سیرتِ شیخ علامہ احمد بن یحیی النجمی (رحمہ اللہ علیہ) سن 1346- 1429ھ

ابوبکرالسلفی نے 'مسلم شخصیات' میں ‏اکتوبر، 7, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


    سیرتِ شیخ علامہ احمد بن یحیی النجمی (رحمہ اللہ علیہ) سن 1346- 1429ھ
    فضیلۃ الشیخ محمد بن ہادی المدخلی(حفظہ اللہ)
    (رکن تعلیمی کمیٹی، کلیۃ حدیث شریف ودراسات اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
    پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام



    [FONT="Al_Mushaf"]ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ، ونعوذباللہ من شرور انفسنا، ومن سیئات اعمالنا، من یھدہ اللہ؛ فلا مضل لہ، ومن یضلل ؛ فلا ھادی لہ، واشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ، واشھد ان محمد ا عبدہ ورسولہ ، صلی اللہ علیہ ، وعلی آلہ ، وصحبہ ، ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین۔ اما بعد
    :

    بلاشبہ علماء کرام کے ہم پر حقوق ہیں جن کا ترک کرنا یقیناً ان کی حق تلفی ہے، جبکہ ان کی قدر دانی میں سے ان کی حیات کے احوال شریفہ کو ضبط تحریر کرنا، ان کے مناقب حسنہ کی تدوین، ان کے محاسن کو تادیر اوراق کتب میں زندہ رکھ کر ان کے افکار کے نتائج کو اپنے دلوں میں جاگزین رکھنا ہے۔ اسی قدر دانی میں سے ان کی اپنی زبان، دل اور اعضاء سےتعظم بجالانا اور اس چیز کے درپے نہ ہونا جو ان کی ایذارسانی کا سبب ہو، یعنی اس طرح کہ ان کی شاندارعزت پر دراندازی ، ان کے جلیل القدر مناقب کی توہین، ان کی قدر ومنزلت کو گھٹانے کے لئے گھاٹ میں بیٹھ کر انہیں کی نیک ذاتوں کو سبب اختلاف بنایا جائے۔

    قرآن مجید فرقان الحمید کی اآیات، احادیث نبویہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آثار مصطفویہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں جو کچھ وارد ہوا ہے وہ اس بات کی نہی کا متقاضی ہے اور جو اس پر عمل پیرا ہو اس کے لئے صحیح ترین راستے کی رہنمائی ہے۔ ان علماء کرام میں سے جن کا ہم پر حق ہے ہمارے شیخ علامہ احمد بن یحیی نجمی(رحمۃ اللہ علیہ) ہیں، جن کے علم سے ہم بہت بہرہ ور ہوئے، پس اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے طرف سے افضل ترین جزاء عطاء فرمائے۔ شیخ کے چاہنے والوں کی جانب سے کثرتِ طلب ہوئی کہ اگرچہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں میں آپ (رحمۃ اللہ علیہ) کی ذاتی و علمی زندگی کے احوال قلم بند کروں، اور انہوں نے غایب درجہ کی الحاح و زاری کی ، جبکہ میں اپنی عجزو کو تاہ علمی کے سبب اس سے کتراتا رہا اور ہمیشہ ان سے معذرت چاہتا رہا، لیکن ان تمام باتوں نے مجھے کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی کسی نے میرا عذر ہی قبول کیا جب میں نے ان کی جانب سے یہ حالات دکھے تو پھر میں اللہ وحدہ سے مدد طلب کرتے ہوئے یہ مختصر سی جھلک اپنے شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) کی زندگی کے بارے میں قلم بند کرتا ہوں۔

    نام و نسب
    یہ ہمارے شیخ صاحب فضیلت علامہ، محدث، مسند، فقیہ، موجودہ علاقے جازان کے مفتی ، اس میں سنت و حدیث کے علمبردار:
    شیخ احمد بن یحیی بن محمد بن شبیر نجمی آل شبیر بنی حمد میں سے جو علاقہ جازان کے مشہور قبائل میں سے ہے۔

    ولادت
    شیخ (رحمہ اللہ علیہ) بستی نجامیہ میں 22 شوال سن 1346ھ میں پیدا ہوئے ، اور اپنے نیک والدین کے یہاں پرورش پائی جن کی شیخ کے علاوہ اور کوئی اولاد نہ تھی۔

    اسی لئے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نذر مان لی کہ وہ اسے دنیا کی کسی چیز کا مکلف نہ بنائیں گے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ارادے کی تکمیل فرمائی؛ پس انہوں نے ان کی کامل محافظت فرمائی یہاں تک کہ وہ انہیں بچوں کے ساتھ کھیلنے تک کے لئے نہیں چھوڑتے تھے۔ جب وہ سن شعور کو پہنچے تو انہیں بستی کے مدرسے میں داخل کروادیا؛ جہاں اآپ نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا، اور انہی پرائیوٹ مدرسوں میں شیخ عبداللہ قرعاوی(رحمہ اللہ علیہ) کی آمد سے پہلے ہی قرآن کریم تین بار مکمل پڑھ لیا، جس میں سے آخری بار سن 1358ھ میں پڑھا جس سال شیخ قرعاوی (رحمہ اللہ علیہ) تشریف لائے تھے؟

    آپ نے قرآن کریم سب سے پہلے شیخ عبدہ بن محمد عقیل نجمی کے پاس 1355ھ میں پڑھا، پھر شیخ یحیی فقیہ عبسی کے پاس بھی قرآن مجید پڑھا جو کہ اہل یمن مین سے تھے اور نجامیہ آکر یہاں س گئے تھے، ان کے پاس بھی ہمارے شیخ نے سن 1358ھ میں تعلیم حاصل فرمائی، اور جب شیخ عبداللہ قرعاوی (رحمۃ اللہ علیہ) یہاں تشریف لائے تو ان کے اور اس استاد کے درمیان استواء کے موضوع پر مناظرہ ہوا، یہ استاد اشعری تھے پس شکست کا سامنا ہوا، اور اس نے راہ فرار اختیار کی:

    [FONT="Al_Mushaf"]فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[/FONT]
    (الانعام:45)
    (پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام عالم کا رب ہے)

    آپ کی علمی سرگرمیاں
    ان کے اشعری استاد کے بھاگ جانے کے بعد شیخ اپنے دو چچاوں شیخ حسن بن محمد نجمی اور شیخ حسین بن محمد نجمی کے ساتھ صامطہ شہر میں کچھ ایام شیخ عبداللہ قرعاوی رحمہ اللہ کے یہاں حاضر ہوئے لیکن یہ سلسلہ برقرار ہ رہ سکا، اور یہ سن 1359ھ اور سن 1360ھ کی بات ہے، صفر کے مہینے میں شیخ ایک سلفی مدرسے میں داخل ہوئے، اور اس دفعہ شیخ عبداللہ قرعاوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے کہنے پرشیخ عثمان بن عثمان حملی (رحمۃ اللہ علیہ) کے پاس قرآن تجوید کے ساتھ پڑھا اور "[FONT="Al_Mushaf"]تحفہ الاطفال[/FONT]" ، "[FONT="Al_Mushaf"]ھدایہ المستفید[/FONT]" ،" [FONT="Al_Mushaf"]الثلاثۃ الاصول[/FONT]" ،"[FONT="Al_Mushaf"]الاربعین النوعیۃ[/FONT]" حفظ فرمانے کے علاوہ حساب و خطاطی میں بھی مہارت حاصل فرمائی۔

    آپ اس حلقے میں بیٹھتے تھے جو شیخ چھوٹے طلبہ کے لئے بنایا تھا یہاں تک کہ نماز ظہر کے بعد چھوٹے طلبہ چلے جاتے، پھر اس کے بعد آپ بڑے حلقے میں شامل ہو جاتے جس میں شیخ عبداللہ قرعاوی بنفس نفیس پڑھاتے تھے؛ پس وہ ان کے ساتھ نماز ظہر سے نماز عشاء تک بیٹھے رہتے، پھر اپنے دونوں چچاوں جن کے اوپر ذکر ہوا کے ساتھ اپنی بستی نجامیہ لوٹ جاتے۔

    پھر چار مہینوں کے بعد شیخ عبداللہ قرعاوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے آپ کو اجازت مرحمت فرمائی کہ اس حلقے یعنی حلقہ کبار میں شامل ہوجائیں جس میں شیخ خود درس دیتے تھے، چنانچہ آپ نے شیخ سے: فرائض میں" [FONT="Al_Mushaf"]الرحبیۃ[/FONT]" ، نحو میں"[FONT="Al_Mushaf"]الآجرومیۃ[/FONT]" ، " العوامل فی النحومائۃ" ، عقیدے میں" [FONT="Al_Mushaf"]کتاب التوحید[/FONT]" اور" [FONT="Al_Mushaf"]العقیدۃ الطحاویۃ[/FONT]" شیخ عبداللہ قرعاوی کی شرح کے ساتھ شرح ابن ابی العز سے پہلے پڑھی، اسی طرح حدیث اور اصول حدیث میں "[FONT="Al_Mushaf"] بلوغ المرام[/FONT]" ، " البیقونیۃ" ، " [FONT="Al_Mushaf"]نخبۃ الفکر[/FONT]" اور اس کی شرح " [FONT="Al_Mushaf"]نزھۃ النظر[/FONT]" ، اور سیرت میں" [FONT="Al_Mushaf"]مختصرات فی السیرۃ[/FONT]" ، " [FONT="Al_Mushaf"]تصریف الغزی[/FONT]"، اصول فقہ میں" [FONT="Al_Mushaf"]الورقات[/FONT]" وغیرہ پڑھی۔

    اسی طرح کچھ" [FONT="Al_Mushaf"]الالفیۃ[/FONT]" ابن مالک، "[FONT="Al_Mushaf"] الدرر البھیۃ[/FONT]" اس کی شرح" [FONT="Al_Mushaf"]الدراری المضیۃ[/FONT]" کے ساتھ فقہ میں، اور یہ دونوں کتابیں امام شوکانی(رحمۃ اللہ علیہ) کی ہیں ، اور اس کے علاوہ اور بھی کتابیں ہیں جنہیں یا تو آپ نے بطور مقررہ سلیبس کے طور پر پڑھا تھا جیسا کہ پہلے بیان کردہ کتابیں تھیں، یا پھر بعض رسائل اور کتابچوں کو محض جاننے کی خاطر پڑھا تھا، یا پھر تحقیق کے موقع پر ان کا مراجع کیا تھا جیسے" [FONT="Al_Mushaf"]نیل الاوطار[/FONT]" ، " [FONT="Al_Mushaf"]زاد المعاد[/FONT]" ، " [FONT="Al_Mushaf"]نور الیقین[/FONT]" ، " [FONT="Al_Mushaf"]الموطا[/FONT]" اور "[FONT="Al_Mushaf"]الامھات[/FONT]" [1]

    سن 1362ھ میں شیخ عبداللہ (رحمۃ اللہ علیہ) نے ان طلبہ کے درمیان مکتبے میں موجود امہات یعنی" الصحیحین" ، " سنن ابی داود"، " سنن النسائی"، "موطا الامام مالک"کے اجزاء تقسیم کئے، پس انہوں نے ان کتب میں سے شیخ کے پاس کچھ پڑھنا شروع کیا مگر مکمل نہ کر پائے؛ کیونکہ وہ قحط کے سبب متفرق ہوگئے۔

    پھر آپ سن 1364ھ میں لوٹ آئے؛ اور شیخ سے پڑھا اور انہیں شیخ(رحمۃ اللہ علیہ) نے امہات ستہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔ سن 1369ھ میں شیخ ابراہیم بن محمد العمودی(رحمۃ اللہ علیہ) جو کہ اس وقت صامطہ کے قاضی تھے کے پاس کتاب" [FONT="Al_Mushaf"]اصلاح المجتمع[/FONT]" پڑھی، اور شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی(رحمہ اللہ علیہ) کی فقہ میں کتاب" الارشاد الی معرفۃ الاحکام" جو سوال و جواب کی صورت میں مرتب ہے پڑھی۔

    اسی طرح شیخ علی بن شیخ عثمان زیاد صومالی کے پاس شیخ عبداللہ قرعاوی(رحمۃ اللہ علیہ) کے فرمان پر نحو کی کتاب" العوامل فی النحومائۃ" پڑھی، اور اس کے علاوہ صرف و نحو میں مختلف کتابیں بھی پڑھی۔

    سن 1384ھ میں شیخ امام علامہ مفتی دیار سعودیہ شیخ محم دبن ابراہیم آل الشیخ(رحمۃ اللہ علیہ) کے حلقے میں حاضر ہوئے تقریباً دو مہینے کی مدت میں" تفسیر ابن جریر الطبری" عبدالعزیز الشہلوت کی قرات کے ساتھ پڑھی، اسی طرح ہمارے شیخ امام علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز(رحمۃ اللہ علیہ) کے حلقے میں تقریباً ڈیڑھ مہینے کی مدت میں حاضر ہوئے جہاں" صحیح البخاری" مغرف و عشاء کے درمیان پڑھی ۔

    آپ کے مشائخ
    جو کچھ بیان ہوا اس سے تقریباً آپ کے جو جو مشائخ ہم پر واضح ہوئے وہ یہ ہیں:

    شیخ ابراھیم بن محمد العمودی(اپنے دور کے قاضی صامطہ)
    شیخ ھافط بن احمد الحکمی(رحمۃ اللہ علیہ)
    شیخ علامہ جنوب عرب میں داعی و مجدد عبداللہ قرعاوی (رحمۃ اللہ علیہ)، او رانہی کے پاس سے شیخ احمد کا تخرج ہوا، اور ایہی وہ شیخ ہیں جن سے انہوں نے سب سے زیادہ استفادہ حاصل فرمایا۔
    شیخ عبدہ بن محمد عقیل نجمی
    شیخ عثمان بن عثمان حملی
    شیخ علی بن شیخ عثمان زیاد صومالی
    شیخ امام علامہ سابق مفتی مملکت سعودیہ محمد بن ابراہیم آل الشیخ(رحمۃ اللہ علیہ)
    شیخ یحیی جو عبسی یمنی فقیہ تھے۔

    آپ کے تلامیذ
    ہمارے شیخ کے بہت سے تلامیذ ہیں، جو شخص تدریس میں اتنی مدت جو تقریباً نصف صدی بنتی ہے گزارے تو آپ اندازہ کریں کہ کتنے ہی ان کے تلامیذ ہوں گے، اگر میں ان تمام کو گننے لگ جاوں تو اس کے لئے ایک ضخیم مجلد کی ضرورت پڑے گی؛ میں بس کچھ ایسے نمونوں پر اکتفاء کرتا ہوں جو باقی ماندہ پر دلالت کرتے ہیں؛ چناچہ ان میں سے:

    ہمارے شیخ محدث ناصر السنۃ شیخ ربیع بن ہادی۔
    ہمارے شیخ علامہ فقیہ زید بن محمد ہادی المدخلی۔
    ہمارے شیخ عالم وفاضل علی بن ناصر الفقیھی۔

    میں نے انہی تینوں کے ذکر پر ان کی علمی حلقوں میں شہرت کے سبب اکتفاء کیا، لہذا باقی ماندہ کا نام ذکر نہ کرنے کے سبب کوئی ہم پر عتاب نہ کرے۔

    آپ کی ذبانت
    شیخ بڑے عالی درجہ ذہانت کے حامل تھے ، اس سلسلے میں ایک قصہ پیش خدمت ہے جو آپ کی صغیر سنی میں ہی ذہانت وقوت حفظ پر دلالت کرا ہے، چچا شیخ عمر بن احمد جردی المدخلی(وفقہ اللہ) فرماتے ہیں:
    (جب شیخ احمد اپنے چچاوں حسن و حسین نجمی کے ساتھ مدرسہ السلفیہ صامطہ میں حاضر ہوتے تھے یعنی سن 1359ھ میں، او اس وقت آپ کی عمر 13 سال ہوتی تھی آپ شیخ عبداللہ قرعاوی کے وہ دروس جو وہ اپنے بڑے طلبہ کو ارشاد فرمایا کرتے تھے سنا کرتے تھے اور انہیں حفظ فرمالیا کرتے تھے)۔
    میں کہتا ہوں یہی وجہ تھی کہ شیخ عبداللہ قرعاوی نے انہیں اپنے حلقہ کبار جس میں شیخ خود پڑھایا کرتے تھے میں شامل کردیا؛ کیونکہ انہوں نے آپ کی اس امتیازی شان یعنی سرعت حفظ اور ذہانت کیا مشاہدہ فرمایا تھا۔

    آپ کے اعمال و کارنامے
    ہمارے شیخ(رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے شیخ قرعاوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے مدارس میں بطور مدرس مفت خدمات سر انجام دیں، پھر جب وظیفے ملنا شروع ہوے تو اپنی بستی نجامیہ میں مدرس مقرر ہوئے، جو سن 1367 ھ کی بات ہے۔ اس کے بعد آپ سن 1372ھ میں بطور امام و مدرس بستی ابو سبیلہ جو کہ حُرث میں ہے منتقل ہوگئے۔ پھر سن 1374ھ میں بتاریخ 1/1/1374ھ میں جب صامطہ میں معہد العلمی کا افتتاح ہوا تو وہاں مدرس متعین ہوئے اور وہاں سے سن 1384ھ میں اس امید پر ریٹائر ہوئے کہ شاید انہیں جامعہ اسلامیہ مدیہ نبویہ میں تدرس کا موقع مل سکے اور اس کی جانب عازم سفر ہوئے؛ لیکن بعض ایسی مشغولیات درپیش ہوئین جو اس راہ میں حائل ہوگئیں، پس آپ اپنے علاقے میں لوٹ آئے، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے جازان کے علاقے میں وزارت عدل کی جانب سے واعظ و مرشد ہونا تقدیر فرمایا، لہذا آپ اس وعظ و ارشاد کے فریضے سے بحسن خوبی عہدہ براء ہوئے۔

    1/7/1387ھ میں معہدا العلمی جازان میں حسب طلب ایک بار پھر مدرس مقرر ہوئے، اسی طرح تعلیمی سال سن 1389ھ کے آغاز میں صامطہ کی معہد میں دوبارہ بطور مدرس مقرر ہوئے، اور اپنی ریٹائر منٹ بتاریخ 1/7/1410ھ تک وہیں مدرس رہے۔

    اس وقت سے ان سطور کے لکھنے تک آپ فتویٰ نویسی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور پڑوس کی مسج دمیں ہی تدریس فرماتے ہیں، اور اس کے علاوہ علاقے کی دیگر مساجد میں بھی آپ کے ہفتہ وار دروس منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

    ان تمام تر سرگرمیوں کے باوجود آپ اپنے شیخ (رحمہ اللہ علیہ) کی اس وصیت پہر بھی عمل پیرا ہیں کہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور طالبعلموں کی محافظت کی جائے خصوصاً جو ان میں سے غرباء اور نادار ہیں، اور آپ کا اس معاملے میں عجیب و غریب صبر تھا، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر سے نوازے۔
    اسی طرح اپنے شیخ القرعاوی(رحمۃ اللہ علیہ) کی اس وصیت پر بھی عمل پیرا رہے کہ تعلیم، تھقیق و استفادہ کا عمل جاری رکھیں خصوصاً حدیث و فقہ کا علم، چنانچہ اس پر عمل کرتے ہوئے اپ درحقیقت ان اصول میں ایک مایہ ناز مقام پر فائز ہوئے، اور آپ کو اس میں یدطولی حاصل ہوا(اللہ تعالیٰ آپ کی عمر، علم میں برکت فرمائے اور آپ کی مساعی خیر سے لوگوں کو بہرہ ور
    فرمائے)[2]

    آپ کے علمی آثار
    ہمارے شیخ(رحمۃ اللہ علیہ) کے بہت سے علمی آثار ہیں جن میں سے بعض طبع ہوچکے ہیں اور بعض غیر مطبوع ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ان کے طبع کرنے کے لئے آسانی کے سامان میسر فرمادے تاکہ ان سے بھر پور فائدہ حاصل ہو۔ آپ کے بعض علمی کارنامے مندرجہ ذیل ہیں:

    1-[FONT="Al_Mushaf"] او ضح الاشارۃ فی الرد علی من اباح الممنوع من الزیارۃ۔[/FONT]
    2-[FONT="Al_Mushaf"] تاسیس الاحکام عی ماصح عن خیر الانام بشرح احادیث عمدۃ الاحخام[/FONT](اس کا بہت مختصر جزء ہی چھپ سکا ہے، اور اس کے پہلے جزء پر علامہ محدث ناصر الدین البانی(رحمۃ اللہ علیہ) نے تعلیق فرمائی ہے)۔
    3- [FONT="Al_Mushaf"]تنزیہ الشریعۃ عن اباحۃ الاغانی الخلیعۃ۔[/FONT]
    4- [FONT="Al_Mushaf"]رسالۃ الارشاد الی بیان الحق فی حکم الجھاد۔[/FONT]
    5- [FONT="Al_Mushaf"]رسالۃ فی حکم الجھر بالبسملۃ۔[/FONT]
    6- [FONT="Al_Mushaf"]فتح الرب الودود فی الفتاویٰ والردود۔[/FONT]
    7- [FONT="Al_Mushaf"]المورد العذ الزلال؛ فیما انتقد علی بعض المناھج الدعیۃ من العقائد والاعمال۔[/FONT]
    8- [FONT="Al_Mushaf"]التعلیقات البھیۃ علی الرسائل العقدیۃ۔[/FONT]
    9-[FONT="Al_Mushaf"] تخریج مائتی حدیث فی الاذکار المشروع۔[/FONT]
    10- آپ کی بعض مخطوطات جو عنقریب منظر عام پر آئیں گی ان شاء اللہ: شرح صحیح مسلم، کتاب التوحید اور نیل الاوطار۔
    اس کے علاوہ اور بھی مفید مولفات ہیں جو آپ (رحمہ اللہ علیہ) نے تصنیف فرمائی، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور ان کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کو نفع بخشے۔

    آپ کی وفات
    شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) کو آخری ایام میں انتہائی شدید مرض لاحق ہوا جس کی وجہ سے آپ شاہ فہد ہسپتال ریاض بھی منتقل ہوئے، جہاں تقریباً آپ آٹھ ماہ کومے میں رہنے کے بعد اسی مرض میں بروز بدھ 2- رجب سن 1429ھ بمطابق 23 جولائی سن 2008 ع میں وفات پاگئے۔ پھر آپ کو آپ کی آبائی بستی نجامیہ میں دفن کیا گیا، اور آپ پر ایک جم غفیر نے نماز جنازہ ادا فرمایا جن کی کثرت کے سبب آپ پر چار بار نماز جنازہ ادا کی گئی، جنہوں نے اس جنازے میں شرکت کی انہوں نے اس سے قبل اتنا بڑے جنازے میں کبھی شرکت نہ کی تھی، اس کے علاوہ پوری دنیا میں آپ کی غائبانہ نما زجنازہ ادا کی گئی، اور لوگوں نے آپ کے قریبی ساتھی اور تلمیذ شیخ زید بن محمد المدخلی (حفظہ اللہ) سے شدید اظہار افسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے شیخ النجمی پر اپنی رحمت وسیع فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے، اور در ودوسلام ہو ہمارے نبی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کی آل و تمام اصحاب پر۔[3]
    ………………
    [1]: امھات یعنی امھات کتب احادیث جیسے کتب ستہ بخاری، مسلم، ابوداود، ترمذی ، ابن ماجہ اور نسائی وغیرہ۔
    [2]: یہ شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) کی وفات سے پہلے کی بات ہے۔
    [3]: وفات کے بارے میں آپ کے تلمیذ خالد بن مبارک الھیم کے قلم سے لیا گیا ہے۔

    [/FONT]
     
  2. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
  3. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    یہی بات میں نے بھی نقل کی تھی کہ انہوں نے کسی حدیث کے ماہر استاذ سے امہات ستہ نہیں پڑھیں
    اور نہ ہی کسی عقیدہ کے ماہر استاذ سے عقیدہ پڑھا ہے

    ہاں کتب ستہ پڑھنا شروع کیں لیکن پڑھ نہ سکے اور صرف اجازہ پر ہی اکتفاء کیا ۔ اور ذاتی مطالعہ میں کتنی وسعت تھی ‘ اس سے ہمیں سرو کار نہیں ۔ کیونکہ بات اساتذہ سے علم حاصل کرنے کی ہے ۔
    [/font]
     
  4. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
  5. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    آپ نے یہ بات نہیں‌ بلکہ اسی بات کو الگ طریق سے بیان کیا تھا۔ آپ کے بیان کرنے کا مقصد ایسا تھا جیسے آپ ذاکر نائک جیسوں‌کی علمی قابلیت بیان کررہے ہیں۔ یہ علماء‌حق سے تعصب ہے۔
    اس کی ایک اور مثال شیخ‌ربیع حفظہ اللہ کے بارے میں‌ یہ بیان کرنا کہ وہ اسرائیل کو برا بھلا کہنے سے منع کرتے ہیں تاکہ لوگ ان سے متنفر ہو جائیں۔ مکمل یہی مقصد اس پوسٹ میں نظر آتا تھا مگر مکرنے میں تو آپ ماہر ہیں۔

    شیخ‌رحمۃ اللہ نے اپنے دیار کے مشہور اور علم میں‌امانت دار علماء سے علم حاصل کیا ہے۔ کسی عالم سے علم حاصل کرنے سے پہلے اس عالم کا تزکیہ ہمارے نزدیک ضروری ہے آپ کے نزدیک نہیں‌۔ شیخ یحیی النممی پر یہ اعتراض‌کرنا کہ کسی بڑے عالم سے حدیث نہیں‌پڑھی وغیرہ باطل ہیں۔
    براے مہربانی میری اس پوسٹ کو بحث کا نشانہ نہ بنائیں۔ اسی لئے میں نے اس تھریڈ میں آپ کے فضول گوئی کا جواب نہیں دیا تھا جو شیخ‌النجمی کے بارے میں‌بیان کی گئی تھی۔ شکریہ




     
  6. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    شیخ احمد النجمی کے بارہ مہیں ہمرا موقف واضح ہے.
    اور شیخ ربیع کے بارہ میں بھی میں اپنا موقف واضح لفظوں میں لکھ چکا ہوں کہ وہ کٹڑ سلفی ہیں اور بعض معاملات میں متشدد ہیں. انکے اسرائیل کے بارہ میں مضمون کا ترجمہ میں نے ان کے علم وفضل کا اعتراف کرتے ہوئے کیا تھا. اور اب جبکہ ان کے بارہ میں یہ کہا گیا کہ سی آئی اے انکی توصیف کرتی ہے تو میں نے شیخ کے دفاع میں اسے یہاں پوسٹ کیا اور بعد میں وضاحت بھی کر دی تھی کہ یہ کیوں پوسٹ کیا گیا ہے.
    اور اس مضمون سے شیخ کی سنت سے والہانہ محبت ہی ثابت ہوتی ہے اور یہود سے شدید نفرت.
    لیکن آنجناب کے سر پہ سوار بھوت کو کون اتارے ....
     
  7. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    شاید آپ جیسے لوگ علماء کی تعریف و سیرت اس طرح‌بیان کرتے ہیں۔
    ملاحظہ ہو:
    سبحان اللہ،
    آپ کی بیان کردہ سیرت میں اور یہاں بیان کردہ سیرت میں‌کتنا فرق ہے؟
    اسے کہتے ہیں‌ چوری اور پھر سینہ زوری۔ اسی لئے میں‌نے اس پر کوئی تبصرہ ہی نہیں‌ کیا اور صرف شیخ کی سیرت کو پیش کر دیا۔ تاکہ آپ کے انداز بیان و علماء‌سے بغض کا ذرا اندازہ ہوجائے۔
    .خیر میں اس دوسری تھریڈ کی باتیں‌یہاں‌چھیڑنا نہیں چاہتا۔ لہذا اس لئے بحث کو ختم کیا۔
    اور اس طرح آپ کا امانت علمی بھی معلوم ہو گی کہ صرف جس بات سے ان کی تنقیص کرنا مقصود تھی وہ پیش کر دی گئی۔ اب آئیں بائیں شائیں لاکھ کرتے رہیں، ذبان سے نکلی ہوئی بات کی تلافی ممکن نہیں‌سوائے توبہ کے ۔

    یعنی بدعتی ہیں؟ کیونکہ سلفیت تو آپ کے نزدیک بدعت ہے۔ اپنا موقف یاد رکھیں۔
    دوسری بات مجھے بڑی ہنسی آتی ہے اور یہ کسی مزاق سے کم نہیں، خود سلفیت کے بدعت ہونے پر دلائل پیش کیئے جائیں پھر علماء کا اکرام و حق پر ہونے کی دلیل سلفیت کی جانب انتساب سے دیا جائے۔

    اناللہ وانا الیہ راجعون۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک اردو مجلس کے ممبرز نابینا ہیں۔ ایک آپ کے حواری کا شیخ ربیع کو سی آئی اے کا ایجنٹ ثابت کرنے کے بعد اسرائیل(اسم) کو برا نہ کہنے پر دلیل دینا در اصل اس بات کو واضح‌کرنا ہے کہ یہ بات حقیقت ہے کہ شیخ سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں۔ کیا علماء‌کو سلفی مان جانے کے بعد ان پر اس طرح‌کے الزامات پر صرف خاموشی ہی نہیں‌ بلکہ اس پر دلائل بیان کرنا تعصب نہیں؟
    الغرض، حق ہمیشہ پہچان لیا جاتا ہے۔ خواہ چھپانے والے کتنا ہی چھپائیں۔

    جی ہاں‌، بعد کی وضاحت تو شاید کبھی نہ آتی، وہ تو ایک صاحبہ کی توجہ دلانے پر آپ کو یاد آیا "ارے یہ تو سلفی عالم ہیں" !!! لاحولۃ ولاقوۃ الاباللہ۔

    اللہ ہی بہتر جانتا ہے، ظاہر اس بات کی گواہی نہیں دیتا۔
    اب برائے مہربانی، میرے اس تھریڈ کو اپنا بائی لیکس و پال ٹاک نہ بنائیں۔ شکریہ۔

     
  8. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    سلفيت كو مين نے کب اور کہاں بدعت کہا؟
    بہتان درازی آپکو بہت آتی ہے
    ذرا دلیل پیش کریں.

    میرا سلفیت کو بدعت کہنے والا جملہ نقل کریں
    وگرنہ آپکاکذاب و دجال ہونا جیسے باقی جگہوں پر ثابت ہوا یہاں بھی ہو جائے گا
     
  9. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    ابو بِکر صاحب آئے اور دلیل پیش کیے بغیر چلے گئے
    یعنی اپنے کذاب ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر کے چل دیے!
     
  10. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    میں‌ آپ سے گزارش کر چکا ہوں کہ میرے اس موضوع کو اپنا اکھاڑہ نہ بنائیں۔ شکریہ
     
  11. حماد

    حماد -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 16, 2011
    پیغامات:
    47
    اکھاڑہ بنانے کا آغاز تو تونے کیا ہے شیخ پر بہتان لگا کر ۔ اگر اسلامی نظام حکومت قائم ہوتا تو تجھے اسی کوڑے لگتے اور سر عام لگتے ۔ ایک بات شیخ نے کہی نہیں اور تو کہہ رہا کہ کی ہے ۔ پھر جھوٹ بول کر راہ فرار اختیار کرنے کے بہانے دیکھو کہ " میرے اس موضوع کو اکھاڑہ نہ بنائیں " تجھے بھی میں کہتا ہوں کہ تو بھی سلفیوں کے فورمز کو اپنا اکھاڑہ نہ بنا ۔ اور فیس بک پہ جاکر اپنا گند گھول جو گھولنا ہے ۔
    کبھی فرحت ہاشمی کے حسد میں جلتا ہے کبھی شیخ نورپوری سے حسد کی آگ تجھے لپیٹتی ہے اور کبھی سلفی تنظیموں کو دیکھ کر تیرے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے ۔ چل بھاگ کوفی لا یوفی کہیں کا ۔



    شیخ رفیق طاہر صاحب ! آپ سے اپیل ہے کہ آپ اس بندے کو منہ نہ لگائیں یہ ہمارا ککڑ ہے ہمیں روسٹ کرنے دیں ۔ آپ کوئی شتر مرغ تلاش کریں یا صبر کریں ۔
    ہم اپنی بےعزتی سمجھتے ہیں کہ آپ اس بندے کو لفٹ کروائیں ۔ برائے مہربانی ہمیں خدمت کا موقع دیں میں اسے بھی اسکے پیر ومرشد طارق بروہی اور اسکے مصدر سلف سبھی کو اچھی طرح جانتا ہوں آپ بے فکر رہیں ۔

     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں