امجد اسلام امجد

المسافر نے 'کلامِ سُخن وَر' میں ‏اپریل 20, 2007 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. المسافر

    المسافر --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اپریل 10, 2007
    پیغامات:
    6,261
    تمہارا نام کچھہ ایسے میرے ہونٹوں پہ کِھلتا ہے
    اندھیری رات میں جیسے
    اچانک چاند بادل کے کسی کونے سے باہر جھانکتا ہے
    اور سارے منظروں میں روشنی سی پھیل جاتی ہے
    کلی جیسے، لرزتی اوس کے قطرے پہن کر مُسکراتی ہے
    بدلتی رُت، کسی مانوس سی ڈالی کی آہٹ لے کے چلتی ہے
    تو خوشبو باغ کی دیوار سے روکے نہیں رُکتی
    اسی خوشبو کے دھاگے سے میرا ہر چاک سلتا ہے
    تمہارے نام کا تارا میری سانسوں میں کِھلتا ہے
    تمہیں میں دیکھتا ہوں جب سفر کی شام سے پہلے
    !کسی اُلجھی ہوئی گُمنام سی چِنتا کے جادو میں
    !کسی سوچے ہوئے بے نام سے لمحے کی خوشبو میں
    !کسی موسم کے دامن میں، کسی خواہش کے پہلو میں
    تو اس خوش رنگ منظر میں تمہاری یاد کا رشتہ
    نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے
    اور ایسے میری ہر راہ کے ہم راہ چلتا ہے
    کہ آنکھوں میں ستاروں کی گزرگاہیں سی بنتی ہیں
    دھنک کی کہکشائیں سی
    تمہارے نام کے ان خوشنما حرفوں میں ڈھلتی ہیں
    کہ جن کے لمس سے ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہیں
    تمہارے خواب کا رشتہ میری نیندوں سے ملتا ہے
    تو دل آباد ہوتا ہے
    میرا ہر چاک سلتا ہے
    تمہارے نام کا تارا میری راتوں میں کِھلتا ہے
     
  2. المسافر

    المسافر --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اپریل 10, 2007
    پیغامات:
    6,261
    چاند کبھي تو تاروں کي اس بھيڑ سے نکلے

    اور مري کھڑکي ميں آئے

    بالکل تنہا اور اکيلا

    ميں اس کو باہوں ميں بھرلوں

    ايک ہي سانس سب کي سب وہ باتيں کرلوں

    جو ميرے تالو سے چمٹي

    دل ميں سمٹي رہتي ہيں

    سب کچھ ايسے ہي ہوجائے جب ہے نا

    چاند مري کھڑکي ميں آئے، تب ہے نا
     
  3. اویس رانا

    اویس رانا -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 21, 2007
    پیغامات:
    656
    بہت خوب جناب!:00001:
     
  4. naseerhaider

    naseerhaider -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2007
    پیغامات:
    408
    کیابات ہے
     
  5. naseerhaider

    naseerhaider -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2007
    پیغامات:
    408
    ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
    دیوار پر لِكھی ہُوئی تحریر جو بھی تھی

    ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
    مِل جُل كے اپنی قوم كی تصویر جو بھی تھی

    جو سامنے ہے، سب ہے یہ، اپنے كئے كا پھل
    تقدیر كی تو چھوڑئیے، تقدیر جو بھی تھی

    آیا اور اِك نگاہ میں برباد كر گیا
    ہم اہلِ انتظار كی جاگیر جو بھی تھی

    قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
    ملبے كے مول بِك گئی، تعمیر جو بھی تھی

    طالب ہیں تیرے رحم كے ہم عَدل كے نہیں
    جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی

    ہاتھوں پہ كوئی زخم نہ پیروں پہ كُچھ نشاں
    سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی

    یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
    عبرت كا ایك درس تھی، تحریر جو بھی تھی

    امجد ہماری بات وہ سُنتا تو ایك بار
    آنكھوں سے اُس كو چُومتے، تعزیر جو بھی تھی
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں