خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دشمنوں کے بارے میں اہل بیت کا موقف

بابر تنویر نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏فروری 7, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دشمنوں کے بارے میں اہل بیت کا موقف

    شیعہ مصنف علم الہدی نے اپنی حدیث کی کتاب ’’الشافی‘‘ میں اس روایت کو نقل کیا ہے ’’علی علیہ السلام نے اپنے خطبہ میں کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے بہترین افراد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اور بعض روایات میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ دیا۔ خطبہ ختم ہوا تو ایک آدمی ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے بلایا اور گواہی پوری کرنے کے بعد اُسے سزا دی۔‘‘ 1’’کتاب الشافی‘‘ لعلم الہدی، خلاصہ کے ساتھ چھپی ہوئی ص ۴۲۸۔

    یہ حال تھا امیر المومنین، خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکر صدیق اور عبقری اسلام، محسن امت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت و تعلق کا۔ آپ رضی اللہ عنہ انہیں بے حد پسند کرتے تھے اور ان کے مخالفین کے بارے میں آپ کا موقف بھی آپ نے دیکھ لیا۔ اسی لیے خود ان کی اپنی روایت کے مطابق جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگ بیعت کرچکے اور ان پر متفق ہوچکے تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آکر آپ کو خلافت کے لیے ابھارنے لگے۔ آپ نے ان کے جواب میں کہا: ابوسفیان! تیرا ستیاناس یہ بھی تیری ایک چال ہے۔ تو جاہلیت میں بھی ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتا رہا ہے۔‘‘ 2’’کتاب الشافی‘‘ لعلم الہدی، خلاصہ کے ساتھ چھپی ہوئی ص ۴۲۸۔
    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے آپ رضی اللہ عنہ کو اس قدر تعلق تھا کہ آپ نے اپنے دونوں بیٹوں کو ان کے دفاع کے لیے بھیج دیا تھا بلکہ خود بھی مفسدین سے آپ رضی اللہ عنہ کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ تفصیل گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
    آپ کے چچا زاد بھائی اور آپ کے شاگرد، جن کا علم آپ کے علم پر مبنی ہے، خود کہتے
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ہیں کہ’’علی رضی اللہ عنہ نے مجھے سکھایا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کا علم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ تھا… علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کیا اور میرا علم علی رضی اللہ عنہ کے علم سے ماخوذ ہے۔‘‘ 1؎ ’’الامالی‘‘ للطوسی ج ۱ ص ۱۱ ط نجف۔
    آپ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی بے حد تعریف کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کے مخالفین کے بارے میں کہتے ہیں ’’خدا کا غضب ٹوٹے اس پر جوان کی شان گھٹائے اور ان پر طعن کرے۔2 ’’ناسخ التواریخ‘‘ للمرزہ محمد تقی لسان الملک، ج ۵ ص ۱۴۳، ’’مروج الذہب‘‘ از مسعودی، ج ۳ ص ۶۰۔
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بے حد تعریف کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کے مخالفین کے بارے میں کہتے ہیں ’’جو آپ رضی اللہ عنہ کی شان میں کمی کرے، قیامت تک اس پر خدا کی لعنت برستی رہے۔‘‘3 ’’ناسخ التواریخ‘‘ للمرزہ محمد تقی لسان الملک، ج ۵ ص ۱۴۳، ’’مروج الذہب‘‘ از مسعودی، ج ۳ ص ۶۰۔
    حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی صفاتِ حمیدہ اور حسن اخلاق کا ذکر کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کے مخالفین کے بارے میں کہتے ہیں ’’جو اُن پر لعنت کرے، خدا اس پر سب لعنت کرنے والوں کی لعنت کو لوٹا دے۔‘‘ 4 ’’ناسخ التواریخ‘‘ للمرزہ محمد تقی لسان الملک، ج ۵ ص ۱۴۳، ’’مروج الذہب‘‘ از مسعودی، ج ۳ ص ۶۰۔
    حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے اور آپ رضی اللہ عنہ کے ہم نام علی بن حسین رضی اللہ عنہ … حضرات شیعہ کے نزدیک چوتھے امام معصوم بھی اپنے بزرگوں کی سنت پرچلتے ہوئے ہر اس آدمی سے لڑتے ہیں، جو آپ حضرات کے خلاف کچھ کہے۔ جو آپ سے دشمنی کرے آپ بھی اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ آپ ایسے آدمی کو جو اُن پر تنقید کرے یا بُرا بھلا کہے، نکال باہر کیا کرتے تھے۔
    شیعہ مصنف اربلی نے روایت کی ہے کہ اہلِ عراق کی ایک جماعت آپ کے پاس آئی، اس نے ابوبکر، عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں کچھ ناروا الفاظ کہے:
    جب وہ اپنی بات کرچکے تو آپ نے ان سے کہا، مجھے بتاؤ کیا تم وہ ہو:
    { اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ، اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ }
    ’’سب سے پہلے ہجرت کرنے والے، وہ جو اپنے گھروں اور مالوں میں سے نکالے گئے، جو خدا کے فضل اور رضا کو چاہتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے تھے، وہی سچے ہیں۔‘‘
    وہ کہنے لگے: نہیں، آپ نے پوچھا تو پھر وہ ہو:
    { اَلَّذِیْنَ تَبَوَّ وُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ }
    ’’وہ جنہوں نے ایمان اور رہائش کو ان سے پہلے ہی استحکام بخشا۔ جو اسے پسند کرتے ہیں، جو ان کی طرف ہجرت کرے اور نہیں پاتے اپنے دلوں میں جو کچھ اُنہیں دیا گیا ہے اس کی ضرورت، اور ایثار کرتے ہیں دوسروں کے لیے، اگرچہ خود ضرورت مند ہوں۔‘‘
    وہ کہنے لگے: نہیں، آپ نے کہا، تم نے انکار کیا ہے کہ تم ان دونوں جماعتوں میں سے نہیں ہو۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں ہو، جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
    { وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا… الخ }
    ’’اور وہ جو اُن کے بعد آئے کہتے ہیں، اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، ہمارے دل میں کوئی کجی نہ پیدا کر) میرے پاس سے اٹھ جاؤ، خدا تمہیں تباہ کرے۔‘‘ 1’’!کشف الغمۃ‘‘ از اربلی ج ۲ ص ۷۸۔
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    آپ کے بیٹے زید بھی آپ ہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ جی ہاں! وہ زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم جن کی تعریف میں ان لوگوں نے بے حد مبالغہ آرائی کی، زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ آپ بھی اپنے والد علی بن حسین اور اپنے دادا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلے، جنہوں نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ ’’میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے خلاف کچھ نہ کہو۔‘‘ 1’’عیون اخبار الرضا‘‘ للقمی ج ۲ ص ۷۸۔
    شیعہ حضرات بیان کرتے ہیں کہ جب زید نکلے تو آپ کے ساتھیوں نے آپ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا، آپ نے کہا:
    ’’میں ان کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں کہتا اور نہ ہی میں نے اپنے گھرانے میں سے کسی کو سوائے خیر کے اور کچھ کہتے سنا ہے۔ یہ سن کر لوگ کہنے لگے، آپ ہمارے ساتھی نہیں۔ آپ سے جدا ہوگئے، الگ ہوگئے، آپ نے کہا: ’’رفضونا الیوم‘‘ آج انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا، آج کے دن سے وہ رافضی کہلائیں گے۔‘‘ 2
    ----------------------------------------------------------------------------------------------------------
    ’ناسخ التواریخ‘‘ ج ۳ ص ۵۹۰ زیر عنوان زین العابدین کے اقوال ’’عمدۃ الطالب‘‘ زیر عنوان زید بن علی کی احادیث۔
    ----------------------------------------------------------------------------------------------------------
    اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان پر کیا اس کے بعد بھی علی رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد کے بارے میں سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ اور ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے ہوں گے؟ یہ حضرات تو ان کی بیعت کرچکے ہیں، ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتے رہے ہیں۔ ان سے رشتہ داریاں قائم کیں۔ ان حضرات نے اُن کے خلاف کبھی جنگ و جدال نہیں کیا اور نہ ہی انہیں، اور نہ ان کے ساتھ جہاد و قتال کرنے والے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی کافر کہا۔
    ’’نہج البلاغۃ‘‘ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ جگہ جگہ آپ کو ملے گا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو گالی
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    گلوچ، تکفیر و تفسیق سے منع کر رہے ہیں، حتیٰ کہ آپ اپنے ساتھ لڑنے والوں اور جنگِ صفین میں شرکت کرنے والوں کو بھی بُرا بھلا کہنے سے روک رہے ہیں۔ ایک خطبہ کا عنوان ہے ’’علی علیہ السلام کا وہ کلام، جب آپ نے سنا کہ کچھ لوگ اہل شام اور جنگ صفین میں لڑنے والوں کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں‘‘ اس کے ضمن میں لکھتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
    ’’میں سخت ناپسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں بکنے والے بنو، البتہ اگر اپنے اعمال اور اُن کے حال کا ذکر کرو تو یہ زیادہ صحیح ہے۔ زیادہ معقول عذر ہے۔ گالیاں بکنے کے بجائے یوں کہو: اے اللہ! ہمارے اور ان کے خونوں کو محفوظ رکھ، ہمارے اور ان کے درمیان صلح و آشتی پیدا فرما دے۔ انہیں گمراہی سے ہدایت کی طرف پھیر دے تاکہ وہ حق جان سکیں جس سے وہ ناواقف ہیں۔ انہیں کجی اور دشمنی سے بچا۔‘‘ 1 ’’نہج البلاغۃ‘‘ تحقیق صبحی صالح۔

    اسی طرح شیعہ مصنف دینوری نے بھی ذکر کیا ہے اور واضح طور پر لکھا ہے کہ گالیاں بکنے والے وہ حضرات تھے جنہوں نے امام مظلوم حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ اس نے یہ بھی صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ حضرات معاویہ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں پر بھی لعن طعن کیا کرتے تھے، علی رضی اللہ عنہ اور ان لوگوں کے درمیان سوال و جواب ہوتے ہیں۔
    اس نے پورا واقعہ ذکر کیا ہے، لکھتا ہے:
    ’’علی رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ حجر بن عدی اور عمرو بن الحمق دونوں معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو برا بھلا کہتے اور لعن طعن کرتے ہیں۔ آپ نے ان کی طرف دو آدمیوں کو بھیجا کہ جو کچھ تمہارے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے اس سے باز آجاؤ۔ دونوں آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے:
    ’’اے امیر المومنین کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ آپ نے کہا: ہاں! ربِ کعبہ کی قسم، وہ کہنے لگے: تو پھر آپ ہمیں ان پر لعن طعن کرنے سے کیوں روکتے ہیں؟‘‘
    آپ نے کہا: میں ناپسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں بکنے والے اور لعنت بھیجنے والے بنو، البتہ یوں کہو: اے اللہ ہمارے اور ان کے خونوں کو محفوظ رکھ اور ہمارے اور ان کے درمیان صلح
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    کرادے۔ 1’’الاخبار الطول‘‘ از ابوحنیفہ دینوری، ص ۱۶۵ زیر عنوان جنگ صفین، مطبوعہ قاہرہ۔
    دیکھ لیجیے! خود علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قطعاً پسند نہیں کرتے کہ اہل شام کو بھی برا بھلا کہا جائے، آپ رضی اللہ عنہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے لڑنے کو سخت ناپسند کر رہے ہیں، لوگوں کو اس سے روک رہے ہیں تو کیا آپ سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر، مدینہ والوں پر لعن طعن کو پسند کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں، عزیزوں اور دامادوں کو گالیاں بکنا آپ پسند کریں گے؟
    آپ ان کے ساتھ جنگ کرنے کے باوجود ان کے ایمان و اسلام کو تسلیم کرتے ہیں۔ آپ ان سے لڑتے بھی ہیں لیکن واضح طور پر کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہرگز کافر اور مرتد نہیں۔ دین و اسلام سے خارج نہیں۔
    یہی بات جعفر نے اپنے والد سے روایت کی ہے، کہتے ہیں ’’علی علیہ السلام اپنے ساتھ جنگ کرنے والوں کو کہا کرتے تھے کہ ہم اُن سے اس لیے نہیں لڑتے کہ وہ کافر ہیں۔ بلکہ ہماری رائے یہ ہے کہ ہم حق پر ہیں اور ان کی رائے یہ ہے کہ وہ حق پر ہیں۔‘‘ 2’’قرب الاسناد‘‘ للحمیری ص ۴۵ مطبوعہ: مکتبہ نینوی طہران
    آپ اپنے ساتھیوں اور مخالفوں کے سامنے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
    ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اس وقت ہمارے باپ اور بیٹے مارے جاتے تھے، ہمارے عزیز اور بھائی مارے جاتے تھے، لیکن ہر مصیبت و تکلیف کے بعد ہمارے ایمان میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ ہم حق پر ڈٹے رہتے تھے، حکم کو تسلیم کرتے تھے، مشکلات پر صبر کرتے تھے لیکن اب ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے لڑ رہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ہم میں کجی، شبہ اور تاویل کی (عادت) پیدا ہوچکی ہے۔‘‘ 3 ’’نہج البلاغۃ‘‘ تحقیق صبحی صالح ص ۱۷۹۔
    اس سے بھی زیادہ واضح لفظوں میں کہتے ہیں:
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ’’اے خدا کے بندو! میں تمہیں تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ وہ سب سے بہتر نصیحت ہے جو بندوں کو کی جاتی ہے، اس سے بالآخر خدا کے ہاں بہتری و بھلائی نصیب ہوگی، تمہارے اور اہلِ قبلہ کے درمیان جنگ کا دروازہ کھل چکا ہے۔‘‘ 1 ’’نہج البلاغۃ‘‘ تحقیق صبحی صالح ص۔ ۲۴۸۔

    اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ ان حضرات کو اللہ پر ایمان اور تصدیق رسالت میں اپنے برابر سمجھتے ہیں، آپ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خون سے اپنی براء ت کا اعلان کرتے ہیں، جنگ صفین کے واقعات بتاتے ہوئے شہروں کی طرف یہ لکھ کر بھیجتے ہیں کہ:
    جب ہم اور اہلِ شام ملے تو ہماری بات یوں شروع ہوئی کہ:
    ’’ظاہر ہے ہمارا سب کا رب ایک ہے، نبی ایک ہے، ہماری دعوتِ اسلام ایک ہے۔ نہ ایمان اور تصدیق رسالت میں ہم ان سے زیادہ ہیں۔ نہ وہ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی بات ہے جس میں ہمارا اختلاف ہے، اور وہ ہے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے متعلق ہم لوگ اس سے بری ہیں۔2
    -------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    پتہ نہیں اہل بیت کی محبت اور ان کے مذہب کی اتباع کے دعویٰ کے باوجود مجلسی نے یہ کہنے کی جرأت کیسے کی؟ کہ امیر المومنین علی اس کے قتل کو مباح سمجھتے تھے اور اس پر کوئی جرمانہ نہیں سمجھتے تھے، جبکہ آپ کا یہ قول موجود ہے؟ بلکہ اس سے بھی زیادہ نہج البلاغۃ ان کے پہلے امام معصوم، جن کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی نہیں کرسکتے، آپ کے اقوال سے بھری پڑی ہے، جن میں آپ رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے قتل سے اپنے آپ کو بری کیا ہے۔ جو بھی نہج البلاغۃ کا مطالعہ کرے، اسے پڑھے، وہ اس بات کی گواہی دے گا۔ مگر ان لوگوں کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے؟ حسد کے مارے ان لوگوں کے دل مردہ اور ان کی آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں { مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ}
    ------------------------------------------------------------------------------------------------------------

    چنانچہ ہم نے کہا: آؤ… الخ۔‘‘ 3 ’’نہج البلاغۃ‘‘ تحقیق صبحی صالح ص ۴۴۸۔
    دیکھیے کہ علی رضی اللہ عنہ کس قدر انصاف پسند اور عادل ہیں؟ اور ذرا ان لوگوں کو دیکھیے کہ کس قدر اپنے قول و عمل میں عدل و انصاف سے ہٹے ہوئے اور حق سے دور ہیں؟
    یہ ہے علی رضی اللہ عنہ کا موقف اپنے سب سے بڑے دشمنوں کے متعلق، تو اُن کے بارے
    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    میں آپ رضی اللہ عنہ کا اور آپ کے گھرانے کا موقف کیا ہوسکتا ہے جو آپ کو سب سے زیادہ عزیز تھے۔ رسول اللہ رضی اللہ عنہ کے خلیفہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے، جو اہل بیت سے محبت کرنے والے تھے۔ اہل بیت نے بھی ان کی محبت کے جواب میں ان سے دوگنی محبت کا ثبوت دیا، اسی طرح امہات المومنین کے بارے میں بھی آپ کے موقف کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو تمام اہل بیت کی مائیں تھیں۔
    اس بات پر ہم یہ باب ختم کرتے ہیں کہ کیا علیb رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے گھر والے مومن تھے یا نہیں؟
    اگر مومن تھے، اور کوئی شک نہیں کہ مومن تھے، تو وہ اللہ کے اس ارشاد میں داخل ہیں:
    { اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھَاتُھُمْ }
    (الاحزاب:۶)
    ’’اللہ کا نبی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے حق میں ان کی جانوں سے بھی قریب تر ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔‘‘
    اس لیے حضرت صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا قرآن کی رو سے، خالق کائنات کے حکم کے مطابق آپ کی اور سب اہل بیت کی مائیں ہوئیں۔
    اب ذرا سوچیے! کہ کوئی آدمی جو اہل بیت سے محبت کا دعویدار ہو، اہل بیت کی ماں کو گالیاں بکے گا؟
    کیا یہ لوگ نہیں کہتے کہ ہم اہل بیت کے پیرو، ان سے محبت کرنے والے اور ان کی اطاعت کرنے والے ہیں؟ کیا یہ لوگ اس کے علاوہ اور کچھ کہتے ہیں؟
    کوئی شریف و معزز آدمی خود کو دی جانے والی گالی تو برداشت کر سکتا ہے، لیکن یہ کوئی نہیں برداشت کرسکتا کہ اس کی ماں کے بارے میں کوئی بُری بات کہی جائے۔
    یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے پورے گھرانے کی ماں کو گالیاں بکتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا عمل کر رہے ہیں؟
    یہ ہے شیعہ حضرات کا مؤقف تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں بالخصوص خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے مخالفین کے بارے میں اہل بیت کا مؤقف بھی ہم بیان کرچکے ہیں۔ یہ بھی ہم بیان کرچکے ہیں کہ اہل بیت آپ کے مخالفین کے بارے میں کیا موقف رکھتے تھے۔ یہ حضرات درحقیقت سراسر اہل بیت کے مخالف ہیں۔ منافقت کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرتے ہیں، لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔
    چنانچہ ثابت ہوگیا کہ شیعہ حضرات اہل بیت سے محبت رکھنے والے اور آپ کی پیروی کرنے والے ہرگز نہیں، بلکہ اہلِ بیت کے مخالف اور دشمن ہیں۔ بس اس باب میں اسی چیز کو ہم ثابت کرنا چاہتے تھے، نیز ہم نے خود ان حضرات کی اپنی کتابوں سے اور ان کے اپنے الفاظ سے ثابت کردیا۔ تاکہ وہ حضرات جو حقیقت نہیں سمجھتے تھے، اب سمجھ جائیں اور سیدھے راستے پر چل نکلیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    اللہ تعالی ہمارا حشر ابو بکر صدیق، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنھم کے ساتھ کرے۔
    ان کے دشمنوں‌پر سب کی لعنت ہو۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا وبارک فیک۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    آمین۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں