پردہ ہے ''۔ ]ترمذی ' و صححہ الالبانی[۔
    تیسری دلیل : حضرت عبد اللہ بن عمر bفرماتے ہیں : رسول اللہ a نے فرمایا: '' جو انسان تکبر سے اپنی چادر کو گھسیٹتا جاتا ہے بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ اسکی طرف نہیں دیکھیں گے ''۔حضرت ام ِسلمہ c نے عرض کیا : یارسول اللہ a! عورتیں اپنی اوڑھنیوںکا کیا کریں ؟ ۔آپ نے فرمایا : '' ایک بالشت تک لٹکا لیں۔ عرض کیا : پھر تو ان کے پاؤں نظر آتے رہیں گے ''۔ آپ نے فرمایا: ''تو پھر ایک ہاتھ تک لٹکالیا کریں ' اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ''۔]ترمذی وحسنہ و صححہ الالبانی[۔
    کتاب و سنت سے چہرہ کے پردہ کے دلائل
    اول: اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: (وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ) ]النور٣١[۔ ''اور انہیں چاہیے کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں ''۔ علامہ ابن عثیمین iاس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: '' خمار اس لباس کو کہتے ہیں جسے عورت اپنے سر پر رکھتی ہے؛ اور اس سے اپنے آپ کو ڈھانک لیتی ہے۔جب عورت کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اوڑھنی کو اپنے سینے پر گرا کر رکھے تو اس سے چہرہ کے پردہ کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔
    دوم: اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: (یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلِّ اَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ)۔ ]الحزاب٥٩[۔''اے نبی!اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں''۔ حضرت ابن عباس dفرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں سے اوڑھنیاں گرا کر اپنے چہروں کا پردہ کرلیا کریں ''۔ علامہ ابن عثیمینi فرماتے ہیں: ''صحابی کی تفسیر حجت ہے۔ بلکہ بعض علماء نے فرمایا ہے : یہ تفسیر نبی کریم aسے مرفوع حدیث کے حکم میں ہے ''۔
    سوم : حضرت ابن عمر dسے روایت ہے رسول اللہ aنے فرمایا : '' عورت حالت احرام میں نہ ہی نقاب پہنے گی اور نہ ہی دستانے '' ۔ ]البخاری[۔قاضی ابو بکر ابن العربیiفرماتے ہیں: حدیث میں حضرت ابن عمرdسے روایت کہ:''عورت حالت احرام میں نہ ہی نقاب پہنے گی اور نہ ہی دستانے ''یہ اس لیے کہ حج کے علاوہ دوسرے مواقع پر عورت کے لیے چہرہ کا پردہ فرض ہے۔ پس بیشک اپنی اوڑھنی کا کچھ حصہ سر سے اپنے چہرہ پراس طرح گراکر اس کا پردہ کرے گی کہ وہ کپڑا چہرہ کے ساتھ نہ لگ رہا ہو۔ اور وہ مردوں سے دور رہے گی اور مرد اس سے دور رہیں گے''۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ iفرماتے ہیں :''یہاںسے دلیل ملتی ہے کہ نقاب اور دستانے ان عورتوں میں معروف تھے جو حالت احرام میں نہ ہوتیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ خواتین کا چہرہ اور ان کے ہاتھ پردہ میں ہوں ''۔
    چہارم : نبی کریمaکا فرمان : '' عورت تمام پردہ ہے ''۔عورت کے چہرہ کے لیے پردہ کی مشروعیت پر دلیل ہے۔ شیخ حمود التویجری iفرماتے ہیں: '' یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ اجنبی مردوں کے لیے عورت کے بدن کے تمام اجزاء کا پردہ ہے؛ چہرہ اور دوسرے اعضاء سب اس میں شامل ہیں''۔
    جہالت یا سرکشی :
    & اس کے نام جو یہ گمان کرتا ہے کہ اس زمانے میں مسلمان عورت کے ساتھ پردہ اچھا اور مناسب نہیں لگتا ۔
    &انکے نام جو یہ خیال کرتے ہیں کہ چہرہ چھپانا عثمانی روایت ہے۔
    &ان لوگوں کے نام جو چاہتے ہیں کہ جب عورت گھر سے نکلے تو ہر منزل اور ہر جگہ پر عورت اور مرد کااختلاط ہونا چاہیے ۔
    یہ قرآنی آیات آپ کے سامنے ہیں ؛ انہیں غور سے پڑھ لیں۔ اور یہ محمد aکی احادیث مبارکہ آپ کے سامنے ہیں انہیں اچھی طرح مطالعہ کرلیں۔سلف اور خلف کے ائمہ اسلام ان سے یہی سمجھے ہیں کہ عورت پرپردہ کرنا اوراپنے چہرہ کو چھپانا واجب ہے۔ اگر آپ ان آیات و احادیث سے ماضی میں جاہل تھے ؛ تو اب یہ آپ کے سامنے ہیں ۔ ہم اس انتظار میں ہیں کہ آپ ان آیات و احادیث کی روشنی میں حق کی طرف رجوع کرلیں گے اور بلاوجہ باطل پر سرکشی نہیں کروگے۔ اس لیے کہ فضیلت تو حق کی طرف رجوع کرنے میں ہے ۔ جب کہ باطل پر اصرار کرنا برائی اور رسوائی ہے ۔
    اور اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا )۔ ]النمل ١٤[۔''اور انھوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کر دیا، حالانکہ ان کے دل ان کا اچھی طرح یقین کر چکے تھے ''۔
    تو پھر آپ کبھی حق کے سامنے سرنگوں نہیں ہوسکتے؛ اور نہ ہی کبھی بھی حق بات کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ہم آپ کے سامنے دسویں بلکہ سینکڑوں آیات اور احادیث پیش کردیں۔ اس لیے کہ آپ پوری طرح سے اسلام کے مکمل نظام حیات ہونے پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ ہی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن ہر زمانے اور ہر جگہ کے لیے کار آمد کتاب ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ( اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ) ۔ ]المائدة ٥٠[۔'' کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والے لوگوں کے لئیاللہ تعالیٰسے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے ''۔
    حجاب اور شہریت
    جدید شہریت کے دعویداروں کا خیال ہے کہ حجاب پسماندگی کا ایک مظہر ہے۔ اور یہ عورت کے لیے جدید ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کے نزدیک جدید تہذیب و ترقی اورشہریت ومعاشرت کے میدان عورت کی شراکت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پردہ ہے۔اورپردہ پسماندہ ممالک کو ترقی میں جدید ترقی یافتہ ممالک کی صف سے پیچھے رکھنے کا سبب ہے ۔
    ہم ایسے لوگوں سے پوچھتیہیں:
    &جدید معاشرتی ترقی اور ٹیکنالوجی کا پردہ سے کیا تعلق ہے ؟
    & کیا تہذیب و ثقافت کی ترقی کے لیے یہ شرط ہے کہ عورت اپنا لباس اتار دے اور مردوں کے سامنے عریاں ہوجائے ؟۔
    &کیا تہذیب و معاشرہ کی ترقی کے لیے یہ شرط ہے کہ عورت حیوانی صفات اور شہوت پرست لوگوں کے لیے ایک تر لقمہ بن کر ان کے ساتھ شریک عمل رہے؟۔
    &کیا جدیدمعاشرہ کے لیے یہ شرط ہے کہ عورت بلاروح جسم کی طرح ہوجائے جس کا نہ ہی کوئی ضمیر ہو اور نہ ہی حیاء ۔
    &کیا پردہ ہمارے لیے گاڑیاں ؛ جہاز ؛ ٹینک ؛ برقی سامان ؛ اور دیگر کارخانہ سازی وغیر ہ کی راہ میں رکاوٹ ہے ؟۔
    یہ حقیقت ہے کہ بہت سارے اسلامی اور اکثر عرب ممالک میں عورت نے پردہ کو اتار کر پس پشت ڈال دیا؛ اور اسے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا 'اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے لیے نکل کھڑی ہوئی ۔اور کئی میدانوں میں مردوں کے ہمراہ شریک عمل ہوگئی ۔تو کیا:
    &کیا یہ ممالک عورت کے پردہ اتاردینے کے سبب سے ترقی کر گئے ؟۔
    &کیا یہ ممالک عورت کی بے پردگی کی وجہ سے اس جدید تہذیب و معاشرت کوپاسکے جہاں پر مردو زن کا بے ہنگم اختلاط ہے ؟۔
    & کیا یہ ممالک قوت اور ترقی کے لحاظ سے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پر دوسرے ترقی یافتہ ممالک پہنچے ہوئے ہیں ؟۔
    & کیا ان کا شمار ان ممالک میں ہونے لگا جنہیں انتہائی ترقی یافتہ ممالک تصور کیا جاتا ہے اور انہیں ویٹوکا حق بھی حاصل ہے۔
    & کیا ان لوگوں نے معاشرتی ؛ تعلیمی ؛ اقتصادی اور اخلاقی بیماریوں اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرلی۔
    اس کا جواب بڑا ہی واضح ہے ؛ جس کے لیے کسی تفصیلی بیان کی ضرورت نہیں ۔ تو پھر اے تہذیب و ثقافت اور جدید معاشرت کے دعویدارو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ بے پردگی اور بے حیائی کی دعوت دیتے ہو؟۔
    تعلیم کے لیے بے پردگی کے لیے نہیں
    الحمد للہ ! بلاشک و شبہ بہت سارے اسلامی ممالک میں عورت تعلیم کے اعلی مراتب تک پہنچی ہوئی ہے۔ اور انہوںنے اعلی تعلیمی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں۔اور کئی ایک ایسے مقامات پر کام بھی کررہی ہے جو ان کے لیے مناسب ہیں ۔ ان میں سے کوئی ایک ڈاکٹر ہے تو دوسری استانی ہے ؛ تیسری ڈائریکٹر ہے تو کو ئی ایک پروفیسر ہے ' کو ئی نگران ہے تو کوئی ریسرچ سکالر ہے۔ ان میں سے ہر ایک اور ان کے علاوہ دیگر خواتین امت کی ترقی اورنئی نسلوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں ؛ الحمد للہ کہ ان کا حجاب ' ان کا پردہ ؛ ان کی عفت و عصمت اور ان کا حیاء ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔
    اس ملک میں عورت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عورت اپنی ذات اور معاشرہ اور امت کی تعمیر و خدمت میں اپنا کردار بغیر کسی ذلت و رسوائی اور تنگی کے اداکرسکتی ہے ۔ اس کے لیے اسے بے پردہ ہونے؛ چہرہ کھلا رکھنے ' اورمردوں کے ساتھ میل جول رکھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں جیسا کہ بہت سارے دوسرے ممالک میں ہوتا ہے۔
    ہمارے ملک میں خواتین کے اس تجربہ نے ثابت کردیا ہے کہ بے پردگی اور اختلاط کے داعی جو کہتے ہیں کہ : ''' ہمارے ملک میں عورت ایک معطل طاقت ہے ۔ اس سے اس وقت تک استفادہ ممکن نہیں جب تک یہ پردہ نہ اتار دے ' اور دفاتر میںاور دوسرے مقامات پر مردوں کے ساتھ شریک عمل ہوجائے ''ان کا یہ قول بالکل غلط ہے۔ (کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا)۔]الکہف٥[۔''یہ تہمت بڑی بری ہے جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہے وہ نرا جھوٹ بک رہے ہیں''۔
    وہ کیا چاہتے ہیں؟
    بیشک یہ لوگ نہ ہی تہذیب چاہتے ہیںنہ ہی جدید معاشرت نہ ہی ترقی اور نہ ہی سبقت ۔بلکہ ان کی تمام تر خواہشات کا محور یہ ہے کہ عورت ان کے قریب تر ہو۔ان کی خواہش ہے کہ عورت انکی شہوات کے سامنے ایک تر نوالہ ہو۔اور ان کی امنگوں کے لیے ایک کھلا ہوا سودا ان کے سامنے ہو۔ جب بھی وہ چاہیں اسے اپنی خواہشات کا شکار کرلیں۔اور ذلت کے بازار میں رسوائی کا ایک سامان میسر آجائے۔یہ بغیر عفت و پاکدامنی کی عورت چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے کہ مغربی سوچ و فکر ؛تصور و ہدف کی حامل عورت ہو۔ یہ چاہتے ہیں کہ عورت رقص کے فنون اچھی طرح جانتی ہو۔اور رنگا رنگ گانے گاسکتی ہو او راداکاری کرسکتی ہو۔ایسی عورت چاہتے ہیں جس کا نہ ہی کوئی ایمان ہو اورنہ ہی اخلاق ؛ نہ ہی عقیدہ ہو نہ ہی طہارت و عفت ۔
    رد کس پر کریں؟۔
    ]حجاب کی دعوت دینے والوں پر تہمت لگانے والوں کا رد [
    ان لوگوں کے بارے میں جتنا کچھ بھی کہیے ' اس میں کوئی حرج نہیں؛ اس لیے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ اور وہ جانتے بھی ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ : ''فضیلت کی طرف دعوت دینے والے عورت کو صرف ایک جسم کی حیثیت سے دیکھتے ہیں؛ جب عورت کو کھلا چھوڑدیا جائے' اوروہ جو چاہے پہنے ؛ تو پھر وہ نظر مخفی ہوجائے گی' اور عورت اور مرد کے درمیان باہمی احترام کی بنیاد پر سلوک ہوگا۔
    ناقابل تردیدحقیقت ان کے تمام دعووں کارد کرتے ہوئے ان کے کلام کی حقیقت کو مزید رسوائی کی طرف دھکیلتی ہے۔ اس کی دلیل ابھی میں نے آپ کے سامنے بیان کروںگا جو کچھ ان معاشروں میں ہورہا ہے جو عورت کو کھلی آزادی ہے ' جو چاہے کرے ' جس کے ساتھ چاہے جائے۔ کیا وہاں پر شہوت میں کمی آگئی۔ کیا وہاں پر عورت اور مرد کے مابین باہم تبادل احترام کی بنیاد پر سلوک کیا جارہا ہے ؟
    اس کا جواب ان اعداد وشمار سے ملتا ہے :
    &آخری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکہ میں سالانہ ایک کروڑ نوے لاکھ خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔]یوم اعترفت امریکہ بالحقیقة[
    &ایٹلین سائیکالوجیسٹ یونین کی تحقیقات کے مطابق ستر فیصد اٹلی کے مردوں نے اپنی بیویوںکے ساتھ جسمانی خیانت کا ارتکاب کیا ۔
    &امریکہ میں سالانہ دس لاکھ حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں اور دس لاکھ حمل گرادیے جاتے ہیں۔
    &جرمنی میں سالانہ ساڑھے تین لاکھ خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے ۔یہ وہ رپورٹ ہیں جن کااندراج پولیس میںکیا جاتا ہے۔ پولیس کی تحقیقات کی مطابق جن واقعات کی رپورٹ درج نہیں کی جاتی ان کی تعداد اس سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
    کیایہ رپورٹیں اور اتنی بڑی تعداد میں پیش آنے والے واقعات ان لوگوں کے دعووں کی تردید کے لیے کافی نہیں ۔ حالانکہ یہ واقعات ان واقعات کا ایک معمولی سا حصہ ہیں جو عورت اور مرد کے مابین باہمی رضا مندی سے پیش آتے ہیں ۔
    اہل دانش کے لیے عبرت
    اے دختر ِ اسلام! اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حجاب عورت کی عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے سب سے بڑا مددگار ہے۔ پردہ برائی اورفحاشی کی نظروں سے حفاظت کے کام آتا ہے۔ اس کا اقرار اب وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو بے حیائی اور بے پردگی کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ اورجو اخلاقی گراوٹ اختلاط اور فسق و فجور کی آگ میں جل چکے ہیں۔حق بات تو وہ ہے دشمن بھی جس کی گوہی دیں ۔ امریکی نیوز پیپر کی رپورٹر: '']ھیلسیان سٹاسنبری [ جب کئی ہفتے ایک عربی ملک میں گزارنے کے بعد وطن واپس گئی تواس نے لکھا: '' عربی معاشرہ ہر لحاظ سے کامل و محفوظ ہے۔یہ معاشرہ اس بات کا حق دار ہے کہ نوجوانوں اور دوشیزاؤوں کے متعلق عائد کردہ قوانین میں ان کی تقلید کی جائے ''۔ یہ وہی معاشرہ ہے جو یورپی او رامریکی معاشرہ سے بالکل مختلف ہے۔ان کے پاس وہ موروثی اخلاقیات ہیں جن میں عورت کی عزت و احترام کی حدود و قیود ہیں ۔ جہاں ماں اورباپ کا احترام ہے؛ اور یہاں اباحیت اورفحاشی کے ان اکثر اسباب پر پابندی ہے جن کی وجہ سے آج امریکی معاشرہ گراوٹ اور تنزلی کا شکار ہے ۔ اور جس کی وجہ امریکی او ریورپی خاندانی نظام بالکل درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔اس اختلاط کو روکو؛ اور عورت کی آزادی کی حدود مقرر کرو ۔ بلکہ میں کہتی ہوں کہ : اسی پردہ کے دور کی طرف لوٹ جاؤ ۔ یہ تمہارے لیے اس بے حیائی ' اباحیت اور آزادی سے بہتر ہے جس نے امریکہ اور یورپ کو پاگل کردیا ہے ''۔]رسالة المرأة و کید العدائ[۔
    اے دختر اسلام ! یہ امریکی عورت ہے جو اپنے معاشرہ کی تنزلی اور خاندانی و اخلاقی نظام کی تباہی دیکھنے کے بعد پردہ کی طرف بلارہی ہے ۔امریکی عورت ہمیں اسلامی اخلاق واقدار اپنانے کی وصیت کر رہی ہے۔امریکی عورت ہمیں وہ اختلاط اور اباحیت پھیلانے سے منع کر رہی ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور یورپ معاشرتی فساد و خرابی کا شکار ہے ۔
    اے دختر اسلام ! تمہیں اسلامی نظام کی خوشخبری ہو ؛ اپنے پردہ سے اپنی آنکھوں کو ٹھندا کیجیے ۔ اور یہ جان لیجیے کہ مستقبل اسی دین اسلام کا ہے۔اور آخر کار بہترین انجام بھی مسلمانوں کے حق میں ہوگا اگرچہ کافروں کو برا ہی کیوں نہ لگتا ہو۔
    صلی اللہ علی نبینا و حبیبنا محمد و علی آلہ و صحبہ و سلم۔






    پردہ ایک عبادت ہے :

    پردہ عبادت ہے ۔
    پردہ کے وجوب پر شرعی دلائل۔
    چہرہ کے پردہ کے شرعی دلائل۔
    جہالت یا سرکشی ۔
    ہاں تعلیم کے لیے ' بے پردگی کے لیے نہیں ۔
    وہ چاہتے کیا ہیں؟
    رد کس پر کریں؟۔
    اہل دانش کے لیے عبرت




    ترجمہ
    پیرزادہ شفیق الرحمن الدراوی
    نمبر ، ای میل حذف ۔۔۔۔ انتظامیہ
     
    Last edited by a moderator: ‏ستمبر 16, 2012
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں