"یعبدون" کا مفہوم

بابر تنویر نے 'دین کے تین بنیادی اصول اور ان کی شرح' میں ‏ستمبر 16, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    ومعنى يعبدون يوحدون(37)
    “اور”يعبدون"کے معنی یہ ہیں کہ وہ میری واحدانیت(یکتائی)والوہیت
    (معبودیت) کو دل و جان سے تسلیم بھی کریں اور پھر قبول بھی۔”

    (37) مطلب یہ ہے کہ “توحید” عبادت ہی کے معنی و مفہوم میں ہے، وگرنہ آپ کی اطلاع کے لئے عبادت کا مطلب پہلے بھی گزر چکا ہے اور “عبادت” کا جس چیز پر بھی اطلاق ہوگا، وہ بہر صورت(معنی ومفہوم کی ادائیگی میں) توحید محض (خالی) سے عام ہوگی (یعنی جب “عبادت”اور “توحید” کا ذکرایک ساتھ ہوگا تو “عبادت” اپنے وسیع مفہوم میں عام اور اس کے بالمقابل “توحید” اپنے خاص معنی میں مقید ہوگی)....اور یہ بات بھی جان لیجئے! کہ عبادت کی دوقسمیں ہیں:

    (الف) “کونی عبادت”: اور یہ اللہ تعالی کے تکوینی امور(جولامحالہ پورے ہو کر رہتے ہیں نہ ان میں کوئی تغیر و تبدل ہوتا ہے اور نہ ان میں انسان کو کوئی اختیار دیا گیا ہے، جیسے ہر ایک انسان کے لئے موت کا ذائقہ چکھنا خواہ وہ کافر ہو یا مومن وغیرہ) کے سامنے عاجزی و فروتنی اختیار کرناہے اور “عبادت” کی یہ قسم تمام مخلوقات کو شامل ہے کوئی بھی اس سے نہ باہر نکل سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی مستثنی ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
    (إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا (سورة مريم19: 93))
    “آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب رحمن کے حضور بندہ (غلام)بن کر آئیں گے۔”
    لہذا یہ ہر مومن، کافر، نیک اور بد انسان کو شامل ہے(کسی کو اس سے مفرنہیں)

    (ب) “شرعی عبادت”: اور یہ اللہ تعالی کے امور شرعیہ کے سامنے (دل و جان سے) جھک جانا اور انہیں (اس کے حکم کے مطابق) بجالانا ہے، اور عبادت کی یہ قسم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے، جو اللہ تعالی کے حضور سرتسلیم خم کرتے، اور جو کچھ انتیاء و رسل علیہم السلام ان کے پاس (اللہ کی طرف سے) لے کر آئے ہیں وہ ان کی اتباع (پیروی) کرتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے:
    (وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (سورة الفرقان25: 63))
    “اور رحمن کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں اور اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو بس سلام کہ کر(کنارہ کش رہتے ہیں)”

    تو عبادت کی پہلی قسم کو بجالانے پر انسان کی تعریف نہیں کی جاتی (یعنی اجروثواب سے نہیں نوازا جاتا)اس لئے کہ وہ اسے کسی کام کا ارادہ و قصد کئے بغیر انجام دیتاہے،لیکن بسااوقات اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ثمرہ پراسے تعریف سے نواز اور اجر وثواب بھی دیا جاتا ہے، جیسے خوشحالی میں اللہ کے حضور شکر کا اظہار اور تنگی اور مصیبت کے وقت صبر کرنا وغیرہ، بخلاف عبادت کی دوسری قسم (شرعی عبادت) کے ، کہ اس سے متعلقہ ہر عمل پر انسان کی مدح سرائی بھی ہوتی ہے اور اس کو اجروثواب بھی ملتا ہے(بشرطیکہ وہ عمل قبولیت کی شرائط کا حامل ہو)
    والله المستعان و عليه التكلان
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. اسامہ طفیل

    اسامہ طفیل نوآموز

    شمولیت:
    ‏اگست 5, 2013
    پیغامات:
    198
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا بھائی
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں