وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم وصیت قسط: 2/3

بابر تنویر نے 'سیرتِ اسلامی' میں ‏جنوری 8, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم
    کی ایک اہم وصیت
    قسط: 2/3
    از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ​



    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیز یہی اثر مصنف عبد الرزاق میں بھی ہے اسمیں مزید یہ بھی مذکور ہے کہ خود حضرت عمر نے فرمایا: میں قبر کہہ رہا ہوں ،وہاں نماز نہ پڑھو۔
    مصنف عبد الرزاق1/404
    4—مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ قبر پر تعمیر کو حرام سمجھتے تھے ۔


    قبروں کو مسجد بنانے کا معنی۔
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ناصحانہ اور تاکیدانہ فرمان اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اس تعامل کے بعد اپنے دین وایمان پر حریص ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ غور کرے کہ ان احادیث میں وارد " قبروں کو مسجد بنا لیا تھا " کا معنی کیا ہے؟

    علماء کے اقوال پر نظر ڈالتے ہیں تو اس لفظ کے تین معنی ہمیں ملتے ہیں اور تینوں ہی اس ممانعت داخل ہیں:
    1- قبروںپر سجدہ کرنا
    2-نماز ودعا کیلئے قبر کو بطور قبلہ کے استعمال کرنا۔
    3—قبروں پر مسجد تعمیر کرنا اور اس مسجد میں نماز کی اہمیت دینا ۔ اسی حکم میں کسی بڑی شخصیت کو مسجد میں دفن کرنا بھی ہے۔
    پہلے معنی کی وضاحت
    یعنی قبر پر سجدہ کرنا یہ سجدہ بطور تعظیم کے بھی ہوسکتا ہے اور بطور طلب رضا کے بھی کہ صاحب قبر ہم سے راضی ہو جائے اور اللہ تعالی کے حضور ہماری شفارش کرے ، یہ عین عبادت اور رب کی طرف سے لعنت کا سبب ہے ، اس حدیث کی شرح میں علماء نے اس معنی کی صراحت کی ہے، چنانچہ حافظ احمد بن حجر الہیتمی نے اپنی مشہور کتاب الزواجر 1/121 پر لکھتے ہیں : "قبر کو مسجد بنانے کا معنی یہ ہے کہ اس پر نماز پڑھی جائے { سجدہ کیا جائے} یا اسکی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جائے "۔
    یہی معنی امام الصنعانی نے بھی سبل السلام میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے۔ 1/296،297۔
    اس معنی کی تایید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض حدیثوں سے بھی ہوتی ہے، مثلا:


    1-- نهى نبي الله صلى الله عليه و سلم ان يبنى على القبور أو يقعد عليها أو يصلى عليها .
    مسند ابويعلى 2/297، بروايت ابوسعيد الخدري

    نبی صلی اللہ علیہ و سلم قبروں پر عمارت تعمیر کرنے ،اس پر مجاور بن کر بیٹھنے اور اس پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

    2-- لا تصلوا إلى قبر ولا تصلوا على قبر".
    الطبراني الكبير(مجمع الزوائد2/27) بروايت ابن عباس. تحذير الساجد ص 31.
    نہ قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو اور نہ قبروں پر نماز پڑھو۔

    دوسرے معنی کی وضاحت۔
    یعنی شریعت میں اس امرسے بھی روکا گیا ہے کہ کسی بزرگ یا ولی کی قبر کو اپنے سامنے کرکے نماز پڑھی جائے ، جسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس بزرگ کو اللہ تعالی کے نزدیک ایک مقام حاصل ہے ،لہذا اسکی برکت سے ہماری دعا اور نماز قبول کی جائے گی ، چونکہ شرک کی طرف یہ پہلا قدم ہے اور گزشتہ امتوں میں اسی راستے سے شرک داخل ہوا ہے ،لہذا امت محمدیہ کو اس کام سے سختی سے روکا گیا اور ایسا کرنے والے کو اللہ کی رحمت سے دور ہونے کی وعید سنائی گئی ، حافظ عبدالرءوف مناوی رحمہ اللہ حدیث
    :" قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ".کی شرح میں لکھتے ہیں : قبروں کو مسجد بنانے کا معنی یہ ہے کہ یہود بطور قبلہ کے اپنے سامنے رکھکر نماز پڑھتے تھے4/612۔
    اس معنی کی وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد حدیثوں میں صراحت کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ:
    1-- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے سے منع فرمایا" ۔


    صحیح ابن حبان:2317، 4/133۔
    2—حضرت ابومرثد الغنوی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "لاَ تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلاَ تَجْلِسُوا عَلَيْهَا".
    صحیح مسلم:972، مسند احمد4/135، ابوداود:3229 ، النسائی2/67۔


    نہ قبروں کی رخ کرکے نماز پڑھو اور نہ ہی اس پر بیٹھو۔
    3—حضرت عون بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میری ملاقات صحابی رسول حضرت واثلہ بن الا سقع رضی اللہ عنہ سے ہوئی، میں نے عرض کیا کہ شام میں میرا کوئی کام نہیں ہے صرف آپ سے ملاقات کی غرض سے آیا ہوں ،لہذا مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو ، انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ فرما رہے تھے
    :
    اللَّهُمَّ ارْحَمْنَا، وَاغْفِرْ لَنَا، وَنَهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ إِلَى الْقُبُورِ، أَوْ نَجْلِسَ عَلَيْهَا.

    المعجم الكبير22/79, مسند البزار:442,1/221كشف الأستار.
    اے اللہ تو ہمارے اوپر رحم کر ، ہمیں معاف فرما ، اور ہمیں اس بات سے منع فرمایا کہ ہم قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں یا اس پر بیٹھیں۔

    3—نیز حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے درمیان نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

    صحیح ابن حبان:1697،3/243، مسند البزار{المجمع2/27}۔

    تیسرے معنی کی وضاحت
    زیر بحث حدیثوں کا تیسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے اور یہی معنی الفاظ حدیث کے زیادہ قریب ہے کہ نبیوں ، ولیوں اور بزرگوں کی قبروں پر یا انکی قبرکے پہلو میں مسجد تعمیر کی جائے یا کسی نبی یا ولی وبزرگ کو مسجد میں دفن کیا جائے اور اسمیں نماز ، دعا اور اعتکاف وغیرہ کو زیادہ اہمیت دی جائے ، جیسا کہ آج بہت سے بزرگوں کے مزارات بنے ہیں اور وہاں حاضری کی وہ اہمیت دی جاتی ہے جو عام مسجدوں میں پنجوقتہ نماز کو نہیں دی جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں باب منعقد کرتے ہیں : "باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد علی القبور"۔ باب اس بیان میں کہ قبروں پر مسجدیں بنانا منع ہے، پھر اس باب کے تحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث نقل کی ہے جس میں یہ بیان ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اس مرض میں جس میں آپ کی وفات ہوئی فرماتے تھے : " لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا" یہود ونصارا پر اللہ تعالی کی لعنت ہو کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا۔ یہ فرمان رسول بیان کرنے کے بعد حضرت عائشہ ؓ اسکی مزید وضاحت کرتی ہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ و سلم کو اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ آپصلی اللہ علیہ و سلم کی قبر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کریں گے تو آپ کی قبر بھی کھلے میدان میں بنائی جاتی، لیکن خطرہ تھا کہ آپ کی قبر کو بھی مسجد بنا لیا جائے گا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔
    اس کی مزید وضاحت نبیصلی اللہ علیہ و سلم کے مرض وفات میں پیش آمدہ اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب ازواج مطہرات نے اس کنیسہ کا ذکر کیا جسے حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ نے حبشہ میں دیکھا تھا ، اسمیں موجود تصاویر اور انکی خوبصورتی کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:


    " إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ فَأُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوم القيامة. صحيح البخاري و صحيح مسلم
    یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں سے کسی نیک آدمی کا انتقال ہو جاتا تو اسکی قبر پر مسجد بنا لیتے ، یاد رکھو یہ اللہ تعالی کے نزدیک قیامت کے دن بدترین قسم کے لوگ ہیں۔
    نبی کریمصلی اللہ علیہ و سلم اس بارے میں ویسے بھی امت کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ نہ قبروں کو پختہ بنایا جائے نہ ان پر مجاور بنکر بیٹھا جائے اور نہ اس پر کسی قسم کی عمارت تعمیر کی جائے، چنانچہ جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ


    نهى رسول الله ان يجصص القبر وأن يقعد عليها وأن يبنى عليها
    صحيح مسلم :970 الجنائز، مسند احمد3/339، ابوداود:3226 الجنائز، الترمذي: 1052 الجنائز، النسائي4/86.
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ قبر کو پختہ بنائی جائے ، اس پر [مجاور] بن کر بیٹھا جائے،اور اس پر عمارت تعمیر کی جائے۔

    قبروں پر مسجد کی تعمیر کبیرہ گناہ ہے۔
    کبیرہ گناہ کسکو کہتے ہیں۔
    کبیرہ گناہ اللہ ورسول کی نافرمانی کے وہ کام ہیں جنکے کرنے والے کو اللہ کے غضب ، لعنت ،اللہ کی رحمت سے دوری اور جہنم میں داخلے کی دہمکی دی گئی ہو۔
    متعدد علمائے کرام کی بیان کردہ اس تعریف کو سامنے رکھ کر اگر مذکورہ حدیثوں اور ان میں وارد وعید پر نظر کرتے ہیں تو اس بارے میں کوئی شبہہ نہیں رہ جاتا کہ قبروں پر مسجد و گنبد وغیرہ کی تعمیر کبیرہ گناہ ہے ، کیونکہ اولاتو ایسے لوگوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے اور یہ امر مسلم ہے کہ لعنت انہیں اعمال پر ہوتی ہے جو شرع کی نظر میں قبیح اور گناہ کبیرہ ہوتے ہیں ، ثانیا اس سلسلے کی وارد بعض حدیثوں میں ایسے لوگوں کے بارے میں یہ فرمان نبوی ہے : "اولئک شرار الخلق عند اللہ" یہی لوگ اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں، چنانچہ ایسے لوگوں کو بدترین مخلوق قرار دینا اس کے کبیرہ گناہ ہونے کی واضح دلیل ہے، نیز بہت سے علمائے محققین بصراحت اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کرتے آئے ہیں ، ان میں سے بعض کے نام درج ہیں:
    1-- امام محمد بن الحسن الشیبانی حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب الآثار میں لکھتے ہیں :
    ہم یہ جائز نہیں سمجھتے کہ قبر سے نکلی ہوئی مٹی سے زیادہ مٹی اس پر ڈالی جائے ، اسی طرح قبر کو پختہ بنانا ، اسے لیپ کرنا اور اسکے قریب مسجد بنانا ہم مکروہ سمجھتے ہیں ص 45۔
    2-- امام قرطبی متوفی سنۃ 671ھ صاحب تفسیر اپنی مشہور تفسیر احکام القرآن میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہمارے علماء یعنی علماء مالکیہ کہتے ہیں کہ " مسلمانوں پر حرام ہے کہ نبیوں اور علماء کی قبروں پر مسجد یں تعمیر کریں 10/380۔
    3--عالم ربانی حافظ ابو بکر ابن القیم متوفی سنۃ 751ھ نے بھی اپنی مشہور کتاب اغاثۃ اللہفان 1/90 اور اسکے بعد کئی صفحات پر اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور اس عمل کا کبیرہ گناہ ہونا ثابت کیا ہے ۔ نیز اس پر وارد ہونے والے اعتراضات کا جواب دیاہے ، ہر طالب علم کو چاہئے کہ اس موضوع کو وہاں ضرور پڑھے ۔
    4-- امام ابو زکریا احمد ابن النحاس الدمشقی متوفی سنۃ 814ھ اپنی مشہور اور اہم کتاب تنبیہ الغافلین ص306 پر لکھتے ہیں : "ان اعمال میں سے جنکا ذکر بہت سے علماءنے کبیرہ گناہوں میں کیا ہے ، ایک کبیرہ یہ بھی ہےکہ قبروں پرمسجدیں تعمیر کی جائیں اور ان پر چراغاں کیا جائے" پھر اس باب کے تحت وہی متعدد حدیثیں ذکر کی ہیں جن کا ذکر اس سے قبل آ چکاہے، پھر حدیثیں ذکر کرنے کے بعد اپنی تایید میں حافظ ابن القیم اور ابو محمد الدمشقی کے اقوال نقل کئے ہیں۔
    5--مشہور شافعی عالم وفقیہ احمد بن حجر الہیتمی متوفی سنۃ 974ھ اپنی مشہور کتاب "الزواجر عن اقتراف الکبائر 2/286 اور اسکےبعد" میں لکھتے ہیں: کبیرہ نمبر 93، 94، 95، 96، 97اور98۔ قبروں پر مسجد بنانا ، اسپر چراغ جلانا ، انھیں بت کی حیثیت دینا ، انکا طواف کرنا ، انکا چومنا اور بطور تبرک چھونا اور انکی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا ہے۔ پھر اس سلسلے کی کئی حدیثیں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :ان چھ امور کا گناہ کبیرہ ہونا بعض علماء شافعیہ کے کلام سے بالکل واضح ہے ۔گویا انکا استدلال میری ذکر کردہ حدیثوں سے ہے، جہاں تک یہ مسئلہ کہ قبروں کو مسجد بنانا کبیرہ ہے تو یہ ان احادیث سے بالکل واضح ہے ، اسلئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے شخص کو ملعون ٹھہرایا ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کے ساتھ ایسا معاملہ کرے ،مزید جو لوگ اپنے ولیوں اور بزرگوں کی قبروں کے ساتھ ایسا کریں انھیں قیامت کے دن اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق کہا گیا ہے، لہذا اسمیں ہمارے لئے تنبیہ ہے جیسا کہ ایک روایت میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا اس لئے فرمایا تاکہ لوگ یہود ونصارا کی ان حرکتوں سے دور رہیں اور اگر امت نے ایسا کیا تو یہود ونصارا کی طرح یہ لوگ بھی ملعون ٹھہریں گے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے علماء { علمائے شافعیہ} نے کہا ہے کہ بطور تبرک وتعظیم نبیوں اور ولیوں کی قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا حرام ہے، اسی حکم میں اس پر نماز پڑھنا [ اس پر سجدہ کرنا] بھی داخل ہے،ان اعمال کا کبیرہ گناہوں میں داخل ہونا مذکورہ حدیثوں سے واضح ہے، جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا، نیز بعض علمائے حنابلہ[ شاید حافظ ابن القیم کی طرف اشارہ ہے] کا کہنا ہے کہ تبرک حاصل کرنے کے لئے کسی قبر کے پاس نماز پڑھنا اللہ اور اسکے رسول کی کھلی نافرمانی اور دین میں ایسی بدعت ایجاد کرنا ہے جسکی اجازت اللہ تعالی نے قطعا نہیں دی ہے ، ان کاموں کی ممانعت بطور اجماع ثابت ہے ، اسلئے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنا اور انہیں مسجد بنا لینا سخت حرام اور شرک کا ذریعہ ہے، اور جن علماء نے اسے مکروہ لکھا ہے تو انکا مقصدکچھ اور ہے اسلئے کہ جس عمل پر لعنت بھیجنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو اور اسے علماء جائز[ مکروہ تنزیہی] قرار دیں ،انکے بارے میں ایسا گمان نہیں رکھا جاسکتا ، لہذا ایسی تمام مسجدوں کو ڈھا دینا اور اسپر بنے ہوئے گنبدوں کو مسمار کردینا واجب ہے، اسلئے کہ انکا ضرر مسجد ضرار سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ انکی تعمیر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی اور آپ کے حکم کے ساتھ بغاوت ہے، کیونکہ آپ نے اس سےمنع فرمایا ہے اور اونچی قبروں کو مسمار کردینے کا حکم دیا ہے،لہذا ہر وہ چراغ اور قندیل جو قبروں اور مزاروں پر ہے اسے زائل کرنا واجب ، اسپر وقف اور اسکے لئے نذر ماننا حرام ہے ۔ الزواجر 2/286، 287۔
    واضح رہے کہ ائمہ متقدمین کے نزدیک مکروہ حرام کا ہم معنی ہوتا تھا ، اور کراہت کا یہی معنی قرآن وحدیث میں بھی ہے، مثال کے طور پر صرف ایک آیت اور ایک حدیث ہم ذکر کرتے ہیں جسے مزید تفصیل درکار ہو وہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب تحذیر الساجد کی طرف رجوع کرے۔
    سورہ بنی اسرائیل میں روزی کے خوف بچوں کےقتل ، زنا، ناحق خون، یتیم کا مال کھانے اور اس قسم کے دیگر کبائر کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے
    :

    "كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيٍّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا".ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک مکروہ[ کاپسندیدہ] ہے۔
    غور کریں اس آیت میں متعدد کبیرہ گناہوں کے شمار کے بعد تمام کو لفظ "مکروہ" سے تعبیر کیا ہے۔
    حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

    إن الله كره لكم ثلاثا قيل وقال وإضاعة المال وكثرة السؤال.
    صحيح البخاري: 1477 الزكاة، صحيح مسلم (1/158 منة المنعم).

    اللہ تعالی تمھارے لئے تین کام مکروہ قرار دیتا [ناپسند کرتا ]ہے ،1- قیل وقال کو ، 2- مال ضائع کرنے کو، 3- بہت زیادہ سوال کرنے کو۔
    اس حدیث میں بھی مکروہ کا معنی حرام ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں جو اس روایت کے فورا بعد ہے اسمیں "کرہ" کی جگہ "حرم" کا لفظ ہے، نیز شارحین حدیث نے بھی اس حدیث میں وارد لفظ کرہ کا معنی حرام ہی کیا ہے۔


    سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • اعلی اعلی x 2
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,485
    جزاک اللہ خیرا۔
     
  3. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    واياك
     
  4. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,323
    جزاک اللہ خیرا وبارک اللہ فیک
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں