قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے :

محمد عامر یونس نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏اپریل 11, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد عامر یونس

    محمد عامر یونس محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 3, 2014
    پیغامات:
    899
    [​IMG]
    قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے !!!

    الحمدللہ :

    فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا :

    قبروں پر تعمیرات قائم کرنا حرام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس طرح قبر میں دفن اشخاص کی تعظیم ہوتی ہے، اور اسی طرح یہ عمل غیر اللہ کی عبادت یعنی قبروں کی پوجا کا بھی ذریعہ ہے ، جیسے کہ یہ بات قبروں پر بنائی گئی بہت سی تعمیرات میں ہو رہا ہے، کہ لوگ ان قبروں میں مدفون لوگوں کو اللہ کے برابر شریک بنانے لگے ہیں، اور ان سے اپنی حاجت روائی طلب کرتے ہیں ۔

    حالانکہ قبروں میں مدفون لوگوں سے دعا مانگنا، اپنی مشکل کشائی کیلئے ان سے مدد طلب کرنا، شرک اکبر ہے، اور اسلام سے مرتد ہونے کا موجب ہے۔ اللہ ہی ہماری مدد فر مائے" انتہی

    قبروں پر قبے اور گنبد اور مزار تعمير كرنا ممنوع ہے، اور يہ قبروں كى تعظيم اور شرك كا ذريعہ ہيں اور اسى طرح تقريبا ايك بالشت سے قبر اونچى كرنا بھى ممنوع ہے.

    شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:


    " اور قبروں پر قبے اور گنبد اور مزار بنانا بھى اس حديث ( مندرجہ بالا حديث ) كے تحت بالاولى شامل ہوتے ہيں، اور قبروں كو مساجد بنانا بھى يہى ہے، اور ايسا كرنے والے پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے ....

    قبروں كو پكا كرنا اور انہيں اچھى اور بناسنوار كر تعمير كرنے سے كتنى ہى خرابياں پيدا ہو چكى ہيں اور سرايت كر چكى ہيں جس سے آج اسلام رو رہا ہے؛ ان خرابيوں ميں جاہل قسم كے افراد كا وہى اعتقاد ہے جو كفار اپنے بتوں سے ركھتے ہيں، اور يہ اتنى عظمت اختيار كر گيا ہے كہ لوگ يہ گمان كرنے لگے ہيں كہ يہ قبر نفع دينے اور نقصان دور كرنے پر قادر ہے، تو اس طرح انہوں نے ان قبروں كو اپنى حاجات و ضروريات پورى كرنے اور نجات و كاميابى اور مطلب پورے ہونے كى جگہ بنا ليا ہے، اور وہاں سے وہ كچھ مانگنے لگے ہيں جو انہيں اپنے رب اور پروردگار سے مانگنا چاہيے، اور ان قبروں كى طرف سفر كر كے جانے لگے ہيں، اور انہيں تبركا چھو كر اس سے مدد مانگتے ہيں؛ اجمالى طور پر يہ كہ انہوں نے كوئى ايسا كام نہيں چھوڑا جو جاہليت ميں بتوں كے ساتھ نہ ہوتا ہو آج يہ بھى اس پر عمل پيرا ہيں، انا للہ و انا اليہ راجعون!!

    اس شنيع اور قبيح برائى اور فظيع كفر كے باوجود ہم كوئى ايسا شخص نہيں پاتے جو اللہ كے ليے غصہ ركھے اور دين حنيف كى حميت ميں غيرت كھائے، نہ تو كوئى عالم دين، اور نہ ہى كوئى طالب علم، اور نہ ہى كوئى افسر اور حكمران اور نہ ہى كوئى وزير و مشير اور نہ ہى كوئى بادشاہ ؟!!

    ہميں بہت سى ايسى خبريں ملى ہيں جن ميں كوئى شك وشبہ كى گنجائش ہى نہيں كہ بہت سے قبر پرست لوگ يا پھر ان ميں سے اكثر كو جب اپنے مخالف كى جانب سے قسم اٹھانے كا كہا جائے تو وہ جھوٹى قسم اٹھا ليتے ہيں، ليكن جب اس كے بعد انہيں يہ كہا جائے كہ تم اپنے پير اور اعتقاد، يا فلاں ولى كى قسم اٹھاؤ تو وہ ہكلانا شروع كر ديتا ہے، اور ليت و لعل سے كام ليتا اور انكار كرتا ہوا حق كا اعتراف كر ليتا ہے؟!!

    يہ ان كے شرك كى سب سے بڑى اور واضح دليل ہے كہ ان كا شرك تو ان لوگوں سے بھى بڑھ چكا ہے جو اللہ تعالى كو دو ميں دوسرا، يا پھر تين ميں تيسرا مانتے ہيں؛ تو اے علماء دين، اور اے مسلمان حكمرانو اسلام كے ليے كفر سے زيادہ بڑى مصيبت اور كيا ہے، اور اس دين اسلام كے ليے غير اللہ كى عبادت سے زيادہ كونسى آزمائش و ابتلاء ہے، اور مسلمانوں كو كونسى ايسى مصيبت پہنچى ہے جو اس مصيبت كے برابر ہو، اور كونسى ايسى برائى ہے جس كا انكار واجب ہو اگر اس واضح اور واجب شرك كا انكار كرنا واجب نہيں ؟:

    اگر تم كسى زندہ كو آواز دو تو تم اسے سنا سكتے ہو، ليكن جسے تم پكار ر ہے اس ميں تو زندگى كى رمق ہى نہيں.

    اور اگر كسى آگ ميں پھونك مارو تو روشنى بھى ہو، ليكن تم تو راكھ ميں پھونكيں مار رہے ہو"
    انتہى.ماخوذ از: نيل الاوطار ( 4 / 83 - 84 ).

    اس سے آپ كو يہ معلوم ہو گيا ہوگا كہ آپ نے جو سنگ مرمر اكھاڑے اور منہدم كيے ہيں اور قبر كا اوپر والا حصہ گرايا ہے ايك اچھا عمل تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے موافق بھى ہے جس كا آپ نے حكم بھى ديا تھا، اور اس ميں قبر يا قبر والے كى اہانت و توہين نہيں، بلكہ اس ميں قبر اور قبر والے كى عزت و اكرام ہے كہ وہ سنت كے مطابق ہو.

    آپ نے جو يہ بيان كيا ہے كہ جو كچھ آپ نے كيا ہے اس پر آپ كو بڑے اور بوڑھے لعنت ملامت كرنے لگے ہيں تو يہ ان كى زيادتى اور آپ پر ظلم ہے آپ اس پر صبر كريں كيونكہ آپ نے ايك اطاعت و فرمانبردارى كا كام كيا ہے، اور پھر جو كوئى بھى لوگوں كو نيكى اور بھلائى كا حكم ديتا ہے يا پھر انہيں برائى سے منع كرتا ہے اس كے ساتھ يہى كچھ ہوتا ہے.

    سورۃ لقمان ميں لقمان كى وصيت ميں اللہ تعالى نے ہميں يہ بيان كيا ہے كہ:

    ﴿ اے ميرے بيٹے نماز كى پابندى كرتے رہنا، اور نيكى و بھلائى كا حكم ديتے رہو، اور برائى سے روكتے رہو، اور جو كچھ تجھے پہنچے اس پر صبر كرو، يقينا يہ پرعزم اور تاكيدى امور ميں سے ہے ﴾
    لقمان ( 17 ).


    ليكن اس ميں عظيم خرابى پيدا نہ ہونے كا خيال ركھنا ضرورى ہے؛ كيونكہ برائى كو روكنے كى شرط ميں يہ شامل ہے كہ اسے روكنے سے اس سے بھى بڑى برائى اور خرابى پيدا نہ ہوتى ہو.

    اسى ليے جب كسى انسان كے گمان ميں يہ غالب ہو كہ اگر اس نے قبر كو منہدم كر كے برابر كر ديا تو اس سے اس كے علاقے يا اس كى قوم ميں فتنہ و فساد بپا ہو جائيگا، يا پھر اسے اس كى بنا پر جيل جانا پڑيگا يا پھر اسے زدكوب كيا جائيگا، تو پھر اس حالت ميں اسے خاموشى اختيار كر لينى چاہيے، اور جب خرابى بڑھ جائے يا پھر اس كے بھائى يا كسى قريبى عزيز كو گزند پہنچنے كا خدشہ ہو تو پھر برائى ہاتھ سے روكنا حرام بھى ہو سكتا ہے.

    واللہ اعلم .

    الاسلام سوال و جواب


    http://islamqa.info/ur/83133
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. x boy

    x boy رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اپریل 8, 2015
    پیغامات:
    42
    بہت شکریہ
    تجدید ہوگیا الحمد اللہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں