اقبال فکرِ اقبال اور قادیانی تحریک

عائشہ نے 'مجلسِ اقبال' میں ‏ستمبر 9, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    فکرِ اقبال اور قادیانی تحریک
    تحریر: علیم ناصری
    مدیر الاعتصام

    ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں انگریز فاتح کی حیثیت سے مختارِکل بن گیا ۔ اس نے مغل سلطنت کے تاروپود بکھیر دِیے اور ہندو ریاستوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ۔اس کو مسلمان قوم سے بہرحال خطرہ درپیش تھا کیوں کہ اس قوم میں جذبہء جہاد کسی بھی وقت ابھر آنے کی توقع تھی۔ اس لیے اس نے اس کے فکری محاذ اور دینی عقائد پر ضربِ کاری لگانے کی ڈپلومیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور انگلستان اور دیگر یورپی ممالک سے عیسائی مشنری [مبلغین اور دانشور] یہاں درآمد کرنے شروع کیے۔ یہی وہ صورتِ حال تھی جس پر اکبرالہ آبادی مرحوم نے کہا تھا ۔۔ ​
    توپ کھسکی پروفیسر پہنچے اب بسولا ہٹا تو رندا ہے ​
    یعنی حرب و ضرب [توپ و تفنگ] کے سامان کے بعد تعلیم و تبلیغ کے ہتھیار سے کام لینے کا وقت آ گیا۔ بسولا یعنی تیشہ کو سامانِ حرب سے تشبیہ دی ہے اور رندا کو تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ہموار کرنے کے عمل کے لیے بطورِاستعارہ استعمال کیا گیا ہے ۔ ​
    ان مشنریوں کے مقابلے میں مقامی علمائے اسلام بھی میدان میں اترے جن میں سوئے اتفاق سے اس اس وقت مرزا غلام احمد قادیانی بھی شامل تھا ۔ اس شخص نے یقینا اس میدان مناظرہ میں خاصی سرگرمی دکھائی اور اسلام کے دفاع میں [ منافقانہ انداز میں ] بھرپور کردار کیا ، جس کو اس دور کے اکابرین نے دادوتحسین کی نظر سے دیکھا اور اس کی ہمنوائی بھی کی۔ ان مداحین نے علامہ اقبال کا خاندان یعنی ان کے والدِگرامی اور بھائی عطامحمد بھی تھے ۔ وہ خود بھی مرزا غلام احمد کو اسلام کا خادم قرار دیتے تھے ۔ یہ ان کی طالب علمی کا دور تھا اوران کی عمر بھی ۱۶ – ۱۷ سال سے زیادہ نہ تھی ۔ اسی دور میں یعنی انیسویں صدی کی آخری دہائی میں مرزا کے ذہن میں دینی بلند نظری آفاق گیر نظر آنے لگی اور اس نے مہدیء دوراں اور پھر مسیحِ موعود ہونے کا دعوی کر دیا ۔ اس کی زندگی کا یہی موڑ تھا جہاں سے اس نے ملتِ اسلامیہ سے الگ راستہ اختیار کیا اور جلدہی نبی ہونے کا مدعی بھی بن بیٹھا ۔ علمائے وقت نے اس پر گرفت شروع کر دی اور اس کے دعوے کو ختم نبوت کے منافی قرار دیا ۔ اس نے پینترا بدلا اور اپنی "بروزی نبوت" کے بہروپ میں پیش کر دیا اور اس کے متبعین نے طرح طرح کی تاویلوں سے اس کو اس منصب کا اہل ، صاحبِ الہام ووحی اور بشیر ونذیر بنانا شروع کر دیا ۔ لاہور میں اس کے حواریوں نے نبی کی بجائے اس کو عہدِحاضر کا مجدد بنایا اور ایک باقاعدہ تحریک نے اٹھ کر "احمدیت" کا مذہب ایجاد کر لیا اور دوسرے مسلمانوں کا "کافر" قرار دے دیا ۔ علمائے وقت نے "اس نبوتِ کاذبہ " کے خلاف پوری شدت سے مزاحمتی تحریکیں چلائیں ۔ مناظرے ہوئے ، اخبارات و رسائل میں تحریری مباحثے بھی چلنے لگے اور علامہ اقبال بھی اس پر توجہ دینے پر مجبور ہوئے ۔ جب ان پر " ختم نبوت" کی عظمت پوری طرح اجاگر ہوگئی اور وہ خود بھی اس وقت تک ملتِ اسلامیہ ہند میں ایک نامور مفکر کے طورپر ابھرے تو ا نھوں نے اس کے مضامین لکھے اور مرزائی نبوت کےخلاف اپنا فیصلہ دے دیا ۔ بشیراحمد ڈار نے اپنی کتاب " اقبال اور احمدیت" کے صفحہ نمبر ۱۷ پر لکھتے ہیں : "۔۔۔چنانچہ اقبال نے ۱۹۱۶ء میں اس {کسی مرزائی کے مضمون} کے جواب میں ایک بیان دیا ۔" جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے نبی کا قائل ہو جس کا انکار مستلزمِ کفر ہو وہ خارجِ اسلام ہو گا۔ اگر قادیانی جماعت کا بھی یہی عقیدہ ہے تو وہ بھی اسلام سے خارج ہے ۔" ​
    اسی کتاب کے ص ۵۹ پر علامہ نے مزید وضاحت کی ہے : " ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا تھا جب ایک نئی نبوت ۔۔۔بانیءاسلام کی نبوت سے اعلی تر نبوت ۔۔۔ کا دعوی کیا گیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا۔ بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی ، جب میں نے تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا کلمات کہتے سنا ۔ درخت جڑ سے نہیں پھل سے پہچانا جاتا ہے ۔ اگر میرے موجودہ رویہ میں کوئی تناقض ہے تو یہ بھی ایک زندہ اور سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے ۔ بقول ایمرسن صرف پتھر اپنے آپ کو نہیں جھٹلا سکتے۔" ​
    قادیانی مصنف شیخ عبدالماجد نے علامہ اقبال پر ان کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب " زندہ رود پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک کتاب "اقبال اور احمدیت" کے عنوان سے مرتب کی اور بزعم خویش اپنے حقائق بلکہ انکشافات کا جواب طلب کیا ۔ اقبال اکیڈمی کے فاضل رکن ڈاکٹر وحید عشرت نے شیخ عبدالماجد مذکور کے "انکشافات" کا جواب ماہنامہ " مہارت " کے صفحات میں لکھنا شروع کیا ، جہاں شیخ مذکور کے مضامین چھپتے تھے ۔ انھوں نے پوری ذمہ داری اورتحقیق و کاوش کا مظاہر ہ کیا مگر عبدالماجد مذکور کی تشفی نہیں ہو سکی اور نہ ہوسکتی تھی کیونکہ وہ داستان کو جاری رکھنے کے کواہشمند تھے کہ قادیانیت پر شہرت کے دروازے یوں بھی کھلتے ہیں ۔ یہ سلسلہ کئی اقساط میں چلا اور آخر عشرت صاحب نے اسے " شوقِ فضول" سمجھ کر بند کر دیا ۔ مگر قادیانیت کی فطرت میں دورازکار مباحث میں الجھانا شامل ہے اس لیے اب انھوں نے تمام اثاثہ اس کتاب میں جھونک دیا ہے ۔ اس کاہدف صرف اقبال ہے اور اقبال کو ہمہ پہلو جھوٹا ثابت کر کے وہ لوگ مرزا کی سچائی ثابت کرنا چاہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جب اقبال جھوٹا ثابت ہو گیا تو ہمیں جو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے وہ بھی منسوخ ہو جائے گا اور ہمارے اسلام کو ہی اصل اسلام سمجھا جائے گا ۔ اس طرح دیگر تما م امتِ اسلامیہ از خود " کافر" قرار پائے گی۔ ​
    کتاب کے ٹائٹل پر ملکہ وکٹوریہ [برطانیہ] کی تصویر دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اقبال کے تین شعر درج ہیں جو اقبال کی اس نظم کا حصہ ہیں جو انہوں نے ملکہ کی وفات [۱۹۰۶ء] پر لکھی تھی اور اس کتاب کے صفحہ ۱۲۱ تا ۱۲۷ پر درج ہے ۔ اس کامقصود یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مسلمان مرزا کی بنوت کو انگریز کا "خود کاشتہ پودا " قرار دیتے ہیں اور مرزا صاحب پر معترض ہیں کہ انھون نے انگریز کی حمایت اور اپنی جماعت کے لیے اس حکومت کو سائبان قرار دیا تھا ۔ اسی کی شہ پر مرزا صاحب نے اسلامی جہاد کو منسوخ قرار دیا تھا اور مسلمانوں کو " نظریاتی افلاس" کی طرف دھکیلنے کی جسارت کی تھی ۔ اس کتاب میں مصنف نے علامہ اقبال کی "عہدِشباب " کی شاعری کو خاص طور پر ہدفِ تنقید بنایا ہے تا کہ اس کے دینی کردار کو مسخ کیا جائے ۔ مصنف کو یہ معلوم رہنا چاہیے کہ ملت اسلامیہ پاکستان اب اُس اقبل کی مداح نہیں ہے جو آپ پیش کر رہے ہیں بلکہ ہمارے سامنے صرف وہ اقبال ہے جو بانگِ درا کے بعد بالِ جبریل ، ضربِ کلیم ، پیامِ مشرق ، مثنوی اسرار ورموز ، زبورِ عجم اور ارمغانِ حجاز میں نظر آتا ہے ۔ نیز ملتِ اسلامیہ پاکستان نے قادیانیت کو اقبال کے کہنے پر غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ ان نصوصِ قرآن وسنت کے تحت فیصلہ کیا ہے جو عالمِ اسلام کی مشترکہ متاعِ عزیز ہے ۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں "آزادئ رائے " کے منافقانہ نظریہ کی بہت مانگ ہے اور اسلامی نظریات سے تہی دامن دانشوروں کو آپ ہی نہیں بہائی اور عیسائی بھی بہت اپیل کر رہے ہیں ۔ ​
    اس کتاب میں بھی جگہ جگہ ڈاکٹر جاوید اقبال کو جواب لکھنے کا چیلنج کیا گیا ہے اور ممکن ہے وہ یا ڈاکٹر وحید عشرت اس کے لیے تیار بھی ہوں مگر ہم "الاعتصام" میں ایسی فضول بحث کے روادار نہیں ہیں ۔ نہ کبھی مرزا کو ہم" سچانبی " مان سکتے ہیں اور نہ اس کی ذریت کے لیے کوئی نرم گوشہ اپنے دل میں رکھتے ہیں ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا منکر ہماری نظر میں غیر مسلم ہے اور کسی رواداری کا مستحق نہیں ۔ ​
    آخر میں ہم اقبال اکیڈمی اور دوسرے مسلم دانشوروں سے گزارش کریں گے کہ وہ جب اس موضوع پر کچھ لکھیں تو اس جماعت کے لیے " احمدی یا احمدیت کا لفظ استعمال نہ کریں بلکہ "قادیانی یا قادیانیت " لکھا کریں ۔ یہ بھی احمد[محمدصلی اللہ علیہ وسلم ] کے ساتھ اشتباہ کا پہلو رکھتا ہے ۔ سرکاری فارموں میں بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے ۔ ​



    یونیکوڈائزنگ برائے اردو مجلس: ام نورالعین

     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں