اقبال اقبال ، وفات سے چندلمحات پہلے۔۔۔

اہل الحدیث نے 'مجلسِ اقبال' میں ‏نومبر 8, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:

    "آخری رات ان کی چارپائی گول کمرے میں بچھی تھی۔ عقیدت مندوں کا جمگھٹا تھا۔ میں کوئی نو بجے کے قریب اس کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا کون ہے؟‘‘میں نے جواب دیا’’میں جاوید ہوں۔‘‘ہنس پڑے اور بولے ’’جاوید بن کر دکھائو تو جانیں!‘‘پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہوئے ’’چودھری صاحب!اسے جاوید نامہ کے آخیر میں وہ دعا ’’خطاب بہ جاوید ‘‘ضرور پڑھوادیجیے گا۔‘‘

    اس رات ہمارے ہاں بہت سے ڈاکٹر آئے ہوئے تھے۔ ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ آج کی رات مشکل سے کٹے گی۔ کوٹھی کے صحن میں کئی جگہوں پر، دودو تین تین کی ٹولیوں میں، لوگ کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اباجان سے ڈاکٹروں کی یہ رائے مخفی رکھی گئی۔ مگر وہ بڑے تیز فہم تھے۔ انھیںاپنے احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر یقین ہوگیا تھا کہ بساط عنقریب الٹنے والی ہے۔ اس کے باوجود وہ اس رات معمول سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔

    مجھے بھی حالات سے آگاہ نہ کیا گیا اس لیے میں معمول کے مطابق اپنے کمرے میں جاکر سو رہا۔ مگر صبح طلوع آفتاب سے پیشتر مجھے علی بخش نے آکر جھنجھوڑا اور چیختے ہوئے کہا:’’جائو دیکھو !تمہارے ابا جان کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘

    نیند اچانک میری آنکھوں سے کافور ہوگئی۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ گھر کے مختلف حصوں سے کراہنے اور سسکیاں بھرنے کی بھنچی ہوئی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ میں اپنے بستر سے اس خیال سے نکلا کہ جا کر دیکھوں تو سہی کہ انھیں کیا ہو گیا ہے۔ جب میں اپنے کمرے سے گزرتا ہوا ملحقہ کمرے میں پہنچا تو منیرہ تخت پر اکیلی بیٹھی، اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپائے رو رہی تھی۔ مجھے ابا جان کے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ کر وہ میری طرف لپکی اور میرے بازو سے چمٹ گئی۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ میرے ساتھ چل رہی تھی۔ ہم دونوں ان کے کمرے کے دروازے تک پہنچ کر رک سے گئے۔ میں نے دہلیز پر کھڑے کھڑے اندرجھانکا۔ ان کے کمرے میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ چارپائی پر سیدھے لیٹے تھے۔ انھیں گردن تک سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی۔ اباجان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلے کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے،اور سر کے بالوںکے کناروں پر میرے کہنے سے آخری بارلگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔

    منیرہ کی ٹانگیں دہشت سے کانپ رہی تھیں۔ اس نے میرے بازو کو بہت زور سے پکڑ رکھا تھا اور مجھے اس کی سسکیوںکی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مگر میں کوشش کے باوجود بھی نہ روسکتا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ اگر میں رودیا تو وہ ابھی اٹھ کھڑے ہوں گے، اپنی انگلی کے اشارے سے ہم سے قریب آنے کو کہیں گے۔ اور جب ہم ان کے قریب پہنچ جائیں گے تووہ اپنے ایک پہلو میںمجھے اور دوسرے میں منیرہ کو بٹھا لیں گے، پھر اپنے دونوں ہاتھ پیار سے ہمارے کندھوں پر رکھ کر قدرے کرختگی سے مجھ سے کہیں گے’’تمہیں یوں نہ رونا چاہیے۔ یاد رکھو تم مرد ہو، اور مرد کبھی نہیں رویا کرتے!‘‘
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں